متوازی دنیائیں (Parallel Worlds) از میچیو کاکو

زہیر عبّاس

محفلین
چھٹا باب - 6

جوہری بم


بدقسمتی سے ان نازک تناقضات پر ہونے والی بحث ہٹلر کے ١٩٣٣ء کے بعد سے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ اور جوہری بم بنانے کی جلدی کی وجہ سے منقطع ہو گئی۔ کافی برسوں سے یہ بات معلوم تھی کہ آئن سٹائن کی شہرہ آفاق مساوات E=mc^2 کی کلیے کے مطابق جوہر میں زبردست مقدار میں توانائی مقید ہے۔ لیکن زیادہ تر طبیعیات دان اس توانائی کو قابو کرنے کے لئے کچھ زیادہ پرامید نہیں تھے۔ یہاں تک کہ جوہر کے مرکزے کو دریافت کرنے والا ارنسٹ ردر فورڈ بھی کہہ اٹھا، " وہ توانائی جو جوہر کو توڑ کر حاصل کی جائے وہ بہت ہی بری توانائی کی قسم ہے۔ کوئی بھی شخص جو طاقت کا منبع ان جوہروں کو توانائی میں منتقل کرنے کا سوچ رہا ہے وہ چاند کی روشنی کی بات کر رہا ہے۔"

١٩٣٩ء میں بوہر نے ایک ثمر آور دورہ امریکہ کا کیا جہاں پر وہ نیویارک میں اپنے شاگرد وہیلر سے ملنے آیا تھا۔ اس کے پاس ایک منحوس خبر تھی، اوٹو ہان اور لز میٹنر نے حال ہی میں اس بات کو ثابت کیا تھا کہ یورینیم کے مرکزے کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں توانائی نکلتی ہے اور اس عمل کو عمل انشقاق کہتے ہیں۔ بوہر اور وہیلر نے جوہری عمل انشقاق پر کوانٹم حرکیات میں کام کرنا شروع کیا ۔ کیونکہ کوانٹم کے نظریئے میں ہر چیز امکان و اتفاق کا نام ہے، لہٰذا انہوں نے اس امکان کا اندازہ لگایا کہ اگر ایک نیوٹران یورینیم کے مرکزے سے نکل کر الگ ہو جائے، جس کے نتیجے میں دو یا زیادہ نیوٹران کو خارج کرے جو مزید یورینیم کے مرکزے میں انشقاق کا عمل دہرائے ، جو مزید نیوٹران کو چھوڑیں گے اور اس طرح سے سلسلہ چلتا چلا جائے گا، اور ایک ایسا زنجیری عمل شروع ہو جائے گا جو ایک جدید شہر کو کھنڈر میں تبدیل کر دے گا۔ (کوانٹم کی طبیعیات میں آپ کو کبھی نہیں معلوم ہو سکتا کہ کوئی مخصوص نیوٹران یورینیم کے جوہر میں انشقاق کا عمل شروع کر سکتا ہے۔ لیکن آپ ناقابل تصوّر طور پر درستگی کے ساتھ اس امکان کا حساب لگا سکتے ہیں کہ ارب ہا یورینیم کے جوہر بم میں انشقاق کا عمل شروع کر سکتے ہیں۔ یہی کوانٹم طبیعیات کی طاقت ہے۔)

ان کے کوانٹم کے حسابات اس بات کا عندیہ دے رہے تھے کہ ایک جوہری بم بنانا ممکن ہے۔ دو مہینے بعد، بوہر، یوجین ویگنر، لیو زیلارڈ اور وہیلر پرنسٹن میں واقع آئن سٹائن کے پرانے دفتر میں ملے تاکہ جوہری بم کے مستقبل کے حوالے سے گفت و شنید ہو سکے۔ بوہر سمجھتا تھا کہ قوم کے تمام ذرائع بم بنانے میں لگ جائیں گے۔ (چند برس بعد زیلارڈ نے آئن سٹائن کو اس بات کے لئے منایا کہ وہ ایک نتیجہ خیز خط صدر فرینکلن روزویلٹ کو لکھے اور اس سے جوہری بم بنانے کی درخواست کرے۔) اسی برس نازی بھی اس بات سے باخبر ہو گئے تھے کہ یورینیم کے جوہر سے نکلنے والی تباہ کن توانائی انھیں ایک ناقابل شکست ہتھیار دے سکتی ہے لہٰذا انہوں نے بوہر کے ایک شاگرد ہائیزن برگ کو ہٹلر کے لئے ایک جوہری بم بنانے کا حکم دیا۔ زندہ بلیوں کو تلاش کے امکانات پر ہونے والی بحث جلد ہی یورینیم کے انشقاق پر منتقل ہو گئی۔ ١٩٤١ء میں جب نازیوں کو یورپ کے زیادہ تر حصّوں پر قبضہ ہو گیا تھا تو ہائیزن برگ نے ایک خفیہ دورہ اپنے پرانے استاد بوہر سے ملنے کے لئےکوپن ہیگن میں کیا۔ ملاقات کی درست جزئیات اب بھی اسرار کے پردے میں لپٹی ہوئی ہیں، اور اس کے متعلق ایوارڈ جیتنے والے ڈرامے بھی لکھے جا چکے ہیں جس میں تاریخ دان اب بھی اس بارے میں بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ اس ملاقات میں ہوا کیا تھا۔ کیا ہائیزن برگ نے نازیوں کے جوہری بم کو بنانے کے منصوبے کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی ؟ یا اس نے بوہر کو نازی بم بنانے کے لئے اپنے ساتھ ملانے کی بات کی تھی؟ چھ عشروں بعد ٢٠٠٢ء میں ہائیزن برگ کی نیت سے متعلق کافی سارے اسراروں سے پردہ اٹھ گیا، جب بوہر کے خاندان نے ایک اس خط کو دکھایا جو بوہر نے ١٩٥٠ء میں ہائیزن برگ کو لکھا تھا لیکن اس کو کبھی ارسال نہیں کیا۔ اس خط میں بوہر یاد کرتا ہے کہ ہائیزن برگ نے ملاقات میں کہا تھا کہ نازیوں کی فتح ناگزیر ہے۔ کیونکہ نازیوں کی جگرناتھ کو کوئی نہیں روک سکتا لہٰذا یہ کافی معقول بات ہو گی کہ اگر بوہر نازیوں کے لئے کام کرے۔ بوہر اس بات سے اس قدر دہشت زدہ ہوا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی پھیل گئی اور اس کا قلب لرز اٹھا۔ لرزتے ہوئے اس نے اپنے کوانٹم نظریئے پر ہونے والے کام کو نازیوں کو دینے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ ڈنمارک نازیوں کے قبضے میں تھا، لہٰذا بوہر نے ہوائی جہاز کے ذریعہ ایک خفیہ فرار کا منصوبہ بنایا۔ اپنے اس سفر میں آزادی حاصل کرنے کے لئے اس کے پاس آکسیجن ختم ہو گئی تھی اور اس کا دم گھٹتے گھٹتے بچا ۔

اسی دوران کولمبیا یونیورسٹی میں اینریکو فرمی نے ثابت کیا کہ زنجیری تعامل ہونا قابل عمل ہے۔ اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد اس نے نیویارک شہر کو نظر بھر کر دیکھا اور سمجھ گیا کہ ایک اکلوتا بم ہر پس منظر میں نظر آنے والی چیز کو تہس نہس کر سکتا ہے۔ وہیلر نے اندازہ لگا لیا تھا کہ بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے ، لہٰذا اس نے خود سے پرنسٹن کو چھوڑ کر فرمی کے ساتھ مل کر یونیورسٹی آف شکاگو میں زیر زمین سٹگ فیلڈ میں کام کرنا شروع کر دیا جہاں دونوں نے مل کر پہلا نیوکلیائی ری ایکٹر بنایا جس نے باضابطہ طور پر نیوکلیائی دور کا آغاز کیا۔

اگلی دہائی میں، وہیلر نے جوہری جنگی ہتھیاروں میں ہونے والی کچھ تاریخی پیش رفت کو اپنی آنکھوں سے ہوتا ہوا دیکھا۔ جنگ کے دوران، اس نے ریاست واشنگٹن میں واقع جسیم ہنفورڈ نیوکلیائی جگہ کو محفوظ بنانے کے لئے نگرانی بھی کی ، یہاں پر خام پلوٹونیم کو بنایا جاتا تھا جو بم کو بنانے میں استعمال ہوتا تھا اس بم کو جس نے ناگاساکی کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ چند برسوں بعد اس نے ہائیڈروجن بم پر کام شروع کیا، اور پہلے ہائیڈروجن بم کو پھٹتے ہوئے اور تباہی پھیلاتے ہوئے ١٩٥٢ء میں دیکھا جب سورج کا ایک ٹکڑا بحرالکاہل کے ایک جزیرے پر چھوڑا گیا ۔ ایک عشرے تک دنیا کی تاریخ کے ہر اوّل دستے میں رہنے کے بعد وہ بالآخر اپنے پہلے پیار کی طرف آہی گیا یعنی کوانٹم نظریئے کے اسرار۔​
 

اکمل زیدی

محفلین
زہیر صاحب ویسے تو آپ جو بھی یہاں انفارمیشن شئیر کرتے ہیں دلچسپی رکھنے والوں کے کے لئے یقینا سود مند ہوتی ہیں ...میں بھی اکثر آپ کے مضامین دیکھتا ہوں ..(مگرصاف بات اتنی ڈیٹیل میں نہیں) مگر ابھی نظروں سے ایک کتاب گزری گرچہ مجھے اس کتاب کا نام عجیب سا لگا مگر ہے بہت معلوماتی امام جعفر صادق علیہ سلام سے متعلق "سپر مین ان اسلام" جس میں ان کے علمی کمالات اور کائنات سے متعلق فرمودات ہیں پھر ابھی حال ہی میں نماز جمعہ میں مولانا صاحب نے خطبے میں ایک ریسرچ کا حوالہ دیا جس میں گاڈ پارٹیکل پر بات کی سچی بات کافی کچھ سر پر سے گزر گیا آپ سے درخواست ہے کچھ اس پر بھی لکھیں ...شکر گزار رہونگا
 

زہیر عبّاس

محفلین
امام جعفر صادق علیہ سلام سے متعلق "سپر مین ان اسلام" جس میں ان کے علمی کمالات اور کائنات سے متعلق فرمودات ہیں
یہ کتاب میرے پاس بھی ہے اور میں نے اس کے کچھ ابواب کا مطالعہ بھی کیا ہے ۔ یہ کتاب فارسی کی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ اصل کتاب (بلکہ یہ کتاب نہیں بلکہ تحقیقاتی نوٹس ہیں شاید) فرانسیسی زبان میں ہے جس کو فارسی میں ترجمہ کیا گیا ہے اور پھر وہاں سے یہ اردو میں ترجمہ ہوئی ہے۔

یہ کتاب انتہائی دلچسپ ہے تاہم کیونکہ یہ ایک عظیم ہستی کے فرمودات سے تعلق رکھتی ہے لہٰذا میں پہلے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس کے فرانسیسی ماخذ کی اصل حقیقت کیا ہے؟ میں نے انٹرنیٹ پر کافی سرچ کی تاہم مجھے کہیں سے بھی اس کے فرانسیسی ماخذ کی صحت کے بارے میں تصدیق نہیں ہوسکی۔ بلکہ کتاب پر ایک کمنٹ کسی متشرق نے کیا تھا جس سے کچھ اور شکوک و شبہات پیدا ہوگئے تھے۔

اگر آپ اس کے ماخذ کی تصدیق کرنے میں کسی طرح سے مدد کرسکیں تو بڑی مہربانی ہوگی کیونکہ اس صورت میں یہ ایک انمول کتاب ہوگی اور اس کے کئی حصّوں کو سائنسی تحریروں میں بطور حوالہ جات استعمال کیا جاسکتا ہے۔​
 

اکمل زیدی

محفلین
یہ کتاب میرے پاس بھی ہے اور میں نے اس کے کچھ ابواب کا مطالعہ بھی کیا ہے ۔ یہ کتاب فارسی کی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ اصل کتاب (بلکہ یہ کتاب نہیں بلکہ تحقیقاتی نوٹس ہیں شاید) فرانسیسی زبان میں ہے جس کو فارسی میں ترجمہ کیا گیا ہے اور پھر وہاں سے یہ اردو میں ترجمہ ہوئی ہے۔

یہ کتاب انتہائی دلچسپ ہے تاہم کیونکہ یہ ایک عظیم ہستی کے فرمودات سے تعلق رکھتی ہے لہٰذا میں پہلے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس کے فرانسیسی ماخذ کی اصل حقیقت کیا ہے؟ میں نے انٹرنیٹ پر کافی سرچ کی تاہم مجھے کہیں سے بھی اس کے فرانسیسی ماخذ کی صحت کے بارے میں تصدیق نہیں ہوسکی۔ بلکہ کتاب پر ایک کمنٹ کسی متشرق نے کیا تھا جس سے کچھ اور شکوک و شبہات پیدا ہوگئے تھے۔

اگر آپ اس کے ماخذ کی تصدیق کرنے میں کسی طرح سے مدد کرسکیں تو بڑی مہربانی ہوگی کیونکہ اس صورت میں یہ ایک انمول کتاب ہوگی اور اس کے کئی حصّوں کو سائنسی تحریروں میں بطور حوالہ جات استعمال کیا جاسکتا ہے۔​
جو ریفرنس مجھے مل سکا :
اِس عظیم ترین ہستی پرکچھ عرصہ پہلے\”اِسلامک سٹڈیز سنٹرسٹراسبرگ فرانس\” کے مطالعاتی مرکزنے ریسرچ کی ۔یہ وہ مرکزہے جونہ صرف اسلامی مسائل اورشخصیات پرتحقیق کرتاہے بلکہ دُنیاکے دیگر مذاہب پربھی ریسرچ کرتاہے ۔دُنیاکے اِن نامور 25 پروفیسرزاورسکالرز نے امام صادق ؑ کی شخصیت کو\”سپر مین اِن اِسلام \”کاخطاب دیاہے اوراپنی کتاب کانام بھی اِسی عنوان پردیاہے ۔اِس تحقیقی سنٹرمیں صرف تین سکالرزمسلمان ہیں باقی سب دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔اِن25 سکالرز میں ایران اورلبنان کے ایک ایک ،امریکہ، برطانیہ ،اٹلی اوربلجیم کے دودو،جرمنی کے4 اور فرانس کے 11 سکالرزشامل ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
جو ریفرنس مجھے مل سکا :
اِس عظیم ترین ہستی پرکچھ عرصہ پہلے\”اِسلامک سٹڈیز سنٹرسٹراسبرگ فرانس\” کے مطالعاتی مرکزنے ریسرچ کی ۔یہ وہ مرکزہے جونہ صرف اسلامی مسائل اورشخصیات پرتحقیق کرتاہے بلکہ دُنیاکے دیگر مذاہب پربھی ریسرچ کرتاہے ۔دُنیاکے اِن نامور 25 پروفیسرزاورسکالرز نے امام صادق ؑ کی شخصیت کو\”سپر مین اِن اِسلام \”کاخطاب دیاہے اوراپنی کتاب کانام بھی اِسی عنوان پردیاہے ۔اِس تحقیقی سنٹرمیں صرف تین سکالرزمسلمان ہیں باقی سب دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔اِن25 سکالرز میں ایران اورلبنان کے ایک ایک ،امریکہ، برطانیہ ،اٹلی اوربلجیم کے دودو،جرمنی کے4 اور فرانس کے 11 سکالرزشامل ہیں۔

اصل میں یہ حوالہ اصل فارسی کتاب سے ہی لیا گیا ہے اس کی آزاد ذرائع سے میں تصدیق نہیں کرسکا ہوں۔ اس کی بہتر تصدیق تو فرانس کی وہ یونیورسٹی ہی کرسکتی ہے جس کا حوالہ دیا گیا ہے تاہم اس یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اس طرح کا کوئی مواد مجھے نہیں مل سکا۔

اس پر بھی کچھ روشنی ڈالئے
جی ضرور فرصت ملتے ہی اس پر کسی مضمون کا ترجمہ کرتا ہوں ۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چھٹا باب - 7
کل کا نچوڑ


جنگ کے بعد وہیلر کے شاگردوں کے جم غفیر میں سے ایک رچرڈفائن مین تھا، جو شاید سب سے سادے لیکن گہرے طریقے سے کوانٹم کی پیچیدگیوں کا خلاصہ معلوم کر سکا۔ (ان خیالات میں سے ایک نے فائن مین کو ١٩٦٥ء میں نوبیل انعام جتوایا۔) فرض کریں کہ آپ ایک کمرے کو پار کرنا چاہتے ہیں۔ نیوٹن کے مطابق، آپ نقطہ الف سے نقطہ ب تک جانے کے لئے سادے طور پر سب سے مختصر راستہ چنیں گے جس کو ہم مستند راستہ کہتے ہیں۔ لیکن فائن مین کے مطابق، سب سے پہلے آپ کو ان تمام راستوں پر غور کرنا ہوگا جو نقطہ الف کو ب سے جوڑ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام راستوں کو دیکھنا ہوگا جو آپ کو مریخ، مشتری یا قریبی ستارے تک لے جاتا ہے یہاں تک کہ ان راستوں پر بھی غور کرنا ہوگا جو ماضی میں بگ بینگ تک جاتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ راستے کتنا اجنبی اور عجیب ہوں آپ کو ان کو زیر غور لانا ہوگا۔ اس کے بعدفائن مین نے ہر راستے کو ایک عدد دے دیا، اور وہ اصول بھی واضح کر دئیے جس سے یہ عدد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ معجزاتی طور پر تمام ممکنہ راستوں کے اعداد کو جمع کرکے آپ نقطہ الف سے نقطہ ب تک جانے کے امکان کو کوانٹم میکانیات کے معیار کی روشنی میں معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ واقعی میں بہت حیرت انگیز تھا۔

فائن مین نے دیکھا کہ راستوں کے ان اعداد کو جمع کرنا بہت ہی عجیب اور حیران کن ہے اور یہ نیوٹن کے قوانین حرکت کی خلاف ورزی کرکے عام طور پر زائل کرکے ایک چھوٹا سا ٹوٹل دیتے ہیں۔ یہ کوانٹم اتار چڑھاؤ کا ماخذ تھا، یعنی کہ یہ ایسے راستوں کو بیان کرتا تھا جس کا حاصل بہت ہی چھوٹا تھا۔

لیکن اس کے ساتھ اس کو یہ بھی معلوم ہوا کہ نیوٹن کا عام فہم راستہ وہ ہیں جو زائل نہیں ہوتے اور اس طرح سے ان کا ٹوٹل سب سے زیادہ ہوتا ہے؛ یہ وہ راستہ ہوتا ہے جس کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح سے ہماری طبیعی کائنات کے لئے پائی جانے والی فہم سادہ طور پر سب سے زیادہ امکانی حالت ان لامتناہی حالتوں میں سے ایک ہوتی ہے۔ لیکن ہم تمام ممکنہ حالتوں میں ہم بود ہوتے ہیں جن میں سے کچھ ہمیں ڈائنوسارس کے دور ، قریبی سپرنووا تک اور کائنات کے کنارے تک لے جاتی ہیں۔ (یہ عجیب راستے ہماری نیوٹنی عقل سلیم کے راستوں سے خفیف سا انحراف کرتے ہیں لیکن خوش قسمتی سے ان کے وقوع پذیر ہونے کا بہت ہی کم امکان ہوتا ہے۔)

بالفاظ دیگر چاہئے جتنا بھی عجیب لگے ہر مرتبہ جب آپ کمرے میں سے گزرتے ہیں تو آپ کا جسم تمام ممکنہ راستوں کو پہلے "سونگھتا" ہے، یہاں تک کہ دور دراز کے کوزار سے لے کر بگ بینگ تک اور پھر ان کو جمع کرتا ہے۔ طاقتور ریاضی کا استعمال کرتے ہوئے جس کو تفاعلی کامل کہتے ہیں فائن مین نے ثابت کیا کہ نیوٹنی راستہ صرف اکیلا ایک راستہ نہیں ہے بلکہ سادہ طور پر سب سے زیادہ امکان والا راستہ ہے۔ ریاضیاتی ہنرمندی سے فائن مین نے اپنی نقطہ نظر کو ثابت کر دیا، یہ بات جتنی تعجب خیز لگتی ہے ، عام طور پر عام کوانٹم میکانیات اتنی ہی تعجب انگیز ہوتی ہے۔ (اصل میں فائن مین نے شروڈنگر کی موجی مساوات سے ہی استنباط کیا تھا۔)

فائن مین کے "تمام راستوں کے مجموعے" کی قوّت ہی ہے کہ آج جب ہم عظیم وحدتی نظریوں، افراط یہاں تک کہ اسٹرنگ کے نظریئے کے کلیہ کو جب بناتے ہیں تو ہم فائن مین کے "مکمل راستے" کا نقطہ نظر ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ طریقہ اب تمام سند عطا کرنے والے مدرسوں میں دنیا بھر میں پڑھایا جاتا ہے اور اب تک کا کوانٹم کے نظریئے کو بنانے کا سب سے طاقتور اور آسان طریقہ ہے۔

(میں فائن مین کا مکمل راستے کا طریقہ اپنی روز مرہ کی تحقیق میں استعمال کرتا ہوں۔ ہر مساوات جو میں لکھتا ہوں وہ میں راستوں کے مجموعہ کی صورت میں ہی لکھتا ہوں۔ جب میں سند حاصل کر رہا تھا تو میں نے پہلی مرتبہ فائن مین کے نقطہ نظر کو سیکھا تھا اور اس نے میرا تصوّر کائنات کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ ازروئے دانش میں کوانٹم نظریئے اور عمومی اضافیت کی دقیق ریاضی کو سمجھتا ہوں، لیکن یہ خیال تھا کہ میں ایک طرح سے ان راستوں کو سونگھ رہا ہوتا ہوں جو مجھے مریخ یا دور ستارے تک لے جاتے ہیں جب میں اپنے کمرے میں چل رہا ہوتا ہے ، اس نے میرا دنیا کو دیکھنے کے نقطہ نظر کو بدل دیا۔ یکایک میرے دماغ میں ایک کوانٹم کی ایسی عجیب دنیا کی تصویر آ گئی جہاں میں رہتا ہوں۔ میں نے اس بات کا ادراک کرنا شروع کر دیا کہ کوانٹم نظریہ بھی اتنا ہی اجنبی ہے جتنی اضافیت کے دماغ ہلا دینے والے عواقب ہیں۔)

جب فائن مین نے یہ عجیب کلیہ واضح کیا تھا، تو وہیلر جو اس وقت پرنسٹن یونیورسٹی میں تھا، اپنے پڑوس میں واقع انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی میں آئن سٹائن کے پاس دوڑتا ہوا اسے اس نئی نفیس اور طاقتور تصویر کے بارے میں قائل کرنے گے لئے گیا۔ وہیلر نے ہیجان انگیز ہو کر آئن سٹائن کوفائن مین کے اس کامل راستے کے نظریئے کے بارے میں بتایا۔ وہیلر اس بات سے بے خبر تھا کہ آئن سٹائن کو یہ بات کس قدر پاگل پنے کی لگے گی۔ اس کے بیان کرنے کے بعد آئن سٹائن نے اپنا سر انکار میں ہلایا اور اپنی اسی بات کو دہرایا کہ وہ اب بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ خدا دنیا کے ساتھ پانسے سے کھیلتا ہے۔ آئن سٹائن نے وہیلر سے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ غلط ہو۔ لیکن وہ اس بات پر قائم رہا کہ اسے غلط ہونے کا بھی حق حاصل ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
چھٹا باب - 8

کثیر جہاں


ابتدا میں غیر مربوطیت کافی مطمئن کرنے والی لگتی ہے، کیونکہ کہ موجی تفاعل اب شعور کے بجائے باہری دنیا کے اٹکل پچو تعاملات کی وجہ سے ہونا شروع ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات وہ بنیادی سوال کو حل نہیں کرتی جس نے آئن سٹائن کو پریشان کیا ہوا تھا: قدرت کس طرح سے اس چیز کا چناؤ کرتی ہے جس کو منہدم ہونا ہوتا ہے؟ جب ہوا کا سالمہ بلی سے ٹکراتا ہے، تو اس وقت کون کس طرح سے بلی کی حتمی حالت کا تعین کرتا ہے؟ اس سوال پر، غیر مربوطیت صرف یہ بتا دیتی ہے کہ دونوں موجی تفاعل الگ ہیں اور ایک دوسرے سے تعامل نہیں کرتے، لیکن یہ اصل سوال کا جواب نہیں دیتا۔ کیا بلی زندہ ہے یا مردہ؟ اس سوال پر غیر مربوطیت کا نظریہ خاموش ہے۔ یہ بہرحال غیر مربوطیت کی ایک قدرتی توسیع ہے جو اس سوال کا حل پیش کرتی ہے جس کو طبیعیات دانوں کے درمیان کافی زیادہ پزیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ یہ دوسرا طریقہ وہیلر کے ایک دوسرے شاگرد ہو ایورٹ سوم کا پیش کردہ ہے، جس نے یہ بات زیر بحث کی کہ ہو سکتا ہے کہ بلی بیک وقت زندہ اور مردہ دونوں ہی ہو لیکن دو مختلف کائناتوں میں۔ جب ایورٹ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ١٩٥٧ءختم ہوا تو اس پر شاید ہی کسی نے توجہ دی تھی۔ گزرتے برسوں میں "کثیر جہانوں" کی تشریح میں دلچسپی بڑھتی رہی ہے ۔ آج اس نے ایک ایسی لہر چھوڑ دی ہے جس کے نتیجے میں کوانٹم نظریئے میں موجود تناقضات میں دوبارہ سے دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔

اس بالکل نئی تشریح میں، بلی دونوں حالتوں یعنی کہ زندہ اور مردہ ہے کیونکہ کائنات تو حصّوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک کائنات میں بلی زندہ ہے اور دوسری میں بلی مردہ ہے، اصل میں ہر کوانٹم کے سنگم پر کائنات دو آدھے حصّوں میں بٹ جاتی ہے اور یہ سلسلہ غیر مختتم طور پر کائنات کو حصّوں میں توڑتا رہتا ہے۔ ہر قسم کی کائنات اس منظر نامے میں ممکن ہے اور ان میں سے ہر ایک بالکل دوسرے جیسی اصلی ہے۔ ہر کائنات میں رہنے والا شخص شاید اس بات پر مصر ہوگا کہ اس کی کائنات ہی اصلی کائنات ہے اور دوسری تمام خیالی یا مصنوعی ہیں۔ متوازی کائناتیں کوئی آسیب زدہ بے ثبات جہاں نہیں ہیں؛ ہر ایک کائنات میں ، اجسام بالکل ٹھوس اور اصلی بالکل اس طرح کے ہیں جیسے کہ ہونے چاہئیں۔

اس تشریح کا فائدہ یہ ہے کہ ہم اس کے نتیجے میں تیسری شرط ختم کر سکتے ہیں یعنی کہ موج کے منہدم ہونے کو۔ موجی تفاعل کبھی بھی منہدم نہیں ہوتا وہ تو بس ارتقا پاتا رہتا ہے، اور ہمیشہ کے لئے دوسرے موجی تفاعل میں ٹوٹتا رہتا ہے، ایک ایسے درخت کی مانند جس کی کبھی نہ ختم ہونے والی شاخیں پھوٹتی رہتی ہیں اور ہر شاخ ایک نئی کائنات کی نمائندگی کرتی ہے۔ کثیر جہانوں کے نظریئے کا فائدہ یہ ہے کہ یہ کوپن ہیگن کی تشریح سے زیادہ سادہ ہے اس میں موجی تفاعل منہدم نہیں ہوتا۔ بس اس کی قیمت صرف اتنی سی ہے کہ اب ہمارے پاس ایک ایسی کائنات ہے جو ہمہ وقت کروڑوں شاخوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔ (کچھ لوگوں کو یہ بات سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے کہ ان تمام نمود پذیر کائناتوں کا حساب کس طرح رکھا جائے گا۔ بہرحال شروڈنگر کی موجی مساوات یہ خود کار طریقہ سے کرتی ہے۔ صرف موجی مساوات کے ارتقا کے نقش کا پیچھا کرتے ہوئے کوئی بھی موج کی تمام شاخوں کا معلوم کر سکتا ہے۔)

اگر یہ توجیح صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت بھی آپ لڑتے مرتے ڈائنوسارس کے موجی تفاعل کے ساتھ موجود ہیں۔ ایک کمرے میں ہم بود ہونے کا مطلب ہے کہ آپ ایک ایسی دنیا کے ساتھ موجود ہیں جہاں پر جرمن جنگ عظیم دوم جیتے ہوئے ہیں، جہاں فضائے بسیط سے آئی ہوئی خلائی مخلوق گھوم رہی ہے، جہاں آپ کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے۔ "اونچے محل کا آدمی" اور "شفقی علاقے " کی دنیائیں ان کائناتوں میں سے ایک ہیں جو آپ کے کمرے میں موجود ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم ان سے اب کوئی تعامل نہیں کرتے کیونکہ وہ ہم سے الگ ہو کر غیر مربوط ہو گئیں ہیں۔

جیسا کہ ایلن گتھ نے کہا تھا، " ایک ایسی کائنات بھی ہے جہاں ایلوس اب بھی زندہ ہے۔" طبیعیات دان فرینک ویلزک نے لکھا، "ہمارے سر پر یہ بات سوار ہو گئی ہے کہ ہماری لامحدود نقول تھوڑے سے فرق کے ساتھ متوازی طور پر رہ رہی ہیں اور ہر لمحے مزید نقول بنے چلی جا رہی ہیں جس میں سے ہر ایک کا مختلف مستقبل ہوگا۔ وہ کہتا ہے کہ یونانی تہذیب اور مغربی دنیا شاید اس وقت مختلف ہوتیں اگر ٹروائے کی ہیلن خوبصورت نہ ہوتی ،اور اس کی ناک پر ایک بدصورت مسا ہوتا۔ "ویسے مسا ایک خلیہ میں تقلیب کی وجہ سے نمودار ہوتا ہے، جو اکثر اس وقت ابھر آتا ہے جب سورج کی بالائے بنفشی شعاعیں اس پر پڑتی ہیں۔" وہ مزید کہتا ہے، "نتیجہ" ایسے متعدد دنیائیں ہوں گی جہاں پر ٹروائے کی ہیلن کے ناک پر مسے ہوں گے۔"

مجھے اولاف اسٹیپلڈن کی سائنسی کہانی "ستارہ ساز" کا وہ اقتباس یاد آ رہا ہے جس میں وہ لکھتا ہے :" جب بھی کسی مخلوق کو مختلف ممکنہ اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ تمام اقدام اٹھا لیتا ہے، جس کے نتیجے میں مختلف کائناتی تاریخیں بن جاتی ہیں۔ کیونکہ کائنات کے ہر ارتقائی سلسلے میں کافی ساری مخلوق ہوتی ہے اور اس میں سے ہر ایک ممکنہ مختلف حالات کا سامنا کرتی ہے، اور تمام حالات کے مجموعے کو ملا لیں تو وہ ناقابل شمار ہوں گے ، لامحدود جداگانہ کائناتیں ہر لمحے چھلکے کی طرح اتر کر وجود میں آ رہی ہیں۔"

ہمارا دماغ اس وقت چکرا جاتا ہے جب ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کوانٹم میکانیات کی اس توجیح کے لحاظ سے تمام ممکنہ جہاں ہمارے ساتھ وجود رکھتے ہیں۔ البتہ شاید ان متبادل جہانوں تک پہنچنے کے لئے ثقب کرم کی ضرورت ہوگی لیکن یہ کوانٹم کے جہاں اصل میں ہمارے کمرے میں بھی وجود رکھتے ہیں۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں یہ ہمارے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ : اگر یہ بات درست ہے تو ہمیں اپنے کمرے میں متوازی کائناتیں نظر کیوں نہیں آتیں؟ یہی وہ جگہ ہے جہاں غیر مربوطیت ظاہر ہوتی ہے، ہمارا موجی تفاعل دوسرے جہانوں سے غیر مربوط ہو گیا ہے۔(یعنی کہ موجیں اب ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں رہی ہیں)۔ ہم ان سے اب رابطے میں نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماحول میں ہونے والی خفیف سی تبدیلی بھی مختلف موجی تفاعل کو آپس میں ایک دوسرے سے تعامل کرنے سے روکتی ہے۔ (گیارہویں باب کے اندر میں نے اس اصول کے ممکنہ اِستثنیٰ کو بیان کیا ہے جہاں ذہین ہستیاں ان کوانٹم کی حقیقتوں کے مابین سفر کر سکتی ہیں۔)

کیا ایسا ہونا بعید از حقیقت لگتا ہے؟ نوبیل انعام یافتہ اسٹیون وائن برگ اس کثیر کائناتی نظریئے کو ریڈیو کی طرح بیان کرتے ہیں۔ آپ کے آس پاس سینکڑوں ریڈیائی موجیں ہوتی ہیں جو دور دراز کے اسٹیشن سے نشر ہو رہی ہوتی ہیں۔ کسی بھی وقت آپ کی گاڑی، دفتر یا کمرہ ان سے بھرا ہوا ہوتا ہے ۔ البتہ جب آپ ریڈیو کو چلاتے ہیں تو آپ ایک وقت میں ایک ہی تعدد پر اس کو سن سکتے ہیں؛ دوسرے تمام تعدد ارتعاش اس سے غیر مربوط ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے خلط ملط نہیں ہوتے۔ ہر اسٹیشن کی اپنی توانائی اور اپنا تعدد ہوتا ہے۔ نتیجتاً آپ کا ریڈیو ایک وقت میں ایک ہی اسٹیشن کو نشر کر سکتا ہے۔ اسی طرح سے ہم اپنی کائنات میں اس طرح سے تعدد ارتعاش سے ہم آہنگ ہوئے ہیں جو ہماری طبیعی حقیقت سے مربوط ہے۔ لیکن یہاں لامحدود متوازی کائناتیں موجود ہیں جو ہمارے ساتھ ہمارے کمرہ میں موجود ہوتی ہیں، بس اتنا ہے کہ ہم ان سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ ہرچند یہ جہاں ہمارے جہانوں سے کافی ملتے جلتے ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک کی توانائی مختلف ہوتی ہے۔ اور کیونکہ ان میں سے ہر جہاں کھرب ہا کھرب جوہروں پر مشتمل ہوگا اس لئے توانائی کا فرق کافی بڑا ہوگا۔ کیونکہ ان موجوں کی تعدد ارتعاش ان کی توانائی (پلانک کے قانون کے مطابق) سے نسبت رکھتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر جہاں کی موج مختلف تعدد ارتعاش میں مرتعش ہے ایک دوسرے سے کسی قسم کا کوئی تعامل نہیں کرتی ۔ تمام اغراض و مقاصد کے لئے یہ مختلف جہاں کی موجیں ایک دوسرے سے تعامل نہیں کرتی یا ایک دوسرے پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔

حیرت انگیز طور پر سائنس دان اس عجیب نقطہ نظر کو لے کر دوبارہ سے کوپن ہیگن مکتبہ فکر کے نتائج کو موجی تفاعل کو منہدم کئے بغیر ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ بالفاظ دیگر کوپن ہیگن مکتبہ فکر کے تجربات یا کثیر جہانوں کی تشریح بعینہ ایک ہی جیسے نتائج فراہم کرتی ہے۔ بوہر کی موجی تفاعل کا منہدم ہونا ریاضیاتی طور پر ماحول میں خفیف سے گڑبڑ ہونے کے برابر ہے۔ بالفاظ دیگر شروڈنگر کی بلی مردہ اور زندہ ایک ہی وقت میں ہو سکتی ہے اگر ہم کسی طرح سے بلی کو ماحول میں ہونے والی تمام ممکنہ خفیف تبدیلیوں، جوہروں یا کائناتی اشعاع سے بھی بچا سکیں۔ ایک مرتبہ جب بلی کائناتی اشعاع کے ساتھ رابطہ میں آ جاتی ہے، تو مردہ اور زندہ بلی کے موجی تفاعل ایک دوسرے سے غیر مربوط ہو جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے کہ موجی تفاعل منہدم ہو گیا ہو ۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
چھٹا باب - 9
اٹ فرام بٹ


کوانٹم کے نظریئے میں موجود ناپنے کی مشکلات میں دوبارہ دلچسپی ابھرنے میں ، وہیلر کوانٹم طبیعیات کی سائنس میں دادا ابا بن گیا تھا اور اس نے اپنے اعزاز میں دی ہوئی لاتعداد کانفرنسوں میں شرکت کی تھی۔ اس کی حیثیت اس نئے عہد میں ایک ایسے گرو کی ہو گئی تھی جو طبیعیات میں شعور کے تصوّر کے خیال کو لانے کی حمایت میں سرگرداں تھے۔ (بہرحال وہ ہمیشہ اس قسم کے تعلق سے خوش نہیں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ جب اس کو تین ماہر ارواحیات کے ساتھ ایک پروگرام میں بیٹھا دیا تھا جس سے وہ شدید چڑ گیا تھا۔ اس نے جلدی سے ایک جملہ شامل کر دیا " جہاں دھواں ہوتا ہے وہاں دھواں ہوتا ہے ۔")

کوانٹم نظریئے کے تناقضات سے ستر برس تک لڑنے کے بعد، وہیلر وہ پہلا شخص تھا جس نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ اس کے پاس تمام جوابات نہیں ہیں۔ اس نے اپنے مفروضوں پر سوالات اٹھانے کا عمل جاری رکھا۔ جب کوانٹم کی میکانیات میں ناپنے کے مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا، اس نے کہا، "میں صرف اس سوال سے ہی پاگل ہو جاتا ہوں ۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ کبھی میں سو فیصد اس خیال کو سنجیدگی سے لیتا ہوں دنیا ایک دھوکہ اور خیالی چیز ہے اور کبھی یہ کہ دنیا ہم سے الگ وجود رکھتی ہے۔۔ بہرحال میں لیبنیز کے جہانوں کی تائید کرتا ہوں، 'دنیا تخیل و خیال ہو سکتی ہے اور وجود صرف ایک خواب ہے، لیکن یہ خواب اور تخیل میرے لئے حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں اگر ہم علّت کو صحیح طرح سے استعمال کریں تو ہم کبھی بھی اس سے دھوکہ نہیں کھائیں گے۔'"

آج کثیر جہاں یا غیر مربوطیت کا نظریئے مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ لیکن وہیلر کو جو چیز پریشان کر رہی ہے وہ یہ کہ اس کے لئے " بہت زیادہ بگاس درکار ہے۔" وہ شروڈنگر کی بلی کے مسئلے کی ایک اور توجیح سے کھیلنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے اس نظریئے کو "چھوٹے سے بڑا" کہتا ہے۔ یہ ایک غیر متناقض نظریہ ہے جو اس مفروضے سے شروع ہوتی ہے کہ اطلاعات تمام موجودات کی جڑ ہے۔ جب ہم چاند ، کہکشاں یا جوہر کو دیکھتے ہیں تو ان کی اصل روح ان میں ذخیرہ کی ہوئی اطلاع ہوتی ہے ۔ وہ دعویٰ کرتا ہے ۔ لیکن یہ اطلاع اس وقت ظاہر ہو کر وجود پاتی ہے جب کائنات خود کا مشاہدہ کرتی ہے۔ وہ ایک دائروی خاکہ بناتا ہے، جو کائنات کی تاریخ کی نمائندگی کرتی ہے۔ کائنات کی ابتدا میں یہ عدم سے اس لئے وجود میں آئی کیونکہ کوئی اس کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ "یہ" (کائنات میں موجود مادّہ) اس وقت ظاہر ہو کر وجود پاتا ہے جب کائنات کی اطلاع ("ٹکڑے") کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ وہ اس کو "شراکتی کائنات " کہتا ہے۔ یہ خیال کہ کائنات ہم سے بعینہ ایسے مطابقت رکھتی ہے جیسے ہم اس سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یعنی کہ ہمارے وجود نے ہی کائنات کی تخلیق کو ممکن کیا ہے۔ (کیونکہ کوانٹم میکانیات میں ناپنے کے مسئلے پر کوئی عالمگیر اتفاق رائے نہیں پائی جاتی، لہٰذا زیادہ تر طبیعیات دان اس نظریئے کو "دیکھو اور انتظار کرو" والی پالیسی کے تحت لیتے ہیں۔)​
 

زہیر عبّاس

محفلین
چھٹا باب - 10

کوانٹم کمپیوٹنگ اور دور دراز منتقلی




ایسے فلسفیانہ مباحثے مایوسی کی حد تک غیر عملی ہیں اور ہماری دنیا میں ان کا کوئی عملی اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ اس بات پر بحث کرنے کے بجائے کہ سوئی کی نوک کتنے درجہ پر ناچ سکتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ کوانٹم طبیعیات دان اس بات میں الجھ گئے ہیں کہ ایک وقت میں الیکٹران کتنی جگہ پر پایا جا سکتا ہے۔

بہرکیف یہ ایسے فالتو غیر عملی علمی استغراق بھی نہیں ہیں۔ ایک دن ان کا اطلاق سب سے زیادہ عملی چیز پر ہوگا یعنی کہ یہ دنیا کی معیشت کو چلائیں گے۔ ایک دن تمام اقوام کی دولت شروڈنگر کی بلی کی لطافتوں پر انحصار کرے گی۔ اس وقت شاید ہمارے کمپیوٹر متوازی کائناتوں میں حساب کتاب لگانے میں جتے ہوئے ہوں گے۔ عصر حاضر میں لگ بھگ تمام ہی کمپیوٹروں کا بنیادی ڈھانچہ سلیکان ٹرانسسٹر پر انحصار کرتا ہے۔ مور کا قانون کہتا ہے کہ کمپیوٹر کی طاقت ہر اٹھارہ ماہ کے بعد دگنی ہونا اس لئے ممکن ہے کہ ہماری سلیکان کی چپ پر ٹرانسسٹر کو منقش کرنے کی صلاحیت بذریعہ بالائے بنفشی شعاعوں کے بڑھ رہی ہے۔ ہر چند کے مور کے قانون نے ٹیکنالوجیکل منظر نامے میں انقلاب برپا کر دیا ہے، لیکن یہ ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتا۔ سب سے جدید پینٹیم کی چپ میں تہ صرف بیس جوہروں پر مشتمل ہے۔ صرف پندرہ سے بیس برسوں میں سائنس دان شاید پانچ جوہروں پر مشتمل تہ سے کام کر رہے ہوں گے۔ اس قدر ناقابل تصوّر فاصلوں پر ہمیں نیوٹنی میکانیات کو چھوڑ کر کوانٹم کی میکانیات کا استعمال کرنا ہوگا۔ جہاں پر ہائیزن برگ کا اصول عدم یقین کمان سنبھال لے گا۔ نتیجتاً ہمیں نہیں پتا لگ سکے کہ الیکٹران اصل میں ہیں کہاں۔ اس کا مطلب ہوگا کہ اس وقت شارٹ سرکٹ ہو جائے گا جب الیکٹران حاجز اور سیمی کنڈکٹرز کے اندر رہنے کے بجائے باہر نکل جائیں گے۔

مستقبل میں ہم سلیکان کی تہ پر منقش کرنے کی حد پر پہنچ چکے ہوں گے۔ سلیکان کا دور جلد ہی پورا ہو جائے گا۔ شاید یہ ہمیں کوانٹم کے دور میں لے جائے۔ سلیکان کی وادی ایک زنگ زدہ پٹی میں بدل جائے گی۔ ایک دن ہم مجبور ہوں گے کہ جوہری پیمانے پر کمپیوٹنگ کریں، اور اس کے لئے کمپیوٹنگ کا نیا بنیادی ڈھانچہ ڈالیں۔ آج کے کمپیوٹر ثنائی نظام پر چلتے ہیں – ہر اعداد صفر اور ایک پر مشتمل ہے۔ جوہروں کے گھماؤ کے نقاط اوپر، نیچے، اطراف میں، بیک وقت ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر کی بٹ (صفر اور ایک) کیو بٹ (صفر اور ایک کے درمیان کچھ بھی ) سے بدل جائیں گی اور کوانٹم کمپیوٹنگ کو عام کمپیوٹر سے کہیں زیادہ طاقتور بنا دیں گی۔ مثال کے طور پر ایک کوانٹم کمپیوٹر بین الاقوامی سیکورٹی کو ہلا کر رکھ سکتا ہے۔ آج بڑے بنک، بین الاقوامی کمپنیز ، اور تجارتی اقوام اپنے رازوں کو پیچیدہ کمپیوٹر کے ا لوگرتھم سے رمز بند کرتی ہیں۔ کافی خفیہ رمز بڑے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے اعداد کو استعمال کرکے حاصل کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک عام کمپیوٹر کی مدد سے سو اکائیوں پر مشتمل عدد کو توڑنے کے لئے ایک صدی کا عرصہ درکار ہوگا۔ لیکن کوانٹم کے کمپیوٹر کے لئے ایسی کوئی بھی چیز بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگی؛ وہ اقوام دنیا کے خفیہ رمزوں کو توڑ سکتے ہیں۔

کوانٹم کمپیوٹر کس طرح سے کام کرتے ہیں، فرض کریں کہ ہمارے پاس ایک جوہروں کا سلسلہ قطار کی صورت میں موجود ہے جن کے گھماؤ ایک مقناطیسی میدان میں ایک ہی جانب ہوئے ہیں۔ پھر ہم ان پر لیزر کی کرن مارتے ہیں ، لہٰذا لیزر کی کرن سے پڑنے والے عکس سے کافی سارے جوہروں کے گھماؤ دوسری طرف ہو جائیں گے ۔ اب لیزر کی منعکس شدہ روشنی کو ناپنے سے ہم پیچیدہ قسم کی ریاضی کے فعل انجام دے سکتے ہیں ۔ اگر ہم اس عمل کو فائن مین کی طرح کوانٹم کے نظریئے سے کریں تو ہمیں جوہروں کی تمام ممکنہ حالتوں میں گھماؤ کو جمع کرنا ہوگا۔ صرف ایک سادہ کوانٹم کے حساب کے لئے جو صرف چند سیکنڈ میں وقوع پذیر ہوتا ہے ، ایک عام کمپیوٹر کے لئے اس کا حساب لگانے ممکن نہیں ہے چاہئے آپ اس کو جتنا زیادہ بھی وقت مہیا کریں۔

اصولی طور پر جیسا کہ آکسفورڈ کے ڈیوڈ ڈویچ کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم کوانٹم کمپیوٹر کو استعمال کر رہے ہوں گے تو ہمیں تمام متوازی کائناتوں کو جمع کرنا ہوگا۔ ہرچند کہ ہم ان کائناتوں سے براہ راست رابطہ نہیں کر سکتے، لیکن ایک جوہری کمپیوٹر متوازی کائناتوں میں موجود گھماؤ کی حالت کا حساب لگا سکتا ہے۔ (ہرچند کہ ہم اپنے کمرے میں موجود دوسری کائناتوں سے مربوط نہیں رہے ہیں لیکن کوانٹم کمپیوٹر کے جوہر اپنی خلقت میں ان کے ساتھ ہم آہنگی سے مربوط ہو کر مرتعش ہیں۔)

ہرچند کے کوانٹم کمپیوٹر کی طاقت دماغ ہلا دینے والی ہے، عملی طور پر مشکلات بھی اتنی ہی زیادہ ہیں۔ فی الوقت کسی بھی کمپیوٹر میں استعمال ہونے والے جوہر صرف سات ہیں۔ جو زیادہ سے زیادہ تین کو پانچ سے ضرب دے کر پندرہ کا نتیجہ فراہم کر سکتا ہے جو کسی بھی لحاظ سے قابل ذکر بات نہیں ہے۔ کوانٹم کمپیوٹر کو عام کمپیوٹر سے مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں کروڑوں جوہر ہم آہنگی کے ساتھ تھرتھراتے ہوئے درکار ہوں گے۔ کیونکہ صرف ہوا کا ایک سالمہ بھی ان سے متصادم ہو کر ان کو غیر مربوط کرنے کے لئے کافی ہوگا۔ غیر معمولی طور صاف ستھرا ماحول درکار ہوگا تاکہ ان جوہروں کو ماحول سے الگ رکھا جا سکے۔ (ایسا کوانٹم کمپیوٹر بنانے کے لئے ہمیں ہزاروں سے لے کر لاکھوں تک جوہر درکار ہوں گے جو ہمارے جدید کمپیوٹر کو رفتار میں مات دے سکے لہٰذا کوانٹم کمپیوٹنگ اب بھی دہائیوں کی دوری پر ہے۔)
 

زہیر عبّاس

محفلین
چھٹا باب - 11
کوانٹم منتقلی



طبیعیات دانوں کے لئے اس کا کوانٹم کائناتوں کی فضول بحث کے علاوہ ایک اور عملی اطلاق ہو سکتا ہے یعنی کہ کوانٹم منتقلی۔ اسٹار ٹریک اور دوسری سائنسی کہانیوں میں دکھایا جانے والا ٹرانسپورٹر لوگوں اور اجسام کو خلاء میں وسیع فاصلوں پر چشم زدن میں پہنچا دیتا ہے۔ لیکن جیسا للچا دینے والا دکھائی دیتا ہے ایسا ہے نہیں کیونکہ طبیعیات دانوں نے تو اس خیال کو شروع سے ہی آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا کیونکہ یہ اصول عدم یقین سے انحراف کرتا ہے۔ جوہر کی پیمائش کرنے سے اس کی حالت بدل جاتی ہے لہٰذا اس کی بالکل درست نقل نہیں کی جا سکتی۔

لیکن سائنس دانوں نے اس دلیل میں ایک ١٩٣٣ء میں کوانٹم الجھاؤ کے ذریعہ ایک نقص پا لیا۔ اس کی بنیاد اسی آئن سٹائن کے پرانے تجربے پر رکھی گئی تھی جس کو آئن سٹائن نے ١٩٣٥ء میں اپنے رفیق بورس پوڈولسکی اور ناتھن روزن کے ساتھ مل کر پیش کیا تھا (جس کو ای پی آر تناقض کہتے ہیں)۔ اس تجربے کا مقصد کوانٹم نظریئے کے پاگل پن کو بیان کرنا تھا۔ فرض کریں کہ ایک دھماکہ ہوتا ہے، اور اس میں سے دو الیکٹران ایک دوسرے سے جدا ہو کر مخالف سمت میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ الیکٹران لٹو کی طرح گھومتے ہیں، لہٰذا یہ فرض کریں کہ ان کا گھماؤ بھی ایک دوسرے سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی کہ اگر ایک الیکٹران کا گھماؤ اس کے محور سے اوپر کی طرف ہے تو دوسرے الیکٹران کا گھماؤ نیچے کی طرف ہوگا (یعنی کہ کل گھماؤ صفر ہوگا)۔ اس سے پہلے کہ ہم اس کی پیمائش کریں ، ہم نہیں جانتے کہ دونوں الیکٹران کس طرف گھوم رہے ہیں۔

آب کچھ برس تک انتظار کریں۔ اس وقت تک دونوں الیکٹران ایک دوسرے سے کئی نوری برس کے فاصلے پر موجود ہوں گے۔ اب اگر ہم ایک الیکٹران کے گھماؤ کی پیمائش کرتے ہیں اور ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا گھماؤ محور سے اوپر کی طرف ہے، تو ہمیں فی الفور معلوم ہو جاتا ہے کہ دوسرا الیکٹران نیچے کی جانب گھوم رہا ہے ( اور اسی طرح اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے )۔ اصل میں جو الیکٹران اوپر کی جانب گھومتا ہوا پایا گیا ہے وہ دوسرے الیکٹران کو مجبور کر دے گا کہ وہ نیچے کی طرف گھومے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں کوئی ایسی چیز فی الفور معلوم ہو گئی جو کئی نوری برس دور موجود ہے۔

(ایسا لگتا ہے کہ اطلاع نے روشنی کی رفتار سے تیز سفر کیا ہے جو بظاہر آئن سٹائن کی خصوصی نظریہ اضافیت سے انحراف ہے۔) کچھ لطیف وجوہات کی بنا پر آئن سٹائن اس بات کو بیان کر سکتا تھا کہ ایک جوڑے کی کامیاب پیمائش سے کوئی بھی اصول عدم یقین کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ اس نے یہ ثابت بھی کیا کہ کوانٹم میکانیات اس سے کہیں زیادہ عجیب و غریب ہے جتنا کہ پہلے اسے سمجھا جاتا تھا۔

اس وقت سے لے کر اب تک، طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کائنات مقامی ہے، یعنی کہ ایک حصّے میں ہونے والی گڑبڑ صرف منبع سے نکل کر مقامی طور پر ہی پھیلتی ہے۔ آئن سٹائن نے ثابت کیا کہ کوانٹم میکانیات اپنی اصل روح کی بنیاد پر غیر مقامی ہے ۔ ایک ذرائع سے ہونے والی گڑبڑ کائنات کے دور دراز کے حصّوں پر فی الفور اثر انداز ہوتی ہے۔ آئن سٹائن اس کو " دور دراز بھوت کا اثر " کہتا تھا۔ جو اس کے خیال میں نہایت ہی بیہودہ تھا۔ لہٰذا آئن سٹائن نے سوچا کہ کوانٹم نظریہ لازمی طور پر غلط ہوگا۔

(کوانٹم میکانیات کے ناقدین آئن سٹائن – پوڈولسکی – روزن تناقض کو یہ فرض کرکے حل کر سکتے ہیں کہ اگر ہمارے آلات کافی حساس ہوں گے تو وہ اصل میں اس بات کا معلوم لگا لیں گے کہ الیکٹران اصل میں کس طرف گھوم رہا ہے۔ الیکٹران کے گھماؤ اور اس کے محل وقوع میں ہونے والی عدم یقینیت صرف فرضی چیز ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے آلات کافی خام ہیں۔ اس نے ایک تصوّر مخفی تغیرات کا متعارف کروایا – یعنی کہ کوئی مخفی ذیلی کوانٹم کا نظریہ ضرور موجود ہوگا جس میں کسی بھی قسم کی کوئی بھی عدم یقینیت نہیں ہوگی اور اس کی بنیاد ایک نئے متغیر پر ہوگی جو مخفی متغیر کہلائیں گے۔)

اس کی اہمیت اس وقت ١٩٦٤ء میں اور بڑھ گئی جب طبیعیات دان جان بیل نے ای پی آر تناقض اور مخفی متغیر کو جانچا۔ اس نے بتایا کہ اگر کوئی ای پی آر کا تجربہ کرے تو دونوں الیکٹران کے گھماؤ میں ایک عددی تعلق موجود ہوگا جس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ کونسا نظریہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر مخفی تغیر والا نظریہ درست ہوا جیسا کہ متشکک یقین رکھتے ہیں تو گھماؤ لازمی طور پر ایک طرح سے ہی تعلق رکھے گا۔ بالفاظ دیگر کوانٹم میکانیات (جدید جوہری طبیعیات کی بنیاد) صرف ایک تجربے سے ہی ثابت یا باطل ہو سکتی تھی۔

لیکن تجربات نے حتمی طور پر یہ بات ثابت کردی کہ آئن سٹائن غلط تھا۔ ١٩٨٠ء کے عشرے کی ابتدا میں ایلن اسپیکٹ اور اس کے رفقائے کاروں نے فرانس میں ای پی آر کا تجربہ ان سراغ رسانوں کی مدد سے کیا جو ١٣ میٹر دور تھے، جنہوں نے کیلشیم کے جوہر سے نکلنے والے فوٹون کے گھماؤ کی پیمائش کی تھی۔ ١٩٩٧ء میں ای پر آر کا تجربہ ان سراغ رسانوں کی مدد سے کیا گیا جو ایک دوسرے سے ١١ کلومیٹر دور تھے۔

ہر مرتبہ کوانٹم نظریہ ہی جیتا۔ اطلاع کی کچھ ا قسام روشنی کی رفتار سے تیز سفر کر سکتی ہے (ہرچند کہ آئن سٹائن ای پی آر کے تجربے میں غلط تھا، لیکن وہ دوسرے سوال پر صحیح تھا جو روشنی کی رفتار سے تیز سفر پر اٹھایا گیا تھا۔ اگرچہ ای پی آر تجربہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ کچھ کہکشاں کے پرلی طرف کی اطلاع کو فی الفور حاصل کر لیں، لیکن آپ اس کے ذریعے پیغام بھجوانے کے قابل نہیں بن سکتے ۔ مثال کے طور پر آپ مورس کا کوڈ اس طرح سے نہیں بھیج سکتے۔ حقیقت میں ایک "ای پی آر ٹرانسمیٹر" ہر مرتبہ صرف اٹکل اشارے ہی بھیجے گا جب آپ اس کی پیمائش کریں گے۔ ای پی آر کا تجربہ آپ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ کہکشاں کے دوسری طرف کی اطلاع کو حاصل کر لیں، لیکن یہ آپ کو کام کی اطلاع یعنی کہ جو اٹکل نہ ہو اس کی ترسیل کی اجازت نہیں دیتا۔)

بیل اس اثر کو ایک ریاضی کی مثال سے بیان کرنا پسند کرتا ہے جس کو برٹلس مین کہتے ہیں۔ اس کی ایک عجیب عادت ہے جس میں وہ ہر روز ایک پیر میں سبز موزہ پہنتا ہے جبکہ دوسرے پیر میں نیلا موزہ اور وہ اس کو کسی خاص ترتیب میں نہیں پہنتا۔ اگر کسی دن آپ نے دیکھا کہ وہ الٹے پیر میں نیلا موزہ پہنے ہوئے ہے، تو آپ کو روشنی کی رفتار سے بھی تیزی سے معلوم ہو جائے گا کہ اس نے دوسرے پیر میں سبز موزہ پہنا ہوا ہے۔ لیکن اس بات کو جاننے سے آپ کسی اطلاع کو اس طرح سے بھیج نہیں سکتے۔ اطلاع کا جاننا اس کے بھیجے جانے سے مختلف ہے۔ ای پی آر کے تجربے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اطلاع کی ترسیل بذریعہ خیال خوانی یا وقت میں سفر روشنی کی رفتار سے تیز کر سکتے ہیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہم اپنے آپ کو کائنات سے بالکل ہی علیحدہ کر لیں۔

یہ ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم کائنات کی ایک مختلف شکل دیکھیں۔ ہمارے جسم کے تمام جوہروں اور نوری برس کے فاصلوں پر موجود جوہروں میں ایک کائناتی الجھاؤ موجود ہے۔ کیونکہ تمام مادّہ ایک واحد دھماکے یعنی کہ بگ بینگ سے وجود میں آیا ہے ایک طرح سے ہمارے جسم کے جوہر کائنات میں موجود دوسری جانب کے جوہروں سے ایک طرح کے کونیاتی کوانٹم جال میں جڑے ہوئے ہیں الجھے ہوئے ذرّات ایک طرح سے جڑواں ہیں اور اب بھی ایک ہبل سری سے (ان کے موجی تفاعل آپس میں )جڑے ہوئے ہیں جو کئی نوری برس پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت کیا ہوتا ہے جب ایک رکن دوسرے پر خود کار طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔ لہٰذا اس طرح سے ایک ذرّے میں موجود اطلاع دوسرے ساتھی ذرّےکی اطلاع کو خود بخود ظاہر کر دیتی ہے۔ الجھے ہوئے جوڑے اس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں جیسا کہ وہ ایک ہی ہوں چاہئے وہ ایک دوسرے سے لمبے فاصلے پر ہی کیوں نہ موجود ہوں۔

(زیادہ صحیح طور پر ہم کہ سکتے ہیں کہ کیونکہ بگ بینگ میں ذرّات کا موجی تفاعل آپس میں جڑا ہوا اور باہم مربوط تھا ، لہٰذا ان کا موجی تفاعل ممکنہ طور پر اب بھی بگ بینگ کے ارب ہا برس گزرنے کے بعد کچھ حصّے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لہٰذا ایک حصّے کے موجی تفاعل میں ہونے والی گڑبڑ دور دراز میں موجود دوسرے موجی تفاعل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔)

١٩٩٣ء میں سائنس دانوں نے تجویز دی کہ ای پی آر کے الجھاؤ کے طریقے کو استعمال کرتے ہوئے کوانٹم منتقلی کا طریقہ کار بنایا جا سکتا ہے۔ ١٩٩٧ء اور ١٩٩٨ء میں کالٹک، ڈنمارک کی آرہس یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ویلز کے سائنس دانوں نے کوانٹم منتقلی کا پہلا مظاہرہ کیا جب ایک اکلوتا فوٹون میز پر سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا۔ یونیورسٹی آف ویلز کے سیموئیل براؤنسٹین جو اس ٹیم کا حصّہ تھے وہ الجھے ہوئے جوڑے کا موازنہ دو پریمیوں سے کرتے ہیں "جو آپس میں ایک دوسرے کو اتنا اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ وہ اپنے محبوب کے بارے میں الگ ہو کر دور فاصلے پر رہ کر بھی بہت اچھی طرح بتا سکتے ہیں۔"

(کوانٹم منتقلی کے تجربات میں تین چیزوں کی ضرورت ہوتی جن کو ہم الف ، ب اور ج کہتے ہیں۔ فرض کریں کہ ب اور ج دو ایسے جڑواں ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں۔ اب ب ،الف سے رابطے میں آتا ہے یہ وہ جسم ہے جس کو منتقل ہوناا ہے۔ ب ، الف کی "جانچ" کرتا ہے اس طرح سے الف میں موجود اطلاع ب کو منتقل ہو جاتی ہے۔ اب یہ اطلاع خود کار طور پر ج میں منتقل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا، ج بعینہ الف کی نقل بن جاتا ہے۔)

کوانٹم منتقلی میں ہونے والی پیشرفت کافی تیز ہے۔ ٢٠٠٣ء میں سوئٹزر لینڈ کی یونیورسٹی آف جنیوا میں سائنس دانوں نے فوٹون کو 1.2میل تک فائبر بصری تار کے ذریعہ منتقل کیا۔

روشنی کے فوٹون (1.3 ایم ایم طول موج پر) ایک تجربہ گاہ سے روشنی کے فوٹون کی مختلف طول موج (1.55 ایم ایم ) میں ایک دوسری تجربہ گاہ میں منتقل کیا جو اس لمبی تار سے منسلک تھے۔ نیکولس گیسن اس منصوبے پر کام کرنے والے ایک طبیعیات دان ہیں وہ کہتے ہیں ، :ممکنہ طور پر ، بڑے اجسام جیسا کہ کوئی سالمہ تو میری زندگی میں ہی منتقل کرلیا جائے گا، لیکن اصل بڑے اجسام سردست نظر آنے والی مستقبل کی ٹیکنالوجی کے ذریعہ بھی قابل منتقل نہیں ہو سکتے۔"

ایک اور بڑی دریافت ٢٠٠٤ء میں ہوئی جب نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے سائنس دانوں نے نہ صرف روشنی کے کوانٹم کو منتقل کیا بلکہ پورا جوہر ہی منتقل کر دیا۔ انہوں نے کامیابی کے ساتھ بیریلیئم کے تین جوہروں کو الجھایا اور ایک جوہر کے خواص دوسرے جوہر میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے جو ایک بڑی کامیابی تھی۔ کوانٹم منتقلی کا عملی اطلاق بہت ہی شاندار ہوگا۔ لیکن اس بات کو مد نظر رکھنے ہوگا کہ کوانٹم منتقلی کی راہ میں اب بھی کافی مسائل حائل ہیں۔ سب سے پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ اصل جسم اس عمل میں ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا آپ منتقل کیے گئے جسم کی نقل نہیں بنا سکتے ۔ صرف ایک ہی نقل ممکن ہے۔ دوسرے آپ کسی بھی جسم کو روشنی کی رفتار سے تیز منتقل نہیں کر سکتے۔ اضافیت کا یہ اصول کوانٹم منتقلی پر بھی لاگو ہے (کسی جسم الف کو جسم ج میں منتقل کرنے کے لئے، آپ کو اب بھی کوئی درمیانی جسم ب درکار ہوگا جو دونوں میں رابطہ کر سکے اور یہ روشنی کی رفتار سے آہستہ سفر کرے گا۔) تیسرے شاید سب سے اہم مسئلہ جو کوانٹم منتقلی کا وہی مسئلہ ہے جو کوانٹم کمپیوٹنگ کا رہا ہے یعنی کہ اجسام کو لازمی طور پر مربوط ہونا چاہئے۔ ماحول سے ہونے والی ہلکی سے بھی گڑبڑ کوانٹم منتقلی کو تباہ کر دے گی۔ لیکن کافی وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی کے اندر ہی پہلا جرثومہ منتقل کیا جا سکے گا۔
کسی انسانی جسم کی منتقلی دوسرے مسائل رکھتی ہے۔ براؤنسٹین کہتا ہے، " فی الوقت اطلاعات کے پہاڑ سے نبرد آزما ہونا ہے ۔ سب سے بہترین ذرائع نقل و حمل کو بھی استعمال کرکے ہم اس وقت یہ بات دیکھ سکتے ہیں کہ تمام اطلاعات کو منتقل کرنے میں ہی کائنات کی عمر جتنا وقت لگ جائے گا۔"​
 

زہیر عبّاس

محفلین
چھٹا باب - 12
کائنات کا موجی تفاعل




بہرحال کوانٹم نظریئے کی حتمی اہمیت اس وقت سامنے آتی ہے جب ہم کوانٹم میکانیات کا اطلاق صرف انفرادی فوٹون پر کرنے کے بجائے پوری کائنات پر کرتے ہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ وہ جب بھی بلی کا مسئلہ سنتا ہے تو اپنی بندوق اٹھا لیتا ہے۔ اس نے- پوری کائنات کے موجی تفاعل کے مسئلے کا اپنا حل پیش کیا۔ اگر پوری کائنات موجی تفاعل کا حصّہ ہے تو پھر کسی ناظر کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی (جس کو کائنات کے باہر لازمی موجود ہونا چاہئے)۔

کوانٹم کے نظریئے میں ہر ذرّہ موج سے تعلق رکھتا ہے۔ اور موج ذرّے کو کسی خاص جگہ پر موجود ہونے کا بتاتی ہے۔ تاہم جب کائنات بہت زیادہ نوجوان تھی تو وہ ذیلی جوہری ذرّے سے بھی چھوٹی تھی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ کائنات کا اپنا خود کا موجی تفاعل موجود ہو اور کیونکہ کائنات الیکٹران سے بھی چھوٹی تھی لہٰذا کائنات ایک ساتھ کئی صورتوں میں موجود ہو جس کو ایک فوق موجی تفاعل سے بیان کیا جا سکتا ہے۔

یہ کثیر جہاں کے نظریئے کی ایک الگ صورت ہے: پوری کائنات کو ایک ساتھ دیکھنے کے لئے کائناتی ناظر کے ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم ہاکنگ کا موجی تفاعل شروڈنگر کے موجی تفاعل سے کافی الگ ہے۔ شروڈنگر کے موجی تفاعل میں مکان و زمان کے ہر نقطہ پر موجی تفاعل ہوتا ہے۔ ہاکنگ کے موجی تفاعل میں ہر کائنات کے لئے ایک موج ہے۔ شروڈنگر کے پی ایس آئی تفاعل کے بجائے جو الیکٹران کی تمام ممکنہ حالتوں کو بیان کرتا ہے ہاکنگ نے ایک ایسا پی ایس آئی تفاعل متعارف کروایا جو کائنات کی تمام ممکنہ حالتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ عام کوانٹم میکانیات میں الیکٹران عام مکان میں وجود رکھتے ہیں۔ تاہم کائنات کے موجی تفاعل میں، موجی تفاعل ایک "فوق مکان" میں موجود ہوتا ہے ، وہ مکان جو تمام ممکنہ کائناتوں کا ہوتا ہے جسے وہیلر نے متعارف کروایا تھا۔

یہ مختار موجی تفاعل (تمام موجی تفاعل کی ماں) نہ صرف شروڈنگر کی مساوات کا اتباع کرتی ہے (جو صرف ایک الیکٹران کے لئے کام کرتی ہے) بلکہ وہیلر- ڈی وٹ کی مساوات کی بھی پیروی کرتی ہے جو تمام ممکنہ کائناتوں کے لئے کام کرتی ہے۔ 1990ء کے ابتدائی عشرے میں ہاکنگ نے لکھا کہ وہ جزوی طور پر کائنات کی اپنی موجی تفاعل کو حل کرنے کے قابل ہو گیا ہے اور اس نے دکھایا کہ ممکنہ کائنات وہ ہوگی جس میں کونیاتی مستقل غائب ہو رہا ہوگا۔ اس مقالے نے کافی تنازعہ کھڑا کر دیا تھا کیونکہ اس نے تمام ممکنہ کائناتوں کو فرض کرکے جمع کر دیا تھا۔ ہاکنگ نے اس حاصل کو تمام ممکنہ کائناتوں کو ثقب کرم سے ملا کر حاصل کرلیا تھا۔

(ہوا میں صابن کے ایک لامتناہی بلبلوں کے سمندر کا تصور کریں جو تمام کے تمام مہین تاروں یا ثقب کرم کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور پھر ان سب کو جوڑ لیں۔)

بالآخر ہاکنگ کے جرات مندانہ طریقہ پر شک و شبہات پیدا ہو گئے۔ کہا گیا کہ تمام ممکنہ کائناتوں کے مجموعہ ریاضیاتی طور پر بھی ناقابل بھروسہ ہے ، کم از کم اس وقت تک جب تک ہمارے پاس "ہر شئے کا نظریہ" ہماری رہنمائی کرنے کے لئے نہ آ جائے۔ جب تک ہر شئے کا نظریہ نہیں بن جاتا ناقدین بحث کرتے رہیں گے کہ ٹائم مشین بنانے، ثقب کرم اور بگ بینگ کے لمحات اور کائنات کے موجی تفاعل کے حسابات پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا۔

آج بہرحال کئی طبیعیات دان یقین رکھتے ہیں کہ ہم نے بالآخر ہر شئے کے نظریئے کو تلاش کرلیا ہے اگرچہ وہ اپنی حتمی صورت میں نہیں ہے: اسٹرنگ نظریہ یا ایم نظریہ۔ کیا یہ ہمیں 'خدا کی حکمت کو جاننے" کی اجازت دے گا جیسا کہ آئن سٹائن یقین رکھتا تھا؟​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 1

ایم نظریہ :مادر اسٹرنگس

ساتواں باب
ایم نظریہ :مادر اسٹرنگس



اگر کوئی کائنات کو وحدت کے نقطۂ نظر سے دیکھ سکے تو اس کے لئے تمام تخلیق ایک منفرد سچائی اور ضرورت کی شکل میں ابھر آئے گی۔

- جے ڈی ایلمبرٹ



میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم اسٹرنگ کے نظرئیے کے کافی قریب ہیں، میں تصوّر کرتا ہوں کہ – کسی بھی دن کسی بھی عظیم رجائیت کے لمحے میں –نظرئیے کی حتمی شکل آسمان سے نازل ہو کر کسی کی بھی گود میں گر جائے گی۔ لیکن حقیقت سے قریب تر ہو کر دیکھوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم ایک کافی گہرے نظرئیے کے تشکیل کے عمل میں لگے ہوئے ہیں جو ہمارے پاس اس سے پہلے یا اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہوئے کبھی بھی نہیں تھا، جب میں کافی بوڑھا ہو جاؤں گا تو شاید میں کوئی قابل ذکر خیال اس بارے میں پیش کر سکوں، نوجوان طبیعیات دانوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا اصل میں ہم نے حتمی نظریہ تلاش کر لیا تھا یا نہیں۔

- ایڈورڈ ویٹن



ایچ جی ویلز کا ١٨٩٧ء کا کلاسک ناول، غیر مرئی آدمی ، ایک عجیب کہانی سے شروع ہوتا ہے۔ ایک سرد خنک دن میں، ایک اجنبی تاریکی میں سے عجیب لباس پہنے نکلتا ہے۔ اس کا چہرہ مکمل طور پر ڈھکا ہوا ہوتا ہے، وہ گہرے نیلے رنگ کا چشمہ لگایا ہوا ہوتا ہے اور اس کے پورے چہرے پر سفید پٹیاں لگی ہوئی ہوتی ہیں۔

شروع میں دیہاتی اس پر رحم کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ شاید وہ کسی خوفناک حادثے کا شکار ہو گیا ہے۔ لیکن گاؤں میں کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔ ایک دن اس کی مالکن جب اپنے خالی کمرے میں داخل ہوتی ہے تو وہ دیکھتی ہے کہ کپڑے کمرے میں خود سے حرکت کر رہے ہیں جس کو دیکھ کر اس کی چیخ نکل جاتی ہے۔ ٹوپیاں کمرے میں چکر کھا رہی تھیں ، چادریں ایک دوسرے پر چڑھی جا رہی تھیں، کرسیاں حرکت کر رہی تھیں، اور فرنیچر پاگل ہو گیا تھا ، وہ خوف سے بیان کرتی ہے۔

جلد ہی تمام گاؤں میں کچھ غیر معمولی واقعات کی افواہوں کی بازگشت سنائی دینے لگتی ہے۔ بالآخر دیہاتیوں کا ایک گروہ جمع ہوتا ہے اور اس اجنبی سے ان عجیب و غریب واقعات کا ذکر کرتا ہے۔ وہ حیرت سے اس وقت گنگ ہو جاتے ہیں جب وہ آہستگی کے ساتھ اپنی پٹیاں اتارتا ہے۔ مجمع دہشت زدہ ہو جاتا ہے۔ پٹی کے بغیر اجنبی کا چہرہ مکمل طور پر غائب ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر لوگ چیختے اور چلاتے ہیں اور اس وقت افراتفری پھیل جاتی ہے۔ دیہاتی غیر مرئی آدمی کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کو آسانی کے ساتھ شکست دے دیتا ہے۔

کچھ چھوٹے جرائم کرنے کے بعد، غیر مرئی آدمی اپنے ایک پرانے شناسا سے ملتا ہے اور اپنی غیر معمولی کہانی بیان کرتا ہے۔ اس کا اصل نام گریفن ہوتا ہے جو یونیورسٹی کا طالبعلم ہوتا ہے۔ اگرچہ تعلیم کی شروعات وہ طب کی تعلیم سے کرتا ہے تاہم اتفاق سے اس کا سامنا ایک ایسے انقلابی طرز عمل سے ہوتا ہے جو انسانی جسم کی منعطف اور منعکس کرنے کے خواص کو بدل سکتا ہے۔ اس کا راز ایک چوتھی جہت تھی۔ وہ خوشی کی حالت میں ڈاکٹر کیمپ کے پاس پہنچتا ہے اور اس سے کہتا ہے، "میں نے ایک عمومی اصول دریافت کر لیا ہے۔۔۔ ایک ایسا کلیہ، ایک ایسی جیومیٹریکل ترکیب جس میں چوتھی جہت ملوث ہے۔"

تاہم صد افسوس کہ بجائے اس عظیم دریافت کا استعمال انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے کرتا وہ اسے ذاتی فوائد اور مالی منفعت کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس کام میں وہ اپنے دوست کو شریک کرتا ہے۔ اس کے دعوے کے مطابق وہ دونوں مل کر دنیا کو لوٹ سکتے ہیں۔ لیکن اس کا دوست خوف زدہ ہو جاتا ہے اور گریفن کی موجودگی کی اطلاع پولیس کو دے دیتا ہے۔ نتیجتاً ایک آخری معرکہ میں غیر مرئی آدمی جان لیوا حد تک زخمی ہو جاتا ہے۔

جیسا کہ ہر بہترین سائنسی ناول کے ساتھ ہوتا ہے اس ناول میں بھی ایچ جی ویلز کے دوسرے ناولوں کی طرح سائنس کا تڑکا لگا ہوا تھا۔ جو کوئی چوتھی مکانی جہت کو انضباط کرنے کے قابل ہوگا ( یا آج جس کو ہم پانچویں جہت کے نام سے جانتے ہیں) اصل میں وہ غیر مرئی بن جائے گا اور اس کے پاس وہ طاقت آ جائے گی جسے ہم دیوتاؤں اور جنات سے منسوب کرتے ہیں۔ ایک لمحے کے لئے فرض کریں کہ دیومالائی ہستیوں کی دوڑ میز کے اوپری حصّے کو دو جہتوں میں آباد کر دیتی ہے، جیسا کہ ایڈون ایبٹ کے ١٨٨٤ء کے ناول "چپٹی زمین" میں ہوا تھا۔ وہ اپنی جہاں میں اس بات سے بے خبر مگن تھے کہ ان کے گرد ایک تیسری جہت میں پوری کائنات موجود ہے۔

لیکن اگر چپٹی زمین کے سائنس دان کسی تجربے میں ان کو میز سے ایک انچ اوپر اٹھا دیتے تو وہ غیر مرئی ہو جاتے کیونکہ روشنی ان کے نیچے سے اس طرح سے گزر جاتی جیسا کہ ان کا وجود ہی نہیں ہے۔ چپٹی زمین سے اوپر اٹھ کر وہ میز کی سطح پر کئی چیزوں کو دیکھ سکتے تھے۔ اضافی خلاء میں معلق رہنے کا زبردست فائدہ ہوتا ہے ، جو کوئی بھی اضافی خلاء سے نیچے دیکھے گا اس کے پاس دیوتاؤں والی قوّت ہوگی۔

نہ صرف روشنی اس کے نیچے سے گزر سکے گی جس کے نتیجے میں وہ غیر مرئی ہو جائے گا، وہ چیزوں میں سے بھی گزر سکے گا۔ بالفاظ دیگر وہ اپنی مرضی سے غائب ہو کر دیواروں میں سے گزر سکے گا۔ صرف تیسری جہت میں چھلانگ لگا کر وہ چپٹی زمین کی کائنات میں سے غائب ہو جائے گا۔ اگر وہ دوبارہ سے لٹو کے اوپر چھلانگ لگائے گا تو وہ یکایک باطن سے ظاہر ہو جائے گا۔ لہٰذا وہ دنیا کی کسی بھی جیل سے فرار ہو سکتا ہے۔ چپٹی زمین میں موجود کوئی بھی جیل ایک ایسا دائرہ ہوگی جو اس کے ارد گرد کھینچا ہوا ہوگا، لہٰذا اس کے لئے چھلانگ مار کر تیسری جہت میں جانا بہت ہی آسان ہوگا۔ مافوق الفطرت ہستیوں سے اپنا راز چھپانا ناممکن ہوگا۔ تجوری میں رکھا ہوا سونا تیسری جہت کے تفوق والی جگہ سے بآسانی سے دیکھا جا سکے گا۔ کیونکہ تجوری صرف ایک کھلی ہوئی چوکور ساخت ہوگی۔ اس چوکور کے اندر پہنچنا اور اس کو توڑے بغیر سونا چرانا صرف بچوں کا کھیل ہوگا۔ جراحت جلد کو کاٹے بغیر ممکن ہو سکے گی۔

اسی طرح سے ایچ جی ویلز چاہتا تھا کہ چوتھی جہت کی دنیا کا تصوّر دنیا کو دے، ہم چپٹی دنیا کے باسی ہیں، اس بات سے بے خبر کے وجود کے اضافی میدان ہمارے اوپر معلق ہیں۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہماری دنیا صرف اسی پر مشتمل ہے جو ہم دیکھتے ہیں۔ اس بات سے بے خبر کے ہماری ناک کے نیچے پوری کی پوری کائناتیں موجود ہو سکتی ہیں۔ ہرچند ممکن ہے کہ ایک اور کائنات ہمارے سے صرف ایک انچ کے فاصلے پر ہمارے اوپر معلق ہو کر چوتھی جہت میں تیر رہی ہو مگر وہ ہمیں غیر مرئی دکھائی دے گی۔

مافوق الفطرت ہستیاں عام طور پر فوق انسانی قوّت رکھتی ہیں جن کو ہم عام طور پر جنات یا روحوں سے نسبت دیتے ہیں۔ ایک اور دوسری سائنسی کہانی میں ایچ جی ویلز اس بات پر غور و فکر کرتا ہے کہ آیا مافوق الفطرت ہستیاں اضافی جہتوں کو آباد کر سکتی ہیں۔ وہ نہایت اہم سوال اٹھاتا ہے جو عصر حاضر کے عظیم اندازوں اور تحقیق کا موضوع ہے۔ یعنی کہ کیا اضافی جہتوں میں نئے قوانین طبیعیات موجود ہو سکتے ہیں؟ اس کے ١٨٩٥ء کے ناول میں "حیرت انگیز سیر" میں ایک پادری کی بندوق حادثاتی طور پر ایک فرشتے کو زخمی کر دیتی جو اتفاق سے ہماری جہت کو پار کر رہا ہوتا ہے۔ کسی نامعلوم کونیاتی وجہ سے ہماری اور متوازی کائنات آپس میں ٹکرا جاتی ہیں اور نتیجتاً وہ فرشتہ ہماری کائنات میں گر جاتا ہے۔ کہانی میں ویلز لکھتا ہے، "کیا تین جہتوں میں لاتعداد کائناتیں ہماری کائنات کے ساتھ پہلو بہ پہلو موجود ہو سکتی ہیں۔" پادری زخمی فرشتے سے سوال کرتا ہے۔ اس کو حیرت کا جھٹکا اس وقت لگتا ہے جب اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہماری طبیعیاتی قوانین فرشتے کی دنیا میں نہیں چلتے۔ مثال کے طور پر اس کی کائنات میں کوئی میدان نہیں ہوتا اس کے بجائے ہر چیز سلنڈر نما ہوتی ہے ، لہٰذا خلاء اپنے آپ میں خم زدہ ہوتی ہے۔ ( آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت سے بیس برس پہلے ویلز کائنات کو خم زدہ سطح پر واقع ہونے کا سوچ رہا تھا۔ جیسا کہ پادری نے سوچا تھا، 'ان کی جیومیٹری اس لئے مختلف ہوتی ہے کیونکہ خلاء میں خود سے خم موجود ہوتا ہے لہٰذا ان کے تمام میدان سلنڈر نما ہوتے ہیں، اور ان کا قانون ثقل ، قانون معکوس مربع کے تابع نہیں ہوتا اور ہمارے یہاں کے تین بنیادی رنگوں کے بجائے وہاں چار اور بیس بنیادی رنگ ہوتے ہیں۔" ویلز کی اس کہانی کے ایک صدی سے بھی زائد عرصے کے بعد ، طبیعیات دان اس بات کا ادراک کر رہے ہیں کہ نئے قوانین طبیعیات بشمول مختلف ذیلی جوہری ذرّات ، جوہر اور کیمیائی تعاملات ممکنہ طور پر متوازی جہانوں میں موجود ہو سکتے ہیں۔ (جیسا کہ ہم نویں باب میں دیکھیں گے، اب کافی سارے تجربات کیے جا رہے ہیں تاکہ متوازی کائناتوں کے وجود کا سراغ لگایا جا سکے جو ہماری کائنات کے اوپر معلق ہیں۔)

اضافی خلاء کے تصوّر نے فنکاروں، موسیقاروں، صوفیوں، علمائے دین اور فلسفیوں کو خاص طور پر بیسویں صدی کے آغاز پر کافی متحیر کیا ہوا تھا۔ مورخ لنڈا ڈیلریمپل ہینڈرسن، پابلو پکاسو کی چوتھی جہت میں دلچسپی نے ہی مکعبی مصورّی کی تخلیق کی۔ (اس نے تصویر میں جو عورت کی آنکھیں بنائی تھیں وہ ہماری طرف براہ راست دیکھ رہی تھیں ، اگرچہ اس کی ناکیں چہرے کے اطراف میں تھیں، جس کے نتیجے میں ہم عورت کو مکمل طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں دیکھنے والی ایک مافوق الفطرت ہستی ہمیں مکمل دیکھ سکتی ہوگی، بیک وقت اوپر ، نیچے اور آگے پیچھے سے۔) اس کی شہرہ آفاق تصویر "کریسٹس ہائپرکیوبس" میں سلواڈور ڈالی نے حضرت عیسا کی صلیب پر ایک ایسی ہی پیچیدہ چوتھی جہت اضافی مکعب میں دکھائی ہے۔ اس تصویر میں جس کا عنوان "استقلال شعور " ہے، ڈالی نے کوشش کی ہے کہ وقت کو پگھلی ہوئی گھڑی کے ساتھ ایک چوتھی جہت کے طور پر بیان کر سکے۔ مارسل ڈچمپ کی تصویر سیڑھی سے اترتے ہوئے برہنہ (نمبر دو ) میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک برہنہ شخص رکے ہوئے وقت میں سیڑھیوں سے اترتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے، یہ بھی ایک اس کوشش کا حصّہ ہے جس میں دو جہتی سطح پر رہتے ہوئے وقت کی چوتھی جہت کو پکڑنے کی کوشش کی ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 2
ایم – نظریہ


آج چوتھی جہت کے اسرار اور حکمت ایک بالکل ہی نئی وجہ سے ظاہر ہو رہے ہیں یعنی کہ اسٹرنگ نظرئیے کی تخلیق اور اس کی ایم نظرئیے میں تجسیم نے اس کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ تاریخی طور پر اضافی خلاء کے تصوّر کو طبیعیات دانوں کی وجہ سے بڑی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا؛ ان کا کہنا تھا کہ اضافی جہتیں صوفیوں اور عطائیوں کے کھیل کا میدان ہے۔ وہ سائنس دان جو ان دیکھے جہانوں کی بات کرتے تھے وہ زبردست تمسخر کا نشانہ بنتے تھے۔

ایم نظرئیے کے آنے کے ساتھ ہی سب کچھ بدل گیا۔ اضافی جہتیں اب طبیعیات کی دنیا میں ہونے والے انقلاب میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں کیونکہ طبیعیات دان مجبور ہیں کہ وہ عظیم تر مسئلے کا سامنا کریں، عمومی اضافیت اور کوانٹم کے درمیان موجود کھائی کو پاٹیں ۔ حیرت انگیز طور پر یہ دونوں نظرئیے اس تمام علم کا مجموعہ ہیں جو ہم نے طبیعیات کے شعبے میں کائنات کے بارے میں بنیادی طور پر حاصل کیا ہے۔ فی الوقت صرف ایم نظریہ ہی ان دونوں بظاہر ایک دوسرے کی مخالف نظریوں کو ایک کرکے ایک "ہر شئے کے نظرئیے" میں ڈھال سکتا ہے۔ وہ تمام نظرئیے جو ماضی میں پیش کئے گئے ہیں ان میں سے صرف ایک ہی امید وار اس قابل نظر آتا ہے جو بقول آئن سٹائن کے "خدا کی حکمت" کو جان سکے اور وہ ہے ایم نظریہ۔

صرف دس یا گیارہ جہتوں میں ہمارے پاس اتنی جگہ ہوگی کہ ہم قدرت کی تمام قوّتوں کو ایک نفیس نظرئیے میں بیان کر سکیں۔ ایسا شاندار نظریہ پرانے سوال کا جواب دے سکتا ہے یعنی کہ ابتداء سے پہلے کیا ہوا تھا؟ کیا وقت بھی الٹ سکتا ہے؟ کیا جہتی گزرگاہیں ہمیں کائنات میں دور دراز مقام تک لے جا سکتی ہیں؟(ہرچند اس نظرئیے کے ناقد بالکل درست طور پر کہتے ہیں کہ اس نظرئیے کی جانچ ہماری موجود تجرباتی قابلیت سے کہیں زیادہ ہے، اس کے باوجود کافی سارے تجربات ایسے ہیں جن کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے اور جو ہو سکتا ہے کہ صورتحال کو بدل دیں جیسا کہ ہم نویں باب میں دیکھیں گے۔)

وہ تمام کوششیں جو پچھلے پچاس برس سے کائنات کی ایک حقیقی تصویر کو بیان کرنے کے لئے ہو رہی تھیں وہ تمام فضیحت کے ساتھ ناکامی سے دوچار ہو رہی تھیں۔تصوراتی طور پر اسے سمجھنا آسان ہے۔ عمومی اضافیت اور کوانٹم کا نظریہ دونوں ایک دوسرے سے ہر طرح سے الگ اور مختلف ہیں۔ عمومی اضافیت بڑے اجسام جیسا کہ بلیک ہول، بگ بینگ ، کوزار اور پھیلتی ہوئی کائنات کے بارے میں ہے۔ اس کی بنیاد ریاضیاتی طور پر ہموار سطح جیسا کہ بستر کی چادر اور ترپال کے جالوں جیسی چیزوں پر ہے۔ کوانٹم نظریہ اس سے بالکل ہی مختلف ہے – یہ بہت ہی چھوٹی چیزوں کے جہاں سے نمٹتا ہے یعنی کہ جوہر، پروٹون،نیوٹران اور کوارک۔ اس کا انحصار توانائی کے مجرد بنڈلوں کے نظریہ پر ہے جس کو کوانٹا کہتے ہیں۔ اضافیت کے برعکس، کوانٹم کا نظریہ کہتا ہے کہ واقعات کے امکانات کا صرف حساب ہی لگایا جا سکتا ہے، لہٰذا ہمیں کبھی درست طرح معلوم نہیں ہوگا کہ الیکٹران کہاں پر واقع ہے۔ یہ دونوں نظریات مختلف ریاضی، مختلف مفروضوں، مختلف طبیعیاتی اصولوں اور مختلف حلقہ اثر رکھتے ہیں۔ ان دونوں کو ہم آہنگ کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں تھیں۔

طبیعیات کی دنیا کے بڑے - ارون شروڈنگر ، ورنر ہائیزن برگ، وولف گینگ پاؤلی اور آرتھر ایڈنگٹن جو آئن سٹائن کے نقش قدم پر چلے تھے اور انہوں نے وحدتی میدانی نظرئیے کو بنانے میں اپنے ہاتھ صاف کیے تھے بہت ہی بری طرح سے ناکامی سے دوچار ہوئے ۔ ١٩٢٨ء میں آئن سٹائن نے حادثاتی طور پر ذرائع ابلاغ میں اس وقت افراتفری مچا دی جب اس نے اپنے وحدتی نظرئیے کے ابتدائی نمونے کو پیش کیا۔ نیویارک ٹائمز نے تو یہاں تک کیا کہ اس کی مساوات کو بھی شایع کر دیا۔ سو سے زیادہ صحافیوں نے اس کے گھر کے باہردھاوا بول دیا تھا۔ انگلستان سےایڈنگٹن نے آئن سٹائن کو لکھا، "آپ یہ بات جان کر حیران ہوں گے کہ ہمارےلندن کے عظیم ڈیپارٹمنٹل اسٹور(سیلفرجز) نے اپنی کھڑکی پر آپ کا مقالہ (چھ صفحات ایک کے بعد ایک چپکائے ہوئے تھے ) تاکہ آنے جانے والے اس کو مکمل طور پر پڑھ سکیں۔ کافی سارا مجمع اس کو پڑھنے کے لئے جمع ہو گیا ہے۔"

١٩٤٦ء میں ارون شروڈنگر کو بھی اسی طرح کے ایک کیڑے نے کاٹا اور وہ سمجھا کہ اس نے ایک افسانوی وحدتی میدانی نظرئیے دریافت کرلیا۔ جلدی میں اس نے کچھ ایسا کر لیا جو اس دور کے لحاظ سے مناسب نہیں تھا( لیکن وہ کام آج کے دور میں کوئی بڑی بات نہیں ہے) یعنی کہ اس نے پریس کانفرنس بلا لی۔ آئر لینڈ کے وزیر اعظم ایمون ڈی والیرا بھی اس کی کانفرنس سننے کے لئے چلے آئے تھے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ کس حد تک اس بارے میں پر امید ہے کہ بالآخر اس نے وحدتی میدانی نظریہ حاصل کر لیا ہے، تو اس نے جواب دیا، " میں سمجھتا ہوں کہ میں درست ہوں۔ میں اس وقت انتہائی احمق لگوں گا اگر میں غلط ہوا۔" (نیویارک ٹائمز نے آخر کار اس کی پریس کانفرنس کے بارے میں جان کر اس کی تفصیلات کو آئن سٹائن اور دوسروں کو تبصرے کے لئے بھیج دیا۔ بدقسمتی سے آئن سٹائن سمجھ گیا کہ شروڈنگر نے ایک پرانے نظرئیے کو دوبارہ سے دریافت کر لیا ہے جو اس نے ایک برس پہلے ہی پیش کیا تھا اور پھر اس کو رد کر دیا تھا۔ آئن سٹائن نے نہایت حلم سے اس کا جواب دیا تھا لیکن شروڈنگر کی کافی بے عزتی ہو گئی تھی۔)

١٩٥٨ء میں طبیعیات دان جیریمی برنسٹین نے کولمبیا یونیورسٹی میں ہونے والی ایک بحث سنی جہاں وولف گنگ پاؤلی اپنا وحدتی میدانی نظرئیے پیش کر رہا تھا جو اس نے ورنر ہائیزن برگ کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ نیلز بوہر سامعین میں موجود تھا اور اس نظریئے سے بالکل بھی متاثر نہیں تھا۔ بالآخر اس سے رہا نہیں گیا اور وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا، "ہم پیچھے بیٹھے ہوئے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ تمہارا نظریہ پاگل پنے کا ہے۔ لیکن جس چیز نے ہمیں آپس میں تقسیم کر دیا ہے وہ یہ کہ اس پاگل پن کی حد کیا ہے۔"

پاؤلی نے فوراً ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ بوہر کا کیا مطلب تھا - ہائیزن برگ اور پاؤلی کا نظریہ بہت ہی زیادہ روایتی تھا، وہ اتنا عام سا تھا کہ وہ کسی طور عظیم وحدتی میدانی نظریہ کے قابل نہیں تھا۔ "خدا کی حکمت کو جاننے" کا مطلب تھا کہ کچھ بہت ہی الگ طرح کی ریاضی اور خیال ہونا چاہئے تھا۔

طبیعیات دانوں کی کثیر اس بات پر متفق ہے کہ ایک سادہ، نفیس اور قائل کر دینے والا خیال ہر شئے کے پیچھے ہوگا جو خود سے ہی ایک پاگل پن اور سچ ہونے کے لئے کافی دور کی کوڑی ہے۔ پرنسٹن کے جان وہیلر اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ انیسویں صدی میں زمین پر حیات کی نوع میں تنوع پایا جانا مایوس کن خیال مانا جاتا تھا ۔ لیکن اس کے بعد چارلس ڈارون نے قدرتی چناؤ کے طریقے کو متعارف کروایا اور ایک ہی نظرئیے نے حیات کے ماخذ اور اس میں ہونے والی تنوع کو بیان کرنے کا بنیادی ڈھانچہ پیش کر دیا۔

نوبیل انعام یافتہ اسٹیون وائن برگ نے ایک مختلف استعارہ استعمال کیا۔ کولمبس کے بعد ابتدائی یوروپی مہم جوؤں کے بنائے ہوئے مفصل نقشوں نے اس بات پر پر زور اسرار کیا کہ "شمالی قطب" کو موجود ہونا چاہئے لیکن اس کا کوئی بلاواسطہ ثبوت نہیں تھا۔ کیونکہ دنیا کا ہر نقشہ ایک بہت بڑے رخنہ کو دکھاتا تھا جہاں پر شمالی قطب کو موجود ہونا چاہئے، ابتدائی کھوجیوں نے صرف اس بات پر انحصار کیا کہ وہاں پر ضرور قطب شمالی ہونا چاہئے ہرچند کے اس میں سے کسی نے وہاں کا کبھی سفر نہیں کیا تھا۔ بعینہ ایسے طبیعیات دان آج ، ابتدائی کھوجیوں کی طرح کافی سارے ثبوت حاصل کر چکے ہیں جو ہر شئے کے نظرئیے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں، بہرصورت سردست اس بات پر کوئی بھی آفاقی اتفاق رائے قائم نہیں ہو سکا کہ اس نظرئیے کو کیسا ہونا چاہئے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 3
اسٹرنگ نظرئیے کی تاریخ پر ایک نظر - حصّہ اوّل



وحدتی میدانی نظرئیے کا امید وار ایک نظریہ جو واضح طور پر "کافی پاگل پن " کا ہے وہ اسٹرنگ نظریہ یا ایم نظریہ ہے۔ اسٹرنگ نظریہ شاید طبیعیات کی تاریخ کا سب سے عجیب واقعہ ہے۔ اس کو اتفاقی طور پر اس وقت دریافت کیا گیا تھا جب اس کا اطلاق ایک غلط مسئلے پر کیا جا رہا تھا جس میں کچھ ابہام تھا اور یہ اچانک ہی ہر شئے کا نظریہ بن کر سامنے آگیا۔ اور حتمی تجزیہ میں کیونکہ چھوٹی تبدیلیاں نظرئیے کو تباہ کئے بغیر کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے لہٰذا یا تو اس کو ہر شئے کا نظرئیے ہونا چاہئے تھا یا پھر کسی شئے کا بھی نہیں ۔

اس عجیب تاریخ کی وجہ یہ ہے کہ اسٹرنگ کے نظریہ الٹی طرف سے بنایا گیا۔ عام طور پر نظرئیے میں جیسا کہ اضافیت میں شروعات ہی بنیادی طبیعیاتی اصولوں سے ہوتی ہے۔ بعد میں ان اصولوں کو آگے بڑھایا جاتا ہے تاکہ ایک مستند مساوات کا مجموعہ حاصل ہو سکے۔ آخر میں ان مساوات کی کوانٹم اتار چڑھاؤ کو ناپا جاتا ہے۔ اسٹرنگ نظریہ الٹی طرح سے بنا، اس کی شروعات حادثاتی طور پر ہونے والی کوانٹم نظرئیے سے ہوئی؛ طبیعیات دان اب بھی اس بات پر غور و فکر کر رہے ہیں کہ وہ کون سے اصول ہیں جو اس نظرئیے کی رہنمائی کریں گے۔

اسٹرنگ کے نظرئیے کی شروعات ١٩٦٨ء سے ہوتی ہے جب جنیوا میں واقع سرن کی نیوکلیائی تجربہ گاہ میں موجود دو نوجوان طبیعیات دانوں گیبریل وینزیانو اور ماہیکو سوزوکی علیحدہ علیحدہ ریاضی کی ایک کتاب کو یوں ہی شغل میں پلٹ رہے تھے کہ اچانک اتفاق سے ان کی نظر یولر کے بیٹا تفاعل پر پڑی، اٹھارویں صدی کا ایک گمنام ریاضیاتی کلیہ جس کو لیونارڈ یولر نے دریافت کیا تھا جو حیرت انگیز طور پر ذیلی جوہری دنیا کی تشریح کرتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ مبہم ریاضیاتی کلیہ دو میسون ذرّات کو زبردست توانائی کے ساتھ ٹکراتے ہوئے بیان کرتا ہوا لگتا ہے۔ وینزیانو نمونے نے جلد ہی طبیعیات کی دنیا میں سنسی پھیلا دی، سینکڑوں مقالات و مضامین نیوکلیائی طاقتوں کو عمومی طور پر بیان کرنے کی کوششوں میں پیش کئے گئے۔

بالفاظ دیگر، نظریہ خالص اتفاق کا حاصل تھا۔ انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے ایڈورڈ ویٹن (جو اس نظرئیے میں ہونے والی کافی زیادہ چونکا دینے پیشرفتوں کے پیچھے موجود شخصیت سمجھے جاتے ہیں )، کہتے ہیں، "اگر حق کی بات کی جائے تو بیسویں صدی کے طبیعیات دانوں کو اس نظرئیے کا مطالعہ کرنے کا کوئی حق نہیں تھا ۔ اصل میں تو اسٹرنگ کے نظرئیے کو ایجاد ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔"

مجھے واضح طور وہ ہلچل یاد ہے جو اسٹرنگ کے نظرئیے نے پیدا کی تھی۔ میں اس وقت طبیعیات کی سند حاصل کرنے والا برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کا طالبعلم تھا۔ اور مجھے یاد ہے کہ طبیعیات دان اپنی گردانیں انکار کی صورت میں ہلا کر کہتے تھے کہ طبیعیات کو اس طرح سے نہیں ہونا چاہئے۔ ماضی میں طبیعیات دان عام طور پر سخت عرق ریزی کے بعد قدرت کے مفصل مشاہدات کرتے تھے، اور پھر کچھ خیال پیش کرتے تھے، احتیاط کے ساتھ اعداد و شمار کے مخالف میں خیال کی جانچ کی جاتی تھی، اور پھر تھکا دینے والا عمل بار بار کیا جاتا تھا۔ اسٹرنگ کا نظریہ تو صرف کرسی پر بیٹھ کر صرف جواب کا قیاس لگا کر حاصل کر لیا گیا۔ ایسے دم بخود کر دینے والے مختصر راستوں کا ممکن ہونے کا تو تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

کیونکہ ذیلی جوہری ذرّات کو ہم اپنے طاقتور آلات کی مدد سے بھی نہیں دیکھ سکتے، طبیعیات دانوں کو ان کی جانچ کے لئے وحشی لیکن اثر انگیز طریقہ ڈھونڈھنا تھا، یعنی ان کو زبردست توانائی کے ساتھ ٹکرانا تھا۔ ارب ہا ڈالر جسیم "جوہری تصادم گروں" یا "ذرّاتی اسراع گروں" کو بنانے میں لگا دیے گئے جو میلوں پر محیط ہیں، جہاں پر ذیلی جوہری ذرّات کی کرنیں پیدا کی جاتی ہیں اور پھر ان کو ایک دوسرے سے ٹکرا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد طبیعیات دان انتہائی عرق ریزی کے ساتھ تصادم سے پیدا ہونے والے گرد و غبار کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس تکلف دہ مشقت آمیز عمل کا مقصد اعداد کا سلسلہ بنانا ہے جس کو انتشاری قالب یا ایس قالب کہتے ہیں۔ اعداد کا یہ مجموعہ بہت اہم ہے کیونکہ یہ اپنے آپ میں ذیلی جوہری طبیعیات کی تمام اطلاع کو رمز بند کر دیتا ہے۔ یعنی کہ اگر کوئی ایس قالب کو جانتا ہو تو تمام بنیادی ذرّات کی خواص کو جان لے گا۔

بنیادی ذرّاتی طبیعیات کا ایک مقصد ایس قالب کا ریاضیاتی طور پر ڈھانچے کا مضبوط تعاملات کے لئے اندازہ لگانا بھی ہے۔ ایک ایسا کام جو اس قدر دشوار گزار ہے کہ کچھ طبیعیات دان یقین رکھتے ہیں کہ یہ کسی بھی معلوم طبیعیات کے پرے کی چیز ہے۔ اب آپ اس سنسنی کے بارے میں اچھی طرح سے اندازہ لگا سکتے ہیں جب وینزیانو اور سوزوکی نے ریاضی کی کتاب کے اوراق کو پلٹتے ہوئے سادہ سا اندازہ لگاتے ہوئے ایس قالب کا قیاس کیا تھا ۔

یہ نمونہ اس سے بالکل الگ تھا جو ہم اس سے پہلے دیکھ چکے ہیں۔ عام طور پر جب کوئی نیا نظریہ پیش کرتا ہے (جیسا کہ کوارک) تو طبیعیات دان کوشش کرتے ہیں کہ نظرئیے میں معمولی تبدیلیاں کریں، اس کے معلوم اعداد کو تبدیل کرتے ہیں (مثلاً ذرّات کی کمیتیں یا ان کی مضبوطی)۔ لیکن وینزیانو نمونہ اتنا شاندار بنا ہوا تھا کہ خفیف سی گڑبڑ بھی اس کے بنیادی تشاکل کو تباہ کر کے پورے کلیہ کو اجاڑ دیتی ہے۔ جس طرح سے شیشے کا نازک برتن ہوتا ہے کوئی بھی تبدیلی اس کو چکنا چور کر دیتی ہے۔

ان سیکڑوں مقالات میں جنہوں نے اس میں خفیف سی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کیں انہوں نے اس کی خوبصورتی کو تباہ کر دیا اور اس میں سے کوئی بھی آج باقی نہیں رہی۔ صرف وہی آج جانی جاتی ہیں جنہوں نے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی کہ آیا یہ کام کیوں کرتی ہے۔ یعنی کہ وہ جنہوں نے اس کے تشاکل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ بالآخر طبیعیات دانوں نے سیکھ لیا کہ نظرئیے میں کوئی قابل رد و بدل چیز نہیں ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 4

اسٹرنگ نظرئیے کی تاریخ پر ایک نظر - حصّہ دوم



وینزیانو نمونہ جتنا بھی شاندار ہو اس میں بھی کچھ مسائل جڑے ہوئے ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ کہ طبیعیات دانوں کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ صرف حتمی ایس قالب کی جانب پہلا قدم ہے اور یہ پوری تصویر کو بیان نہیں کرتا۔ بونجی سکیتا میگول ویراسورو اور کیجی کیکاوا نے یونیورسٹی آف وسکنسن میں اس بات کا احساس کر لیا تھا کہ ایس قالب کو ایک غیر محدود سلسلہ کی شرائط کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور وینزیانو نمونہ صرف اس سلسلہ کا سب سے پہلی اور اہم شرط ہے۔ (عام زبان میں بات کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سلسلے میں سے ہر ایک شرط اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ کتنے طریقوں سے ذرّات کو ایک دوسرے سے ٹکرایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کچھ اصول وضع کیے جس کے ذریعہ کوئی بھی اضافی شرائط کو قریب قریب بنا سکتا ہے۔ میں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لئے فیصلہ کیا کہ میں اس پروگرام کو مکمل کرنے کے لئے جت جاؤں گا اور وینزیانو نمونے میں تمام ممکنہ تصحیحات سر انجام دوں گا۔ اپنے رفیق ایل پی یو کے ساتھ میں نے نمونے میں لامحدود شرائط کی تصحیح کا حساب لگایا۔)

بالآخر یونیورسٹی آف شکاگو کے یویچیرو نامبو اور نہو ن یونیورسٹی کے ٹیسٹسو گوٹو نے اہم خصوصیت ایک مرتعش تار کو شناخت کر لیا جس نے نمونے کو کام کے قابل بنا دیا ۔ (ان خطوط پر کام لیونارڈ سسکنڈ اور ہولگر نیلسن نے بھی کیا تھا ۔) جب ایک تار دوسرے تار سے ٹکراتا ہے تو یہ ایک ایس قالب کی تخلیق کرتا ہے جس کی وضاحت وینزیانو نمونہ کرتا ہے۔ اس تصویر میں ہر ذرّہ کچھ بھی نہیں ہے سوائے ارتعاش یا تار کی سر کے ۔ (میں اس تصوّر کو بعد میں تفصیل سے بیان کروں گا۔)

اس سمت میں ہونے والی پیش رفت کافی تیز تھی۔ ١٩٧١ء جان شیوارز، آندرے نیویو اور پیری ریمنڈ نے اسٹرنگ نمونے کو اس طرح سے عمومی کیا کہ اس میں ایک نئی چیز شامل کی جس کو گھماؤ کہتے ہیں، اور اس چیز نے ہی اس کو ذرّاتی تعاملات کے لئے موزوں امید وار بنا دیا۔ جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے کہ تمام ذیلی جوہری ذرّات گھومتے ہوئے چھوٹے لٹو کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ ہر ذیلی جوہری ذرّہ کا گھماؤ کوانٹم کی اکائی میں یا تو مکمل عدد ہوتا ہے جیسا کہ ٠، ١ ، ٢ یا پھر اس کا نصف جیسا کہ 1/2, یا 3/2 وغیرہ ۔ نیویو شیوارز ریمنڈ اسٹرنگ اس گھومنے کے اس نمونے کو انتہائی درستگی سے بیان کرتا ہے۔)

میں بہرحال اس وقت بھی غیر مطمئن تھا۔ دوہری گمگ کا نمونہ جیسا کہ اس وقت یہ یہی کہلاتا تھا، ایک طرح سے پرانے کلیوں اور اصولوں کا مجموعہ تھا۔ پچھلے ١٥٠ برس سے تمام طبیعیات میدان پر انحصار کر رہی تھی، جب پہلی بار اس کو برطانوی طبیعیات دان مائیکل فیراڈے نے متعارف کروایا تھا۔ ذرا مقناطیسی میدانی خط کے بارے میں سوچیں جو ایک مقناطیسی بار نے بنایا ہو۔ مکڑی کے جالے کی طرح، قوّت کے خط تمام خلاء میں نفوذ پذیر ہو تے ہیں۔ خلاء کے ہر نقطے پر آپ مضبوطی اور مقناطیسی خط قوّت کی سمت کی پیمائش کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سے میدان ایک ریاضیاتی جسم ہے جو خلاء میں ہر نقطے پر ایک الگ مقدار کو فرض کرتا ہے۔ لہٰذا میدان کائنات میں موجود کسی بھی نقطے کی مقناطیسی، برقی یا نیوکلیائی طاقت کی پیمائش کرتا ہے۔ اس وجہ سے برق، مقناطیسیت ، نیوکلیائی قوّت اور قوّت ثقل کی بنیادی تشریح میدان پر منحصر ہوتی ہے۔ اسٹرنگ کیوں مختلف ہیں؟ جو چیز درکار تھی وہ ایک "اسٹرنگ کا میدانی نظریہ" تھی جو تمام نظرئیے کا خلاصہ ایک اکلوتی مساوات میں ڈھال سکے۔

١٩٧٤ء میں اس مسئلے سے نمٹنے کا میں نے فیصلہ کیا۔ اپنے رفیق اوساکا یونیورسٹی کے کیجی کیکاوا کے ساتھ میں نے کامیابی کے ساتھ اسٹرنگ کا میدانی نظریہ حاصل کرلیا۔ ایک ایسی مساوات ہےجو بمشکل صرف ڈیڑھ انچ لمبی تھی، ہم اسٹرنگ نظرئیے میں موجود تمام چیزوں کا خلاصہ پیش کر سکتے تھے۔ ایک مرتبہ جب اسٹرنگ کا میدانی نظریہ حاصل کر لیا گیا تو اس کے بعد مجھے طبیعیات کی دنیا کی اکثریت کو اس کی طاقت اور خوبصورتی کا معترف کروانا تھا۔ میں نے ایک نظری طبیعیات پر ہونے والی کانفرنس میں حاضری دی جو اس برس گرمیوں کے موسم میں ایسپین سینٹر ان کولوراڈو میں منعقد ہوئی جہاں میں نے ایک سیمینارمیں چھوٹے لیکن چنے ہوئے طبیعیات دان کے گروہ کو وضاحت دی۔ میں اس وقت کافی گھبرایا ہوا تھا ، سامعین میں دو نوبیل انعام یافتہ مررے جیلمین اور رچرڈ فائن مین موجود تھے جو چبھتے ہوئے گھسنے والے سوالات کو پوچھنے کے لئے مشہور تھے ان کے نشتر نما سوالات اکثر مقرر کو بدحواس کر دیتے تھے۔ (ایک مرتبہ جب ا سٹیون وائن برگ تقریر کر رہا تھا، اس نے بلیک بورڈ پر ایک مثلث بنایا اور اس کو حرف "ڈبلیو" سے نشان زدہ کر دیا۔ جو بعد میں اس کے کام کے اعتراف کے طور پر وائن برگ مثلث کہلایا۔ فائن مین نے اس وقت سوال کیا کہ بلیک بورڈ پر موجود ڈبلیو کا کیا مطلب ہے۔ وائن برگ نے جیسے ہی جواب دینا شروع کیا، فائن مین چیخ پڑا غلط! جس نے سامعین کو دو حصّوں میں توڑ دیا۔ فائن مین سامعین کو خوش کر سکتا تھا، لیکن وائن برگ وہ آخری آدمی تھا جو ہنسا تھا۔ یہ مثلث وائن برگ کے نظرئیے کا ایک اہم حصّہ تھا جس نے برقی مقناطیسیت اور کمزور تعاملات کو ایک کر دیا تھا اور جس نے بالآخر اس کو نوبیل انعام جتوایا تھا۔)

میں نے اپنی بات میں اس بات پر زور رکھا کہ اسٹرنگ میدانی نظریہ سادہ اور سب سے جامع طریقہ اسٹرنگ نظریہ کا ہو سکتا ہے، جو بالعموم بے ربط کلیوں کا مجموعہ ہے۔ اسٹرنگ کے میدانی نظرئیے کے ساتھ، تمام نظریئے کو ایک اکلوتی مساوات کے ساتھ جو لمبائی میں صرف ڈیڑھ انچ ہے ، بیان کر سکتا ہے۔ وینزیانو نمونے کی تمام خصوصیات، تمام لامحدود مضطرب کر دینے والی قربتوں کی شرائط ، اور تمام گھومتے ہوئے اسٹرنگ کی خصوصیات کو صرف ایک مساوات سے حاصل کیا جا سکتا تھا جو خوش قسمتی کے پیالے میں سما سکتی ہے۔ میں نے اسٹرنگ نظرئیے کے تشاکل پر زور دیا جس نے اس کو خوبصورتی اور طاقت عطا کی ہے۔ جب اسٹرنگ کو مکان و زمان میں حرکت ملتی ہے، تو وہ دو جہتی سطح جیسی ہو جاتی ہے جو ایک رسی سے مشابہ ہوتی ہے۔ نظریہ اس وقت ویسا ہی رہتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس دو جہتی سطح کو بیان کرنے کے لئے کون سے محدد استعمال کرتے ہیں۔ میں اس لمحے کو کبھی نہیں بھلا سکتا جب فائن مین میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا، "ہو سکتا ہے کہ میں اسٹرنگ کے نظرئیے سے مکمل متفق نہ ہوں، لیکن تم نے جو تقریر کی ہے وہ ان تمام تقاریر میں سب سے خوبصورت ہے جو میں نے اب تک سنیں ہیں۔"​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ساتواں باب - 5
دس جہتیں


لیکن جیسے ہی اسٹرنگ نظریئے نے آگے بڑھنا شروع کیا یہ تیزی سے سلجھنا شروع ہو گیا۔ رڈگرز کے کلاڈ لوولیس نے یہ جان لیا کہ اصل وینزیانو نمونے میں ایک خفیف سی ریاضیاتی غلطی موجود ہے جس کو صرف اسی وقت درست کیا جا سکتا ہے جب مکان و زمان کی چھبیس جہتیں ہوں۔ اسی طرح نویو، شیوارز اور ریڈمنڈ کا سپر اسٹرنگ بھی صرف دس جہتوں میں ہی کام کر سکتا ہے۔ اس بات نے طبیعیات دانوں کے چودہ طبق روشن کردیئے۔ اس طرح کی بات دنیائے سائنس کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ہمیں کہیں پر بھی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جہاں نظریہ اپنی جہتوں کا خود سے چناؤ کرے۔ مثال کے طور پر نیوٹن اور آئن سٹائن کے نظریات کسی بھی جہت میں بنائے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر قوّت ثقل کا مشہور زمانہ قانون معکوس مربع کو چار جہتوں میں معکوس مثلث میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ اسٹرنگ نظریہ بہرحال صرف مخصوص جہتوں میں ہی کام کرتا ہے۔

عملی نقطۂ نگاہ سے، یہ ایک تباہی تھی۔ آفاقی طور پر یہ بات مسلمہ ہے کہ ہماری دنیا مکان کی تین جہتوں (لمبائی، چوڑائی، اور گہرائی) اور وقت کی ایک جہت بھی وجود رکھتی ہے۔ کائنات کے وجود کو دس جہتوں میں ماننے کا مقصد یہ ہوگا کہ نظریہ سائنسی قصوں کی حدود کو چھو لے گا۔

اسٹرنگ کے طبیعیات دان مذاق کا نشانہ بننے لگے۔ (جان شیوارز کو یاد ہے کہ جب وہ رچرڈ فائن من کے ساتھ بالا بر میں جا رہا ہوتا تھا تو وہ اکثر مذاق میں اس سے کہتا تھا، "ویسے جان، آج کل تم کتنی جہتوں میں رہ رہے ہو؟" لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق جتنا وہ اس نظریئے کو بچانے کی کوشش کرتے وہ اتنا ہی تیزی کے ساتھ ختم ہو جاتا تھا۔ صرف چند لوگ جو ان دنوں ہٹ دھرمی کے ساتھ اس نظریئے پر کام کرتے رہے ان میں ایک کالٹک کے جان شیوارز اور اکولی نورمیل سپیرییرے ، پیرس کے جوئل شیرک ہی تھے۔ اس وقت تک ، اسٹرنگ نظریہ صرف مضبوط نیوکلیائی تعاملات کو ہی بیان کرنے والا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ایک مسئلہ تھا، یہ نمونہ ایک ایسے ذرّہ کی پیش گوئی کرتا تھا جو مضبوط تعاملات میں موجود نہیں تھا۔ ایک عجیب ذرّہ جس کی کمیت صفر تھی اور وہ کوانٹم کی اکائی کے دو گھماؤ رکھتا تھا۔ اس چپکو ذرّے سے جان چھڑوانے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ ہر مرتبہ جب بھی کوئی اس جڑواں گھماؤ والے ذرّے کو نکالتا تھا نمونہ فوراً ہی منہدم ہو کر اپنی جادوئی خصائص کھو دیتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی طرح یہ اضافی دو گھماؤ والا ذرّہ اس مکمل نمونے کا امین ہے۔

تب شیرک اور شیوارز نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا۔ اصل میں سقم ایک رحمت تھی۔ اگر وہ اس تنگ کرنے والے دو گھماؤ والے ذرّے کو گریویٹون ( ایک ایسا ذرّہ جو آئن سٹائن کے قوّت ثقل کے قانون کی وجہ سے بنتا ہے)کہتے تو نظریئے اصل میں آئن سٹائن کا قوّت ثقل کے نظریئے کو بھی اپنے اندر سمو دیتا! (بالفاظ دیگر، آئن سٹائن کا عمومی اضافیت کا نظریہ سادے طور پر پست ترین تھرتھراہٹ یا سپر اسٹرنگ کے سُر کے ساتھ نمودار ہوا۔)عجیب بات یہ ہے کہ طبیعیات کے دوسرے نظریات پر زور کوشش کرتے ہیں کہ قوّت ثقل کا ذکر کسی طرح سے گول کر جائیں، اسٹرنگ نظریہ اس کو طلب کرتا ہے۔( یعنی اصل میں اسٹرنگ نظریئے کی سب سے پرکشش بات یہ ہے کہ یہ کہتا ہے کہ قوّت ثقل کو شامل کرو ورنہ میں کام نہیں کروں گا۔) اس جرات مندانہ کام سے، سائنس دانوں کو اندازہ ہو گیا کہ اسٹرنگ نمونہ غلط مسئلے کو حل کرنے کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ اصل میں اس کا مقصد صرف مضبوط نیوکلیائی تعاملات پر اطلاق نہیں تھا بلکہ یہ تو ہر شئے کا نظریہ تھا۔ جیسا کہ ویٹن زور دے کر کہتے ہیں اس نظریئے کا ایک پر کشش پہلو یہ ہے کہ یہ قوّت ثقل کی موجودگی کا طالب ہوتا ہے۔ معیاری میدانی نظریات عشروں سے قوّت ثقل کو قبول کرنے سے انکاری ہیں تاہم قوّت ثقل اسٹرنگ نظریئے میں درکار ہوتی ہے۔

بہر کیف شیرک اور شیوارز کا اہم خیال بری طرح سے نظر انداز کر دیا گیا۔ اسٹرنگ نظریئے کو قوّت ثقل اور ذیلی جوہری ذرّات دونوں کو بیان کرنے کے لئے صرف 10-33 سینٹی میٹر لمبا ہونا ہوگا (یعنی کہ پلانک لمبائی جتنا)، بالفاظ دیگر ان کو ایک ارب ارب گنا پروٹون سے بھی چھوٹا ہونا ہوگا۔ یہ ایک بات ایسی تھی جو زیادہ تر طبیعیات دانوں کو ہضم نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن ١٩٨٠ء عشرے کے درمیان میں ہر شئے کے نظریئے کو حاصل کرنے والی دوسری کوششیں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئیں۔ معیاری نمونے کے نظریات میں قوّت ثقل شامل کرنے کی کوششیں گہری دلدل میں اترتی چلی گئیں ( جن کو میں جلد ہی آگے بیان کروں گا)۔ ہر مرتبہ جب بھی کوئی قوّت ثقل کا زبردستی نکاح کوانٹم قوّتوں کے ساتھ کرنے کی کوشش کرتا تو نتیجہ طلاق پر ہی منتج ہوتا یعنی کہ ریاضیاتی غیر ہم آہنگی اس قدر زیادہ ہوتی تھیں کہ نظریہ ختم ہی ہو جاتا تھا۔ (آئن سٹائن اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ شاید خدا کے پاس کائنات کو تخلیق کرنے کے لئے زیادہ چناؤ کا اختیار نہیں تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ صرف ایک اکلوتا نظریہ ہی ریاضیاتی تمام تر غیر ہم آہنگیوں سے آزاد ہے۔)

اس میں دو قسم کے ریاضیاتی تفاوت تھے۔ پہلا تو لا محدودیت کا مسئلہ تھا۔ عام طور پر کوانٹم اتار چڑھاؤ کافی خفیف ہوتے ہیں۔ کوانٹم کے اثرات عام طور پر صرف نیوٹن کے قانون حرکت میں ہلکی تبدیلیاں کرکے حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زیادہ تر ان کو جہان اکبر میں نظرانداز کر دیتے ہیں کیونکہ یہ بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔ بہرحال جب قوّت ثقل کو کوانٹم کے نظریئے میں شامل کیا جاتا ہے تو یہ کوانٹم کے اتار چڑھاؤ اصل میں غیر محدود بن جاتے ہیں جو ایک بہت ہی بیہودہ سی بات ہے۔

دوسری ریاضیاتی عدم مطابقت نظریئے میں موجود ان چھوٹے انحرافات کی "بے قاعدگیوں" سے نمٹنا ہوتا ہے جو اس وقت نمودار ہوتے ہیں جب ہم نظریئے میں کوانٹم اتار چڑھاؤ شامل کرتے ہیں۔ یہ بے قاعدگیاں نظریئے کے اصل تشاکل کو بگاڑ دیتی ہیں، جس سے یہ نظریہ لاچار ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر ایک ایسے خلائی جہاز بنانے والے کا تصوّر کریں جس کو ایک ایسا راکٹ بنانا ہے جو لازمی طور پر چکنا اور نرم رو گاڑی کی طرح فضا کو چیر کر اس میں سفر کرے۔ ایسے کسی راکٹ کے لئے بہت زیادہ متشاکل ہونا نہایت ضروری ہوگا تاکہ وہ ہوا اور رگڑ کو کم کر سکے (اس صورت میں اس کی شکل ایک سلنڈر کی سی ہونی چاہئے تاکہ راکٹ اپنے محور پر گھومتے ہوئے ہر لحاظ سے ایک جیسا ہی رہے۔) اس تشاکل کو 2(O) کہتے ہیں ۔ لیکن اس میں دو مسئلے ہو سکتے ہیں۔ پہلا کیونکہ راکٹ بہت شاندار سمتی رفتار سے سفر کرتا ہے لہٰذا اس کے پروں میں تھرتھراہٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ عام طور پر یہ ارتعاش زیر صوتی ہوائی جہازوں میں کافی خفیف سی ہوتی ہے۔ بہرحال، بیشتر صوتی سمتی رفتار پر سفر کرنے سے یہ اتار چڑھاؤ بڑھ کر کافی شدید ہو سکتے ہیں، جو بالآخر پروں کو ریزہ ریزہ کر دیں گے۔ اسی طرح سے انحراف قوّت ثقل کے کوانٹم نظریئے کو تباہ کر سکتا ہے۔ عام طور پر، یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان کو آسانی کے ساتھ نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن قوّت ثقل کا کوانٹم نظریہ اس کو اجاڑ دیتا ہے۔ راکٹ خلائی جہاز کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ڈھانچے یا خول میں ننھی دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ یہ خامیاں راکٹ خلائی جہاز کے اصل 2(O) کے تشاکل کو برباد کر دیں گی۔ ہر چند یہ ننھی ہوں گی لیکن یہ بالآخر پھیل کر جہاز کے خول کو کرچی کرچی کر دیں گی۔ اسی طرح سے، یہ "دراڑیں" قوّت ثقل کے نظریئے کے تشاکل کو ختم کر دیتی ہیں۔

اس قسم کے مسائل سے نمٹنے کے لئے دو حل موجود ہیں۔ ایک حل تو مرہم پٹی کا ہے، اس امید کے ساتھ کہ راکٹ خلاء میں نہ پھٹ جائے ان دراڑوں کو گوند سے بھر دیا جائے اور پروں کے ساتھ راڈ لگا دی جائی۔ یہی وہ طریقہ ہے جو زیادہ تر طبیعیات دان اس وقت استعمال کرتے ہیں جب وہ کوانٹم کے نظریئے کا نکاح قوّت ثقل سے کروا رہے ہوتے ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان دونوں مسائل پر کسی طرح سے مٹی ڈال دی جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوبارہ شروع سے نئی چیزوں اور اجنبی مادّوں کے ساتھ ابتدا کی جائے جو خلائی سفر کا تناؤ برداشت کر سکیں۔

طبیعیات دانوں کی قوّت ثقل کے کوانٹم کے نظریئے کو ٹھیک کرنے کے لئے عشروں سے کوششیں جاری ہیں لیکن ان تمام کا نتیجہ صرف پہیلیوں اور مزید انحراف کی صورت میں ہی نکل رہا ہے۔ بتدریج انھیں اس بات کا احساس ہو گیا کہ مرہم پٹی کا طریقہ چھوڑنا پڑے گا اور ان کو ایک بالکل نیا نظریہ درکار ہوگا۔​
 

عبیر خان

محفلین
شکریہ شکریہ اتنی اچھی اچھی معلومات ہمارے
چھٹا باب - 5
بلی کا مسئلہ


ارون شروڈنگر جس نے موج کی مساوات کو سب سے پہلے متعارف کروایا تھا، وہ سمجھتا تھا کہ یہ چیز کافی دور تک جائے گی۔ اس نے بوہر کے سامنے تسلیم کیا وہ کبھی موج کا تصوّر پیش نہیں کرتا اگر اس کو معلوم ہوتا کہ اس سے امکان طبیعیات میں متعارف ہو جائے گا۔

امکانات کے تصوّر کو ختم کرنے کے لئے اس نے ایک تجربے کی تجویز دی۔ فرض کریں کہ ایک بلی ایک بند ڈبے میں موجود ہے۔ ڈبے کے اندر ایک زہریلی گیس کی بوتل ہے، جو ایک لبلبی سے جڑی ہوئی ہے اور اس کا رابطہ گیگر کاؤنٹر سے ہے جو یورینیم کے ٹکڑے کے پاس رکھا ہوا ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یورینیم کے جوہر خالص کوانٹم وقوعہ ہیں جن کو وقت سے پہلے معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ فرض کریں کہ پچاس فیصد اتفاق اس بات کہ ہے کہ یورینیم کے جوہر اگلے سیکنڈ میں انحطاط پذیر ہوں گے، لیکن اگر یورینیم کے جوہر انحطاط پذیر ہوں گے تو یہ گیگر کاؤنٹر کو آزاد کر دیں گے جو اس ہتھوڑے کو چھوڑ دے گا جو زہریلی بوتل پر گر کر اسے توڑ ڈالے گا نتیجتاً بلی ہلاک ہو جائے گی۔ اس سے پہلے کہ آپ اس ڈبے کو کھولیں ، یہ بتانا ناممکن ہے کہ بلی زندہ ہے کہ مردہ۔ اصل میں بلی کو بیان کرنے کے لئے طبیعیات دان زندہ اور مردہ بلی کے موجی تفاعل کو جمع کرکے بیان کرتے ہیں۔ – یعنی کہ ہم بلی کو ایک ایسی دنیا میں رکھتے ہیں جہاں پر وہ بیک وقت پچاس فیصد مردہ ہے اور پچاس فیصد زندہ ہے۔ اب ڈبے کو کھولیں۔ ایک دفعہ جب ہم نے دبے میں جھانک لیا، تو مشاہدہ پورا ہو گیا، موجی تفاعل منہدم ہو گیا اور ہم نے دیکھ لیا کہ بلی فرض کریں کہ زندہ ہے۔ شروڈنگر کے لئے یہ بات انتہائی بیہودہ تھی۔ ایسا کیسا ہو سکتا ہے کہ بلی بیک وقت زندہ اور مردہ صرف اس وجہ سے ہو سکتی ہے کہ ہم نے اسے نہیں دیکھا ہے؟ کیا وہ اپنا وجود اس وقت بناتی ہے جب ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ آئن سٹائن نے اس توجیح سے خوش نہیں تھا۔ جب بھی مہمان اس کے گھر آتے تھے، تو وہ کہتا تھا ، چاند کو دیکھو۔ کیا یہ اس وقت یکایک نمودار ہو گیا ہے جب کسی چوہے نے اسے دیکھا ہے؟ آئن سٹائن اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ لیکن ایک طرح اس کا جواب ہاں میں بھی ہو سکتا ہے۔

صورتحال اس وقت گھمبیر ہو گئی جب ایک تاریکی ٹکراؤ آئن سٹائن اور بوہر میں سولوے کانفرنس میں ١٩٣٠ء میں ہوا۔ وہیلر نے بعد میں اس واقعہ کو اپنے تاریخ کے علم کی بنیاد پر شعوری بحث کی تاریخ میں عظیم قرار دیا۔ تیس برسوں میں اس نے کبھی بھی دو عظیم آدمیوں کے درمیان کسی ایسے گہرے مسئلے پر بحث نہیں سنی تھی جس کے کائنات کو سمجھنے کے انداز پر گہرے اثرات ہوں۔

آئن سٹائن ہمیشہ سے نڈر، بیباک، اور حد درجہ کا خوش گفتار تھا ، اس نے ایک "خیالی تجربہ" پیش کیا تاکہ کوانٹم کے نظریئے کو تہ و بالا کر دے۔ بوہر علی التواتر ہر حملے میں لڑکھڑاتے ہوئے منمنا رہا تھا۔ طبیعیات دان پال ایہرنفیسٹ کا مشاہدہ تھا ، " میرے لئے یہ انتہائی خوش گوار بات تھی کہ میں بوہر اور آئن سٹائن کے درمیان ہونے والے مکالمے میں موجود تھا۔ آئن سٹائن شطرنج کے کھلاڑی کی طرح نئی سے نئی مثال پیش کر رہا تھا۔ دوسری نسل کا ہمہ وقت متحرک ،جس کی نیت عدم یقین کے ذریعہ توڑنے کی تھی۔ بوہر ہمیشہ فلسفیانہ بادل میں سے ایک مثال کے بعد دوسری مثال کو توڑنے کے لئے ہتھیار نکالتا تھا۔ آئن سٹائن ڈبے کے کھلونے کی طرح ہر صبح تروتازہ نکلتا تھا۔ او، واقعی میں یہ کافی مزیدار تھا۔ لیکن میں ہمیشہ قطعی طور پر بوہر کی طرف اور آئن سٹائن کے مخالف ہوتا تھا۔ وہ بوہر کی جانب بالکل ایسے ہی آتا تھا جیسے کوئی ہمہ وقتی مطلق غازی اس سے برتاؤ کرے۔"

بالآخر آئن سٹائن نے ایک تجربہ کی تجویز پیش کی جو اس کے خیال میں کوانٹم کے نظریئے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتی۔ فرض کریں کہ ایک باکس میں گیس کے فوٹون ہیں۔ اگر باکس میں کوئی دروازہ ہو تو وہ تھوڑی سی دیر کے لئے کھل کر ایک فوٹون کو نکلنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ کیونکہ شٹر کی رفتار اور فوٹون کی توانائی کو درستگی کے ساتھ ناپا جا سکتا ہے لہٰذا فوٹون کی حالت کا تعین بھی لامتناہی درستگی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اس کے نتیجے میں اصول عدم یقین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

ایہرنفیسٹ لکھتا ہے، "بوہر کے لئے یہ ہوش اڑا دینے والا تھا۔ اس وقت اس سے کوئی جواب نہ بن سکا۔ وہ شام کی سیر کے تمام وقت انتہائی افسردہ رہا، ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹہلتا رہا، ہر شخص کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، کیونکہ اگر آئن سٹائن درست تھا تو اس کا مطلب طبیعیات کا خاتمہ تھا۔ لیکن وہ کوئی استرداد نہیں سوچ پا رہا تھا ۔ میں اس منظر کو نہیں بھول سکتا جب دو مخالف یونیورسٹی کے کلب سے جا رہے تھے۔ آئن سٹائن ایک شاہانہ انداز سے آرام سے ایک طنزیہ تبسم کے ساتھ جا رہا تھا اور بوہر اس کے ساتھ بہت ہی متزلزل ہو کر چل رہا تھا۔"

جب ایہرنفیسٹ بعد میں بوہر سے ملا، تو وہ اتنا لاجواب تھا کہ ایک ہی لفظ بار بار بول رہا تھا، آئن سٹائن ۔۔۔ آئن سٹائن ۔۔۔ آئن سٹائن۔"

اگلے دن سخت تناؤ اور ایک شب کی بیداری کے بعد بوہر نے آئن سٹائن کی دلیل میں ایک ننھا سا سقم تلاش کرلیا۔ فوٹون خارج کرنے کے بعد، باکس تھوڑا ہلکا ہو گیا ہوگا، کیونکہ مادّہ اور توانائی دونوں ایک دوسرے کے قائم مقام ہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ باکس قوّت ثقل کی وجہ سے تھوڑا سا اونچا ہو جائے گا، کیونکہ آئن سٹائن کے قوّت ثقل کے نظریئے کے مطابق توانائی کا وزن ہوتا ہے۔ لیکن یہ چیز فوٹون کی توانائی میں عدم یقین کو متعارف کروا دیتی ہے۔ اگر کوئی وزن اور شٹر دونوں میں عدم یقین کو ناپے گا تو معلوم ہوگا کہ باکس اصول عدم یقین پر کاربند ہے۔ اصل میں بوہر نے آئن سٹائن کا اپنا قوّت ثقل کا نظریہ اس کے استرداد کے لئے استعمال کیا! بوہر فاتح بن کر نمودار ہوا اور آئن سٹائن کو شکست ہوئی۔ بعد میں جب آئن سٹائن نے شکایات بھرے انداز میں کہا "خدا دنیا سے پانسے سے نہیں کھیلتا،" تو بوہر نے ترکی بہ ترکی جواب دیا، "خدا کو نہ بتاؤ کہ کیا کرنا ہے۔" بالآخر آئن سٹائن نے تسلیم کرلیا کہ بوہر نے کامیابی کے ساتھ اس کے دلائل کو رد کر دیا۔ آئن سٹائن نے لکھا، "میں مان گیا ہوں کہ بلاشبہ نظریہ قطعی طور پر سچائی رکھتا ہے۔"

(آئن سٹائن بہرحال طبیعیات دانوں کو اس لئے حقارت سے دیکھتا تھا کہ وہ کوانٹم کے نظریئے میں موجود خلقی لطیف تناقضات کو سمجھنے میں ناکام رہے تھے۔ اس نے ایک مرتبہ لکھا ، "بلاشبہ آج ہر بدمعاش سوچتا ہے کہ وہ جواب جانتا ہے لیکن وہ خود کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے۔")

کوانٹم طبیعیات دانوں کے درمیان اس طرح اور دوسری آگ اگلتے مباحثوں کے بعد، آئن سٹائن نے بالآخر ہار مان لی لیکن اس نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا۔ ان نے تسلیم کیا کہ کوانٹم کی طبیعیات صحیح ہے، لیکن اس کی عملداری صرف مخصوص میدان میں ہی ہے جو حقیقی سچ سے قریب قریب ہے۔ بعینہ جیسے اضافیت نیوٹن کے نظریئے کو عمومی حالت میں بیان کرتی ہے (لیکن وہ اس کو تباہ نہیں کرتی )، وہ چاہتا تھا کہ کوانٹم نظریئے کو مزید عمومی انداز، مزید طاقتور ایک عظیم وحدتی میدانی نظریئے میں پیش کرے۔

(یہ بحث جس میں آئن سٹائن اور شروڈنگر ایک طرف، اور بوہر اور ہائیزن برگ دوسری طرف تھے آسانی کے ساتھ نظرانداز نہیں کی جا سکتی تھی کیونکہ اب یہ خیالی تجربات ، تجربہ گاہوں میں دہرائے جا رہے تھے۔ ہرچند سائنس دان بلی کو زندہ اور مردہ طور پر نہیں لے سکتے تھے لیکن وہ انفرادی جوہروں سے نینو ٹیکنالوجی کے مدد سے خوب نمٹ سکتے تھے۔ حال ہی میں یہ دماغ میں درد کر دینے والے تجربات ایک ساٹھ جوہروں پر مشتمل کاربن کی بیضوی گیند پر کئے گئے، اس طرح سے "دیوار" جس کا تصوّر بوہر نے کیا تھا جو بڑے اجسام کو کوانٹم شئے سے الگ رکھتی تھی بوسیدہ ہونے لگی تھی۔ تجرباتی طبیعیات دان اب تو یہاں تک غور کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ ایک ہزار ہا جوہروں پر مشتمل جرثومے کو ایک ہی وقت میں دو جگہ پر موجود ہونے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہوگی۔)

شکریہ اتنی اچھی اچھی معلومات ہمارے ساتھ شیئر کرنے کے لیے۔ :)
 
Top