کیسے دکھائے دن دلِ خانہ خراب نے ۔۔۔

الشفاء

لائبریرین

کیسے دکھائے دن دلِ خانہ خراب نے
آنکھوں کو گھر بنا لیا اِک جُوئے آب نے

مستی نگاہِ یار کی دیکھی تو شرم سے
بوتل میں منہ چھپا لیا اپنا شراب نے

منکر نکیر آئے ہیں ، چھیڑا ہے ذکرِ یار
بزمِ سخن سجائی سوال و جواب نے

قُدس و عُلُوّ و علم و ظہور و غیاب کے
کتنے نقاب اوڑھے ہیں اِک بے نقاب نے

پلٹا ہے مہر جس کے لئے آسمان پر
پائی ہیں کیسی رفعتیں اِک بُو تراب نے

حیراں ہیں ساری اُمتیں محشر میں دیکھ کر
رتبے جو پائے اُمّتِ عالیجناب ﷺ نے

احبابِ علم و ذوق کے فیضان سے شفا
کیا خوب ہیں جو لفظ پروئے جناب نے

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
زبردست کلام بہت خوب۔ جناب من کیا ہی کہنے۔
بہت شکریہ حضور۔۔۔
خوش رہیں۔۔۔:)

نوازش محترمہ۔۔۔ :)
بہت خوب!! بہت اچھی کاوش ہے۔
شکریہ لا ریب بہنا ۔۔۔
احبابِ علم و ذوق کے فیضان سے شفا
کیا خوب ہیں جو لفظ پروئے جناب نے

آپ اپنا جواب ہیں حضور آپ تو ہم کیا کہیں آپ کے لکھے پہ..
بہت خوب کیا کہنے
آپ کا بھی جواب نہیں بھٹی صاحب۔۔۔
بڑی نوازش حضور۔۔۔:)

عمدہ کلام ہے ۔۔۔۔۔
شکریہ صفی حیدر بھائی۔۔۔:)
واہ ۔۔۔
قُدس و عُلُوّ و علم و ظہور و غیاب کے
کتنے نقاب اوڑھے ہیں اِک بے نقاب نے
کاشف بھائی۔ کلام پسند کرنے پر بندہ شکر گزار ہے۔۔۔:)

نوازش ابو عبداللہ بھائی۔۔۔:)

اصلاح و تجاویز کے بھی منتظر ہیں۔۔۔ :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کیسے دکھائے دن دلِ خانہ خراب نے
آنکھوں کو گھر بنا لیا اِک جُوئے آب نے
۔۔۔ درست ہے ۔۔۔
مستی نگاہِ یار کی دیکھی تو شرم سے
بوتل میں منہ چھپا لیا اپنا شراب نے
۔۔ پرانا مضمون، پھر بھی اچھا ہے۔۔۔
منکر نکیر آئے ہیں ، چھیڑا ہے ذکرِ یار
بزمِ سخن سجائی سوال و جواب نے
۔۔۔ دوسرے مصرعے سے سوال و جواب کا از خود بزمِ سخن سجانا معلوم ہوتا ہے، جبکہ مصرعِ اولیٰ اس کی تائید نہیں کرتا۔ اگر ذکرِ یار اور بزمِ سخن کو دو الگ الگ موضوعات سمجھیں تو شعر دو لخت ہے۔۔۔
قُدس و عُلُوّ و علم و ظہور و غیاب کے
کتنے نقاب اوڑھے ہیں اِک بے نقاب نے
۔۔۔ پہلے مصرعے میں استعمال کی جانے والی ترکیب بہت طویل ہو گئی، اس سے مصرعے کا حسن خراب ہوتا ہے۔۔ کچھ اور سوچئے کہ ترکیب کی طوالت معانی کو بھی متاثر کر رہی ہے، یہ سوال بھی اپنی جگہ کہ ترکیب کے الفاظ کا آپس میں تعلق کیا ہے کہ ان سب کا استعمال شاعر کو ایک ہی مصرعے میں لانا ضروری محسوس ہوا؟
پلٹا ہے مہر جس کے لئے آسمان پر
پائی ہیں کیسی رفعتیں اِک بُو تراب نے
۔۔ اک بو تراب سے شک ہوتا ہے جیسے کوئی دوسرا بو تراب بھی ہوسکتا ہے جو کہ غلط ہے۔ یہاں "جس کے لیے" بھی مصرعِ اولیٰ میں پریشان کرتا ہے، کہ اس کا جملہ مکمل نہیں ہوا ۔۔۔ بہتر مجھے یہاں یہ لگتا ہے کہ "پائی ہیں کیسی رفعتیں اُس بو تراب نے" کیا جائے۔
حیراں ہیں ساری اُمتیں محشر میں دیکھ کر
رتبے جو پائے اُمّتِ عالیجناب ﷺ نے
۔۔۔ درست ہے ۔۔۔ حالانکہ غزل میں یہ موضوع لانا غزل کو بعض کی نظر میں متنازعہ کردیتا ہے کہ یہ غزل ہے یا منقبت؟ لیکن یہاں برا نہیں لگتا۔
احبابِ علم و ذوق کے فیضان سے شفا
کیا خوب ہیں جو لفظ پروئے جناب نے
۔۔۔ شاعر کو یہاں دو الفاظ سے پکارا گیا: شفا اور جناب ۔۔۔ اس سے مقطع غیر واضح ہوگیا، کیونکہ میرے نزدیک آ پ نے لفظ شفا جو بطور تخلص استعمال کیا، وہی کافی تھا، جناب اضافی ہے۔ اگر جناب ضروری ہے تو شفا سے اس کا تعلق کسی اور طرح سے بنتا ہوا نظر آئے ۔۔۔ ۔کہنا اگر یہ مقصود ہے کہ جناب شفا: احباب علم و ذوق کے فیضان سے آپ نے کیا خوب لفظ پروئے، تو یہاں بیان کی کمزوری دکھائی دیتی ہے۔۔۔ توجہ فرمائیے گا۔۔۔اگر دوسرے مصرعے کو یوں کیا جائے کہ : کیا خوب ہیں جو لفظ پروئے ہیں آپ نے ۔۔۔ تو شعر واضح تو ہوگا، لیکن غزل میں نہیں آسکتا کیونکہ ہم قافیہ نہیں لاپائے۔۔

۔۔۔
[/QUOTE]
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
منکر نکیر آئے ہیں ، چھیڑا ہے ذکرِ یار
بزمِ سخن سجائی سوال و جواب نے
۔۔۔ اس شعر پر میری رائے، جو میں اوپر دے چکا، اس سے ایک انحراف ۔۔۔
اگر یوں سمجھئے کہ منکر نکیر آئے، انہوں نے ذکرِ یار چھیڑا تو ا ن کے سوال و جواب سے ایک بزمِ سخن سج گئی کہ بظاہر تو وہ نثر میں بات کر رہے تھے، لیکن ذکرِ یار نے اسے شاعری کے معیار پر پہنچا دیا، تو درست بھی دکھائی دیتا ہے، حالانکہ یہاں سوال و جواب میں "ان کے " کی کمی دکھائی دیتی ہے، لیکن بعض جگہ یہ کمی درست بھی ہوتی ہے۔۔۔ سو اس پر مزید افراد کی رائے جاننا بھی سود مند ثابت ہوگا۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
مزید دو اشعار کے ساتھ اساتذہ کرام کو ٹیگ کرتے ہیں۔ برائے اصلاح۔۔۔

عاجز کیا ہے ہجر نے لذت میں وصل کو
تڑپا دیا سکون کو اک اضطراب نے

اللہ سے ، رسول سے ، مؤمن سے انس سے
ہے پیار کا سبق دیا ام الکتاب نے

ٹیگز برائے اساتذہ کرام۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
منکر نکیر آئے ہیں ، چھیڑا ہے ذکرِ یار
بزمِ سخن سجائی سوال و جواب نے
۔۔۔ اس شعر پر میری رائے، جو میں اوپر دے چکا، اس سے ایک انحراف ۔۔۔
اگر یوں سمجھئے کہ منکر نکیر آئے، انہوں نے ذکرِ یار چھیڑا تو ا ن کے سوال و جواب سے ایک بزمِ سخن سج گئی کہ بظاہر تو وہ نثر میں بات کر رہے تھے، لیکن ذکرِ یار نے اسے شاعری کے معیار پر پہنچا دیا، تو درست بھی دکھائی دیتا ہے، حالانکہ یہاں سوال و جواب میں "ان کے " کی کمی دکھائی دیتی ہے، لیکن بعض جگہ یہ کمی درست بھی ہوتی ہے۔۔۔ سو اس پر مزید افراد کی رائے جاننا بھی سود مند ثابت ہوگا۔۔۔
آپ کی نوازش کا بہت شکریہ شاہد بھائی۔۔۔
جی ۔ اساتذہ کو ٹیگ کر دیا ہے۔ آپ بھی اوپر والے دو مزید اشعار دیکھ لیں۔۔۔
جزاک اللہ خیر۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مزید دو اشعار کے ساتھ اساتذہ کرام کو ٹیگ کرتے ہیں۔ برائے اصلاح۔۔۔
عاجز کیا ہے ہجر نے لذت میں وصل کو
تڑپا دیا سکون کو اک اضطراب نے
اللہ سے ، رسول سے ، مؤمن سے انس سے
ہے پیار کا سبق دیا ام الکتاب نے
ٹیگز برائے اساتذہ کرام۔۔۔
اشعار اچھے ہیں ۔ آخری شعرمیں ذرا اسلوب میں کمزور ہے جبکہ اس کا پہلا مصرع بھی کچھ توجہ کا طالب ہے ۔
قُدس و عُلُوّ و علم و ظہور و غیاب کے
یہاں ترتیب کچھ بہتر ہو سکتی ہے ، مثلا۔
قُدس و عُلُو ہو یا کہ حضوروغیاب ہو۔۔ وغیرہ
اک بوتراب والے مصرع کو بھی بہتر ہو نا چاہیئے۔
اسی طرح امتیں اور رفعتیں کی بندش ۔ ذرا بہتر ہوں تو اوراچھا لگے۔
اس کے باوجوداشعار البتہ اچھے ہیں ۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
عاجز کیا ہے ہجر نے لذت میں وصل کو
تڑپا دیا سکون کو اک اضطراب نے
۔۔۔سکون کا تڑپنا سمجھ میں نہیں آیا۔ ہاں، جسے سکون میسر ہو، اسے بعد ازاں تڑپایا جاسکتا ہے۔
اللہ سے ، رسول سے ، مؤمن سے انس سے
ہے پیار کا سبق دیا ام الکتاب نے
۔۔۔انس سےمراد اگر انسان ہے، تو اس سے قبل میں نے بھی "انس" لکھا تھا تو ا س پر اعتراض آیا۔ شاید محترم الف عین اس کی بہتر وضاحت کرسکیں کہ یہاں یہ درست ہے یا غلط ۔۔۔
 

شکیب

محفلین
عاجز کیا ہے ہجر نے لذت میں وصل کو
تڑپا دیا سکون کو اک اضطراب نے

اللہ سے ، رسول سے ، مؤمن سے انس سے
ہے پیار کا سبق دیا ام الکتاب نے
پہلے شعر کا مصرع اولیٰ میں ”نے، میں اور کو“ اچھا نہیں لگ رہا۔خیال چونکہ پرانا ہے، اس لیے جب تک الفاظ کوئی جادو نہیں کریں گے، تب تک شعر میں مزہ نہیں آئے گا۔
دوسرے شعر کا پہلا مصرع مزید محنت چاہتا ہے۔ دوسرے مصرع میں ”ہے“ سے خواہ مخواہ الفاظ کی ترتیب بدل رہی ہے، جب کہ وہ ضروری بھی نہیں۔ اس کی جگہ
اک پیار کا سبق دیا ام الکتاب نے

وغیرہ کچھ لایا جا سکتا ہے۔ محض مثال دی ہے۔
 
Top