اسلام میں عورت کا مقام

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سپینوزا

محفلین
میں تھوڑا کنفیوز ہو گیا ہوں۔ ہم عربوں (مسلمانوں‌)‌کی تجارت کی بات کررہے ہیں یا قرآن اس غلامی کو ممنوع قرار دیتا یا نہیں‌ دیتا ہے اس کی بات کر رہے ہیں؟

اس تھریڈ‌ کا عنوان دیکھیں۔ اس فورم کا نام دیکھیں۔ دونوں میں اسلام کا ذکر ہے قرآن کا نہیں۔ اسلام کیا ہے؟ قرآن، سنت، حدیث، روایات، tradition، فقہ اور تمام مسلمانوں کا عمل۔

آپ اس بحث کو قرآن تک محدود کر رہے ہیں کیونکہ آپ اسلامی روایات سے شرمندہ ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
 
قرآن کو آپ نے زبردستی شامل کرنے کی کئی کوششیں کی ہیں، جو صرف الفاظ کا ہیر پھیر ہے اور آپ کی اپنی ذات کو دھوکہ۔ قانوں شکنی کرنے والوں کے طرز عمل سے قانون کو خراب نہیں کہا جاسکتا۔

جن لوگوں نے مختلف حیلے بہانوں سے بقایا چیزوں کا استعمال کیا اس پر ایک تنقیدی مضمون یہیں لکھ چکا ہوں۔ قرآن اس الزام سے مستثنی ہے۔

آپ کا محب سے 'سوال' کا ہر حصہ غلط ہے، غلط نظریہ اس کی بنیاد ہے اور تعصب سے بھری ہوئی معلومات پر مشتمل ہے، جس کا ہر حصہ یہیں غلط ثابت کیا جاچکا ہے۔

ایسی باتیں آج کل مغربی نظام میں بہت عام ہیں۔ اور بے سرو پا معلومات پر مشتمل ہیں۔ جن ویب سایٹس پر ملتی ہیں ان کے چلانے والے کا نام پتہ بھی نہیں ہوتا تو اس معلومات کا کیا اعتبار۔ کم از کم ریفرنس کے لئے اپنا نام تو چھوڑیں۔ شرمندہ آپ ہیں کہ نام تک دوسرے کا یا وہ جو درست معلومات فراہم کرتے ہیں۔

اپن۔ی محروم۔ی ک۔ے احس۔اس س۔ے ش۔رمن۔دہ ہی۔ں
خود تو رکھتے نہیں اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ
 

تیشہ

محفلین
بوچھی معاملہ اچھے برے کا نہیں۔ بعض‌ اوقات یہ ضروری بھی ہوجاتا ہے۔ جنگ میں‌ جب مرد مارے جاتے ہیں تو عورتوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے۔ جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں یہی کچھ ہوا تھا۔
اور بھی کئی مسائل درپیش ہوسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں‌ تو ہندومت کی وجہ سے دوسری شادی کو مکروہات کے درجے میں‌ رکھ دیا گیا ہے۔





آہا دوست بھیا ۔ ۔ کہئیے کیسے ہیں ۔؟
میری باتوں کو سنجیدہ نہ لیا کریں کہ میں سنجیدہ ہوتی ہی نہیں ۔ :grin: :grin: بس کبھی کبھی خود کو روک نہیں پاتی ۔ اب بھلا سوچا جائے تو یہ بحث ہے ۔؟ کہ کی جائے ۔؟ :(

بات وہی اک لکھی ہوئی اوپر کی مجھے ہنسا دیتی ہے کہ''''''''''''''''''' اور عورتوں میں سے جو بھی تمھیں اچھی لگیں ان سے نکاح کرلو دو دو، تین تین، چار چار، سےلیکن اگر تمھیں عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک ہی بیوی کافی ہے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

کہ چار چھوڑ دس بھی ناکافی لگتیں ہیں سبکو ۔ ایک بھلا کیسے کافی پڑسکتی ہے ۔ :confused: چار بھی ناکافی ہیں تو ۔ ۔
zzzbbbbnnnn.gif


اب یہی دیکھ لیں فضول کی لونڈیوں کو لے کر بحث ہےیہاں لونڈی ہو یا کچھ بھی بحث تو ہے نا انکی ۔ :grin: :grin:
 
منصور، جو لوگ قرآن کے کم از کم درج ذیل احکامات نہیں‌مانتے۔ وہ کس منہہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں؟
1۔ لونڈی، صرف ملازمہ ہے، اور بنا شادی کئے جائز نہیں۔
2۔ غلامی (مرد و عورت‌ دونوں کی) حرام ہے اور آزاد کرانے کے لئے حکومت فنڈز بھی قائم کرے۔
3۔ قوم کی دولت پر قوم کا ہی حق ہے۔
4۔ عورتوں‌ و مردوں کا معاشرہ میں مساوی مقام ہے۔

پہلی قسم کے لوگ:
اور پھر جو لوگ ان اصولوں کو کتب روایات اور فتاوی کی مدد سے طرح طرح کے حیلے بہانے نکال کر، مندرجہ بالاء‌ کو غلط ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہٰیں وہ قرآن کو ماننے والے کیسے ہو سکتے ہیں؟ اور جب قرآن کو ماننے والے نہیں ہوسکتے تو پھر یہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں کیوں گنتے ہیں؟ یہ تو نمبر دو مسلمان ہوئے


دوسری قسم کے لوگ:
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو پہلی قسم کے لوگوں کے حیلے بہانوں‌ کو مثال بنا کر یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ اصل اسلام تو وہ ہے جو نمبر دو مسلمانوں کا ہے۔ یہ مسلمانوں کے دشمن نہیں تو کیا ہیں؟

انسانوں کی تجارت، غلامی، ملازمہ سے زبردستی۔ ملازم، ملازمہ کو غلام سمجھنا۔ عورتوں کی حق تلفی، ان سب کو قرآن منع فرماتا ہے تاکہ لوگ اپنے قوانین بناتے وقت ان اصولوں کا خیال رکھیں۔ جو لوگ یہ جرائم کرتے ہیں وہ قابل ملامت نہیں تو اور کیا ہیں؟ جو لوگ قوانین بناتے وقت قرآن کے ان اصولوں پر جان بوجھ کر عمل نہیں کرتے تارک قرآن نہیں تو اور کیا ہیں؟
 

خرم

محفلین
جتنی بھی گفتگو میں نے اب تک پڑھی اس سے میری ناقص عقل میں تو یہی بات آئی کہ ہم سب اللہ کے فرمان کا مطلب جاننے کی بجائے اسے اپنی مرضی کے معانی پہنانے کے چکر میں ہیں۔
خود کو بدلتے نہیں بدل دیتے ہیں قرآن کو
ارے بھائی عورت اور مرد کی مساوات کی بات تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہونا شروع ہوئی اور ابھی بھی دنیا میں کوئی ایک معاشرہ ایسا نہیں جہاں یہ نظریہ کما حقہ عمل پذیر ہو۔ اسی طرح غلامی کی بات، صدیوں سے چلی آرہی یہ ریت آج بھی جاری ہے مگر ہاں پردہ کے پیچھے، مگر کون جانے آج سے ایک صدی بعد ہم کہاں ہوں گے اور اس دور کے خیالات کیا ہوں گے۔ قرآن فہمی یہ ہے کہ قرآن کو اپنی عقل کے تابع کرنے کی بجائے اپنی عقل و عمل کو قرآن کے تابع کر دیا جائے۔ وگرنہ اللہ تبارک و تعالٰی نے تواسی قرآن میں ہی فرمادیا کہ جسے چاہے اس سے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے اس سے گمراہ کرتا ہے۔ اگر اپنی عقل کو کسوٹی بنا کر قرآن کو پرکھیں گے تو بھٹکنا اور بہکنا لازم ہے۔ قدیم کی حکمتیں حادث کی عقل میں کیسے سما سکتی ہیں ما سواء اس کے کہ وہ خود چاہے؟ وہ جو علیم اور بصیر ہے، اس کے کلام کا پوسٹ مارٹم وہ کیسے کر سکتے ہیں جنہیں اپنے بدن میں ہونے والی وارداتوں تک کا علم نہیں ہوتا؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ ہم اور ہماری عقل ناقص اور قرآن درست اور کامل تو نہ لونڈیوں کا ہونا یا رکھنا معیوب لگتا ہے اور نہ کژتِ ازواج میں کوئی عیب ہے۔ بس جو اللہ نے فرما دیا، درست ہے اور حرفِ آخر ہے۔ آج کے انسان کو یہ باتیں معیوب لگتی ہیں تو آنے والے کل کے انسان کو یہی باتیں عین حق بھی لگیں گی۔ انسانی عقل ارقاء پذیر ہے مگر قرآن ارتقاء سے مبراء ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ انسانی عقل اپنی ارتقاء کے جس بھی درجہ میں پہنچے گی، قرآن کے اعجاز سے مزید آشنا ہوگی۔
 

سپینوزا

محفلین
حضرت محمد(صلی علیہ وسلم) کو غلاموں پر شفقت اتنی ملحوظ تھی کہ آپ (صلی علیہ وسلم) نے مرض الموت میں سب سے آخری یہ وصیت فرمائی

"غلاموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا"
ہمارے نبی کے یہاں تو یہ مثال بھی ملتی ہے کہ حضرت زینب(رضہ) جنہیں آپ (صلی علیہ وسلم )کی زوجہ مبارک ہونے کا شرف حاصل ہے پہلے حضرت زید جو ایک غلام تھے کے نکاح میں تھیں- -میاں بیوی میں نباہ نہ ہوسکنے پر طلاق ہوگئی - پھر حضرت محمد(صلی علیہ وسلم ) نے حضرت زینب سے نکاح کیا

اسلام میں بتدریج غلامی کا خاتمہ کرنے کی تو کئی مثالیں ملتی ہیں - حضرت حکیم(رضہ) جو فتح مکہ کے دن اسلام لائے نے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد 100 غلام آذاد کئے- حضرت عائشہ(رضہ) نے ایک قسم کے کفارے میں 40 غلام آذاد کئے- حضرت عبدالرحمن بن عوف (رضہ) نے 30 ہزار غلام آذاد کئے- حضرت عبداللہ بن عمر (رضہ) نے ایک ہزار غلام آذاد کئے


غلاموں سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین سے کسی نے انکار نہیں کیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام اور مسلمانوں‌نے غلامی کبھی ختم نہیں کی۔ جن صحابہ کا آپ نے ذکر کیا انہوں‌نے اگر غلام آزاد بھی کئے تو مزید غلام ان کے پاس موجود تھے۔

اگر ہم انسانی تاریخ کا بھی جائزہ لیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ آسٹر یلیا کہ قدیم باشندوں میں یہ رواج تھا کہ وہ مخالف قبائل سے دوستی کے لئے اپنی عورتوں کو پیش کیا کرتے تھے اور یہ رواج بہت سے قدیم قبائل میں رائج تھا کہ دشمنی کہ خاتمے کے لئے عورتوں کو تحفتا پیش کیا جاتا تھا- حتی کہ جنگوں کے خاتمے کے بعد مال غنیمت جمع کیا جاتا تو اس میں سب سے اہم حصہ لونڈیاں ہوتی جن کو بھی تقسیم کیا جاتا تھا-- اور فتح کے بعد خاص طور پر یہ اطلاع بھیجی جاتی کہ کتنی عورتیں گرفتار کی گیئں ہیں- یہ صرف قدینم تہذیب کا تذکرہ نہیں بلکہ دوسری جنگ عظیم میں روسیوں نے کیا بلکہ آج بھی برطانوی اور امریکی فوج عراق میں کر رہی ہے -

کیا یہ سب مسلمان ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

آپ کو یہ غلط‌فہمی کیسے ہوئی کہ یہ لوگ مسلمان ہیں؟ اگر غیرمسلم غلط کام کرتے رہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کو بھی اس کی چھوٹ ہے۔ جنگوں کے نتیجے میں عورتوں کو لونڈیاں تو مسلمانوں نے بھی بنایا۔ کہیں تو احادیث سے ثابت کر دوں؟
 

سپینوزا

محفلین
بوچھی معاملہ اچھے برے کا نہیں۔ بعض‌ اوقات یہ ضروری بھی ہوجاتا ہے۔ جنگ میں‌ جب مرد مارے جاتے ہیں تو عورتوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے۔ جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں یہی کچھ ہوا تھا۔
اور بھی کئی مسائل درپیش ہوسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں‌ تو ہندومت کی وجہ سے دوسری شادی کو مکروہات کے درجے میں‌ رکھ دیا گیا ہے۔

کتنے لوگ ہیں جو دوسری تیسری شادی اس وجہ سے کرتے ہیں؟ سعودی حکمران اپنی بے‌انتہا شادیوں‌کی وجہ سے مشہور ہیں ان میں سے کتنے یہ کام معاشرے اور عورتوں کی بھلائی کے لئے کر رہے ہیں؟
 

سپینوزا

محفلین
قرآن کو آپ نے زبردستی شامل کرنے کی کئی کوششیں کی ہیں، جو صرف الفاظ کا ہیر پھیر ہے اور آپ کی اپنی ذات کو دھوکہ۔ قانوں شکنی کرنے والوں کے طرز عمل سے قانون کو خراب نہیں کہا جاسکتا۔

مگر یہ استدلال میرا نہیں ابوحنیفہ، شافعی، مالک، بخاری، ابن کثیر سے لے کر تمام علماء تک محیط ہے۔

جن لوگوں نے مختلف حیلے بہانوں سے بقایا چیزوں کا استعمال کیا اس پر ایک تنقیدی مضمون یہیں لکھ چکا ہوں۔ قرآن اس الزام سے مستثنی ہے۔

آپ کی بات مان لوں اگر آپ چند سکالر ڈھونڈ کر لا دیں جو آپ سے متفق ہوں۔ آپ سے کئی بار یہ پوچھ چکا ہوں مگر آپ اگنور کر دیتے ہیں۔

آپ کا محب سے 'سوال' کا ہر حصہ غلط ہے، غلط نظریہ اس کی بنیاد ہے اور تعصب سے بھری ہوئی معلومات پر مشتمل ہے، جس کا ہر حصہ یہیں غلط ثابت کیا جاچکا ہے۔

تعصب کس کا؟ مذہبی مسلمانوں سے بات کریں۔ علماء سے پوچھیں آپ کو اندازہ ہو گا کہ کیسے یہ لوگ apologia کے چکر میں رہتے ہیں۔

ایسی باتیں آج کل مغربی نظام میں بہت عام ہیں۔ اور بے سرو پا معلومات پر مشتمل ہیں۔ جن ویب سایٹس پر ملتی ہیں ان کے چلانے والے کا نام پتہ بھی نہیں ہوتا تو اس معلومات کا کیا اعتبار۔

ویب سائٹس کو چھوڑیں۔ فقہ کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں۔ حدیث کی کوئی کتاب پڑھ لیں۔

کم از کم ریفرنس کے لئے اپنا نام تو چھوڑیں۔ شرمندہ آپ ہیں کہ نام تک دوسرے کا یا وہ جو درست معلومات فراہم کرتے ہیں۔

اپن۔ی محروم۔ی ک۔ے احس۔اس س۔ے ش۔رمن۔دہ ہی۔ں
خود تو رکھتے نہیں اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ

میں بتا چکا ہوں کہ میں ایک مسلمان گھرانے سے ہوں اور atheist ہوں۔ اپنا اصل نام بتا کر مرتد کا فتوٰی لگواؤں؟ پھر کون بچائے گا مجھے ان لوگوں کے شر سے؟
 

سپینوزا

محفلین
منصور، جو لوگ قرآن کے کم از کم درج ذیل احکامات نہیں‌مانتے۔ وہ کس منہہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں؟
1۔ لونڈی، صرف ملازمہ ہے، اور بنا شادی کئے جائز نہیں۔
2۔ غلامی (مرد و عورت‌ دونوں کی) حرام ہے اور آزاد کرانے کے لئے حکومت فنڈز بھی قائم کرے۔
3۔ قوم کی دولت پر قوم کا ہی حق ہے۔
4۔ عورتوں‌ و مردوں کا معاشرہ میں مساوی مقام ہے۔

پہلی قسم کے لوگ:
اور پھر جو لوگ ان اصولوں کو کتب روایات اور فتاوی کی مدد سے طرح طرح کے حیلے بہانے نکال کر، مندرجہ بالاء‌ کو غلط ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہٰیں وہ قرآن کو ماننے والے کیسے ہو سکتے ہیں؟ اور جب قرآن کو ماننے والے نہیں ہوسکتے تو پھر یہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں کیوں گنتے ہیں؟ یہ تو نمبر دو مسلمان ہوئے

یعنی یا تو تمام کتبِ اسلام کو غلط قرار دے دیا جائے یا پھر پچھلے 1400 سال کے تقریبا تمام علماء کو دو تمبر مسلمان کہہ دیں۔ بالکل کہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

دوسری قسم کے لوگ:
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو پہلی قسم کے لوگوں کے حیلے بہانوں‌ کو مثال بنا کر یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ اصل اسلام تو وہ ہے جو نمبر دو مسلمانوں کا ہے۔ یہ مسلمانوں کے دشمن نہیں تو کیا ہیں؟

دیکھیں بات اصل دہشت‌گردی یا honor killings کی ہو (مثال کے طور پر( تو اسامہ بن لادن یا honor killings کو صحیح کہنے والوں‌کو عام مسلمانوں سے ملانا بالکل غلط ہے کہ آپ کو اسلام کی تاریخ میں بہت سی مثالیں اس غلط اعمال کے خلاف صاف ملتی ہیں۔ مگر غلامی کا مسئلہ فرق ہے۔ شیخ منجد کچھ حد تک صحیح ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ تمام علماء، تمام تاریخ غلامی کے حلال ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔

انسانوں کی تجارت، غلامی، ملازمہ سے زبردستی۔ ملازم، ملازمہ کو غلام سمجھنا۔ عورتوں کی حق تلفی، ان سب کو قرآن منع فرماتا ہے تاکہ لوگ اپنے قوانین بناتے وقت ان اصولوں کا خیال رکھیں۔ جو لوگ یہ جرائم کرتے ہیں وہ قابل ملامت نہیں تو اور کیا ہیں؟ جو لوگ قوانین بناتے وقت قرآن کے ان اصولوں پر جان بوجھ کر عمل نہیں کرتے تارک قرآن نہیں تو اور کیا ہیں؟

تارکِ قرآن کا پتہ نہیں مگر ملامت کے ضرور حقدار ہیں ایسے لوگ۔ سو لعنت بھیجتا ہوں‌ ان سب لوگوں‌پر جنہوں نے نکاح کے بغیر لونڈیوں سے جنسی تعلقات قائم کئے اور اولاد بھی پیدا کی۔
 
جتنی بھی گفتگو میں نے اب تک پڑھی اس سے میری ناقص عقل میں تو یہی بات آئی کہ ہم سب اللہ کے فرمان کا مطلب جاننے کی بجائے اسے اپنی مرضی کے معانی پہنانے کے چکر میں ہیں۔
خود کو بدلتے نہیں بدل دیتے ہیں قرآن کو
ارے بھائی عورت اور مرد کی مساوات کی بات تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہونا شروع ہوئی اور ابھی بھی دنیا میں کوئی ایک معاشرہ ایسا نہیں جہاں یہ نظریہ کما حقہ عمل پذیر ہو۔ اسی طرح غلامی کی بات، صدیوں سے چلی آرہی یہ ریت آج بھی جاری ہے مگر ہاں پردہ کے پیچھے، مگر کون جانے آج سے ایک صدی بعد ہم کہاں ہوں گے اور اس دور کے خیالات کیا ہوں گے۔ قرآن فہمی یہ ہے کہ قرآن کو اپنی عقل کے تابع کرنے کی بجائے اپنی عقل و عمل کو قرآن کے تابع کر دیا جائے۔ وگرنہ اللہ تبارک و تعالٰی نے تواسی قرآن میں ہی فرمادیا کہ جسے چاہے اس سے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے اس سے گمراہ کرتا ہے۔ اگر اپنی عقل کو کسوٹی بنا کر قرآن کو پرکھیں گے تو بھٹکنا اور بہکنا لازم ہے۔ قدیم کی حکمتیں حادث کی عقل میں کیسے سما سکتی ہیں ما سواء اس کے کہ وہ خود چاہے؟ وہ جو علیم اور بصیر ہے، اس کے کلام کا پوسٹ مارٹم وہ کیسے کر سکتے ہیں جنہیں اپنے بدن میں ہونے والی وارداتوں تک کا علم نہیں ہوتا؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ ہم اور ہماری عقل ناقص اور قرآن درست اور کامل تو نہ لونڈیوں کا ہونا یا رکھنا معیوب لگتا ہے اور نہ کژتِ ازواج میں کوئی عیب ہے۔ بس جو اللہ نے فرما دیا، درست ہے اور حرفِ آخر ہے۔ آج کے انسان کو یہ باتیں معیوب لگتی ہیں تو آنے والے کل کے انسان کو یہی باتیں عین حق بھی لگیں گی۔ انسانی عقل ارقاء پذیر ہے مگر قرآن ارتقاء سے مبراء ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ انسانی عقل اپنی ارتقاء کے جس بھی درجہ میں پہنچے گی، قرآن کے اعجاز سے مزید آشنا ہوگی۔

اپنی عقل کے استعمال پر پابندی؟ اور
عورت اور مرد کی مساوات جمعہ جمعہ آٹھ دن پرانی؟
نہ لونڈی رکھنا معیوب؟
نہ کثرت ازواج معیوب؟
قرآن کے نزول کو 1400 سے زائید سال ہو گے بھائی۔
بھائی ان باتوں سے آگے بڑھئے۔ ذرا معاشرے میں عدل و انصاف، کے بارے میں بات کیجئے۔

قرآن مزید کیا کہتا ہے ذرا دیکھئیے۔ ، ہدایت جہاں سے شروع ہوتی ہے، وہاں ‌تک سوچ کی پرواز ہے کیا؟ یا یہی لونڈیوں اور کثرت ازواج تک الجھے رہنا ہے؟

بوچھی درست کہتی ہے۔ یہ موضوع ہے بحث کرنے کا؟


کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ !
[ayah]6:11[/ayah]
[arabic]قُلْ سِيرُواْ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [/arabic]
فرمادیجئے کہ تم زمین پر چلو پھرو، پھر (نگاہِ عبرت سے) دیکھو کہ (حق کو) جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا
 

خرم

محفلین
منصور میاں‌آپ شاید جوشِ جذبات میں کچھ زیادہ ہی کہہ گئے۔ اللہ ہم سب پر رحم فرمائے آمین۔
بھائی بات تو اپنی will surrender کرنے کی ہے۔ اگر کر دی تو جو اللہ اور اس کے رسول نے فرما دیا بس وہی ٹھیک ہے، وگرنی نظریات کا کیا ہے، جو کل تھے وہ آج نہیں ہیں اور جو آج نہیں ہیں وہ کل نہ ہوں گے۔ باقی تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ ایک وقت میں لوگ اسی شد و مد سے اس بات کی بھی مخالفت کرتے تھے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ تمام دنیا کے سائنسدان اور ڈاکٹر شور مچاتے تھے کہ کم چکنائی کھانے سے انسان دل کے امراض سے محفوظ رہتا ہے اور اب وہی سائنس کہہ رہی ہے کہ چکنائی کے کم یا زیادہ کھانے سے امراضِ دل کا کوئی تعلق نہیں۔ مسلمانوں نے جب دیگر اقوام کو کہا کہ اللہ پر ایمان لے آؤ وگرنہ جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ تو آج کا مسلمان ان کی تاویل پر آئیں بائیں شائیں کرتا ہے، بش بہادر نے "جمہوریت" کے لئے عراق پر چڑھائی کر کے لاکھوں کو تہہ تیغ کردیا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بغیر تفتیش کے افغانستان پر چڑھائی کردی کسی کو ملال نہیں۔ بنا ثبوت سینکڑوں کو قید میں ڈال دیا کوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں (کتابچہ شائع کردینا اور بات ہے اور عملاً ظلم روکنا اور)۔مسلمان ہونے کی پہلے شرط یہ ہے کہ قرآن پر اور سنتِ نبوی اور اس کی جو تشریح صحابہ نے کی ہے اس پر بلا چوں و چراں ایمان لایا جائے۔ اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ باقی رہا اپنی عقل کا معاملہ تو قرآن کے پہلے پارہ کی ابتداء میں ہی اللہ نے فرما دیا"یہ کہتے ہیں کیا اس طرح ایمان لے آئیں جیسے بیوقوف ایمان لے آئے؟" تو ہر دور کے "عقلمندوں" کے لئے اللہ کا یہی فرمان کافی ہے کہ "نہیں بلکہ یہ احمق ہیں مگر شعور نہیں رکھتے"
باقی اگر اللہ فرماتا ہے کہ لونڈی سے ہمبستری کے لئے نکاح کی ضرورت نہیں تو ضرورت نہیں۔ نکاح بھی تو اللہ کا حکم ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ ایک اور بات، لونڈی اسے شخص کو حلال ہوتی ہے جس کی وہ ملک ہو اور لونڈی سے پیدا ہوئی اولاد کا وہی حق ہوتا ہے جو ایک آزاد عورت سے پیدا ہوئی اولاد کا۔ مزید برآں لونڈی کی حرمت بھی وہی ہوتی ہے جو ایک آزاد عورت کی۔
باقی رہ گئی بات غلام رکھنے کی تو جو اپنے آپ کو اس قابل سمجھتا ہے کہ بروزِ قیامت وہ اضافی زندگیوں کا بھی بوجھ اٹھا سکتا ہے، اسے کم از کم میرے انتہائی ناقص علم کے مطابق اسلام اس سے منع نہیں کرتا۔ہاں یہ یاد رہے کہ غلام سے کئے گئے سلوک کا بھی بروزِ قیامت حساب ہوگا۔ جو اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے لئے یہی کافی ہے، اور جنہیں اس کا کوئی خوف نہیں ان کے لئے کسی بھی قاعدے یا قانون کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔
 

خرم

محفلین
اپنی عقل کے استعمال پر پابندی؟ اور
عورت اور مرد کی مساوات جمعہ جمعہ آٹھ دن پرانی؟
قرآن کے نزول کو 1400 سے زائید سال ہو گے بھائی۔

فاروق بھائی اپنی عقل کے استعمال کی بات میں نے احکاماتِ الٰہی کی موزونیت کی پڑتال کی بابت کی تھی۔
قرآن کیا زندگی کے ہر شعبہ میں عورت اور مرد کی مساوات کا درس دیتا ہے؟ میرے علم کے مطابق تو مساوات ہے ہی نہیں کہ دونوں کی ذمہ داریاں الگ الگ بتا دی گئی ہیں۔ اگر مساوات ذمہ دار ہونے پر ہے تو دونوں ذمہ دار ہیں مگر کسی ایک معاملہ میں ایک جیسے ذمہ دار نہیں ماسوائے احکام الٰہی کی فرمانبرداری کے۔
واللہ اعلم
 
خرم بھائی۔ میں ابھی لکھ ہی رہا تھا کہ آپ نے جواب دے دیا :) میں آئندہ احتیاط کروں گا کہ پورا لکھ کر ہی پوسٹ‌ کروں۔ بھائی، آپ کی بات سے ایک اچھا موقع ہاتھ مل گیا کہ ان باتوں کو اجاگر کروں جو درج کی ہیں۔ معاشرے میں خواتیں و حضرات کا کیا مقام ہے۔ اس کے بارے میں‌بہت ہی واضح آیات ہیں۔ آپ دیکھ لیجئے۔ لنک پچھلی پوسٹ میں‌ہے۔ اور اس پوسٹ‌میں بھی کچھ دنوں پہلے، ان آیات کو دہرایا تھا کہ لوگوں کہ آسانی رہے۔

والسلام۔
 

خرم

محفلین
فاروق بھائی ان سب باتوں سے مجھے کلیتاً اتفاق ہے۔ میرا اختلاف تو اس سوچ سے ہے جس کے مطابق زندگی کے ہر شعبہ میں مرد اور عورت کے فرائض برابر ہیں۔ میرے ناقص فہم کے مطابق عورت اور مرد دونوں کا اجر برابر ہیں مگر اس کو حاصل کرنے کے طریقے مختلف، مرد کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے لئے کما کر لائے اور ان سے شفقت کا برتاؤ کرے اور عورت کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ اپنے خاوند کی اللہ کے فرامین کی اتباع میں اطاعت کرے اور اس کی غیر موجودی میں اس کے مال و عیال کی نگہداشت و نگہبانی کرے۔ اب اگر دونوں اپنے اپنے فرائض ادا کرتے ہیں تو ان کو اجر ملے گا انشاء اللہ
 

خاور بلال

محفلین
محب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے آپ سے زیادہ قرآن کے ترجمے، تفاسیر، فقہ کی کتابیں اور اسلامی تاریخ پر پڑھ رکھا ہے۔

معلوم ہوتا ہے موصوف نے مذکورہ ذخیرہ علم پر صرف عیب چینی کی نگاہ ڈالی ہے اور ان کتابوں کے بے شمار جواہر کی طرف سے آنکھیں‌ بند کرکے اپنا سارا وقت ان چیزوں کی تلاش میں صرف کیا ہے جوان کے نزدیک اسلام پر طعن کرنے کے لیے مفید ہوسکتی ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو قرآن ہدایت کی طلب میں نہیں پڑھتے بلکہ عیوب تلاش کرتے اور اسلام کے خلاف اسلحہ فراہم کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ اسی وجہ سے تو ان کو قرآن میں بجز عیوب کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ کیونکہ انسان ہر جگہ وہی پاتا ہے جس کی اسے طلب ہوتی ہے۔

قرآن کے ترجمے، تفاسیر، فقہ کی کتابیں اور اسلامی تاریخ پڑھ کر بھی جو شخص مقامِ محمدِ عربی سے ناواقف ہو اسے شیخ چلی کی کہانیاں پڑھنے کا مشورہ دیا جاسکتا ہے۔ وضاحت کیلئے گستاخانِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نامی دھاگہ ملاحظہ ہو جہاں موصوف نبی محترم سے متعلق اپنی نگارشات بیان کرچکے ہیں۔ بعض نفوس کی ذہنی حالت دیکھ کر ڈارون کی تھیوری یاد آجاتی ہے۔ فرض کیجیے ڈارون کی تھیوری پر ایمان لے بھی آیا جائے تو ان کا کیا کیجیے جن کے ارتقائی سفر میں کوئی خامی رہ گئی ہو؟

اگر پریکٹیکل ہی کی بات ہے تو پھر خدا کی یہ کیسی بے‌نیازی (یا بے‌چارگی) کہ اس کے کامل دین کے مرکز ہی میں 1380 سال یہ غلامی ختم نہ کی جا سکی اور جب غلامی ختم ہوئی بھی تو مغرب کے زیرِ اثر؟


لیجیے! چندے آفتاب چندے ماہتاب، چشمِ بد دور منصور حلاج خدا تعالٰی کو بے چارگی کا طعنہ دے رہے ہیں۔ جن کی بے چارگی کا یہ عالم ہوکہ وہ یہ تک نہ ثابت کرسکیں کہ وہ اپنے باپ کی جائز اولاد ہیں وہ اب خدا تعالٰی کو بے چارگی کا الزام دے رہے ہیں۔ کیا اس کے جواب میں میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی تعریف؟

ظاہر ہے اللہ کا کلام منصور حلاج کی ڈکٹیشن کا محتاج نہیں۔ ربِ کائنات قادرِ مطلق ہے، اس کی ذات بے عیب ہے، اس کا کلام محفوظ ہے، اسکا کوئی ثانی نہیں تو یہ کیا کہ منصور صاحب کلامِ خدا پر تنقید فرمارہے ہیں۔ ظاہر ہے اعتراض ہے تو کچھ باعثِ اعتراض بھی ہوگا۔ لیکن دنیا کا دستور ہے کہ بڑی شخصیات کے افکار پر تنقید کرنے کیلئے بھی بڑی شخصیات درکار ہوتی ہیں مثلا اقبال نے مغرب کو رد کیا تو اقبال اس کی اہلیت بھی رکھتے تھے جبکہ کلو پنواڑی اس کام کیلئے ناموزوں تھا۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو کیا منصور صاحب کلامِ خدا پر اعتراض کی اہلیت رکھتے ہیں؟۔۔۔۔ دوسرے الفاظ میں سورج کو شرمندہ کرنے کیلئے سورج جیسی چیز ہی درکار ہوتی ہے، بہت رعایت بھی کرلی جائے تو سورج کو چراغ دکھانے کا معاملہ بھی قابلِ قبول ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ کیا کہ ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں سورج کا منہ چڑا رہی ہیں۔

مشاہدہ یہی ہے کہ جنہیں ناچنا نہیں آتا انہیں آنگن ٹیڑھا کی شکایت رہتی ہے۔ بی مینڈکیوں کے زکام کا علاج ممکن ہے اگر زکام ہوبھی۔ لیکن کوئی زکام کی اداکاری کرے تو کیا کیا جائے؟ اگر پھٹے ہوئے بانس زعم میں آکر محمد رفیع کو یہ طعنہ دیں کہ تم محمد رفیع ہو، ہم تان سین۔ تو اس میں پھٹے ہوئے بانس کی غلطی مت سمجھیے گا کیونکہ وہ تو ہے ہی پھٹا ہوا بانس۔ اس سے اور کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔

دھاگے کا عنوان ہے اسلام میں عورت کا مقام جبکہ گفتگو ہورہی ہے صرف اور صرف لونڈی کے مقام کی تو جناب کیا آپکے نزدیک عورت صرف لونڈی ہی کا نام ہے؟ خیر سے بعض حضرات کی تواضع کیلئے لاطینی زبان میں خاص الفاظ ہوتے ہیں۔ جبکہ بعض کی تواضع سے لاطینی زبان بھی قاصر ہے اور ایسوں کے شر سے پناہ مانگتی ہے۔

ہمیں آپکی اسلام سے دلچسپی کا خوب اندازہ ہوچکا ہے۔ آپ ہیں مغرب کی پیداوار۔ آپکی کی اپنی کوئی سوچ نہیں جو ہے وہ بھی مغرب کےلنڈا بازار سے درآمد ہوئی ہے اور وہ شخص سخت غلطی کرتا ہے جو مغربی نقطہ نظر سے اسلامی احکام کی تعبیر کرتا ہے۔ مغرب میں اشیاء کی قدرو قیمت کا جو معیار ہے، اسلام کا معیار اس سے بالکل مختلف ہے۔ اب جو مغربی معیار کا قائل ہے، اس کو تو اسلام کی ہر چیز قابلِ ترمیم نظر آئے گی۔ وہ اسلامی احکام کی تعبیر کرنے بیٹھے گا تو ان کی تحریف کرڈالے گا۔ اور تحریف کے بعد بھی ان کو اپنی زندگی میں کسی طرح نصب نہ کرسکے گا۔ کیونکہ قدم قدم پر قرآن اور سنت کی تصریحات اس کی مزاحمت کریں گی۔ آپ ہیں ترقی کے خواہشمند۔ آپکو درکار ہے تہذیب۔ بھلا ایسے مذہب میں ترقی کہاں! ایسے مذہب کو تہذیب سے کیا واسطہ! کیوں نہ اس مذہب کو ہی چھوڑ دیا جائے جس کے مقاصد کو آپ غلط سمجھتے ہیں؟ اور اگر مقاصد سے اتفاق ہے تو بحث صرف اس میں رہ جاتی ہے کہ ان مقاصد کے لیے جو عملی طریقے تجویز کیے گئے ہیں وہ مناسب ہیں یا نا مناسب۔ اور اس بحث کو باآسانی طے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ طریقہ شریف لوگ ہی اختیار کرسکتے ہیں۔ رہے آپ تو آپ کو یہی زیب دیتا ہے کہ دعویٰ ایک چیز پر اعتقاد رکھنے کا کریں اور درحقیقت اعتقاد دوسری چیز پر رکھیں۔ آپ ہیں اسلام سے سرمشار۔ تو اب ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ اس اسلام ہی سے اپنی برات کا اظہار فرمادیں جس کی وجہ سے آپ شرم کا داغ لیے لیے پھرتے ہیں۔
 

سپینوزا

محفلین
آخر خاور بلال آ ہی گئے۔ آپ کی پوسٹ میں مجھ پر ذاتی حملوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ آپ نے کہیں بھی اسلام یا مسلمانوں کی بات نہیں کی بلکہ مجھ پر ذاتی تنقید کی ہے اور محفل پر سب جانتے ہیں کہ ذاتیات پر آپ سے بہتر لکھاری محفل میں موجود نہیں۔

باقی تو شاید چلتا ہے مگر اس جملے پر مجھے شدید اعتراض ہے:

جن کی بے چارگی کا یہ عالم ہوکہ وہ یہ تک نہ ثابت کرسکیں کہ وہ اپنے باپ کی جائز اولاد ہیں وہ اب خدا تعالٰی کو بے چارگی کا الزام دے رہے ہیں۔

اور میں نے منتظمین کو رپورٹ بھی کیا ہے کہ یہ محفل کے قرائد کے خلاف ہے۔ میں ماوراء اور عبید سے بھی پوچھنا چاہوں گا کہ کیا اس جملے کا انہیں نے شکریہ ادا کیا ہے؟؟

کیوں نہ اس مذہب کو ہی چھوڑ دیا جائے جس کے مقاصد کو آپ غلط سمجھتے ہیں؟ اور اگر مقاصد سے اتفاق ہے تو بحث صرف اس میں رہ جاتی ہے کہ ان مقاصد کے لیے جو عملی طریقے تجویز کیے گئے ہیں وہ مناسب ہیں یا نا مناسب۔ اور اس بحث کو باآسانی طے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ طریقہ شریف لوگ ہی اختیار کرسکتے ہیں۔ رہے آپ تو آپ کو یہی زیب دیتا ہے کہ دعویٰ ایک چیز پر اعتقاد رکھنے کا کریں اور درحقیقت اعتقاد دوسری چیز پر رکھیں۔ آپ ہیں اسلام سے سرمشار۔ تو اب ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ اس اسلام ہی سے اپنی برات کا اظہار فرمادیں جس کی وجہ سے آپ شرم کا داغ لیے لیے پھرتے ہیں۔

لگتا ہے آپ غور سے نہیں پڑھتے۔ ذرا میرے دستخط پر نظر ڈالیں اور اسی تھریڈ میں میری پچھلی پوسٹس پر بھی۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ میں مسلمان نہیں ہوں۔
 

خاور بلال

محفلین
آپ نے کہیں بھی اسلام یا مسلمانوں کی بات نہیں کی بلکہ مجھ پر ذاتی تنقید کی ہے

حیرت ہے آپکو اسلام اور مسلمانوں سے اتنی دلچسپی ہے۔ آپکے اعتراضات کے جوابات اسی دھاگے پر دیے جاچکے ہیں۔ غلامی اور وراثت سے متعلق مزید تشنگی باقی ہے تو وہ بھی پوری کی جائیگی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ سوال و جواب کھیل رہے ہیں اور میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ قرآن و حدیث سے استدلال مذاق نہیں۔ آپ کے جو اعتراضات ہیں‌انہیں پوائنٹس کی صورت میں ترتیب وار تحریر کرنے کی زحمت کرلیں تاکہ جو پہلو تشنہ ہیں ان پر مزید بات کرلی جائے۔ اعتراض اگر علمی ضرورت کے پیشِ نظر کیا جائے تو اس سے واقعتا فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جو اعتراض ہوتا ہے وہ دھما چوکڑی کا منظر پیدا کردیتا ہے اس سے اور کچھ نہیں تو کم فہم اور کمزور شخصیتوں کے حامل مسلمانوں میں تذبذب ضرور پیدا ہوتا ہے۔

باقی تو شاید چلتا ہے مگر اس جملے پر مجھے شدید اعتراض ہے:اور میں نے منتظمین کو رپورٹ بھی کیا ہے کہ یہ محفل کے قرائد کے خلاف ہے۔ میں ماوراء اور عبید سے بھی پوچھنا چاہوں گا کہ کیا اس جملے کا انہیں نے شکریہ ادا کیا ہے؟؟

آپکی اس عنایت کا بہت شکریہ لیکن حقیقت کیا ہے؟ انسان اپنے باپ کی جائز اولاد ہے اس پر یقین کیلئے اسے اپنی ماں کی روایت پر اعتبار کرنا پڑتا ہے۔ آخر اس میں جھوٹ کیا ہے؟

لگتا ہے آپ غور سے نہیں پڑھتے۔ ذرا میرے دستخط پر نظر ڈالیں اور اسی تھریڈ میں میری پچھلی پوسٹس پر بھی۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ میں مسلمان نہیں ہوں۔

غیروں کی شادی میں عبداللہ کتنا دیوانہ ہورہا ہے۔بیچارہ عبداللہ ! چچ چچ
 
صاحبو!
یہ پوسٹ اس موضوع سے تعلق قطعاَ نہیں رکھتی، جب آپ میں سے اکثر اسے دیکھ لیں گے تو میں اس کو حذف کردوں گا۔ اس کا مقصد دل آزاری نہیں۔
کئی لوگ اس سلسلے کو بند کرنے اور دستور زباں‌بندی کو عام کرنے کی صلاح دیتے ہیں، جبکہ اللہ تعالی نے مباحثہ کے لئے درج ذیل اصول رسول اللہ کو نصیحت کئے ہیں۔ مجھے امید و یقین ہے کی مجھ سمیت ہم سب اس ہدایت سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

[ayah]16:125[/ayah] (اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے

والسلام،
عاصی،
 

شمشاد

لائبریرین
محترم منصور صاحب میں نہیں سمجھتا کہ خاور نے انسان اپنے باپ کی جائز اولاد ہے کا حوالہ دے کر آپ پر کوئی ذاتی حملہ کیا ہے۔ پھر انہوں نے اس کی وضاحت بھی کر دی ہے۔

ایک چیز ذہن میں رکھیئے گا کہ مسلمان کا اس بات پر پختہ ایمان ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات جس کا کہ اندازہ کرنا بھی ناممکن ہے، کہ کتنی بڑی ہے، یہ اللہ تعالٰی کی تخلیق ہے۔ اس کی ہر ہر چیز اللہ سبحانہ کی تخلیق ہے۔ صرف اور صرف قرآن ایک ایسی چیز ہے جو تخلیق نہیں ہے۔ یہ اللہ سبحانہ کا کلام ہے۔ اس کی ہر ہر زیر زبر پر مسلمان کا ایمان ہے۔ اگر وہ اس کی کسی ایک زیر زبر کو نہ مانے تو اس کا مطلب ہے اس نے اللہ کے کلام سے انکار کیا۔ جو اس دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے لیے کافی ہے۔

آپ تو اپنی بیٹی کے متعلق ایسے ایسے جذبات رکھتے ہیں کہ کوئی بھلا سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ چھ سال کی عمر میں اس کی شادی ہو جائے اور نو سال کی عمر میں رخصتی، تو محترم آپ تو کھلم کھلا مومنین کی ماں پر الزام دھر رہے ہیں۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ نبی کی بیویاں مومنین کی مائیں ہیں۔ تو ایک مومن یا ایک مسلمان آپ کے لگائے گئے الزام کیسے برداشت کرئے گا؟ اسلام تو کسی مذہب کا مذاق نہیں اڑاتا پھر آپ کیونکر ایسا کر رہے ہیں؟

اللہ شاہد ہے میں نے خود اپنی آنکھوں سے بنگال میں ایسی بہت سی لڑکیاں دیکھی ہیں جن کی 8 سال کی عمر میں شادی ہو گئی اور نو سال کی عمر میں وہ ماں بن گئیں۔

میری دعا ہے کہ آپ سمجھ جائیں اور آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ راہ راست پر آ جائیں۔ دوسری صورت میں اللہ تعالٰی کا ارشاد تو ہے ہی کہ خَتَمَ اللّہُ عَلَى قُلُوبِھمْ وَعَلَى سَمْعِھِمْ وَعَلَى اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ وَلَھُمْ عَذَابٌ عظِيمٌ۔
 

شمشاد

لائبریرین
صاحبو!
یہ پوسٹ اس موضوع سے تعلق قطعاَ نہیں رکھتی، جب آپ میں سے اکثر اسے دیکھ لیں گے تو میں اس کو حذف کردوں گا۔ اس کا مقصد دل آزاری نہیں۔
کئی لوگ اس سلسلے کو بند کرنے اور دستور زباں‌بندی کو عام کرنے کی صلاح دیتے ہیں، جبکہ اللہ تعالی نے مباحثہ کے لئے درج ذیل اصول رسول اللہ کو نصیحت کئے ہیں۔ مجھے امید و یقین ہے کی مجھ سمیت ہم سب اس ہدایت سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

[ayah]16:125[/ayah] (اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے

والسلام،
عاصی،

میں نہیں سمجھتا کہ اس بحث کو بند کیا جائے۔ اسے جاری رہنا چاہیے اور دلائل سے بات ثابت کرنی چاہیے۔ اگر بات ثابت ہو بھی جائے تو دوسرے فریق کی مرضی ہے کہ مانے یا نہ مانے، لٹھ لے کے اس کے پیچھے نہیں ہونا چاہیے کہ ضرور مانو۔

آپ نے جو قرآن کا حوالہ دیا ہے وہ نہایت مناسب ہے سمجھنے والوں کے لیے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top