ہم نے دیکھا ہے کہ محفل پر مثبت اور منفی درجہ بندیوں کے حوالے سے گاہے گاہے باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ کوئی گریاں ہے کہ فلاں کو فلاں ریٹنگ کیوں دی۔ کوئی نازاں ہے کہ فلاں نے فلاں ریٹنگ مجھے دی۔ کوئی شاکی ہے کہ مجھے سرے سے ریٹ ہی نہیں کیا گیا۔ کوئی کہتا ہے کہ ریٹنگ کا استعمال غلط ہو رہا ہے۔ کوئی چیں بجبیں ہے کہ وہ ریٹنگ دے ہی نہیں پا رہا۔ کسی کو قلق ہے کہ فلاں بٹن ہونا چاہیے تھا پر نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
ہمیں عقلِ کل ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں مگر ہم نے جب کبھی ذرا سا بھی تعمق کیا ہے تو اس سارے جنجال کو بالکل بے بنیاد اور اس فکر کو بالکل سطحی پایا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی تو یہ کہ اکثر کوئی بھی بٹن اس جذبے کا احاطہ نہیں کر سکتا جو کسی مراسلے سے آپ کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ دوسری یہ کہ اس جذبے کا اظہار کرنے یا نہ کرنے یعنی ریٹنگ دینے یا نہ دینے سے ہمارے خیال میں قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ جذبہ درحقیقت پیدا ہو چکا ہے۔
ان دونوں وجوہ کی کسی قدر تفصیل میں جانے سے قبل یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ زبردست سے لے کر مضحکہ خیز تک کے بٹن فی ذاتہم کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ان کی جو کچھ بھی قدر ہے وہ صرف اس بنا پر ہے کہ زیرِ غور مراسلہ قاری کو کس قدر اور کس طرح متاثر کرتا ہے۔ یعنی یہ بٹن جذبات کے ترجمان ہیں، خود جذبات نہیں۔ اور یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جذبے کی ترجمانی حقیقی دنیا میں ہمیشہ ممکن نہیں ہوتی۔
ترجمانی کی یہ رکاوٹ جہاں تک میں سمجھا ہوں، محفل پر دو طرح سے پیدا ہوتی ہے۔ پہلا رنگ یہ ہے کہ آپ کوئی مراسلہ پڑھ کر ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں جس کا اظہار کسی بھی بٹن سے کماحقہٗ نہیں ہو سکتا۔ مثلاً کوئی مراسلہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو محبت و رافت کے جذبات سے بھی لبریز ہو، تفنن کی چاشنی سے بھی بھرپور ہو اور آپ اس سے کلیۃً اتفاق بھی رکھتے ہوں۔ ہم ایسے مراسلوں کو زبردست کی ریٹنگ دیں گے۔ مگر دیکھا جائے تو یہ ریٹنگ صرف انتہائی مزاحیہ، انتہائی نکتہ خیز، انتہائی اہم مراسلوں کو بھی دی جا سکتی ہے۔ یعنی زبردست کا مطلب لازم نہیں کہ ہر دفعہ زبردست ہی ہو۔ مگر مسئلہ یہی ہے کہ آپ کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے۔
جذبات کے اظہار میں دوسری رکاوٹ داخلی ہے اور بعض لوگوں کی مخصوص افتادِ طبع سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ کوئی شخص فطرتاً جذبات کے اظہار سے گریز کرتا ہو۔ اب ایسے لوگ کسی بھی بٹن سے رجوع نہیں کریں گے۔ مگر اس کا مطلب یہ لینا کہ ایک مراسلے نے انھیں کسی کیفیت سے دوچار نہیں کیا، احمقانہ ہو گا۔ سادہ لفظوں میں، جذبات کے اظہار میں پہلی رکاوٹ درجہ بندیوں کا ناکافی ہونا ہے اور دوسری درجہ بندیوں کا عدم استعمال ہے۔ جذبات بہر صورت پیدا ہوتے ہیں گو ان کا اظہار اکثر نامکمل رہتا ہے۔
اب اگر ریٹنگ کے استعمال پر ایک دوسرے پہلو سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بٹنوں کی غرض و غایت چونکہ جذبات کا اظہار ہی ہے تو ان کے استعمال کو مکمل طور پر منفی یا مثبت قرار دینا خاصا غیر منطقی فعل ہو سکتا ہے۔ یعنی ایک صاحب کے مراسلوں پر آپ آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔ دل میں نفرت کا لاوا پھوٹ نکلتا ہے۔ غیض و غضب اور کینہ و عناد کے جذبات پوری طرح ابھر چکے ہیں۔ لیکن محفل تب تک ان جذبات کے وجود کا انکار کرے گی جب تک آپ منفی ریٹنگ کا کوئی بٹن نہیں دباتے۔ اگر آپ دھڑا دھڑ منفی درجہ بندی کرنے لگے تو انتظامی لحاظ سے تو آپ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اصل مجرم کون ہے؟ نفرت پیدا کرنے والے مراسلوں کا لکھاری یا نفرت کے جذبات کا پورا پورا اظہار کرنے والا قاری؟
ہمارا خیال ہے کہ نفرت انگیز مراسلہ لکھنا اور اس پر نفرت کا اظہار کرنا دونوں ہی دراصل جذبات کے اظہار کی شکلیں ہیں۔ ایک شخص لکھ کر بھڑاس نکالتا ہے دوسرا بٹن دبا کر۔ اگر جرم ثابت ہوتو دونوں صورتوں پر پابندی عائد ہونی چاہیے ورنہ فائدہ نہیں۔ بعینہٖ اسی طرح کا معاملہ مثبت جذبات کا بھی ہے۔ ایک خوب صورت مراسلہ لکھنے والا شخص اور اس پر عمدہ ریٹنگ دینے والا قاری دونوں اپنی ارفع کیفیات کے ابلاغ کے لیے متحرک ہوتے ہیں۔ اگر کسی شخص کی عطا کردہ مثبت درجہ بندیوں کی فراوانی موردِ اعتراض ہو سکتی ہے تو لکھنے والے سے پرسش کیوں نہ ہو؟
جہاں تک ان درجہ بندیوں کی مادی اہمیت کا تعلق ہے تو ہمارے خیال میں یہ سوال ہی طفلانہ ہے۔ ہمیں جا بجا ناقص املا کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر شاید ہی کبھی ہم نے اس سے متعلق درجہ بندی کا استعمال کیا ہو۔ لیکن کیا ناقص املا کا بٹن نہ دبانے کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ املا درست ہے؟ اگر ہم ایسا سوچیں تو یہ بڑی بے وقوفی ہو گی۔
بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہر اچھا برا مراسلہ اپنا تاثر ضرور چھوڑتا ہے۔ مگر قاری کے محظوظ یا منغض ہونے کا اظہار کرنے سے کوئی حقیقی فرق نہیں پڑتا۔ مثلاً اگر آپ نے بہت اچھا افسانہ لکھا ہے تو ہم اس سے ضرور متاثر ہوں گے۔ مگر ممکن ہے کہ ہم وقت کی کمی، افتادِ طبع، ماحول یا کسی اور وجہ سے اپنے تاثر کا اظہار کرنے سے معذور ہوں۔ اب کیا آپ لٹھ لے کر ہمارے پیچھے پڑ جائیں گے کہ میاں، تمھیں افسانہ کیوں پسند نہیں آیا؟ افسانے کی کامیابی کا یہ ثبوت کیا زیادہ وقیع نہیں کہ اس نے ہمارے دل پر اپنا اثر چھوڑ دیا ہے؟
پھر یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ کسی خاص ماحول میں پسند کی جانے والی شے ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی۔ مخصوص زمان و مکان سے آزاد ہو کر اپنا لوہا منوانے میں بڑے بڑوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ محفل پر لمبی سرخ پٹی کے ساتھ دکھائی دینے والے شخص کو وقت درست ثابت کر دے اور بے داغ لبادوں والے کوثر کے چھینٹوں سے بھی محروم رہ جائیں۔
مزید یہ کہ اگر جذبات کا اظہار ہی مقصود ہو تو ہماری رائے میں تبصرے درجہ بندیوں سے کہیں زیادہ مفید مطلب ہیں۔ تبصروں میں آپ زیادہ واضح طور پر یہ بیان کرنے کے قابل ہوتے ہیں کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں۔ ریٹنگ تو ایک خلاصہ ہے اور وہ بھی کم و بیش مشینی قسم کا۔ اس کا اعتبار اور پھر اس کو دی جانے والی اہمیت دونوں غیر منطقی ہیں۔
اگر آپ واقعی اچھا لکھ رہے ہیں، اعلیٰ خیالات کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، خوب صورت گفتگوئیں کر رہے ہیں تو اول تو لوگوں کے سینوں میں دھڑکتے ہوئے دل درجہ بندی کے بٹنوں سے زیادہ وفاداری کے ساتھ آپ کی قدر کریں گے۔ اور اگر بوجوہ ایسا ممکن نہ بھی ہو سکا تو جان لیجیے کہ وقت کائنات کا ضمیر ہے۔ آج نہیں تو کل آپ کے حق میں لوگوں سے ضرور بغاوت کرے گا۔
 

فہد اشرف

محفلین
اگر "غیر متفق" والے بٹن کو منفی کے زمرے سے نکال کے نیوٹرل کر دیا جائے (جمہوریت کا تقاضابھی یہی ہے) تو ریٹنگ کے مسائل کم ہو جائیں گے۔
 
مثلاً کوئی مراسلہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو محبت و رافت کے جذبات سے بھی لبریز ہو، تفنن کی چاشنی سے بھی بھرپور ہو اور آپ اس سے کلیۃً اتفاق بھی رکھتے ہوں۔
اس کو اظہا رائے کا ذریعہ سمجھنا اس کا ایک پہلو ہے جبکہ مراسلے کی درجہ بندی کا آلہ سمجھنا دوسرا اور اہم پہلو ہے۔ اظہار رائے تو مفصل تبصرے کی صورت بھی ممکن ہے۔ عموماً درجہ بندی کی سہولت سے انفرادی بنیادوں پر بہت نتیجہ خیز بات سامنے نہیں آتی، بلکہ اس کا مجموعی تاثر اہمیت رکھتا ہے۔ مثلاً کسی ایک رکن کے بارے میں تاثر ایک مراسلے پر موصول درجہ بندیوں سے قائم نہیں کیا جا سکتا، لیکن مثال کے طور پر کسی رکن کو مجموعی طور پر کئی مراسلوں پر ناقص املا کی درجہ بندی موصول ہوئی ہو تو ان کے ساتھ املا کے مسائل ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ کے بیان کے مطابق اگر کوئی ایک ہی مراسلہ مختلف درجہ بندیوں کا مستحق ہو تو اسے مختلف احباب کی جانب سے مختلف درجہ بندیاں موصول ہو جائیں گی، ایسے میں کسی ایک رکن نے کیا درجہ بندی عطا کی یہ بات زیادہ معنی نہیں رکھتی۔ :) :) :)
گر آپ دھڑا دھڑ منفی درجہ بندی کرنے لگے تو انتظامی لحاظ سے تو آپ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اصل مجرم کون ہے؟
انتظامی کاروائی اس بات پر نہیں ہوتی کہ کس کی عطا کردہ یا محصول درجہ بندیوں کی منفی تعداد کتنی زیادہ ہے، بلکہ اس بات پر ہوتی ہے جب کوئی اس سہولت کا بے تحاشہ بے جا استعمال کرے، مثلاً کسی ایک رکن یا چند اراکین کو نشانہ بنا کر ان کے مراسلوں پر بغیر سوچے سمجھے غیر متفق کی درجہ بندی کرنا خواہ اس میں اتفاق یا عدم اتفاق کا کوئی پہلو ہو یا نہ ہو، اسی طرح املا کا نقص نہ پاتے ہوئے بھی کئی مراسلوں پر پہ در پہ ناقص املا کی درجہ بندی دینا۔ یوں درجہ بندی کے مجموعی نتائج کو متاثر کرنا اس سہولت کے ساتھ زیادتی ہے۔ ایسے عمل کو آزادی اظہار رائے کے کھاتے میں ڈالنے کا کوئی جواز نہیں۔ :) :) :)
بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہر اچھا برا مراسلہ اپنا تاثر ضرور چھوڑتا ہے۔ مگر قاری کے محظوظ یا منغض ہونے کا اظہار کرنے سے کوئی حقیقی فرق نہیں پڑتا۔ مثلاً اگر آپ نے بہت اچھا افسانہ لکھا ہے تو ہم اس سے ضرور متاثر ہوں گے۔ مگر ممکن ہے کہ ہم وقت کی کمی، افتادِ طبع، ماحول یا کسی اور وجہ سے اپنے تاثر کا اظہار کرنے سے معذور ہوں۔ اب کیا آپ لٹھ لے کر ہمارے پیچھے پڑ جائیں گے کہ میاں، تمھیں افسانہ کیوں پسند نہیں آیا؟ افسانے کی کامیابی کا یہ ثبوت کیا زیادہ وقیع نہیں کہ اس نے ہمارے دل پر اپنا اثر چھوڑ دیا ہے؟
ایک دفعہ پھر دہرائیں گے کہ یہاں اجتماعی تاثر کی اہمیت ہوتی ہے۔ ہر قاری سے درجہ بندی کی توقع نہیں کی جاتی، بلکہ ایک طرح کی متناسب "سیمپلنگ" ہی سامنے آتی ہے۔ مثلاً کوئی مراسلہ دیگر مراسلوں کی نسبت زیادہ پر کشش ثابت ہو تو اس میں دیگر مراسلوں کی نسبت درجہ بندیاں بھی عموماً زیادہ موصول ہوتی ہیں۔ یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں، بلکہ مراسلہ کہاں ارسال کیا، کس نے ارسال کیا، کب ارسال کیا، کتنے لوگوں تک اس کی رسائی ہوئی، اور ان لوگوں کے مرسل کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں ایسے کئی عوامل درجہ بندیوں کی تعداد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ :) :) :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ریٹنگ کا نظام اتنا برا بھی نہیں ہے جتنا فلسفیانہ موشگافیوں سے بنایا جا سکتا ہے۔ میری طرح کے ایک عام سے قاری کو ان کا کافی فائدہ ہے، سو فیصدی نہ سہی لیکن کسی مراسلے پر دی گئیں ریٹنگز کافی حد تک قارئین کے مزاج کی وضاحت کر دیتی ہیں۔

اس کا سب سے بڑا منفی پہلو "ٹِٹ فار ٹیٹ" قسم کی "ریٹنگ وار" ہے، جس کے نوٹس میں آنے پر انتظامیہ مناسب اقدام کرتی ہے اور کرتی رہی ہے۔

باقی ہر کسی کی اپنی اپنی پسند ناپسند اور رائے ہوتی ہے، جیسا کہ میں پہلے بھی اظہار کر چکا ہوں کہ "غیر متفق" ریٹنگ کو منفی ریٹنگ نہیں ہونا چاہیے، اس کا منطقی نتیجہ پھر یہ نکلتا ہے کہ "متفق" ریٹنگ کو بھی مثبت نہیں ہونا چاہیے، ٹھیک ہے یہ دونوں ریٹنگرز نیوٹرل ہو سکتی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ انتظامیہ اس سلسلے میں حتمی فیصلہ کرنے کا استحقاق رکھتی ہے سو سرِ تسلیم خم ہے :)
 

عثمان

محفلین
دلچسپ بات ہے کہ جو لوگ اولین مراسلے سے متفق ہیں وہ متفق کی ریٹنگ دے رہے ہیں۔ :)
یہ دراصل "زبردست" کا سنہری تمغہ ہے جو ایسا خوشگوار تاثر چھوڑتا ہے۔ اسی طرح لوگ "غیرمتفق" کا لال کراس دیکھ کر طیش میں آ جاتے ہیں۔ مجھے بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر لال کراس کی بجائے محض "غیر متفق" نمایاں ہوں تو اس کا منفی اثر کم ہوگا۔
اوپر تبصرے میں کئی گئی بات درست ہے کہ کسی مراسلے پر ریٹنگ محفلین کے تاثرات کا سامپل ہے۔
درست کہ ریٹنگ نہ الفاظ کا متبادل ہے اور نہ ہی جذبات کی صحیح ترجمان ہے۔ لیکن دوسری طرف الفاظ بھی ریٹنگ اور اس میں چھپے تاثرات کے ترجمان نہیں۔ تصور کیجیے دو آمنے سامنے بیٹھے افراد کی گفتگو جو مسکراہٹ ، نظر ملانے اور سر کے ہلانے کی حرکات سے عاری ہو کر محض زبان سے نکلے الفاظ پر محدود ہو۔ کیا ایسی گفتگو فریقین کے مافی الضمیر کا احاطہ کر سکتی ہے ؟ علامات (اور ریٹنگ) اہم ہے اور بہت اہم ہے۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
جذبات کے اظہار میں دوسری رکاوٹ داخلی ہے اور بعض لوگوں کی مخصوص افتادِ طبع سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ کوئی شخص فطرتاً جذبات کے اظہار سے گریز کرتا ہو۔ اب ایسے لوگ کسی بھی بٹن سے رجوع نہیں کریں گے۔ مگر اس کا مطلب یہ لینا کہ ایک مراسلے نے انھیں کسی کیفیت سے دوچار نہیں کیا، احمقانہ ہو گا۔ سادہ لفظوں میں، جذبات کے اظہار میں پہلی رکاوٹ درجہ بندیوں کا ناکافی ہونا ہے اور دوسری درجہ بندیوں کا عدم استعمال ہے۔ جذبات بہر صورت پیدا ہوتے ہیں گو ان کا اظہار اکثر نامکمل رہتا ہے۔
بہت "Deep" لے گئے ہیں درجہ بندی کو حضور۔۔۔۔۔ خیر ہو۔۔۔
 

گلزار خان

محفلین
منفی ریٹنگ کی مجھے عادت ہے
لوگ وہی دے سکتے ہیں جو ان کے پاس ہے
میں نے کچھ عرصہ پہلے محفل پے ایچ اے خان کی الودع محفل کی لڑی پڑھی تھی لیکن اس میں کافی لوگ تھے جو کہ رہے تھے کہ ہماری آپ سے بھی نہیں بنتی اور ہمشہ اختلاف ہی رہتا ہے اور آپ محفل سے نا جائیں لیکن آج میں کافی مدت بعد واپس آیا تو محفل کے دو پرانے ممبرز کو معطل دیکھا لیکن وجہ نہیں معلوم کے کس وجہ سے معطل کیئے گئے ھیں ایک عارف کریم اور دوسرا یہ ایچ اے خان کوئی بتاسکتا ہے کہ انکو کیوں معطل کیا گیا اور کب تک بحال ہوگئے یا پرمننٹ کے لیئے معطل کیا گیا ہے ؟
 

فہد اشرف

محفلین
میں نے کچھ عرصہ پہلے محفل پے ایچ اے خان کی الودع محفل کی لڑی پڑھی تھی لیکن اس میں کافی لوگ تھے جو کہ رہے تھے کہ ہماری آپ سے بھی نہیں بنتی اور ہمشہ اختلاف ہی رہتا ہے اور آپ محفل سے نا جائیں لیکن آج میں کافی مدت بعد واپس آیا تو محفل کے دو پرانے ممبرز کو معطل دیکھا لیکن وجہ نہیں معلوم کے کس وجہ سے معطل کیئے گئے ھیں ایک عارف کریم اور دوسرا یہ ایچ اے خان کوئی بتاسکتا ہے کہ انکو کیوں معطل کیا گیا اور کب تک بحال ہوگئے یا پرمننٹ کے لیئے معطل کیا گیا ہے ؟
عارف کریم کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا ایچ اے خان کو مستقل ہی سمجھیں
 
Top