متوازی دنیائیں (Parallel Worlds) از میچیو کاکو

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 7

ساکن یا دائمی حالت کی کائنات کا نظریہ

١٩٤٠ء میں ہوئیل بگ بینگ کے نظرئیے کا گرویدہ نہیں تھا۔ نظرئیے کی ایک خامی یہ تھی کہ ہبل نے دور دراز سے آتی ہوئی کہکشاؤں کی روشنی کو ناپنے میں غلطی کردی تھی جس کی وجہ سے کائنات کی عمر ایک ارب اسی کروڑ برس نکلتی تھی۔ ماہرین ارضیات اس بات کے دعویدار تھے کہ زمین اور نظام شمسی ہی کئی ارب ہا برس کے ہیں ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کائنات اپنے سیاروں سے کم عمر ہو؟

اپنے رفقائے کار تھامس گولڈ اور ہرمن بونڈی کے ساتھ مل کر ہوئیل نے اس نظرئیے کے خلاف ایک متبادل نظریہ بنایا۔ افواہ یہ ہے کہ ان کا دائمی حالت کا نظریہ ١٩٤٥ء کی فلم "رات کی موت" سے متاثر ہو کر بنا تھا۔ فلم بھوتوں کی کہانیوں پر مشتمل تھی لیکن آخری منظر میں ایک یادگار موڑ تھا : فلم ایسے ختم ہوتی ہے جیسے کہ وہ شروع ہوئی تھی۔ لہٰذا فلم چکردار تھی جس میں نہ تو کوئی شروعات تھی نہ ہی کو اختتام۔ (بعد میں گولڈ نے اس کہانی کو واضح کیا تھا ۔ وہ بتاتا ہے ، " میرے خیال میں ہم نے یہ فلم کافی مہینوں پہلے دیکھی تھی ، اس کے بعد میں نے دائمی حالت کا نظریہ پیش کیا تھا ، میں نے ان سے کہا 'یہ کچھ اسی رات کی موت کی طرح نہیں ہے؟'")

اس نمونے میں کائنات کے کچھ حصّے پھیل رہے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ نیا مادّہ بھی عدم سے وجود میں آ رہا ہے لہٰذا کائنات کی کمیت میں کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ ہرچند انہوں نے اس بات کی کوئی تفصیل نہیں دی کہ مادّہ کہاں سے پیدا ہو رہا ہے لیکن اس نظریہ نے ان وفاداروں کی توجہ حاصل کر لی جو بگ بینگ کے نظرئیے سے جنگ و جدل میں مصروف تھے۔ ہوئیل کے مطابق یہ غیر منطقی بات تھی کہ ایک قیامت خیز دھماکہ عدم سے پیدا ہوا اور اس نے تمام سمتوں میں کہکشاؤں کو پھیلا دیا؛ لہٰذا اس نے عدم سے کمیت کی یکساں تخلیق کو فوقیت دی۔ بالفاظ دیگر کائنات وقت سے ماورا تھی ۔ اس کا کوئی اختتام یا شروعات نہیں تھی۔ یہ ایسی ہی تھی۔


(دائمی حالت اور بگ بینگ کی جنگ ویسی ہی تھی جیسا کہ ارضیات اور دوسرے سائنسی میدانوں میں چل رہی ہے۔ ارضیات میں ایک نہ ختم ہونے والی بحث نظریہ تسلسل [یہ عقیدہ کہ زمین ماضی میں ہونے والی بتدریج تبدیلیوں سے ڈھلی ہے ] اور نظریہ ابتلائے عظیم [ جو اس بات کو پیش کرتا ہے کہ تبدیلیاں بذریعہ متشدد واقعات کے رونما ہوئی ہیں] میں چلتی ہے۔ ہرچند نظریہ تسلسل زمین کے زیادہ تر ارضیاتی اور ماحولیاتی خواص کو بیان کرتا ہے لیکن کوئی دمدار ستاروں اور سیارچوں کے ٹکراؤ سے انکار نہیں کر سکتا جو اجتماعی معدومیت کا سبب بنے ہیں یا پھر براعظموں کی ٹوٹ پھوٹ یا حرکت بذریعہ ساختمانی بہاؤ کا بھی کوئی منکر نہیں ہو سکتا۔)


بی بی سی لیکچرز


ہوئیل نے کبھی بھی اچھی لڑائی سے منہ نہیں موڑا۔ ١٩٤٩ء میں ہوئیل اور گیمو دونوں کو برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے کائنات کی ابتدا سے ہونے والی بحث کے لئے بلایا۔ نشریات کے دوران ہوئیل نے تاریخ رقم کردی جب اس نے مخالف نظریہ پر ضرب لگائی۔ اس نے حتمی طور پر کہا، "ان نظریات کی بنیاد ان مفروضوں پر ہے کہ تمام مادّہ بگ بینگ کے ایک مخصوص وقت میں ماضی بعید میں تخلیق ہوا۔"اس کے اس جملے کو ادا کرنے کے ساتھ ہی نظریئے کا نام پڑ گیا۔ مخالف نظریہ کو "بگ بینگ" کا نام اس کے سب سے بڑے مخالف نے ہی دے دیا تھا۔(بعد میں اس نے دعویٰ کیا کہ اس کا مقصد اہانت کرنا ہرگز نہیں تھا۔ اس نے تسلیم کیا، " ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ میں اہانت کرنے کے لئے اس اصطلاح کو گھڑوں ۔ میں نے تو اس اصطلاح کو ڈرامائی بنانے کے لئے گھڑا تھا۔")


(برسوں تک بگ بینگ کے حامیوں نے بہت کوشش کی کہ اس کا نام تبدیل کر دیں۔ وہ اس عام سے نام بلکہ نام کی بیہودہ تضمین سے غیر مطمئن تھے اور پھر سب سے بڑی بات کہ اس کا نام اس کے سب سے بڑے مخالف نے رکھا تھا۔ نکتہ سنج بطور خاص اس بات سے خائف تھے کہ یہ حقیقی طور پر بھی غلط تھا۔ پہلی بات تو بگ بینگ عظیم نہیں تھا (کیونکہ یہ شروع ایک ننھی سے وحدانیت سے ہوا تھا جو ایک جوہر سے بھی چھوٹی تھی۔ دوسرے یہ کوئی دھماکہ نہیں تھا (کیونکہ باہری خلاء میں ہوا ہی موجود نہیں تھی)۔ اگست ١٩٩٣ء اسکائی اینڈ ٹیلیسکوپ میگزین نے ایک مقابلہ منعقد کروایا تاکہ بگ بینگ کا نام تبدیل کر دیا جائے۔ مقابلے میں تیرہ ہزار سے زائد اندراج ہوئے ، لیکن ججوں کو اصل نام سے بہتر کوئی دوسرا نام نہیں ملا۔)


ہوئیل کی شہرت کو پوری نسل تک پھیلانے کے لئے اس کا مشہور بی بی سی ریڈیو کا سائنس پر سلسلے وار پروگرام تھا ۔ ١٩٥٠ء میں بی بی سی نے ہر ہفتے کی شام کو سائنس پر لیکچر دینے کا پروگرام بنایا۔ بہرحال جب اصلی مہمان نے آنے سے معذرت کر لی تو پروڈیوسر اس کا متبادل ڈھونڈنے کے لئے مجبور ہوا۔ انہوں نے ہوئیل سے رابطہ کیا جس نے آنے کے لئے رضا مندی ظاہر کردی۔ جب انہوں نے اس کی فائل جانچی تو وہاں پر ایک نوٹ درج تھا، "اس آدمی کو کبھی بھی نہیں بلانا۔"


اتفاقاً انہوں نے پچھلے پروڈیوسر کی اس ہولناک تنبیہ کو نظر انداز کر دیا۔ اور اس طرح سے اس نے دنیا کو اپنے پانچ زبردست لیکچرز دیے۔ اس کلاسک بی بی سی کی نشریات نے قوم میں سحر طاری کر دیا اور ایک طرح سے اگلی نسل کے فلکیات دانوں کو متاثر کیا۔ فلکیات دان والس سارجنٹ اس تاثر کو یاد کرتے ہیں جو اس نشریات نے ان کے ذہن پر چھوڑا تھا۔ "جب میں پندرہ برس کا تھا ، میں نے سنا کہ فریڈ ہوئیل بی بی سی پرلیکچرز دیتے ہیں جس کا عنوان "کائنات کی نوعیت "ہے۔ جب آپ کو معلوم چلتا ہے کہ سورج کے قلب میں کیا درجہ حرارت ہوتا ہے اور اس کی کیا کمیت ہے تو آپ سکتے میں آ جاتے ہیں۔ پندرہ برس کی عمر میں ایسی کوئی بھی چیز علم سے کوسوں دور کی نظر آتی ہے ۔ یہ صرف حیرت انگیز اعداد ہی نہیں تھے بلکہ اصل بات یہ تھی کہ آپ یہ سب جان سکتے تھے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 8

ستاروں میں نیوکلیائی تالیف



ہوئیل جو آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر اندازے لگانے کو بہت حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا ، اس نے دائمی حالت کے نظرئیے کو جانچنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس بات سے زیادہ لطف اندوز ہوتا تھا کہ کائنات کے عناصر گیمو کی دانست کے مطابق بگ بینگ میں نہیں پکے تھے بلکہ ان کی تالیف ستاروں کے قلب میں ہوئی تھی۔ اگر لگ بھگ سو کے قریب سارے کیمیائی عناصر ستاروں کی شدید حرارت سے بن سکتے تھے تو بگ بینگ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔


انتہائی پراثر مقالات کے سلسلے جو ١٩٤٠ء اور ١٩٥٠ء کے عشروں میں ہوئیل اور اس کے رفقائے کاروں نے چھپوائے تھے ۔ ان مقالات میں انتہائی مفصل اور واضح طور پر یہ بیان کیا کہ بگ بینگ کے بجائے کس طرح سے ستاروں کا قلب ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے جوہروں میں مزید پروٹون اور نیوٹران ضم کرتا ہے یہاں تک کہ لوہے تک تمام کے تمام بھاری عناصر اس میں بنتے ہیں۔(انہوں نے اس راز پر سے پردہ اٹھا لیا تھا کہ کس طرح سے کمیت نمبر 5 سے آگے کے عناصر بنتے ہیں جس سے گیمو مشکل میں پڑھ گیا۔ اپنی خدا داد صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے ہوئیل کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ اگر پہلے کوئی انجانی غیر پائیدار کاربن کی شکل موجود تھی جو ہیلیئم کے تین مرکزوں سے مل کر بنی ہو تو وہ اس قدر پائیدار ہو سکتی ہے کہ "پل" کا کام دے سکے جس کے نتیجے میں بھاری عناصر کی تخلیق ہو سکتی ہے۔ ستاروں کے قلب میں اس نئی کاربن کی غیر پائیدار شکل کی عمر اتنی ہوتی ہے کہ یہ ایک "پل" کا کام انجام دیتے ہوئے بھاری عناصر کو بنانے کی اجازت دیتے ہیں ستاروں کے قلب میں یہ نئی غیر پائیدار کاربن کی شکل اتنے وقت تک برقرار رہتی ہوگی جس سے اس میں کامیابی کے ساتھ مزید نیوٹران اور پروٹون کو ضم کرکے آسانی کے ساتھ وہ کیمیائی عناصر بنائے جا سکتے ہیں جن کی کمیت 5 اور 8 سے زیادہ ہوتی ہے۔ جب کاربن کی یہ غیر پائیدار شکل پائی گئی تو اس نے شاندار طریقے سے اس بات کو ثابت کر دیا کہ بگ بینگ کے بجائے ستاروں کے قلب میں نیوکلیائی تالیف کا عمل ہوتا ہے۔ ہوئیل نے ایک پیچیدہ کمپیوٹر کا پروگرام تخلیق کیا جواس بات کے پہلے اصول کا لگ بھگ تعین کرتا ہے کہ کیوں کائنات میں ہمیں کچھ عناصر کی بہتات نظر آتی ہے۔)


لیکن ستاروں کی شدید حرارت بھی اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ لوہے سے بھاری عناصر کو بنا سکے۔ مثلاً تانبا ، نکل، زنک اور یورینیم وغیرہ۔( لوہے کے عنصر کی گداخت کے نتیجے میں توانائی کا حصول انتہائی دشوار ہے ۔ جس کی بشمول مرکزے میں پروٹون کی قوّت دافع اور باندھنے والی توانائی کے فقدان کے کئی وجوہات ہیں۔ ان بھاری عناصر کو بنانے کے لئے ستاروں سے بھی بڑی بھٹی کی ضرورت ہوگی یعنی کہ وہ توانائی جو ستاروں کے پھٹنے یا سپر نووا میں حاصل ہوتی ہے ۔ کیونکہ دسیوں کھرب ڈگری کا درجہ حرارت اس وقت حاصل ہو سکتا ہے جب ایک فوقی دیوہیکل ستارہ اپنی حیات کے آخری لمحات میں متشدد طریقے سے منہدم ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اتنی توانائی پیدا ہوتی ہے کہ لوہے سے بھاری عناصر بن سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اصل میں لوہے سے بھاری زیادہ تر عناصر پھٹتے ہوئے تارے یا سپر نووا کی سطح سے بن کر نکلتے ہیں۔


١٩٥٧ءمیں ہوئیل ، مارگریٹ ، جیفری بربج اور ولیم فولر نے اپنے سب سے زیادہ ممتاز کام کو چھپوایا جس میں انتہائی درستگی کے ساتھ انہوں نے مرحلہ بہ مرحلہ اس بات کو بیان کیا کہ کائنات میں عناصر کو بنانے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان عناصر کی معلوم بہتات کا بھی تخمینہ لگایا۔ ان کے دلائل اس قدر درست، طاقتور اور مدلل تھے کہ گیمو کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ہوئیل نے سب سے زیادہ قابل قبول دلائل نیوکلیائی تالیف کے بارے میں دیے ہیں ۔ گیمو نے اپنے مخصوص انداز میں درج ذیل حصّے کو کتابی صورت میں لکھا۔


ابتدا میں جب خدا عناصر کی تخلیق شمار کرتے ہوئے جذباتی انداز میں وہ پانچ اور اس سے زیادہ کمیت کے عناصر کو بھول گیا ، اس لئے قدرتی طور پر کوئی بھی بھاری عنصر پیدا نہ ہو سکا۔ خدا بہت زیادہ مایوس تھا اور کائنات سے دوبارہ اوّلین رابطہ کرنا چاہتا تھا، اور ہر چیز دوبارہ سے شروع کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اس کا ایک سادہ سا حل بھی تھا۔ لہٰذا، قادر مطلق ہونے کی وجہ سے اس نے اپنی غلطی کو ایک سب سے ناممکن طریقے سے درست کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور خدا نے کہا، "ہوئیل آ جا۔" اور وہاں ہوئیل حاضر تھا۔ اور پھر خدا نے ہوئیل کو دیکھا ۔۔۔۔ اور اس کو کہا کہ ستاروں میں بھاری عناصر کو بناؤ اور ان کو سپر نووا کے دھماکوں سے آس پاس پھیلا دو۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 9

ساکن یا دائمی حالت والی کائنات کے خلاف ثبوت

بہرحال عشروں پر محیط وقت کے دوران ثبوت آہستگی کے ساتھ دائمی حالت والی کائنات کے خلاف جمع ہونے لگے۔ ہوئیل کو خود اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ وہ یہ جنگ ہار رہا ہے۔ اس کے نظرئیے میں کیونکہ کائنات کا ارتقا نہیں ہوا تھا بلکہ وہ مسلسل مادّے کو پیدا کر رہی تھی لہٰذا ابتدائی کائنات کو دور حاضر جیسی کائنات جیسا ہی دکھائی دینا چاہئے تھا۔ آج نظر آنے والی کہکشاؤں کو آج سے ارب ہا برس پہلے نظر آنے والی کہکشاؤں جیسا ہی دکھائی دینا چاہئے تھا۔ دائمی حالت کا کائناتی نظریہ اس وقت رد کیا جا سکتا تھا جب ارب ہا برس گزرنے کے دوران ڈرامائی طور پر ارتقا کے واضح نشان موجود ہوں۔

١٩٦٠ء میں ایک پراسرار زبردست توانائی کا منبع خلائے بسیط میں پایا گیا جس کا نام "کوزارز" یا "مثل نجمی اجسام" رکھا گیا۔ ( یہ نام توجہ کو اس قدر گرفت میں لینے والا تھا ٹیلی ویژن سیٹ کے بعد میں آنے والے نمونوں میں سے کچھ کو اس کے نام پر رکھا گیا۔) کوزارز زبردست توانائی پیدا کر رہے تھے اور ان کی سرخ منتقلی بھی کافی زیادہ تھی، مطلب صاف ظاہر تھا کہ وہ ہم سے ارب ہا برس دور تھے اور انہوں نے فلک کو اس وقت روشن کیا ہوا تھا جب وہ اپنے عہد طفلی سے گزر رہی تھی۔(آج ماہرین فلکیات اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ نوجوان دیوہیکل کہکشائیں ہیں جن کو جسیم بلیک ہول قابو میں کیے ہوئے ہیں۔) دور حاضر میں ہمیں کوزارز کہیں نظر نہیں آتے۔ جبکہ دائمی حالت کے نظرئیے کے مطابق ان کو موجود ہونا چاہئے تھا۔ ارب ہا برس گزرنے کے بعد وہ غائب ہو گئے تھے۔


ہوئیل کے نظرئیے میں ایک اور مسئلہ بھی تھا۔ سائنس دانوں نے اس بات کا فہم حاصل کر لیا تھا کہ دائمی حالت والی کائنات میں صرف ہیلیئم ہی کافی زیادہ موجود ہونا چاہئے تھی تاکہ اس نظرئیے میں وہ فٹ بیٹھ سکے۔ بچوں کے گیس کے غبارے میں بھری ہوئی ہیلیئم کی گیس سے کون واقف نہیں ہوگا ۔ یہ گیس اصل میں زمین پر کافی کمیاب ہے، لیکن کائنات میں ہائیڈروجن کے بعد سب سے زیادہ وافر مقدار میں موجود ہے ۔ یہ اتنی کمیاب ہے کہ پہلی دفعہ اس کو زمین کے بجائے سورج میں دریافت کیا گیا۔ (١٨٦٨ء میں سائنس دانوں نے سورج کی روشنی کا تجزیہ ایک منشور سے گزار کر کیا۔ خمیدہ روشنی معمول کی قوس و قزح کے رنگوں اور طیف کے خطوط میں بٹ گئی ، تاہم سائنس دانوں نے ایک پراسرار عنصر کے بنائے ہوئے مدھم طیفی خطوط کا سراغ لگایا جن کو انہوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے غلط قیاس کرتے ہوئے اس کو دھات سمجھا. عام طور پر دھاتوں کے نام کے آخر میں "ium" لگایا جاتا ہے جیسا کہ لیتھیم اور یورینیم۔ انہوں نے اس پراسرار دھات کا نام ، یونانی زبان میں سورج کے لئے استعمال ہونے والا لفظ "helios" سے لے کر دے دیا۔ آخر کار ١٨٩٥ء میں ہیلیئم کو زمین میں یورینیم کے ذخائر میں دریافت کرلیا گیا۔ اور سائنس دانوں نے پریشان کن انداز میں اس کو دھات کے بجائے گیس پایا۔ اس طرح سے ہیلیئم پہلی دفعہ سورج میں پائی گئی اور اس کا نام غلط بطور دھات کے رکھ دیا گیا۔)

اگر قدیمی ہیلیئم صرف ستاروں کے اندر ہی پیدا ہوئی ہوتی جیسا کہ ہوئیل کا خیال تھا تو پھر اس کو کافی کمیاب ہونا چاہئے تھا اور صرف ستاروں کے قلب کے پاس ہی موجود ہونا چاہئے تھا۔تاہم تمام فلکیاتی اعداد و شمار اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ ہیلیئم اصل میں کافی مقدار میں موجود ہے جس کی وجہ سے اس کا کائناتی کمیت میں حصّہ ٢٥ فیصد تک کا ہے۔ یہ کائنات میں یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہے (جیسا کہ گیمو کا خیال تھا )۔


آج ہم جانتے ہیں کہ گیمو اور ہوئیل دونوں نیوکلیائی تالیف کے معاملے میں تھوڑے تھوڑے درست تھے۔ گیمو سمجھتا تھا کہ تمام کیمیائی عناصر بگ بینگ کی باقیات تھے ۔ لیکن اس کا نظریہ ٥ ذرّاتی اور ٨ ذرّاتی عناصر میں آکر ناکام ہو جاتا تھا۔ ہوئیل سمجھتا تھا کہ وہ بگ بینگ کے نظریئے کو یہ ثابت کرکے ہمیشہ کے لئے دفن کر دے گا کہ تمام عنصر ستارے بناتے ہیں۔ لہٰذا ان عناصر کو بنانے کے لئے کسی بگ بینگ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ تاہم اس کا نظریہ ہیلیئم کی بہتات کو بیان کرتے ہوئے ناکام ہو جاتا ہے۔ جس کی فراوانی کو کائنات میں ہم اب اچھی طرح سے جانتے ہیں۔


اصل میں دیکھا جائے تو گیمو اور ہوئیل دونوں نے ہمیں نیوکلیائی تالیف کی ایک تکمیلی تصویر پیش کی ہے۔ بہت ہی ہلکے عناصر جن کی کمیت ٥ اور ٨ تک کی ہے حقیقت میں بگ بینگ کے وقت تخلیق ہوئے تھے جیسا کہ گیمو کا خیال تھا۔ آج طبیعیات کے میدان میں ہونے والی دریافتوں کی بدولت ہم جانتے ہیں کہ بگ بینگ نے زیادہ تر ڈیوٹیریئم ، ہیلیئم – ٣، ہیلیئم -٤، اور لیتھیم -٧ کو اوّلین دور میں تخلیق کیا جن کو ہم آج قدرت میں دیکھتے ہیں۔ تاہم لوہے تک بھاری عنصر زیادہ تر ستاروں کے قلب میں پکے ہیں جیسا کہ ہوئیل کا خیال تھا۔ اگر ہم لوہے کے بعد کے عناصر (مثلاً تانبے، زنک اور سونے) کو ملا لیں تو ہمارے پاس مکمل تصویر موجود ہوگی جو اس بات کا بیان کرنے کی اہل ہے کہ آخر کیوں کائنات میں پائے جانے والے کچھ عناصر دوسروں کی نسبت وافر مقدار میں موجود ہیں۔( دور حاضر کے علم تکوینیات میں کسی بھی ایسے نظریئے کو جو اس کو جھٹلا سکے ناقابل یقین چیلنج کو پورا کرنا ہوگا یعنی کہ سو کے قریب مختلف عناصر اور ان کے ہزاروں ہم جا کی کائنات میں نسبتی فراوانی کو بیان کرنا ہوگا۔)
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 10
ستارے کیسے پیدا ہوتے ہیں



نیوکلیائی تالیف کی اس شدید بحث کے نتیجے میں ایک ضمنی چیز حاصل ہوئی یعنی کہ اس بحث نے ہمیں ستارے کی حیات کا مکمل چکر بیان کر دیا۔ سورج جیسا کوئی بھی ستارہ اپنی حیات کو ایک عظیم منتشر ہائیڈروجن کی گیند سے شروع کرتا ہے جس کو ابتدائی ستارہ کہتے ہیں اور یہ بتدریج قوّت ثقل کے زیر اثر سکڑتا رہتا ہے ۔ جب وہ منہدم ہونا شروع ہوتا ہے تو تیزی سے گھومنا شروع کر دیتا ہے (اکثر اس کے نتیجے میں ثنائی ستاروں کا جنم ہوتا ہے ، جس میں دو ستارے ایک دوسرے کو بیضوی مدار میں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں ، یا پھر گھومتے ہوئے ستارے کے میدان میں ہیسیارے خلق ہوتے ہیں )۔ ستارے کا قلب زبردست طریقے سے گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ درجہ حرارت تقریباً ایک کروڑ ڈگری یا اس سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے ۔ اور اسی وقت ہائیڈروجن یا ہیلیئم کا عمل گداخت ہونا شروع ہوتا ہے۔


ستارے میں جب چنگاری لگ جاتی ہے تو اس دور کو ستارے کا اہم سلسلہ کہا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اگلے دس ارب برس تک جاری رہ سکتا ہے ۔ اپنی اس حیات میں ستارہ آہستگی کے ساتھ اپنے قلب میں ہائیڈروجن کو ہیلیئم میں بدلتا رہتا ہے ۔ ہمارا سورج اس عمل کا نصف دور پورا کر چکا ہے۔ جب ہائیڈروجن جلنے کا دور اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو ستارہ ہیلیئم کو جلانا شروع کر دیتا ہے ، اس وقت یہ زبردست طور پر پھیل کر مریخ کے مدار تک پھیل چکا ہوگا اور ایک سرخ دیو یا سرخ ضخام بن جائے گا ۔ جب قلب میں ہیلیئم کا ایندھن ختم ہو جائے گا تو اس کی باہری پرت غائب ہو جائے گی جس کے نتیجے میں صرف قلب ہی باقی رہے گا ۔ یہ زمین کے حجم کا رہ جائے گا جس کو "سفید بونا" یا " سفید صغر " کہا جاتا ہے۔ ہمارے سورج جیسے چھوٹے ستارے خلاء میں مرنے کے بعد ایک طرح سے سفید بونے کے نیوکلیائی کچرے میں تبدیل ہو کر تیرتے رہیں گے ۔


لیکن بڑے ستارے جن کی کمیت شاید سورج سے دس سے چالیس گنا زیادہ ہوتی ہے ، ان میں ہونے والا گداخت کا عمل بہت تیزی سے جاری رہتا ہے ۔ جب ایسا کوئی ستارہ سرخ فوق دیو بنتا ہے ، تو اس کا قلب ہلکے عناصر کو بہت تیزی کے ساتھ بھاری عناصر میں بدلنے لگتی ہے ، یہ ایک طرح سے مخلوط ستارہ بن جاتا ہے یعنی ایک سرخ دیو کے اندر ایک سفید بونا۔ اس سفید بونے ستارے کے اندر ہلکے عناصر دوری جدول میں موجود لوہے تک کے عناصر کو تخلیق کرتے ہیں ۔ جب گداخت کا عمل اس سطح پر پہنچتا ہے جہاں لوہے بنتا ہے تو پھر اس گداخت کے عمل سے نکلنے والی مزید توانائی حاصل نہیں کی جا سکتی، لہٰذا ارب ہا برس کے بعد یہ نیوکلیائی بھٹی بند ہو جاتی ہے ۔ اس نقطے پر پہنچنے کے بعد ستارہ اچانک ہی منہدم ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں زبردست دباؤ پیدا ہوتا ہے جو اصل میں الیکٹرانوں کو مرکزوں کی جانب دھکیلتا ہے ۔ (اس کثافت پانی کی کثافت سے ٤ کھرب گنا زیادہ ہو سکتی ہے ۔) اس کے نتیجے میں درجہ حرارت دسیوں کھرب ڈگری تک بڑھ جاتا ہے ۔ ثقلی توانائی جو اس ننھے سے جسم میں دبی ہوتی ہے دھماکے سے باہر کی جانب ایک سپرنووا کی صورت میں پھٹتی ہے۔ اس عمل کے دوران پیدا ہونے والی زبردست حرارت عمل گداخت کو ایک دفعہ پھر سے شروع کر دیتی ہے اور دوری جدول میں موجود لوہے کے بعد کے بھاری عناصر کی تالیف ہوتی ہے۔


مثال کے طور پر سرخ فوق دیو ابط الجوزا غیر پائیدار ستارہ ہے جس کو برج جوزا میں آسانی کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کبھی بھی سپرنووا بن کر پھٹ سکتا ہے جس کے نتیجے میں یہ بڑی مقدار میں گیما اور ایکس ریز کی شعاعوں کی بوچھاڑ اپنی ارد گرد کے پڑوس میں پیدا کرے گا۔ جب کبھی ایسا ہوگا تو یہ سپرنووا دن کی روشنی میں بھی نظر آئے گا اور ہو سکتا ہے کہ رات کو چاند کی روشنی کو بھی پیچھے چھوڑ دے۔ (پہلے کسی دور میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ کسی سپرنووا سے نکلنے والی عظیم توانائی نے ہی آج سے ٦ کروڑ ٥٠ لاکھ برس پہلے ڈائنوسارس کو غارت کر دیا تھا۔ اصل میں کوئی بھی سپرنووا جو ہم سے صرف دس نوری برس کے فاصلے پر ہو زمین پر موجود تمام حیات کو ختم کر سکتا ہے۔خوش قسمتی سے اسپیکا اور ابط الجوزا جیسے دیوہیکل ستارے ہم سے بالترتیب ٢٦٠ اور ٤٣٠ نوری برس کے فاصلے پر موجود ہیں۔ یہ فاصلہ اتنا ہے کہ جب وہ پھٹیں گے تو زمین کو سنجیدہ قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ تاہم کچھ سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آج سے بیس لاکھ برس پہلے سمندروں میں ہونے والی معدومیت صغیر کی وجہ ایک ١٢٠ نوری برس پر ہونے والا سپرنووا تھا۔)


اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری زمین کی اصل ماں سورج نہیں ہے ۔ ہرچند کہ زمین کے کافی لوگ اس سورج کو دیوتا مان کر اس کی پوجا کرتے ہیں جس نے زمین کو جنم دیا ، یہ ادھورا سچ ہے۔ اگرچہ زمین اصل میں سورج سے ہی پیدا ہوئی ہے (اس دائرہ البروج گرد و غبار کے میدان کا حصّہ بن کربنی ہے جو سورج کے گرد آج سے ٤ ارب ٥٠ کروڑ برس پہلے گھوم رہا تھا)، ہمارا سورج بمشکل اس قابل ہے کہ ہائیڈروجن کو ہیلیئم میں گداخت کر سکے۔ اس کا مطلب ہوا کہ ہماری اصل ماں کوئی بے نام ستارہ یا ستاروں کا مجموعہ ہے جو آج سے ارب ہا برس پہلے کسی سپرنووا کے دھماکے میں عدم کو سدھار گئے تھے ۔ لیکن جانے سے پہلے انہوں نے اپنے قریب موجود سحابیہ میں لوہے سے بھاری ان عناصر کے بیج کو بو دیا تھا جنہوں نے ہمارے جسم کو بنایا ہے۔ کلی طور پر ہمارے جسم ان ستاروں کی خاک سے بنے ہیں جو ارب ہا برس پہلے موت سے ہمکنار ہو گئے تھے۔


سپرنووا دھماکے کے بعد ستارے کی ایک ننھی سی باقیات رہ جاتی ہے جس کو نیوٹران ستارہ کہتے ہیں ۔ یہ خالص نیوکلیائی مادّے سے بنا ہوتا ہے ۔ یوں سمجھ لیں کہ مین ہٹن جتنے شہر کو دبا کر صرف ٢٠ میل جتنا کر دیا جائے۔(نیوٹران ستاروں کے وجود کے بارے میں سب سے پہلے ١٩٣٣ءمیں فرٹز زوائیکی نے اندازہ لگایا تھا۔ لیکن یہ اس قدر تعجب خیز لگے تھے کہ سائنس دانوں نے انھیں عشروں تک نظر انداز کیے رکھا۔) کیونکہ نیوٹران ستارے تابکاری کو بے قاعدگی سے خارج کرتے ہیں اور نہایت تیزی سے گھومتے ہیں لہٰذا ان کو ہم روشنی کے مینار سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ یہ گھومتے ہوئے تابکاری کو پھینکتے ہیں۔ زمین سے دیکھنے پر، نیوٹران ستارے نبض کی طرح دھڑکتے ہیں لہٰذا ان کو "نباض " بھی کہتے ہیں ۔


بہت بڑے ستارے شاید سورج کی کمیت سے چالیس گنا زیادہ والے ستارے جب بالآخر سپرنووا کے دھماکے سے گزرتے ہیں تو اس وقت اپنے پیچھے تین سورجوں کے برابر کی کمیت جتنا نیوٹران ستارہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اس نیوٹران ستارے کی قوّت ثقل اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ نیوٹرانوں کے درمیان قوّت دفع سے مزاحمت کرتی ہے جس کے نتیجے میں شاید ستارہ آخری دفعہ منہدم ہوتا ہوا کائنات کی سب سے عجیب و غریب چیز یعنی کہ بلیک ہول میں بدل جاتا ہے۔ جس کو ہم پانچویں باب میں بیان کریں گے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 11

پرندوں کی بیٹ اور بگ بینگ



دائمی حالت کے نظریہ کے تابوت کی آخری کیل آرنو پنزیاس اور رابرٹ ولسن کی ١٩٦٥ءکی دریافت ثابت ہوئی ۔ نیو جرسی میں واقع ٢٠ فٹ پر محیط بیل لیبارٹری میں موجود ہولمڈیل ہارن ریڈیو ٹیلیسکوپ میں جب وہ فلک سے آتے ہوئی ریڈیائی اشاروں کی کھوج کر رہے تھے تو ان کو غیر مطلوب سکونی ملی۔ شروع میں انھیں یہ کوئی خلل لگا کیونکہ یہ بجائے کسی ستارے یا کہکشاں کی جانب سے آنے کے تمام سمتوں سے یکساں طور پر موصول ہو رہے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ شاید یہ سکونی گرد و غبار کی وجہ سے موصول ہو رہا ہے۔ انہوں نے انتہائی احتیاط کے ساتھ اس چیز کو صاف کیا جس کو پنزیاس نے "ڈائی الیکٹرک مادّے کی سفید تہ " کے نام سے بیان کیا۔ (اس کو عام طور پر پرندوں کی بیٹ کہا جاتا ہے)۔ اس نے ریڈیائی دوربین کے کھلے ہوئے حصّے کو گندا کیا ہوا تھا۔ صفائی کے باوجود سکونی اور زیادہ آنے لگی۔ ہرچند ابھی تک ان کو نہیں معلوم تھا لیکن اتفاقاً ان کی نظر سے گیمو کی جماعت کی ١٩٤٨ء میں کی جانے والی پس منظر کی خرد موجی امواج کی پیشن گوئی گزری۔

اب فلکیات کی تاریخ اس طرح سے بننے جا رہی تھی کہ تین جماعتیں ایک سوال کا جواب حاصل کر رہی تھیں یہ جانے بغیر کے دوسرے لوگ بھی یہی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایک طرف تو گیمو، الفر اور ہرمن نے پس منظر کی خرد امواج کے نظریئے کی بنیاد ١٩٤٨ء میں ڈال دی تھی؛ انہوں نے اس کے درجہ حرارت کی پیش بینی مطلق صفر سے ٥ ڈگری درجہ اوپر کی تھی۔ انہوں نے پس منظر کی خرد امواج کو خلاء میں ناپنے کی کوشش میں ہار مان لی تھی ، کیونکہ اس وقت دستیاب آلات اس قدر حساس نہیں تھے کہ ان کا سراغ لگایا جا سکتا۔ ١٩٦٥ء میں پنزیاس اور ولسن نے اس سیاہ جسم کی اشعاع کو تلاش کرلیا تھا لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے۔ اسی دوران ایک تیسری جماعت جس کی سربراہی پرنسٹن یونیورسٹی کے رابرٹ ڈک کر رہے تھے انہوں نے خود سے گیمو اور اس کے رفقائے کاروں کے مفروضے کو دوبارہ سے تلاش کیا اور مستعدی کے ساتھ پس منظر کی شعاعوں کی تلاش جاری رکھی۔ لیکن ان کے آلات ان اشعاع کو تلاش کرنے کے لئے بہت زیادہ دقیانوسی تھے۔

یہ ڈرامہ اس وقت ختم ہوا کہ جب ایک باہمی دوست ، فلکیات دان برنارڈ برک نے پنزیاس کو رابرٹ ڈک کے کام کا بتایا۔ جب دونوں جماعتیں بالآخر ملیں تب جا کر یہ بات واضح ہوئی کہ پنزیاس اور ولسن نے بگ بینگ سے آنے والے اشاروں کو کھوج لیا تھا۔ اس یادگار دریافت پر پنزیاس اور ولسن کو ١٩٧٨ ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔

ہوئیل اور گیمو، دو مخالف نظریات کی دو ممتاز شخصیات کا بالآخر ١٩٥٦ء میں کیڈلاک گاڑی میں حتمی ٹاکرا ہوا جو علم تکوینیات کی راہ کو بدلنے جا رہا تھا۔ "مجھے یاد ہے کہ جارج ایک سفید رنگ کی کیڈلاک کار میں لے کر جا رہا تھا،" ہوئیل یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ گیمو اپنی وہ بات بار بار ہوئیل کو بتا رہا تھا کہ بگ بینگ کے بعد بچ جانے والی اشعاع کو آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بہرحال گیمو کی تازہ ترین اعداد و شمار کی روشنی میں ان کا درجہ حرارت ٥٠ ڈگری تک کا ہو گیا تھا۔ اس وقت ہوئیل نے گیمو کو ایک تعجب خیز بات بتائی۔ ہوئیل اس بات سے باخبر تھا کہ ایک گمنام مقالہ جو ١٩٤١ء میں اینڈریو مک کیلر نے لکھا تھا اس میں ثابت کیا گیا تھا کہ خلائے بسیط میں درجہ حرارت ٣ ڈگری سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ زیادہ درجہ حرارت پر نئی تعامل ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ہیجان انگیز کاربن ہائیڈروجن اور کاربن نائٹروجن کی اساس خلاء میں پیدا ہوں گی۔ ان کیمیائی عناصر کے طیف کو ناپ کر کوئی بھی خلاء کا درجہ حرارت ناپ سکتا ہے۔ اصل میں اس نے یہ بات معلوم کر لی تھی کہ کاربن نائٹروجن سالمات کی کثافت جو اسے خلاء میں ملی تھی اس بات کا اشارہ دے رہی تھی کہ خلاء کا درجہ حرارت لگ بھگ 2.3 ڈگری ہے۔ بالفاظ دیگر گیمو کے علم میں آئے بغیر پس منظر کی اشعاع کا سراغ پہلے ہی بلاواسطہ طور پر ١٩٤١ء میں لگا لیا گیا تھا۔

ہوئیل یاد کرتے ہوئے کہتا ہے ، "معلوم نہیں کہ یہ کیڈلاک میں بیٹھنے کا لطف تھا یا اس بات کا مقابلہ کہ جس میں گیمو درجہ حرارت کو ٣ کیلون سے زیادہ چاہتا تھا اور میں اس کو صفر درجہ حرارت چاہتا تھا۔ ہم نے آرنو پنزیاس اور باب ولسن کی نو سال بعد ہونے والی دریافت کو کھوجنے کا موقع کھو دیا تھا۔" اگر گیمو کی جماعت عددی غلطی نہیں کرتی اور کم درجہ حرارت کے ساتھ پیش گوئی پر مصر رہتی یا ہوئیل بگ بینگ کے نظریئے کا اتنا بڑا مخالف نہیں ہوتا۔ شاید تاریخ ایک دوسری طرح سے لکھی جاتی۔

بگ بینگ کے بعد ذاتی جھٹکے

پنزیاس اور ولسن کی پس منظر کی خرد امواج کی دریافت نے گیمو اور ہوئیل کے مستقبل پر فیصلہ کن اثر ڈالا۔ ہوئیل کے لئے پنزیاس اور ولسن کا کام زہر قاتل تھا۔ آخر کار ١٩٦٥ء میں نیچر جریدے میں ہوئیل نے مصدقہ طور پر اپنی ہار کو یہ کہہ کر تسلیم کیا کہ پس منظر کی امواج اور ہیلیئم کی بہتات وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے دائمی حالت کے نظریئے سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ لیکن اصل میں اسے جس بات نے تنگ کیا تھا وہ یہ تھی کہ دائمی حالت کے نظریئے نے اپنی پیش بینی کی قوّت کو کھو دیا تھا :" عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پس منظر کی اشعاع کے وجود نے "دائمی حالت" کے کائنات کے مفروضے کو مار ڈالا، لیکن اصل میں جس چیز نے دائمی حالت کو ہلاک کیا تھا وہ نفسیات تھی ۔۔۔ یہاں پس منظر اشعاع میں ، یہ ایک اہم مظہرتھا جس کا اندازہ یہ نظریہ لگانے میں ناکام رہا۔۔۔کئی برسوں تک اس چیز نے مجھے کچوکے لگائے رکھے۔"(ہوئیل نے بعد میں اپنا دماغ بدل لیا۔ اور کائنات کے دائمی حالت کے نظریئے کو نئے تغیرات کے ساتھ بنانے کی کوشش کرنے لگا، لیکن ہر تغیر کے ساتھ یہ کم سے کم قرین قیاس ہوتی رہی۔)

بدقسمتی سے ترجیح کے سوال نے گیمو کے منہ کا ذائقہ خراب کر دیا، کوئی بھی اس بات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ وہ اپنے اور الفر اور ہرمن کے کام کے شاذ و نادر ذکر ہونے سے خوش نہیں تھا۔ ہمیشہ خوش اخلاق رہنے والا گیمو بہرحال اپنے احساسات کو منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا رہتا تھا ۔ یہ بات اس کے ذاتی خطوط سے عیاں تھی جو اس نے لکھے تھے۔ وہ ان خطوط میں اس بات کا گلا کرتا ہوا نظر آیا کہ ماہرین طبیعیات اور مورخوں نے اس کے کام کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے اس کے ساتھ بہت زیادہ ناانصافی کی ہے۔

ہرچند کے پنزیاس اور ولسن کا کام کائنات کے دائمی حالت کے نظریہ کے زہر قاتل ثابت ہوا اور بگ بینگ کے نظریئے کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے میں مدد دی لیکن اس کے باوجود کائنات کی پھیلتی ہوئی ساخت سے متعلق ہمارے فہم میں اب بھی بہت بڑا خلاء موجود تھا۔ فرائیڈ مین کی کائنات میں اومیگا کی قدر معلوم ہونا لازمی تھا۔ یعنی مادّے کی کائنات میں پھیلی ہوئی اوسط مقدار، تاکہ کائنات کے ارتقا کو سمجھا جا سکے۔ بہرحال اومیگا کی قدر کو نکالنا اس وقت ایک بڑا مسئلہ بن گیا تھا جب یہ معلوم ہوا کہ کائنات میں موجود زیادہ تر مادّہ ہمارا شناسا اور جانا پہچانا جوہروں سے بنا مادّہ نہیں بلکہ ایک نئی شے ہے جس کو "تاریک مادّہ" کہتے ہیں ۔ یہ عام مادّے سے ١٠ گنا زیادہ مقدار میں موجود ہے۔ ایک مرتبہ پھر سے اس میدان کے بڑوں نے فلکیاتی سماج کے دوسروں کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 12
اومیگا اور تاریک مادّہ حصّہ اوّل


تاریک مادّے کی کہانی شاید علم فلکیات کا ایک سب سے انوکھا اور عجیب باب ہے۔ ١٩٣٠ء کے عشرے میں جب کالٹک کے ایک آزاد منش سوئس ماہر فلکیات فرٹز زوائیکی نے دیکھا کہ کہکشاؤں کے سحابی جھنڈ میں کہکشائیں نیوٹن کی بیان کردہ قوّت ثقل کے تحت ٹھیک طرح سے حرکت نہیں کر رہی ہیں۔ اس کے مشاہدے کے مطابق یہ کہکشائیں اس قدر تیزی سے حرکت کر رہی تھیں کہ نیوٹن کے قوانین حرکت کی رو سے ان کو تو الگ اورجھرمٹ کو ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ اس کی سوچ کے مطابق صرف ایک ہی طریقہ ایسا تھا جس میں سحابی جھرمٹ بجائے ٹوٹنے اور بکھرنے کے ایک ساتھ جڑا رہ سکتا یعنی کہ جھرمٹ میں اس مادّے کی مقدار سے سینکڑوں گنا زیادہ مادّہ ہونا چاہئے جو ہم اپنی دوربینوں کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں ۔ یا تو نیوٹن کے قوانین کہکشانی پیمانے پر غلط ہیں یا پھر ایسی عظیم کھوئی ہوئی مادّے کی مقدار موجود ہے جو ان کو آپس میں باندھ کر رکھے ہوئے ہے۔

تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ تھا کہ کائنات میں مادّے کی تقسیم سے متعلق کوئی ایسی چیز تھی جس کو ہم نہیں جانتے تھے۔ ماہرین فلکیات نے آفاقی طور پر یا تو فرٹز زوائیکی کے شاندار کام کو کئی وجوہات کی بنا پر رد کر دیا یا پھر نظر انداز کر دیا تھا ۔


پہلی وجہ تو یہ تھی کہ ماہرین فلکیات اس بات کو قبول کرنے سے ہچکچا رہے تھے کہ نیوٹن کی قوّت ثقل جس نے صدیوں سے طبیعیات کی دنیا میں اپنی بادشاہت کو برقرار رکھا ہوا ہے وہ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے مسائل سے نمٹنے کی فلکیات کی دنیا میں پہلے بھی کچھ مثالیں موجود تھیں۔ انیسویں صدی میں جب یورینس کے مدار کو جانچا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ ڈگمگا رہا ہے۔ یہ آئزک نیوٹن کی مساوات سے بہت ہی تھوڑا سا انحراف کر رہا تھا۔ لہٰذا یا تو نیوٹن غلط تھا یا پھر کوئی نیا سیارہ موجود تھا جس کی کشش یورینس کو کھینچ رہی تھی۔ مؤخر الذکر بات درست تھی اور نیپچون کو پہلی ہی کوشش میں ١٨٤٦ء میں نیوٹن کے قانون کی رو سے کی جانے والی پیش گوئی کی مدد سے اس محل وقوع کا جائزہ لے کر اس کو تلاش کرلیا گیا۔


دوسرا مسئلہ زوائیکی کی شخصیت اور اس بات کا تھا کہ ماہرین فلکیات غیر کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں۔ زوائیکی ایک صاحب کشف تھا جس کو اس کی زندگی میں اکثر مذاق کا نشانہ بنایا جاتا تھا یا پھر نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔ ١٩٣٣ء میں والٹر بیڈ کے ساتھ مل کر اس نے سپرنووا کی اصطلاح گھڑی۔ اور اس بات کا بالکل درست اندازہ لگایا کہ ایک چھوٹا سے نیوٹران ستارہ جو لگ بھگ ١٤ میل پر محیط ہونا چاہئے وہ ہی حتمی طور پر پھٹتے ہوئے ستارے کی باقی مانندہ لاش ہوگا۔ یہ خیال اس قدر اجنبی تھا کہ١٩ جنوری ١٩٣٤ء کے لاس اینجیلس ٹائمز کے اخبار میں کارٹون بنا کر اس کا مذاق اڑایا ۔ زوائیکی ایک چھوٹے مراعات یافتہ ماہرین فلکیات کے ٹولے پر آگ بگولہ تھا جو اس کے خیال میں اسے تسلیم کرنے کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے تھے ، اکثر اس کے خیالات کو چوری کر لیتے تھے اور اس کو سو اور دو سو انچ والی دوربین پر کام کرنے کے لئے وقت دینے سے انکار کر دیتے تھے۔(اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل ١٩٧٤ءمیں زوائیکی نے خود سے کہکشاؤں کا ایک کیٹلاگ چھاپا۔ کیٹلاگ پر عنوان کچھ اس طرح سے تھا، " امریکی فلکیات کے مقدس راہبوں اور ان کے خوش آمدیوں کے لئے ایک یاد دہانی۔ " مضمون میں شعلہ فشانی کے ساتھ ان راز دار اور دروں رفتہ فلکیاتی مراعات یافتہ گروہ پر تنقید کی گئی جن کا کام اس کی طرح کے آزاد منشوں کو چپ کرانے کا تھا۔ " آج کے کاسہ لیس اور سرقہ کرنے والے با الخصوص امریکی فلکیات میں اس بات کے لئے آزاد نظر آتے ہیں کہ وہ ان دریافتوں اور ایجادات کو لوٹ لیں جو اکیلے اور غیر مقلد شخص نے کی ہوں۔" اس نے لکھا ۔ اس نے ایسے افراد کو "کروی گھٹیا " کہا ۔ کیونکہ آپ کسی بھی زاویہ سے ان کو دیکھیں تو وہ آپ کو گھٹیا ہی نظر آئیں گے ۔ وہ اس وقت زبردست بھڑک اٹھا جب کسی اور کو نیوٹران ستارے کو دریافت کرنے کے صلے میں نوبیل انعام دے دیا گیا۔)


١٩٦٢ءمیں کہکشانی حرکت کے متجسس مسئلہ کو دوبارہ فلکیات دان ویرا روبن نے اٹھایا۔ اس نے ملکی وے کہکشاں کی گردش کا مطالعہ کیا اور اسی مسئلہ سے دوچار ہوئی۔ اس کو بھی فلکیات دانوں کی اسی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑا۔ عام طور پر کوئی بھی سیارہ جو سورج سے جتنا دور ہوگا وہ اتنا ہی آہستہ اس کے گرد سفر کرے گا۔ جتنا قریب ہوگا اتنا ہی تیز حرکت کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عطارد کا نام رفتار کے دیوتا کے نام پر رکھا گیا۔ کیونکہ یہ سورج سے انتہائی قریب ہے ۔ اور پلوٹو کی سمتی رفتار عطارد سے دس گنا کم اس لئے ہے کہ وہ سورج سے کافی دور ہے۔بہرصورت جب ویرا روبن نے ہماری کہکشاں میں موجود نیلے ستاروں کا تجزیہ کیا، تو اس نے دیکھا کہ ستارے کہکشاں کے گرد ایک ہی رفتار سے چکر کاٹ رہے ہیں۔ ان پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑھ رہا کہ ان کا فاصلہ کہکشانی مرکز سے کتنا ہے۔(اس کو چپٹا گردشی خم کہتے ہیں ) لہٰذا یہ نیوٹن کی میکانیات سے انحراف کر رہے تھے۔ اصل میں اس نے دیکھا کہ ملکی وے کہکشاں اس قدر تیز رفتار چکر لگا رہی تھی کہ اس کو تو الگ ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن یہ کہکشاں تو دس ارب برسوں سے پائیداری کے ساتھ وجود رکھتی ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر تھی کہ خم کیوں چپٹا تھا۔ کہکشاں کو بکھرنے سے بچانے کے لئے اس کو سائنس دانوں کے لگانے گئے حالیہ اندازوں کے مطابق دس گنا زیادہ بھاری ہونا چاہئے تھا۔ بظاہر طور پر ملکی وے کا نوے فیصد مادّہ غائب تھا!


ویرا روبن کو نظر انداز کرنے کی ایک وجہ اس کا عورت ہونا تھا۔ تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے وہ یاد کرتی ہے کہ جب اس نے سوارتھمور کالج میں سائنس کے شعبے کے لئے درخواست دی تو اس نے ایسے ہی داخلے دینے والے افسر کو بتا دیا کہ اس کو مصوری کا شوق ہے، انٹرویو لینے والے نے پوچھا ، "کبھی تم نے ایسا پیشہ چننے کا سوچا ہے جس میں تم فلکیاتی اجسام کی تصاویر کو بنا سکو؟" وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہے ، "یہ بات میرے خاندان میں ایک لطیفہ بن گئی تھی ۔کئی برسوں تک جب بھی کسی سے کوئی چیز غلط ہوتی، تو ہم کہتے،' کیا تم نے کبھی ایسے پیشے کو چننے کا سوچا ہے جس میں فلکیاتی اجسام کو بنا سکو؟" جب اس نے اپنے اسکول کے طبیعیات کے استاد کو بتایا کہ اس کا داخلہ وسار میں ہو گیا ہے ، تو اس کے استاد نے جواب دیا، "تم اس وقت تک اچھا کام کرو گی جب تک سائنس سے دور رہو گی۔" بعد میں وہ یاد کرتی ہے ، "اس طرح کی باتیں سن کر دلبرداشتہ نہ ہونے کے لئے بہت زیادہ عزت نفس چاہئے ہوتی ہے۔"
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 13
اومیگا اور تاریک مادّہ حصّہ دوم


سند حاصل کرنے کے بعد اس نے ہارورڈ میں درخواست دی جو قبول کر لی گئی، لیکن اس کی شادی ہو گئی جس کی وجہ سے اس نے انکار کر دیا اور اپنے کیمسٹ شوہر کے ساتھ کارنیل چلی آئی۔(اس کو ہارورڈ سے دوبارہ خط موصول ہوا، جس میں نیچے ہاتھ سے لکھے ہوئے الفاظ تھے، "تم عورتوں پر لعنت ہو۔ ہر دفعہ جب بھی کوئی اچھی خاتون کام کرنے کے لئے تیار ملتی ہے ، تو وہ بھاگ جاتی ہے اور شادی کر لیتی ہے۔") حال ہی میں اس نے جاپان میں ہونے والی ایک فلکیات کی کانفرنس میں حاضری دی ہے۔ اور وہ وہاں پر واحد عورت تھی۔ " میں واقعی میں وہ کہانی ایک لمبے عرصے تک روئے بنا نہیں بیان کر سکتی تھی، کیونکہ یہ بات تو طے کے کہ ایک نسل گزرنے کے بعد بھی ۔۔۔۔کچھ زیادہ نہیں بدلا ہے،" وہ تسلیم کرتے ہوئے کہتی ہے۔

ان تمام باتوں سے قطع نظر اس کا اور دوسروں کا احتیاط سے کئے ہوئے کام نے آہستگی کے ساتھ فلکیاتی سماج کو اس بات پر قائل کرنا شروع کر دیا کہ غائب کمیت اپنی جگہ موجود ایک مسئلہ ہے۔ ١٩٧٨ء تک روبن اور اس کے رفقائے کاروں نے گیارہ مرغولہ نما کہکشاؤں کا تجزیہ کرلیا تھا ؛ تمام کی تمام اس قدر تیز حرکت کر رہی تھیں کہ نیوٹنی قوانین کے مطابق وہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتی تھیں۔ اسی برس ولندیزی ماہر فلکیات البرٹ بوسمہ کو بھی سب سے جامع درجنوں مرغولہ نما کہکشاؤں کے تجزیہ چھاپنا تھا۔ ان میں سے لگ بھگ ساری کی ساری کہکشائیں ایسا ہی برتاؤ پیش کر رہی تھیں۔ ان کے کام نے بالآخر فلکیاتی سماج کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیا کہ تاریک مادّہ اصل میں وجود رکھتا ہے۔


اس مایوس کن مسئلہ کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ اس بات کو فرض کیا جائے کہ کہکشائیں غیر مرئی ہالے میں گھری ہوئی ہیں جو ستاروں سے دس گنا زیادہ مادّہ رکھتا ہے۔ کیونکہ اس وقت تک مزید پیچیدہ آلات کو بنانا تھا جو اس غیر مرئی مادّے کی موجودگی کو ناپ سکتے۔ سب سے زیادہ اثر انگیز طریقہ یہ تھا کہ ستاروں کی روشنی میں آنے والے خم کو اس وقت ناپا جائے جب وہ غیر مرئی مادّے میں سے گزرے۔ آپ کے چشمے کے شیشے کی طرح ، تاریک مادّہ(اپنی زبردست کمیت اور ثقلی قوّت کی کشش کی بدولت ) روشنی کو موڑ دیتا ہے۔حال ہی میں ہبل خلائی دوربین سے حاصل ہونے والی تصاویر کا کمپیوٹر کے ذریعہ احتیاط کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد سائنس دان اس قابل ہو گئے ہیں کہ پوری کائنات میں تاریک مادّے کی تقسیم کا نقشہ تیار کر سکیں۔


تاریک مادّہ کس چیز سے بنا ہے اس کو کھوجنے کے لئے سائنس دان کافی ہاتھ پیر مار رہے ہیں ۔ کچھ سائنس دانو ں کے خیال میں یہ عام مادّے پر ہی مشتمل ہو سکتا ہے، بس صرف فرق اتنا ہوگا کہ یہ کافی مدھم ہوگا ( یعنی کہ یہ بھورے بونے ستاروں، نیوٹران ستاروں، بلیک ہولز اور اسی طرح کی چیزوں سے مل کر بنا ہوگا جو قریب قریب غیر مرئی ہیں)۔ ایسے اجسام مل کر "عام مادّہ" بناتے ہیں یعنی کہ ان شناسا بنیادی ذرّات (جیسا کہ نیوٹران اور پروٹون) پر مشتمل مادّہ۔ مجموعی طور پر یہ ماچو کہلاتے ہیں (جو ضخیم دبے ہوئے ہالے والے اجسام کا مخفف ہے )۔


جبکہ دوسروں کے مطابق تاریک مادّہ شاید بہت ہی شدید غیر شناسا بنیادی ذرّات جیسا کہ نیوٹرینو (جو گرم تاریک مادّہ بھی کہلاتے ہیں) پر مشتمل ہوگا۔ بہرحال نیوٹرینو اس قدر تیزی سے حرکت کرتے ہیں کہ قدرتی طور پر ان کو کہکشاؤں اور تاریک مادّے میں مجتمع ہوتے ہوئے نہیں دیکھا جا سکتا۔ جبکہ کچھ نے تو قیاس کرنے سے ہی ہاتھ اٹھا لئے ہیں ، وہ سوچتے ہیں کہ تاریک مادّہ ایک مکمل طور پر نئی قسم کا مادّہ ہے جس کو وہ "ٹھنڈا تاریک مادّہ" یا ومپ (کمزور متعامل ضخیم ذرّات)بھی کہتے ہیں۔ اب تک یہی تاریک مادّے کو بیان کرنے کے لئے سب سے امید افزا امیدوار کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔


کوبی سیارچہ


عام دوربین کا استعمال کرتے ہوئے جو فلکیات کی دنیا میں گلیلیو کے دور سے ہی ایک اہم آلہ بن چکی ہے تاریک مادّے کے اسرار کا ممکنہ حل ڈھونڈھنا مشکل ہے۔ فلکیات معیاری زمینی بصریات کا استعمال کرنے سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ ١٩٩٠ء کی دہائی میں فلکیاتی آلات کی ایک نئی نسل وجود میں آئی جو جدید سیارچوں ، لیزر اور کمپیوٹر کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتی ہے اور جس نے علم کائنات کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے ۔


اس نئی فصل کا پہلا پھل کوبی (کائناتی پس منظر کھوجی) سیارچہ تھا جس کو ١٩٨٩ء میں خلاء میں چھوڑا گیا تھا۔ پنزیاس اور ولسن کے اصل کام نے بگ بینگ سے متعلق چند اعداد و شمار کی تصدیق کی تھی ، کوبی کا سیارچہ اس صلاحیت کا حامل تھا کہ ان اعداد و شمار کے نقاط کو ناپ سکے جو انتہائی صحت کے ساتھ سیاہ جسم کی اشعاع کی پیشن گوئی کے ساتھ میل کھا سکے جس کا اندازہ گیمو اور اس کے رفقائے کاروں نے ١٩٤٨ء میں لگایا تھا۔


١٩٩٠ء میں امریکن ایسٹرونامیکل سوسائٹی میں ١٥٠٠ سامعین اس وقت اچانک کھڑے ہوئے اور پر جوش تالیاں بجانی شروع کر دیں جب انہوں نے کوبی سے حاصل کردہ نتائج کو منظم نگار پر دیکھا ، جو قریباً مکمل طور پر پس منظر کی امواج کے ساتھ 2.728کیلون درجہ حرارت کے ساتھ میل کھا رہا تھا۔


پرنسٹن کے فلکیات دان یرمیاه پی اسٹرائکر تبصرہ کرتے ہیں، "جب چٹانوں میں رکازات پائے گئے تو نوع کے ماخذ قطعی طور پر واضح ہو گئے تھے ۔ اسی طرح کوبی نے [کائنات ] کے رکاز کو دریافت کرلیا۔"


بہرصورت کوبی سے حاصل کردہ منظم نگار بہت دھندلا تھا۔ مثال کے طور پر سائنس دان چاہتے تھے کہ "گرم حصّوں" یا پس منظر اشعاع میں ہونے والے اتار چڑھاؤ کا تجزیہ کریں ، یہ اتار چڑھاؤ پورے آسمان میں ایک ڈگری تک کا ہونا چاہئے تھا۔ لیکن کوبی کے آلات ٧ یا اس سے زیادہ ڈگری کا سراغ نہیں لگا سکتے تھے؛ وہ اتنے حساس نہیں تھے کہ چھوٹے گرم حصّوں کا سراغ لگا سکیں۔ سائنس دان مجبور تھے کہ ڈبلیو میپ سیارچے کے نتائج کا انتظار کریں، جس کو نئی صدی کے آغاز میں چھوڑا جانا تھا۔ اس سے ان کی امیدیں وابستہ تھیں کہ اس قسم کے سوالات اور اسرار کے جواب وہ ڈھونڈ لائے گا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -1
افراط (کونیات) اور متوازی کائناتیں



عدم سے کوئی چیز وجود میں نہیں آسکتی۔
- لکریشیئس

میں اس بات کو فرض کرتا ہوں کہ ہماری کائنات آج سے ١٠١٠ برس پہلے عدم سے نمودار ہوئی۔۔۔ میں سب سے اعتدال پسند تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہماری کائنات سادہ طور پر ان میں سے ایک ہے جو وقتاً فوقتاً وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔


- ایڈورڈ ٹرائیون


کائنات آخری مفتا ہے۔

- ایلن گتھ

کلاسک سائنسی ناول تاؤ زیرو کو پال اینڈرسن نے لکھا تھا ، اس میں ایک نجمی جہاز لیونورا کرسٹین کو قریبی ستاروں تک لے جانے کی ایک مہم کے لئے چھوڑا جاتا ہے۔ اس میں پچاس مسافر ہوتے ہیں۔ جہاز کی سمتی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے کیونکہ ان کو ایک نئے نجمی نظام کی طرف جانا ہوتا ہے۔ مزید اہم بات یہ ہوتی ہے کہ جہاز خصوصی نظریہ اضافیت کا استعمال کرتا ہے ، یعنی کہ جہاز میں وقت کا گزرنا بڑھتی رفتار کے ساتھ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے قریبی ستارے کی طرف کا سفر زمینی حساب سے صرف چند عشرے لیتا ہے، جبکہ خلا نوردوں کے حساب سے چند برس ہی گزرتے ہیں۔ زمین پر موجود شاہد کے لئے خلا نوردوں کو بذریعہ دوربین دیکھنے سے ایسا لگتا ہے جیسا کہ وہ وقت میں جم گئے ہوں لہٰذا ایک طرح سے وہ غنودگی کے عالم میں دکھائے دیتے ہیں۔ لیکن جہاز پر موجود خلا نوردوں کے لئے وقت عام رفتار سے ہی گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ جب جہاز اپنی رفتار کم کرکے نئے جہاں پر اترے گا ، تو ان کو معلوم ہوگا کہ انہوں نے تیس نوری برس کا فاصلہ صرف چند برسوں میں کر لیا ہے۔


جہاز انجینئرنگ کا ایک شاہکار ہوتا ہے ، اس کو دو شاخہ گداختی انجن سے چلایا جاتا ہے ، جو ہائیڈروجن کو ڈونگے کی مدد سے خلائے بسیط سے جمع کرکے توانائی حاصل کرنے کے لئے جلاتا ہے۔ اس کی رفتار اس قدر تیز ہوتی ہے کہ جہاز کا عملہ ستاروں کی روشنی میں ڈوپلر کے بدلاؤ کو بھی دیکھ سکتا ہے ؛ ان کے سامنے موجود ستارے نیلے رنگ کے دکھائی دینے شروع ہو جاتے ہیں جبکہ پیچھے رہ جانے والے ستارے سرخی مائل دکھائی دیتے ہیں۔


تب ہی ایک آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔ زمین سے دس نوری برس کے فاصلے پر، جہاز جب بین النجمی گرد کے بادل میں سے گزرتا ہے تو ہچکولے کھانے لگتا ہے اور جہاز کی رفتار کو آہستہ کرنے والا نظام مستقل طور پر ناکارہ ہو جاتا ہے۔ خوفزدہ عملہ اپنے آپ کو ایک ایسے بے قابو جہاز میں قید پاتا ہے جو اپنی رفتار کو تیز سے تیز تر کرتے ہوئے روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ وہ بے بسی سے اس نجمی نظام کو چند منٹوں میں ہی گزرتا ہوا دیکھتے ہیں جہاں انھیں جانا ہوتا ہے۔ ایک برس کے اندر جہاز آدھی ملکی وے کو پار کر لیتا ہے۔ اس کی رفتار قابو سے باہر ہوتی ہے لہٰذا وہ کہکشاؤں کو مہینوں کے اندر ہی پار کرنا شروع کر دیتا ہے جبکہ زمین پر کروڑوں برس بیت چکے ہوتے ہیں۔ جلد ہی وہ روشنی کی رفتار کے انتہائی نزدیک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ کائناتی واقعات کے شاہد بن جاتے ہیں ، ان کی آنکھوں کے سامنے کائنات سن شروع کرتی ہے۔


آخر کار وہ دیکھتے ہیں کہ کائنات کا پھیلاؤ الٹا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور کائنات اپنے آپ میں سکڑنے لگتی ہے۔ درجہ حرارت ڈرامائی طور پر تیزی سے بڑھنے لگتا ہے، وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اب وہ عظیم چرمراہٹ کی طرف گامزن ہیں۔ عملے کے لوگ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں کیونکہ درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ کہکشائیں قریب ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور کائناتی قدیمی جوہر ان کی آنکھوں کے سامنے بننے شروع ہو جاتے ہیں۔ بھسم ہو کر مرنا ناگزیر لگنے لگتا ہے۔


ان کی آخری اور واحد امید یہ ہوتی ہے کہ مادّہ محدود علاقے میں محدود کثافت کے ساتھ منہدم ہو تو وہ تیز رفتاری کے ساتھ شاید اس میں سے گزر سکیں۔ معجزاتی طور پر جہاز کی ڈھال قدیمی جوہروں میں سے گزرتے ہوئے ان کو محفوظ رکھتی ہے۔ اس طرح سے وہ ایک نئی کائنات کی تخلیق کو ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کائنات جب دوبارہ پھیلنے لگتی ہے تو وہ نئے ستاروں اور کہکشاؤں کی تخلیق کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہوئے مرعوب ہونے لگتے ہیں۔ وہ اپنے خلائی جہاز کو ٹھیک کرتے ہیں اور انتہائی احتیاط کے ساتھ ان کہکشاؤں کی کھوج شروع کر دیتے ہیں جس کی عمر اتنی ہو کہ اس میں بھاری عناصر موجود ہوں اور وہ حیات کو پروان چڑھا سکیں۔ بالآخر وہ ایک ایسا سیارہ تلاش کر لیتے ہیں جو حیات کو اپنی آغوش میں لے سکتا تھا۔ لہٰذا وہاں سیارے پر وہ ایک بستی بسا لیتے ہیں تاکہ انسانیت کا دوبارہ سے آغاز کر سکیں۔


اس کہانی کو ١٩٦٧ء میں اس وقت لکھا گیا تھا جب فلکیات دانوں کے درمیان کائنات کے حتمی مقدر کے بارے میں تند و تیز بحث جاری تھی کہ آیا کائنات ایک عظیم چرمراہٹ میں ختم ہوگی یا اس کا انجام ایک عظیم انجماد ہوگا۔ یا پھر کیا یہ ہمیشہ جھولتی رہے گی یا پھر ہمیشہ ایک دائمی حالت میں رہے گی۔ جب سے ایک نیا نظریہ جس کو "افراط " کہتے ہیں نمودار ہوا ہے تب سے یہ بحث ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -1

افراط کی پیدائش اور وحدت کی تلاش

افراط کی پیدائش

"شاندار احساس"، ایلن گتھ نے ١٩٧٩ء میں اپنی ڈائری میں لکھا۔ وہ اس بات کو جان کر انتہائی مسرت محسوس کر رہا تھا کہ شاید وہ کائنات سے متعلق ایک عظیم خیال تک پہنچ چکا ہے۔ گتھ نے بگ بینگ کے نظریہ کے پچاس سال بعد پہلی مرتبہ اس میں کبیر نظر ثانی کروائی ہے جو ایک سادے سے مشاہدے کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ وہ کائنات سے متعلق کچھ گہرے رازوں کو صرف اس وقت حل کر سکتا تھا جب وہ یہ فرض کرے کہ کائنات اپنی تخلیق کے وقت ایک اضافی افراط سے گزری ہے، فلکیاتی طور پر اتنا سریع رفتار کہ کسی طبیعیات دان کے گمان میں بھی نہیں ہوگا۔ اس اضافی پھیلاؤ کے ساتھ اس نے دیکھا کہ وہ بغیر کسی مشکل کے کائنات سے متعلق کچھ گہرے سوالات کو حل کر سکتا ہے جن کی ابھی تک وضاحت نہیں کی جا سکی تھی۔ یہ ایک ایسا خیال تھا جس نے فلکیات کی دنیا میں انقلاب برپا کرنا تھا۔ (حالیہ کائناتی اعداد و شمار ، بشمول ڈبلیو میپ سیارچے کے نتائج اس نظریہ سے ہم آہنگ ہیں۔) یہ صرف کائناتی مفروضہ نہیں ہے بلکہ اب تک کا پیش کیا جانے والا سادہ اور سب سے قابل بھروسے نظریہ ہے۔


یہ قابل تعریف بات ہے کہ اتنے سادے سے خیال نے فلکیات سے متعلق کافی سارے کٹھن سوالات کو حل کر دیا ہے۔ ان کافی سارے مسائل میں سے ایک "چپٹے پن" یا "سپاٹ پن " کے مسئلہ کا حل ہے۔ فلکیاتی اعداد و شمار اس بات کو بیان کر رہے ہیں کہ حیرت انگیز طور پر کائنات کا خم صفر سے قریب تر ہے، اصل میں یہ صفر سے اتنا زیادہ نزدیک ہے جتنا پہلے ماہرین فلکیات سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔


یہ آسانی سے اس بات کو بیان کر دیتا ہے کہ اگر کائنات غبارے کی طرح تیزی سے پھول رہی ہے تو افراطی دور میں وہ چپٹی نظر آئے گی۔ ہم چیونٹی کی طرح غبارے کی سطح پر چل رہے ہیں لہٰذا ہم اس قدر چھوٹے ہیں کہ غبارے کے خم کا مشاہدہ نہیں کر سکے۔ افراط نے مکان و زمان کو اس قدر کھینچ دیا ہے کہ وہ ہمیں سپاٹ نظر آتا ہے۔


ایلن گتھ کی دریافت میں تاریخی بات بنیادی ذرّات کی طبیعیات کا اطلاق بحیثیت مجموعی کائنات بشمول اس کے ماخذ کے مطالعہ پر ہے جس میں قدرتی طور پر پائے جانے والے ننھے ذرّات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ہمیں اب یہ معلوم ہے کہ کائنات کے گہرے اسرار شدید چھوٹی چیزوں کی طبیعیات (کوانٹم نظریئے کی دنیا اور بنیادی ذرّات کی طبیعیات)کے بغیر حل نہیں کئے جا سکتے۔


وحدت کی تلاش

گتھ ١٩٤٧ء میں نیو جرسی میں واقع نیو برنسوک میں پیدا ہوا۔ آئن سٹائن، گیمو یا ہوئیل کے برعکس کوئی بھی ایسی چیز یا اہم واقعہ نہیں تھا جو اس کو طبیعیات کی دنیا میں لے آتا۔ نہ ہی اس کے والدین نے کسی تعلیمی ادارے سے کوئی سند حاصل کی تھی اور نہ ہی سائنس میں کچھ زیادہ دلچسپی دکھائی تھی۔ لیکن وہ خود سے ہمیشہ ہی سے ریاضی اور قوانین قدرت کے تعلق کے بارے میں متجسس رہا تھا۔

١٩٦٠ء کے عشرے میں ایم آئی ٹی میں اس نے سنجیدگی سے بنیادی ذرّاتی طبیعیات میں اپنا مستقبل بنانے کا سوچا۔ بالخصوص وہ طبیعیات کی دنیا میں ہونے والی نئی انقلابی سوچ یعنی کہ تمام بنیادی قوّتوں کی وحدت کی تلاش کی وجہ سے پیدا ہونے والی سنسنی سے بہت متاثر تھا۔ کافی عرصے طبیعیات کی دنیا کی مہم جوئی اس وحدت کی تلاش میں تھی جو کائنات کی پیچیدگی کو سادے اور سب سے مربوط انداز میں بیان کر سکے۔ یونانیوں کے دور سے لے کر سائنس دانوں کا خیال رہا ہے کہ کائنات جس کا مشاہدہ ہم دور حاضر میں کرتے ہیں ایک عظیم سادگی کی ٹوٹی اور بکھری ہوئی باقیات ہے اور ہمارا مقصد اس وحدت کو پانا ہے۔ مادّے اور توانائی کی نوعیت کو دو ہزار برسوں پر محیط تفتیش کے دوران جاننے کے بعد طبیعیات دانوں نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ چار بنیادی طاقتیں کائنات کو چلا رہی ہیں۔ (سائنس دانوں نے پانچویں قوّت کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ابھی تک اس سمت سے آنے والے نتائج نے منفی یا غیر حتمی اشارے دیے ہیں۔)


پہلی قوّت ، کشش ثقل ہے جس نے سورج کو تھام کر رکھا ہوا ہے اور سیاروں کو نظام شمسی کے سماوی مدار میں چکر لگانے میں رہنمائی کی ہے۔ اگر قوّت ثقل کو اچانک ہی ختم کر دیا جائے تو فلک میں موجود ستارے یکدم پھٹ پڑیں گے ، زمین ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور ہم فضائے بسیط میں ایک ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے اڑ جائیں گے۔


دوسری عظیم طاقت برقی مقناطیس کی ہے ، وہ طاقت جس نے ہمارے شہروں کو روشن کیا ہوا ہے، ہماری دنیا میں ٹیلی ویژن کی صورت میں رنگینی بکھیری ہوئی ہے اور ہمارے زندگی میں موبائل فون، ریڈیو، لیزر اور انٹرنیٹ جیسی آسائشیں مہیا کی ہیں۔ اگر برقی مقناطیسی قوّت اچانک ختم ہو جائے، تو تہذیب اچانک ہی سے ایک سے دو صدی پیچھے ماضی کے تاریک دور میں پہنچ جائے گی۔ اس بات کا اندازہ بہتر طور پر ٢٠٠٣ء کے بلیک آوٹ سے ہو سکتا ہے جس نے پورے شمال مشرق کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ اگر ہم برقی مقناطیسی قوّت کا خرد بین سے جائزہ لیں ، تو ہم یہ جان سکیں گے کہ اصل میں یہ ننھے ذرّات یا کوانٹا فوٹون کہلاتے ہیں۔


تیسری قوّت کمزور نیوکلیائی طاقت ہے جو ریڈیائی تابکاری کی ذمہ دار ہے۔ کیونکہ کمزور قوّت اتنی مضبوط نہیں ہوتی کہ وہ جوہر کے مرکزے کو ایک ساتھ جڑا رکھ سکے لہٰذا یہ مرکزے کی ٹوٹ پھوٹ یا انحطاط کی اجازت دیتی ہے۔ ہسپتال میں استعمال ہونے والی نیوکلیائی ادویات اس ہی قوّت پر انحصار کرتی ہیں۔ کمزور قوّت زمین کے قلب کو تابکاری مادّے کے ذریعہ گرم رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں آتش فشاؤں کو زبردست توانائی ملتی ہے۔ کمزور قوّت الیکٹران اور نیوٹرینو (بھوت جیسے ذرّات جن کی کمیت قریباً نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور جو دسیوں کھرب میل پر مشتمل ٹھوس سیسے سے بغیر کسی تعامل کے گزر سکتے ہیں)کے تعامل پر انحصار کرتی ہے۔ یہ الیکٹران اور نیوٹرینو دوسرے ذرّات کے ساتھ تعامل کرتے ہیں جو ڈبلیو اور زی بوسون کہلاتے ہیں۔


مضبوط قوّت جوہر کے مرکزے کو ایک ساتھ پکڑ کر رکھتی ہے۔ نیوکلیائی طاقت کے بغیر، مرکزہ ریزہ ریزہ ہو جائے گا، جوہر الگ ہو جائیں گے اور ماہیت جس کو ہم جانتے ہیں ختم ہو جائے گی۔ مضبوط نیوکلیائی توانائی ہی تقریباً ایک سو کے قریب عناصر جو کائنات میں ہمیں جا بجا نظر آتے ہیں کو جوڑے رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ کمزور اور مضبوط قوّت مل کر ہی اس روشنی کے اخراج کا باعث بنتی ہیں جو ستارے بذریعہ آئن سٹائن کی مساوات E=MC2 سے پیدا کرتے ہیں۔ نیوکلیائی توانائی کے بغیر تمام کائنات میں ظلمت کا اندھیرا ہوتا اور زمین پر درجہ حرارت اس قدر گر جاتا کہ سمندر ٹھوس ہو جاتے۔


سب سے تعجب خیز چیز ان تمام قوّتوں کا ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہونا ہے جس میں ان کے مختلف خواص اور مضبوطی بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر قوّت ثقل ان تمام چاروں قوّتوں میں سب سے کمزور ہے ، یعنی کہ برقی مقناطیسی قوّت کے مقابلے میں ١٠٣٦ گنا زیادہ کمزور۔ زمین کا وزن چھ سو کھرب کھرب کلوگرام ہے ، اس کے باوجود اس کا ضخیم وزن اور اس کی قوّت ثقل آسانی کے ساتھ برقی مقناطیسی قوّت سے زائل ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کا کنگھا کاغذ کے ننھے ٹکڑے ساکن برق کے ذریعہ اٹھا سکتا ہے جس کا مطلب ہوا کہ اس نے پوری زمین کی کشش کو زائل کر دیا۔ مزید براں یہ کہ قوّت ثقل ہمیشہ کشش رکھتی ہے۔ جبکہ برقی مقناطیسی قوّت دونوں دفع اور کھینچے کی قوّت رکھتی ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ذرّہ پر کونسا بار ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -3


بگ بینگ کے وقت وحدت

طبیعیات کو ایک بنیادی سوال کا سامنا ہے: ایسا کیوں ہے کہ چار مختلف قوّتوں کی حکمرانی کائنات پر ہے ؟ اور یہ چاروں قوّتیں ایک دوسرے سے اتنی مختلف کیوں ہیں۔ ان کی طاقت مختلف کیوں ہے ؟ کیوں یہ مختلف انداز سے تعامل کرتی ہیں اور ان کے طبیعیاتی خواص مختلف کیوں ہیں؟


آئن سٹائن وہ پہلا شخص تھا جس نے ان چاروں قوّتوں کو ایک جامع نظریہ میں پرونے کی مہم شروع کی۔ اس نے شروعات قوّت ثقل اور برقی مقناطیسی قوّت کو متحد کرنے سے کی۔ لیکن وہ ناکام ہو گیا کیونکہ وہ اپنے عہد سے کافی آگے تھا؛ اس وقت مضبوط قوّت کے بارے میں بہت ہی کم معلومات تھیں جو ایک حقیقی وحدتی عملی نظریئے کے لئے درکار تھی۔ لیکن آئن سٹائن کے حوصلہ مند کام نے دنیائے طبیعیات کی آنکھیں ممکنہ "ہر شئے کے نظریئے" کے لئے کھول دیں۔


١٩٥٠ء کے عشرے میں ایک وحدتی میدانی نظریئے کا حصول بالکل ہی نا ممکن نظر آتا تھا ، خاص طور پر جب بنیادی ذرّات کی طبیعیات مکمل طور پر بے ربط تھی ، جوہری تصادم گر مادّے کے مرکزے کو توڑ کر "بنیادی جزئیات " کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ لیکن ان کو اس تجرباتی عمل میں سینکڑوں بنیادی ذرّات حاصل ہو رہے تھے۔ " بنیادی ذرّاتی طبیعیات" اپنی اصطلاح سے متصادم تھی، یہ ایک کائناتی مذاق تھا۔ یونانی سمجھتے تھے کہ جب کسی شئے کو توڑ کر بنیادی اینٹوں تک پہنچے گے تو چیزیں سادہ ہوں گی۔ لیکن اس کا تو الٹ ہو رہا تھا۔ طبیعیات دان اس جستجو میں لگے تھے کہ مزید یونانی حروف ڈھونڈیں تاکہ ان ذرّات کو نام دے سکیں۔ جے رابرٹ اپن ہائیمر تو مذاق میں یہ کہا کرتے تھے کہ اب نوبیل انعام اس طبیعیات دان کو ملے گا جو کوئی نیا بنیادی ذرّہ دریافت نہیں کرے گا۔ نوبیل انعام یافتہ اسٹیون وائن برگ حیران تھے کہ آیا انسانی دماغ کبھی اس قابل بھی ہو سکے گا کہ نیوکلیائی قوّت کے راز کو حل کر سکے۔


بہرحال تذبذب کا شور و غوغا اس وقت تھمتا ہوا نظر آیا جب کالٹک کے مررے جیل مین اور جارج زووائیگ نے کوارک کا نظریہ پیش کیا ، وہ جز جو پروٹون اور نیوٹران کو بناتے تھے۔ کوارک نظریئے کے مطابق، تین کوارک مل کر ایک پروٹون اور ایک نیوٹران کو بناتے ہیں اور ایک کوارک اور ضد کوارک مل کر میسون (ایک ذرّہ جو مرکزے کو جوڑ کر رکھتا ہے) بناتے ہیں۔ یہ صرف آدھا حل تھا (کیونکہ آج ہم مختلف قسم کے کوارک کے سمندر کو دیکھتے ہیں)، تاہم اس نے ایک مردہ میدان میں نئی روح پھونک دی تھی۔


١٩٦٧ء میں طبیعیات دان اسٹیون وائن برگ اور عبدالسلام نے ایک شاندار دریافت کی ، جس میں اس بات کو ثابت کیا گیا کہ کمزور اور برقی مقناطیسی قوّت کو متحد کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ایک نیا نظریہ پیش کیا جس میں الیکٹران اور نیوٹرینو (جو لیپٹون کہلاتے ہیں) ایک دوسرے سے آپس میں ایک نئے ذرّے اور فوٹون کو ادل بدل کر تعامل کر سکتے ہیں۔ یہ نیا ذرّہ ڈبلیو اور ذی بوسون کہلائے۔ ڈبلیو اور ذی بوسون اور فوٹون کو ایک جگہ پر رکھ کر انہوں نے ایک نظریئے پیش کیا جس میں یہ دونوں قوّتیں متحد نظر آتی تھیں۔ ١٩٧٩ء میں اسٹیون وائن برگ ، شیلڈن گلاشو اور عبدالسلام کو اس کام کے سلسلے میں مشترکہ نوبل انعام دیا گیا جس میں انہوں نے چار میں سے دو قوّتوں یعنی کہ برقی مقناطیسی اور کمزور قوّت کو متحد کر دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں مضبوط نیوکلیائی قوّت کو جاننے میں زبردست مدد ملی تھی۔ ١٩٧٠ء کے عشرے میں طبیعیات دانوں نے اسٹینفورڈ لینیر ایکسلریٹر سینٹر (سلاک) کے اسراع گر سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا ، اس اسراع گر میں شدید الیکٹران کی کرنیں ایک ہدف پر ماری جاتی تھیں تاکہ کی گہرائی کی کھوج کی جا سکے۔ انہوں نے دیکھا کہ طاقتور نیوکلیائی قوّت جس نے کوارک کو پروٹون کے اندر ایک ساتھ رکھا ہوا ہے اس کو ایک نئے ذرّے سے بیان کیا جا سکتا ہے جس کا نام گلوآن رکھا گیا۔ یہ مضبوط نیوکلیائی قوّت کے کوانٹا تھے۔ پروٹون کو آپس میں باندھ کر رکھنے والی قوّت کو کوارک کے درمیان گلوآن کے باہمی تبادلے کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس نے مضبوط نیوکلیائی قوّت کے ایک نئے نظریئے کی بنیاد ڈالی جو کوانٹم لونی حرکیات کہلائی۔


لہٰذا ١٩٧٠ء کے عشرے کے بیچ میں یہ ممکن ہو گیا تھا کہ چار قوّتوں میں سے تین قوّتوں (قوّت ثقل کو چھوڑ کر)کو جوڑ ا جا سکے۔ اس طرح سے ہمیں معیاری نمونہ حاصل ہوا۔ کوارک، الیکٹران، اور نیوٹران کا نظریہ جو گلوآن، ڈبلیو اور زی بوسون اور فوٹون کو ادل بدل کر تعامل کرتے ہیں۔ یہ عشروں سے کچھوے کی رفتار سے چلنے والی ذرّاتی طبیعیات کی تحقیق کا نقطۂ عروج تھا۔


سردست معیاری نمونہ ذرّاتی طبیعیات سے متعلق تمام تر تجرباتی اعداد و شمار میں بغیر کسی اِستثنیٰ کے بالکل ٹھیک بیٹھتا ہے۔


ہرچند کے معیاری نمونہ تاریخ کا سب سے کامیاب نظریہ ہے ، لیکن یہ بہت ہی زیادہ بھدا ہے۔ اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ قدرت اس بنیادی پیمانے پر ایک ایسے نظریہ سے چلتی ہے جو بہت زیادہ قابل مرمت لگتا ہے۔ مثال کے طور پر اس نظریئے میں انیس خود مختارانہ مقدار معلوم ہیں جن کو خود سے ڈالا جاتا ہے بغیر کسی وجہ یا تک کے (یعنی کہ ، متعدد کمیتیں اور تعاملات کی طاقت کا تعین نظریہ نہیں کرتا بلکہ ان کو تجربہ کے ذریعہ معلوم کرنا ہوتا ہے ، مثالی بات تو وہ ہوگی جب ایک سچے وحدتی نظریہ میں نظریہ خود سے ان مستقلات کا تعین خارجی تجربات پر انحصار کیے بغیر کرے۔)
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -4

مزید براں یہ کہ بنیادی ذرّات کی تین نقول موجود ہیں جن کو "پود" کہا جاتا ہے۔ اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ قدرت اس بنیادی سطح پر ذیلی جوہری ذرّات کی تین ہم شکل نقول شامل کئے ہوئے ہے۔ سوائے کمیت کے یہ پود ایک دوسرے کی ہمشکل ہیں۔ (مثال کے طور پر الیکٹران کی نقول میں میون شامل ہیں جن کا وزن الیکٹران سے دو سو گنا زیادہ ہے، اور تاؤ ذرّے کا وزن ساڑھے تین ہزار گنا زیادہ ہے۔) آخری بات، معیاری نمونے میں قوّت ثقل کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے ، ہرچند کے قوّت ثقل کائنات میں شاید سب سے زیادہ نفوذ پذیر قوّت ہے۔

شاندار تجرباتی کامیابیوں کو چھوڑ کر معیاری نمونہ بہت زیادہ بناوٹی لگتا ہے لہٰذا طبیعیات دان ایک اور نظریئے یا عظیم وحدتی نظریئے کو بنانے میں لگے ہوئے ہیں جس میں کوارک اور لیپٹون کو ایک جگہ رکھا جا سکے۔ یہ گلوآن ، ڈبلیو اور زی بوسون اور فوٹون سے بھی ایک ہی طرح سے نبرد آزما ہوتی ہے۔ (یہ حتمی نظریہ نہیں ہوگا، کیونکہ قوّت ثقل کو اب بھی صریحاً چھوڑ دیا گیا ہے ، اس کو دوسری قوّتوں کے ساتھ ضم کرنا بہت ہی مشکل گردانہ گیا ہے ، جیسا کہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے۔)


وحدت کے اس پروگرام نے کونیات کی دنیا میں ایک نئی آمد نامہ کو روشناس کروایا ہے۔ بات سادہ اور نفیس تھی یعنی کہ بگ بینگ کے وقت تمام چاروں قوّتیں ایک مربوط قوّت میں متحد تھیں جس کو فوق قوّت کا نام دیا گیا ہے۔ تمام چاروں قوّتوں کی طاقت برابر تھی اور وہ ایک بڑی مربوط طاقت کا حصّہ تھیں۔ کائنات ایک بے عیب طریقے سے تخلیق ہونا شروع ہوئی۔ بہرحال جب کائنات پھیلنا شروع ہوئی اور تیزی سے ٹھنڈی ہوئی ، تو اصل فوق قوّت "ٹوٹ" کر مختلف قوّتوں میں ایک کے بعد ایک میں بٹ گئی۔


اس نظریئے کے مطابق، بگ بینگ کے بعد کائنات کا ٹھنڈا ہونا پانی کے جمنے کے مثل ہے۔ مائع کی حالت میں پانی کافی یکساں اور ہموار ہوتا ہے۔ بہرحال جب وہ جمتا ہے تو اس کے اندر کروڑوں ننھی برف کی قلمیں بن جاتی ہیں۔ جب پانی مکمل برف بن جاتا ہے تو اس کی اصل یکسانیت کافی حد تک ختم ہو جاتی ہے کیونکہ برف میں درز ، بلبلے اور قلمیں موجود ہوتی ہیں۔


بالفاظ دیگر آج ہمارے مشاہدہ میں آنے والی کائنات بہت بری طریقے سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ یہ یکساں یا متشاکل ہونے کے بجائے پہاڑوں کے سلسلوں، آتش فشانوں، طوفانوں، چٹانی سیارچوں اور پھٹتے ہوئے ستاروں پر مشتمل ہے جس میں کوئی باہم ہم آہنگی نظر نہیں آتی ہے۔ علاوہ بریں ہم چار بنیادی قوّتوں کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں جن میں آپس میں کوئی ربط نظر نہیں آتا۔ لیکن کائنات کے ٹوٹے ہوئے نظر آنے کی وجہ یہ ہے کہ کائنات کافی عمر رسیدہ اور ٹھنڈی ہو چکی ہے۔


اگرچہ کائنات شروع تو ایک مکمل بے عیب وحدت میں ہوئی تھی لیکن آج وہ کافی عبوری ادوار یا تبدیلیوں سے گزر چکی ہے جس میں کائنات کی قوّتیں ٹھنڈے ہونے کے ساتھ ساتھ دوسری قوّتوں میں ٹوٹ کر آزاد ہوتی رہیں۔ یہ طبیعیات دانوں کا کام ہے کہ واپس پیچھے جائیں اور دوبارہ سے ان اقدام کو اٹھانے کی کوشش کریں جس میں کائنات اصل میں (بے عیب حالت )شروع ہوئی تھی اور جس نے آج ہمارے ارد گرد موجود رہنے والی کائنات کو بنایا ہے۔


اصل بات درست طور پر سمجھنے کی یہ ہے کہ کس طرح سے یہ عبوری دور کائنات کے آغاز میں وقوع پذیر ہوئے جس کو طبیعیات دان "بے ساختہ بکھرنا " کہتے ہیں۔ چاہئے یہ برف کا پگھلنا ہو، پانی کا ابلنا ہو، برستے ابر کی تخلیق ہو، یا بگ بینگ کا ٹھنڈا ہونا ہو، عبوری ادوار مادّے کی دو مختلف حالتوں میں آپس میں جوڑ سکتے ہیں۔( اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ یہ عبوری ادوار کس قدر طاقتور ہو سکتے ہیں، فنکار باب ملر نے ایک پہیلی بوجھی :" آپ کس طرح سے پانچ لاکھ پاؤنڈ پانی کو ہوا میں معلق رکھ سکتے ہیں لیکن اس کے لئے آپ کو کوئی بھی مرئی سہارا نہیں لینا ہوگا؟ جواب ہے : ابر کو بنائیں۔")
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -5

مصنوعی جوف
جب ایک قوّت سے ٹوٹ کر دوسری قوّتیں نکلتی ہیں تو اس عمل کا موازنہ کسی ڈیم کے ٹوٹنے سے کیا جا سکتا ہے۔ دریا نشیب کی طرف بہتے ہیں کیونکہ پانی پست ترین توانائی کی جانب رواں ہوتا ہے جو کہ سطح سمندر پر ہی موجود ہوتی ہے۔ پست ترین توانائی کی حالت کو جوف کہتے ہیں۔ بہرحال ایک غیر معمولی حالت بھی ہوتی ہے جو مصنوعی جوف کہلاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم دریا پر ڈیم بنائیں تو ڈیم پائیدار لگے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہوگی کہ وہ شدید دباؤ میں ہوگا۔ اگر کوئی چھوٹا سا شگاف بھی ڈیم میں پڑ گیا تو دباؤ ڈیم کو یکایک پھوڑ دے گا اور زبردست توانائی کی مقدار کو مصنوعی جوف (دریا کے ڈیم )سے خارج کرے گا اور ایک تباہ کن سیلاب کا سبب حقیقی جوف (سطح سمندر)کی جانب بنے گا۔ اگر ڈیم یکایک ٹوٹ جائے اور اچانک ہی حقیقی جوف کی جانب چل پڑے تو گاؤں کے گاؤں سیلاب میں بہ سکتے ہیں ۔

بعینہ اسی طرح عظیم وحدتی نظریئے میں کائنات کی ابتدا ایک مصنوعی جوف سے ہوئی، جہاں تین قوّتیں متحد ہو کر ایک میں مجتمع ہو گئیں تھیں۔ بہرحال کائنات غیر پائیدار تھی اور یکایک ٹوٹ گئی جس کے نتیجے میں وہ مصنوعی جوف سے ، جہاں قوّتیں متحد تھیں ، ایک حقیقی جوف کی طرف روانہ ہوا جہاں قوّتیں ٹوٹ گئیں تھیں۔


اس چیز کا ادراک گتھ کے عظیم وحدتی نظریئے کی جانچ سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ لیکن گتھ نے کچھ ایسی چیز دیکھی جو اس سے پہلے دوسروں کی نظروں سے اوجھل تھی۔ مصنوعی جوف کی حالت میں ، کائنات زبردست اسراع کے ساتھ پھیلنا شروع ہوئی بالکل اسی طرح جیسا کہ ڈی سٹر نے ١٩١٧ء میں اندازہ لگایا تھا۔ یہ کونیاتی مستقل یعنی مصنوعی جوف کی توانائی تھی جس نے کائنات کو ایسی زبردست اور شاندار شرح سے پھیلایا تھا۔ گتھ نے خود سے ایک ثمر آور سوال کیا۔ کیا ڈی سٹر کا بیان کردہ پھیلاؤ فلکیات کے کچھ مسائل کو حل کر سکتا ہے؟


یک قطبی مسئلہ

عظیم وحدتی نظریئے کے اندازوں میں سے ایک اندازہ وقت کی ابتدا میں موجود یک قطبیوں کی کثرت کا ہے۔ یک قطبی ایک ایسا مقناطیس ہوتا ہے جس کا یا تو شمالی قطب ہوتا ہے یا پھر جنوبی قطب۔ قدرتی طور پر یہ قطبین ہمیشہ جوڑے میں ہی ملتے ہیں۔ اگر آپ ایک مقناطیس کو لیں ، تو آپ کو دونوں قطبین شمالی اور جنوبی ایک ساتھ ملیں گے۔ اگر آپ ہتھوڑی لیں اور مقناطیس کو آدھا کر دیں تب بھی آپ کو دو علیحدہ قطبین نہیں حاصل ہوں گے؛ اس کے بجائے آپ کو دو چھوٹے مقناطیس ملیں گے جن میں سے ہر ایک کا اپنا شمالی اور جنوبی جوڑا ہوگا۔

بہرحال مسئلہ یہ ہے کہ سائنس دان صدیوں کے تجربات کے بعد بھی حتمی طور یک قطبیوں کا کوئی ثبوت حاصل نہیں کر سکے۔ کیونکہ ابھی تک کسی بھی یک قطبی نہیں دیکھا گیا ہے لہٰذا گتھ الجھا ہوا تھا کہ عظیم وحدتی نظریہ کیوں اتنی وافر مقدار میں یک قطبیوں کے ہونے کا بیان کر رہا ہے۔ "افسانوی جانور کی طرح باوجود کسی تصدیقی ثبوت کے یک قطبیوں نے انسانی دماغ کو حیران کرنا جاری رکھا ہے ،" گتھ کہتے ہیں۔


پھر یکایک اس پر کچھ آشکار ہوا۔ یکدم تمام ٹکڑے مل کر ایک تصویر بناتے ہوئے نظر آئے۔ اس کے فہم کے مطابق اگر کائنات کی شروعات مصنوعی جوف کی حالت میں ہوئی ہے تو وہ غیر معمولی شرح سے پھیلی ہوگی جیسا کہ ڈی سٹر نے ایک عشرے پہلے تجویز کیا تھا۔ اس مصنوعی جوف میں کائنات یکدم ناقابل تصور طور پر پھول سکتی ہے جس کے نتیجے میں یک قطبیوں کا گنجان پن کم ہو سکتا ہے۔ اگر سائنس دانوں نے یک قطبیوں کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تو یک قطبی ایک ایسی کائنات میں پھیلے ہوئے ہوں گے جو ہماری سوچ سے بھی بڑی کائنات ہے۔


گتھ کے لئے یہ افشائے حقیقت لطف و سرور کا منبع تھا۔ ایسا سادہ مشاہدہ ایک ہی ہلے میں یک قطبیوں کے مسئلہ کا حل پیش کر دیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی گتھ کو یہ ادراک بھی ہو گیا کہ اس اندازے کا فلکیاتی دنیا میں اس کے اصل خیال سے کہیں زیادہ اثر ہوگا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -6

چپٹے یا سپاٹ پن کا مسئلہ
گتھ کو احساس ہو گیا تھا کہ اس کے نظریہ نے ایک اور مسئلہ یعنی کہ چپٹے پن کو حل کر دیا ہے جس کو ہم پہلے زیر بحث کر چکے ہیں۔ بگ بینگ کی معیاری تصویر یہ بیان نہیں کرتی کہ آیا کیوں کائنات اس قدر چپٹی ہے۔١٩٧٠ء کے عشرے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ کائنات میں مادّے کی کثافت جس کو اومیگا کہتے ہیں وہ لگ بھگ 0.1 کے قریب تھی۔ اس کا ایک(1) کی مبصرانہ کمیت سے کافی قریب ہونا سائنس دانوں کو دق کئے ہوئے تھی کیونکہ بگ بینگ کو گزرے ہوئے ارب ہا برس گزر چکے تھے۔ پھیلتی ہوئی کائنات کے ساتھ اومیگا کو تبدیل ہونا چاہئے تھا۔ یہ اعداد جو ایک کے انتہائی قریب تھا ایک مکمل بے عیب چپٹے بن کو بیان کر رہا تھا اور یہ بات سائنس دانوں کو مضطر کر رہی تھی۔

وقت کی ابتدا میں اومیگا کی کوئی بھی معقول قدر لے لیں، آئن سٹائن کی مساوات بتاتی ہے کہ اس کو لازمی طور پر صفر کے قریب ہونا چاہئے تھا۔ اومیگا کا بگ بینگ کے اتنے ارب ہا برس گزرنے کے بعد ایک سے قریب تر ہونے کے لئے کسی معجزے کی ضرورت تھی۔ خدا یا کسی خالق نے اومیگا کی قدر کو اس قدر شاندار اور درست طور پر چنا تھا جو آج 0.1 کے لگ بھگ ہے۔ اومیگا کو 0.1 سے لے کر 10 تک ہونے کے لئے بگ بینگ کے وقوع پذیر ہونے کے ایک سیکنڈ بعد اس کی قدر کو 1.00000000000000 ہونا چاہئے تھا۔ بالفاظ دیگر زمان کی ابتدا میں قدر کو ہر صورت میں ایک ہزار کھرب میں سے ایک حصّہ کے اندر ہونا چاہئے تھا ، یہ ایک ایسی بات ہے جس کا وقوع پذیر ہونا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔


تصور کریں کہ آپ ایک پنسل کو عمودی طور پر اس کی نوک پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم چاہئے کچھ بھی کر لیں عام طور پر پنسل گر ہی جائے گی۔ اصل میں پنسل کو توازن میں کھڑا کرنے کے لئے شروع سے ہی ایک عظیم درستگی کے ساتھ اس کو کھڑا کرنا ہوگا تاکہ وہ گرے نہیں۔ اب پنسل کو اس کی نوک پر کھڑا کرکے توازن قائم کرنے کی کوشش کریں تاکہ یہ عمودی طور پر صرف ایک سیکنڈ کے بجائے برسوں تک قائم رہے! آپ دیکھیں گے کہ آج اومیگا کو 0.1 کے نزدیک حاصل کرنے کے لئے ناقابل بیان درستگی درکار ہوگی۔ اومیگا میں ہلکی سی خطا اومیگا کو ایک کی قدر سے الگ کر دے گی۔ لہٰذا ایسا کیوں ہے کہ اومیگا ایک سے آج اتنا نزدیک ہے جبکہ اس کو تو فلکیاتی پیمانے پر اس سے دور ہونا چاہئے تھا۔

گتھ کے لئے اس کا جواب واضح طور پر سامنے تھا۔ کائنات سادہ طور پر اس پیمانے پر پھولی ہے جس کی وجہ سے یہ چپٹی نظر آتی ہے۔ جس طرح سے زمین پر رہنے والا شخص یہ خیال کرتا ہے کہ زمین چپٹی ہے کیونکہ وہ افق کو نہیں دیکھ سکتا، اسی طرح سے فلکیات دانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اومیگا لگ بھگ ایک کے قریب ہے کیونکہ افراط نے کائنات کو چپٹا کر دیا ہے۔

افق کا مسئلہ

افراط نہ صرف کائنات کے سپاٹ پن سے متعلق اعداد و شمار کو بیان کرتا ہے بلکہ یہ افق کا مسئلہ بھی حل کر دیتا ہے۔ یہ مسئلہ اس بات کے احساس سے شروع ہوتا ہے کہ رات کا آسمان کیوں نسبتاً یکساں نظر آتا ہے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کہاں دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ اپنے سر کو ١٨٠ درجے کے زاویہ پر بھی گھما لیں تو بھی آپ کا مشاہدہ کائنات کو یکساں ہی بیان کرے گا۔ ہرچند کہ آپ کائنات کے ان حصّوں کو بھی دیکھ لیں جو ایک دوسرے سے ارب ہا نوری برس کے فاصلے پر موجود ہیں۔ طاقتور دوربینیں جو آسمان کی خاک چھانتی رہتی ہیں وہ بھی اس یکسانیت میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں ڈھونڈ پائی ہیں۔ ہمارے خلائی سیارچوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کائناتی خرد امواج بھی شدید طرح سے یکساں ہیں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ خلاء میں کس طرف دیکھ رہے ہیں ، پس منظر کی اشعاع کا درجہ حرارت بھی ایک درجہ کے ہزار حصّے سے زیادہ کہیں مختلف نہیں ملتا۔

لیکن یہ ہی تو مسئلہ ہے۔ کیونکہ روشنی کی رفتار کائنات میں کسی بھی چیز کے سفر کرنے کی حد رفتار ہے۔ لہٰذا ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کائنات کی عمر میں روشنی یا اطلاع رات کے آسمان کے ایک حصّہ سے سفر شروع کرکے دوسرے حصّے کی جانب پہنچ سکے۔ مثال کے طور پر اگر ہم پس منظر کی امواج میں ایک طرف دیکھتے ہیں تو اس نے بگ بینگ کے بعد سے ١٣ ارب نوری برس کا سفر طے کیا ہے۔ اگر ہم اپنا سر گھما کر دوسری مخالف جانب دیکھیں تو ہمیں خرد موجی امواج بالکل ویسی ہی نظر آئیں گی جیسے کہ ١٣ ارب نوری برس سے سفر کرکے آنے والی مخالف سمت کی امواج ہوں گی۔ کیونکہ ان کا درجہ حرارت ایک جیسا ہی ہے لہٰذا زمان کے شروع میں ان کا تعلق حدت کے ایک ہی منبع سے ہونا چاہئے۔ لیکن کوئی بھی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ اطلاعات رات کے آسمان میں موجود بگ بینگ کے وقت سے اب تک دو مخالف سمتوں سے آپس میں رابطہ کر سکیں (جو ٢٦ ارب نوری برس کے فاصلے پر موجود ہوں گی)۔


صورتحال تو اس سے بھی زیادہ خراب اس وقت ہو جاتی ہے جب ہم بگ بینگ کے شروع ہونے کے تین لاکھ اسی ہزار برس بعد بننے والی پس منظر کی اشعاع کو دیکھتے ہیں جب وہ پہلی دفعہ بنی تھیں۔ اگر ہم آسمان کے مخالف سمت میں دیکھتے ہیں تو ہمیں پس منظر اشعاع یکساں ہی نظر آتی ہیں۔ بگ بینگ کے نظریئے کے مطابق ان نقاط کو ایک دوسرے سے نو کروڑ نوری برس دور ہونا چاہئے تھا ( کیونکہ خلاء دھماکے کے وقت سے ہی پھیل گئی تھی )۔ لیکن ایسا تو کوئی طریقہ نہیں تھا کہ روشنی صرف تین لاکھ اسی ہزار برس میں نو کروڑ نوری برس تک کا سفر کر چکی ہو۔ اطلاعات کو روشنی کی بھی رفتار سے تیز سفر کرنا ہوگا جو کہ ایک ناممکن سی بات ہے۔


اصولی طور پر کائنات کو گلٹی دار ہونا چاہئے تھا جس میں ایک دور دراز کا حصّہ اتنا دور ہوتا کہ وہ دوسرے حصّے سے کسی قسم کا رابطہ کر سکتا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کائنات اتنا زیادہ یکساں نظر آتی ہے جبکہ روشنی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ وہ اطلاعات کو ایک دور کے حصّے سے لے کر کسی اور حصّے تک پھیلا سکے؟ (پرنسٹن کے طبیعیات دان رابرٹ ڈک اس کو افقی مسئلہ کہتے ہیں کیونکہ افق وہ دور دراز کا حصّہ ہوتا ہے جو آپ دیکھ سکتے ہیں ، وہ دور کا حصّہ جہاں روشنی سفر کر سکتی ہے۔)


گتھ کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کی کنجی افراط ہی ہے۔ اس نے کہا کہ ہماری قابل مشاہدہ کائنات ممکنہ طور پر اصل کائناتی آگ کے گولے کا ایک ننھا سا حصّہ ہے۔ یہ حصّہ بذات خود کمیت اور درجہ حرارت میں یکساں ہے۔ تاہم افراط نے یکایک اس ننھے سے حصّے کو یکساں مادّے میں 10 کی قوت نما 50کے بقدر پھیلا دیا ، جو روشنی کی رفتار سے کہیں زیادہ تھی۔ لہٰذا آج شاندار طور پر یکساں نظر آنے والی قابل مشاہدہ کائنات کی وجہ یہ افراط ہی ہے۔ لہٰذا رات کا آسمان اور خرد موجی اشعاع اس قدر یکساں اس لئے ہیں کیونکہ کائنات ایک موقع پر نہایت ننھا لیکن یکساں حصّہ اس اصل آگ کے گولے کا تھی جو یکدم پھول کر کائنات میں بدل گیا ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -7

افراط کے نظریئے پر رد عمل



ہرچند کے گتھ پر اعتماد تھا کہ اس کا افراط سے متعلق خیال درست ہے، لیکن جب پہلی دفعہ عوام الناس میں اس نے اپنے اس نظریئے کو بیان کیا تو وہ تھوڑا گھبرایا ہوا تھا۔ ١٩٨٠ء میں اس نے اپنا نظریہ پیش کیا ،" میں اس وقت بھی پریشان تھا کہ نظریئے کے کچھ نتائج ممکنہ طور پر کافی غلط ہو سکتے ہیں۔ اس بات کا بھی ڈر تھا کہ کہیں میری حیثیت نا تجربہ کار ماہر تکوین کے نہ پڑ جائے ،" اس نے تسلیم کیا۔ لیکن اس کا بیان کردہ نظریہ اس قدر نفیس اور طاقتور تھا کہ تمام دنیا میں موجود ماہرین طبیعیات نے اس کی اہمیت کو فوراً ہی محسوس کرلیا۔ نوبیل انعام یافتہ مررے جیل مین نے کہا، " تم نے فلکیات کے سب سے زیادہ اہم مسئلہ کو حل کر دیا ہے !" نوبیل انعام یافتہ شیلڈن گلاشو بتاتے ہیں کہ جب اسٹیون وائن برگ نے افراط کے بارے میں سنا تو وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ پریشان گتھ نے پوچھا ، "کیا اسٹیو کو اس پر کوئی اعتراض ہے ؟" گلاشو نے جواب دیا، "نہیں، اس نے خود کیوں یہ بات نہیں سوچی۔" ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنا سادہ حل سائنس دانوں سے رہ گیا ہو۔ گتھ کے نظریئے کو نظری طبیعیات دانوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا کیونکہ وہ اس کے وسعت سے متحیر تھے۔


اس کا گتھ کی نوکری پر بھی زبردست اثر پڑا۔ ایک دن کم ہوتی ملازمت کے موقع کی وجہ سے وہ اپنی بے روزگاری کا نوشتہ دیوار پڑھ رہا تھا۔" میں ملازمت کے آخری کونے پر تھا۔" وہ تسلیم کرتا ہے۔ یکایک بہترین جامعات سے اس پر ملازمتوں کی بارش ہونے لگی لیکن اس جگہ سے اس کو پیش کش نہیں ہوئی جو اس کی اوّلین پسند تھی یعنی کہ ایم آئی ٹی۔ پھر اس نے کہیں پڑھا کہ ،" ایک شاندار موقع آپ کے سامنے موجود ہے بشرطیکہ آپ شرمیلے نہ ہوں۔" اس بات نے اسے جرت مند بنا دیا اور اس نے فون اٹھا کر ایم آئی ٹی ملا لیا اور ان سے ملازمت کے بارے میں پوچھا۔ وہ اس وقت حیران رہ گیا جب چند دن بعد ایم آئی ٹی نے اسے پیغام بھیجا اور پروفیسر کی ملازمت کی پیش کش کی۔ قسمت کی چڑیا نے اسے دوبارہ بتایا ،" تمہیں حالت کی رو میں نہیں بہنا چاہئے۔" اس مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے ایم آئی ٹی کی پیش کش کو قبول کرلیا. "قسمت کی چڑیا کو کیا پتا؟" اس نے اپنے آپ سے کہا۔


بہرصورت اب بھی کافی سارے سنجیدہ مسائل سر اٹھائے کھڑے تھے۔ فلکیات دان گتھ کے نظریئے سے کچھ زیادہ متاثر نہیں دکھائی دے رہے تھے، کیونکہ یہ ایک جگہ واضح طور پر مار کھا رہا تھا۔ یہ اومیگا کا غلط اندازہ لگا رہا تھا۔ یہ حقیقت کہ اومیگا لگ بھگ ایک کے قریب ہے صرف افراط کے ذریعہ ہی بیان کی جا سکتی تھی۔ بہرحال افراط کافی دور تک چلا اور اس کے مطابق چپٹی کائنات کے لئے اومیگا (یا اومیگا اور لمبڈا دونوں ملا کر) ایک کے آس پاس ہونا چاہئے تھا۔ آنے والے برسوں میں جیسے جیسے تجرباتی اعداد و شمار حاصل کئے جا رہے تھے وہ کائنات میں موجود تاریک مادّے کی وسیع مقدار کا عندیہ دے رہے تھے۔ نتیجتاً اومیگا بڑھ کر 0.3 تک پہنچ گیا تھا۔ لیکن اس کی یہ مقدار بھی افراط کے لئے مہلک تھی۔ ہرچند کے افراط نے آنے والی اگلی دہائی میں تین ہزار کے قریب مقالات کو طبیعیات دانوں کے درمیان پیش کیا ، لیکن ماہرین فلکیات کے لئے یہ مستقل باعث تجسس ہی بنا رہا۔ ان کے مطابق اعداد و شمار افراط کو رد کر رہے تھے۔


کچھ ماہرین فلکیات تو ذاتی نشستوں میں اس بات کا گلہ کرتے ہوئے نظر آتے تھے کہ ذرّاتی طبیعیات دان افراط کی خوبصورتی سے اس قدر مرعوب ہیں کہ وہ تجرباتی حقائق کو نظر انداز کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ (ہارورڈ کے فلکیات دان رابرٹ کرشنر لکھتے ہیں ، " یہ 'افراط' کا خیال پاگل پنے کا لگتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کو سنجیدہ لینے والے وہ لوگ ہیں جو آرام سے کرسی پر تشریف فرما رہتے ہیں اور ان کے ایسے کرنے سے یہ خود بخود ٹھیک نہیں ہوگا۔" آکسفورڈ کے راجر پنروز افراط کے بارے میں کہتے ہیں " یہ ایک چلن ہے جو توانائی سے بھرپور طبیعیات دان فلکیات کی دنیا میں چلا رہے ہیں۔۔۔ سور بھی اپنے بچوں کو خوبصورت سمجھتے ہیں۔"


گتھ کو یقین تھا کہ جلد یا بدیر اعداد و شمار اس بات کو ثابت کر دیں گے کہ کائنات چپٹی ہے۔ لیکن اس کو جس بات نے پریشان کیا ہوا تھا وہ یہ تھی کہ اس کی اصل تصویر ایک چھوٹے لیکن مہلک نقص سے گزری ہے، یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو آج بھی ٹھیک طرح سے نہیں سمجھا جا سکا۔ افراط کا نظریہ مثالی طور پر فلکیات کے کچھ گہرے مسائل کے سلسلوں کو حل کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ کسی کو بھی نہیں پتا کہ اس کو کیسے روکا جاتا ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -8

کسی ابلتے ہوئے پانی کے برتن کا تصوّر کریں۔ ابلنے سے ذرا ہی پہلے وہ بلند توانائی کی حالت میں ہوتا ہے۔ وہ ابلنا چاہتا ہے لیکن ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ اس کو بلبلے پھلانے کے لئے کچھ کثافت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب ایک دفعہ بلبلہ بننا شروع ہو جاتا ہے تو وہ فوری طور پر کم توانائی کی حالت میں حقیقی جوف کر طرف چلا جاتا ہے اور برتن بلبلوں سے بھر جاتا ہے۔ آخر کار بلبلے اتنے بڑے ہو جاتے ہیں کہ وہ باہم ایک دوسرے میں پیوستہ ہو جاتے ہیں ، تاآنکہ برتن یکساں طور پر بھاپ سے بھر جائے۔ جب تمام بلبلے ضم ہو جاتے ہیں، تو پانی کا بھاپ کی جانب عبوری مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے۔

گتھ کی اصل تصویر میں ہر بلبلہ ہماری کائنات کے ایک حصّے کی نمائندگی کرتا ہے جو جوف میں سے نکل کر پھول رہی ہے۔ لیکن جب گتھ نے یہ حساب لگایا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ بلبلے صحیح طرح سے آپس میں پیوستہ نہیں ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں کائنات ناقابل تصوّر حد تک گلٹی زدہ ہونی چاہئے۔ بالفاظ دیگر اس کے نظریئے نے برتن کو تو بھاپ سے مکمل طور پر بھرا ہوا ہے جو کبھی بھی مل کر بھاپ کا یکساں برتن نہیں بنائیں گے۔ گتھ کے ابلتے پانی کا ظروف کبھی بھی موجودہ دور کی کائنات کی شکل میں نہیں آئے گا۔

١٩٨١ء میں روس کے پی این لیبی دیف انسٹیٹیوٹ کے انڈری لنڈے اور اس وقت یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں کام کرنے والےپال جے اسٹائن ہارڈ ت اور اینڈریاس نے اس معمے کو سلجھانے کا ایک راستہ نکال لیا تھا۔ ان کو اس بات کا ادراک ہو گیا تھا کہ مصنوعی جوف کا اگر ایک اکلوتا بلبلہ کافی پھول جائے تو وہ بالآخر پھول کر پورے برتن میں پھیل جائے گا اور ایک یکساں کائنات کی تخلیق کر دے گا۔ زیادہ بلبلوں کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی کہ وہ پیوستہ ہو کر ایک یکساں بھاپ کا برتن بنائیں۔ صرف ایک بلبلہ ایسا کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ کافی زیادہ پھولے۔

ذرا واپس سے ڈیم اور مصنوعی جوف کی مثال کو ذہن میں لیں۔ جتنا زیادہ چوڑا ڈیم ہوگا پانی کو اتنا ہی وقت اس میں سے گزرنے میں لگے گا۔ اگر ڈیم کی دیواریں زیادہ موٹی ہوں گی تو پانی کے گزرنے کو لمبے عرصے تک روک کر رکھا جا سکے گا۔ اگر کائنات 10 کی قوت نما 50 کی نسبت سے پھولتی ہے تو ایک ہی بلبلے کے پاس اتنا وقت ہوگا کہ وہ افقی، چپٹے پن اور یک قطبی کے مسئلوں کو حل کر سکے۔ بالفاظ دیگر اگر پانی کو ڈیم میں کافی دیر تک روکا جا سکتا ہے تو کائنات اتنے عرصے کے لئے پھول سکتی ہے جس سے وہ چپٹی دکھائی دے اور یک قطبیوں کو رقیق بنا دے۔ لیکن یہ اب بھی ایک سوال اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے : کون سا ایسا نظام ہے جو افراط کو اس قدر بڑے مقدار میں جاری رکھ سکتا ہے؟ آخر کار یہ چمٹنے والا مسئلہ "با وقار اخراجی مسئلہ " کے نام سے مشہور ہو گیا۔ یعنی کہ کائنات کو کیسے اتنا وقت مل گیا کہ ایک بلبلے نے پوری کائنات کو پیدا کر دیا۔ برسوں تک کم از کم پچاس نظام تجویز کئے گئے تاکہ اس با وقار اخراجی مسئلہ سے جان چھڑائی جا سکے۔ ( یہ بہت ہی دھوکہ دینے کی حد تک ایک مشکل مسئلہ ہے۔ میں نے خود سے کافی حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ابتدائی کائنات میں معمولی سی افراط کی مقدار پیدا کرنا نسبتاً آسان ہے۔ لیکن جو بات مشکل ہے وہ یہ کہ افراط کو 10 کی قوت نما 50 کی مقدار سے پھلایا جائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی 10 کی قوت نما 50 کی قدر کو ہاتھ سے ڈال سکتا ہے لیکن یہ مصنوعی اور بناوٹی ہوگا۔) بالفاظ دیگر افراط کا عمل کافی حد تک یک قطبی، افقی اور چپٹے پن کے مسئلوں کا حل تجویز کرتا ہے لیکن یہ بات کوئی بھی درست طور پر نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے افراط کو شروع اور ختم کیا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -9
انتشاری افراط اور متوازی کائناتیں

طبیعیات دان اینڈری لنڈے اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ کوئی بھی با وقار اخراج کے مسئلہ پر راضی ہوگا۔ لنڈے تسلیم کرتے ہیں، "مجھے لگتا ہے کہ خدا کے لئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ایسے اچھے امکان کو استعمال کرکے اپنے کام کو آسان کرے۔"


بالآخر لنڈے نے افراط کا ایک نیا حل پیش کیا جو بظاہر ابتدائی پیش کئے گئے افراط کے نظریہ کی کئی خامیوں پر قابو پاتا نظر آتا ہے۔ اس مفروضے کے مطابق کائنات میں اٹکل حصّوں میں بے ساختہ ٹوٹ وقوع پذیر ہوتی ہے۔ ہر اس جگہ جہاں ٹوٹ ہوتی ہے وہاں ایک کائنات بن جاتی ہے جو تھوڑی سی پھولتی ہے۔ زیادہ تر اوقات افراط کی مقدار معمولی سی ہوتی ہے۔ لیکن کیونکہ یہ اٹکل طور پر وقوع پذیر ہوتا ہے لہٰذا کسی دفعہ ایک بلبلہ بن جاتا ہے جہاں افراط لمبے عرصے تک چلتا ہے جس کے نتیجے میں کائنات وجود میں آ جاتی ہے۔ اگر ہم اس کا منطقی نتیجہ نکالیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ افراط مسلسل اور ابدی ہے جہاں ہر وقت بگ بینگ وقوع پذیر ہو رہے ہوں گے اور ایک کائنات دوسری کائنات کو جنم دے رہی ہوگی۔ اس تصویر میں کائنات دوسری کائناتوں کو پیدا کرکے کثیر کائناتوں کا جنم دے رہی ہوگی۔


اس نظریئے میں ہماری کائنات کے اندر بھی کہیں بھی کوئی خود سے ٹوٹ ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں ایک پوری نئی کائنات بننا شروع ہو سکتی ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہوا کہ ہماری اپنی کائنات بھی شاید پچھلی کسی کائنات سے بنی ہو۔ ایک انتشاری افراطی نمونہ میں اگرچہ انفرادی کائنات تو نہیں لیکن کثیر کائناتیں ازلی ہوں گی۔ کچھ کائناتوں کا اومیگا کافی بڑا ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ بگ بینگ کے فوری بعد عظیم چرمراہٹ میں بدل کر غائب ہو جائیں گی۔ کچھ کائناتوں کا اومیگا بہت ہی معمولی ہوگا جس کے نتیجے میں کائنات ہمیشہ کے لئے پھیلتی رہے گی۔ بالآخر کثیر کائناتوں پر ان کائناتوں کا غلبہ ہوگا جن میں افراط کی مقدار زیادہ ہوگی۔


گزشتہ دور میں متوازی کائناتوں کا خیال ہم پر تھوپ دیا گیا۔ روایتی فلکیات، ذرّاتی طبیعیات میں پیش رفت کے ساتھ مل کر افراط کو پیش کر رہی ہے۔ کوانٹم نظریئے کے طور پر ذراتی طبیعیات یہ بیان کرتی ہے کہ کسی بھی غیر معمولی واقعات کے ہونے کا امکان محدود ہے۔ جیسا کہ متوازی کائناتوں کی تخلیق۔ لہٰذا جیسے ہی ہم اس امکان کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایک کائنات تخلیق ہو گئی تو ہم کثیر کائناتوں کی تخلیق کے امکانات کے غیر مختتم دروازے کھول دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ذرا اس بات کو دھیان میں لیں کہ کوانٹم کے نظریئے میں الیکٹران کو کیسے بیان کیا جا سکتا ہے۔ اصول عدم یقین کی وجہ سے الیکٹران کسی بھی ایک نقطہ کی طرف موجود ہونے کے بجائے مرکزے کے گرد تمام ممکنہ نقاط میں وجود رکھتے ہیں۔ یہ الیکٹران کا بادل جو مرکزے کے گرد موجود ہوتا ہے وہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ الیکٹران ایک ہی وقت میں کئی جگہ موجود ہو سکتے ہیں۔ تمام کیمیا کی بنیاد ہی اسی بات پر ہے جس کی وجہ سے الیکٹران کو سالموں کو باندھنے کی اجازت ملتی ہے۔ ہمارے سالمات کے تحلیل نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے گرد متوازی الیکٹران ناچتے رہتے ہیں اور ان کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھے رکھتے ہیں۔ اسی طرح سے کائنات ایک وقت میں الیکٹران سے بھی چھوٹی تھی۔ جب ہم کائنات پر کوانٹم کے نظریئے کا اطلاق کرتے ہیں تم ہمیں مجبوراً اس امکان کو تسلیم کرنا پڑ جاتا ہے کہ کائنات بیک وقت کئی حالت میں ہو سکتی ہے۔ بالفاظ دیگر ایک دفعہ جب ہم نے کوانٹم اتار چڑھاؤ کے دروازے کو کائنات پر اطلاق کرنے کے لئے کھول دیا تو ہمیں مجبوراً متوازی کائنات کے امکان کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پاس زیادہ چناؤ کا اختیار نہیں ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -10

عدم سے وجود پانے والی کائنات

شروع میں کوئی بھی کثیر کائناتوں کے عقیدے پر اعتراض کر سکتا ہے کیونکہ یہ ہمارے جانے پہچانے قوانین کی خلاف ورزی کرتی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ تحفظ برائے مادّہ اور توانائی یا بقائے مادّہ و توانائی۔ بہرحال مادّے اور توانائی کو بھی کل ملا لیا جائے تو وہ کائنات کے بہت ہی معمولی حصّے پر مشتمل ہے۔ کائنات میں مادّے کا مواد بشمول تمام ستارے، سیارے اور کہکشائیں کافی زیادہ اور مثبت ہے۔ بہرصورت قوّت ثقل میں ذخیرہ ہوئی توانائی منفی ہو سکتی ہے۔ اگر ہم مادّے کی وجہ سے مثبت توانائی کو قوّت ثقل کی وجہ سے حاصل ہونے والی منفی توانائی میں جمع کر دیں تو حاصل جمع صفر کے قریب ہوگا! ایک طرح سے ایسی کائناتیں آزاد ہوں گی۔ یہ خالی خلاء سے بغیر کسی مشکل کے نکل سکتی ہیں۔ ( اگر کائنات کی جیومیٹری بند ہوگی تو کائنات کی مکمل توانائی کو لازمی طور پر بالکل صفر ہونا چاہئے۔)


(اس بات کو سمجھنے کے لئے، ایک گدھے کے بارے میں تصوّر کریں جو زمین میں موجود ایک بڑے گڑھے میں گر گیا ہو۔ ہمیں اس گدھے کو گڑھے سے نکالنے کے لئے توانائی کو مجتمع کرنا ہوگا۔ ایک مرتبہ جب وہ باہر نکل کر کھڑا ہو جائے گا تو اس کی توانائی کو صفر مانا جائے گا۔ لہٰذا کیونکہ ہمیں گدھے کی توانائی کو صفر کرنے کے لئے اس میں توانائی کو ڈالنا پڑا تھا لہٰذا جب وہ گڑھے میں موجود تھا تو اس کی توانائی منفی تھی۔ اسی طرح سے کسی سیارے کو نجمی نظام سے نکالنے کے لئے توانائی کی ضرورت ہوگی۔ ایک دفعہ جب وہ خالی جگہ میں چلا گیا اس سیارے کی توانائی صفر ہو جائے گی۔ کیونکہ ہمیں ایک سیارے کو صفر توانائی کی حالت میں لانے کے لئے اس کو نجمی نظام سے باہر نکالنا ہوگا جس کے لئے توانائی کی ضرورت ہوگی، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب سیارہ نجمی نظام میں موجود ہوگا تو اس کے پاس منفی ثقلی توانائی ہوگی۔)


اصل میں ہماری جیسی کائنات کی تخلیق کے لئے مادّے کی انتہائی کم مقدار کی ضرورت ہوگی ، شاید ایک اونس جتنی مادّے کی مقدار کافی ہوگی۔ جیسا کہ گتھ کہتا ہے ، "کائنات ایک مفت کا کھانا ہے۔" عدم سے کائنات کی تخلیق کا سب سے پہلے نظریہ سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک کے ہنٹر کالج میں کام کرنے والے ایڈورڈ ٹرائی اون نے١٩٧٣ء میں نیچر میں چھپنے والے ایک مقالے میں دیا تھا۔ اس نے قیاس کیا کہ کائنات ایک ایسی چیز ہے " جو خلاء میں موجود خالی جگہ میں ہونے والے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے وقتاً فوقتاً تخلیق ہوتی رہتی ہے۔" (ہرچند کے کائنات کو تخلیق کرنے والے مادّے کی خالص مقدار صفر سے قریب ہی ہونی چاہئے، لیکن اس مادّے کو ناقابل تصوّر طور پر دبی ہوئی کثافت کی صورت میں ہونا چاہئے، جیسا کہ ہم بارہویں باب میں دیکھیں گے۔)


جیسا کہ پان کو کی دیومالائی کہانی میں بیان کیا گیا ہے یہ کائنات کی عدم سے تخلیق کی مثال ہے۔ ہرچند کائنات کی عدم سے تخلیق کو عام روایتی ذرائع سے ثابت نہیں کیا جا سکتا ، لیکن یہ کائنات سے متعلق کافی عملی سوالوں کے جواب کو حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے۔ مثال کے طور پر کائنات گھومتی کیوں نہیں ہے؟ ہمارے گرد ہر چیز گردش میں ہے ، لٹو، طوفان ، سیارے اور کہکشاؤں سے لے کر کوزار تک۔ گھومنا مادّے کی آفاقی خاصیت لگتی ہے۔ لیکن کائنات بذات خود نہیں گھوم رہی ہے۔ جب ہم فلک میں موجود کہکشاؤں کو دیکھتے ہیں تو ان کا مکمل گھماؤ زائل ہو کر صفر ہو جا تا ہے۔( یہ کافی خوش قسمتی کی بات ہے ، کیونکہ جیسا کہ ہم پانچویں باب میں دیکھیں گے کہ اگر کائنات گھومتی تو وقت میں سفر ایک عام بات ہوتی اور تاریخ کو لکھنا ناممکن سی بات ہوتی۔ کائنات کے نہ گھومنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہماری کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ کیونکہ خالی جگہ نہیں گھومتی لہٰذا ہم کوئی خالص گھماؤ اپنی کائنات میں نہیں دیکھتے۔ اصل میں تمام کثیر کائنات میں تمام کائناتی بلبلوں کا خالص گھماؤ صفر ہونا چاہئے۔


منفی اور مثبت بار کیوں ایک دم صحیح ایک دوسرے کو زائل کر دیتے ہیں؟ عام طور پر جب ہم کائنات پر حکمرانی کرنے والی قوّتوں کی بابت سوچتے ہیں تو عموماً ہم قوّت ثقل کے بارے میں برقی مقناطیسی قوّت سے زیادہ سوچتے ہیں باوجود اس کے کہ قوّت ثقل ، برقی مقناطیسی قوّت کے مقابلے میں کہیں زیادہ کمزور ہے۔ اس کی وجہ منفی اور مثبت بار کے درمیان زبردست توازن ہے۔ نتیجتاً کائنات کا خالص بار بھی صفر ہی نظر آتا ہے جس کی وجہ سے برقی مقناطیسی قوّت کے بجائے قوّت ثقل کائنات پر حکمرانی کرتی نظر آتی ہے۔


ہرچند ہم اس بات کو یوں ہی لیتے ہیں ، لیکن مثبت اور منفی بار کو ایک دوسرے کو زائل کرنے کے اثرات بہت ہی شاندار ہیں اور ان کی تجرباتی درستگی کو 10 کی قوت نما21 میں ایک کے بقدر جانچا جا چکا ہے۔(بلاشبہ بار میں مقامی طور پر فرق موجود ہوتا ہے اور اس ہی کی وجہ سے بجلی چمکتی ہے۔ لیکن کسی طوفان کے بار کو بھی مکمل طور پر جمع کریں گے تو وہ بھی صفر ہی ہوگا۔) اگر مثبت اور منفی بار میں صرف 0.00001 فیصد بھی فرق آپ کے جسم میں موجود ہو تو آپ فوری طور پر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور برقی مقناطیسی قوّت آپ کے جسم کے ٹکڑے خلاء کی بیکراں گہرائیوں میں دھکیل دے گی۔ اس قسم کے کی پہیلیوں کا جواب ہو سکتا ہے کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ کیونکہ خالی خلاء کا گھماؤ اور بار صفر ہوتا ہے، لہٰذا کوئی بھی نوزائیدہ کائنات جو اس سے پیدا ہوگی اس کا گھماؤ اور بار صفر ہی ہوگا۔


بظاہر ایک ہی اِستثنیٰ اس اصول کا نظر آتا ہے۔ وہ یہ کہ کائنات ضد مادّہ کے بجائے مادّے سے بنی ہے۔ کیونکہ مادّہ اور ضد مادّہ ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں (جس میں ضد مادّہ کے اوپر بالکل مادّے کا الٹ بار ہوتا ہے)، لہٰذا ہمیں یہ فرض کرنا ہوگا کہ بگ بینگ نے مادّے اور ضد مادّے کی برابر کی مقدار کو جنم دیا ہوگا۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ مادّہ اور ضد مادّہ آپس میں ملنے پر ایک دوسرے کو فنا کر دیں گے اور صرف گیما شعاعوں کی بوچھاڑ ہی باقی رہ سکے گی۔ لہٰذا اگر ایسا ہوتا تو ہمیں تو وجود میں ہی نہیں آنا چاہئے تھا۔ پھر ہم کیسے وجود میں آ گئے؟ اس کا حل روسی طبیعیات دان اینڈری سخاروف نے یہ تجویز کیا کہ اصل بگ بینگ مکمل طور پر متشاکل نہیں تھا۔ اس تشاکل میں مادّے اور ضد مادّے کے درمیان ہلکا سا فرق تھا ، لہٰذا مادّہ ، ضد مادّہ کے اوپر غالب آگیا جس کی وجہ سے ہماری ارد گرد نظر آنے والی کائنات کی تخلیق ہوئی۔( جو تشاکل بگ بینگ کے وقت ٹوٹا اس کو سی پی تشاکل کہتے ہیں ، وہ تشاکل جس میں بار کو الٹا گیا اور مادّے اور ضد مادّے کے ذرّات کی معدلات بھی بدل دی گئی۔) اگر کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے تو شاید کوئی بھی چیز مکمل طور پر خالی نہیں تھی بلکہ تشاکل تھوڑا سا ٹوٹا ہوا تھا، جس کی وجہ سے مادّے کا ضد مادّے کے اوپر ہلکا سا غلبہ ہو گیا تھا۔ تشاکل کے ٹوٹنے کی وجہ ابھی تک سمجھی نہیں جا سکی۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -11

دوسری کائناتیں کیسی ہوں گی ؟

کثیر کائناتوں کا خیال دل کو چھو لینے والا ہے کیونکہ اس بات کے لئے صرف ہمیں یہ فرض کرنا ہے کہ اٹکل ٹوٹ خود بخود واقع ہو رہی ہے۔ کسی بھی دوسرے مفروضوں کو فرض کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہر دفعہ جب ایک کائنات دوسری کائنات کو جنم دیتی ہے ، تو طبیعیاتی مستقلات اصل سے الگ ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں نئے قوانین طبیعیات وجود میں آتے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو بالکل نئی حقیقت ہر کائنات میں سے ظاہر ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ ایک تجسس سے بھرپور سوال اٹھاتا ہے: یہ کائناتیں دیکھنے میں کیسی لگتی ہوں گی؟ متوازی کائنات کو سمجھنے کا کلیہ اس بات میں ہے کہ پہلے یہ سمجھا جائے کہ کائنات کیسے تخلیق کی جاتی ہے۔ یعنی اس بات کا ادراک حاصل کیا جائے کہ خود بخود ہونے والی ٹوٹ کیسے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ جب ایک کائنات پیدا ہوتی ہے اور خود بخود ٹوٹ وقوع پذیر ہوتی ہے تو یہ بھی اصل نظریئے کے تشاکل کو توڑ دیتی ہے۔ ایک طبیعیات دان کے لئے خوبصورتی کا مطلب تشاکل اور سادگی ہے۔ اگر کوئی نظریہ خوبصورت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں زبردست تشاکل موجود ہے جو کافی سارے اعداد و شمار کو انتہائی جامع اور کفایت شعاری کے انداز میں بیان کر سکتا ہے۔ اس بات کو زیادہ درست طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک مساوات اس وقت خوبصورت سمجھی جائے گی جب اس میں اپنے اندر موجود حصّوں کو ایک دوسرے سے بدلنے کے باوجود کوئی فرق نہ آئے۔ قدرت میں چھپی ہوئی تشاکل کا ایک عظیم فائدہ یہ ہے کہ ہم اس مظہر کو بیان کر سکتے ہیں جو بظاہر مختلف ہیں لیکن اصل میں ایک ہی چیز کا دوسرا رخ ہیں اور ایک دوسرے سے تشاکل کی صورت میں جڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم برق اور مقناطیسیت کو ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز ہے کیونکہ ایک ایسا تشاکل موجود ہے جو ان کو میکسویل کی مساوات میں آپس میں ادل بدل سکتا ہے۔ اسی طرح سے آئن سٹائن نے ثابت کیا کہ اضافیت زمان کو مکان میں بالعکس بدل سکتی ہے کیونکہ وہ ایک ہی چیز یعنی کہ مکان و زمان کی ساخت کے دو حصّے ہیں ۔


برف کے گالے کا تصوّر کریں جو چھ اطراف سے تشاکل کے ساتھ ایک عجوبہ حیرت ہوتا ہے۔ اس کی خوبصورتی کی اصل روح یہ ہے کہ یہ ٦٠ درجے پر گھومنے سے تبدیل نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم کوئی بھی مساوات جو اس برف کے گولے کو بیان کرنے کے لئے لکھیں گے وہ اس حقیقت کو ایسا ہی بیان کرے گی، یعنی کہ ٦٠ درجے کے کسی بھی گھماؤ پر اس کو ویسا ہی رہنا چاہئے۔ ریاضی کی زبان میں ہم کہ سکتے ہیں کہ برف کے گولے کا تشاکل سی ٦ ہے۔


تشاکل کو قدرت کی مخفی خوبصورتی میں رمز بند کیا جا سکتا ہے۔ لیکن درحقیقت آج یہ تشاکل بہت ہی خوفناک طریقے سے ٹوٹی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کائنات کی چار عظیم قوّتیں ایک دوسرے سے بالکل ہی جداگانہ ہیں۔ اصل میں کائنات بے قاعدگیوں اور نقائص سے لبریز ہے؛ ہمارے ارد گرد اصل قدیمی تشاکل کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے اور ریزے موجود ہیں جن کو بگ بینگ نے پھیلا دیا تھا۔ لہٰذا متوازی کائناتوں کو سمجھنے کی کنجی "تشاکل کے ٹوٹنے " کو سمجھنے میں ہے۔ یعنی کہ بگ بینگ کے بعد یہ تشاکل کیسے ٹوٹے۔ طبیعیات دان ڈیوڈ گروس نے کہا ،" قدرت کا راز تشاکل میں ہے، لیکن جہاں کی زیادہ تر رنگینی اس تشاکل کے نظام کے ٹوٹنے سے ہی وجود میں آئی ہے۔" تصور کریں کہ ایک خوبصورت آئینہ ٹوٹ کر ہزاروں ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے۔ اصل آئینہ زبردست تشاکل رکھتا تھا۔ آپ اس آئینے کو کسی بھی زاویہ میں گھما لیں ، روشنی ایک ہی طرح سے منعکس ہوگی۔ لیکن ٹوٹنے کے بعد اصل تشاکل ٹوٹ جائے گا۔ درست طریقے سے اگر اس بات کا اندازہ لگا لیا گیا کہ کس طرح سے تشاکل ٹوٹا ہے تو ہمیں معلوم ہو جائے کہ شیشہ کس طرح سے چور چور ہوا ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -12

تشاکل کا ٹوٹنا
اس بات کو سمجھنے کے لئے رحم مادر میں بچے کے بننے کا سوچیں۔ حمل کے ابتدائی مراحل میں ، جنین خلیے کے مکمل کرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر خلیہ دوسرے خلیہ جیسا ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک ہی جیسا لگے گا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم اس کو کیسے گھمائیں۔ طبیعیات دان کہتے ہیں کہ جنین اس مرحلے میں او ٣ کا تشاکل رکھتا ہے۔ یعنی اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آپ اس کو کس زاویہ پر گھماتے ہیں یہ ہمیشہ ایک ہی جیسا نظر آئے گا۔

ہرچند کہ جنین خوبصورت اور نفیس ہوتا ہے لیکن یہ بیکار ہوتا ہے۔ ایک مکمل کرہ کے طور پر یہ کوئی کام سرانجام نہیں دے سکتا یا ماحول سے تعامل نہیں کرتا۔ بہرحال وقت کے ساتھ جنین اس تشاکل کو توڑتا ہے اور ایک ننھا سر اور پیٹ بنانا شروع کرتا ہے، جس سے یہ گیند کے سر جیسا نظر آنے لگتا ہے۔ ہرچند کہ اصل کروی تشاکل اب ٹوٹ چکا ہوتا ہے، جنین میں اب بھی تشاکل باقی ہوتا ہے ، اگر ہم اسے محور کے گرد گھمائیں تو وہ ایک ہی جیسا نظر آئے گا۔ لہٰذا اس میں سلنڈر نما تشاکل موجود ہوگا۔ ریاضی کی زبان میں کہیں تو او ٣ کا تشاکل او ٢ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ او ٣ کے تشاکل کے ٹوٹنے کا عمل بہرحال مختلف طریقے سے انجام پذیر ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ستارہ مچھلی میں نہ تو سلنڈر نما تشاکل ہوتا ہے اور نہ ہی دو طرفہ ؛ اس کے بجائے جب تشاکل ٹوٹتا ہے اس وقت یہ سی ٥ تشاکل کی حالت میں ہوتی ہے (جو ٧٢ درجہ تک گھومنے پر بھی تشاکل کو برقرار رکھتی ہے) نتیجتاً اس کو پانچ کونے والی ستارے جیسی صورت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ او ٣ کے تشاکل کے ٹوٹنے سے ہی ہم جاندار کے پیدا ہونے کی صورت کا تعین کر سکتے ہیں۔


اسی طرح سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کائنات ایک مکمل تشاکل کی حالت میں شروع ہوئی جہاں تمام قوّتیں ایک اکیلی قوّت میں متحد تھیں۔ کائنات بطور متشکل خوبصورت تھی لیکن بیکار تھی۔ ہماری جانی پہچانی حیات اس بے عیب حالت میں وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ حیات کے ممکن ہونے کے امکان کے لئے کائنات کے تشاکل کو ٹھنڈا ہوتے ہوئے ٹوٹنا ضروری تھا۔



تشاکل اور معیاری نمونہ

اسی طرح سے اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ متوازی کائناتیں دیکھنے میں کیسی ہوں گی ہمیں سب سے پہلے مضبوط، کمزور اور برقی مقناطیسی تعاملات کو سمجھنا ہوگا۔ مثال کے طور پر مضبوط قوّت تین کوارک پر مشتمل ہوتی ہے جس کو سائنس دان فرضی طور پر مختلف "رنگ" کا نام دیتے ہیں (مثال کے طور پر لال، سفید اور نیلا)۔ ہم چاہتے ہیں کہ مساوات اس وقت تبدیل نہ ہو جب ہم ان تین رنگوں کو ایک دوسرے سے تبدیل کریں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مساوات کی تشاکل SU3 کی ہے یعنی کہ جب ہم ان تین کوارک کو ایک دوسرے کی جگہ پر رکھیں تو مساوات پر کوئی فرق نہ پڑے۔ سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس SU3تشاکل کے ساتھ مضبوط تعاملات کی درست انداز میں تشریح کی جا سکتی ہے (جس کو کوانٹم لونی حرکیات کہتے ہیں)۔ اگر ہمارے پاس ایک دیو ہیکل سپر کمپیوٹر موجود ہو اور ہم صرف کوارک کی کمیت اور ان کے تعاملات سے شروع کریں تو نظری طور پر پروٹون اور نیوٹران اور تمام نیوکلیائی خصوصیات کا حساب لگا سکتے ہیں۔

اسی طرح سے فرض کریں کہ ہمارے پاس دو لیپٹون ، الیکٹران اور نیوٹرینو ہیں۔ اگر ہم ان کو مساوات میں ایک دوسرے سے بدل دیں تو ہمارے پاس SU2 کا تشاکل ہوگا۔ ہم روشنی کو بھی لے سکتے ہیں جس کے تشاکل کی جماعت 1 ہوگی۔ (یہ تشاکل کے گروہ کافی اجزا یا روشنی کی تقطیب کو ایک دوسرے سے بدلتے ہیں۔) لہٰذا کمزور اور برقی مقناطیسی تعاملات کے گروہ کا تشاکل SU3.SU1ہے۔ اگر ہم سادہ طور پر ان تینوں نظریوں کو ایک ساتھ چپکا لیں تو ہمیںSu3.SU2.SU1 کا تشاکل ملے گا۔ بالفاظ دیگر وہ تشاکل جو تین کوارک اور دو لیپٹون کو علیحدہ علیحدہ آپس میں ملا کر حاصل کیا گیا ہے (یاد رہے کہ کوارک کو لیپٹون کے ساتھ نہیں ملایا جا رہا ) اس کے نتیجے میں معیاری نمونے کا نظریہ حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا ہے کہ یہ ایک سب سے زیادہ کامیاب نظریہ ہے۔ یونیورسٹی آف مشی گن کے گورڈن کین کہتے ہیں، "ہر وہ چیز جو ہماری دنیا میں وقوع پذیر ہوتی ہے (قوّت ثقل کے اثر کے علاوہ) وہ معیاری نمونے کے ذرّات کے تعاملات کا نتیجہ ہے۔" اس کے کچھ اندازوں کو تجربہ گاہوں میں جانچا جا چکا ہے جو دس کروڑ میں سے ایک کے بقدر درست ثابت ہوئے۔( اصل میں بیس نویبل انعام ان طبیعیات دانوں کو دیے جا چکے ہیں جنہوں نے معیاری نمونے کے ٹکڑوں کو جوڑا ہے۔)


بالآخر مضبوط، کمزور اور برقی مقناطیسی قوّتوں کے نظریہ کو ملا کر ایک تشاکل میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایک عظیم وحدتی نظریہ جو آپس میں ان تمام پانچ ذرّات (تین کوارک اور دو لیپٹون ) کو آپس میں ایک دوسرے سے بیک وقت ادل بدل سکتا ہے۔ معیاری نمونے کے تشاکل کے برعکس ، عظیم وحدتی نظریہ کا تشاکل کوارک اور لیپٹون کو بھی باہم ملا سکتی ہے (اس کا مطلب یہ ہے کہ پروٹون انحطاط پذیر ہو کر الیکٹران میں بدل سکتے ہیں )۔ بالفاظ دیگر عظیم وحدتی نظریہ SU5کے تشاکل پر مبنی ہے (جس میں تمام پانچوں ذرّات کو (تین کوارک اور دو لیپٹون کو آپس میں ) ادلہ بدلہ جا سکتا ہے ) برسوں تک کافی دوسرے تشاکلی گروہوں کو بھی جانچا گیا۔ لیکن شاید SU5ہی وہ سب سے صغیر گروہ ہے جو اعداد و شمار میں درست بیٹھتا دکھائی دیتا ہے۔


جب خود بخود ٹوٹ وقوع پذیر ہوتی ہے، تو اصل عظیم وحدتی تشاکل کئی طریقوں سے ٹوٹ سکتی ہے۔ ایک طریقے میں عظیم وحدتی تشاکل ٹوٹ کر SU3.SU2.SU1١ میں بدل سکتی ہے جس میں ١٩ مقدار معلوم ہوتی ہیں جن کے ذریعہ ہمیں اپنی کائنات کی تشریح کرنی پڑتی ہے۔ اسی کے ذریعہ ہم کائنات کو جان سکتے ہیں۔ بہرحال اصل میں کافی طریقے ایسے ہیں جس میں یہ عظیم وحدتی نظریہ کے تشاکل کو توڑا جا سکتا ہے۔ دوسری کائناتوں کی بچنے والی تشاکل غالباً بالکل ہی مختلف ہوگی۔ کم از کم ان متوازی کائناتوں میں ان ١٩ مقدار معلوم کی مختلف قدریں ہو سکتی ہیں۔ بالفاظ دیگر مختلف قوّتوں کی طاقت مختلف کائناتوں میں الگ ہوگی جس کے نتیجے میں ان کائناتوں کی ساخت میں وسیع طور پر تبدیلی موجود ہوگی۔ مثال کے طور پر نیوکلیائی توانائی کو کمزور کرکے ستاروں کی تشکیل کو روکا جا سکتا ہے نتیجتاً کائنات ہمیشہ کے لئے بحر ظلمات میں ڈوبی رہے گی اور حیات ناممکن ہوگی۔ اگر نیوکلیائی قوّت کو بہت زیادہ طاقتور بنا دیا جائے تو ستارے اپنا ایندھن بہت تیزی سے خرچ کریں گے لہٰذا حیات کو پروان چڑھنے کا وقت ہی نہیں مل سکے گا۔


تشاکل کے گروہ بھی بدلے جا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک ذرّات کی ایک مکمل طور پر الگ کائنات کی تخلیق ہوگی۔ ان میں سے کچھ کائناتوں میں، ہو سکتا ہے کہ پروٹون پائیدار نہ ہوں اور تیزی سے ضد الیکٹران میں انحطاط پذیر ہو جائیں۔ ایسی کسی بھی کائنات میں ہماری جانی پہچانی حیات موجود نہیں ہو سکتی۔ بلکہ یہ تیزی کے ساتھ ایک حیات کے بغیر الیکٹران اور نیوٹرینو کے دھند میں ڈوب جائے گی۔ دوسری کائناتیں اس عظیم وحدتی نظریہ کے تشاکل کو دوسرے طریقے سے بھی توڑ سکتی ہیں۔ لہٰذا وہاں پروٹون جیسے پائیدار زیادہ ذرّات بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسی کسی بھی کائنات میں ایک عظیم عجیب کیمیائی عناصر کی بوقلمونی موجود ہوگی۔ ایسی کائناتوں میں حیات ہم سے زیادہ پیچیدہ ہو سکتی ہے جہاں زیادہ کیمیائی عناصر موجود ہوں گے جس سے ڈی این اے جیسے کیمیائی عناصر بن سکیں گے۔ ہم اصل عظیم وحدتی نظریئے کے تشاکل کو بھی توڑ سکتے ہیں لہٰذا ہمارے پاس ایک U1 سے زیادہ تشاکل ہو سکتا ہے۔ اس طرح سے روشنی کی ایک سے زیادہ اقسام موجود ہو سکتی ہیں۔ یہ یقینی طور پر ایک عجیب کائنات ہوگی جہاں لوگ صرف ایک طرح کی قوّت سے نہیں دیکھیں گے بلکہ ان کے پاس دیکھنے کی کافی ساری قوّتیں موجود ہوں گی۔ ایسی کسی بھی کائنات میں زندہ حیات کی آنکھوں میں بہت بڑی مقدار میں روشنی جیسی اشعاع کی مختلف اقسام کا سراغ لگانے والے وصول کنندہ ہوں گے۔


سینکڑوں بلکہ شاید لاتعداد طور پر ایسے طریقے موجود ہیں جن میں اس تشاکل کو توڑا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک حل ایک بالکل نئی طرح کی کائنات کو پیش کرتا ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -13​
متوازی کائناتوں کے قابل جانچ اندازے​

بدقسمتی سے کثیر کائناتوں کے نظریئے کی جانچ جس میں مختلف قوانین طبیعیات والی کائناتیں شامل ہوں ، کا ممکن ہونا سر دست ناممکن ہے۔ ان کائناتوں تک پہنچنے کے لئے ہمیں سریع از نور رفتار کی ضرورت ہوگی۔ لیکن افراطی نظریئے کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ یہ ہماری کائنات کی نوعیت کے بارے میں جو اندازے لگا تا ہے وہ قابل جانچ ہیں۔


کیونکہ افراطی نظریئے کوانٹم کا نظریہ ہے، لہٰذا اس کی بنیاد ہائیزن برگ کے اسی اصول عدم یقین پر رکھی گئی ہے جو کوانٹم کے نظریئے کی بنیاد ہے۔ (اصول عدم یقین کے مطابق آپ لامحدود درستگی کے ساتھ ناپ نہیں سکتے، مثلاً الیکٹران کی سمتی رفتار اور اس کے محل وقوع کو۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا کہ آپ کے آلات کتنے بھی حساس کیوں نہ ہوں ناپنے کے لئے ہمیشہ ایک غیر یقینی صورتحال موجود رہے گی۔ اگر آپ کسی الیکٹران کی سمتی رفتار کو جانتے ہیں ، تو آپ اس کا درست محل وقوع نہیں جان سکیں گے؛ اور اگر آپ اس کا محل وقوع جان گئے ہیں ، تو اس کی سمتی رفتار نہیں معلوم کر سکتے۔) اس بات کا اطلاق آگ کے اس گولے پر کریں جس نے بگ بینگ کی شروعات کی تھی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اصل کائناتی دھماکہ لامحدود طور پر "ہموار" نہیں ہو سکتا۔ (اگر یہ مکمل طور پر یکساں ہوتا توہم بگ بینگ سے خارج ہونے والے ذیلی جوہری ذرّات کے خط حرکت کو انتہائی درستگی کے ساتھ جانتے نتیجتاً اصول عدم یقین کی خلاف ورزی ہوتی۔) کوانٹم کا نظریہ ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اس اتار چڑھاؤ یا لہروں کے حجم کا حساب لگا سکیں جو اصل آگ کے گولے میں وقوع پذیر ہوئے تھے۔ اس کے بعد اگر ہم ان ننھی کوانٹم کی لہروں کو پھیلائیں تو ہمیں بگ بینگ کے ٣٨٠ ہزار برس کے بعد پس منظر کی خرد امواج نظر آنی چاہئیں۔ (اور اگر ہم ان لہروں کو آج کے دور تک پھیلا دیں تو ہمیں حالیہ کہکشانی جھرمٹوں کی تقسیم مل جائے گی۔ ہماری کہکشاں بذات خود ان ننھے اتار چڑھاؤ میں سے ایک میں سے شروع ہوئی۔)


شروع میں کوبی سیارچے سے حاصل کردہ اعداد و شمار پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالیں تو پس منظر کی اشعاع میں کسی قسم کا اتار چڑھاؤ نظر نہیں آتا۔ یہ بات کچھ طبیعیات دانوں کو پریشان کر دیتی ہے کیونکہ ایک مکمل ہموار پس منظر کی خرد امواج نہ صرف افراطی نظریئے بلکہ پورے کوانٹم کے نظریئے اور اصول عدم یقین کی خلاف ورزی ہے۔ ایسی کوئی بھی خلاف ورزی طبیعیات کو اس کی بنیادوں سے ہلا کر رکھ دے گی۔ بیسویں صدی میں کوانٹم نظریئے کی پڑی ہوئی بنیاد شاید جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دی جاتی۔ سائنس دانوں نے اس وقت سکون کا سانس لیا جب کوبی سیارچے سے حاصل کردہ مواد کو کمپیوٹر افزوں کرکے انتہائی عرق ریزی کے ساتھ اس کا مفصل جائزہ لیا گیا۔ اس جائزے سے نہایت ہی دھندلی لہروں کا معلوم ہوا۔ اس کو درجہ حرارت میں ایک ڈگری میں ایک لاکھ حصّے کے بقدر جانا گیا - یہ وہ مقدار ہے جو کم از کم طور پر کوانٹم کا نظریئے درکار کرتا تھا۔ یہ انتہائی صغیر لہریں افراط کے نظریئے کے ساتھ بالکل میل کھاتی تھیں۔ گتھ تسلیم کرتے ہیں ، " پس منظر کی خرد امواج کی شعاعوں نے تو مجھ پر اوس ہی ڈال دی تھی۔ اشارے اس قدر کمزور تھے کہ ان کا سراغ ١٩٦٥ء تک نہیں لگایا جا سکا۔ بہرکیف اب ان اتار چڑھاؤ کو ایک کے ایک لاکھویں حصّے تک ناپا جا رہا ہے۔ ہر چند کے جمع شدہ تجرباتی شواہد بتدریج افراطی نظریئے کی سچائی کی گواہی دے رہے تھے تاہم سائنس دانوں کو اب بھی اومیگا کی قدر کے پیچیدہ مسئلہ سے نمٹنا تھا۔ حقیقت میں اومیگا 1 کے بجائے 0.3 تھا۔
 
Top