حسان خان

لائبریرین
طاعتی کان در حقیقت مُوجبِ قُربِ خداست
طوفِ خاکِ درگهٔ مظلومِ دشتِ کربلاست
(محمد فضولی بغدادی)

وہ طاعت جو در حقیقت خدا کے قُرب کا مُوجب ہے، وہ مظلومِ دشتِ کربلا کی درگاہ کی خاک کا طواف ہے۔
 
آخری تدوین:
گل آمد و لعلم ز دلِ سنگ بر آورد
اشکم ز تماشائے چمن رنگ بر آورد

گل آیا اور اس نے میرے پتھر کے دل سے لعل نکال دیے۔ میرے آنسو بھی چمن کا تماشا دیکھ کر رنگین ہو گئے۔

نظیری نیشاپوری
 

حسان خان

لائبریرین
گل آمد و لعلم ز دلِ سنگ بر آورد
اشکم ز تماشائے چمن رنگ بر آورد

گل آیا اور اس نے میرے پتھر کے دل سے لعل نکال دیے۔ میرے آنسو بھی چمن کا تماشا دیکھ کر رنگین ہو گئے۔

نظیری نیشاپوری
لعلم ز دلِ سنگ برآورد = میرے پتھر کے دل سے لعل باہر لے آیا، یعنی میرے سنگی دل کو لعل میں تبدیل کر دیا
 

حسان خان

لائبریرین
ز ذوقِ بانگِ الستند عارفان در وجد
سخن تمام شد و لذتِ سخن باقی‌ست
(میر غلام‌علی آزاد بلگرامی)

بانگِ الست کے ذوق سے عُرَفاء وجد میں ہیں؛ سخن تمام ہو گیا لیکن لذتِ سخن باقی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(دوبیتی)
خدایا، هم‌نشینِ عاقلان کن،
خدایا، هم‌ردیفِ عادلان کن.
به قبرستان اگر روزی بخُسپم،
مرا همسایهٔ صاحب‌دلان کن.
(لایق شیرعلی)

اے خدا، [مجھے] عاقلوں کا ہم نشیں کر؛ اے خدا، [مجھے] عادلوں کا ہم صف کر؛ اگر ایک روز میں قبرستان میں سو جاؤں تو مجھے صاحب دلوں کا ہمسایہ کر۔
 

حسان خان

لائبریرین
همی‌گویم و گفته‌ام بارها
بُوَد کیشِ من مِهرِ دل‌دار‌ها
(علامه طباطبایی)

میں کہتا رہتا ہوں اور بارہا کہہ چکا ہوں کہ میرا مذہب دلداروں کی محبت ہے۔
 
همی‌گویم و گفته‌ام بارها
بُوَد کیشِ من مِهرِ دل‌دار‌ها
(علامه طباطبایی)

میں کہتا رہتا ہوں اور بارہا کہہ چکا ہوں کہ میرا مذہب دلداروں کی محبت ہے۔
کیا بات ہے جی ۔۔۔۔محبتیں بانٹتے ہیں آپ ۔۔۔۔۔کچھ مجھے بھی مل سکتا۔۔۔فارسی سیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
کیا بات ہے جی ۔۔۔۔محبتیں بانٹتے ہیں آپ ۔۔۔۔۔کچھ مجھے بھی مل سکتا۔۔۔فارسی سیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔
ماشاءاللہ! بسیار خوب! میں فارسی سیکھنے میں آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔ آپ اِس دھاگے میں اشعار پڑھنے اور اُنہیں خود سے تجزیہ کر کے سمجھنے کی کوشش کرتے رہیے۔ اگر ذہن میں کوئی سوال آئے تو اِس دھاگے میں پوچھ لیجیے۔فارسی آسان زبان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ جلد ہی فارسی شاعری سمجھنے لگیں گے۔
یہ دھاگا بھی آپ کے لیے مفید ہو گا۔
 
ماشاءاللہ! بسیار خوب! میں فارسی سیکھنے میں آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔ آپ اِس دھاگے میں اشعار پڑھنے اور اُنہیں خود سے تجزیہ کر کے سمجھنے کی کوشش کرتے رہیے۔ اگر ذہن میں کوئی سوال آئے تو اِس دھاگے میں پوچھ لیجیے۔فارسی آسان زبان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ جلد ہی فارسی شاعری سمجھنے لگیں گے۔
یہ دھاگا بھی آپ کے لیے مفید ہو گا۔
ان شاء اللہ میں ضرور ایسا کروں گا۔۔۔اور برابر آپ سے رابطے میں رہنے کی کوشش کروں گا۔۔خوش رہیں۔۔اللہ آپکے علم و عمل میں برکت دے آمین
 

حسان خان

لائبریرین
عاشقی، شوریدگی، دیوانگی، فرزانگی
از درختِ عمر چون برگِ خَزانم می‌رود.
(لایق شیرعلی)

عاشقی، شوریدگی، دیوانگی اور فرزانگی میرے درختِ عمر سے برگِ خزاں کی مانند چلی جائیں گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
چاه‌ساری‌ست زمانی، که در آن زیسته‌ایم،
گر ز چاهی برهی، افتی به صد چاهِ دگر.
(لایق شیرعلی)

یہ زمانہ، کہ جس میں ہم نے زندگی بسر کی ہے، ایک چاہ سار ہے؛ اگر ایک چاہ سے نجات پا جاؤ تو سینکڑوں دیگر چاہوں میں گر جاؤ گے۔
× چاہ = کنواں
× چاہ سار = وہ جگہ جہاں بہت کنوئیں ہوں
 

حسان خان

لائبریرین
چون ندارم آنچه با قارون فرو شد در زمین
در دلم آن است کآن را قبله کردی زَردهِشت
(انوری ابیوَردی)

چونکہ میرے پاس وہ چیز نہیں ہے جو قارون کے ساتھ زمین میں دھنس گئی تھی (یعنی مال) لہٰذا میرے دل میں وہ ہے جسے زرتشت قبلہ بنایا کرتا تھا (یعنی آتش)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پُرسش اگر نیست بگو ناسزا
کز دہنت یک سخنم آرزوست


مولانا عبدالرحمٰن جامی

اگر تُو (میرا) حال نہیں پوچھتا تو (مجھے) ناشائشتہ اور برا بھلا ہی کہہ دے کہ تیرے مُنہ سے مجھے کچھ نہ کچھ سننے کی آرزو ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نه شاهدی به تماشا نه بی‌دلی به نوا
ز غنچه گُلبُن و از بلبل آشیان خالی‌ست
(غالب دهلوی)

نہ کوئی معشوق جلوہ گر ہے، نہ کوئی عاشقِ بیدل ہی مصروفِ فریاد۔ پھولوں کی کیاری کلی سے اور آشیاں بلبل سے خالی پڑا ہے۔
شاعر نے پہلے مصرعے میں جو بات کہی ہے وہ دوسرے مصرعے میں استعارتاً دہرائی ہے۔ گویا شاہد کے لیے غنچہ اور بیدل کے لیے بلبل کا استعارہ لایا ہے۔
وہ بھی کیا افسردہ فضا ہو گی جہاں نہ حُسن کی جلوہ گری ہو اور نہ عشق کی نواگری۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
گرش به دیدنِ من گریه رُو نداد چه جرم
نهادِ آتشِ شوقِ من از دُخان خالی‌ست
(غالب دهلوی)

اگر مجھے دیکھ کر میرے معشوق کی آنکھوں میں آنسو نہیں آئے تو اُس کی کیا خطا، میری محبت کی آگ کی طینت ہی ایسی ہے کہ وہ دھوئیں سے خالی ہے۔ اس سے کوئی دھواں نہیں اُٹھتا کہ جس کے لگنے سے آنکھوں میں آنسو آ جائیں۔
آتشِ دل یا آتشِ عشق جلتی ضرور ہے لیکن نظر نہیں آتی۔ اس سے عام آگ کی طرح دھواں بھی نہیں اُٹھتا کیونکہ اس کی فطرت ہی کچھ اور ہے۔
مقصود یہ ہے کہ عشق کی آگ عاشق کو تو جلاتی ہے، معشوق پر اثر انداز ہوتی ہے کہ نہیں یہ اور بات ہے۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
دلم معبودِ زردُشت است، غالب فاش می‌گویم
به خس یعنی قلم، من داده‌ام آذرفشانی را
(غالب دهلوی)

زردشت یا زرتشت = پارسیوں یا آتش پرستوں کے پیغمبر کا نام ہے۔ آذر آگ ہے۔ آذر فشانی = آگ برسانا یا چھڑکنا۔
خس تنکے کو کہتے ہیں جو آگ میں فی الفور جل جاتا ہے۔
مرزا غالب نے اپنے قلم کو خس کہا ہے گویا وہ بآسانی بھڑک اُٹھتی ہے۔ غالب! میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ میرا دل زردشت کا معبود ہے یعنی آگ ہے اور میں نے خس یعنی قلم کو آگ برسانے کا کام سپرد کیا ہے۔
یعنی میرے قلم سے شعلے ٹپکتے ہیں۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
به جز سوزنده اخگر گل نگُنجد در گریبانم
بدآموزِ عتابم، برنتابم مهربانی را
(غالب دهلوی)

میرے گریباں میں، سوائے جلانے والی چنگاری کے کوئی پھول نہیں سماتا۔ میری عادتوں کو معشوق کے عتاب نے بگاڑا ہے۔ میں اندازِ مہربانی کی تاب ہی نہیں لا سکتا۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

محمد وارث

لائبریرین
کمتر نیَم ز شبنمِ حیراں دریں چمن
یک چشم دیدنِ رُخِ جانانم آرزوست


شیخ علی حزیں لاھیجی

اس چمن میں میں کسی بھی طرح شبنمِ حیراں سے کمتر نہیں ہوں، مجھے بھی ایک نظر رُخِ جاناں دیکھنے (اور اُس کے بعد شبنم کی طرح فنا ہونے) کی آرزو ہے۔​
 

حسان خان

لائبریرین
تنها نه من جنونیِ ابرویِ اُوستم
آن ماهِ نو که دید که عقلش نزایلید
(طرزی افشار)

صرف میں ہی اُس کے ابرو کا جنونی نہیں ہوں۔۔۔ ایسا کون ہے جس نے اُس ماہِ نو کو دیکھا ہو اور اُس کی عقل زائل نہ ہو گئی ہو؟
× 'زایلیدن' شاعر کا اختراع کردہ مصدر ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
زخمہائے لب فراہم کردہ را
بوسۂ شمشیرِ قاتل آرزوست


ناصر علی سرہندی

میرے مندمل ہوتے زخموں (لب مِلتے ہوئے زخموں) کو قاتل کی شمشیر کا بوسہ لینے کی آرزو ہے (کہ ایک بار پھر سے زخم کُھل جائیں)۔
 
Top