اوزانِ رباعی کے دو قاعدے

محمد وارث

لائبریرین
بھائی، ہمیں بھی بتائیے۔ :in-love::in-love::in-love:
سیدھے سادھے دس فع دس پوروں پر۔ دھیان یہ رکھتا ہوں کوئی فع ٹوٹ کہاں رہا ہے۔ پہلے دو فع یعنی دو پوریں کبھی بھی ف ع میں نہیں ٹوٹ سکتے یعنی دو حرفی ہی رہیں گے مفعول یا مفعولن کی مفعو (فعلن) کی طرح۔ تیسرے کو دیکھتا ہوں کہ ٹوٹا یا نہیں اگر ٹوٹ گیا تو پہلا مفعول بنا سو اگلا رکن یعنی میرے ہاتھ کی چوتھی پور پھر ٹوٹے ہوئِے فع کی عین سے شروع ہو گی، چوتھی پور سالم، پانچویں پھر سالم یا ٹوٹی ہوئی اسی طرح چھٹی ساتویں۔۔۔دسویں تک۔ اسی طرح دوسرے شجرے کی دسویں تک۔ سبب اور وتد کو پوروں میں کنورٹ کیا ہوا ہے :)
 
سیدھے سادھے دس فع دس پوروں پر۔ دھیان یہ رکھتا ہوں کوئی فع ٹوٹ کہاں رہا ہے۔ پہلے دو فع یعنی دو پوریں کبھی بھی ف ع میں نہیں ٹوٹ سکتے یعنی دو حرفی ہی رہیں گے مفعول یا مفعولن کی مفعو (فعلن) کی طرح۔ تیسرے کو دیکھتا ہوں کہ ٹوٹا یا نہیں اگر ٹوٹ گیا تو پہلا مفعول بنا سو اگلا رکن یعنی میرے ہاتھ کی چوتھی پور پھر ٹوٹے ہوئِے فع کی عین سے شروع ہو گی، چوتھی پور سالم، پانچویں پھر سالم یا ٹوٹی ہوئی اسی طرح چھٹی ساتویں۔۔۔دسویں تک۔ اسی طرح دوسرے شجرے کی دسویں تک۔ سبب اور وتد کو پوروں میں کنورٹ کیا ہوا ہے :)
اب تک کی بحث میں یہ واحد مراسلہ ہضم ہوا ہے.
 

صائمہ شاہ

محفلین
رباعی اہلِ فارس کی ایجاد ہے جس کے لیے انھوں نے نہایت اہتمام سے چار نئے زحافات بھی ابداع کیے۔ جب، ہتم، زلل اور بتر۔ اس کے مستعمل ارکان دس ہیں اور ان کی ترتیب کے لیے "سبب پئے سبب است و وتد پئے وتد است" کا مصرع اصول کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ قاعدہ یگانہؔ چنگیزی نے اردو میں غالباً پہلی مرتبہ اپنی کتاب "چراغِ سخن" میں بیان کیا اور ماہرینِ فن کے ہاں اب اسے قبولِ عام حاصل ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے جناب محمد وارث کا مضمون رباعی کے اوزان پر ایک بحث دیکھا جا سکتا ہے۔
گو کہ بادی النظر میں رباعی کے چوبیس اوزان مستحضر کرنے کے لیے یہ قاعدہ نہایت سہل معلوم ہوتا ہے اور اس سے انکار نہیں کہ اس سے پیشتر ان اوزان کو یاد رکھنا نہایت دشوار تھا مگر واسطہ پڑنے پر معلوم ہوتا ہے کہ بات اب بھی اتنی سادہ نہیں۔ یگانہؔ کے اصول کے مطابق جو شخص اوزانِ رباعی کو سمجھنا چاہے اسے مندرجہ ذیل تمام باتیں ذہن میں رکھنا پڑتی ہیں:
  1. دس مستعمل ارکان یہ ہیں: مفاعیلن، مفاعلن، مفاعیل، فاعلن، مفعولن، مفعول، فعول، فاع، فعل، فع۔
  2. ہر مصرع میں چار ارکان ہونے ضروری ہیں۔
  3. سبب پر ختم ہونے والے رکن کے بعد سبب سے شروع ہونے والا رکن آنا لازم ہے۔
  4. وتد پر ختم ہونے والے رکن کے بعد وتد سے شروع ہونے والا رکن آنا لازم ہے۔
  5. وتدِ مقرون اور وتدِ مفروق دونوں وتد ہی گنے جائیں گے۔ یعنی کوئی رکن وتدِ مفروق پر ختم ہو تو بھی اگلا رکن وتدِ مجموع سے شروع ہو گا۔
  6. صدر و ابتدا میں مفعول یا مفعولن کے سوا کوئی رکن نہیں آ سکتا۔
  7. عروض و ضرب میں فع، فاع، فعل یا فعول کے سوا کوئی رکن نہیں آ سکتا۔
  8. فع، فاع، فعل اور فعول حشو ہائے اول و دوم میں نہیں آ سکتے۔
  9. مفاعلن حشوِ دوم میں نہیں آ سکتا۔
  10. فاعلن حشوِ دوم میں نہیں آ سکتا۔
پروفیسر عندلیب شادانی نے "اوزانِ رباعی کے متعلق ایک نئی دریافت" کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جسے سید عابد علی عابدؔ نے اپنی کتاب "اصولِ انتقادِ ادبیات" میں نقل کیا ہے۔ اس مضمون میں شادانی صاحب نے مشرقی پاکستان کے ایک شاعر، ماہرِ عروض اور ریاضی دان جناب امیر الاسلام شرقی کے اوزانِ رباعی کے لیے وضع کردہ ایک نئے فارمولے کا ذکر کیا ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ اس فارمولے کو بیان کرنے کے علاوہ اس کا تقابل بھی یگانہؔ کے اصول سے کر سکوں۔
شرقی صاحب کی سب سے بڑی بدعت یا اجتہاد یہ ہے کہ رباعی کے اوزان کو انھوں نے ہزج کی بجائے رجز سے استخراج کیا ہے۔ رجز بحورِ مفردہ میں سے ہے اور اس کا رکنِ اصلی مستفعلن متصل ہے جس کی مصرع میں ہزج مثمن ہی کی طرح چار بار تکرار ہوتی ہے۔ شرقی صاحب نے اس پر مندرجہ ذیل زحافات کے عمل سے رباعی کے لیے اس کے چھ فروع حاصل کیے ہیں:
  1. حذذ اور حذف سے فع (احذ محذوف)
  2. قطع سے مفعولن (مقطوع)
  3. طے سے مفتعلن (مطوی)
  4. خبن سے مفاعلن (مخبون)
  5. عرج سے مفعولان (اعرج)
  6. طے اور اذالہ سے مفتعلان (مطوی مذال)
اب اوزانِ رباعی کے اس فارمولے کے اصول ملاحظہ فرمائیے:
  1. چار ارکان یاد رکھنے کے لائق ہیں: فع، مفعولن، مفتعلن اور مفاعلن۔
  2. ہر مصرع میں چار ارکان ہونے ضروری ہیں۔
  3. فع ہمیشہ اور صرف صدر و ابتدا میں آئے گا۔
  4. مفاعلن صرف حشوِ دوم میں آ سکتا ہے۔
  5. عروض و ضرب میں مفعولن کی جگہ مفعولان اور مفتعلن کی جگہ مفتعلان بھی آ سکتا ہے۔
اب ہم اس قاعدے کی مثالیں دیکھتے ہیں اور ان کا رباعی کے کلاسیکی اوزان سے موازنہ کرتے ہیں۔ دائیں ہاتھ پر شرقی صاحب والے اوزان جبکہ بائیں ہاتھ پر کلاسیکی اوزان رکھے گئے ہیں:
فع مفعولن مفعولن مفعولن =مفعولن مفعولن مفعولن فع
فع مفتعلن مفتعلن مفتعلن = مفعول مفاعیل مفاعیل فعل
فع مفتعلن مفاعلن مفعولن = مفعول مفاعلن مفاعیلن فع
فع مفعولن مفتعلن مفتعلن = مفعولن مفعول مفاعیل فعل
فع مفتعلن مفاعلن مفتعلان = مفعول مفاعلن مفاعیل فعول
فع مفعولن مفاعلن مفعولان = مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع
ان مثالوں سے واضح ہو گیا ہو گا کہ رباعی کے چوبیس کے چوبیس مروجہ اوزان شرقی صاحب کے فارمولے سے بھی نکل سکتے ہیں۔ اور نہ صرف یہ استخراج ممکن ہے بلکہ کلاسیکی اوزانِ رباعی کی بہ نسبت کہیں زیادہ آسان ہے۔
ایک اور روایت شکنی جو شرقی صاحب نے کی ہے وہ زحافات کا استعمال ان کے محل سے ہٹ کر کرنا ہے۔ مثال کے طور پر کلاسیکی عروض میں حذذ اور حذف عروض و ضرب سے مخصوص ہیں جبکہ موصوف نے ان کا عمل صدر و ابتدا میں کیا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ رباعی کے کلاسیکی اوزان میں بھی یہ کوتاہی اسی طرح موجود رہی ہے اور اخرب و اخرم وغیرہ ارکان جن کا مقام دراصل صدر و ا بتدا ہیں، حشو میں بھی روا رکھے گئے ہیں۔
اب ہمارے سامنے صرف ایک سوال رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ رباعی کے اوزان کو روایتی طرز پر ہزج سے نکالنا ہی صحیح ہے یا کسی اور بحر کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال میں لانا جائز ہے۔ اس سوال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ کیا رباعی کا ہزج سے کوئی ایسا اٹوٹ رشتہ ہے جو رجز سے نہیں ہو سکتا؟
ہماری ذاتی رائے میں جب اوزان ایک سے ہیں، آہنگ وہی ہے، باقی شرائط جو رباعی کو رباعی بنانے میں ممد ہیں ویسی کی ویسی ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ اوزانِ رباعی کا استخراج رجز سے کر لیا جائے۔ بصورتِ دیگر ہم پر یہ ثابت کرنے کا بار آتا ہے کہ ہزج کے نام اور نسبت سے محروم ہو کر رباعی رباعی نہیں رہتی جو کم از کم مجھ ہیچ مدان کے بس سے باہر ہے۔

اطلاع نامہ:
محمد وارث ، مزمل شیخ بسمل ، ظہیراحمدظہیر ، الف عین ، سید عاطف علی ، محمد ریحان قریشی اور فاتح صاحبان
مجھے تو یہ جاننا ہے کہ آپ کو اتنا وقت کیسے مل جاتا ہے میں تو آپ کے مضامین کی طوالت کی تاب ہی نہیں لا پاتی ۔
 
سیدھے سادھے دس فع دس پوروں پر۔ دھیان یہ رکھتا ہوں کوئی فع ٹوٹ کہاں رہا ہے۔ پہلے دو فع یعنی دو پوریں کبھی بھی ف ع میں نہیں ٹوٹ سکتے یعنی دو حرفی ہی رہیں گے مفعول یا مفعولن کی مفعو (فعلن) کی طرح۔ تیسرے کو دیکھتا ہوں کہ ٹوٹا یا نہیں اگر ٹوٹ گیا تو پہلا مفعول بنا سو اگلا رکن یعنی میرے ہاتھ کی چوتھی پور پھر ٹوٹے ہوئِے فع کی عین سے شروع ہو گی، چوتھی پور سالم، پانچویں پھر سالم یا ٹوٹی ہوئی اسی طرح چھٹی ساتویں۔۔۔دسویں تک۔ اسی طرح دوسرے شجرے کی دسویں تک۔ سبب اور وتد کو پوروں میں کنورٹ کیا ہوا ہے :)
یہ آپ سے سمجھنا پڑے گا۔ کوئی صورت اور نکالتا ہوں۔ :):):)
اب تک کی بحث میں یہ واحد مراسلہ ہضم ہوا ہے.
:pill::pill::pill:
لڑی کی نگرانی ترک کریں.
:eek::eek::eek:
ہمیں تو یہ بھی ہضم نہیں ہوا :)
آ، کسی روز کسی (اسی؟) دکھ پہ اکٹھے روئیں! :LOL::LOL::LOL:
مجھے تو یہ جاننا ہے کہ آپ کو اتنا وقت کیسے مل جاتا ہے میں تو آپ کے مضامین کی طوالت کی تاب ہی نہیں لا پاتی ۔
وقت ہی وقت ہے، صائمہ خاتون۔ اہلِ پاکستان کے پاس دو ہی تو دولتیں ہیں۔ ایک وقت اور دوسری قناعت۔ :angel3::angel3::angel3:
ویسے ہمارے موضوعات ذرا خشک قسم کے ہیں۔ لہٰذا ممکن ہے مضامین اصل سے زیادہ طولانی معلوم ہوتے ہوں! :sneaky::sneaky::sneaky:
 
در اصل یہ کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ارکان کی ہیئت کیا ہوگی۔ کیونکہ یہ تو عروض میں عام مسئلہ ہے کہ ایک رکن کو دوسرے پر فوقیت دی جاتی ہے۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ ایک رکن کو مفاعیل پڑھیں یا فعولان۔ کیونکہ دونوں درست ہیں اور قابلِ قبول بھی۔ یہ بحثیں اتنی فروعی ہیں کہ ان میں پڑنا ہی بے جا ہے۔ تفصیل آگے آتی ہے۔
میں نے پہلے بھی آپ کے اس ادعا پر شدید حیرت کا اظہار کیا ہے۔ مجھے گمان تھا کہ شاید آپ غلطی سے یا جلدی میں یوں کہہ گئے ہیں۔ مگر اب اندازہ ہو رہا ہے کہ خاکم بدہن آپ کو واقعی تقطیعِ حقیقی کی اہمیت کا علم نہیں ہے۔
تقطیعِ حقیقی کی اساسی حیثیت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ مفاعیلن کو اگر فعَل فعلن کر دیا جائے، جس قسم کے تصرف سے بقول آپ کے آپ کو کوئی غرض نہیں، تو خرم سے لے کر کف تک بہت سے زحافات کا اس پر عمل ہی ناممکن ہو جاتا ہے۔ کسی بھی مزاحف بحر کے ارکان کو متبادل صورت میں بیان کر دیا جائے، جو آپ کے نزدیک درست بھی ہے اور قابلِ قبول بھی، تو یہ سوال پھنکارنے لگتا ہے کہ ہم اس کی اس مزاحف شکل تک پہنچے کیسے؟ مثلاً خفیف مخبون محذوف کے ارکان "فاعلاتن مفاعلن فَعِلُن" کو اگر "فاعلن فاعلن مفاعلتن" کر دیا جائے تو کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ یہ خفیف سے ہے؟ اور ہے یا نہیں ہے تو بھی یہ وزن ہم نے کیسے اور کہاں سے نکالا؟
اگر غور کیا جائے تو تقطیعِ حقیقی، جسے آپ لکھنؤ کے متشاعروں پر طنز کا ایک حربہ خیال کرتے ہیں، عروض کی جانِ پاک کی حیثیت رکھتی ہے۔ عروض کی پوری عمارت ڈھانے کو فقط یہی کافی ہے کہ حقیقی اور غیرحقیقی تقطیع کا فرق اٹھا دیا جائے۔
آپ کے نزدیک یہ بحثیں فروعی ہوں گی مگر تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ جہانگیر کے سامنے کسی شاعر نے قصیدے کا یہ مصرع پڑھا ہی تھا کہ بادشاہ غضب ناک ہو گیا۔
اے تاج دولت بر سرت از ابتدا تا انتہا​
کڑک کر پوچھا، تو عروض جانتا ہے۔ شاعر نے انکار کیا۔ بادشاہ نے کہا، اگر جانتا ہوتا تو تیری گردن مروا دیتا۔
اس میں نکتہ یہی ہے کہ مصرعِ مذکور میں حشوِ اول کے مقابل "لت بر سرت" کا کلمہ آتا ہے جو قصیدہ تو ایک طرف، پاکیزگئِ سخن ہی کے شایان نہیں۔ میری معلومات کے مطابق جہانگیر شاعر نہیں تھا۔ مگر تقطیعِ حقیقی و غیرحقیقی کا امتیاز تو وہ ہے جو ہر سخن فہم کو کرنا لازم ہے۔ اس کے بغیر نہ صرف یہ کہ عروض کا فہم ممکن نہیں بلکہ اس فنِ شریف کا جواز ہی کالعدم ہو جاتا ہے۔
عرض ہے کہ خرم کو حشوین میں نہیں لایا گیا۔
عجمی عروض میں دو رویے رائج رہے ہیں۔ اگر ایک ہی رکن میں تین متحرکات یکجا ہو جائیں تو ان میں درمیان والے کو ساکن کردیا جاتا۔ اور اسے تسکینِ اوسط کا نام دیتے۔ اور اگر دو ارکان کو جمع کرکے تین متحرکات یکجا ہو رہے ہیں تو بھی درمیان والے کو ساکن کیا جاتا، لیکن اسے تسکینِ اوسط نہیں، بلکہ تحنیق کہا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ تحنیق کی اصطلاح کم ہوگئی اور اس رویے کو مجموعی طور پر تسکینِ اوسط کہا جانے لگا۔ چنانچہ ہزج میں مفعولن جب شروع میں آتا تو اسے اخرم کہا جاتا، اور جب درمیان میں آتا تو محنق (تحنیق سے) کہا جاتا۔ اگر تحنیق کی جگہ سے تسکین کہیں اور مسکن رکن کہیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
آپ خود عروض کی جن کتابوں کو مستند قرار دیتے ہیں، ان میں سے کسی میں سے، بشمول قواعد العروض از قدرؔ بلگرامی، یہ حوالہ پیش کر سکتے ہیں کہ رباعی کے حشوین میں موجود مفعولن کو اخرم کی بجائے مسکن قرار دیا گیا ہو؟ صرف ایک حوالہ؟
یاد رہے کہ یہ بحث بہرحال ضمنی ہے اور جناب ہی کے ایک فرمان سے آغاز ہوئی ہے۔ خرم و خرب کے حشو میں روا رکھے جانے کی روایت کی بابت آپ نے فرمایا ہے:
ایسا صرف وہی کرسکتا ہے جو عروض کی بنیادی ہیئت اور اجمال سے ناواقف ہو۔ اسی لیے کئی عروضی کتابوں میں ایسی غلطیاں پائی جاتی ہیں کہ زحافات کو بے محل لگا کر وزن اور نام پورا کردیتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ در حقیقت وہی زحاف استعمال ہوا ہے۔
اگر اس حوالے سے آپ کو کسی بحر میں کوئی اشکال ہے تو ضرور پیش کیجیے گا۔ ناقص اپنی سی کوشش کرے گا کہ اصل زحاف اور اس کا محل واضح کردے۔
---
رہی یہ بات کہ مبتدی کے غلطی کرنے کا خدشہ ہے، تو ظاہر ہے کہ مبتدی سے تو یہ بھی خدشہ ہے کہ وہ حذف کو صدر یا ابتدا میں لائے اور خرم کو عروض و ضرب میں۔ اس کا حل تو صرف یہی ہے کہ مبتدی کو عروضی رویے سکھائے جائیں۔
قبلہ و کعبہ، یہیں سے تو بات شروع ہوئی تھی۔ یعنی اگر عروضی رویے ہی سکھانے ہیں تو کیوں نہ ہزج سے رباعی نکالنے کی بجائے آسان طور پر رجز سے استخراج کی جائے؟
آپ نے پہلے دو اوزان کی صورت میں ملخص آسانی کے نام پر پیش کیا تھا۔ اب جب اس کی قباحت سامنے آئی ہے تو آپ کو درست عروضی رویوں کی اہمیت کا احساس ہوا ہے۔ یہی ہم نے بالکل شروع میں عرض کیا تھا کہ درست رویے دراصل دو ہو سکتے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ان میں سے آسان والا اختیار کیا جائے یا مشکل والا؟
اب ہمارے سامنے صرف ایک سوال رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ رباعی کے اوزان کو روایتی طرز پر ہزج سے نکالنا ہی صحیح ہے یا کسی اور بحر کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال میں لانا جائز ہے۔ اس سوال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ کیا رباعی کا ہزج سے کوئی ایسا اٹوٹ رشتہ ہے جو رجز سے نہیں ہو سکتا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
میری معلومات کے مطابق جہانگیر شاعر نہیں تھا۔
آپ کی بات درست ہے، جہانگیر باقاعدہ شاعر نہیں تھا، لیکن اس کے کچھ اشعار ادھر ادھر تذکروں میں بکھرے مل جاتے ہیں۔ سارے مغل بادشاہ ہی سخن فہم تھے اور سب نے اشعار کہے ہوئے ہیں، اور تو اور اکبر، جو بچپن میں سفید ان پڑھ ہی رہ گیا، اُس کے بھی بھنگ اور شراب کی مدح میں اشعار موجود ہیں :)
 
آپ خود عروض کی جن کتابوں کو مستند قرار دیتے ہیں، ان میں سے کسی میں سے، بشمول قواعد العروض از قدرؔ بلگرامی، یہ حوالہ پیش کر سکتے ہیں کہ رباعی کے حشوین میں موجود مفعولن کو اخرم کی بجائے مسکن قرار دیا گیا ہو؟ صرف ایک حوالہ؟
میری بدقسمتی کہیے کہ میں نے عروض کے متعلق مباحث کو ایک عرصے سے ترک کردیا ہے۔ اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ عام طور پر اس بحث میں مجھے سخت مایوسی کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب حریفِ مقابل کے سامنے وہ سارا لٹریچر موجود نہ ہو جس کے زیرِ نظر میں اپنے دلائل دے رہا ہوتا ہوں۔ یا پھر یہ کہ جن کتابوں سے حریف دلیل لا رہا ہو وہ عام طور پر تیسرے درجے کا لٹریچر ہوتا ہے جو اصل عروضی ماخذات سے تو کجا، اصل ماخذات سے لکھی گئی کتابوں سے لکھا گیا مواد ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں حریف کو یہ سمجھانا کٹھن ہوتا ہے کہ ماخذات کے معیارات میں فرق ہے۔
دوسرا اور اہم تر مسئلہ وقت کا ہے۔
اور پھر بحث در بحث اور جواب در جواب کا ایک لامتناہی سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے جس کی مجھ ناتواں میں سکت نہیں ہوتی۔
میری اپنی پڑھائی اتنی سخت ہے کہ نصابی کتابوں سے پورا پورا دن پڑھتے رہنے کے باوجود خلاصی نہیں ملتی کہ بحث میں حصہ لیا جائے اور حریف کو ایک ایک بات پر حوالہ دیا جائے (جو کہ اس کا حق بھی ہے)۔ کیونکہ میری لائبریری میں میری کتابیں بھی میری طرح منتشر ہیں جنہیں ڈھونڈنے کے لیے بھی مجھے اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔
خیر آپ کی محبت میں خاص طور پر کتابیں ڈھونڈنے کا جوکھم اٹھایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
یہ ہے قواعد العروض از قدر بلگرامی:
14657365_1193748917357420_8773342868715300765_n.jpg

14650194_1193749120690733_8543026748497094146_n.jpg

14716243_1193749024024076_3310340296302685436_n.jpg

14671114_1193749050690740_7240837926546978765_n.jpg

دیکھیے۔ یہ ہائ لائٹ کیے گئے جملے عین وہی ہیں جن کا حوالہ آپ نے مانگا تھا۔
۔۔
مزید بحر الفصاحت کو دیکھیے:

14716283_1193757940689851_1936576603674557205_n.jpg

یہاں بھی مولوی نجم الغنی میری بات کی تائید کر رہے ہیں۔
اب اگر آپ کہیں تو میں معیار الاشعار کے صفحے کی بھی تصویر لگا دیتا ہوں جس کا حوالہ قدر بلگرامی نے دیا ہے۔ لیکن کتاب مجھے ڈھونڈنی پڑے گی اس لیے کچھ وقت درکار ہے۔
۔
اب خلاصہ یہ ہوا کہ رباعی کے جو دو اوزان میں نے بتائے ہیں ان میں کسی بھی قسم کی کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔
ارکان کو الگ الگ زحاف سے قطع و برید کی چنداں ضرورت نہیں۔
کسی عروضی بدعت کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ سے موجودہ طریقے کو ترک کیا جائے کیونکہ آسان ترین طریقہ یہی ہے جو سیکڑوں سالوں سے چلتا چلا آرہا تھا اور بعد میں اسکی شکل بر صغیر میں آکر بگاڑ دی گئی۔
رہی بات غیر حقیقی تقطیع کی تو یہ بھی عرض کرچکا ہوں کہ وہ بات یہاں لائقِ اطلاق ہے ہی نہیں۔
دیکھیے تحنیق نام ہے دو ارکان میں تسکینِ اوسط کا۔ یعنی اگر کسی دو ارکان میں دوسرا رکن وتدِ مجموع (مفا یا فعو وغیرہ) سے شروع ہو رہا ہے، اور پہلے رکن کا آخری حرف متحرک ہے تو دوسرے رکن کا پہلا متحرک پہلے رکن کے آخری متحرک سے مل کر ساکن ہو جاتا ہے۔
مثال:
مفعولُ مفاعیلن کا محنق مفعولم فاعیلن
بروزن مفعولن مفعولن
چنانچہ حشوین میں آنے والے مفعولن اخرم نہیں بلکہ محنق ہوتے ہیں۔ اسے مسکن کہہ لیجیے تو بھی میرے نزدیک کوئی مضائقہ نہیں۔
یہ ایک معمول کا عروضی رویہ ہے جسے آج تک کسی نے مفعولم فاعیلن کو بروزن فع فعلن فاعیلن کہنے کی خطا نہیں کی۔
اب اس پر آپ کو اعتراض کیوں ہے یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔

خیر۔
میری طرف سے اب بحث کا اختتام ہو چکا ہے۔ کیونکہ اس سے زیادہ عروض تو مجھے بھی نہیں آتا۔ سو مزید بحث میں حصہ لینے سے معذور ہوں۔
اگر کوئی بات طبیعت پر گراں گزری تو سخت معافی کا طلبگار ہوں۔
سلامت رہیں۔
 
آخری تدوین:
میری بدقسمتی کہیے کہ میں نے عروض کے متعلق مباحث کو ایک عرصے سے ترک کردیا ہے۔ اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ عام طور پر اس بحث میں مجھے سخت مایوسی کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب حریفِ مقابل کے سامنے وہ سارا لٹریچر موجود نہ ہو جس کے زیرِ نظر میں اپنے دلائل دے رہا ہوتا ہوں۔ یا پھر یہ کہ جن کتابوں سے حریف دلیل لا رہا ہو وہ عام طور پر تیسرے درجے کا لٹریچر ہوتا ہے جو اصل عروضی ماخذات سے تو کجا، اصل ماخذات سے لکھی گئی کتابوں سے لکھا گیا مواد ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں حریف کو یہ سمجھانا کٹھن ہوتا ہے کہ ماخذات کے معیارات میں فرق ہے۔
میری خوش قسمتی کہیے کہ میں ان دنوں پہلے درجے سے لے کر تیسرے درجے تک ہر قسم کا عروضی ادب پڑھ رہا ہوں۔ آپ بلاخرخشہ اول درجے کے ماخذات سے حوالہ دے سکتے ہیں۔ بلکہ میں نے حوالہ طلب بھی جناب کے معیارات ہی کے مطابق کیا تھا۔
یہ ہے قواعد العروض از قدر بلگرامی:
14657365_1193748917357420_8773342868715300765_n.jpg

14650194_1193749120690733_8543026748497094146_n.jpg

14716243_1193749024024076_3310340296302685436_n.jpg

14671114_1193749050690740_7240837926546978765_n.jpg

دیکھیے۔ یہ ہائ لائٹ کیے گئے جملے عین وہی ہیں جن کا حوالہ آپ نے مانگا تھا۔
۔۔
مزید بحر الفصاحت کو دیکھیے:

14716283_1193757940689851_1936576603674557205_n.jpg

یہاں بھی مولوی نجم الغنی میری بات کی تائید کر رہے ہیں۔
قبلہ و کعبہ، آپ نے بلاوجہ اتنی تکلیف کی۔ میرا تو سوال ہی کچھ اور تھا:
آپ خود عروض کی جن کتابوں کو مستند قرار دیتے ہیں، ان میں سے کسی میں سے، بشمول قواعد العروض از قدرؔ بلگرامی، یہ حوالہ پیش کر سکتے ہیں کہ رباعی کے حشوین میں موجود مفعولن کو اخرم کی بجائے مسکن قرار دیا گیا ہو؟ صرف ایک حوالہ؟
آپ کے حوالوں میں سے ایک بھی میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔
میری طرف سے اب بحث کا اختتام ہو چکا ہے۔ کیونکہ اس سے زیادہ عروض تو مجھے بھی نہیں آتا۔ سو مزید بحث میں حصہ لینے سے معذور ہوں۔
بجا۔
 
آپ کے حوالوں میں سے ایک بھی میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔
تھوڑی سی اور وضاحت فرما دیجیے کہ آپ کا سوال کیا تھا؟ میں نے تو اصول کا حوالہ دے دیا ہے کہ حشو میں مفعولن اخرم نہیں بلکہ محنق یا مسکن کہلاتا ہے۔
کیا آپ بالخصوص رباعی کے حشوین میں مفعولن کے لیے اخرم کی بجائے مسکن یا محنق کا "لفظ" چاہ رہے ہیں؟ تاکہ میں اسی کی تصویر لے کر بھیج دوں۔
 
تھوڑی سی اور وضاحت فرما دیجیے کہ آپ کا سوال کیا تھا؟ میں نے تو اصول کا حوالہ دے دیا ہے کہ حشو میں مفعولن اخرم نہیں بلکہ محنق یا مسکن کہلاتا ہے۔
کیا آپ بالخصوص رباعی کے حشوین میں مفعولن کے لیے اخرم کی بجائے مسکن یا محنق کا "لفظ" چاہ رہے ہیں؟ تاکہ میں اسی کی تصویر لے کر بھیج دوں۔
---
میرا خیال ہے کہ مناسب ہو گا کہ ہم سوال کا پس منظر ایک مرتبہ پھر دیکھ لیں:
ہم دیکھتے ہیں کہ رباعی کے کلاسیکی اوزان میں بھی یہ کوتاہی اسی طرح موجود رہی ہے اور اخرب و اخرم وغیرہ ارکان جن کا مقام دراصل صدر و ا بتدا ہیں، حشو میں بھی روا رکھے گئے ہیں۔
ایسا صرف وہی کرسکتا ہے جو عروض کی بنیادی ہیئت اور اجمال سے ناواقف ہو۔ اسی لیے کئی عروضی کتابوں میں ایسی غلطیاں پائی جاتی ہیں کہ زحافات کو بے محل لگا کر وزن اور نام پورا کردیتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ در حقیقت وہی زحاف استعمال ہوا ہے۔
تو گویا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مثلاً "مفعولن مفعولن مفعولن فع" میں دوسرا اور تیسرا رکن اخرم نہیں ہے؟ کیونکہ خرم تو اصولاً صدر و ابتدا سے مخصوص ہے اور حشو میں وارد نہیں ہو سکتا۔ پہلے رکن کی حد تک تو جائز ہے دوسرا اور تیسرا مفعولن کیا ہے؟ یہاں پر ہزج کے کون سے زحاف کو کام میں لائیں گے حضور؟ اسناد بھی مہیا کر دیں گے تو بہتر ہو گا۔
عرض ہے کہ خرم کو حشوین میں نہیں لایا گیا۔
عجمی عروض میں دو رویے رائج رہے ہیں۔ اگر ایک ہی رکن میں تین متحرکات یکجا ہو جائیں تو ان میں درمیان والے کو ساکن کردیا جاتا۔ اور اسے تسکینِ اوسط کا نام دیتے۔ اور اگر دو ارکان کو جمع کرکے تین متحرکات یکجا ہو رہے ہیں تو بھی درمیان والے کو ساکن کیا جاتا، لیکن اسے تسکینِ اوسط نہیں، بلکہ تحنیق کہا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ تحنیق کی اصطلاح کم ہوگئی اور اس رویے کو مجموعی طور پر تسکینِ اوسط کہا جانے لگا۔ چنانچہ ہزج میں مفعولن جب شروع میں آتا تو اسے اخرم کہا جاتا، اور جب درمیان میں آتا تو محنق (تحنیق سے) کہا جاتا۔ اگر تحنیق کی جگہ سے تسکین کہیں اور مسکن رکن کہیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
آپ خود عروض کی جن کتابوں کو مستند قرار دیتے ہیں، ان میں سے کسی میں سے، بشمول قواعد العروض از قدرؔ بلگرامی، یہ حوالہ پیش کر سکتے ہیں کہ رباعی کے حشوین میں موجود مفعولن کو اخرم کی بجائے مسکن قرار دیا گیا ہو؟ صرف ایک حوالہ؟
یہ ہے قواعد العروض از قدر بلگرامی:
14657365_1193748917357420_8773342868715300765_n.jpg

14650194_1193749120690733_8543026748497094146_n.jpg

14716243_1193749024024076_3310340296302685436_n.jpg

14671114_1193749050690740_7240837926546978765_n.jpg

دیکھیے۔ یہ ہائ لائٹ کیے گئے جملے عین وہی ہیں جن کا حوالہ آپ نے مانگا تھا۔
امید ہے سوال اس تناظر کو دیکھنے کے بعد واضح ہو جائے گا۔ میرا دعویٰ تھا کہ خرم کو حشوین میں عروضیین لاتے رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ عروض سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ دراصل ایسے ارکان مخنق یا مسکن ہوتے ہیں۔ اب ہے یوں کہ یہ واقعی تخنیق یا تسکین ہی سے حاصل ہوتے ہیں۔ مگر معاملہ یہ ہے کہ تخنیق ایک تقریباً متروک زحاف ہے جس کا ذکر تو اکثر لوگوں نے کیا ہے مگر عملی طور پر ہزج کی بحور میں اسے لاگو نہیں کیا گیا۔ بلکہ اسے خرم ہی قرار دینے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ تخنیق کا حوالہ بہرحال میں نے آپ سے طلب نہیں کیا۔ تسکینِ اوسط دوسری جانب ایک ایسا وسیع الاطلاق زحاف ہے جس کا ذکر بھی عملی صورت میں نہ ہونے کے برابر ملتا ہے۔ اسے ایک کلیے یا قاعدے کی حیثیت بہرحال حاصل رہی ہے۔
لہٰذا میں نے آپ کے اس ادعا پر کہ خرم اپنے محل پر استعمال نہیں ہوا، آپ سے درخواست کی کہ آپ رباعی کے لیے تسکینِ اوسط نامی کسی زحاف کا عملی اطلاق دکھائیے۔ یعنی یہ واضح کیجیے کہ رباعی کے کسی رکن کو جو مفعولن کے وزن پر حشوین میں وارد ہوا ہے اخرم کی بجائے اساتذۂِ عروض کی جانب سے مسکن قرار دیا گیا ہو۔ رباعی کے نو زحافات کو آپ جانتے ہی ہیں۔ خرم، خرب، کف، قبض، شتر، ہتم، زلل، جب اور بتر۔ تسکین ایک قاعدے کی صورت میں تو یہاں بھی موجود رہی ہے مگر کسی نے اسے رباعی پر عمل کرنے والے زحافات میں شمار کرنے کی زحمت نہیں کی۔ کیوں؟
اب اگر تمام اساتذہ نے مفعولن حشوی کو اخرم قرار دیا ہے تو یہ بات ماننی پڑے گی کہ خرم کی بابت آپ کا یہ خیال غلط تھا کہ یہ حشوین میں نہیں لایا جا سکتا۔ اور اگر کسی ایک بھی مستند عروضی نے اسے مسکن کے نام سے یاد کیا ہے تو میں تسلیم کر لوں گا کہ خرم کو حشو میں روا رکھنا عروض سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
آپ کی نزدیک جو کتابیں مستند ہیں ان کا ذکر آپ نے یوں کیا ہے:
کتابوں میں:
1۔ میزان الافکار
2۔ معیار الاشعار
3۔ جوہر العروض
4۔ بہار بلاغت
5۔ چراغ سخن
6۔ آہنگ اور عروض
7۔ آئینۂ بلاغت
8۔ دریائے لطافت (انشا اللہ خان والی)
9۔ حدائق البلاغت
10۔ بحر الفصاحت
11۔ قواعد العروض (قدر بلگرامی والی)
12۔ زرِ کامل عیار (شرح)
13۔ بحر العروض (پنڈت کنہیا لال والی)
ا
یہ سب کی سب مستند ترین کتابیں ہیں۔
 
---
اور اگر کسی ایک بھی مستند عروضی نے اسے مسکن کے نام سے یاد کیا ہے تو میں تسلیم کر لوں گا کہ خرم کو حشو میں روا رکھنا عروض سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
آپ کی اوپر کی تقریباً تمام باتوں ہی سے اختلاف ہے۔ لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے صرف مدعے پر آنا چاہتا ہوں تاکہ بحث مزید آگے نہ بڑھے۔
اب درستی کیجیے گا کہ آپ کی سرخ کردہ عبارت کا مطلب یہ ہوا کہ رباعی کے حشوین میں آنے والے مفعولن کو اگر کسی بھی مستند عروضی نے اخرم کی جگہ محنق یا مسکن کہا ہے تو اس کا حوالہ آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا میں درست سمجھا ہوں۔ ؟
 
اب درستی کیجیے گا کہ آپ کی سرخ کردہ عبارت کا مطلب یہ ہوا کہ رباعی کے حشوین میں آنے والے مفعولن کو اگر کسی بھی مستند عروضی نے اخرم کی جگہ محنق یا مسکن کہا ہے تو اس کا حوالہ آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا میں درست سمجھا ہوں۔ ؟
مخنق نہیں۔ مسکن! :):):)
 
محنق اور مسکن کو میں شروع سے ایک دوسرے کے قائم مقام کے طور پر استعمال کرتا رہا ہوں۔ :)
ملاحظہ فرمائیں:
اگر ایک ہی رکن میں تین متحرکات یکجا ہو جائیں تو ان میں درمیان والے کو ساکن کردیا جاتا۔ اور اسے تسکینِ اوسط کا نام دیتے۔ اور اگر دو ارکان کو جمع کرکے تین متحرکات یکجا ہو رہے ہیں تو بھی درمیان والے کو ساکن کیا جاتا، لیکن اسے تسکینِ اوسط نہیں، بلکہ تحنیق کہا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ تحنیق کی اصطلاح کم ہوگئی اور اس رویے کو مجموعی طور پر تسکینِ اوسط کہا جانے لگا۔ چنانچہ ہزج میں مفعولن جب شروع میں آتا تو اسے اخرم کہا جاتا، اور جب درمیان میں آتا تو محنق (تحنیق سے) کہا جاتا۔ اگر تحنیق کی جگہ سے تسکین کہیں اور مسکن رکن کہیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
 
میں اکثر کہتا ہوں کہ عروض جب اردو میں آیا ہے تو اسے سمجھنے والے لوگ بہت ہی کم تھے۔ اور جو سمجھتے تھے وہ بغیر کچھ کہے اور بغیر کچھ لکھے گزر گئے۔ اور اب تو یہ حال ہے کہ میری ناہنجار و گمراہ طبیعت مجھے قدر بلگرامیؔ کے علاوہ کسی کو عروضی ماننے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔
بہر حال۔ رباعی کی کہانی بھی سن لیجیے۔
رباعی کے دس، بارہ، بیس یا چوبیس نہیں۔ صرف دو اوزان ہیں۔ اور باقی سارے اوزان انہی کی فرع ہیں۔ اور یہ اصل اوزان یوں ہیں۔
1۔ مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعل
2۔ مفعول مفاعلن مفاعیلُ فعل

بس ان دو اوزان کو یاد رکھ لیں تو گویا آپ نے چوبیس اوزان یاد کرلیے۔ اب ان میں جہاں بھی تین حرکات مسلسل ہیں ان میں سے درمیان والی کو ساکن (تسکینِ اوسط) کردیں۔ آخری رکن فعل کو ایک ساکن بڑھا کر فعول بھی کر سکتے ہیں جو کہ عروض میں معمول ہے۔ پہلے وزن سے سولہ مزید اوزان اور دوسرے سے آٹھ اوزان پورے چوبیس اوزان نکل آئیں گے انہی دو سے۔
مزید اوزان کی ترکیب اور زحافات کی تفصیل یہاں ملاحظہ فرما لیں۔
آپ نے تحریر میں لکھا ہے کہ بتر کا زحاف پورا وتد مجموع ختم کرتا ہے جو رکن کے شروع میں ہو جب کہ میرا تو خیال ہے کہ بتر جب اور خرم کا مجموعہ ہے یعنی کہ یہ ابتدائی وتد مجموع کا پہلا حرف اور آخری دو سبب خفیف ختم کر دے گا اور فع باقی رہ جائے گا۔
 
Top