جگر اے حسنِ یار شرم، یہ کیا انقلاب ہے

غدیر زھرا

لائبریرین
اے حسنِ یار شرم، یہ کیا انقلاب ہے
تجھ سے زیادہ درد ترا کامیاب ہے

عاشق کی بے دلی کا تغافل نہیں جواب
اس کا بس ایک جوشِ محبت جواب ہے

تیری عنایتیں کہ نہیں نظرِ جاں قبول
تیری نوازشیں کہ زمانہ خراب ہے

اے حسن اپنی حوصلہ افزائیاں تو دیکھ
مانا کہ چشمِ شوق بہت بے حجاب ہے

میں عشقِ بے نیاز ہوں تم حسنِ بے پناہ
میرا جواب ہے، نہ تمھارا جواب ہے

مے خانہ ہے اسی کا یہ دنیا اسی کی ہے
جس تشنہ لب کے ہاتھ میں جامِ شراب ہے

اس سے دلِ تباہ کی روداد کیا کہوں
جو یہ نہ سن سکے کہ زمانہ خراب ہے

اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک
ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے

اپنی حدود سے نہ بڑھے کوئی عشق میں
جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے

وہ لاکھ سامنے ہوں مگر اس کا کیا علاج
دل مانتا نہیں کہ نظر کامیاب ہے

میری نگاہِ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر
پھر بھی ترا شباب ترا ہی شباب ہے

مانوسِ اعتبارِ کرم کیوں کیا مجھے
اب ہر خطائے شوق، اسی کا جواب ہے

میں اس کا آئینہ ہوں وہ ہے میرا آئینہ
میری نظر سے اس کی نظر کامیاب ہے

تنہائیِ فراق کے قربان جائیے!
میں ہوں، خیالِ یار ہے، چشمِ پُر آب ہے

سرمایہء فراق، جگر آہ کچھ نہ پوچھ!
اب جان ہے، سو اپنے لیے خود عذاب ہے

(جگر مراد آبادی)
 
آخری تدوین:

حسن ترمذی

محفلین
واہ واہ بہت خوبصورت کلام
میں عشق بے نیاز ہوں تم حسن بے پناہ​
میرا جواب ہے نہ تمھارا جواب ہے​
اس شعر کا تو جواب نہیں​
 
213 مراسلوں کے ساتھ کتنا جی لیں گے آپ ۔۔۔۔۔اس لیے ہم نہیں کاٹتے آپ کا سر ۔۔۔ویسے بھی ہمارا تعلق قصائیوں کے خاندان سے نہیں ہے ۔۔۔۔ایک کڑوڑ مراسلے کر لیں پھر کچھ سوچیں گے ۔۔۔
محترم آپ تو حساب کتاب کہ ماہر ہیں۔ اور ہم اس مضمون کے نالائق ترین طالب علم۔ خیر ایسے تیسے ہمارے کوئی اہداف نہیں ہم تو سیکھنے آئے ہیں۔ اللہ اس کی توفیق دے۔
 
Top