ظالم سماجی میڈیا ۔۔۔ از ۔۔۔ محمد احمدؔ

محمداحمد

لائبریرین
ظالم سماجی میڈیا
محمد احمد

ہم ازل سے سُنتے آ رہے ہیں کہ سماج ہمیشہ ظالم ہوتا ہے اور سماج کے رسم و رواج زیادہ نہیں تو کم از کم دو محبت کرنے والوں کو جکڑ لیا کرتے ہیں۔ شکر ہے کہ ہم اکیلے ان کی مطلوبہ تعداد کو کبھی نہیں پہنچے سو حضرتِ سماج جکڑالوی سے بچے رہے ۔ تاہم جانے انجانے میں ہم سماجی میڈیا کے شکنجے میں کَس لئے گئے اور :


اتنے ہوئے قریب کہ ہم دور ہوگئے

عموماً سوشل میڈیا کا بھیڑیا اُن بکری نما انسانوں پر حملہ کرتا ہے کہ جو اپنے ریوڑ سے الگ ہٹ کر ادھر اُدھر گھاس چر رہے ہوتے ہیں یا واقعی گھاس کھا گئے ہوتے ہیں۔ یعنی آپ کی سوشل لائف ناپید یا محدود ہے تو آپ سوشل میڈیا کے لئے تر نوالہ ہیں بلکہ مائونیز اور مکھن میں ڈوبے حیواناتی یا نباتاتی پارچہ جات میں سے ایک ہیں۔ ہم بھی اپنی مصروفیات ، کاہلی اور کم آمیزی کے باعث اس بھیڑیے کے خونی اور جنونی جبڑوں میں پھنس گئے۔ جبڑوں میں پھنسنے کا ایک فائدہ ہمیں اور ایک بھیڑیے کو ہوا۔ ہمیں تو یہ فائدہ پہنچا کہ بھیڑیا ہمیں نگل نہیں سکا اور بھیڑیا اسی پر خوش رہا کہ ہم بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ یعنی اس سماجی بھیڑیے کے جبڑوں میں پھنسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ :

شامل ہیں اِک ادائے کنارہ کشی سے ہم

لیکن نہ تو کنارہ چلتا ہے اور نہ ناؤ۔ اور لگتا کہ ہےکہ بات چل چلاؤ تک پہنچ کر ہی دم لے گی۔اور ہم نہیں چاہتےکہ بات چل نکلے اور کہیں اور پہنچنے ،پہنچانے کی سعی کرے۔

سوشل میڈیا کے سب سے زیادہ قتیل ہمیں فیس بک پر چہرے پر چہرہ چڑھائے نظر آتے ہیں۔ چہرے پر چہرہ چڑھانے سے مراد یہ بھی لی جا سکتی ہے کہ لوگ کتاب چہرے کے چہرے پر اپنا چہرہ چڑھا کر اپنے احباب کو سوشل میڈیا تک محدود رہنے کی دھمکی دیا کرتے ہیں۔یا پھر وہی بات کہ جو سوشل میڈیا سے پہلے بھی گاہے گاہے نظر آتی رہی ہے۔ یعنی:

ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ

ڈی پیاں یعنی نمائشی تصاویر بدلنے کا اور بدلتے رہنے کا چلن فیس بک پر بہت عام ہے ۔ سو لوگ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کب اُن کی کوئی تصویر اچھی آ جائے یا کوئی بیوٹیفائیر قسم کی ایپ اُن کے چہرے کو رُخِ روشن بنا دے تو وہ اُسے اپنی پروفائل پر ٹانک دیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی تصاویر لاکھ جتن کرنے کے باجود رقیبِ رو سیاہ کے چہرہء انور کا مقابلہ کر رہی ہوتی ہیں سو وہ اپنے کسی دوست سے خوش خطی میں اپنا نام لکھوا کر اُسے تصویر کے خالی چوکھٹے میں ثبت کر دیتے ہیں ۔ اگر آپ عقل کے دوستوں میں سے نہیں ہیں اور اشارے کنائے آپ کے لئے ناکافی رہتے ہیں تو پھر ہم کہیں گے کہ یہ ہمارا ذکر نہیں ہے۔

اگر بات کی جائے صنفِ نازک کی پروفائل پر آویزاں ڈی پیز کی تو ان میں سے اکثر اپنے اصل چہرے سے کوسوں دور حُسن افروز مصنوعات یعنی غازے اور فیس بک غازیوں کے خونِ ناحق سے چپڑے نقاب کو ہی اپنا چہرہ سمجھتی اور سمجھاتی نظر آتی ہیں۔

اگر کبھی آپ کو لگے کہ فیس بک ویران ہوتی جا رہی ہے تو فوراً سے پیشتر کسی نازنین کی پروفائل پر پہنچ جائیے۔ عام سی بات پر تبصروں کی ریل پیل اور مہرِ پسندیدگی کی کھٹاکٹ دیکھ سُن کر آپ کی سٹی گم ہو جائے گی۔ یعنی فیس بک کی رنگا رنگی بھی بقول اقبال تصویرِ کائنات کی طرز پر ہی ہے اور اس تصویر میں رنگ بھرنے کےلئے بھی اقبال کا ہی آزمودہ فارمولا لاگو ہوتا ہے۔

خیر یہ تو تھی وہ سخن گسترانہ بات کہ جو کبھی مقطع میں آپڑتی ہے تو کبھی مطلع میں اور مطلع اکثر ابر آلود ہو جاتا ہے۔ بات ہو رہی تھی فیس بک کی ۔ہمارے لئے فیس بُک کا معاملہ بڑ ا عجیب ہے کہ جہاں ہر شخص اپنے ناشتے پانی سے لے کر پانی پت تک کی خبریں اور یادداشتیں شامل کرتا رہتا ہے اور ہم تبصرے کرکر کے ادھ موئے ہو جاتے ہیں۔تاہم جب کبھی بھولے سے ہم اپنی غزل لگا دیں تو لوگ لائک کی ناب دبانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں یا اگر زیادہ فرصت ہو تو ہم سے ہمارے ہی اشعار کے مطلب پوچھنے لگتے ہیں ۔

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

سو ہم کچھ نہیں بتاتے اور آئیں بائیں شائیں کرکے ادھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔

فیس بک کے بعد ٹوئٹر کی باری آتی ہے (فیس بک ٹوئیٹر کی یہ تقدیم و تاخیر دانستہ نہیں ہے بلکہ دیدہ و دانستہ ہے سو اُمید ہے کہ احباب اس بات پر گرفت یا ستائش نہیں فرمائیں گے) ۔ عمومی خیال کیا جاتا ہے کہ ٹوئٹر پر نسبتاً پڑھے لکھے لوگ ہوا کرتے ہیں ۔ تاہم یہ خیال وہ لوگ کرتے ہیں جو خود ٹوئیٹر پر نہیں ہوتے یا ہوتے بھی ہیں تو ٹاپ ٹرینڈز کے ہیش ٹیگز کو کلک نہیں کیا کرتے۔ٹوئٹر پر ٹرینڈز کی رینکنگ بھی اُسی طرح سے ہوتی ہے جس طرح ہمارے ٹی وی چینلز خود کو درجہء اُولیٰ پر فائز کیا کرتے ہیں۔ یعنی پیسہ بولتا ہے اور لکھتا بھی ہے۔ ہمارے میڈیا چینلز کی نمبر ون کی دوڑ بھی عجیب ہے کہ پاکستان میں ہوتے ہوئے بھی کبھی نمبر دو کی زیارت نصیب نہیں ہوتی۔

ٹوئٹر والوں کی ایک اچھی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی ٹوئٹس بھی ری ٹوئٹ کرتے ہیں تاکہ اپنے پیروکاروں کو بتا سکیں کہ وہ کس بات کے جواب میں مغلظات بک رہے ہیں۔

ٹوئٹر اپنے لکھنے والوں کو ایک سو چالیس حروف تک محدود کرتا ہے اگر یہ ٹوئٹس کی یومیہ تعداد کو بھی محدود کرپاتا تو باتونی لوگوں سے بچنے کا اس سے بہتر ذریعہ اور کوئی نہیں ہوتا۔ ٹوئٹر سے پہلے ہمیں مختصر نویسی کی اثر انگیزی کا اتنا اندازہ نہیں تھا ۔ تاہم اب اس میں شبہ نہیں ہے کہ ایک سو چالیس حروف بھی دشنموں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے کافی ہوتے ہیں اور اگر ٹوئیٹس کو جوڑ جاڑ کر تھریڈ کی شکل دے دی جائے تو اینٹوں کا جواب پتھر سے بلکہ منجنیق سے دینا بھی مشکل نہیں رہتا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ہم ٹوئیٹر پر بھی ناکام و نا مراد ہیں کہ ہمیں کبھی سال دو سال میں کوئی دانائی کی بات سوجھتی بھی ہے تو اُسے مصروفیت، کام چوری اور انکساری کی چھلنیوں سے گزر کر ٹوئیٹر پر پہنچنا ہی دشوار ہو جاتا ہے۔ اور جب کبھی ہمارا دانش پارہ جو حجم میں نمک پارے سے تھوڑا سا ہی بڑا ہوتا ہے ٹوئیٹر پر پہنچ بھی جاتا ہے تو ہمارے پیروکاروں کے نزدیک ( جن کی آدھی اکثریت تو ہماری زبان سے ہی ناواقف ہے) نقار خانے میں ٹٹیری کی آواز سے زیادہ اہم نہیں سمجھا جاتا۔

ٹوئیٹر پر بڑے بڑے جغادری موجود ہیں کہ جن کے منہ سے چوبیس گھنٹے فلسفہ اُبلتا رہتا ہے اور کراچی کے مین ہولز کی طرح یہاں بھی نکاسی کا معقول بندوبست نہیں ہے سو اکثر عقیدت مندوں کی ٹائم لائنز کی حالت ناگفتہ بہ نظر آتی ہے۔ شاید یہاں کے کرتا دھرتا بھی کراچی کے ناظمِ نا کمال کی طرح بے اختیار ہیں۔

سوشل میڈیائی دنیا میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی ایک شے انسٹا گرام ہے۔ شنید ہے کہ اس پر لوگ زیادہ تر تصاویر دیکھنے دکھانے کا کام کیا کرتے ہیں ۔ہم نے اس کا تجربہ جز وقتی طور پر کیا تھا لیکن جن افراد کی پیروکاری ہم نے کی تو زیادہ تر وہی مواد دیکھنے کو ملا جو فیس بک وغیرہ پر ہوتا ہے سو ایک رنگ کے مضمون کو دور رنگ سے باندھتے باندھتے بے زار ہو گئے اور دو رنگی چھوڑ کر یک رنگی اختیار کی۔ کیا خبر کہ کل اسی یک رنگی سے نیرنگی پھوٹتی نظر آئے۔
 
بہت اچھی تحریر ہے۔ طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ اچھا تجزیہ۔
اگر کبھی آپ کو لگے کہ فیس بک ویران ہوتی جا رہی ہے تو فوراً سے پیشتر کسی نازنین کی پروفائل پر پہنچ جائیے۔ عام سی بات پر تبصروں کی ریل پیل اور مہرِ پسندیدگی کی کھٹاکٹ دیکھ سُن کر آپ کی سٹی گم ہو جائے گی۔
ویسے یہ سماجی رویہ صرف فیس بک تک ہی محدود نہیں ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت اچھی تحریر ہے۔ طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ اچھا تجزیہ۔
بہت شکریہ محترم۔۔۔!
ویسے یہ سماجی رویہ صرف فیس بک تک ہی محدود نہیں ہے۔
بلاشبہ ! سماجی میڈیا پر یہ رویہ ہمارے سماج سے ہی آیا ہے۔ :)

بہت عمدہ جناب۔
حقیقتِ حال۔

:)

بہت شکریہ!

خوش رہیے۔ :)
 

لاریب مرزا

محفلین
ہاہاہاہاہا :ROFLMAO: :ROFLMAO: بہت دلچسپ لکھا آپ نے احمد بھائی۔ :applause: :applause: اور کیا ہی بے ساختگی سے سوشل میڈیا کے بخیے ادھیڑنے ہیں۔ :D بہت بہت لطف اندوز ہوئے آپ کی تحریر پڑھ کے۔ :ROFLMAO:
سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ واٹس ایپ میں کوئی "برائی" نظر نہیں آئی کیا آپ کو؟؟ :grin: لگتا ہے کہ اس کا جز وقتی تجربہ بھی نہیں کیا یا پھر کل وقتی تجربہ ہے۔ :p

فیس بک کی بات ہو اور نازنینوں کی اصل چہروں سے کوسوں دور گلیمرس قسم کی تصاویر کی بات نہ ہو تو گفتگو ادھوری ہوتی ہے۔ :grin: ایک پہلو رہ گیا "صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں" قسم کی تصاویر بھی تو ہوتی ہیں۔ :p دراصل ایسی تصاویر ہماری پسندیدہ ہیں۔ :grin:

ٹویٹر ہمیں بہت بورنگ لگتا ہے۔ اور ہمیں تو آج پتہ لگا کہ کیوں بورنگ لگتا ہے۔ ہم اختصار سے کام نہیں لے سکتے۔ اور نہ دانش مندانہ باتیں کر سکتے ہیں۔ :p

انسٹا پہ کدھر جا پھنسے آپ؟؟ وہ ایپ تو نوجوانوں کے لیے ہے۔ :p جس نقطے کو لے کہ آپ کے مزاح کا عنصر پیدا کیا ہے اسی نقطے کو لے کے ہم اپنی اکثر دوستوں سے ازراہ تفنن کہتے ہیں کہ جب فیس بک پہ انسٹا کا مواد ہی پوسٹ کرنا ہے تو انسٹا اکاؤنٹ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟؟ :p

سنیپ چیٹ چھوڑ دیا آپ نے، :cry: وہ بھی ہمارا پسندیدہ سوشل میڈیائی شکنجہ ہے۔ :grin:
اس ہنستی مسکراتی تحریر پر بہت سے داد قبول کریں۔ :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ہاہاہاہاہا :ROFLMAO: :ROFLMAO: بہت دلچسپ لکھا آپ نے احمد بھائی۔ :applause: :applause: اور کیا ہی بے ساختگی سے سوشل میڈیا کے بخیے ادھیڑنے ہیں۔ :D بہت بہت لطف اندوز ہوئے آپ کی تحریر پڑھ کے۔ :ROFLMAO:

بہت شکریہ :)

سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ واٹس ایپ میں کوئی "برائی" نظر نہیں آئی کیا آپ کو؟؟ :grin: لگتا ہے کہ اس کا جز وقتی تجربہ بھی نہیں کیا یا پھر کل وقتی تجربہ ہے۔

ہمارے خیال سے وٹس ایپ سوشل میڈیا میں اُس طرح شامل نہیں ہے کہ جس طرح باقی چیزیں ہیں۔ ہاں البتہ اس کی مدد سے بھی ہمیں سوشل ہونے میں مدد ملتی ہے۔

فیس بک کی بات ہو اور نازنینوں کی اصل چہروں سے کوسوں دور گلیمرس قسم کی تصاویر کی بات نہ ہو تو گفتگو ادھوری ہوتی ہے۔ :grin: ایک پہلو رہ گیا "صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں" قسم کی تصاویر بھی تو ہوتی ہیں۔ :p دراصل ایسی تصاویر ہماری پسندیدہ ہیں۔ :grin:

ہاہاہاہا۔۔۔!

اس کا ہمیں خیال نہیں آیا۔ شاید واسطہ نہیں پڑا ایسے لوگوں سے۔ :)

ٹویٹر ہمیں بہت بورنگ لگتا ہے۔ اور ہمیں تو آج پتہ لگا کہ کیوں بورنگ لگتا ہے۔ ہم اختصار سے کام نہیں لے سکتے۔ اور نہ دانش مندانہ باتیں کر سکتے ہیں۔

ویسے ٹوئٹر بورنگ نہیں ہے آزما کر دیکھیے۔ :)

اختصار اور دانش ٹوئٹر کے وہ دانت ہیں جو دکھانے کے لئے ہیں۔ :)

انسٹا پہ کدھر جا پھنسے آپ؟؟ وہ ایپ تو نوجوانوں کے لیے ہے۔ :p جس نقطے کو لے کہ آپ کے مزاح کا عنصر پیدا کیا ہے اسی نقطے کو لے کے ہم اپنی اکثر دوستوں سے ازراہ تفنن کہتے ہیں کہ جب فیس بک پہ انسٹا کا مواد ہی پوسٹ کرنا ہے تو انسٹا اکاؤنٹ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟؟ :p

ہاہاہاہا۔۔۔!

بس پھنس گئے تھے لیکن نکل آئے۔ :)

سنیپ چیٹ چھوڑ دیا آپ نے، :cry: وہ بھی ہمارا پسندیدہ سوشل میڈیائی شکنجہ ہے۔

اس کا ہمیں نہیں پتہ۔۔! ہم نے بتایا تھا نہ کہ بھیڑیا ہمیں نگل نہیں سکا۔ :) :) :)

اس ہنستی مسکراتی تحریر پر بہت سے داد قبول کریں۔ :)

بہت شکریہ!

حوصلہ افزائی اور بھرپور تبصرے کا شکریہ۔ :)

شاد آباد رہیے۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
شکر ہے کہ ہم اکیلے ان کی مطلوبہ تعداد کو کبھی نہیں پہنچے سو حضرتِ سماج جکڑالوی سے بچے رہے ۔
اکیلے ہیں تو کیا غم ہے۔۔۔ چاہیں تو ہمارے بس میں کیا نہیں۔۔۔۔ :p

واقعی گھاس کھا گئے ہوتے ہیں۔
ہفت زبانی۔۔۔۔ :D

سوشل میڈیا کے سب سے زیادہ قتیل ہمیں فیس بک پر چہرے پر چہرہ چڑھائے نظر آتے ہیں۔
بڑا مشکل کام ہے۔۔۔۔ اوپر والا چہرہ گرم کرنا پڑتا ہے۔۔۔ تب کہیں جا کر فٹ بیٹھتا ہے۔

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی تصاویر لاکھ جتن کرنے کے باجود رقیبِ رو سیاہ کے چہرہء انور کا مقابلہ کر رہی ہوتی ہیں سو وہ اپنے کسی دوست سے خوش خطی میں اپنا نام لکھوا کر اُسے تصویر کے خالی چوکھٹے میں ثبت کر دیتے ہیں ۔
اللہ پوچھے گا۔۔۔ قسم سے۔۔ معاف نہیں کروں گا۔۔۔۔ فلک شیر صیب۔۔۔ دسو یار۔۔۔ اے بندہ باز نئیں آریا۔۔۔۔

اگر بات کی جائے صنفِ نازک کی پروفائل پر آویزاں ڈی پیز کی تو ان میں سے اکثر اپنے اصل چہرے سے کوسوں دور حُسن افروز مصنوعات یعنی غازے اور فیس بک غازیوں کے خونِ ناحق سے چپڑے نقاب کو ہی اپنا چہرہ سمجھتی اور سمجھاتی نظر آتی ہیں۔
ہاہاہاہاااا۔۔۔۔ نہ کریا کرو ظلم۔۔۔ کسی کو جینے بھی دیں۔۔۔۔

جہاں ہر شخص اپنے ناشتے پانی سے لے کر پانی پت تک کی خبریں اور یادداشتیں شامل کرتا رہتا ہے اور ہم تبصرے کرکر کے ادھ موئے ہو جاتے ہیں۔تاہم جب کبھی بھولے سے ہم اپنی غزل لگا دیں تو لوگ لائک کی ناب دبانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں
وہ تبصرہ جات صرف غزل کے ناشتے پانی پر ہوتے ہیں۔۔۔ ویسے بھی فیس بک کے حاجی دیکھنے ہو تو لڑکی کی السلام علیکم والی پوسٹ کے نیچے دیکھ لیا کریں۔۔۔۔ کتھے مہر علی کتھے ثناء۔۔۔ :D

ٹوئٹر والوں کی ایک اچھی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی ٹوئٹس بھی ری ٹوئٹ کرتے ہیں تاکہ اپنے پیروکاروں کو بتا سکیں کہ وہ کس بات کے جواب میں مغلظات بک رہے ہیں۔
ظالم۔۔۔ ظالم۔۔۔ ویسے اس کی بھی ٹویٹ بنتی۔۔۔۔ :p

مزے کی بات یہ ہے کہ ہم ٹوئیٹر پر بھی ناکام و نا مراد ہیں
اس جملے میں "بھی" دیکھ کر خوشی ہوئی۔۔۔۔

ٹوئیٹر پر بڑے بڑے جغادری موجود ہیں کہ جن کے منہ سے چوبیس گھنٹے فلسفہ اُبلتا رہتا ہے اور کراچی کے مین ہولز کی طرح یہاں بھی نکاسی کا معقول بندوبست نہیں ہے
ہاہاہہااااا۔۔۔ ایک سو چالیس سے کم ہی ہیں یہ بھی۔۔۔۔

سو ایک رنگ کے مضمون کو دور رنگ سے باندھتے باندھتے بے زار ہو گئے اور دو رنگی چھوڑ کر یک رنگی اختیار کی۔ کیا خبر کہ کل اسی یک رنگی سے نیرنگی پھوٹتی نظر آئے۔
ہاہاہاہاہااا۔ا۔۔۔ ادہم


کیا بات ہے احمد بھائی۔۔۔ آڑے ہاتھوں ہی لے رہے ہیں آجکل۔۔۔۔ یعنی میں آپ سے بات نہ ہی کروں۔۔۔ کہیں میرا نمبر ہی نہ لگ جائے۔۔۔۔
 

لاریب مرزا

محفلین
بندر نے ادرک چکھ کر ہی بتایا ہے کہ بیکار چیز ہے۔۔۔ جن کی ذائقے کی حس خراب ہے وہ اسی مثال کو خود پر منطبق کریں۔
ہاں تو ہم نے تو مثال منطبق کر دی تھی۔ اور ہر ایک کا آپ کی بیکار چیز کی تعریف سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ شکریہ!!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہاں تو ہم نے تو مثال منطبق کر دی تھی۔ اور ہر ایک کا آپ کی بیکار چیز کی تعریف سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ شکریہ!!
غصہ۔۔۔۔ آہاں۔۔۔۔ تو میں ایزی لے رہا تھا۔۔۔
لاریب بی بی۔۔۔ نصیحت یہ ہے کہ۔۔۔ آیندہ جب کسی پر مثال چسپاں کریں تو اس سے پہلے برداشت کا حوصلہ پیدا کریں۔
 

لاریب مرزا

محفلین
غصہ۔۔۔۔ آہاں۔۔۔۔ تو میں ایزی لے رہا تھا۔۔۔
لاریب بی بی۔۔۔ نصیحت یہ ہے کہ۔۔۔ آیندہ جب کسی پر مثال چسپاں کریں تو اس سے پہلے برداشت کا حوصلہ پیدا کریں۔
ازراہ تفنن ہی مثال پیش کی تھی۔ معلوم نہ تھا کہ آپ تپ جائیں گے۔ بہرحال نصیحت پلو سے باندھ لی ہے کہ اندر سے جتنا مرضی غصہ ہوں شو یہ کرائیں کہ ایزی لے رہے ہیں۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
احمد بھائی!
کمال کی تحریر ہے۔آپ کی تحریروں میں بھی نیرنگی نیرنگی ہے۔
بہت ہنسی آتی رہی۔حقائق کو مزاح کے رنگ میں پیش کرنا اور ہنسنا ہنسانا باکمال لوگوں کا کام ہے۔اور آپ باکمال ہیں۔
اوپر سے نیرنگ کا لگایا غضب کا تڑکا۔وہ ایسے بندے ہیں جو خود پہ بھی ہنس کے ہمیں ہنساتے ہیں۔اللہ محفل کے ان دونوں مزاح نگاروں کو سلامت رکھے۔ آمین!
 

فرقان احمد

محفلین
یہ تحریر نگاہ سے گزری اور ذہن میں غالب کا یہ شعر بھی آن وارد ہوا ۔۔۔!!!

پوچھ مت رسوائیِ اندازِ استغنائے حسن
دست مرہونِ حنا، رخسار رہنِ غازہ تھا

لاجواب تحریر، احمد بھیا!
 
Top