اسلام میں عورت کا مقام

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سپینوزا

محفلین
قرآن مجید نہ صرف غلامی کو حلال قرار دیتا ہے بلکہ لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی بھی کھلی اجازت دیتا ہے۔

[ayah]33:50[/ayah]: اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حلال کر دیں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہیں اور وہ عورتیں جو تمہاری مملومکہ ہیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوادی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کے خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی اور اس مسلمان عورت کو بھی جو بلاعوض اپنے کوپیغمبر کو دے دے بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں لانا چاہے یہ خالص آپ کے لیے ہے نہ اور مسلمانوں کے لیے ہمیں معلوم ہے جو کچھ ہم نے مسلمانو ں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں مقرر کیا ہے تاکہ آپ پر کوئی دِقت نہ رہے اور اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ آپ ان میں سے جسے چاہیں چھوڑ دیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور ان میں سے جسے آپ چاہیں جنہیں آپ نے علیحدہ کر دیا تھا تو آپ پر کوئی گناہ نہیں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور غمزدہ نہ ہو اور ان سب کو جو آپ دیں اس پر راضی ہوں اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ جانتا ہے اوراللہ جاننے والا بردبار ہے۔ اس کے بعد آپ کے لیے عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان سےاورعورتیں تبدیل کریں اگر چہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے مگر جو آپ کی مملوکہ ہوں اور اللہ ہر ایک چیز پر نگران ہے۔

اس اجازت کا فائدہ حضرت محمد نے خود بھی اٹھایا اور بیسویں سڈی عیسوی تک مسلمان مرد اس کا فائدہ اٹھاتے رہے۔ حضرت محمد کی چار لونڈیاں تھیں اور ایک لونڈی ماریہ قبطیہ سے بیٹا بھی ہوا۔

خیال رہے کہ ایک آزاد عورت سے نکاح کے وقت اس کی مرضی پوچھی جاتی ہے مگر لونڈی کو غلام بناتے وقت یا اس سے جنسی تعلقات کے وقت کوئی اس کی مرضی نہیں پوچھتا۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی احادیث ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کا نکاح 6 سال کی عمر میں اور رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی۔ یہ بات تو عام علم میں ہے مثلا یہاں، یہاں اور یہاں اور یہاں۔ مگر صحیح بخاری کی اس حدیث کا کس کو علم ہے:

"عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں فرمایا :

( خواب میں مجھے تو دوبار دکھائي گئي تھی ، میں نے تجھے ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئي دیکھا ، کہا گیا کہ یہ تیری بیوی ہے جب میں کپڑا ہٹاتا ہوں تو دیکھا کہ تو ہے ، میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے توپھر اللہ اسے پورا کرے گا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3682 ) ۔"

یاد رہے کہ حضرت عائشہ اس وقت 6 سال کی تھیں!!

موت کے بعد جائداد میں حصے کے سلسلے میں بھی اسلام عورت کو مرد سے آدھا حصہ دیتا ہے۔

[AYAH]4:11[/AYAH]اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے پھر اگر دو سے زاید لڑکیاں ہوں تو ا ن کے لیے دو تہائی اس مال میں سے ہے جو میت نے چھوڑا اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے اور اگر میت کی اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو کل مال کا چھٹا حصہ ملنا چاہیئے اور اگر اس کی کوئی اولاد نہیں اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے پھر اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے (یہ حصہ اس) وصیت کے بعد ہوگا جو وہ کر گیا تھا اور بعد ادا کرنے قرض کے تم نہیں جانتے تمہارے باپوں اور تمہارے بیٹوں میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والا ہے اللہ کی طرف سے یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہے۔ جو مال تمہارحی عورتیں چھوڑ مریں اس میں تمہارا آدھا حصہ ہے بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو او راگر ان کی اولاد ہو تو اس میں سےجو چھوڑ جائیں ایک چوتھائي تمہاری ہے اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائیں یا قرض کے بعد اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے جو تم چھوڑ کر مرو بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہوپس اگر تمہاری اولاد ہو تو جو تم نے چھوڑا اس میں ان کا آٹھواں حصہ ہے اس وصیت کے بعد جو تم کر جاؤ یا قرض کے بعد اوراگر وہ مرد یا عورت جس کی یہ میراث ہے باپ بیٹا کچھ نہیں رکھتا اور اس میت کا ایک بھائي یا بہن ہے تو دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے پس اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں وصیت کی بات جوہو چکی ہو یا قرض کے بعد بشرطیکہ اورروں کا نقصان نہ ہو یہ اللہ کا حکم ہے اور اللہ جاننے والا تحمل کرنے والا ہے۔

جاری ہے ۔۔۔
 
انفردی صورتحال، کسی معاشرے کے اصولوں کی درست غمازی نہیں‌کرتی۔ ایک بہت امیر معاشرہ میں بھک منگا اور بہت غریب معاشرے میں ایک امیر شخص ہو سکتا ہے۔
انفرادی صورتحال اور اجمتماعی معاشرتی صورتحال دونوں کو الگ دیکھنا ضروری ہے۔
قرآن مجید نہ صرف غلامی کو حلال قرار دیتا ہے بلکہ لونڈیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی بھی کھلی اجازت دیتا ہے۔
[ayah]33:50[/ayah]:
خیال رہے کہ ایک آزاد عورت سے نکاح کے وقت اس کی مرضی پوچھی جاتی ہے مگر لونڈی کو غلام بناتے وقت یا اس سے جنسی تعلقات کے وقت کوئی اس کی مرضی نہیں پوچھتا۔
جو نتائج [ayah]33:50[/ayah] سے اخذ کئے گئے ہیں وہ دونوں غلط ہیں ۔ لونڈیوں اور غلاموں کو آزاد کرنے کے بارے میں جو احکامات آئے، اس کے بارے میں‌میرا آرٹیکل دیکھئے ۔ سب انسان قابل اکرام واحترام ہیں

آپ دیکھیں گے کہ مسلم معاشرہ میں
1۔ اللہ تعالی نے سب کو لائق احترام و اکرام ٹھیرایا
2۔ مندرجہ بالاء آیت میں لونڈی اور غلام کو حلال قرار دیا اور [ayah]24:33[/ayah] میں ان سے نکاح کے اصول بتائے۔ یعنی شادی کی جائے گی ان سے۔
3۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ ان غلاموں کو اچانک آزاد کردیا گیا تو ان کا کیا ٹھکانہ ہوگا، ان کے مالکان کو حکم دیا کہ غلام اور لونڈی، خود اپنی مرضی سے جب چاہے آزاد ہو سکتے ہیں۔ اس طرح غلامی کا بتدریج خاتمہ کیا۔ غلامی ممنوع ہے اللہ کے حکم سے۔
4۔ اور کسی لونڈی کو بنا مناسب نکاح کے کریہہ تعلقات پر مجبور کرنے پر پابندی لگائی۔ حلال کے معنے ہوئے، کہ شادی کرسکتے ہیں ان سے۔ حرام فرمادیتے تو شادی بھی نہ کرسکتے۔ یہ لونڈیوں اور غلاموں پر ظلم ہوتا۔

موت کے بعد جائیداد میں حصے کے سلسلے میں بھی اسلام عورت کو مرد سے آدھا حصہ دیتا ہے۔
[AYAH]4:11[/AYAH]
اس آیت [AYAH]4:11[/AYAH] سے وصیت کی عدم موجودگی میں عورتوں کے نسبتاَ کم حصے سے کے حکم سے، یہ تعین کرنا کہ معاشرے میں اللہ تعالی عورتوں کو معاشرے میں بھی آدھا مقام دیتے ہیں درست نہیں۔ گھریلو مالی حالات کا تعلق مسلم معاشرے میں عورت کے مقام سے کچھ بھی نہیں۔ یہ تو ایسا کہ دو گریجویٹ‌ ڈاکٹرز میں اچھا ڈاکٹر وہ کہلائے جسے بہتر تنخواہ کی نوکری مل جائے؟ چاہے ان دونوں میں سے کم تنخواہ والا بہتر ڈاکٹر ہو۔ اور پھر آپ اس سے معاشرے کا اصول بنا لیں کہ اچھا ڈاکٹر وہ ہے جس کی تنخواہ زیادہ ہے؟

آپ عورتوں کے معاشرے میں ‌مساوی مقام کے بارے میں درست آیات کے لئے یہ آرٹیکل دیکھئے۔ معاشرے میں خواتین و حضرات کا مساوی مقام

کسی کے مقام کے تعین میں، کسی کو گھر سے کیا ملا اس کی کیا اہمیت؟ ۔ عموما یہ دولت اس وقت ملتی ہے جب ایک مرد یا عورت معاشرے میں اپنے مقام حاصل کرچکا ہوتا ہے۔ اور اس مقام کے تعین میں‌ مرد و عورت میں اللہ تعالی تمیز نہیں کرتے۔ آپ گھریلو انفرادی تصویر کو اجتماعی معاشرتی تصویر میں شامل کیجئے، لیکن اس کو خلط ملط کرکےنامناسب نتائج نہ اخذ کیجئے :) اللہ کی ہدائت کو بغور پڑھئے اور اس کے بہتر پہلو کی پیروی کیجئے۔ اللہ تعالی ایسے لوگوں کو عقل مند قرار دیتے ہیں۔

[AYAH]39:18[/AYAH] جو لوگ بات کو غور سے سنتے ہیں، پھر اس کے بہتر پہلو کی اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت فرمائی ہے اور یہی لوگ عقل مند ہیں
 

سپینوزا

محفلین
انفردی صورتحال، کسی معاشرے کے اصولوں کی درست غمازی نہیں‌کرتی۔ ایک بہت امیر معاشرہ میں بھک منگا اور بہت غریب معاشرے میں ایک امیر شخص ہو سکتا ہے۔
انفرادی صورتحال اور اجمتماعی معاشرتی صورتحال دونوں کو الگ دیکھنا ضروری ہے۔

آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔ میں نے کونسی انفرادی بات کی ہے؟ قرآن اور سنت کی بات کر رہا ہوں کہ ان کے احکام سب مسلمانوں پر لازم ہیں۔

جو نتائج [ayah]33:50[/ayah] سے اخذ کئے گئے ہیں وہ دونوں غلط ہیں ۔ لونڈیوں اور غلاموں کو آزاد کرنے کے بارے میں جو احکامات آئے، اس کے بارے میں‌میرا آرٹیکل دیکھئے ۔ سب انسان قابل اکرام واحترام ہیں

یہ آپ کہتے ہیں۔ قابلِ احترام ہونا ایک بات ہے اور ملکیت دوسری۔ آپ کوئی مسلمان عالم جو بیسویں صدی سے پہلے کا ہو اس کا قول اس بارے میں مجھے ڈھونڈ کر لا دیں۔ اگر نہیں تو پھر یہ مانیں‌کہ اسلام کبھی دنیا میں موجود ہی نہیں‌تھا۔

اگر آپ میرے دیئے ہوئے لنک دیکھیں تو ہزاروں روایات ہیں جن کے مطابق حضرت محمد کئی لونڈیوں‌کے مالک تھے اور بغیر نکاح کے ان سے تعلقات تھے۔ اسی طرح بہت سے اکابر صحابہ بھی لونڈیوں‌اور غلاموں‌کے مالک تھے اور لونڈیوں سے ان کی اولاد بھی تھی۔

مندرجہ بالاء آیت میں لونڈی اور غلام کو حلال قرار دیا اور [ayah]24:33[/ayah] میں ان سے نکاح کے اصول بتائے۔ یعنی شادی کی جائے گی ان سے۔

کیا یہ بات کسی حدیث سے ثابت ہے؟ کسی محدث، فقیہہ، مفتی یا مؤرخ نے اس بارے میں کچھ لکھا؟ نہیں۔ یہ ماڈرن زمانے کا رجحان ہے۔ پرانے وقتوں کے عالم لونڈی کے مالک کو کھلی اجازت دیتے ہیں اور نکاح کی شرط نہیں رکھتے۔ کیا وہ سب صحیح ہیں یا آپ اور دو چار ماڈرن عالم؟

3۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ ان غلاموں کو اچانک آزاد کردیا گیا تو ان کا کیا ٹھکانہ ہوگا، ان کے مالکان کو حکم دیا کہ غلام اور لونڈی، خود اپنی مرضی سے جب چاہے آزاد ہو سکتے ہیں۔ اس طرح غلامی کا بتدریج خاتمہ کیا۔ غلامی ممنوع ہے اللہ کے حکم سے۔

ماشاءاللہ! کیا لاجک ہے!! تاریخ پڑھیں تو شاید معلوم ہو کہ کسی مسلمان نے غلامی کا کوئی بتدریج خاتمہ نہیں کیا۔ اگر غلامی کے خاتمے کا کریڈٹ کسی کو دیا جا سکتا ہے تو تاجِ برطانیہ کو (اور ان کے کرتوت بھی بس ماشاءاللہ ہی تھے)۔ اسلام کے مرکز مکہ اور مدینہ میں تو غلامی 1962 عیسوی تک قائم تھی۔
 
آرٹیکلز پڑھے بغیر جواب لکھے ہیں۔ عالموں کو چھوڑیں آپ نے تو الزام قرآن پر رکھا ہے نہ کہ عالموں پر؟۔ پہلے قرآن کی آیات تو دیکھ لیں ان آرٹیکلز میں اور پھر ان آیات پر تبصرہ کریں۔ پھر عالموں‌ پر لکھتے رہئے گا۔
 

ظفری

لائبریرین
بڑی ہی افسوس کی بات ہے کہ یہاں کھلم کھلا کس قسم کے بہتان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر لگائے جارہے ہیں ۔ اور قرآن کی آیتوں کے خاص خاص حصے Quote کرکے ان کے مفہوم میں ابہام پیدا کیا جارہا ہے ۔ مگر یہاں کے امیر المسلین جنہوں‌ نے یہاں کئی ٹاپکس پر اپنی ایمان اور علم و فضلیت کے جھنڈے نصب کیئے تھے۔ وہ سب خاموش ہیں ۔ اور ان بہتان کے جوابات بھی کون دے رہا ہے جس کے خلاف ابھی کچھ دن پہلے فتوؤں کی پوری ٹوکری اس کے سر پر انڈیل دی گئی تھی ۔

( انااللہ وانا اللہ راجعون )
 

سپینوزا

محفلین
فاروق: آپ کو بعد میں جواب دیتا ہوں۔

ظفری اور ظہور: کیا آپ دونوں واضح کریں گے کہ میں نے قرآن میں‌کیا تحریف کی ہے؟ فاروق کی سائٹ اوپن برہان سے احمد علی کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ اگر آپ کو اس پر اعتراض ہے تو کوئی اور ترجمہ بتا دیں جو آن‌لائن دستیاب ہو بلکہ اوپن برہان کا جو لنک ہے وہاں بہت سے ترجمے ہیں پڑھ لیں۔ سب کا مفہوم وہی ہے جو میں نے کہا۔ تفاسیر میں شبیر احمد عثمانی، شفیع عثمانی، ابن کثیر وغیرہ سب کا یہی خیال ہے کہ لونڈیوں سے جنسی تعلقات کی اجازت ہے۔
 
اپنے کسی بھی آیت کے ترجمہ میں وضاحت فرمائیے کہ کونسا حصہ ایسے تعلقات کی اجازت دیتا ہے۔ علماء کو اللہ سے فی الحال دور رکھئے۔ پہلے قرآن کا درست ترجمہ اور حوالہ دیکھ لیجئے۔ اگر قرآن کچھ کہتا ہے اور پھر ثابت کریں کہ کس عالم نے اس کے خلاف عمل کیا ہے یا موفقت میں‌ لکھا ہے۔

ہم سب سے عرض۔
1۔ کسی بھی مرحلہ پر ذاتی حملوں سے گریز کیجئے۔ بات کو سمجھنے سمجھانے کی حد تک رکھئے۔ ہم میں سے کوئی بھی ذاتی حملہ کرے تو دوسرا اس کی نشاندہی کرے اور پہلا معافی مانگے اور بے بنیاد حملہ کو حذف کرے۔ ورنہ بات آگے نہیں بڑھے گی۔ اختلافات اور سوچوں کا ارتقا اپنی جگہ، ہم سب لائق احترام ہیں۔ لہذا یہ احترام اختلافات میں بھی ملحوظ رکھئے۔

قرآن سے تصریف:
قرآن کی وسیع تر فہم اور گہری فہم رکھنے کے لئے قرآنی تصریف کا طریقہ یہ ہے۔کہ قرآن کی ایک آیت دوسری آیت کی مدد سے مزید گہرا ادراک و فہم فراہم کرتی ہے۔اس کی وضاحت اللہ تعالی اس طرح قرآن میں فرماتے ہیں۔ بغور پڑھئیے:

اللہ تعالی اس طرح قرآن میں آپ کو معانی کھول کر بیان کرتے ہیں۔
[ayah]6:115[/ayah] اور آپ کے رب کی بات سچائی اور عدل کی رُو سے پوری ہو چکی، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں، اور وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے
[ayah]75:17[/ayah] بے شک اسے جمع کرنا اور اسے پڑھانا ہمارا ذِمّہ ہے
[ayah]75:18[/ayah] پھر جب ہم اسے پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریں
[ayah]75:19[/ayah] پھر بے شک اس (کے معانی) کا کھول کر بیان کرنا ہمارا ہی ذِمّہ ہے

اللہ تعالی اس طرح قرآن میں آپ کو ایک ہی بات بار بار نصیحت کرنے کے لئے بتاتے ہیں:
[ayah]17:41[/ayah] اور بیشک ہم نے اس قرآن میں (حقائق اور نصائح کو) انداز بدل کر بار بار بیان کیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں، مگر (منکرین کا عالم یہ ہے کہ) اس سے ان کی نفرت ہی مزید بڑھتی جاتی ہے
[ayah]17:89[/ayah] اور بیشک ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ہر طرح کی مثال (مختلف طریقوں سے) بار بار بیان کی ہے مگر اکثر لوگوں نے (اسے) قبول نہ کیا (یہ) سوائے ناشکری کے (اور کچھ نہیں)
[ayah]18:54[/ayah] اور بیشک ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ہر طرح کی مثال کو (انداز بدل بدل کر) بار بار بیان کیا ہے، اور انسان جھگڑنے میں ہر چیز سے بڑھ کر ہے

اللہ تعالی اس طرح قرآن کو آسانی سے سمجھنے والی کتاب بناتے ہیں:
[ayah]12:2[/ayah] بیشک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکو
[ayah]54:17[/ayah] اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے

جب ایک اصول طے ہوجائے تو آگے چلیں۔

یہاں جو معنے اخذ کئے ہیں کہ بس جائز قرار دے دیا تو پکڑلو ان عورتوں کو۔ ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ کا اصول استعمال کیا جائے تو پھر لونڈی پر کیو‌ں رکا جائے، اس کے بعد والی پوری لسٹ بھی تو جائز قرار دی گئی ہے؟ تو کیا لونڈی کی طرح خالہ، چچا، پھوپھی زادوں کو بھی بنا شادی کے جائز قرار دیا جائے گا؟

آپ انشاء اللہ دیکھیں گے کہ جائز قرار دینے کا بس اتنا مطلب ہے کہ آپ لونڈی سے شادی کرسکتے ہیں۔ بس انا کا مسئلہ نہ بنائیے۔ جہاں‌سمجھ آتا ہے مانئیے۔
 

عاصم

محفلین
مجھے تو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آپکو اعتراض کیا ہے؟ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اسلام باندیوں سے تعلقات کی اجازت دیتا ہے۔اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا نکاح کم عمری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا۔ اور اسلام میں عورت کا حصہ مرد کے حصے کا آدھا ہے۔اس میں پرشانی والی تو کوئی بات نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
محترم منصور حلاج

آغاز ایک جملہ معترضہ، یا سخن گسترانہ بات سے کر رہا ہوں، امید ہے برا نہیں مانیں گے کہ اس محفل کے اصول و قواعد کے مطابق آپ کسی بھی عقیدے کے متعلق پوسٹ کرسکتے ہیں لیکن یہ بھی تحریر ہے کہ آپ کوئی ایسی بات تحریر نہیں فرمائیں گے جس سے دوسروں کی دل آزاری ہو۔ لیکن آپ کی اس پوسٹ سے میری دل آزاری ہوئی ہے۔ اور سخن گسترانہ بات یہ کہ آپ نے اپنے سگنیچرز میں دو سطریں لکھ کر اور مرحوم سپائنوزا کا نام تحریر فرما کر اسطرح کا اعلان کیا ہے جسطرح ہمارے اردو کے اخبارارت میں "گھٹیا" فلموں کے اشتہارات میں لکھا ہوتا ہے "سنسر کی پابندیوں سے آزاد"۔ وگرنہ جسطرح کی رطب و یابس آپ تحریر فرما رہے ہیں، سپائنوزا اور اسکی تعلیمات ان سے بہت اعلٰی و ارفعی ہیں۔

دوئم، ہم مسلمان، اپنے رسولِ اکرم (ص) کے اس قول پر دل و جان سے ایمان رکھتے ہیں کہ "عملوں کا دار و مدار نیتوں" پر ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ایک Atheist، مذہب سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کرکے تمام اخلاقی و معاشرتی رسوم و قیود سے بھی آزاد ہو جاتا ہے یا نہیں، لیکن آپ کی مندرجہ بالا تحریر سے تو یہی ثابت ہو رہا ہے کہ اپنے Atheism کا اعلان فرما کے اپنے آپ کو اخلاقی و معاشرتی اصولوں سے بھی "آزاد" ہی سمجھ رہے ہیں، اور اگر بڑے مہذب الفاظ بھی استعمال کروں تو یہی لکھ سکتا ہوں کہ آپ کی پوسٹ "بد نیتی" پر مشتمل ہے۔ کیسے؟ دیکھئے گا۔۔۔۔۔

آپ نے عنوان دیا ہے "اسلام میں عورت کا مقام" اور بات سیدھی شروع کردی، غلام، لونڈی، بیوی اور انسے جنسی تعلقات کی۔ تو کیا آپ کے نزدیک "عورت" صرف ایک جنسی تلذذ کا ذریعہ ہے۔ عورت کا روپ کیا صرف بیوی اور لونڈی کا ہے؟ ماں، بیٹی، بہن کیا عورت کے روپ نہیں ہیں۔ آپ نے کہیں ذکر نہیں کیا کہ اسلام، عورت کو ان کرداروں میں کیا مقام دیتا ہے۔

کیا قرآن میں والدین کے حق میں (جن میں عورت "برابر" کی شریک ہے) وارد ہونے والی آیاتِ بینات آپکی نظروں سے نہیں گزریں؟ کیا آپ نے کبھی وہ حدیثِ مبارکہ سنی جس میں جنت کو ماں کے قدموں تلے کہا گیا ہے۔ کیا وہ احدیث و اسلامی تعلیمات آپکی نظروں سے کبھی گزریں جن میں اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ کیا اسلام بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم نہیں دیتا کہ انہیں کیا ایک آلۂ تلذذ ہی سمجھتا ہے، یہ بات بہت لمبی ہوسکتی ہے لیکن مختصر کرتا ہوں کہ یہ بدیہات میں سے ہیں اور اسکو سمجھنے کیلیے نہ تو کسی "علم" کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی مذہب کو ماننے یا نہ ماننے سے۔

رہی جنسی تعلقات والی بات، تو فاروق سرور خان صاحب نے، بالکل صحیح فرمایا کہ آپ سیاق و سباق سے ہٹ کر قرآنی آیات کا حوالہ دے رہے ہیں یہ ویسے ہی جیسے کہا جائے کہ قرآن کہتا ہے کہ نماز کے قریب مت جاؤ، اور اسکی دلیل میں آیت کا ایک ٹکڑا پیش کردیا جائے۔

قرآن فہمی، میں ایک بات بہت ضروری ہے کہ اسکے شانِ نزول کو سمجھا جائے، حضرت علی کے ایک قول کا مفہوم ہے کہ میں قرآن کی ہر آیت کے متعلق بتا سکتوں کہ یہ کب نازل ہوئی، کسلیے نازل ہوئی، پہاڑ پر نازل ہوئی کہ میدان میں۔ مطلب اسکا یہ ہے کہ یہ جاننا از بس بہت ضروری ہے کہ قرآن جس علاقے، جگہ، ماحول و افراد کے درمیان نازل ہوا، اس وقت انکی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی اقدار کیا تھیں۔ جسے آپ "اجازت" سمجھ رہے ہیں آج کے ماحول میں، وہ اس وقت کے ماحول میں ایک "قدغن" تھی۔ اگر عرب کی اسلام سے پہلے اور اسلام و قرآن کے نزول کے دوران کی تاریخ آپکے سامنے ہو تو جان جائیں گے کہ اس وقت عربوں کے درمیان، بیسیوں بلکہ سینکڑوں عورتوں سے، بلا کسی قدغن کے تعلقات قائم کرلینا ایک معمولی بات تھی جس کو اسلام و قرآن نے باقاعدہ شرائط و قیود کے ساتھ نتھی کردیا اور ایک حد مقرر کردی۔ غلاموں اور لونڈیوں کا اب اسلامی دنیا میں کوئی وجود نہیں اور اگر کہیں ہے تو اسے کوئی صاحبِ عقلِ سلیم اسلامی نہیں کہے گا بلکہ غیر اسلامی ہی کہے گا۔

رہی وراثت میں آدھے حصے کی بات، تو یہ بھی آپ نے غلط قیاس کیا ہے۔ ذرا، جہلیت کے زمانے کے عرب پر ایک نظر دوڑائیے، اور آجکے ترقی یافتہ دور کے ممالک، بالخصوص، برصغیر پاک و ہند، کہ جہاں کے ہم رہائشی ہیں، پر بھی۔ آپ پر خود بخود واضح ہوجائے گا کہ وراثت کے نام پر عورت کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ جب کہ اسلام، عورت کو وراثت میں باقاعدہ ایک حصہ دیتا ہے۔ یہ "کم حیثیتی" نہیں "عزت افزائی" ہے۔ اور دنیا کے کئی مذاہب میں آج بھی عورت، وراثت میں ایک پیسے کی بھی حصہ دار نہیں ہے۔

آپ نے جو باتیں چھیڑی ہیں وہ نئی نہیں ہیں، ہزاروں سالوں سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے اور شاید چلتا بھی رہے گا، لیکن ان سب اور آپکی تحریر میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ سب بدنیتی پر مشتمل ہیں۔ وگرنہ آپ اپنے ٹاپک کا نام یا تو کچھ اور رکھتے یا اسلام میں عورت کے بحیثیت دیگر کردار بھی زیرِ بحث لاتے۔
 
منصور صاحب میں آپ کی اس پوسٹ پر بات کرنے سے پہلے یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ آپ نے اپنا عقیدہ دہریت تحریر کیا ہے اور جہاں تک میں دہریت کو سمجھا ہوں وہ مذاہب ہی نہیں خدا کی ذات کے انکار سے بات کا آغاز کرتے ہیں اور اسی پر ان کے عقائد کی بنیاد استوار ہے تو آپ نے کس وجہ سے بجائے وجود خدا کی بحث کے ایک خاص‌ مذہب کے خاص احکامات پر ایک خاص انداز میں گفتگو شروع کر دی۔

عموما دہریے کسی کے مذہب یا عقائد سے تعرض نہیں کرتے اور اگر بات کرتے ہیں تو اس پر کہ خدا کا وجود ہی نہیں ہے اس لیے مذاہب کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا مگر آپ ان چند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو منفی تنقید کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں ، اس کی کوئی خاص وجہ ہے کیا کیونکہ آپ کے انداز میں علمی یا تحقیقی لگن نہیں بلکہ چوٹ کرنا ہے ۔
 

سپینوزا

محفلین
فاروق: میں نے اپنی پہلی پوسٹ میں لونڈی سے متعلق جن آیات کا ذکر کیا اس کے علاوہ دو اور آیات بھی ہیں:

[ayah]23:6[/ayah]: بیشک ایمان والے مراد پا گئے۔ جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں۔ اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں۔ اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیں۔ اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں۔

[ayah]70:30[/ayah]: اور وہ لوگ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی منکوحہ بیویوں کے یا اپنی مملوکہ کنیزوں کے، سو (اِس میں) اُن پر کوئی ملامت نہیں۔

اگر آپ ان دونوں آیات پر غور کریں تو بیویوں اور لونڈیوں‌کا الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔ اگر لونڈیوں سے نکاح کرنے ہی کی اجازت دی گئی ہے تو پھر لونڈیوں‌ کا علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ بیوی یا منکوحہ کا ذکر ہی کافی ہے۔

اگر آپ حدیث‌ کو مانتے ہوں تو غور کریں کہ حضرت صفیہ اور ماریہ قبطیہ میں کیا فرق ہے۔ یہی کہ حضرت صفیہ کو لونڈی بنا کر حضرت محمد کے پاس پیش کیا گیا مگر انہوں نے انہیں آزاد کر کے نکاح کیا اور ماریہ قبطیہ کو لونڈی کے طور پر رکھا۔

دوسرے اگر تمام تاریخ اور حدیث اور تفسیر کو چھوڑ دیا جائے تو پھر اسلام کا بچا کیا؟ یہ تو وہ بات ہوئی کہ اسلام کبھی دنیا میں تھا ہی نہیں۔ خیال رہے کہ میں مذہب کے معاملے میں nominalism کا قائل ہوں۔
 

سپینوزا

محفلین
مجھے تو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آپکو اعتراض کیا ہے؟ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اسلام باندیوں سے تعلقات کی اجازت دیتا ہے۔اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا نکاح کم عمری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا۔ اور اسلام میں عورت کا حصہ مرد کے حصے کا آدھا ہے۔اس میں پرشانی والی تو کوئی بات نہیں ہے۔

واہ کیا بات ہے عاصم۔ میں بیٹیوں کا باپ ہوں۔ مجھے تو بہت عجیب لگتا ہے کہ میری 5، 6 سالہ بیٹی کے متعلق کوئی خواب دیکھے اور اس سے نکاح کرے یا 9 سالہ بیٹی سے ۔۔۔۔ کرے۔

یہ بھی یاد رہے کہ غلامی ایک انسان کی دوسرے انسان کی ملکیت سکھاتی ہے۔ انسانی حقوق کی یہ صریح خلاف‌ورزی ہے۔ اور آزاد عورت سے نکاح کے وقت اجازت لی جاتی ہے مگر لونڈی سے جنسی تعلقات کے لئے اجازت مانگنے کا ذکر اسلامی لٹریچر کہاں ہے؟
 

سپینوزا

محفلین

مجھے علم نہیں کہ یہ صاحب احمدی تھے یا نہیں۔ البتہ آپ کی خاطر اس بار میں نے طاہر القادری کا ترجمہ استعمال کیا ہے۔ جیسا میں کہہ چکا ہوں آپ جو ترجمہ چاہیں استعمال کر لیں۔ تقریبا سب میں یہی ملے گا۔
 

سپینوزا

محفلین
وارث: آپ نے میری atheism پر جو الزامات لگائے ہیں‌ ان کا جواب میں آپ کو نہیں دوں گا۔

رہی بات کہ میری نیت غلط تھی تو نہیں ایسی بات نہیں۔ یہ اقرار میں کرتا ہوں کہ میں نے آغاز ایسی باتوں سے کیا جو مجھے بہت تنگ کرتی ہیں۔ البتہ میں نے پہلی پوسٹ کے آخر میں لکھا تھا "جاری ہے" اور میرا ارادہ قرآن اور حدیث کے حوالے سے عورت کے معاملے میں تمام اہم اقوال اکٹھے کرنا ہے چاہے وہ برے ہوں یا اچھے۔

میں آپ سے متفق ہوں کہ لونڈی سے جنسی تعلقات کی اجازت پرانے عرب کے طریقے سے ایک قدغن ہی تھی اور اسلام سے پہلے کے مقابلے میں عورتوں کا مقام اسلام نے بہت بہتر کیا۔ مگر آج کے زمانے سے یہ بہت خراب صورتحال ہے۔ خیال رہے کہ کئی سلفی سکالر کہتے ہیں کہ غلامی کو آج کے زمانے میں بھی حرام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
 

سپینوزا

محفلین
منصور صاحب میں آپ کی اس پوسٹ پر بات کرنے سے پہلے یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ آپ نے اپنا عقیدہ دہریت تحریر کیا ہے اور جہاں تک میں دہریت کو سمجھا ہوں وہ مذاہب ہی نہیں خدا کی ذات کے انکار سے بات کا آغاز کرتے ہیں اور اسی پر ان کے عقائد کی بنیاد استوار ہے تو آپ نے کس وجہ سے بجائے وجود خدا کی بحث کے ایک خاص‌ مذہب کے خاص احکامات پر ایک خاص انداز میں گفتگو شروع کر دی۔

عموما دہریے کسی کے مذہب یا عقائد سے تعرض نہیں کرتے اور اگر بات کرتے ہیں تو اس پر کہ خدا کا وجود ہی نہیں ہے اس لیے مذاہب کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا مگر آپ ان چند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو منفی تنقید کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں ، اس کی کوئی خاص وجہ ہے کیا کیونکہ آپ کے انداز میں علمی یا تحقیقی لگن نہیں بلکہ چوٹ کرنا ہے ۔

اس کیا خاص نہیں بلکہ ایک عام سی وجہ ہے۔ میں ایک ثقافتی مسلمان ہوں اور میرے ارد گرد بہت مسلمان ہیں لہذا اسلام اور مسلمانوں سے مجھے گہری دلچسپی ہے۔
 

سپینوزا

محفلین
اگر آپ لوگ لونڈیوں سے متعلق میری بات نہیں مانتے تو شیخ منجد ہی کی بات سن لیں:

بیوی کے ہوتے ہوئے لونڈی سے جماع کا حکم

سوال :
کیا بیوی کے ساتھ تعلقات کے ہوتے ہوئے لونڈی کے ساتھ جماع کرنا مسموح ہے ؟
آیا یہ صحیح ہے کہ بیوی کے ہوتے ہوئے مرد کولونڈیوں سے جماع کا حق حاصل ہے ؟
میں نے پڑھا ہے کہ علی رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس اٹھارہ 18 اورعمر رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس بھی بہت سی لونڈیاں تھیں ، اورکیا بیوی کواس معاملہ میں کسی رائے کا حق ہے ؟

جواب:
الحمد للہ
دین اسلام نے مرد کےلیے چاہے وہ شادی شدہ ہو یا کنواراپنی لونڈی سے جماع کرنا مباح کیا ہے ۔
جماع کے لیے مخصوص لونڈي کوسريہ کہتے ہيں اوریہ السر سے ماخوذ ہے جس کا معنی نکاح ہے ۔

اس پر قرآن و سنت دلالت کرتے ہیں ، اورانبیاء علیھم السلام نے بھی اس کام کوسرانجام دیا ہے ، ابراھیم علیہ السلام نے ھاجر سے نکاح کیا جس سے اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے ۔

اورہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ فعل ثابت ہے اوراسی طرح صحابہ کرام رضي اللہ عنھم اورعلماء و صالحون سب سےیہ فعل ثابت ہے ، اس پر سب علماء کرام کا اجماع ہے ، اور کسی ایک کے لیے بھی یہ حلال نہيں کہ وہ اس فعل کوحرام کرتا پھرے یا پھر اس سے منع کرے ۔

بلکہ جوبھی اس فعل کوحرام کہے گا وہ گنہگار اوراجماع کا مخالف ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے انصاف نہیں کرسکو گے تواور عورتوں میں سے جوبھی تمہیں اچھی لگيں تم ان سے نکاح کرلو ، دو دو ، تین تین ، چار چار سے ، لیکن اگر تمہیں برابری اورعدل قائم نہ کرسکنے کا ڈر ہوتوایک ہی کافی ہے ، یا پھر تمہاری ملکیت کی لونڈی یہ زیادہ قریب ہے کہ ( ایسا کرنے سے ناانصافی اور ) ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ } النساء ( 3 ) ۔

اس آیت میں { ملکت ایمانکم } کا معنی ہے کہ جوتم لونڈیاں اپنی ملکیت میں لے لو ۔

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

{ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے آپ کے لیے آپکی وہ بیویاں حلال کردی ہیں جنہیں آپ ان کے مہر دے چکے ہيں ، اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ تعالی نے غنیمت میں تجھے دی ہيں ، اورآپکے چچا کی بیٹیاں اورپھوپھو کی بیٹیاں اورآپ کے ماموں کی بیٹیاں اورتیری خالاؤں بیٹیاں بھی جنہوں نے آپ کے ساتھ ھجرت کی ہے ، اور وہ باایمان عورت جواپنا نفس بنی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کوھبہ کردے یہ اس صورت میں کہ نبی خود بھی اس سے نکاح کرنا چاہے ، یہ خاص طور پر آپ کے لیے ہی ہے اورمومنوں کے لیے نہیں ، ہم اسے بخوبی جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارہ میں ( احکام ) مقرر کر رکھے ہيں ، یہ اس لیے کہ تجھ پر کوئي حرج واقع نہ ہو ، اوراللہ تعالی بہت بخشنے والا اور بڑے رحم والا ہے } الاحزاب ( 50 ) ۔

اورایک مقام پراللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

{ اورجولوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہيں ، ہاں ان کی بیویوں اورلونڈیوں میں جن کے وہ مالک ہیں انہیں کوئي ملامت نہیں ، اب جوکوئي اس کے علاوہ کوئي اورراہ ڈھونڈے گا تو ایسے لوگ حد سے گزرنے والے ہوں گے } المعارج ( 29 – 31 ) ۔

امام طبری رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

اللہ جل ذکرہ کا فرمان ہے :

{ اوروہ لوگ جواپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہيں } یعنی وہ اللہ تعالی نے جوچيزان پرحرام کی ہے وہاں وہ اسے استعمال نہيں کرتے ، لیکن اگروہ اپنی بیویوں اورلونڈیوں پر استعمال کریں تو انہیں کوئي ملامت نہيں ۔

دیکھیں تفسیر الطبری ( 29 / 84 ) ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

ابراھیم علیہ السلام کی شریعت میں بیوی کے ہوتے ہوئے لونڈی سے جماع کرنا مباح تھا اورابراھیم علیہ السلام نے بھی جب سارہ رضی اللہ عنہ کے ہوتے ہوئے ھاجر کے ساتھ یہ فعل کیا ۔ دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 1 / 383 ) ۔

اورایک دوسری جگہ پر ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کچھ اس طر رقمطراز ہیں:

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اوروہ لونڈیاں بھی جواللہ تعالی نے آپ کوغنیمت میں دی ہیں } الاحزاب ( 50 ) ۔

یعنی آپ نے جوغنیمت سے لونڈیاں لی ہیں وہ بھی آپ کے لیے مباح ہیں ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں صفیہ ، جویریۃ ، رضی اللہ تعالی عنہن بھی تھیں جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرکے ان سے نکاح کرلیا تھا ، اور اسی طرح ریحانۃ بنت شمعون النضریۃ ، اورماریۃ قبطیۃ جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراھیم رضي اللہ تعالی عنھم کی والدہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت اورمیں تھیں ۔ دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 3 / 500 ) ۔

اوراس پر علماء کرام کا بھی اس کی اباحت پر اجماع ہے ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

لونڈیوں کے ساتھ وطئی کرنے میں کسی قسم کا بھی اختلاف نہيں پایا جاتا اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اورجولوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہيں ، ہاں ان کی بیویوں اورلونڈیوں کے بارہ میں جن کے وہ مالک ہیں انہیں کوئي ملامت نہیں } ۔

ماریۃ قبطیۃ رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراھیم رضي اللہ تعالی عنہ کی والدہ ہونے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ام ولد تھیں جن کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ( اسے اس کے بیٹے نے آزاد کردیا ہے ) ۔

اوراسماعیل علیہ السلام کی والدہ ھاجر رضي اللہ تعالی عنہا بھی ابراھیم خلیل علیہ السلام کی سریۃ تھیں ، اورعمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کی کئي ایک ام ولد تھیں جن کے بارہ میں انہوں نے ہرایک کے لیے چار‎سو کی وصیت فرمائي تھی ، اور اسی طرح علی رضی اللہ تعالی عنہ اوربہت سارے دوسرے صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم کے پاس بھی ام والد موجود تھیں ۔

علی بن حسین اورقاسم بن محمد اورسالم بن عبداللہ یہ سب ام ولد میں سے پیدا شدہ تھے ، یعنی علی ، قاسم ، اورسالم یہ تینوں لونڈیوں کی اولاد جسے ام ولد کہا جاتا ہے سے پیدا ہوئے تھے ۔ دیکھیں المغنی لابن قدامۃ ( 10 / 411 )

ام ولد اس لونڈی کو کہتے ہیں جس کے بطن سے اس کے مالک کی اولاد پیدا ہو۔

امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

فرمان باری تعالی ہے :

{ اوروہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں } الآیۃ الخ ۔

کتاب اللہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے شرمگاہوں کودومیں ایک وجہ کے ساتھ مباح قرار دیا ہے یا تو نکاح کے ساتھ اوریاپھر ملک یمین سے ۔ دیکھیں کتاب : الام للشافعی ( 5 / 43 ) ۔

اوررہا مسئلہ کہ آیا اس میں بیوی کا کوئی دخل اور رائے ہے کہ نہيں تواس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ بیوی کی لونڈیوں کے ساتھ جماع کرنےمیں کوئي رائے نہیں ۔

واللہ اعلم .



الشیخ محمد صالح المنجد

خیال رہے کہ یہ صاحب صرف قرون اولٰی میں ہی اسے حلال قرار نہیں دے رہے بلکہ آج کے دور میں بھی اسے حرام کرنے کے مخالف ہیں:

اورہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ فعل ثابت ہے اوراسی طرح صحابہ کرام رضي اللہ عنھم اورعلماء و صالحون سب سےیہ فعل ثابت ہے ، اس پر سب علماء کرام کا اجماع ہے ، اور کسی ایک کے لیے بھی یہ حلال نہيں کہ وہ اس فعل کوحرام کرتا پھرے یا پھر اس سے منع کرے ۔

بلکہ جوبھی اس فعل کوحرام کہے گا وہ گنہگار اوراجماع کا مخالف ہے ۔
 
‌ بیوی اور ملکت ایمانکم سے نکاح کی شرائط

میں‌یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ قانون سازی میرا حق نہیں۔ میری کوئی بات نہ فتوی ہے نہ قانون۔ قانون سازی قانون ساز اداروں کا حق ہے۔ یہ سارا ڈسکشن میں ان صاحب سے مناسب قرآن فہمی کی مد میں کر رہا ہوں۔ میرا جواب کسی طور نکاح کے بارے میں‌ کوئی فتوی نہیں ۔ اس کے لئے آپ کوئی مناسب کتاب استعمال کیجئے۔ یہاں‌صرف اتنا دکھایاگیا ہے کہ اسلام میں غلامی ختم کردی گئی ہے۔

[AYAH]33:50[/AYAH]
فاروق: میں نے اپنی پہلی پوسٹ میں لونڈی سے متعلق جن آیات کا ذکر کیا اس کے علاوہ دو اور آیات بھی ہیں:

[ayah]23:6[/ayah]: بیشک ایمان والے مراد پا گئے۔ جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں۔ اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں۔ اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیں۔ اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں۔

[ayah]70:30[/ayah]: اور وہ لوگ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی منکوحہ بیویوں کے یا اپنی مملوکہ کنیزوں کے، سو (اِس میں) اُن پر کوئی ملامت نہیں۔

اگر آپ ان دونوں آیات پر غور کریں تو بیویوں اور لونڈیوں‌کا الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔ اگر لونڈیوں سے نکاح کرنے ہی کی اجازت دی گئی ہے تو پھر لونڈیوں‌ کا علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ بیوی یا منکوحہ کا ذکر ہی کافی ہے۔
صاحب اس موضوع کا ٹاپک ہے 'اسلام میں عورت کا مقام' اور شروع کررہے ہیں بیوی اور ملکت ایمنکم سے سے نکاح سے؟ کچھ کنفیوژن ہے۔

جو جملہ میں نے سرخ کیا ہے وہ نا تو سوال ہے اور نہ ہی بیان۔ کیا آپ کا سوال یہ ہے کے دونوں‌کا الگ الگ ذکر کیوں کیا؟ وضاحت فرمائیں۔
اگر یہی سوال ہے تو جواب یہ ہے کہ :‌ضروری تھا۔

پہلے آپ نکاح کے بارے میں دیکھئے۔ درج ذیل آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 'ملکت ایمانکم' کو حق حاصل ہے کہ وہ آزادی طلب کرلیں۔ اور ان کی اجازت کے بغیر ان کو کریہہ یعنی(زبردستی بدکاری پر مجبور نہ کیا جائے

[ayah]24:33[/ayah] اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو مکاتب (غیر مشروط پروانہ آزادی) چاہیں تو انہیں مکاتب (پروانہء آزادی عطا) کر دو اگر تم ان میں بھلائی جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے دو جو اس نے تمہیں عطا فرمایا ہے، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہیں، اور جو شخص انہیں (بدکاری پر) مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہو جانے کے بعد (بھی) بڑا بخشنے والا مہربان ہے

مزید دیکھئے
[AYAH]4:25[/AYAH] اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کرلے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آجائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے

[AYAH]33:50[/AYAH] اور [AYAH]4:25[/AYAH] واضح کرتی ہے کہ ملکت ایمانکم یعنی لونڈی غلام سے نکاح جائز ہے اور کہ خاندان یا معاشرہ ان سے شادی پر شور و غوغا نہ کرے۔ اور [ayah]24:33[/ayah] صاف صاف وضاحت کرتی ہے کہ کوئی ان ملکت ایمانکم سے زبردستی نہیں کر سکتا۔ اور یہ جب چاہیں آزادی طلب کرسکتے ہیں۔ آپ [ayah]24:33[/ayah] کے تمام ترجمے دیکھئے۔ یہ وہ آیت ہے جس کا ترجمہ 'ذرا ڈھک چھپ' کر کیا جاتا ہے۔ نعوذ باللہ۔ دوسرے مترجمین کے ترجمے اور الفاظ کے معانی سے واضح‌ ہے کہ لونڈی غلام کو آزادی کا حق حاصل ہے اور ان پر زبردستی نہیں کی جاسکتی۔ ان کی اجازت کے بعد ادا شدہ مال کو مہر تصور کیا جائیگا۔ اس مقام سے ان کے مزید حقوق قرآن بیان کرتا ہے۔

مقصد یہان تھا کہ بتایا جائے کہ غلاموں کے بارے میں آیات اس دورانیہ کے بارے میں حکم ہے کب تک سب آزاد نہ ہو جائیں اور غلام و لونڈی کو حق دیا گیا کہ و آزاد ہو سکتے ہیں یا ان سے شادی کرلو، جو کہ درپردہ ایک آزادی ہے۔

بھائی۔ کسی کے نکاح سے اس کا معاشرہ میں میں مقام کا تعین نہیں ہوتا۔ غلام تو مردوں کو بھی بنایا گیا۔ اس سے کیا مردوں کا درجہ کم ہو جائے گا؟

آئیندہ پوسٹ میں دیکھئے مردوں اور عورتوں کا معاشرہ میں مقام۔
والسلام۔
 
اسلامی معاشرہ میں عورتوں اور مردوں کا مساوی مقام۔

آپ نے عورتوں کے مقام کی شروعات شادی سے کی جس کے جواب میں آپ کو بتایا گیا کہ اللہ تعالی، قراں میں، غلامی کا خاتمہ کرتا ہے اور جو ملکت ایمانکم ہیں ان سے، ان کی مرضی کے مطابق، شادی کرکے بطور بیوی آزادی کا حکم دیتا ہے ۔

عورتوں اور مردوں کے مقام کا معاشرے میں تعین شادی سے نہیں ہوتا بھائی۔ اس کے لئے یہ ایات دیکھئے۔

معاشرے میں خواتین و حضرات کے مساوی مقام

قرآن حکیم، عورتوں‌اور مردوں کو معاشرے میں مساوی مقام دیتا ہے۔ اور آپس میں مل جل کر شان بہ شانہ رفیق و مدگار بن کر کام کرنے کا حکم دیتا ہے اور پیش گوئی کرتا ہے کہ ایسی رفاقت پر مبنی معاونت آخرت میں پر نور ثابت ہوگی۔ آئیے دیکھتے ہیں۔

[ayah]33:35[/ayah] بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے

سبحان اللہ! آپ کو کوئی چھوٹا یا بڑا نظر آ رہا ہے؟

اور مردوں اور عورتوں کو ایک پائیدار اور معیاری معاشرے کی تشکیل کے لئے ایک دوسرے کا رفیق و مددگار قرار دیتا ہے کہ وہ ایک اسلامی نظام سے آراستہ معاشرے کے قیام میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہوں۔ اچھی باتوں کا حکم دیں اور بری باتوں سے روکیں۔ اس عمل میں عورتوں اور مردوں کا مقام کیا ہے؟

[ayah]9:71[/ayah] اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے

قرآن کی ہر آیت ایک قانون ہے اور مسلمان پر فرض‌ ہے۔ جو لوگ ان آیات کو جھٹلا کر مسلمان مردوں اور عورتوں کو ان کے ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہونے پر تکلیف دیتے ہیں ان کو اس طرح مخاطب کرتا ہے۔

[ayah]33:58[/ayah] اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بیشک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا

اور جو لوگ رفیق و مددگار مردوں اور عورتوں پر لگائے گئے بہتان کو سن کر اس کو کھلا بہتان قرار نہیں دیتےتو اس طرح مخاطب کرتا ہے

[ayah]24:12[/ayah] ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس (بہتان) کو سنا تھا تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنوں کے بارے میں نیک گمان کر لیتے اور (یہ) کہہ دیتے کہ یہ کھلا (جھوٹ پر مبنی) بہتان ہے

خدا خود گواہی دیتا ہے کہ مومن مرد و عورتیں، معاشرے میں اپنے کام کی بناء پر اور فلاحی مملکت کے نظام کے کام میں اس آپسی رفاقت اور مددگاری کے باعث آخرت میں کس صورت ہوں گے۔

[ayah]57:12[/ayah] (اے حبیب!) جس دن آپ (اپنی امّت کے) مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی بہت بڑی کامیابی ہے

[ayah]4:124[/ayah] اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گے

اللہ کسی کا کام ضائع نہ کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت:
[ayah]3:195[/ayah] پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو، پس جن لوگوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور (اسی کے باعث) اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور (میری خاطر) لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان (کے نامہ اعمال) سے مٹا دوں گا اور انہیں یقیناً ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے، اور اللہ ہی کے پاس (اس سے بھی) بہتر اجر ہے

مرد و عورت کو نیکی کا بدلہ برابر عطا ہوگا۔
[ayah]40:40[/ayah] جس نے برائی کی تو اسے بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر صرف اسی قدر، اور جس نے نیکی کی، خواہ مرد ہو یا عورت اور مومن بھی ہو تو وہی لوگ جنّت میں داخل ہوں گے انہیں وہاں بے حساب رِزق دیا جائے گا

جنت میں بھی مرد و عورت مساوی حق سے داخل ہونگے کوئی حق تل۔فی مرد یا عورت ہونے کے ناطے نہ ہوگی۔
[ayah]4:124[/ayah] اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گی

ایک فلاحی ریاست کے قیام کا تصور عورتوں اور مردوں کی مساوی شمولیت کے بغیر نا ممکن ہے۔ اس مساوی شمولیت کے نتیجے میں اللہ تعالی جس معاشرے کی تخلیق فرما رہے ہیں، اس میں شامل مردوں اور عورتوں سے اس کام کے اجر کا وعد فرماتے ہیں، جو کام ان کو [AYAH] 9:71 [/AYAH] میں ‌سونپا ہے۔

[AYAH]9:72[/AYAH] اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرما لیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ایسے پاکیزہ مکانات کا بھی (وعدہ فرمایا ہے) جوجنت کے خاص مقام پر سدا بہار باغات میں ہیں، اور (پھر) اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑھ کر ہے (جو بڑے اجر کے طور پر نصیب ہوگی)، یہی زبردست کامیابی ہے

قران حکیم اس طرح مساوی طور پر مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا رفیق مددگار بن کر کام کرنے کی ہدایت کرتا ہے، تاکہ معاشرے میں استحکام پیدا ہو۔ جب یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس سے اخلاقی برائیاں پھیلنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے، تو اللہ تعالی وعدہ فرماتے ہیں کے تم آخرت میں‌دیکھ لینا کہ ان کے کئے ہوئے کام اور نیکیوں کا نور انکے اگے، اور دائیں چل رہا ہوگا۔ ہم خود دیکھ چکے ہیں کہ خواتین کے میدان عمل میں آنے سے معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کا خاتمہ ہوا اور ہوتا ہے۔

ایک تعلیم یافتہ عورت، معاشرہ میں ماں کا کردار ادا کرتی ہے اور اپنے بچوں کی بہترین تعلیم کا سبب بنتی ہے۔ مسلم معاشرہ اور اس کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والی فلاحی مملکت کی تشکیل تعلیم یافتہ ماؤں کے بغیر ناممکن ہے۔ آپ بہ آسانی معاشرے میں یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی بھی شخص کی تعلیم و تربیت میں ماں، کیا کردار ادا کرتی ہے۔ آپ آج خواتین کو تعلیم سے محروم کردیجئے، صرف 25 سال کے عرصے میں کوئی بھی معاشرہ، تعلیمی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہو کر دور جاہلیت میں واپس چلا جائے گا۔

معاشرہ میں عورتوں کے مساوی مقام کی تعلیم قرانِ کریم کا ایک بہت ہی بڑا اعجاز ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ جس وقت یہ احکامات نازل ہوئے، عورتوں‌ کے معاشرے میں کوئی حقوق نہیں تھے، قرآن حکیم نے ذہنی ارتقاء کی عمل کو تیز کیا اور خیالات کو وہ جلا بخشی کہ آج ہمارے تعلیم یافتہ خواتین وحضرات کو مساوی حقوق کے اہمیت کا اندازہ ہے۔ اس سلسلے میں مزید کوشش درکار ہے

[AYAH]53:39[/AYAH] اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی۔

عورتوں اور مردوں کے مقام کا تعین آپ ان آیات سے کریں گے یا لونڈی غلام کے مسئلے سے یا وراثت میں حصے سے؟

ولسلام۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top