مصرعوں کا ملک شیک

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا !​
مولانا ظفرؔ علی خان اور اقبالؔ کے مصرعوں کا یہ جوڑ جب پہلی دفعہ ہم نے سنا تو لوٹ پوٹ ہو گئے۔ بعد کو خیال آتا رہا کہ یہ کھیل اچھا ہے۔ کبھی یار دوستوں میں بیٹھ کر کھیلا جائے۔ برا ہو ہماری بری عادتوں کا کہ خیال خیال ہی کی حد تک رہا۔
اب سوچتے ہیں کہ محفل پر بڑے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں۔ اس سے زیادہ موزوں موقع محل اس کھیل کا اور کیا ہو گا۔
تو لیجیے، ہم آغاز کرتے ہیں۔ ذیل کے ملک شیک ایک ایک مصرع اقبالؔ سے اور ایک ایک غالبؔ سے لے کر بنائے گئے ہیں:

نقش فریادی ہے کس کی شوخئِ تحریر کا
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے!

تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے !​
اب آپ کی باری!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوب راحیل ۔
لیجیے ایک امتزاج۔غالباََ اکبر اور حالی کا مکس فلیور ہے ۔
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بی بیاں
تھی جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
 

فرقان احمد

محفلین
وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
روحانی طبیبوں سے دوا کیوں نہیں لیتے

ایک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
یارو مجھے مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتے
 

محمد وارث

لائبریرین
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایسا ہی ایک سلسلہ شاید پہلے بھی یہیں کہیں تھا۔ ایک شعر جو عطا الحق قاسمی نے "جوڑا" ہے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‌
 
Top