متوازی دنیائیں (Parallel Worlds) از میچیو کاکو

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -14

سپرنووا – لمبڈا کی واپسی


سائنس دانوں نے جو اعداد و شمار کوبی سے حاصل کیے تھے وہ افراط کے نظریئے سے میل کھا رہے تھے، تاہم ماہرین فلکیات ١٩٩٠ء کے عشرے تک اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہے کیونکہ افراط کا نظریہ تجرباتی اعداد و شمار سے حاصل کردہ اومیگا سے سنگین انحراف کر رہا تھا۔ یہ لہر سب سے پہلے ١٩٩٨ء میں اس وقت اٹھی جب ایک غیر متوقع سمت سے اعداد و شمار حاصل ہوئے۔ ماہرین فلکیات ماضی میں ہونے والے کائناتی پھیلاؤ کا دوبارہ حساب لگا رہے تھے۔ بجائے ١٩٢٠ء میں ہبل کے قیقاؤسی متغیر کے طریقہ استعمال کے ، انہوں نے دور دراز میں ارب ہا نوری برس ماضی میں واقع ہونے والے سپرنووا کا تجزیہ کرنا شروع کر دیا۔ بالخصوص انہوں نے Ia جماعت کے سپرنووا کی تفتیش شروع کردی جو معیاری شمع کے لئے سب سے بہتر اجسام ہوتے ہیں۔

ماہرین فلکیات جانتے تھے کہ اس قسم کے سپرنووا کی تابانی ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ ( جماعت Ia سپرنووا کی تابانی اتنی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اس میں ہلکا سا بھی انحراف بہت ہی درستگی کے ساتھ ناپا جا سکتا ہے۔ جتنا زیادہ تاباں سپرنووا ہوگا اتنی ہی آہستگی کے ساتھ اس کی تابانی کم ہوتی چلی جائے گی۔) ایسے سپرنووا اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ثنائی نجمی نظام میں سفید بونا ستارہ اپنے رفیق ستارے کا مادّہ آہستہ آہستہ چوسنا شروع کرتا ہے۔ اپنے جڑواں ستارے کو ہڑپ کرتے ہوئے یہ سفید بونا ستارہ اپنی کمیت بڑھاتا رہتا ہے تاوقتیکہ اس کی کمیت ہمارے سورج کی کمیت کے 1.4 ہو جاتی ہے جو کسی بھی سفید بونے کی زیادہ سے زیادہ کمیت ہوتی ہے۔ جب وہ اس حد کو پار کرتا ہے، تو منہدم ہوتے ہوئے قسم Iaکے سپرنووا میں پھٹ پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے جو سپرنووا قسم Ia کو تابانی میں اس قدر یکساں بناتی ہے۔ یہ قدرتی امر ہے کہ سفید بونے ستارے اس کمیت کے پاس پہنچ کر قوّت ثقل کے زیر اصل خود سے اپنے آپ میں منہدم ہو جاتے ہیں۔ (جیسا کہ سبرا منین چندرا شیکھر نے ١٩٣٥ء میں ثابت کیا تھا کہ سفید بونے ستارے میں کچلنے والی قوّت ثقل ، الیکٹران کے درمیان موجود دفع کرنے والی قوّت کے ساتھ توازن میں آ جاتی ہے جس کو برقی پست دباؤ کہتے ہیں۔ اگر سفید بونے ستارے کی کمیت سورج کی کمیت کے 1.4 سے زائد ہو جاتی ہے تو قوّت ثقل دفع کرنے کی قوّت پر غالب آ جاتی ہے اور ستارہ پس جاتا ہے جس کی وجہ سے سپرنووا کا دھماکہ پیدا ہوتا ہے۔) کیونکہ دور دراز کے سپرنووا ابتدائی کائنات میں وقوع پذیر ہوتے ہیں ، لہٰذا ان کی جانچ کرکے ہم آج سے ارب ہا برس پہلے کائنات کے پھیلنے کی شرح کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔


ماہرین فلکیات کی دو علیحدہ جماعتوں نے اس بات کی تلاش کرنا شروع کی کہ ہرچند کائنات اب بھی پھیل تو رہی ہے لیکن اس پھیلاؤکو بتدریج آہستہ ہونا چاہئے۔ (ان میں سے ایک جماعت کی سربراہی سپرنووا کوسمولوجی پروجیکٹ کے سول پرل مٹر جبکہ دوسرے جماعت کی سربراہی ہائی زی سپرنووا سرچ ٹیم کے پی شمڈ کر رہے تھے )۔ ماہرین فلکیات کی کئی نسلیں نہ صرف ایمان رکھتی تھیں بلکہ ہر علم فلکیات کی جماعت میں اس کو پڑھایا بھی جاتا تھا کہ اصل پھیلاؤ کی شرح بتدریج کم ہو رہی ہے۔


کم از کم ایک درجن کے قریب ہر سپرنووا کی جانچ کے بعد ان کو معلوم ہوا کہ ابتدائی کائنات تیز ی سے نہیں پھیل رہی ہے جیسا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا (یعنی کہ سپرنووا کی سرخ منتقلی اور ان کی سمتی رفتار اس سے کہیں کم تھی جتنا کہ سمجھا جا رہا تھا )۔ جب ابتدائی کائنات کے پھیلاؤ کی شرح کا موازنہ آج کی شرح سے کیا تو یہ نتیجہ نکلا کہ دور حاضر میں پھیلاؤ کی شرح کافی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں ایک انتہائی حیرت انگیز نتیجہ پر پہنچیں جس نے ان کو ہلا کر رکھ دیا ، اصل میں تو کائنات اسراع پذیر تھی۔ انھیں یہ جان کر کافی مایوسی ہوئی کہ کسی بھی قدر کے اومیگا کے عدد کو اس میں بٹھانا ناممکن تھا۔ صرف ایک ہی طریقہ تھا جس میں عدد کو صحیح طریقے سے بٹھایا جا سکتا تھا کہ ان میں لمبڈا کو دوبارہ سے شامل کیا جائے، یعنی کہ خالی خلاء کی وہ توانائی جس کو آئن سٹائن نے سب سے پہلے متعارف کروایا تھا۔ مزید براں یہ کہ انھیں معلوم ہوا کہ اومیگا ایک غیر معمولی اور بڑے لمبڈا سے چھپ گیا ہے جس کی وجہ سے کائنات ڈی سٹر کی بیان کردہ کائنات کے مطابق پھیل رہی ہے۔ دونوں جماعت الگ الگ اس نتیجے پر پہنچیں لیکن وہ اپنے نتائج کو چھپوانے میں تذبذب کا شکار تھیں کیونکہ تاریخی طور پر لمبڈا کی قدر کو صفر مانا جاتا تھا۔ کٹ پیک آبزرویٹری کے جارج جکوبی نے کہا ، " لمبڈا ہمیشہ سے غیر منطقی خیال رہا ہے، اور کوئی بھی پاگل جو یہ کہہ سکے کہ یہ صفر کے برابر نہیں ہے پاگل سمجھا جاتا تھا۔"


شمڈ یاد کرتا ہے ، " میں اپنا سر نفی میں ہلا رہا تھا، لیکن ہم نے ہر چیز جانچی۔۔۔۔۔ میں لوگوں کو بتانے میں تذبذب کا شکار تھا، کیونکہ مجھے پورا یقین تھا کہ وہ مجھے تاراج کر دیں گے۔" بہرحال جب دونوں جماعتوں نےاپنے نتائج کو ١٩٩٨ء میں عام کیا ، تو اعداد و شمار کے پہاڑوں کا ڈھیر جو انہوں نے لگایا تھا اس کو کوئی بھی آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ لمبڈا جو آئن سٹائن کا "گناہ عظیم" تھا جس کو جدید طبیعیات نے تقریباً فراموش کر دیا تھا ، وہ نوے سال بعد گمنامی کے اندھیرے میں سے نکل کر واپس لوٹ آیا تھا!

طبیعیات دان گنگ رہ گئے تھے۔ پرنسٹن کے انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے ایڈورڈ ویٹن نے کہا ، " میں جب سے طبیعیات کی دنیا میں ہوں اس وقت سے لے کر اب تک کے یہ سب سے عجیب تجرباتی نتائج تھے۔" جب اومیگا کی قدر0.3 کو لمبڈا کی قدر 0.7 میں جمع کرتے ہیں تو ہمارے پاس 1 کی پوری قدر آ جاتی ہے ، جو افراط کے نظریہ کے اندازے کے عین مطابق ہے۔ جس طرح سے آ ڑا کٹا معمہ ہماری آنکھوں کے سامنے حل ہو کر بنتا ہے اسی طرح سے ماہرین تکوینیات اس کو افراط کے نظریہ کا کھویا ہوا حصّہ دیکھ رہے تھے۔ یہ خالی خلاء سے خود سے نکل کر سامنے آگیا تھا۔


ان نتائج کی تصدیق ڈبلیو میپ کے سیارچے نے بھی شاندار طور پر کردی۔ اس سے حاصل کردہ نتائج نے بتایا کہ لمبڈا کی نسبتی توانائی یا تاریک توانائی کائنات میں موجود تمام مادّے اور توانائی کا ٧٣ فیصد ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ ٹکڑا آڑے کٹے معمے کا غالب ٹکڑا بن گیا ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چوتھا باب -15

کائنات بننے کے مراحل

ڈبلیو میپ کا سب سے شاندار اور عظیم کام شاید یہ ہے کہ اس نے سائنس دانوں کو اس بات کا اعتماد بخشا کہ وہ علم کونیات کے معیاری نمونے کی جانب راست قدم اٹھا رہے ہیں۔ ہرچند اس نظریئے میں اب بھی کافی خلاء موجود ہے ، فلکی طبیعیات دان معیاری نمونے کا ایک واضح خاکہ اعداد و شمار کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ وہ تصویر جس کے ٹکڑوں کو ملا کر ہم اب جوڑ رہے ہیں وہ اس بات کی کہانی بیان کر رہی ہے کہ کائنات کچھ مختلف امتیازی مراحل میں ٹھنڈی ہوئی۔ ان مراحل کے عبوری دور تشاکل اور قدرت کی طاقت کو ٹوٹتے ہوئے بیان کر رہے ہیں۔ مندرجہ ذیل وہ کائنات کی ارتقا کے وہ مراحل اور سنگ میل ہیں جن کو ہم دور حاضر میں جانتے ہیں:


١۔ 10-43 سیکنڈ سے پہلے - پلانک کا دور

سردست ابھی پلانک کے دور کے بارے میں کوئی واضح چیز سامنے نہیں ہے۔ پلانک توانائی (1019 ارب الیکٹران وولٹ) پر ، قوّت ثقل اتنی ہی طاقتور تھی جتنی کہ دوسری کوانٹم کی قوّتیں۔ نتیجتاً کائنات کی چاروں قوّتیں ممکنہ طور پر ایک "فوق قوّت" کی صورت میں متحد تھیں۔ شاید کائنات ایک بے عیب عدم کے مرحلے یا پھر خلاء کی اضافی خالی جہت سے وجود میں آئی ہے۔ وہ پراسرار تشاکل جس نے تمام چار قوّتوں کو ملایا تھا ، وہ ممکنہ طور پر فوق تشاکل تھا ( فوق تشاکل کے بارے میں مزید جاننے کے لئے ساتواں باب ملاحظہ کیجئے )۔ معلوم نہیں کس وجہ سے وہ تشاکل جس نے تمام چار قوّتوں کو ایک وحدت میں پرو کر رکھا ہوا تھا بگڑ گیا، اور ننھے بلبلے بننے شروع ہو گئے، ہماری پیدا ہونے والی کائنات شاید اٹکل پچو ہونے والے کوانٹم اتار چڑھاؤ کی وجہ سے بنی۔ اس بلبلے کا حجم پلانک کی لمبائی جتنا تھا یعنی کہ 10-33 سینٹی میٹر۔

٢۔ 10-43 عظیم وحدتی نظریاتی دور

تشاکل کا ٹوٹنا شروع ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں تیزی سے پھولتا بلبلہ پیدا ہو رہا تھا۔ بلبلے کے پھیلنے کے ساتھ چار بنیادی قوّتیں ایک دوسرے سے تیزی سے الگ ہو گئیں۔ قوّت ثقل دوسری تین قوّتوں سے الگ ہونے والی سب سے پہلی قوّت تھی جس نے الگ ہونے کے ساتھ ہی پوری کائنات میں صدماتی لہروں کو پھیلا دیا تھا۔ اصل تشاکل چھوٹے چھوٹے تشاکلات شاید عظیم وحدتی تشاکلSU5میں ٹوٹ گئی تھی۔ باقی بچ جانے والی مضبوط، کمزور اور برقی مقناطیسی تعاملات اب بھی اس عظیم وحدتی تشاکل میں یکجا تھے۔ کائنات ایک تصوّر سے بھی زیادہ قدر سے پھیل رہی تھی شاید اس مرحلے میں پھیلاؤ 1050 کی رفتار سے ہو رہا تھا۔ یہ اس قدر تیز رفتار پھیلاؤ کیوں ہو رہا تھا اس کی وجوہات اب تک نہیں سمجھی جا سکیں ہیں بہرحال اس میں خلاء روشنی کی رفتار سے بھی تیز ی سے پھیل رہی تھی۔ درجہ حرارت 1032 ڈگری تھا۔

٣۔ 10-34 سیکنڈ – افراط کے دور کا خاتمہ

درجہ حرارت گر کہ 1027 تک جا پہنچا تھا۔ اس وقت مضبوط قوّت دوسری دونوں قوّتوں سے الگ ہو گئی تھی۔ (عظیم وحدتی نظریئے کے تشاکل کا گروہSU3.SU2.SU1 میں ٹوٹ چکا تھا)۔ افراط کا دور ختم ہو چکا تھا ، اب کائنات فرائیڈ مین کے معیار کے مطابق پھیل رہی تھی۔ کائنات گرم پلازما کے ملغوبہ پر مشتمل تھی جس میں آزاد کوارک، گلوآن اور لیپٹون موجود تھے۔ آزاد کوارک کثیف ہو کر آج نظر آنے والے پروٹون اور نیوٹران میں بدل گئے۔ ہماری کائنات اس وقت بھی کافی چھوٹی تھی ، یعنی کہ ہمارے موجودہ نظام شمسی کے حجم کی۔ مادّہ اور ضد مادّہ ایک دوسرے کی تعدیم کر رہا تھا ، بہرکیف مادّے کی ننھی سی مقدار(ایک ارب میں سے ایک حصّہ) ضد مادّہ کے مقابلے میں بچ گئی۔ جس کے نتیجے میں وہ مادّہ وجود میں آیا جس کو آج ہم اپنے آس پاس ارد گرد میں دیکھتے ہیں۔ (یہی وہ توانائی کی مقدار ہے جس کو ہم آئندہ چند آنے والے برسوں میں ذرّاتی اسراع گر یعنی لارج ہیڈرون کولائیڈر میں دہرا سکیں گے۔)

٤۔ تین منٹ - مرکزوں کی تشکیل

درجہ حرارت اتنا گر گیا تھا کہ مرکزوں کو شدید حرارت کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہونے سے بچا سکے۔ ہائیڈروجن ، ہیلیئم میں بدل رہی تھی ( جس کے نتیجے میں حالیہ ٧٥ فیصد ہائیڈروجن اور ٢٥ فیصد ہیلیئم کی نسبت پیدا ہوئی جس کا مشاہدہ ہم اب کرتے ہیں )۔ تھوڑی سی لیتھیم بھی بن گئی تھی، لیکن اس سے بھاری عناصر میں ہونے والا گداختی عمل رک گیا تھا کیونکہ پانچ ذرّات والے مرکزے بہت زیادہ غیر پائیدار تھے۔ کائنات غیر شفاف تھی ، جہاں روشنی آزاد الیکٹران کی صورت میں بکھری ہوئی تھی۔ یہی وہ اس قدیمی آگ کے گولے کے خاتمے کا دور تھا۔

٥۔ تین لاکھ اسی ہزار برس - جوہروں کی تشکیل

درجہ حرارت تین ہزار ڈگری کیلون تک گر گیا تھا۔ جوہر تشکیل پا رہے تھے کیونکہ الیکٹران حرارت کی وجہ سے ختم ہوئے بغیر مرکزے کے قریب جمع ہو رہے تھے۔ فوٹون اب بغیر جذب ہوئے سفر کرنے میں آزاد تھے۔ یہی وہ اشعاع ہے جس کو کوبی اور ڈبلیو میپ نے ناپا ہے۔ ایک دور میں غیر شفاف اور پلازما پر مشتمل کائنات اب شفاف ہو گئی تھی۔ آسمان فلک بجائے سفید ہونے کے اب تاریک ہو گیا تھا۔

٦۔ ایک ارب سال بعد - ستاروں کی پیدائش

درجہ حرارت ١٨ ڈگری تک گر گیا تھا۔ کوزار، کہکشائیں اور کہکشانی جھرمٹ کثیف ہونا شروع ہو گئے تھے ، جس کی اہم وجہ اصل آگ کے گولے میں پیدا ہونے والی کوانٹم کی لہریں تھیں۔ ستاروں نے ہلکے عناصر جیسے کاربن، آکسیجن اور نائٹروجن کو "پکانا" شروع کر دیا تھا۔ پھٹتے ہوئے ستارے لوہے سے بھاری عناصر کو آسمانوں میں اگل رہے تھے۔ یہ وہ دور دراز کا دور ہے جس کی تفتیش ہبل خلائی دوربین کر سکتی ہے۔

٧۔ چھ ارب پچاس کروڑ برس - ڈی سٹر کا پھیلاؤ

فرائیڈ مین کا پھیلاؤ بتدریج ختم ہو گیا اور کائنات نے اسراع پذیر ہونا شروع کر دیا اور ایک اسراع کے دور میں داخل ہو گئی جس کو ڈی سٹر کا پھیلاؤ کہتے ہیں۔ اس اسراع کے پیچھے ایک پراسرار ضد ثقل کی قوّت موجود ہے جس کو اب ابھی نہیں سمجھا جا سکا ہے۔

٨۔ تیرہ ارب ستر کروڑ برس - دور حاضر

حال۔ درجہ حرارت گر کر 2.7 ڈگری تک ہو گیا ہے۔ ہم دور حاضر کی کہکشاؤں، ستاروں اور سیاروں والی کائنات کو دیکھ سکتے ہیں۔ کائنات اب ابھی بے قابو انداز میں اسراع پذیر ہے۔

مستقبل

ہرچند آج کے دور میں افراطی نظریئے میں ہی وہ قوّت ہے جو کائنات کے بارے میں اس طرح کی وسیع اور پراسرار چیزوں کو بیان کر سکے۔ تاہم اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ نظریہ درست ہے۔ (مزید براں ، اس کے مقابلے پر دوسرے نظریوں کو بھی پیش کیا گیا جیسا کہ ہم ساتویں باب میں دیکھیں گے۔) سپرنووا سے حاصل ہونے والے نتائج کو گرد اور سپرنووا کے دوران ہونے والی غیر معمولی چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جانچا اور دوبارہ سے دیکھا جائے گا۔ "ثقلی موجیں" جو بگ بینگ شروع ہونے کے موقع پر پیدا ہوئی تھیں وہی بطور ناقابل تردید ثبوت افراط کے نظریئے کے صحیح یا غلط ہونے کا حتمی فیصلہ سنائے گی۔ یہ ثقلی موجیں، پس منظر کی خرد امواج کی طرح اب بھی پوری کائنات میں گونج رہی ہوں گی اور ان کا اصل میں ثقلی سراغ رساں کے ذریعہ سراغ بھی لگایا جا سکتا ہے جیسا کہ ہم نویں باب میں دیکھیں گے۔ افراط کا نظریہ ان ثقلی موجوں کی نوعیت کے بارے میں مخصوص پیش گوئیاں کرتا ہے اور ان ثقلی سراغ رسانوں کو ان کو لازمی تلاش کرنا ہوگا۔

لیکن افراط کے دور کی ایک حیران کن پیش گوئی براہ راست نہیں جانچی جا سکتی، اور وہ "نوزائیدہ کائنات" کا وجود جو کثیر کائناتوں کی کائنات میں موجود ہوگی۔ ان کثیر کائناتوں میں سے ہر ایک میں تھوڑے سے مختلف قسم کے قوانین طبیعیات لاگو ہوں گے۔ کثیر کائنات کے مکمل مضمرات کا اندازہ لگانے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ پہلے اس بات کو سمجھا جائے کہ افراط کا نظریہ آئن سٹائن کی مساوات اور کوانٹم دونوں نظریوں کے عجیب عواقب کا بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ آئن سٹائن کے نظریئے میں ہمیں ممکنہ طور پر کثیر کائناتوں کے وجود کا امکان ملتا ہے جبکہ کوانٹم کے نظریئے سے ہمیں وہ ممکنہ ذرائع حاصل ہوتے ہیں جس میں ہم ان کائناتوں کے درمیان ربط قائم کر سکیں۔ اور ایک نئے ڈھانچے کی صورت میں جس کو ہم ایم کا نظریہ کہتے ہیں ہمارے پاس شاید ایک حتمی نظریئے آ جائے جو متوازی کائناتوں اور وقت کے سفر جیسے سوالات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل کر دے۔


یہ وہ ذیلی جوہری ذرّات ہیں جو معیاری نمونے میں شامل ہیں، جو اب تک بنیادی ذرّات کا سب سے کامیاب نظریہ ہے۔ یہ کوارک سے بنتا ہے ، جو پروٹون اور نیوٹران ، لیپٹون جیسا کہ الیکٹران اور نیوٹرینو، اور دوسرے کافی ذرّات کو بناتے ہیں۔ دھیان رہے کہ نمونے کے نتائج میں ذیلی جوہری ذرّات کی تین ایک جیسی نقول حاصل ہوتی ہیں۔ کیونکہ معیاری نمونہ قوّت ثقل کی وضاحت نہیں کرتا (اور بظاہر عجیب لگتا ہے)، نظری طبیعیات دان یہ بات محسوس کرتے ہیں کہ یہ حتمی نظریہ نہیں ہو سکتا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 1


ہر منہدم ہوتے بلیک ہول کے اندر شاید ایک نئی پھیلتی ہوئی کائنات کا تخم ہوتا ہے۔


- سر مارٹن ریس


روزن سیاہ کسی اور جگہ جانے کا شگاف ہو سکتے ہیں۔ ایسا قیاس کیا جاتا ہے کہ اگر ہم روزن سیاہ میں جا سکتے تو ہم کہیں اور نکلتے، کائنات کے کسی مختلف حصّے اور مختلف دور میں۔۔۔ روزن سیاہ حیرت کے جہاں کے دروازے ہو سکتے ہیں۔ لیکن کیا وہاں کوئی ایلس یا سفید خرگوش موجود ہیں؟


- کارل ساگان


عمومی اضافیت ایک کاٹھ کے گھوڑے کی طرح ہے۔ اوپر سے دیکھنے پر نظریہ نہایت شاندار نظر آتا ہے۔ صرف چند سادہ سے مفروضوں کا استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی کائنات کے عمومی خدوخال بشمول روشنی کے خم اور بگ بینگ کو حاصل کر سکتا اور ان سب کو حیرت انگیز صحت کے ساتھ ناپ سکتا ہے۔ اگر ہم ابتدائی کائنات میں کونیاتی مستقل کو ہاتھ سے ڈال دیں تو افراط زدہ دور بھی اس میں صحیح طرح سے بیٹھ جاتا ہے۔ یہ حل ہمیں کائنات کی پیدائش اور موت دونوں کے نہایت پراثر نظریات کو پیش کرتا ہے ۔



لیکن اس کاٹھ کے گھوڑے کے اندر ہمیں ہر قسم کے بھوت اور بد روح گھات لگائے ملیں گے جس میں روزن سیاہ ، روزن سفید، ثقب کرم یہاں تک کہ ٹائم مشین بھی ملیں گی جو ہماری عقل عامہ سے باہر کی بات ہے۔ یہ بے قاعدگیاں اس قدر عجیب سمجھی جاتی ہیں کہ آئن سٹائن خود یہ سمجھتا تھا کہ ان کو قدرتی طور پر کبھی بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ یہ بے قاعدگیاں آسانی سے نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔ یہ عمومی اضافیت کا ایک لامحالہ حصّہ ہیں۔ اصل میں یہ تو عظیم انجماد کا سامنے کرنے والی شعوری مخلوق کے لئے راہ نجات ہیں۔

لیکن شاید ان بے قاعدگیوں میں سب سے عجیب بے قاعدگی ممکنہ متوازی کائناتوں اور ان کو جوڑنے والے دروازوں کی ہے۔ اگر ہم اس تمثیل کو دوبارہ یاد کریں جس میں شیکسپیئر نے کہا تھا کہ دنیا ایک سیج ہے ، تو عمومی اضافیت اس میں چور دروازہ ہونے کے ممکن ہونے کو تسلیم کرتی ہے۔ لیکن یہ چور دروازہ ہمیں زیر زمین لے جانے کے بجائے ایک ایسی متوازی سیج پر لے جائے گا جو اصل کی طرح ہی ہوگی۔ حیات کی سیج کو ایک مختلف مراحل کی سیج تصوّر کریں ، جس میں ہر مرحلہ دوسرے مرحلے کے اوپر موجود ہے ۔ ہر سیج پر اداکار اپنی سطریں پڑھ کر سیٹ کے پاس گھوم رہا ہے اور یہ سمجھ رہا ہے کہ اس کی سیج ہی وہاں موجود ہے ، اور مختلف حقیقتوں کے ممکنہ وجود سے بے خبر ہے۔


بہرحال اگر ان کا سامنا کسی دن چور دروازے سے ہو گیا اور وہ اس میں داخل ہو گئے، تب وہ اپنے آپ کو ایک بالکل ہی نئے جہاں میں پائیں گے ، جہاں نئے قوانین، نئے اصول اور نیا اسکرپٹ موجود ہوگا۔


لیکن اگر لامحدود کائناتیں وجود رکھ سکتی ہیں ، تو کیا ان میں سے کوئی ایک جو مختلف قوانین طبیعیات کے تابع ہو حیات کو پروان چڑھا سکتی ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو آئزک ایسی موف نے اپنے کلاسک سائنسی قصّے " دا گاڈ دیم سیلفس " میں اٹھایا ہے۔ وہ اس ناول میں ایک ایسی متوازی کائنات کا بیان کرتا ہے جہاں کی نیوکلیائی قوّت ہم سے مختلف ہوتی ہے۔ نئے حیرت انگیز امکانات کا دروازہ اس وقت کھل جاتا ہے جب طبیعیات کے مروجہ قوانین متروک ہو جاتے ہیں اور نئے قوانین کا اجراء ہوتا ہے۔


کہانی شروع ہی ٢٠٧٠ء سے ہوتی ہے جب ایک سائنس دان فریڈرک ہالم اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ عام ٹنگسٹن -١٨٦ عجیب طرح سے ایک پراسرار پلوٹونیم - ١٨٦ میں بدل جاتا ہے جس میں کافی سارے پروٹون ہوتے ہیں اور اس کو غیر پائیدار ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہ عجیب پلوٹونیم - ١٨٦ بڑی مقدار میں توانائی کو الیکٹران کی صورت میں فراہم کر سکتا ہے لہٰذا اس کو قابو میں کرکے مفت کی زبردست توانائی کی مقدار کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مشہور زمانہ ہالم الیکٹران پمپ کی ایجاد ہوتی ہے جو کرہ ارض پر توانائی کے مسئلہ کو حل کر دیتا ہے اور یہ کافی امیر ہو جاتا ہے۔ لیکن ہر چیز کی قیمت تو دینی ہی ہوتی ہے۔ اگر کافی مقدار میں اجنبی پلوٹونیم - ١٨٦ ہماری کائنات میں داخل ہوتا تو عام طور پر پائی جانے والی نیوکلیائی توانائی کی شدت میں بھی اضافہ ہو جاتا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گداختی عمل میں توانائی کا اخراج زیادہ ہوتا اور سورج زیادہ روشن ہو کر آخر کار پھٹ پڑتا نتیجتاً تمام نظام شمسی تباہ ہو جاتا!


اسی دوران متوازی کائنات کی خلائی مخلوق کا نقطہ نظر کچھ اور تھا ۔ ان کی کائنات مر رہی تھی ۔ ان کی کائنات میں نیوکلیائی توانائی کافی مضبوط تھی جس کا مطلب تھا کہ ستاروں میں موجود ہائیڈروجن انتہائی بلند شرح سے تیزی سے جل رہی تھی اور ستارے جلد ہی ختم ہونے والے تھے۔ انہوں نے ایک تبادلے کا نظام بنایا جہاں بیکار پلوٹونیم - ١٨٦ کو ہماری کائنات میں بھیج دیا اور قیمتی ٹنگسٹن -١٨٦ کو یہاں سے لے گئے ، جس کے نتیجے میں انہوں نے پوزیٹرون پمپ بنا لئے اور اس طرح سے اپنی مرتی ہوئی کائنات کو بچایا۔ ہرچند کہ ان کو اس بات کا احساس تھا کہ ہماری کائنات میں نیوکلیائی توانائی میں اضافہ ہو جائے گا جس کی وجہ سے ستارے پھٹ پڑیں گے لیکن انہوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی۔


لگتا تھا کہ زمین تباہی کی طرف روانہ ہے۔ انسانیت ہالم کی مفت کی توانائی کی رسیا ہو گئی تھی اور اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ سورج جلد ہی پھٹ جائے گا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ایک دوسرا سائنس دان انتہائی اختراع پسند حل کے ساتھ نمودار ہوا۔ اس کو پورا یقین تھا کہ دوسری کائناتوں کا وجود ہے۔ اس نے کامیابی کے ساتھ ایک طاقتور جوہری تصادم گر میں کچھ تبدیلیاں کیں تاکہ خلاء میں ایک سوراخ بنا کر اپنی کائنات کو دوسری کائناتوں سے جوڑ دے۔

دوسری کائناتوں کو تلاش کرتا ہوا بالآخر وہ ایک ایسی کائنات کو ڈھونڈ نکالتا ہے جو خالی خولی ہوتی ہے بس وہاں پر ایک کائناتی انڈہ ہوتا ہے جس میں لامتناہی مقدار میں توانائی ہوتی ہے لیکن یہاں پر نیوکلیائی توانائی کمزور ہوتی ہے۔

اس کائناتی انڈے سے توانائی کو حاصل کرکے وہ نئے خالی پمپ کو بنا سکتا تھا اور بیک وقت ہماری کائنات میں موجود نیوکلیائی قوّت کو کمزور کر سکتا تھا اس طرح سے سورج پھٹنے سے بچ سکتا تھا۔ لیکن ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اس نئی متوازی کائنات کی نیوکلیائی قوّت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ پھٹ پڑتی ہے۔ لیکن وہ اس پھٹنے کو کونیاتی انڈے سے بچہ نکلنے کی تعبیر لیتا ہے جس کے نتیجے میں ایک نیا بگ بینگ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اصل میں وہ ایک طرح سے نئی بننے والی کائنات کے لئے دائی کا کام سرانجام دیتا ہے۔


ایسی موف کا سائنسی قصّہ ان چند کہانیوں میں سے ہے جس نے اصل میں نیوکلیائی طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے ، حرص کے پجاریوں ، حیرت کے ماروں اور راہ نجات حاصل کرنے والوں کی کہانی کو بیان کیا ہے۔ ایسی موف نے یہ بالکل درست قیاس لگایا کہ ہماری کائنات میں نیوکلیائی قوّت میں ہونے والی ذرا سی بھی تبدیلی کے انتہائی خوفناک نتائج سامنے آئیں گے۔ یعنی اگر نیوکلیائی قوّت کی طاقت میں اضافہ ہوگا تو ہماری کائنات کے ستارے زیادہ روشن ہو کر پھٹ پڑیں گے ۔ یہ ایک ایسا ناگزیر سوال اٹھاتا ہے کہ آیا دوسری کائناتوں میں مروجہ قوانین طبیعیات الگ ہوں گے؟ اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں اس میں داخل ہونے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہوگی؟

ان سوالات کو سمجھنے کے لئے بلاشبہ ہمیں سب سے پہلے ثقب کرم(وارم ہول)، منفی توانائی اور ان پراسرار اجسام کو سمجھنا ہوگا جن کا نام روزن سیاہ یا بلیک ہول ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 2
بلیک ہول یا روزن سیاہ

١٧٨٣ء میں برطانوی ماہر فلکیات جان مچل وہ پہلا شخص تھا جس نے اس بات کو سوچا کہ اس وقت کیا ہوگا جب کوئی ستارہ اتنا بڑا ہو جائے کہ روشنی خود سے اس ستارے سے فرار حاصل نہ کر سکے۔ وہ جانتا تھا کہ ایسے کسی بھی جسم کی فراری سمتار یا فراری سمتی رفتار ضرور ہونی چاہئے۔ فراری سمتی رفتار سے مراد اس جسم کی جاذبی قوّت کو شکست دینے کی قوّت ہے۔ (مثال کے طور پر زمین کی فراری سمتی رفتار ٢٥ ہزار میل فی گھنٹہ ہے، یہ وہ رفتار ہے جو کسی بھی راکٹ کو زمین کی کشش ثقل سے جان چھڑانے کے لئے درکار ہوتی ہے۔) مچل نے سوچا کہ اس وقت کیا ہوگا جب ستارہ اس قدر ضخیم ہو جائے کہ اس کی فراری سمتی رفتار ، روشنی کی رفتار جتنی ہو جائے گی۔ اس کی قوّت ثقل اس قدر زیادہ ہوگی کہ کوئی بھی چیز اس سے راہ فرار حاصل نہیں کر سکتی ہوگی یہاں تک کہ روشنی بھی نہیں اور ایسا کوئی بھی جسم خارجی دنیا کو سیاہ نظر آئے گا۔ ایسے کسی بھی جسم کو خلاء میں دیکھنا ناممکن ہوگا کیونکہ وہ مرئی ہی نہیں ہوگا۔

مچل کے تاریک ستارے کے سوال کو ڈیڑھ صدی تک بھلا دیا گیا۔ لیکن اس مسئلے نے دوبارہ ١٩١٦ء میں اس وقت دوبارہ سر اٹھایا جب ایک جرمن طبیعیات دان کارل شوارز چائلڈ نے ضخیم ستارے کے لئے آئن سٹائن کی مساوات کا بالکل ٹھیک حل نکالا۔ یہ طبیعیات دان جرمنی کی فوج کو اپنی خدمات فراہم کر رہا تھا ۔ آئن سٹائن سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شوارز چائلڈ توپوں کی گھن گرج میں رہتے ہوئے اس کی اتنی مشکل مساوات کو حل بھی کر سکتا ہے ۔ اس کو یہ جان کر بھی کافی حیرت ہوئی کہ شوارز چائلڈ کے حل کے کچھ مخصوص خواص ہیں۔ دور سے شوارز چائلڈ کا حل ایک عام ستارے کی قوّت ثقل بھی بیان کرتا تھا ۔ آئن سٹائن نے برق رفتاری کے ساتھ اس کے حل کو سورج کے ارد گرد موجود قوّت ثقل کو معلوم کرنے کے لئے اور اپنے اولین حاصل کردہ اعداد و شمار کی درستگی کو معلوم کرنے کے لئے استعمال کیا جس میں اس نے کچھ اندازے استعمال کئے تھے۔ اس کام کے لئے وہ شوارز چائلڈ کے لئے ابد تک شکرگزار تھا۔ لیکن شوارز چائلڈ نے دوسرے مقالے میں بیان کیا کہ ایک بہت ہی ضخیم ستارے کے گرد ایک خیالی "جادوئی کرہ" اپنی عجیب و غریب خصائص کے ساتھ موجود ہوگا۔ یہ "جادوئی کرہ" ایک ایسی جگہ ہوگی جہاں سے واپس نہیں پلتا جا سکتا۔ کوئی بھی جو اس جادوئی کرہ سے گزرے گا وہ فی الفور ستارے کی زبردست کشش کی وجہ سے اس میں گر جائے گا اور پھر کبھی نظر نہیں آئے گا۔ یہاں تک کہ روشنی بھی اگر اس کرہ میں گر جائے گی وہ بھی راہ فرار حاصل نہ کر پائے گی۔ شوارز چائلڈ کو یہ اندازہ نہیں ہوا کہ وہ آئن سٹائن کی مساوات کے ذریعہ دوبارہ سے مچل کا تاریک ستارہ دریافت کر رہا ہے۔ اس نے پھر اس جادوئی کرہ کے نصف قطر کا حساب لگایا (جس کو شوارز چائلڈ کا نصف قطر کہتے ہیں)۔

ہمارے سورج جتنے کسی بھی جسم کے لئے یہ کرہ لگ بھگ ٣ کلو میٹر (٢ میل کے آس پاس ) کا ہوگا۔ (زمین کے لئے یہ شوارز چائلڈ کا نصف قطر ایک سینٹی میٹر جتنا ہوگا۔) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی سورج کو دبا کر دو میل کے قریب کر دے تب وہ ایک تاریک ستارہ بن جائے گا اور ہر اس جسم کو نگل لے گا جو اس نقطہ کے پاس پھٹکے گا جہاں سے واپسی کا سفر ناممکن ہے۔ تجرباتی طور پر جادوئی کرہ کا وجود کوئی مسئلہ ہی نہیں پیدا کرتا کیونکہ سورج جیسی کسی بھی چیز کو دبا کر دو میل تک کرنا ناممکن امر ہے۔ کوئی بھی ایسا نظام موجود نہیں ہے جو اس طرح کا تاریک ستارہ بنا سکے۔ لیکن نظری طور پر یہ تو تباہی تھی۔ ہرچند کہ آئن سٹائن کا عمومی نظریئے اضافیت شاندار نتائج فراہم کرتا ہے ، مثلاً سورج سے ہو کر آتی ہی ستاروں کی روشنی میں ہونے والے خم کو ، لیکن یہ نظریئے عقل عامہ کے خلاف اس وقت دکھائی دیتا ہے جب آپ اس جادوئی کرہ کے پاس پہنچتے ہیں جہاں پر قوّت ثقل لامحدود ہو جاتی ہے۔

ایک ولندیزی طبیعیات دان جوہانس دروستے نے تو ایک اور پاگل کر دینے والا حل پیش کیا تھا۔ اضافیت کے مطابق روشنی کی کرن جب کسی ایسے جسم کے پاس سے گزرتی تو وہ لہراتی ہے ۔ اصل میں تو شوارز چائلڈ کے نصف قطر کے 1.5 گنا میں تو روشنی کی رفتار اس ستارے کے گرد گول گھومے گی۔ دروستے نے اس بات کو بھی پیش کیا کہ عمومی اضافیت کے مطابق ان ضخیم ستاروں کے گرد وقت میں خلل خصوصی اضافیت سے کہیں زیادہ برا پڑتا ہے۔ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ جب ہم اس جادوئی کرہ کے قریب پہنچیں گے، تو کوئی دور دراز کا شاہد ہماری گھڑیوں کے چلنے کی رفتار کو آہستہ سے آہستہ ہوتا دیکھے گا یہاں تک کہ ہماری گھڑیاں اس وقت رک جائیں گی جب ہم اس جسم سے ٹکرائیں گے۔ اصل میں تو باہر کا شاہد یہ سمجھا گا کہ جب ہم اس جادوئی کرہ کے پاس پہنچیں گے تو ہم وقت میں جمے ہوئے نظر آئیں گے۔ کیونکہ وقت بذات خود اس نقطہ پر آکر رک جائے گا، کچھ طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایسی عجیب اجسام کبھی بھی قدرت میں اپنا وجود نہیں رکھیں گے۔ بات اس وقت مزید دلچسپ ہو جاتی ہے جب ایک ریاضی دان ہرمن ویل نے یہ بتایا کہ اگر کوئی اس جادوئی کرہ کے اندر کی کھوج کر سکے تو ایسا لگتا ہے کہ اس میں دوسری جانب ایک اور کائنات موجود ہے۔

یہ تمام باتیں اس قدر حیرت انگیز تھیں کہ خود آئن سٹائن ان پر یقین نہیں رکھتا تھا۔١٩٢٢ء میں پیرس میں ہونے والی ایک کانفرنس میں آئن سٹائن سے ریاضی دان جاکس ہیڈامرڈ نے پوچھا کہ اس وقت کیا ہوگا جب یہ "وحدانیت" اصل میں حقیقی ہو، یعنی کہ اگر قوّت ثقل شوارز چائلڈ کے نصف قطر پر پہنچ کر لامحدود ہو جائے۔ آئن سٹائن نے جواب دیا، " یہ نظریئے کے لئے واقعی میں ایک تباہی ہوگی؛ اور یہ بات استدلال سے کہنا بہت مشکل ہوگی کہ طبیعی طور پر کیا ہوگا کیونکہ کلیے کا اطلاق مزید نہیں ہوگا۔" آئن سٹائن اس کو بعد میں ہیڈا مرڈ کی تباہی سے بیان کرتا تھا۔ لیکن اس کے خیال میں تاریک ستارے کے گرد موجود تمام تنازع صرف قیاسی ہی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ کسی نے بھی ایسا عجیب جسم نہیں دیکھا، اور شاید وہ وجود بھی نہیں رکھتے، یعنی کہ وہ غیر طبیعی ہیں ۔ مزید براں کوئی بھی ایسے اجسام کے پاس پہنچنے کے بعد اس میں گر کر کچل کر موت کے قریب پہنچ جائے گا۔ اور کیونکہ کوئی بھی اس جادوئی کرہ کو کبھی بھی نہیں پار کر سکتا (کیونکہ وقت تھم جائے گا) لہٰذا کوئی بھی اس متوازی کائنات میں کبھی بھی داخل نہیں ہو سکتا۔

١٩٢٠ء کے عشرے میں طبیعیات دان اس مسئلہ میں تذبذب کا شکار تھے۔ لیکن ١٩٣٢ء میں بگ بینگ کے بانی جارج لیمیترے نے ایک اہم دریافت کر لی۔ اس نے بتایا کہ جادوئی کرہ صرف ایسی وحدانیت ہی نہیں ہے جہاں صرف قوّت ثقل لامحدود ہو جاتی ہے؛ یہ تو ریاضیاتی سراب ہے جو ریاضی کے بدقسمت غلط مفروضوں کو لے کر لگایا گیا ہے۔ ( اگر کوئی مختلف محدد کا سیٹ یا متغیر لے کر اس جادوئی کرہ کی جانچ کرے تو وحدانیت غائب ہو جاتی ہے۔)

اس کے نتائج کو لے کر، ماہرین تکوینیات ایچ پی رابرٹسن نے دروستے کے اصل نتائج کو دوبارہ سے جانچا جہاں وقت جادوئی کرہ کے پاس جا کر تھم جاتا ہے۔ اس کو معلوم ہوا کہ وقت تو صرف ایک شاہد کے لئے ہی ٹھرا ہوا ہوگا جو خلائی جہاز کو اس کرہ میں داخل ہوتے دیکھ رہا ہوگا۔ خلائی جہاز میں بیٹھے ہوئے مسافر کے لئے تو صرف ایک سیکنڈ کے کچھ ہی حصّے میں قوّت ثقل چوس کر اس کو جادوئی کرہ میں کھینچ لے گی۔ بالفاظ دیگر بدقسمت خلائی مسافر جیسی ہی جادوئی کرہ کے پاس پہنچے گا وہ فی الفور کچل کے موت سے ہمکنار ہو جائے گا، لیکن ایک خارجی شاہد کے لئے یہ دیکھنے کے لئے دسیوں ہزار برس لگ جائیں گے۔

یہ بہت ہی اہم نتیجہ تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ جادوئی کرہ قابل پہنچ تھا اور اب اس کو صرف ریاضی کی جادوگری کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب تو اس بات کو سنجیدگی سے لینا ہی پڑے کہ اس وقت کیا ہوگا جب کوئی اس جادوئی کرہ سے صحیح سلامت گزر گیا۔ طبیعیات دانوں نے پھر اس بات کا حساب لگانا شروع کر دیا کہ اس جادوئی کرہ میں سے گزر کر کرنے والا سفر کس طرح کا ہوگا۔ (آج ہم اس جادوئی کرہ کو واقعاتی افق کہتے ہیں۔ افق اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں تک کوئی دیکھ سکتا ہے۔ یہاں یہ اس دور دراز کے نقطہ کی جانب اشارہ کرتی ہے جہاں تک روشنی سفر کر سکتی ہے۔ واقعاتی افق کا نصف قطر شوارز چائلڈ کا نصف قطر کہلاتا ہے۔)

جیسے ہی آپ خلائی جہاز میں بیٹھ کر بلیک ہول سے نزدیک ہونا شروع ہوں گے، آپ دیکھیں کہ روشنی کو بلیک ہول نے ارب ہا برسوں پہلے مقید کرلیا تھا۔ اس وقت سے ہی اس نے روشنی کو قید کرنا شروع کر دیا تھا جب وہ پہلی بار بنا تھا۔ بالفاظ دیگر بلیک ہول کی زندگی کی تاریخ آپ پر آشکار ہو جائے گی۔ آپ جیسے قریب ہوں گے، مد و جذر کی موجیں بتدریج آپ کے جسم کے جوہروں کواس وقت تک ریزہ ریزہ کرتی رہیں گی جب تک کہ آپ کے جسم کے جوہروں کے مرکزے لمبی سویوں جیسے نہ ہو جائیں۔ واقعاتی افق کے ذریعہ سفر یک طرفہ ٹکٹ کی طرح ہے، کیونکہ قوّت ثقل اس قدر طاقتور ہوگی کہ آپ اس کے سیدھے قلب میں کھنچے چلے جائیں گے، جہاں کچل کر آپ کی موت ہو جائے گی۔ ایک دفعہ واقعاتی افق کے اندر داخل ہو جائیں، اس کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ (واقعاتی افق سے نکلنے کے لئے آپ کو روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرنا پڑے گا۔ جو ناممکن ہے۔)

١٩٣٩ء میں آئن سٹائن نے ایک مقالہ لکھا جس میں اس نے کوشش کی کہ ایسے کسی تاریک ستارے کو رد کر دے، اس نے دعویٰ کیا کہ یہ قدرتی عمل کے نتیجے میں نہیں بن سکتے۔ اس نے شروعات اس مفروضے سے کی کہ ستارے بھنور نما گرد، گیس اور غبار کے مجموعہ کی گھومتی ہوئی کروی قرص سے بنتے ہیں، جو بتدریج قوّت ثقل کے زیر اثر آپس میں قریب ہوتی رہتی ہے۔ پھر اس سے بیان کیا کہ یہ گھومتے ہوئے ذرّات کبھی بھی شوارز چائلڈ کے نصف قطر میں منہدم نہیں ہوں گے۔ لہٰذا یہ کبھی بلیک ہول نہیں بن سکتے۔ بہت ہوا تو یہ گھومتی ہوئی ذرّات کی قرص صرف شوارز چائلڈ کے 1.5 گنا نصف قطر کو حاصل کر سکتی ہے لہٰذا کبھی بھی بلیک ہول نہیں بن سکیں گے۔ (شوارز چائلڈ سے 1.5 گنا کم ہونے پر روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرنا ہوگا جو کہ ناممکن ہے۔)" اس تفتیش کا اہم پہلو ہمیں واضح ادراک فراہم کرتا ہے کہ آیا کیوں 'شوارز چائلڈ کی وحدانیت' حقیقی دنیا میں طبیعی طور پر وجود نہیں رکھتی۔" آئن سٹائن لکھتا ہے۔

آرتھر ایڈنگٹن بھی بلیک ہول کے بارے میں گہرا بغض رکھتا تھا اور پوری زندگی اس شش و پنچ ہی میں رہا کہ وہ کبھی وجود نہیں پا سکتے۔ ایک دفعہ اس نے کہا تھا کہ "قدرت کا ایسا قانون ہونا چاہئے جو ستارے کو اس طرح کے عجیب برتاؤ سے روک سکے۔"

مزے دار بات یہ ہے کہ اسی برس جے رابرٹ اوپن ہائیمر (جس نے بعد میں جوہری بم بنایا تھا) اور اس کے شاگرد ہارٹلینڈ سینڈر نے یہ ثابت کیا کہ حقیقت میں تو بلیک ہول ایک دوسرے نظام کے تحت بن سکتے ہیں۔ قوّت ثقل کے زیر اثر منہدم ہوتے گھومتے ہوئے گرد و غبار کے ذرّات کے بجائے انہوں نے شروعات ایک بوڑھے ستارے سے کی ، ایک سورج سے ٤٠ گنا زیادہ ضخیم ستارے سے جو اپنا نیوکلیائی ایندھن جلا چکا تھا اور قوّت ثقل کے تحت سکڑتا ہوا شوارز چائلڈ کے نصف قطر کے اندر ٨٠ میل تک کا ہو گیا ہو، اس صورت میں ایسا ستارہ لازمی طور پر منہدم ہوتے ہوئے ایک بلیک ہول میں بدل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف بلیک ہول کا بننا ممکن ہے بلکہ وہ کہکشاں میں موجود ارب ہا ستاروں کی آخری منزل بھی ہو سکتے ہیں۔ (ممکن ہے کہ دھماکے کے اس خیال نے ہی اوپن ہائیمر کو جوہری بم میں استعمال ہونے والے نظام کے بارے میں چند سال بعد تحریک دی ہو۔)
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 3
آئن سٹائن روزن کا پل


ہرچند کے آئن سٹائن سمجھتا تھا کہ بلیک ہول کا قدرتی طور پر پایا جانا ناقابل تصوّر ہے، لیکن مزے دار طور پر اس نے یہ بات ثابت کی کہ بلیک ہول کسی کی سوچ سے بھی زیادہ عجیب ہو سکتے ہیں۔ یہ ثقب کرم کے امکان کو پیدا کرتے ہیں جو بلیک ہول کے قلب میں موجود ہوگا۔ ریاضی دان اس کو کثیر ربطی خلاء کہتے ہیں۔ طبیعیات دان ان کو ثقب کرم کہتے ہیں کیونکہ زمین میں کسی کرم (کیچوے یا کیڑے) کی طرح کھودتے ہوئے یہ دو نقاط کے درمیان ایک مختصر راستہ بناتے ہیں۔ ان کو اکثر ابعادی راستے یا جہتی گزرگاہیں بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ اس کو جو بھی کہہ لیں ایک دن یہ بین العباد سفر کا ذریعہ بنیں گے۔

ثقب کرم کے خیال کو مقبول بنانے والا سب سے پہلا شخص چارلس ڈوجسن ہے جو لوئس کیرول کے قلمی نام سے لکھتا تھا۔ "آئینے میں سے " نامی ناول میں اس نے آئینے کو بطور ثقب کرم متعارف کروایا، جو آکسفورڈ کے گاؤں کو طلسمی دنیا سے ملاتا تھا۔ بطور پیشہ ور ریاضی دان اور آکسفورڈ کی معزز شخصیت کے ڈوجسن ان کثیر ربطی خلاء سے واقف تھا۔ تعریف کے لحاظ سے کثیر ربطی خلاء وہ ہوتی ہے جس میں رسی ایک نقطے سے زیادہ سکڑ نہیں سکتی۔ عام طور پر کوئی بھی گراہ بغیر کسی مشکل کے نقطہ پر منہدم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ہم ڈونَٹ کا تجزیہ کریں تو یہ ممکن ہوگا کہ اس کی سطح پر ایک رسی کو رکھ سکیں تاکہ وہ ڈونَٹ کے سوراخ سے نکل کر اس کے گرد لپٹ جائے گا۔ اگر ہم حلقے کو آہستہ سے چھوڑیں ، تو ہم دیکھیں گے کہ یہ ایک نقطہ پر جا کر نہیں دب رہا ، زیادہ سے زیادہ وہ سوراخ کے گھیر سے لپٹ کر اس سے چپک سکتا ہے۔

ریاضی دان خوش تھے کہ انہوں نے ایک ایسا جسم ڈھونڈ لیا ہے جو خلاء کو بیان کرنے کے لئے مکمل طور پر ناکارہ ہے۔ لیکن ١٩٣٥ء میں آئن سٹائن اور اس کے شاگرد ناتھن روزن نے ثقب کرم کو جہان طبیعیات میں متعارف کروایا۔ وہ بلیک ہول کے حل کو بنیادی ذرّات کے نمونے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آئن سٹائن کو نیوٹن کی طرح یہ خیال کبھی بھی پسند نہیں رہا تھا کہ کسی ذرّے کی قوّت ثقل لامتناہی ہو جائے۔ آئن سٹائن کے خیال میں اس وحدانیت کو ختم ہونا چاہئے تھا کیونکہ یہ انتہائی نامعقول بات تھی۔


آئن سٹائن اور روزن کے پاس الیکٹران (جو عام طور پر ایک ایسے ننھے نقطے کے طور پر جانا جاتا ہے جس کی کوئی ساخت نہیں ہوتی)کو بطور بلیک ہول پیش کرنے کا ایک انوکھا خیال تھا۔ اس طرح سے عمومی اضافیت کو کوانٹم کی پراسرار دنیا کو ایک عظیم وحدتی نظریئے کے طور پر بیان کر سکتی ہے۔ انہوں نے معیاری بلیک ہول کے نمونے سے شروع کیا جو ایک لمبے گلدان کی طرح تھا جس کی لمبی گردن ہوتی ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے اس کی گردن کو کاٹ کر دوسرے پلتے ہوئے بلیک ہول کے حل سے ضم کر دیا ۔ آئن سٹائن کے لئے یہ عجیب لیکن ہموار ہئیت بلیک ہول کے ماخذ کی وحدانیت سے پاک تھی جو ممکنہ طور پر ایک الیکٹران کی طرح کام کر سکتا تھا۔


بدقسمتی سے آئن سٹائن کا الیکٹران کو بطور بلیک ہول پیش کرنے کا خیال ناکامی سے دوچار ہوا۔ لیکن آج ماہرین کونیات اس بات کا قیاس کرتے ہیں کہ آئن سٹائن اور روزن کا پل دو کائناتوں کے درمیان ایک راستہ کا کام سرانجام دے سکتا ہے۔ ہم کسی بھی کائنات میں اس وقت تک آزادی سے گھوم سکتے ہیں جب تک کسی بلیک ہول میں نہ جا گریں جہاں پر ہم فوری طور پر بلیک ہول سے ہوتے ہوئے دوسری طرف (سفید شگاف سے ) نکل جائیں گے ۔


آئن سٹائن کے لئے اس کی مساوات کا کوئی بھی حل کسی ممکنہ طبیعی جسم سے ضرور میل کھائے گا بشرطیکہ اس کی شروعات کسی طبیعی معقول چیز سے ہوئی ہو۔ اس کو اس بات کی کوئی پریشانی نہیں تھی کہ کوئی بلیک ہول میں گر کر کسی متوازی کائنات میں نکل جائے۔ مدو جذر کی قوّت قلب میں لامحدود ہوگی اور کوئی بھی بد قسمت جو بلیک ہول میں گرے گا اس کے جسم تک کے جوہر جاذبی میدان کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ (آئن سٹائن اور روزن کا پل وقتی طور پر کھلتا ہے ، اور اس قدر تیزی سے بند ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی جسم اس کو پار کرکے اس دوران دوسری طرح نہیں پہنچ سکتا۔) آئن سٹائن سمجھتا تھا کہ ثقب کرم ہو تو سکتے ہیں لیکن کوئی زندہ ہستی اس کو کبھی نہیں پار کر سکتی اور نہ ہی ہمیں اپنی کہانی بیان کرنے کے لئے زندہ نہیں رہ سکتی ہے۔

آئن سٹائن روزن کا پل۔ بلیک ہول کے قلب میں، ایک "حلق" ہے جس نے مکان و زمان کو ایک دوسری کائنات یا کائنات میں موجود کسی دوسرے نقطے سے جوڑا ہوا ہے۔ ہرچند کے ایک ساکن بلیک ہول سے گزر کر سفر کرنا مہلک ہوگا، گھومتے ہوئے بلیک ہولز میں حلقے جیسی وحدانیت ہوتی ہے اس طرح کہ حلقے کو پار کرنا آئن سٹائن اور روزن کے پل کی بدولت ممکن ہوتا ہے۔ بہر کیف یہ اب بھی محض قیاس آرائیاں ہی ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 4

چکر کھاتے بلیک ہول
١٩٦٣ء میں یہ خیال بدلنا شروع اس وقت ہوا جب نیوزی لینڈ کے ریاضی دان' روئے کر 'نے آئن سٹائن کی مساوات کا صحیح حل ایک گھومتا ہوا بلیک ہول نکال لیا جو شاید مرتے ہوئے ستارے کے بارے میں سب سے ٹھیک جواب دیتا تھا ۔ زاویائی حرکت کی بقا کے نتیجے میں جب ستارے قوّت ثقل کے زیر اثر منہدم ہوتا ہے، تو وہ تیزی سے گھومتا ہے۔ (یہی وجہ ہے کہ گھومتی ہوئی کہکشاں پھول پھرکی کی طرح نظر آتی ہیں اور اسکیٹر کے کندھے سکیڑنے کے بعد تیز رفتاری سے گھومنے کی وجہ بھی یہ ہی ہے۔ ایک گھومتا ہوا ستارہ نیوٹران کے چھلوں کی صورت میں منہدم ہو سکتا ہے ، لیکن یہ چھلے مرکز گریز قوّت کی بدولت پائیدار رہیں گے کیونکہ مرکز گریز قوّت ان کو باہر کی جانب دھکیل کر قوّت ثقل کی طاقت کو زائل کر رہی ہوگی۔) ایسے کسی بھی بلیک ہول کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اگر آپ کر کے بلیک ہول میں گر گئے تو آپ کچل کر مر نہیں جائیں گے بلکہ آپ آئن سٹائن اور روزن کے پل سے گزرتے ہوئے دوسری متوازی کائنات میں نکل جائیں گے۔ "اس جادوئی چھلے سے گزریں اور فی الفور ہی آپ ایک مکمل الگ طرح کی کائنات میں موجود ہوں گے جہاں نصف قطر اور کمیت منفی ہوگی!"' کر' نے خوش ہو کر اپنے رفیق کو اس وقت بتایا جب اس نے یہ بات دریافت کی تھی۔

بالفاظ دیگر ایلس کے آئینہ کا فریم کر کے گھومتے ہوئے چھلے جیسا ہی تھا۔ لیکن 'کر' کے چھلے سے کیا جانے والا سفر یکطرفہ سفر ہوگا۔ اگر کوئی' کر' کے چھلے کے پاس موجود واقعاتی افق سے ہوتا ہوا گزرے گا، تو قوّت ثقل اتنی نہیں ہوگی کہ کچل کر ہلاک کر دے، بہرکیف اتنی ضرور ہوگی کہ دوبارہ واقعاتی افق سے واپس آنے سے روک دے۔ ('کر 'کے بلیک ہول کے اصل میں دو واقعاتی افق ہوں گے۔ کچھ لوگوں کے قیاس کے مطابق اصل میں مسافر کو متوازی کائنات کو اپنی کائنات سے جوڑنے کے لئے 'کر' کے دو چھلوں کی ضرورت ہوگی تاکہ دو طرفہ سفر ممکن ہو سکے۔) ایک طرح سے 'کر' کے بلیک ہول کا موازنہ بلند عمارت میں موجود بالا بر سے کیا جا سکتا ہے ۔ بالا بر آئن سٹائن اور روزن کا پل ہے، جو مختلف منزلوں کو جوڑتا ہے، جہاں ہر منزل ایک الگ کائنات ہے۔ اصل میں اس عمارت میں لامحدود منازل ہیں اور ہر ایک منزل دوسری سے الگ ہے۔ لیکن بالا بر کبھی بھی نیچے نہیں جا سکتا۔ اس میں صرف اوپر جانے کا بٹن ہی موجود ہے۔ ایک دفعہ آپ نے ایک منزل یا کائنات کو چھوڑ دیا تو واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا کیونکہ آپ ایک واقعاتی افق کو پار کر گئے ہوں گے۔


طبیعیات دان' کر' کے چھلوں کی پائیداری پر اختلاف رکھتے ہیں۔ کچھ حساب بتاتے ہیں کہ اگر کوئی اس چھلے سے گزرنے کی کوشش کرے گا، تو اس کی شخصیت بلیک ہول کو ناہموار کر دے گی اور دروازہ بند ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر روشنی کی کرن کر کے بلیک ہول سے گزرے گی، تو اس کی توانائی میں بلیک ہول کے قلب میں گرتے ہوئے توانائی کی مقدار زبردست انداز سے بڑھ جائے گی اور وہ نیلے طیف کی طرف منتقل ہو جائے گی یعنی وہ اپنا تعدد ارتعاش اور توانائی بڑھا لے گی۔ جب وہ واقعاتی افق کی طرف پہنچے گی تو اس میں اس قدر توانائی ہوگی جو آئن سٹائن اور روزن کے پل کو پار کرنے والے کو ہلاک کرنے کے لئے کافی ہوگی۔ یہ خود اپنے ثقلی میدان کو پیدا کر لے گی جو اصل بلیک ہول میں داخل اندازی کرے گی، جس کے نتیجے میں شاید گزرگاہ بند ہو جائے۔

بالفاظ دیگر اگرچہ چند طبیعیات دان 'کر' کے بلیک ہول کو سب سے زیادہ حقیقی تصوّر کرتے ہیں کیونکہ یہ حقیقت میں متوازی کائناتوں کو ایک دوسرے سے جوڑ سکتا ہے لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ پل میں داخل ہونا کس قدر محفوظ ہوگا یا راستہ کس قدر پائیدار ہوگا۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 5

قابل مشاہدہ بلیک ہول


بلیک ہول کے عجیب و غریب خواص کی وجہ سے ١٩٩٠ء کے عشرے کے آخر تک ان کے وجود کو سائنسی قصوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ "دس برس پہلے، اگر آپ کو کہکشاں کے مرکز میں موجود کوئی ایسی چیز مل جاتی جس کو آپ بلیک ہول سمجھتے تو آدھے لوگ آپ کو باؤلا سمجھتے۔،" ١٩٩٨ء میں یونیورسٹی آف مشی گن کے ڈوگلس رچ اسٹون بتاتے ہیں۔ تب سے ماہرین فلکیات نے سینکڑوں کی تعداد میں فضائے بسیط میں ہبل خلائی دوربین چاندرا ایکس رے خلائی دوربین (جو طاقتور نجمی اور کہکشانی منبع سے خارج ہوتی ہوئی ایکس ریز کو ناپتی ہے )، اور بہت بڑی قطار والی ریڈیائی دوربین (جو نیو میکسیکو میں طاقتور ریڈیائی دوربینوں کے سلسلے پر مشتمل ہے ) کی مدد سے بلیک ہولز کی شناخت کی ہے۔ کئی ماہرین فلکیات یقین رکھتے ہیں کہ اصل میں فلک میں موجود اکثر کہکشاؤں ( جن کے مرکز میں اپنی قرص کا ایک گومڑ سا ہوتا ہے ان )کے قلب میں بلیک ہول موجود ہیں۔


جیسا کہ قیاس کیا گیا تھا کہ خلاء میں پائے جانے والے تمام بلیک ہول تیزی سے گھومتے ہیں ، ہبل خلائی دوربین نے ان میں سے کچھ کو پچاس لاکھ میل فی گھنٹہ گھومتے ہوئے درج کیا ہے۔ مرکز کے عین قلب میں ایک چپٹا کروی قلب جو اکثر ایک نوری برس پر محیط ہوتا ہے ۔ اس قلب کے اندر واقعاتی افق اور بلیک ہول بذات خود واقع ہوتا ہے۔


کیونکہ بلیک ہول غیر مرئی ہوتے ہیں، لہٰذا فلکیات دانوں کو ان کی موجودگی کا سراغ لگانے کے لئے بالواسطہ طریقے استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ تصویروں میں وہ بلیک ہول کے ارد گرد موجود گرد و غبار کی گھومتی ہوئی "افزودہ قرص "یا " تہ دار ٹکیہ" کو شناخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماہرین فلکیات نے اب ان گھومتی ہوئی افزودہ قرص کی خوبصورت تصویریں حاصل کر لی ہیں۔ (یہ قرص لگ بھگ آفاقی طور پر کائنات میں پائے جانے والے زیادہ تر گھومتے اجسام کے پاس پائی جاتی ہیں۔ ہمارے اپنے سورج کے گرد بھی آج سے ٤ ارب ٥٠ کروڑ سال پہلے اس کی تخلیق کے وقت ایسی ہی قرص اس کے ارد گرد موجود تھی جو بعد میں سیاروں کی صورت میں ڈھل گئی۔ یہ قرص اس لئے بنتی ہیں کہ کسی بھی تیزی سے گھومتی ہوئی چیز میں ان کی توانائی کی حالت سب سے پست ہوتی ہے۔)نیوٹن کے قوانین حرکت کا استعمال کرتے ہوئے، فلکیات دان مرکز میں موجود جسم کی کمیت کا حساب اس کے گرد چکر لگانے والے ستاروں کی سمتی رفتار سے لگا سکتے ہیں ۔ اگر مرکز میں موجود جسم کی کمیت کی فراری سمتی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہے ، تو روشنی بھی راہ فرار حاصل نہیں کر سکتی اس طرح سے بالواسطہ طور پر ہمیں بلیک ہول کی موجودگی کا ثبوت حاصل ہوتا ہے۔


واقعاتی افق افزودہ قرص کے عین قلب میں موجود ہوتی ہے۔( جو بدقسمتی سے اس قدر چھوٹی ہے کہ ہماری موجودہ ٹیکنالوجی اس کو شناخت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ماہرین طبیعیات فلویو میلیا کا دعویٰ ہے کہ بلیک ہول کے واقعاتی افق کی تصویر حاصل کرنا بلیک ہول کی سائنس کا بہت ہی جرت مندانہ اقدام ہوگا۔) واقعاتی افق سے گزرنے والی تمام گیس بلیک ہول میں نہیں گرتی۔ ان میں سے کچھ گیس جو واقعاتی افق کو پار کرنے کی کوشش کرتی ہے ، اس کو یہ اٹھا کہ خلاء میں زبردست سمتی رفتار سے پھینک دیتی ہے۔ نتیجتاً گیس کی دو پھواریں بلیک ہول کے جنوبی اور شمالی قطب سے نکلتی ہیں۔ جس کی وجہ سے بلیک ہول ایک گھومتے ہوئے لٹو کی طرح ظاہر ہوتا ہے۔(پھواروں کے اس طرح سے نکلنے کی وجہ ممکنہ طور پر منہدم ہوتے ہوئے ستاروں کے مقناطیسی میدان کے خطوط ہوتے ہیں جو شمالی اور جنوبی قطبین پر زیادہ مرتکز اور زیادہ شدید ہوتے ہیں۔ جیسے ستارہ منہدم ہونا جاری رکھتا ہے یہ مقناطیسی میدانی خط کثیف ہوتے ہوئے دو نلکیوں کی صورت میں شمالی اور جنوبی قطبین سے خارج ہوتے ہیں۔ جیسے ہی روانی ذرّات منہدم ہوتے ہوئے ستارے میں گرتے ہیں تو یہ ان تنگ مقناطیسی خطوط کی اقتداء کرتے ہوئے فواروں کی صورت میں جنوبی اور شمالی مقناطیسی قطب کے ذریعہ خارج ہوتے ہیں۔)


دو اقسام کے بلیک ہولز کی شناخت کی جاچکی ہے۔ پہلا نجمی بلیک ہول ہے جس میں قوّت ثقل مرتے ہوئے ستارے کو اتنا دباتی ہے کہ وہ پھٹ پڑتا ہے۔ دوسرا بہرحال زیادہ آسانی سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہکشانی بلیک ہول ہوتے ہیں، جو بڑی کہکشاؤں اور کوزارس کے قلب میں گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں جن کا وزن سورج کی کمیت کا کروڑوں سے لے کر ارب ہا گنا زیادہ ہوتا ہے۔


حال ہی میں ایک بلیک ہول ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں حتمی طور پر دریافت کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے گرد کے بادلوں نے کہکشانی مرکز کو دھندلایا ہوا ہے ، لیکن بہرحال ایک عظیم آگ کا گولہ ہمیں زمین پر وہاں سے ہر رات کو برج قوس کی جانب سے آتا ہوا نظر آتا ہے۔ گرد کے بغیر ملکی وے کا قلب شاید چاند کو بھی گہنا دے جس کے نتیجے میں یہ آسمان میں موجود سب سے روشن جسم بن جائے گا۔ اس کہکشانی مرکزے کے عین قلب میں ایک بلیک ہول موجود ہے جس کی کمیت سورج کے مقابلے میں پچیس لاکھ گنا زیادہ ہے۔ حجم کی زبان میں بات کریں تو یہ عطارد کے نصف قطر کا دسواں حصّہ ہوگا۔ کہکشانی پیمانے پر یہ کوئی بہت ہی خاص فوق ضخیم بلیک ہول نہیں ہے؛ کوزار کے کچھ بلیک ہولز کی کمیت تو سورج سے ارب ہا گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے پڑوس میں موجود یہ بلیک ہول ابھی غیر متحرک ہے۔


دوسرا سب سے قریبی بلیک ہول اینڈرومیڈا کہکشاں کے قلب میں بیٹھا ہے جو زمین کی سب سے قریبی کہکشاں ہے۔ اس کی کمیت تین کروڑ سورج کی کمیتوں کے برابر ہے، اور اس کا شوارز چائلڈ نصف قطر چھ کروڑ میل ہے۔ (اینڈرومیڈا کے مرکز میں شاید دو بلیک ہول موجود ہیں جو غالباً کسی دوسری کہکشاں کی باقیات ہے جس کو اینڈرومیڈا نے ارب ہا برس پہلے نگل لیا تھا۔ جب ملکی وے کہکشاں بالآخر اینڈرومیڈا کہکشاں سے آج سے ارب ہا برس بعد جا کر ٹکرائے گی ، سردست تو ایسا ہی لگتا ہے، تو شاید ہماری کہکشاں ، اینڈرومیڈا کا کلیجہ بن کر اس تصادم میں ختم ہو جائے گی۔)


کہکشانی بلیک ہول کی سب سے خوبصورت تصویر این جی سی ٤٢٦١ کی ہے جو ہبل خلائی دوربین سے لی گئی ہے۔ ماضی میں ریڈیائی خوردبین سے حاصل کردہ اس کہکشاں کی تصویر نے دو نفیس فواروں کو دکھایا تھا جو کہکشاں کے شمالی اور جنوبی قطبین سے نکل رہے تھے ۔ لیکن کوئی بھی اس کے نکلنے کی وجہ کو نہیں جانتا تھا۔ ہبل خلائی دوربین نے اس کہکشاں کے عین قلب کی تصویر لی جس نے چار سو نوری برس پر پھیلی ہوئی قرص کی خوبصورتی کو ہم پر آشکار کیا۔ اس کے عین قلب میں ایک چھوٹا سے نقطہ تھا جس میں ایک نوری برس پر محیط افزودہ قرص تھی ۔ ایک بارہ ارب سورج کی کمیت والا بلیک ہول اس کے مرکز میں تھا جس کو ہبل خلائی دوربین نہیں دیکھ سکتی تھی۔


اس طرح کے کہکشانی بلیک ہول اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ پورے ستارے کو ہضم کر جاتے ہیں۔ ٢٠٠٤ء میں ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی نے اعلان کیا کہ انہوں نےدور دارز کی کہکشاں میں واقع ایک ایسے جسیم بلیک ہول کا سراغ لگایا ہے جو ایک ستارے کو ایک ہی ڈکار میں ہضم کر رہا ہے۔ چاندرا ایکس رے دوربین اور یورپین ایکس ایم ایم نیوٹن سیارچے دونوں نے بھی اس واقعہ کا مشاہدہ کیا جس میں ایکس ریز پھوٹ کر کہکشاں آرایکس جے ١٢٤٢-١١ خارج ہو رہی تھیں، اور ہمیں اس بات کا اشارہ دے رہی تھی کہ کوئی ستارہ ، قلب میں موجود جسم بلیک ہول کے ذریعہ نگلا جا رہا ہے۔


بلیک ہول کے وزن کا اندازہ سورج کی کمیت سے دس کروڑ گنا زیادہ لگایا گیا ہے۔ اعداد و شمار اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ جب ستارہ بلیک ہول کے واقعاتی افق سے نزدیک آتا ہے تو زبردست قوّت ثقل ستارے کو مسخ کرکے کھینچنے لگتی ہے یہاں تک کہ ستارہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایکس ریز پھٹ کر خارج ہونے لگتی ہیں۔ "یہ ستارہ ٹوٹنے کی حد تک کھینچا جا رہا ہے ۔ یہ بدقسمت ستارہ بس ابھی ہی آوارہ گردی کرتا ہوا غلط جگہ آیا تھا۔"گارچنگ ، جرمنی میں واقع میکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ماہر فلکیات اسٹیفنی کوموسہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں۔


بلیک ہول کے وجود نے کافی پرانے اسراروں کو حل کرنے میں مدد کی ہے۔ مثال کے طور پر ایم -٨٧ ماہرین فلکیات کے لئے ہمیشہ سے پر تجسس رہی ہے کیونکہ یہ دیکھنے میں ستاروں کی ایک ضخیم گیند لگتی ہے جس میں سے ایک عجیب سی دم ظاہر ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ کافی مقدار میں اشعاع کو خارج کرتی ہے لہٰذا ایک وقت ایسا آیا جب فلکیات دانوں نے اس کو ضد مادّہ کی ایک بہتی ہوئی ندی سمجھا۔ لیکن آج فلکیات دان جانتے ہیں کہ اس کو بلیک ہول کی وجہ سے اتنی توانائی مل رہی تھی ۔ اس بلیک ہول کا وزن شاید تین ارب سورج کی کمیت کے برابر ہے۔ اور وہ عجیب جناتی دم پلازما کے وہ فوارے ہیں جو کہکشاں کے اندر بہنے کے بجائے اس کے باہر بہ رہے ہیں۔


بلیک سے متعلق ایک اور شاندار دریافت اس وقت ہوئی جب چاندرا خلائی دوربین خلائے بسیط میں موجود گرد کے ایک چھوٹے سے خالی حصّے میں سے جھانکنے کے قابل ہوئی جس میں اس نے قابل مشاہدہ کائنات کے آخری سرحدوں کے پاس بلیک ہولز کا مجموعہ دیکھا۔ سب مل ملا کر چھ سو کے قریب بلیک ہول دیکھے جا سکتے تھے ۔ اس سے قیاس کرتے ہوئے ماہرین فلکیات کا اندازہ ہے رات کے پورے آسمان میں کم از کم تیس کروڑ بلیک ہول موجود ہوں گے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 6

گیما شعاعوں کی بھڑک




مذکورہ بالا بلیک ہولز شاید ارب ہا برس پرانے ہوں۔ لیکن اب ماہرین فلکیات کے پاس وہ نایاب موقع موجود ہے جس میں وہ اپنی آنکھوں کے سامنے بلیک ہول کو بنتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے شاید کچھ تو گیما شعاعوں کی وہ بھڑکیں ہیں جو کائنات میں بڑی مقدار میں توانائی کو خارج کرتی ہیں۔ جسیم گیما شعاعوں کی بھڑک کا توانائی خارج کرنے میں بگ بینگ کے بعد دوسرا نمبر بھی ہے۔

گیما شعاعوں کی بھڑک کی ایک پر تجسس تاریخ ہے جو سرد جنگ تک جاتی ہے۔ ١٩٦٠ء کے عشرے کے آخر میں ، ریاست ہائے متحدہ نے ویلا سیارچے کو خلاء میں بطور خاص "جوہری دھماکوں" یا نیوکلیائی بموں کے غیر قانونی دھماکوں کا سراغ لگانے کے لئے چھوڑا۔ کیونکہ نیوکلیائی بم ایک سیکنڈ پر محیط وقت میں مختلف مراحل میں پھٹتا ہے ، ہر دھماکہ کی روشنی ایک مخصوص خاصیت کی حامل ہوتی ہے جس کو سیارچے کے ذریعہ دیکھا جا سکتا ہے۔ (ویلا سیارچے نے ١٩٧٠ء کی دہائی میں ایسے دو دھماکوں کا سراغ جنوبی افریقہ کے قریب پرنس ایڈورڈ جزیرے کے ساحل پر اسرائیلی جنگی جہاز کی موجودگی میں لگایا۔ یہ وہ مشاہدہ تھا جس کے بارے میں جاسوسی دنیا میں اب بھی بحث جاری ہے۔)

لیکن جس بات نے پینٹاگون کو چونکایا وہ یہ تھی کہ ویلا سیارچہ خلاء میں جسیم نیوکلیائی دھماکوں کے نشان حاصل کر رہا تھا۔ کیا روس چھپ کر خلائے بسیط میں کسی نامعلوم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہائیڈروجن بم پھاڑ رہا تھا؟ یہ سمجھ کر کہ روس نے امریکہ کو ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی میں اتنی بڑی مات دے دی ہے ، چوٹی کے سائنس دانوں کو بلوایا گیا تاکہ وہ ان پریشان کر دینے والے اشاروں کا صحیح سے تجزیہ کر سکیں۔

روس کے حصّے بخرے ہو جانے کے بعد ان اطلاعات کو رمز بند کرنے کی ضرورت نہیں رہی تھی، لہٰذا پینٹاگون نے فلکیاتی اعداد و شمار کا پہاڑ جیسا مواد دنیائے فلکیات کے لئے شایع کر دیا جس نے ہر چیز کو اپنی اوٹ میں لے لیا۔

عشروں کے بعد پہلی مرتبہ بالکل نیا زبردست قوّت اور امکان کا فلکیاتی مظہر افشا کیا گیا تھا۔ ماہرین فلکیات فوراً سمجھ گئے کہ یہ گیما شعاعوں کی بھڑکیں اپنی قوّت میں انتہائی توانا ہوں گی اور صرف چند سیکنڈ میں ہی ان سے نکلنے والی توانائی اتنی ہو گئی کہ سورج اپنی پوری (دس ارب برس کی ) عمر میں بھی نہیں خارج کر سکتا۔ لیکن یہ واقعات اس قدر تیزی سے وقوع پذیر ہو رہے تھے کہ اس وقت تک کہ جب زمینی دوربینوں کا رخ ان کی طرف کیا جاتا تو یہ ختم ہو چکے ہوتے ۔ (زیادہ تر بھڑکیں ایک سے لے کر دس سیکنڈ تک کی تھیں، لیکن سب سے مختصر تو صرف 0.01 سیکنڈ تک ہی قائم رہ سکی تھی۔ جبکہ دوسری کچھ منٹوں تک چلتی رہیں تھیں۔)

آج خلائی دوربین، کمپیوٹر اور تیز رفتار رد عمل دینے والی ٹیموں نے گیما شعاعوں کی بھرکوں کو پکڑنے کے لئے ہماری صلاحیت و قابلیت کو کافی بدل دیا ہے۔ ایک دن میں تین مرتبہ گیما شعاعوں کی بھڑک کا سراغ لگایا جاتا ہے جو پیچیدہ واقعات کی ایک زنجیر کو شروع کرتی ہیں۔ جیسے ہی سیارچہ کسی توانائی کا سراغ لگاتا ہے، ماہرین فلکیات کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئی تیزی سے اس کا درست محل و وقوع تلاش کرتے ہیں اور اس درست سمت میں مزید دوربینوں اور حساسیوں کا رخ کر دیتے ہیں۔ ان آلات سے حاصل کردہ اعداد و شمار نے حقیقی شاندار نتائج کو ہم پر آشکار کیا۔ ان گیما شعاعوں کی بھڑکوں کے عین قلب میں ایک ایسا جسم موجود ہوتا ہے جو اکثر صرف چند میل پر ہی محیط ہوتا ہے ۔ بالفاظ دیگر ، ناقابل تصوّر گیما شعاعوں کی کونیاتی قوّت صرف ایک ایسے علاقے میں مرتکز ہوتی ہے جو نیویارک شہر جتنا ہوتا ہے۔ برسوں تک اس طرح کے واقعات کے امیدوار ثنائی نظام میں موجود دو متصادم ہوتے نیوٹران ستارے ہی تھے۔

اس نظرئیے کے مطابق ، نیوٹران ستاروں کے مدار وقت کے ساتھ ساتھ تنزلی کا شکار ہوتے ہوے ایک موت کے مرغولے کے پیچھے رخصت سفر باندھ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ بالآخر ایک دوسرے سے جا ٹکراتے ہیں اور دیوہیکل قسم کی توانائی کو خارج کرتے ہیں۔ ایسی واقعات بہت ہی شاذونادر ہوتے ہیں لیکن کیونکہ کائنات بہت ہی وسیع ہے اور یہ بھڑکیں پوری کائنات کو روشن کر دیتی ہیں اس لئے ان کو دن میں کئی مرتبہ دیکھا جاتا ہے۔

لیکن ٢٠٠٣ء سائنس دانوں کے حاصل کردہ نئے شواہد کی روشنی میں اس بات کا معلوم ہوا کہ شاید یہ گیما شعاعوں کی بھڑکیں ہائپر نووا کا نتیجہ ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں فوق ضخیم بلیک ہول کا جنم ہوتا ہے۔ دوربینوں اور سیارچوں کا رخ تیزی کے ساتھ گیما شعاعوں کی بھڑکوں کی سمت میں کرتے ہوئے سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ یہ ضخیم سپرنووا کے مشابہ ہیں۔ کیونکہ پھٹتے ہوئے ستارے کے زبردست مقناطیسی میدان ہوتے ہیں اور وہ شمالی اور جنوبی قطبین کے ذریعہ اشعاع کو خارج کرتا ہے ، لہٰذا ان کو ایسا لگا کہ اصل میں سپرووا کی توانائی اتنی نہیں ہوتی جتنی ان کو پہلے لگتی تھی- یعنی کہ ہم ان دھماکوں کا مشاہدہ صرف اس وقت کر سکتے ہیں جب ان کا رخ ہماری طرف ہو۔ اس کے نتیجے میں وہ ہمیں اپنی توانائی کے بارے میں غلط تاثر دیتے ہیں۔

حقیقت میں گیما شعاعوں کی بھڑکیں بلیک ہول کے بنتے وقت کی ہیں تو اگلی نسل کی خلائی دوربینیں ان کا مفصل تجزیہ کرکے شاید کچھ مکان و زمان سے متعلق گہرے سوالات کا جواب دے سکیں۔ خاص طور سے اگر بلیک ہول مکان کو بل دے سکتے ہیں تو کیا وہ وقت کو بھی خم دے سکتے ہیں؟
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 7

وین اسٹاکم کی ٹائم مشین



آئن سٹائن کے نظرئیے میں مکان و زمان ایک لاینفک وحدت میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ نتیجتاً کوئی بھی ثقب کرم جو خلاء میں موجود دو دور دراز کے نقاط کو ملاتا ہے ہو سکتا ہے کہ وقت کے دو دور دراز کے نقاط کو بھی ملا سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر آئن سٹائن کا نظریہ وقت میں سفر کی اجازت دیتا ہے۔

وقت کا خیال بذات خود صدیوں میں جا کر ارتقا پذیر ہوا ہے۔ نیوٹن کے لئے وقت ایک ایسے تیر کی مانند تھا جس کو ایک دفعہ چھوڑ دیا تو وہ کبھی اپنا راستہ نہیں بدلتا اور اپنے ہدف تک کا سفر بغیر غلطی کے یکسانیت سے کرتا ہے۔ آئن سٹائن نے مکان کے خم کا نظریہ متعارف کروایا۔ لہٰذا وقت ایک ایسے دریا کی مانند ہے جو کائنات سے گزرتے ہوئے کبھی تیز رفتار ہوتا ہے تو کبھی آہستہ ۔ لیکن آئن سٹائن اس امکان سے پریشان تھا کہ وقت کا دریا اپنے آپ پر خم کھا کر واپس مڑ سکتا ہے۔ شاید وقت کے دریا میں بھنور یا کانٹے بھی موجود تھے۔


١٩٣٧ء میں اس امکان کا ادراک اس وقت ہوا جب ڈبلیو جے وین اسٹاکم نے آئن سٹائن کی مساوات کا ایک ایسا حل نکالا جو وقت میں سفر کی اجازت دیتا ہے۔ اس نے شروعات ایک لامحدود گھونٹے ہوئے سلنڈر سے کی۔ ہرچند طبیعی طور پر یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی لامحدود شئے بنائی جا سکے۔ لیکن اس نے حساب لگایا کہ اگر کوئی ایسا جسم روشنی یا اس کی قریبی رفتار سے گھومے گا تو یہ مکان و زمان کی ساخت کو اپنے ساتھ رگڑتا ہوا کھینچے گا جس طرح سے شیرہ بلینڈر کے بلیڈ کے ساتھ کھنچتا ہے۔ (اس کو ساخت کی کھنچائی کہتے ہیں اور اس کے تجرباتی طور پر گھومتے ہوئے بلیک ہول کی مفصل تصویروں میں دیکھ بھی لیا گیا ہے۔)


کوئی بھی مہم جو بھی اس سلنڈر کے ساتھ ہوگا وہ بھی اس کے ساتھ روشنی کی زبردست رفتار حاصل کرتے ہوئے چلے گا۔ اصل میں ایک دور دراز شاہد کے لئے ایسا لگے گا کہ یہ مہم جو روشنی کی رفتار سے بھی تیز سفر کر رہا ہے۔ ہرچند کے وین اسٹاکم خود بھی اس وقت اس بات کا ادراک نہیں کر سکا کہ اس سلنڈر کے گرد ایک مکمل چکر کھانے کے بعد آپ اصل میں وقت میں واپس چلے جاتے ہیں اور اس دور میں پہنچ جاتے ہیں جب آپ اس سفر کو شروع کرنے والے تھے۔ اگر آپ نے سفر دوپہر میں شروع کیا ہے تو آپ اپنے سفر کے آغاز والی جگہ تک پچھلی شام کے چھ بجے پہنچ جائیں گے۔ جتنا تیز سلنڈر گھومے گا اتنا ہی دور آپ ماضی میں جا سکتے ہیں۔( ماضی میں دور تک جانے کی صرف ایک حد ہے وہ یہ کہ آپ اس سلنڈر کی تخلیق سے پہلے کے زمانے میں نہیں جا سکتے۔)


کیونکہ سلنڈر ایک بانس جیسا ہوتا ہے لہٰذا ہر دفعہ جب بھی آپ اس کے گرد ایک چکر مکمل کریں گے تو آپ وقت میں اور دور تک چلے جائیں گے۔ بلاشبہ کوئی بھی اس حل کو اس لئے رد کر سکتا ہے کہ سلنڈر لامحدود طور پر لمبا نہیں ہو سکتا۔ مزید اگر ایسا سلنڈر بنایا جا سکتا تو سلنڈر کی مرکز گریز قوّت بہت ہی زیادہ ہوگی جس کے نتیجے میں سلنڈر کا مادّہ خلاء میں اڑ جائے گا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 8

گوڈیل کی کائنات


1949ء میں عظیم ریاضی دان منطقی کرٹ گوڈیل نے آئن سٹائن کی مساوات کا ایک اور عجیب سا حل تلاش کیا۔ اس نے فرض کیا کہ تمام کائنات گھوم رہی ہے۔ وین سٹاکم کے سلنڈر کی طرح کو بھی مکان و زمان کی شیرے جیسی ساخت کے ساتھ گھسٹتا چلا جائے گا۔ گوڈیل کی کائنات میں ایک خلائی جہاز کو لے کر آپ اپنے سفر شروع کرنے کی جگہ پر گزرے وقت میں واپس آ سکتے ہیں۔


گوڈیل کی کائنات میں کوئی بھی شخص نظری طور پر کائنات میں موجود مکان و زمان کے دو نقاط کے درمیان سفر کر سکتا ہے۔ ہر واقعہ کسی بھی دور میں دیکھا جا سکتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ وہ ماضی میں کب ہوا ہے۔ قوّت ثقل کی وجہ سے گوڈیل کی کائنات کو اپنے آپ پر منہدم ہونے کا خدشہ ہے۔ لہٰذا مرکز گریز قوّت کو اس جاذبی قوّت سے توازن قائم رکھنا ہوگا۔ بالفاظ دیگر کہ کائنات میں ایک مخصوص رفتار سے اوپر گھومنا ہوگا اور منہدم ہونے سے بچنے کے لئے اس کو اور تیز گھومنا ہوگا۔


مثال کے طور پر ہمارے حجم کی کائنات کا گوڈیل نے حساب لگایا کہ اس کو ہر ستر ارب برس بعد گھومنا ہوگا اور وقت میں سفر کرنے کا کم از کم نصف قطر سولہ ارب نوری برس ہوگا۔ وقت میں واپس آنے کے لئے بہرحال آپ کو روشنی کی رفتار سے تھوڑی سی کم رفتار سے سفر کرنا ہوگا۔ گوڈیل ان تناقضات سے اچھی طرح سے واقف تھا جو اس طرح کے حل کی صورت میں آ دھمکنے والے تھے – اس امکان کی صورت جس میں آپ خود سے مل کر ماضی کو تبدیل کر دیتے۔ "کسی خلائی جہاز پر کافی چوڑے راستے پر سفر کرنے کے بعد ایسے جہانوں میں ممکن ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل کے کسی بھی حصّے میں سفر کیا جا سکے اور واپس آیا جا سکے یہ بعینہ ایسے ہوگا جیسا کہ دوسرے جہانوں میں خلاء کے مختلف حصّوں میں سفر کیا جاتا ہے۔" اس نے لکھا۔ "اس طرح کی چیز انتہائی نامعقول ہے۔ اس میں کوئی بھی ماضی قریب کے اس حصّوں تک جا سکتا ہے جس میں وہ خود رہتا ہے۔ وہاں پر وہ ایک ایسا شخص کا پائے گا جو وہ اپنی عمر میں کچھ عرصہ پہلے تک خود ہوگا۔ اب وہ اس شخص کے ساتھ کچھ ایسا کر سکتا ہے جو اس کی اپنی یادداشت کے مطابق اس کے ساتھ ہوا ہی نہیں تھا۔"


آئن سٹائن اپنے پرنسٹن کے انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی والے پڑوسی اور دوست کے تلاش کردہ حل سے بہت زیادہ مضطرب تھا۔ اس کا رد عمل کافی کچھ کہہ رہا تھا۔


"میرے خیال میں کرٹ گوڈیل کا مضمون عمومی نظریہ اضافیت کے لئے کافی مدد گار ہے بالخصوص زمان کے تجزیہ کے لئے۔ وہ مسئلہ جس نے مجھے عمومی نظریہ کو بناتے وقت پریشان کیا تھا وہ یہ تھا کہ میں اس کو واضح نہیں کرسکا۔۔۔۔۔ "جلد و بدیر" کی تشخیص کو دنیاوی نقطہ نگاہ کے لئے ترک کر دی تھی جو کائنات کے فہم سے کہیں دور تھی۔ اور جس کے بارے میں گوڈیل نے بتایا ہے ۔۔۔۔۔یہ بات دلچسپ ہو گی کہ ان کا وزن کرکے طبیعیات کی بنیاد پر الگ نہ کیا جائے۔"


آئن سٹائن کا رد عمل دو وجوہات کی بنا پر دلچسپ تھا۔ پہلا تو یہ کہ اس نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وقت میں سفر کے خیال نے اس کو اس وقت سے پریشان کیا ہوا تھا جب اس نے عمومی اضافیت کے کلیہ کو ترتیب دیا تھا۔ کیونکہ زمان و مکان ایک کھنچنے والے ربڑ کی طرح سے برتاؤ کرتے ہیں جن کو موڑا اور خم بھی دیا جا سکتا ہے ، آئن سٹائن پریشان تھا کہ مکان و زمان کی ساخت کو اس قدر خم دیا جا سکتا ہے کہ وقت میں سفر ممکن ہو سکتا ہے۔ دوسرے اس نے گوڈیل کے حل کو طبیعیات بنیادوں پر رد کر دیا تھا ۔ یعنی کہ کائنات گھومنے کے بجائے پھیل رہی ہے۔


جب آئن سٹائن کی موت ہوئی تھی تو اس وقت یہ بات اچھی طرح سے معلوم تھی کہ اس کی مساوات عجیب مظاہر ( وقت میں سفر ، ثقب کرم) کی اجازت دیتی ہے۔ لیکن کسی نے بھی اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی کیونکہ سائنس دان سمجھتے تھے کہ ایسا قدرتی طور پر ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہ بات متفقہ طور پر تسلیم کی جاتی تھی کہ یہ حل حقیقی دنیا میں کسی بھی قسم کی بنیاد نہیں رکھتے ہیں۔ اگر آپ بلیک ہول کے ذریعہ دوسری متوازی کائنات میں جانے کی کوشش کریں گے تو آپ کی موت واقع ہو جائے گی۔ کائنات گھوم نہیں رہی ہے اور آپ لامحدود سلنڈر نہیں بنا سکتے ۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے وقت میں سفر صرف کتابی بحث ہو کر رہ گئی تھی۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 9

تھورن کی ٹائم مشین



ٹائم مشین کا خیال لگ بھگ١٩٨٥ء تک تقریباً ٣٥ برسوں تک بھلا دیا گیا جب ماہر فلکیات کارل ساگان نے اپنا ناول "کنٹیکٹ" لکھا جس میں وہ چاہتا تھا کہ ہیروئن ایک ستارے تک کا سفر کر سکے۔ اس کو دو طرفہ سفر کروانا تھا ، ایک مرتبہ ہیروئن کو ستارے تک جانا تھا اور پھر واپس آنا تھا۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جس کی اجازت بلیک ہول یا ثقب کرم نہیں دیتے تھے۔ وہ طبیعیات دان کپ تھورن کے پاس مشورہ لینے کے لئے گیا۔ تھورن نے طبیعیات کی دنیا کو آئن سٹائن کی مساوات کے ایک نئے حل کو پیش کرکے بھونچکا کر دیا۔ یہ نیا حل وقت میں سفر کو پہلے مسائل سے جان چھڑاتا ہوا ممکن بنا دیتا تھا۔١٩٨٨ء میں اپنے رفیق مائیکل مورس اور الوی یرٹسیور کے ساتھ تھورن نے اس بات کی تجویز پیش کی کہ ٹائم مشین کو بنانا ممکن ہے بشرطیکہ کوئی مادّے اور توانائی کی عجیب قسموں کو حاصل کر لے مثلاً "عجیب منفی مادّہ" اور "عجیب منفی توانائی" ۔طبیعیات دان پہلے تو اس نئے حل کے بارے میں متشکک ہوئے کیونکہ کسی نے بھی اب تک اس قسم کے اجنبی مادّے کو نہیں دیکھا تھا، اور منفی توانائی تو بہت ہی معمولی مقدار میں وجود رکھتی تھی۔ لیکن اس نے وقت میں سفر میں ہمارے ادراک کو کافی تبدیل کر دیا۔

منفی مادّے اور منفی توانائی کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسا ثقب کرم بنا سکتے ہیں جو قابل قاطع ہوگا اس طرح سے واقعاتی افق سے پریشان ہونے کی ضرورت کے بغیر دو طرفہ سفر ممکن ہو سکتا ہے۔ اصل میں تو کپ تھورن کی جماعت نے اس ٹائم مشین میں سفر کرنے کو کافی پرسکون بتایا ہے۔ یہ بالکل کسی تجارتی ہوائی جہاز کے سفر جیسا ہی ہوگا۔


ایک مسئلہ بہرحال یہ ہوگا کہ یہ اجنبی مادّہ( یا منفی توانائی) اپنے خواص میں انتہائی منفرد ہے۔ ضد مادّہ کے برعکس (جس کا وجود سب مانتے ہیں اور جو زمین کے مقناطیسی میدان کے زیر اثر زمین کی سطح پر گر سکتا ہے)، منفی مادّہ زمین کی کشش ثقل کی موجودگی میں اوپر اٹھے گا کیونکہ اس میں ضد ثقل ہوتی ہے۔ یہ عام مادّے اور دوسرے منفی مادّے کے ذریعہ کھینچنے کے بجائے دفع ہو تا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اس کا وجود بھی ہے تو بھی اس کو قدرتی طور پر تلاش کرنا کافی مشکل کام ہے۔ جب کرۂ ارض چار ارب پچاس کروڑ برس پہلے بنی تھی تو کسی بھی قسم کے منفی مادّہ بفرض محال کہ وہ زمین پر موجود تھا بھی تو وہ خلاء کی بیکراں گہرائیوں میں فرار ہو گیا ہوگا۔ لہٰذا ممکن ہے کہ منفی مادّہ خلاء میں سیاروں سے دور تیر رہا ہو۔(منفی مادّہ شاید کبھی بھی کسی ستارے یا سیارے سے نہیں ٹکرائے گا کیونکہ یہ عام مادّے سے دور بھاگتا ہے۔)


ہرچند کہ منفی مادّے کو کبھی نہیں دیکھا گیا( اور بہت ممکن ہے کہ اس کا وجود ہی نہیں ہو)، منفی توانائی حاصل کرنا طبیعی طور پر حاصل کرنا ممکن تو ہے لیکن وہ بہت ہی نایاب ہے۔١٩٣٣ء میں ہینرک کازیمیر نے ثابت کیا کہ دو بغیر بار کی دھاتی پلیٹیں منفی توانائی پیدا کر سکتی ہیں۔ عام طور پر امید کی جاتی ہے کہ دو پلیٹیں ساکن رہیں گی کیونکہ وہ غیر بار دار ہوں گی۔ بہرصورت کازیمیر نے دکھایا کہ ان دونوں غیر بار دار پلیٹوں میں بہت ہی معمولی سی جاذبی قوّت موجود ہوتی ہے۔ ١٩٤٨ء میں یہ ننھی سی قوّت اصل میں ناپ بھی لی گئی یوں ثابت ہو گیا کہ منفی توانائی اصل میں موجود بھی ہے۔ کازیمیر کا اثر خلاء کی ایک عجیب خاصیت کا استعمال کرتا ہے۔ کوانٹم نظرئیے کے مطابق، خالی خلاء "مجازی ذرّات" سے لبریز ہوتی ہے جو عدم سے نکلتے اور اس میں غائب ہوتے رہتے ہیں۔ بقائے توانائی کے اصول سے انحراف ہائیزن برگ کے اصول عدم یقین کی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔ جو مستند و عزیز قوانین سے بہت ہی مختصر عرصے کے لئے انحراف کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر الیکٹران اور ضد الیکٹران عدم یقین کی بنا پر بہت ہی کم امکان اس بات کا رکھتے ہیں کہ ان کی تخلیق عدم سے ہو سکے اور پھر یہ دونوں ایک دوسرے کو فنا کرتے ہوئے غائب ہو جائیں۔ کیونکہ متوازی پلیٹیں ایک دوسرے سے کافی قریب ہوتی ہیں لہٰذا یہ مجازی ذرّات ان دونوں پلیٹوں کے درمیان آسانی سے نہیں آ سکتے۔ پس کیونکہ کہ ان پلیٹوں کے ارد گرد زیادہ مجازی ذرّات ان کے درمیان کے مقابلے میں ہوتے ہیں اس لئے ایک اندرون لگنے والی قوّت بیرون سے لگتی ہے جو ان متوازی پلیٹوں کو ایک دوسرے کی طرف ہلکا سا دھکا دیتی ہے۔ یہ اثر انتہائی صحت کے ساتھ لاس الموس نیشنل لیبارٹری میں اسٹیون لاموراکس نے ١٩٩٦ء میں ناپا۔ اس کی ناپی ہوئی جاذبی قوّت انتہائی ننھی ( چیونٹی جیسے کسی بھی کیڑے کے وزن کا ایک بٹا تیس ہزار کے برابر) تھی ۔پلیٹوں کے درمیان جتنا کم فاصلہ ہوگا اتنا ہی جاذبی قوّت زیادہ ہوگی۔


تو جناب تھورن کے خوابوں کی ٹائم مشین اس طرح چلے گی۔ ایک جدید تہذیب دو متوازی پلیٹوں سے شروعات کرے گی جن کے درمیان بہت ہی کم خلاء ہوگا۔ یہ متوازی پلیٹیں پھر ایک کرۂ کی شکل میں ڈھال لی جائیں گی، لہٰذا اس کرۂ میں ایک اندرونی اور ایک بیرونی خول موجود ہوگا۔ اس طرح سے وہ دو کرے بنا کر ان کو کسی طرح سے ثقب کرم سے تار سے جوڑ دیں گے اس طرح سے خلاء میں ایک سرنگ ان دونوں کروں کو آپس میں جوڑ دے گی۔ ہر کرۂ اب ثقب کرم کا دہانہ بن گیا ہوگا۔ عام طور سے دونوں کروں میں وقت ایک ہی رفتار سے گزرے گا۔ لیکن اب اگر ہم ایک کرۂ کو خلائی جہاز میں ڈال کر روشنی کی رفتار سے بھیج دیں تو اس طرح سے دونوں کرۂ وقت میں ہم آہنگ نہیں رہیں گے۔ خلائی جہاز میں موجود وقت زمین پر موجود وقت کے مقابلے میں کافی سست رفتاری سے گزرے گا۔ اب زمین پر موجود کرۂ میں کوئی چھلانگ لگائے گا تو وہ ثقب کرم سے گزرتا ہوا وہ خلائی جہاز میں ماضی میں کسی وقت میں آ نکلے گا (یہ ٹائم مشین بہرحال کسی کو اپنی تخلیق سے پہلے کے ماضی میں نہیں لے جا سکتی۔)
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 10

منفی توانائی کے مسائل




ہرچند تھورن کے حل نے اعلان کے ساتھ ہی کافی سنسنی پھیلا دی تھی، لیکن اس کو اصل میں بنانے میں جدید تہذیب کو بھی پہاڑ جیسے مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو بڑی مقدار میں نایاب منفی توانائی کا حصول ہوگا۔ اس قسم کے ثقب کرم کا انحصار اپنے دہانے کو کھلا رکھنے کے لئے زبردست مقدار میں منفی توانائی پر ہوگا۔ اگر کوئی کازیمیر کے اثر کے ذریعہ منفی توانائی کو حاصل کرے گا جو کافی کم ہوتی ہے تو ثقب کرم کا حجم ایک جوہر سے بھی کم ہوگا جس کے نتیجے میں ثقب کرم کے ذریعہ سفر کرنا ناممکن ہوگا۔ کازیمیر کے اثر کے علاوہ بھی منفی توانائی حاصل کرنے کے ذرائع ہیں لیکن تمام کے تمام بہت ہی دشوار گزار ہیں۔ مثال کے طور پر طبیعیات دان پال ڈیویز اور اسٹیفن فلنگ نے دکھایا کہ تیزی سے حرکت کرتا ہوا آئینہ بھی منفی توانائی کو بنانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور منفی توانائی کو آئینے کے سامنے اس وقت جمع کیا جا سکتا ہے جب وہ حرکت کرے۔ بدقسمتی سے منفی توانائی حاصل کرنے کے لئے آئینے کو روشنی کی رفتار سے حرکت دینا ہو گی۔ اور کازیمیر کے اثر کی طرح اس طریقے سے حاصل ہونے والی منفی توانائی بھی بہت ہی کم ہوگی۔


منفی توانائی حاصل کرنے کا ایک اور طریقہ انتہائی طاقتور لیزر کی شعاعوں کا استعمال ہے۔ لیزر کی توانائی کی حالت میں ، کچھ نچڑی ہوئی حالتیں بھی ہوتی ہیں جن میں منفی اور مثبت توانائی ساتھ ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ بہرکیف اس اثر کو بھی حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ منفی توانائی کی دھڑکن عام طور پر 10-15 سیکنڈ تک ہی باقی رہتی ہے جس کے فوراً پیچھے ہی مثبت توانائی موجود ہوتی ہے۔ مثبت توانائی کو منفی توانائی سے الگ کرنا ممکن تو ہے لیکن یہ بہت ہی مشکل ہوگا۔ میں اس کو مزید گیارہویں باب میں بیان کروں گا۔


یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بلیک ہول میں بھی واقعاتی افق کے قریب منفی توانائی موجود ہوتی ہے۔ جیسا کہ جیکب بیکن اسٹین اور اسٹیفن ہاکنگ نے ثابت کیا کہ بلیک ہول مکمل طور پر کالے نہیں ہیں کیونکہ یہ توانائی کو آہستگی کے ساتھ خارج کر رہے ہیں۔ یہ اصول عدم یقین کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے کہ بلیک ہول کی زبردست کشش کے باوجود یہ اشعاع نکل جاتی ہیں۔ لیکن کیونکہ تبخیر ہوتا ہوا بلیک ہول توانائی کھوتا ہے لہٰذا وہ واقعاتی افق وقت کے ساتھ چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔ عام طور پر اگر مثبت مادّہ ( مثلاً ستارہ) بلیک ہول میں ڈالا جائے تو واقعاتی افق بڑھ جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم منفی مادّے کو بلیک ہول میں ڈالیں تو اس کا واقعاتی افق سکڑے گا۔ لہٰذا بلیک ہول کی تبخیر واقعاتی افق کے قریب منفی توانائی پیدا کرتی ہے۔ (کچھ لوگ یہ تجویز دیتے ہیں کہ ثقب کرم کا دہانہ واقعاتی افق کے قریب رکھنے سے منفی توانائی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بہرصورت ایسی کوئی بھی منفی توانائی کا حصول غیر معمولی طور پر مشکل اور خطرناک ہوگا۔ کیونکہ آپ واقعاتی افق کے انتہائی نزدیک ہوں گے۔)

ہاکنگ نے دکھایا کہ عام طور پر منفی توانائی ثقب کرم کو پائیدار بنانے کے ہر طریقے میں درکار ہو گی۔ وجہ کافی سادہ ہے۔ عام طور پر مثبت توانائی ثقب کرم کے دھانے کا منہ کھول سکتی ہے جو مادّے اور توانائی کو مرتکز کر دے گا۔ بہرحال اگر یہ روشنی کی شعاعیں دوسری طرف نمودار ہوں گی تو ثقب کرم کے قلب میں کہیں یہ روشنی کی اشعاع اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گی۔ صرف ایک ہی صورت ایسی ہے جس میں ایسا ہو سکتا ہے یعنی کہ اگر منفی توانائی موجود ہوگی۔ مزید براں منفی توانائی دفع کرتی ہے جو ثقب کرم کے دھانے کو قوّت ثقل کے زیر اثر بند ہونے سے روکنے کے لئے ضروری ہے۔ لہٰذا ٹائم مشین یا ثقب کرم کو بنانے کی کنجی کافی مقدار میں منفی توانائی کی تلاش ہے جو ثقب کرم کا دہانہ کھول کر اس کو پائیداری فراہم کرے۔ (متعدد طبیعیات دانوں نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ بڑے ثقلی میدانوں کی موجودگی میں منفی میدان کافی عام ہیں۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ایک دن ثقلی منفی توانائی کو ٹائم مشین بنانے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔)


ایسی ٹائم مشین کو بنانے کے لئے دوسرے جس مسئلے کا سامنا ہوتا ہے وہ ہے کہ ثقب کرم کو کہاں ڈھونڈا جائے؟ تھورن نے اس حقیقت پر انحصار کیا کہ ثقب کرم قدرتی طور پر مکان و زمان کے بلبلے میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بات اس سوال کو دوبارہ اٹھاتی ہے جو آج سے دو ہزار برس پہلے یونانی فلاسفر زینو نے کیا تھا کہ وہ چھوٹے سے چھوٹا فاصلہ کیا ہے جس کا سفر کیا جا سکتا ہے؟ زینو نے ریاضیاتی طور پر ثابت کیا کہ دریا کے درمیان فاصلے کو لامحدود نمبروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کیونکہ لامحدود نقاط کو طے کرنے کے لئے لامحدود وقت درکار ہوگا لہٰذا دریا کو پار کرنا ناممکن ہوگا۔ یا یوں کہہ لیں کہ کسی بھی چیز کا حرکت کرنا ناممکن ہوگا۔ (اس کو ثابت کرنے کے لئے دو ہزار برس کا وقت لگ گیا اور علم الاحصاء کی مدد سے بالآخر اس معمے کو حل کر لیا گیا۔ اس بات کو ثابت کیا جا سکتا ہے کہ لامحدود نقاط کو محدود وقت میں پار کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں بالآخر حرکت ریاضیاتی طور پر ممکن ہو گئی۔)


پرنسٹن کے جان وہیلر نے آئن سٹائن کی مساوات کا تجزیہ کیا تاکہ چھوٹے سے چھوٹا فاصلہ ناپا جا سکے۔ وہیلر نے پتا لگایا کہ ناقابل تصوّر چھوٹے فاصلے جو پلانک کی لمبائی 10-33 سینٹی میٹر جتنے ہوں گے ان فاصلوں کے پیمانوں پر آئن سٹائن کا نظریہ کہتا ہے کہ خلاء کا خم اس کافی زیادہ ہوگا۔ بالفاظ دیگرے، پلانک لمبائی پر خلاء ہموار ہونے کے بجائے بڑے خم رکھتا ہے – یعنی کہ یہ عجیب اور بلبلے جیسا ہوتا ہے ۔ خلاء گلٹی دار بن جاتا ہے بلبلے والے جھاگ کی طرح ہوتا ہے جو عدم سے نمودار ہو کر فنا ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ خالی خلاء ننھے سے فاصلے پر مسلسل مکان و زمان کے ننھے بلبلوں سے ابلتی رہتی ہے، جو اصل میں ننھے ثقب کرم اور نوزائیدہ کائناتیں ہیں۔ عام طور پر "مجازی ذرّات" الیکٹران اور ضد الیکٹران کے جوڑوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے ٹکرا کر فنا ہونے سے پہلے ہی مختصر عرصے کے لئے وجود میں آتے ہیں۔ لیکن پلانک فاصلے پر، یہ ننھے بلبلے مکمل کائنات اور ثقب کرم ہوتے جو وجود میں آنے کے لئے نکلتے ہیں لیکن صرف خالی جگہ میں واپس غائب ہو جاتے ہیں۔ ہماری اپنی کائنات شاید ان ہی بلبلوں میں سے کسی ایک سے شروع ہوئی تھی جو مکان و زمان میں تیر رہے ہیں ۔ ہماری کائنات اچانک ہی کسی نامعلوم وجہ سے پھول گئی تھی۔ کیونکہ ثقب کرم قدرتی طور پر جھاگ میں پائے جاتے ہیں۔ تھورن نے اس بات کو فرض کیا تھا کہ کوئی بھی جدید تہذیب کسی طرح سے ان ثقب کرم کو جھاگ میں سے چن کر پھیلانے کے بعد منفی توانائی کی مدد سے پائیدار بنائے گی۔ ہر چند یہ بہت ہی مشکل عمل ہوگا، لیکن یہ قوانین طبیعیات کے دائرۂ اثر میں ہی ہے۔


اگرچہ تھورن کی ٹائم مشین نظری طور پر ممکن نظر آتی ہے لیکن اس کو انجینئرنگ کے نقطہ نظر سے بنانا بہت زیادہ مشکل ہے۔ لیکن ایک تیسرا مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ آیا وقت میں سفر بنیادی قوانین کی خلاف ورزی ہے؟
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 11

آپ کے کمرے میں کائنات
میزنر کی خلاء میں، تمام کائنات آپ کے کمرے میں ہو سکتی ہے۔ مخالف دیواریں بعینہ ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ لہٰذا کسی بھی ایک دیوار میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ مخالف دیوار میں سے نمودار ہوں گے۔ چھت بھی بعینہ فرش جیسی ہوتی ہے۔ میزنر کی خلاء کا اکثر مطالعہ کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی کچھ مقامیات ثقب کرم جیسی ہے لیکن یہ ریاضیاتی طور پر نسبتاً آسان ہے۔ اگر دیوار حرکت کرے گی تو وقت کا مسافر ممکنہ طور پر میزنر کی کائنات کے اندر سفر کرے گا۔


١٩٩٢ء میں اسٹیفن ہاکنگ نے کوشش کی کہ وقت میں سفر کے مسئلے سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑا لے۔ جبلی طور پر وہ وقت میں سفر کے خلاف ہے؛ اگر وقت میں سفر کسی تفریحی مقام پر جانے جیسا ہوتا تو ہم مستقبل سے آئے مسافروں کو دیکھ سکتے جو ہمارے ساتھ تصویر کھنچوانے کی فرمائش کر رہے ہوتے۔ لیکن طبیعیات دان اکثر ٹی ایچ وائٹ کے معرکہ آرا ناول " پہلے اور اگلے بادشاہ" سے ایک بات حوالہ نقل کرتے ہیں جہاں پر چیونٹیوں کے سماج نے اس بات کا اعلان کیا تھا.، " ہر وہ چیز جو ممنوع نہیں ہے وہ لازمی ہے۔" بالفاظ دیگرے، اگر کوئی طبیعیات کا بنیادی قانون وقت میں سفر سے نہیں روکتا تو وقت میں سفر لازمی طور پر ممکن ہے۔ (اس کی وجہ بھی اصول عدم یقین ہے۔ تاوقتیکہ کوئی بھی چیز ممنوع ہوا، کوانٹم کے اثر اور اتار چڑھاؤ بالآخر اسے ممکن بنا دیں گے بشرطیکہ ہم اتنا لمبا انتظار کر سکیں۔) اس کے جواب میں اسٹیفن ہاکنگ نے "نظریہ بقائے تقویم" کو پیش کیا جو وقت میں سفر کو روک سکے گا اور اس طرح سے "تاریخ کو مورخوں سے بچائے" گا۔ اس مفروضے کے مطابق وقت میں سفر ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ مخصوص طبیعیات کے اصولوں سے رو گردانی کرتا ہے۔

کیونکہ ثقب کرم کے حل پر کام کرنا انتہائی دشوار گزار ہے، لہٰذا ہاکنگ نے شروع ہی ایک سادہ کائنات کے تجزیہ سے کی جس کو یونیورسٹی آف میری لینڈ کے چارلس میزنر نے دریافت کیا تھا جس میں وقت میں سفر کے تمام لوازمات موجود تھے۔ میزنر خلاء ایک ایسی مثالی خلاء ہے جس میں مثال کے طور پر آپ کا کمرہ پوری کائنات بن سکتا ہے۔ فرض کریں کہ دائیں ہاتھ کی طرف والی دیوار کا ہر نقطہ بائیں ہاتھ کی طرف والی دیوار کے بالکل مشابہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ بائیں دیوار کی طرف سفر کریں گے تو آپ کی ناک اس دیوار سے نہیں ٹکرائے گی بلکہ آپ دیوار میں سے گزرتے ہوئے دائیں طرف والی دیوار سے نمودار ہو جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دائیں اور بائیں دیوار کسی طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں جیسا کہ سلنڈر میں ہوتا ہے۔


مزید براں کہ سامنے کی دیوار پر موجود نقاط اس کے پیچھے والی دیوار جیسے ہی ہیں، اور چھت کے تمام نقاط فرش جیسے ہیں۔ لہٰذا آپ کسی بھی سمت میں چلیں آپ اپنے کو دیوار میں سے گزر کر واپس اپنے کمرے میں پائیں گے۔ آپ فرار نہیں ہو سکتے۔ بالفاظ دیگر آپ کا کمرہ حقیقت میں مکمل کائنات ہے!


اصل میں جو عجیب بات ہے کہ اگر آپ احتیاط کے ساتھ بائیں دیوار کی طرف دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اصل میں وہ شفاف ہے اور آپ کے کمرے کی ایک نقل اس دیوار کے پار موجود ہے۔ اصل میں آپ کا ایک ہمشکل دوسرے کمرے میں موجود ہے ہرچند کہ آپ اپنے آپ کو پیچھے ہی سے دیکھ سکتے ہیں کبھی بھی آگے سے نہیں دیکھ سکیں گے۔ اگر آپ اوپر یا نیچے دیکھیں گے تو بھی آپ کو اپنے ہمزاد ہی دکھائی دیں گے جو آپ کے سامنے پیچھے اوپر اور نیچے موجود ہوں گے۔

اپنے آپ سے رابطہ کرنا کافی مشکل ہوگا۔ ہر دفعہ جب بھی آپ اپنا سر دوسرے ہم زادوں کو دیکھنے کے لئے موڑیں گے تو آپ کو لگے گا کہ وہ بھی مڑ گئے ہیں لہٰذا آپ ان کا کبھی بھی چہرہ نہیں دیکھ پائیں گے۔ لیکن اگر کمرہ کافی چھوٹا ہوگا، تو آپ اپنا ہاتھ دیوار میں سے نکال کر اپنے سامنے موجود ہمزاد کے کندھے کو پکڑ سکیں گے۔ اس وقت آپ کو کافی حیرانگی ہوگی جب آپ کے ہمزاد نے بھی اپنا ہاتھ نکال کر آپ کے کندھے کو پکڑ لیا ہوگا۔ آپ اپنے سیدھے اور الٹے ہاتھ کی طرف بھی پہنچ سکتے ہیں جو آپ کے ہمزاد کو پکڑے ہوئے ہوگا یہاں تک کہ لامحدود آپ کے ہاتھ آپ کو پکڑے ہوئے ہوں گے۔ اصل میں آپ مکمل طور پر کائنات میں اپنے آپ کو پکڑنے کے لئے پہنچ چکے ہوں گے۔ (اس بات کا مشورہ بالکل نہیں دیا جا سکتا کہ آپ اپنے ہمزاد کو نقصان پہنچائیں۔ اگر آپ ایک بندوق نکال کر اپنے ہمزاد پر تان لیں تو لبلبی دبانے سے پہلے سوچ لیجئے گا، کیونکہ آپ کے پیچھے موجود ہمزاد بھی آپ کی جانب بندوق تانے ہوئے ہوگا!)

میزنر کی خلاء میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ آپ کے ارد گرد کی دیواریں منہدم ہو رہی ہیں۔ چیزیں بہت ہی دلچسپ ہو جاتی ہیں۔ فرض کریں کہ کمرے کو بھینچا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں دائیں دیوار آپ کی طرف دو میل فی گھنٹے کی رفتار سے آ رہی ہے۔ اب اگر آپ دائیں طرف کی دیوار کی طرف چلیں گے تو آپ اس دائیں دیوار کے پاس واپس آ جائیں گے جہاں سے آپ چلے تھے لیکن آپ کی رفتار دو میل سے بڑھ گئی ہوگی لہٰذا اب آپ چار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہے ہوں گے۔ اصل میں دائیں دیوار کی جانب ہر چکر مکمل کرکے بائیں دیوار کی طرف نمودار ہونے میں آپ کو دو میل فی گھنٹہ کی اضافی رفتار حاصل ہوگی۔ لہٰذا اب آپ چھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہے ہوں گے۔ کائنات کے گرد ہر مکمل چکر سے آپ کو دو میل فی گھنٹہ کی اضافی رفتار حاصل ہوگی یہاں تک کہ آپ کی سمتی رفتار بتدریج بڑھتے ہوئے زبردست روشنی کی رفتار کے قریب ہو جائے گی۔ ایک مخصوص انتہائی نقطے پر جا کر آپ میزنر کی کائنات میں اس قدر تیز سفر کر رہے ہوں گے کہ آپ واپس وقت میں جا سکتے ہیں۔ اصل میں تو آپ مکان و زمان کے کسی بھی گزرے ہوئے نقطے پر جا سکتے ہیں۔ ہاکنگ نے میزنر کی خلاء کا انتہائی احتیاط سے جائزہ لیا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ دائیں اور بائیں دیوار ثقب کرم کے دہانے سے بالکل مشابہ ہیں۔ بالفاظ دیگر آپ کا کمرہ ثقب کرم جیسا ہی ہے، جہاں پر دائیں دیوار اور بائیں دیوار ایک جیسی ہے جو ثقب کرم کے دو دھانوں جیسا ہی ہے اور یہ دونوں بھی ایک جیسے ہی ہوں گے۔


پھر اس نے اس جانب اشارہ کیا کہ میزنر کی خلاء کلاسیکل اور کوانٹم میکانیات دونوں میں ہی غیر پائیدار تھی۔ مثال کے طور پر اگر آپ دائیں دیوار کی طرف روشنی کی کرن کو پھینکیں گے تو روشنی کی کرن دائیں دیوار سے نمودار ہوتے ہوئے ہر مرتبہ توانائی کو بڑھا لے گی۔ روشنی کی کرن نیلے طیف کی طرف منتقل ہو جائے گی یعنی کہ وہ زیادہ توانائی والی ہو جائے گی یہاں تک کہ اس کی توانائی لامحدود ہو جائے گی جو کہ ایک ناممکن سی بات ہے۔ یا روشنی کی کرن اس قدر طاقتور ہو جائے گی کہ یہ دیوہیکل ثقلی میدان پیدا کر دے گی جو کمرے / ثقب کرم کو خود ہی ڈھیر کر دے گی۔ لہٰذا اگر آپ اس میں سے گزرنے کی کوشش کریں گے تو ثقب کرم منہدم ہو جائے گا۔ کوئی بھی اس بات کو ثابت کر سکتا ہے کہ ایک توانائی کی حرکت کو ناپنے والا آلہ جو خلاء میں موجود مادّے اور توانائی کو ناپتا ہے وہ لامحدود ہو جائے گا کیونکہ اشعاع لامحدود مرتبہ دونوں دیواروں سے گزرے گی۔


ہاکنگ کے لئے یہ وقت میں سفر کی بند گلی ہے – کوانٹم کی اشعاع کا اثر اس وقت تک بنتا رہے گا جب تک کہ وہ لامحدود نہ ہو جائے جس کے نتیجے میں انتشار پھیل جائے گا اور وقت کے مسافر کو جان سے مار کر ثقب کرم کو بند کر دے گا۔


کیونکہ ہاکنگ کے مقالے میں انتشار کے سوال نے طبیعیات کے جہاں میں گرما گرم بحث کو جنم دے دیا ہے جس میں دونوں اطراف کے سائنس دان موجود ہیں جن کی بقائے تقویم کے حوالے سے اپنی الگ سوچ ہے۔ اصل میں تو کچھ طبیعیات دانوں نے مناسب چناؤ مثلاً حجم و لمبائی میں تبدیلی کے ذریعہ ہاکنگ کے مفروضے میں سقم ڈھونڈنے شروع کر دئیے ہیں۔ انھیں معلوم ہوا کہ کئی حل تو ایسے ہیں جہاں توانائی کی حرکت پیمائی کی مقدار تو اصل میں انتشاری کیفیت میں ہوتی ہے لیکن دوسرے حل میں اس کو ٹھیک طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ روسی طبیعیات دان سرگئی کراشنیکوف نے مختلف ثقب کرموں کے اس انتشار کے مسئلے کا جائزہ لیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ " کوئی بھی ایک ریت کے ذرّے جیسا ثبوت موجود نہیں ہے جو یہ بات پیش کرے کہ ٹائم مشین غیر پائیدار ہوگی۔"


یہ طوفان ہاکنگ کے خلاف اس حد تک جا رہا ہے کہ پرنسٹن کے طبیعیات دان لی زن لی نے تو ایک بقائے ضد تقویم مفروضہ پیش کر دیا ہے۔" کوئی بھی طبیعیات کا ایسا قانون موجود نہیں ہے جو مقید وقت جیسے خم کو روک سکے۔"


١٩٩٨ء میں ہاکنگ کو مجبوراً واپس مورچے پر جانا پڑا۔ اس نے لکھا،" یہ حقیقت کہ توانائی کی حرکت پیمائی [اکثر موقعوں پر ] انتشار کو ناپنے میں ناکام ہو گئی ہے اس بات کا عندیہ دے رہی ہے رد عمل بقائے تقویم کو لازم نہیں کرتا۔" اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وقت میں سفر ممکن ہے بلکہ ہمارا فہم اس حوالے سے ابھی نامکمل ہے۔ طبیعیات دان میتھیو وائزر ہاکنگ کے مفروضہ کی ناکامی کو "وقت میں سفر کے حمایتیوں کے حق میں ثبوت کے طور پر دیکھنے کے بجائے اس بات کے عندیہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں کہ بقائے تقویم کے حل طلب مسائل مکمل طور پر کوانٹم ثقل کے نظرئیے کا طالب ہے ۔"


آج ہاکنگ یہ نہیں کہتا کہ وقت میں سفر مطلق ناممکن ہے بلکہ اس کو بہت ہی دور کی کوڑی اور غیر عملی کہتا ہے۔ امکانات بہت تیزی کے ساتھ وقت کے سفر کے خلاف آرہے ہیں۔ لیکن کوئی بھی اس کو مکمل طور پر رد نہیں کرتا۔ اگر ہم کسی طرح سے بڑی مقدار میں مثبت اور منفی توانائی کو قابو میں کر لیں اور پائیداری کے مسئلے پر قابو پا لیں تو اصل میں وقت میں سفر ممکن ہے۔ ( اور شاید اس کی وجہ کہ ہمارے پاس مستقبل کے مسافروں کا سیلاب اس لئے نہیں آ رہا ہے کیونکہ وقت میں سب سے پیچھے اس وقت تک جایا جا سکتا ہے جب ٹائم مشین بنائی گئی ہو اور شاید ٹائم مشین اب تک نہیں بنائی گئی ہے۔)
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 12

گوٹ کی ٹائم مشین



١٩٩١ء میں پرنسٹن کے جے رچرڈ گوٹ III نے آئن سٹائن کی مساوات کا ایک اور حل پیش کیا جو وقت میں سفر کو ممکن بناتا ہے۔ اس کا طریقہ دلچسپ تھا کیونکہ اس نے بالکل ایک نئے طریقے سے شروعات کی تھی۔ اس نے گھومتے ہوئے اجسام ، ثقب کرم اور منفی توانائی کو مکمل طور پر چھوڑ دیا تھا۔

گوٹ کینٹکی میں واقع لوئسویل میں ١٩٤٧ء میں پیدا ہوا تھا اور وہ اب بھی دھیمے جنوبی لہجے میں بات کرتا ہے جواعلیٰ و ارفع نظری طبیعیات کی دنیا میں تھوڑا عجیب سا لگتا ہے۔ اس نے سائنس کی دنیا میں اپنے لڑکپن میں اس وقت قدم رکھا جب اس نے ایک شوقیہ فلکی کلب کو جوائن کرکے ستاروں کو دیکھنے کا مزہ لوٹنا شروع کیا۔اس نے اسکول میں ممتاز ویسٹنگ ہاؤس سائنس ٹیلنٹ سرچ مقابلہ جیتا اور اس وقت کے بعد سے وہ اس مقابلے سے وابستہ رہا ہے اور بطور منصف اعلیٰ کے کافی عرصے تک کام کیا ہے۔ ہارورڈ سے ریاضی میں سند حاصل کرنے کے بعد وہ پرنسٹن چلا گیا جہاں وہ اب بھی کام کرتا ہے۔


کونیات پر تحقیق کرنے کے دوران اس کی دلچسپی "کائناتی تاروں" میں ہو گئی جو بگ بینگ کے کچھ نظریوں کے مطابق اس کی باقیات ہونی چاہئے۔ کونیاتی تار شاید ایک جوہر کے مرکزے سے بھی چھوٹی چیز ہوں گے لیکن ان کی کمیت کہکشانی ہو گی اور وہ خلاء میں کروڑوں نوری برس کے فاصلے پر پھیلے ہوئے ہوں گے۔ گوٹ نے آئن سٹائن کی مساوات کا پہلا حل جو تلاش کیا وہ کونیاتی تاروں کی مدد سے ممکن تھا۔ لیکن پھر اس نے ان کونیاتی تاروں میں کچھ عجیب سے چیز دیکھی۔ اگر آپ کوئی دو کونیاتی تار لے کر ایک دوسرے کی جانب بھیجیں تو متصادم ہونے سے پہلے ممکن ہے کہ ان کو ٹائم مشین کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ سب سے پہلے اس نے یہ پتا لگایا کہ اگر کوئی متصادم ہوتے ہوئے کونیاتی تاروں کے گرد ایک چکر لگائے تو خلاء سکڑ جائے گی جس کے نتیجے میں اس کے خواص عجیب ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی میز کے گرد چکر لگائیں اور واپس اس جگہ پر پہنچیں جہاں سے شروع کیا تھا تو ہم نے ٣٦٠ درجہ کا سفر کیا ہوگا۔ لیکن وہ خلائی جہاز جو کونیاتی تاروں کے گرد اس وقت سفر کر رہا ہوگا جب وہ ایک دوسرے کو پار کر رہے ہوں گے تو یہ ٣٦٠ درجے سے کم کا سفر ہوگا کیونکہ خلاء سکڑ چکا ہوگا۔ (اس کی مقامیات مخروط کی طرح ہوگی۔ اگر ہم کسی مخروط کے گرد مکمل چکر لگائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم نے ٣٦٠ درجے سے کم چکر لگایا ہے۔) اس طرح سے دونوں تاروں کے گرد تیزی سے چکر لگاتے ہوئے ہم روشنی کی رفتار سے بھی تیز سفر کر سکتے ہیں۔ ایسا دور سے دیکھنے والے شاہد کو لگے گا کیونکہ کل فاصلہ امید سے کم ہوگا۔ یہ خصوصی اضافیت سے انحراف نہیں ہے بہرحال آپ کے اپنے وقت کے مطابق خلائی جہاز کبھی بھی روشنی کی رفتار کو پیچھے نہیں چھوڑے گا۔


لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اگر آپ متصادم ہوتے ہوئے کونیاتی تاروں کے گرد سفر کریں تو آپ ماضی کا سفر کر سکتے ہیں۔ گوٹ یاد کرتے ہیں، "جب میں نے اس حل کو ڈھونڈا تھا، میں کافی خوش تھا۔ یہ حل صرف مثبت کمیت کا مادّہ استعمال کرتا ہے جو روشنی کی رفتار سے کم پر حرکت کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف ثقب کرم کے حل زیادہ تر منفی کمیت و توانائی والے مادوں کا استعمال کرتے ہیں ( وہ چیز جس کا وزن عدم سے کم ہوتا ہے)۔"


لیکن ٹائم مشین کے لئے درکار توانائی بہت ہی زیادہ ہوگی۔ "ماضی میں وقت کے سفر کے لئے، کونیاتی تار کی کمیت فی سینٹی میٹر لمبائی لگ بھگ ایک کروڑ ارب ٹن ہوگی اور ان کو روشنی کی رفتار کے 99.999999996 فیصد تیزی کے ساتھ مخالف سمت میں حرکت کرنا ہوگی۔ ہم نے اس رفتار سے کائنات میں کم از کم بلند توانائی والے پروٹون کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا ہے لہٰذا یہ رفتار حاصل کرنا ممکن ہے۔" اس نے کہا۔ کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر کونیاتی تار موجود بھی ہوں گے تو وہ کافی نایاب ہیں اور متصادم تار تو اس سے بھی زیادہ کمیاب ہوں گے۔ لہٰذا گوٹ نے یہ تجویز پیش کی ہے۔ ایک جدید تہذیب ایک کونیاتی تار خلائے بسیط میں تلاش کرے گی۔ دیوہیکل خلائی جہاز اور جسیم آلات کی مدد سے وہ تار کو چوکور حلقے میں تبدیل کر دیں گے جو ہلکا سے مڑا ہوا ہوگا (جو تھوڑا سا خم زدہ کرسی جیسا ہوگا)۔ یہ خیالی حلقہ اپنی قوّت ثقل کے زیر اثر منہدم ہو جائے گا لہٰذا اس طرح سے دو کونیاتی تار ایک دوسرے کو روشنی کی رفتار سے پارکر لیں گے اور اس طرح سے تھوڑے وقت کے لئے ٹائم مشین بن جائے گی۔ اس بات سے قطع نظر گوٹ تسلیم کرتے ہیں ، "ایک منہدم ہوتا ہوا تاروں کا حلقہ جو آپ کو ماضی میں ایک برس پیچھے تک لے جائے اس کو ایک آدھی کہکشاں کی کمیت اور توانائی درکار ہوگی۔"
 

زہیر عبّاس

محفلین
پانچواں باب - 13

وقت کے تناقضات



روایتی طور پر جو دوسری وجہ ٹائم مشین کے خیال کو رد کرنے کی ہے وہ وقت کے تناقضات ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ ماضی میں جا کر اپنے والدین کو قتل کر دیں تو آپ کا پیدا ہونا ہی ناممکن ہوگا۔ لہٰذا آپ کبھی بھی ماضی میں اپنے والدین کو قتل کرنے نہیں جا سکتے۔ یہ بات اہم ہے کیونکہ سائنس کی بنیاد منطقی خیالات پر ہے؛ ایک کھرا وقت کا تناقض اس قابل ہوگا کہ وہ مکمل طور پر وقت میں سفر کو رد کر دے۔

وقت کے ان تناقض کو کئی طرح سے درجہ بند کیا جا سکتا ہے۔


دادا کا تناقض۔ اس تناقض میں آپ ماضی کو اس طرح سے بدل دیتے ہیں کہ حال ناممکن ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ماضی بعید میں ڈائنوسارس سے ملنے کے لئے آپ جاتے ہیں اور حادثاتی طور پر ایک ایسے فقاری پر پیر رکھ دیتے ہیں جس کو انسانیت کا جد بننا ہے۔ اپنے جد کو مار کر آپ خود سے منطقی طور پر زندہ نہیں رہ سکتے۔


اطلاعاتی تناقض۔ اس تناقض میں اطلاع مستقبل سے ماضی میں آتی ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کا کوئی اصلی ماخذ ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر فرض کریں کہ ایک سائنس دان ٹائم مشین بناتا ہے اور ماضی میں جا کر اس کا راز اپنے آپ کی جوانی کو دے دیتا ہے۔ تو وقت میں سفر کے راز کا کوئی اصل ماخذ نہیں ہوگا، کیونکہ وہ ٹائم مشین جو نوجوان کو معلوم ہے وہ اس نے نہیں بنائی ہوگی بلکہ اس کو وہ اس کے بڑھاپے نے دی ہوگی۔


بلکر کا تناقض۔ اس قسم کے تناقض میں ایک شخص جانتا ہے کہ مستقبل کیسا ہوگا اور وہ کچھ ایسا کرتا ہے جس کی وجہ سے مستقبل ناممکن ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ ایک ٹائم مشین بنا سکتے ہیں جو آپ کو مستقبل میں لے جا سکتی ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کی شادی ایک لڑکی جس کا نام جین سے ہونے جا رہی ہے ۔ بہرحال آپ ہیلن سے شادی کر لیتے ہیں اس طرح سے آپ اپنا مستقبل ناممکن بنا لیتے ہیں۔


جنسی تناقض ۔ اس قسم کے تناقض میں آپ اپنے والد بن جاتے ہیں جو حیاتیاتی طور پر ناممکن ہے۔ برطانوی فلاسفر جوناتھن ہیرسن کی لکھی ہوئی ایک کہانی میں ہیرو نہ صرف اپنا باپ بن جاتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو کھا بھی لیتا ہے۔ رابرٹ ہین لین کی کلاسک کہانی "تمام زومبی" میں ہیرو بیک وقت ماں، باپ، بیٹی وغیرہ ہوتا ہے - یعنی کہ ایک ایسا شجرہ جو اسی سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتا ہے۔(جنسی تناقض پیدا کرنا اصل میں ایک انتہائی نازک معاملہ ہے جس کے لئے وقت میں سفر اور ڈی این اے کی میکانیات کا علم رکھنا ضروری ہے ۔)


"ابدیت کے خاتمے " میں آئزک ایسی موف میں ایک ایسی ٹائم پولیس کا تصوّر کیا ہے جو اس قسم کے تناقضات کو پیدا ہونے سے روکتی ہے۔ ٹرمنیٹر فلم اطلاعاتی تناقض کے گرد گھومتی ہے - جس میں ایک مستقبل سے آئے ہوئے روبوٹ سے حاصل کردہ مائیکروچپ کا سائنس دان تجزیہ کرتے ہیں اور اس طرح روبوٹ کی ایک ایسی نسل تیار کرتے ہیں جو شعور رکھتی ہے اور دنیا کو قابو میں کر لیتی ہے۔ بالفاظ دیگر ان فوق روبوٹ کی صورت گری کو کسی موجد نے نہیں بنایا تھا بلکہ یہ سادے طور سے مستقبل کے کسی روبوٹ کے باقی مانندہ حصّے کا کوئی ٹکڑا تھا ۔ مستقبل میں واپسی فلم میں مائیکل جے فاکس دادا کے تناقض سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب وہ وقت میں واپس جاتا ہے اور اپنی ماں سے نوجوانی کی حالت میں ملتا ہے تو وہ فوری طور پر اس کے عشق میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ان کے تعلقات آگے بڑھتے تو فاکس کے مستقبل کے باپ سے اس کی شادی خطرے میں پر جاتی اور اس کا اپنا وجود ہی خطرہ میں پڑ جاتا۔


سائنسی قصص لکھنے والے مصنف جان بوجھ کر طبیعیات کے قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہیں تاکہ ہالی ووڈ میں ان کی فلم کمائی کر سکے۔ لیکن طبیعیات کی دنیا میں اس قسم کے تناقضات کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ان تناقضات کے کسی بھی حل کو لازمی طور سے اضافیت اور کوانٹم کے نظرئیے سے مطابقت پذیر ہونا لازم ہے۔ مثال کے طور پر اضافیت سے مطابقت کے لئے وقت کا دریا کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ آپ وقت کے دریا کو تھام نہیں سکتے۔ اضافیت میں وقت ایک ہموار اور مسلسل بہتی ہوئی سطح ہے جس کو توڑا نہیں جا سکتا۔ یہ مقامیات کو بدل سکتا ہے لیکن اس کو روکا نہیں جا سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اگر اپنے والدین کو ان کے پیدا ہونے سے پہلے مار ڈالیں تو آپ غائب نہیں ہو سکتے۔ یہ قوانین طبیعیات سے انحراف ہوگا۔


حال ہی میں طبیعیات دان وقت کے تناقضات کے دو ممکنہ حل کے لئے جمع ہو رہے ہیں۔ روسی ماہر تکوینیات ایگور نوویکوف اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم اس طرح سے مجبور کر دیے جائیں گے کہ کسی بھی قسم کا تناقض پیدا نہیں ہوگا۔ اس کا طریقہ "خود استقامت کا مدرسہ" کہلاتا ہے۔ اگر وقت کا دریا خم کھا کر واپس اپنے پاس آ سکتا ہے اور ایک بھنور پیدا کر سکتا ہے تو اس کے خیال میں ایک "نادیدہ ہاتھ" اس وقت حرکت میں آ جائے گا جب آپ ماضی میں جا کر وقت کا تناقض پیدا کرنا چاہیں گے۔ لیکن نوویکوف کا طریقہ آزادی کے مسائل کو پیش کرتا ہے۔ اگر ہم ماضی میں جاتے ہیں اور اپنے پیدا ہونے سے پہلے اپنے والدین سے ملتے ہیں تو ہم سمجھیں کہ ہم کچھ بھی کرنے کے لئے آزاد ہوں گے۔ نوویکوف یقین رکھتا ہے کہ کوئی طبیعیاتی قانون ایسا ہوگا جو ابھی تک دریافت نہیں ہوا ہے جو ہمیں ایسا کچھ بھی کرنے سے روکے گا جس سے مستقبل تبدیل ہو سکتا ہو۔(جیسا کہ والدین کا قتل اور اپنی پیدائش کو روکنا)۔ وہ کہتا ہے، "ہم وقت کے مسافر کو جنت کے باغ میں نہیں بھیج سکتے تاکہ وہ حوا کو درخت سے سیب توڑنے سے روک سکے۔"


وہ کونسی پراسرار قوّت ہوگی جو ہمیں ماضی کو بدلنے سے روک کر اس قسم کے تناقض پیدا کرنے سے روک سکے؟ کوئی بھی ایسی رکاوٹ جو ہمارے اختیار میں حائل ہو وہ غیر معمولی اور پراسرار ہو گی لیکن یہ متوازی کائنات کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ مثال کے طور پر یہ میری خواہش ہو سکتی ہے میں چھت پر بغیر کسی خصوصی آلات کی مدد سے چل سکوں۔ لیکن قانون ثقل مجھے ایسا کرنے سے روکتا ہے؛ اگر میں ایسی کوئی کوشش کاروں گا تو میں گر جاؤں گا، اس طرح سے میرا اختیار محدود ہے۔" وہ لکھتا ہے۔ لیکن وقت کے تناقضات اس وقت ہو سکتے ہیں جب بے جان مادّے (جس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا) کو ماضی میں بھیجا جاتا ہے۔ فرض کریں کہ سکندر اعظم اورفارس کے دروس III کی٣٣٠ قبل مسیح میں ہونے والی لڑائی سے تھوڑی دیر پہلےآپ مشین گن کو ماضی میں بھیج دیں اور ساتھ میں اسے چلانے کی ہدایت بھی بھیج دیں۔ اس طرح سے ہم بعد میں ہونے والی یورپی تاریخ کو بدل سکتے ہیں (اور ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو یورپی زبان کے بجائے فارسی زبان بولنے والا پائیں)۔


اصل میں تو ماضی میں تھوڑی سی بھی گڑبڑ غیر متوقع حال کے تناقض کھڑے کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر افراتفری کا نظریہ "تتلی کے اثر" کی تمثیل کو استعمال کرتا ہے۔ کرۂ ارض پر ماحول کی تشکیل کے وقت تتلی کے پر پھڑپھڑانے سے بھی وہ لہریں نکل سکتی تھیں جو قوّت میں توازن کو بگاڑ دیتیں اور اس کے نتیجے میں طاقتور طوفان پیدا ہوتے۔ یہاں تک کہ صغیر سے صغیر جسم بھی ماضی میں جا کر لامحالہ طور پر ماضی کو ناقابل تصوّر حد تک بدل سکتے ہے جس کے نتیجے میں وقت کا تناقض کھڑا ہو سکتا ہے۔


اس مسئلے سے نمٹنے کا ایک دوسرا راستہ یہ ہے کہ اگر وقت کا دھارا ہموار طرح سے دو دریاؤں میں بٹ جائے، یا اپنی شاخیں بنا کر دو مختلف کائناتیں بنا دے۔ بالفاظ دیگر اگر آپ کو ماضی میں جانا پڑے اور آپ اپنے پیدا ہونے سے پہلے اپنے والدین کا قتل کر دیں تو اصل میں آپ نے ان لوگوں کو قتل کیا ہوگا جو جنیاتی طور پر تو آپ کے والدین جیسے ہیں لیکن وہ ایک متبادل کائنات میں موجود ہیں ایک ایسی کائنات جس میں آپ کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ لیکن اصل کائنات میں موجود آپ کے والدین کو کچھ نہیں ہوا ہوگا۔


دوسرا مفروضہ "کثیر جہاں کا نظریہ" کہلاتا ہے – یعنی کہ تمام ممکنہ کوانٹم کے جہانو ں کا ہونا ممکن ہے۔ اس سے اس انتشار کا خاتمہ ہو جاتا ہے جو ہاکنگ نے ڈھونڈی تھی، کیونکہ اشعاع متواتر ثقب کرم میں سے نہیں گزریں گی جیسا کہ میزنر کی خلاء میں ہوتا ہے۔ یہ صرف ایک ہی دفعہ وہاں سے گزرے گی۔ ہر دفعہ جب بھی وہ ثقب کرم میں داخل ہوگی تو وہ ایک نئے جہاں میں نکلے گی۔ اور یہ تناقض شاید کوانٹم کے نظریہ کے سب سے گہرے سوال تک جاتا ہے یعنی کہ ایسا کس طرح سے ہو سکتا ہے کہ بیک وقت بلی زندہ اور مردہ ہو؟


اس سوال کا جواب دینے کے لئے طبیعیات دان مجبور ہو کر دو انتہائی نامعقول حل پیش کرتے ہیں : آیا یہاں پر کوئی ایسی آفاقی زی ہستی موجود ہے جو اس نظام کو چلا رہی ہے یا پھر لامحدود کوانٹم کی کائناتیں موجود ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چھٹا باب - 1

متوازی کوانٹم کائناتیں

میرے خیال میں یہ بات آسانی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی کوانٹم میکانیات کو نہیں سمجھا ہے ۔

- رچرڈ فائن مین



جو بھی کوانٹم کے نظرئیے سے حیران نہیں ہوا اس نے کوانٹم کی سمجھا ہی نہیں۔

- نیلز بوہر


لامحدود استبعادی راستہ ایک حیرت انگیز وسیع بین النجم فاصلوں کو صرف چند سیکنڈوں میں طے کرنے کا ایک نیا طریقہ ہے ، جو سڑی ہوئی ناگوار اضافی خلاء کے بغیر ہے ۔

- ڈگلس ایڈم



ہچ ہائیکر ز گائیڈ ٹو دی گلیکسی ، ہاتھوں ہاتھ بکنے والا، گستاخ اور سنکی سائنسی قصہ ڈگلس ایڈمس نے لکھا تھا ، اس ناول میں ہیرو کو ستاروں کی طرف سفر کرنے کا ایک زبردست طریقے کا معلوم چلتا ہے۔ ثقب کرم، اضافی راستے یا جہتی گزر گاہوں کو بین الکہکشانی سفر میں استعمال کرنے کے بجائے وہ اصول عدم یقین کو قابو کرنے کا طریقہ حاصل کر لیتا ہے جس کے ذریعہ وہ وسیع بین الکہکشانی خلاء میں آتا جاتا رہتا ہے۔ اگر ہم کسی طرح سے ناممکن الوقوع واقعات کے امکانات کو کسی طرح سے منضبط کر لیں تو ہر چیز یہاں تک کہ سریع از نور رفتار اور وقت میں سفر بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ دور دراز ستاروں تک سیکنڈوں میں پہنچنا ممکن نہیں ہے لیکن جب کوانٹم کے امکانات کو اپنے اختیار کے ساتھ منضبط کر لیا جائے تو ناممکن چیزیں بھی عام سے بات ہو سکتی ہیں۔

کوانٹم کا نظریہ اس خیال پر کھڑا ہے کہ ہر ممکن چیز کے ہونے کا امکان ہے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ وہ چیز کتنی ہی طلسمی یا نامعقول ہو وہ وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔ یہ خیال افراط زدہ کائنات کے نظرئیے کے قلب میں موجود ہے – جب اصل بگ بینگ وقوع پذیر ہوا تھا تو ایک کوانٹم عبوری دور تھا جو نئی حالت میں آنے کے دوران موجود تھا اس میں کائنات یکایک ناقابل تصوّر مقدار سے پھیل گئی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری کائنات انتہائی انہونی والی کائنات کی چھلانگ کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ ہرچند ایڈمس نے دل لگی کی خاطر ایسا لکھا لیکن ہم طبیعیات دان اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ اگر ہم کسی طرح سے ان امکانات کو منضبط کر سکیں تو ایسی چیزیں وقوع پذیر ہو سکتی ہیں جن کو جادو سے الگ کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن سردست امکانات یا واقعات کو تبدیل کرنا ہماری موجودہ ٹیکنالوجی سے کہیں دور کی بات ہے۔

میں کبھی یونیورسٹی میں اپنے پی ایچ ڈی کرنے والے طالبعلموں سے کچھ سادے سے سوالات کرتا ہوں ، مثلاً اس بات کے امکان کا حساب لگا کر بتائیں کہ وہ اچانک تحلیل ہو کر اینٹوں کے دیوار کے دوسری جانب نمودار ہوں۔ کوانٹم کے نظرئیے کے مطابق، تھوڑا سا لیکن قابل حساب امکان اس بات کا موجود ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے ۔ یا ہم اپنے کمرے میں بیٹھ کر تحلیل ہو کر مریخ پر نمودار ہوں۔ کوانٹم نظرئیے کے مطابق نظری طور پر کوئی بھی سرخ سیارے پر نمودار ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ اس بات کا امکان نہایت ہی خفیف ہے کیونکہ ایسا ہونے کے لئے ہمیں کائنات کی عمر سے بھی زیادہ عرصہ تک انتظار کرنا ہوگا۔ نتیجتاً ہماری روزمرہ کی زندگی میں اس طرح کی انہونی کو ہم رد کر دیتے ہیں۔ لیکن ذیلی جوہری ذرّات کے پیمانے پر ایسے امکانات برقیات، کمپیوٹر اور لیزر کے صحیح طور پر کام کرنے کے لئے انتہائی اہم ہیں۔

اصل میں الیکٹران باقاعدگی کے ساتھ تحلیل ہو کر اپنے آپ کو کمپیوٹر اور سی ڈی کے حصّوں میں کے اندر موجود دیواروں کے دوسری طرف پاتے ہیں۔ اگر الیکٹران اس طرح سے بیک وقت دو جگہوں پر نہ پائے جائیں تو جدید تہذیب منہدم ہو جائے گی۔ (ہمارے جسم کے سالمات بھی اس عجیب اصول کے بغیر منہدم ہو جائیں گے۔ دو نظام ہائے شمسی کو خلاء میں ٹکراتا ہوا فرض کریں جو نیوٹن کی قوّت ثقل کے قانون کی اتباع کر رہے ہیں۔ متصادم نظام ہائے شمسی کا نتیجہ صرف تباہی کے باعث سیاروں اور سیارچوں کے کوڑے کے ڈھیر کی صورت میں نکلے گا۔ اسی طرح سے اگر جوہر نیوٹن کے قوّت ثقل کے قانون کی اتباع کریں گے تو وہ جب بھی دوسرے جوہر سے ٹکریں گے تو تباہ ہو جائیں گے۔ وہ کون سی چیز ہے جو ان دو جوہروں کو ایک پائیدار سالمہ میں باندھ کر رکھتی ہے ۔ اصل میں الیکٹران ایک وقت میں اتنی جگہ موجود ہوتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ایک الیکٹران کا ابر بن جاتا ہے جو جوہروں کو آپس میں باندھ کر رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیوں سالمات پائیدار ہوتے ہیں اور کائنات بکھر نہیں جاتی کیونکہ الیکٹران ایک ہی وقت میں کئی جگہ موجود ہوتے ہیں ۔)

لیکن جب الیکٹران متوازی حالت میں عدم اور وجود کے درمیان جھول سکتے ہیں تو پھر کائنات کیوں ایسا نہیں کر سکتی؟ بہرکیف ایک وقت وہ بھی تھا جب کائنات ایک الیکٹران سے بھی چھوٹی تھی۔ ایک مرتبہ کوانٹم اصول کو کائنات پر لاگو کرنے کے امکان کو متعارف کروا دیں تو ہم لامحالہ متوازی کائنات کو زیر غور لانے پر مجبور ہو جائیں گے۔

یہ عین وہی امکان ہے جس کو فلپ کے ڈک نے پریشان کر دینے والی سائنسی کہانی "اونچے محل میں آدمی" کی طلسمی کہانی میں بیان کیا تھا۔ اس کتاب میں ایک متبادل کائنات تھی جو ہماری کائنات سے صرف ایک اہم واقعے کے نتیجے میں جدا ہو گئی تھی۔ ١٩٣٣ء میں اس کائنات میں دنیا کی تاریخ اس وقت بدل گئی جب ایک اجرتی قاتل کی گولی سے صدر روز ویلٹ اپنے دفتر کے پہلے ہی برس میں مارے گئے۔ نائب صدر گارنر نے ان کی جگہ سنبھال کی اور ایک ایسی علیحدگی کی پالیسی بنائی جس کے نتیجے میں ریاست ہائے متحدہ کی فوج کمزور ہو گئی۔ پرل ہاربر پر حملے سے بے خبر ١٩٤٧ءتک پورے جنگی بیڑے کی تباہی کے بعد ریاست ہائے متحدہ جرمن اور جاپان کے آگے سرنگوں ہونے کے لئے مجبور ہو گیا تھا۔ بالآخر ریاست ہائے متحدہ کو تین ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ جرمن نے مشرقی ساحل کا انتظام سنبھال لیا تھا، جاپانیوں نے مغربی ساحل کا اور ایک مشکل حصّے جو پہاڑوں میں گھرا ہوا تھا وہاں ریاست باقی رہی تھی۔ اس متوازی کائنات میں ایک پراسرار فرد ایک کتاب لکھتا ہے جس کا نام " ٹِڈے کا بڑا جھوٹ" ہوتا ہے جس کی بنیاد بائبل کا ایک جملہ ہوتا ہے اس کتاب پر نازی پابندی لگا دیتے ہیں۔ یہ اس متبادل کائنات کے بارے میں ہوتی ہے جس میں روز ویلٹ کو قتل نہیں کیا جاتا اور امریکہ اور برطانیہ مل کر جرمن کو شکست دے دیتے ہیں۔ کہانی کی ہیروئن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اس سچائی کو دیکھے کہ آیا ایسی کوئی متبادل کائنات موجود ہے جہاں استبداد اور نسل پرستی کے برعکس جمہوریت اور آزادی پائی جاتی ہو۔



شفقی حصّہ

اونچے محل میں آدمی اور ہماری دنیا صرف تھوڑے سے حادثات کی وجہ سے الگ ہوئے ہیں صرف ایک قاتل کی گولی کی وجہ سے۔ بہرصورت یہ ممکن ہے کہ ایک متوازی جہاں ہمارے جہاں سے ہر چھوٹے سے واقع کے نتیجے میں الگ ہو جائے۔ کسی بھی اکلوتی کوانٹم کے واقعہ یا کائناتی شعاع کی وجہ سے۔

ٹیلی ویژن سلسلے کے ڈرامے ٹوائی لائٹ زون کی ایک قسط میں ایک آدمی جب سو کر اٹھتا ہے تو اس کی بیوی اس کو پہچاننے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس کو دیکھ کر وہ پولیس بلانے سے پہلے ایک زور کی چیخ مارتی ہے۔ جب وہ قصبے میں گھومتا ہے تو اس کا لنگوٹی یار بھی اس کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے جیسے کہ اس کا وجود ہی نہیں ہو۔ آخرکار وہ اپنے والدین کے گھر کا چکر لگاتا ہے اور اس کا قلب پھٹ پڑتا ہے۔ اس کے والدین دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کو کبھی بھی نہیں دیکھا اور نہ ہی ان کا کوئی بیٹا تھا۔ خاندان، دوستوں اور گھر کے بغیر، وہ قصبے میں ایسے ہی بلا مقصد کے گھومنا شروع کر دیتا ہے اور بالآخر باغ میں موجود ایک بینچ پر جا کر بے گھر آدمی کی طرح سو جاتا ہے۔ جب اگلے دن وہ سو کر اٹھتا ہے تو اپنے آپ کو واپس بستر میں اپنی بیوی کے ساتھ پاتا ہے۔ بہرحال جب اس کی بیوی کروٹ بدلتی ہے تو اس کو حیرت کا جھٹکا لگتا ہے کیونکہ وہ اس کی بیوی ہی نہیں ہوتی بلکہ کوئی ایسی اجنبی خاتون ہوتی ہے جس کو اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہوتا۔

کیا ایسی خلاف فطرت کہانیاں ہونا ممکن ہیں؟ شاید۔ اگر کوئی ٹوائی لائٹ زون کے حامی سے کچھ چبتے ہوئے سوالات کئے جائیں اس کی ماں کے بارے میں ، تو شاید اس کو معلوم ہوگا کہ اس کا حمل ضائع ہو گیا ہوگا اور اس کا کبھی بھی بیٹا نہیں ہوگا۔ کبھی ایک اکیلی اشعاع ، خلائے بسیط کا ایک ذرّہ مادر رحم میں جا کر ڈی این اے کی گہرائی میں گھس سکتا ہے اور کچھ ایسا کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں بالآخر حمل ضائع ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک اکیلا کوانٹم کا واقعہ کسی بھی دنیاؤں کو علیحدہ کر سکتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جس میں آپ ایک معمول کی زندگی گزار رہے ہوں جس میں آپ ایک قانون کی پاسداری کرنے والے شہری ہوں اور دوسری بالکل ویسی ہی دنیا بجز اس کے کہ آپ کا وہاں کوئی وجود نہیں ہے۔

ان جہانوں میں داخل ہونا قوانین طبیعیات کی رو سے ممکن ہے۔ لیکن ایسا ہونے بعید از قیاس اور انہونی ہی ہوگا۔ ایسے کسی بھی واقعے کے ہونے کے امکان فلکیاتی پیمانے پر چھوٹا ہے۔ کوانٹم کا نظریہ کائنات کی ہمیں ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو اس سے کہیں زیادہ عجیب ہے جو آئن سٹائن نے دی ہے۔

اضافیت میں زندگی کی سیج جس پر آپ کو اداکاری کرنی ہے وہ ہو سکتا ہے کہ ربڑ سے بنا ہو جس میں اداکار سیج پر چلتے ہوئے خم کھائے ہوئے راستوں پر سفر کرتے ہیں۔ جیسا کہ نیوٹن کی دنیا میں ہوتا ہے ویسے ہی آئن سٹائن کی دنیا کے اداکار طوطے کی طرح اپنا پہلے سے لکھا ہوا اسکرپٹ پڑھتے ہیں۔ لیکن کوانٹم کے کھیل میں اداکار اچانک اپنا اسکرپٹ پھینک دیتے ہیں اور اپنی مرضی سے اداکاری کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پتلیاں اپنی ڈوریاں کاٹ دیتی ہیں۔ اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ اداکار سیج پر ظاہر اور غائب ہوتے رہتے ہیں۔ اور زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اداکار اپنے آپ کو بیک وقت دو جہانوں میں پاتے تھے۔ اداکار جب اپنی سطریں پڑھتے ہیں تو کبھی یقین سے نہیں جانتے کہ آیا وہ کسی ایسے اداکار سے بات کر رہے ہوں جو یکایک غائب ہو کر کسی دوسری جگہ حاضر ہو سکتا ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
چھٹا باب - 2
مہیب دماغ: جان وہیلر


سوائے آئن سٹائن اور بوہر کے کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جس نے جان وہیلر کی طرح کوانٹم کے نظرئیے کی نامعقولیت سے لڑ کر کامیابی حاصل کی ہو۔ کیا تمام طبیعیاتی حقیقت صرف ایک سراب ہے؟ کیا متوازی کوانٹم کے جہاں وجود رکھتے ہیں؟ ماضی میں، جب وہ کوانٹم کے ہٹیلے تناقضات پر غور فکر نہیں کر رہا تھا تو وہیلر ان امکانات کا اطلاق جوہری اور ہائیڈروجن بم بنانے میں کر رہا تھا اور وہ بلیک ہول کے تجزیہ میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہا تھا۔ جان وہیلر ان نابغہ روزگاروں میں سے آخری دیوہیکل یا مہیب دماغ تھا جیسا کہ اس کے شاگرد رچرڈفائن مین نے ایک دفعہ اس وقت کہا تھا جب وہ کوانٹم کے پاگل پنے کے نتائج سے لڑ رہا تھا ۔ یہ وہیلر ہی تھا جس نے بلیک ہول کی اصطلاح کو ١٩٦٧ء میں نیویارک میں ہونے والی ناسا کی گوڈارڈ انسٹیٹیوٹ فار اسپیس اسٹڈیز کی کانفرنس میں پہلے نابض ستارے کی دریافت کے وقت پیش کی تھی۔

وہیلر ١٩١١ء میں فلوریڈا میں واقع جیکسن ویل میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ایک لائبریرین تھا لیکن انجینئرنگ اس کے خون میں شامل تھی۔ اس کے تین چچا کانوں کے انجنیئر تھے اور اکثر اپنے کام میں دھماکہ خیز مواد استعمال کرتے تھے۔ ڈائنامائٹ کے استعمال کا خیال اس کو بہت لبھاتا تھا اور اس کو دھماکے دیکھنے کا کافی شوق تھا۔ (ایک دن وہ ڈائنامائٹ سے بے احتیاطی کے ساتھ تجربہ کر رہا تھا کہ اپنے انگوٹھے کا کچھ حصّہ اور انگلی کا کونہ اڑا بیٹھا۔ اتفاقی طور پر جب آئن سٹائن کالج کا طالبعلم تھا تو ایک ایسا ہی دھماکہ اس کے ہاتھ میں بے احتیاطی کی وجہ سے ہوا جس کے نتیجے میں اس کو کئی ٹانکے لگے۔)

وہیلر ایک زود بالغ بچہ تھا، علم الاحصاء کا ماہر اور ہر اس نئی کتاب کو چاٹنے والا جو وہ کسی نئے نظریہ یعنی کہ کوانٹم میکانیات کے بارے میں اپنے دوستوں سے سنتا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک نظریہ یورپ میں نیلز بوہر ، ورنر ہائیزن برگ اور ارون شروڈنگر بنا رہے تھے جس نے یکایک جوہر کے راز کو فاش کر دیا تھا۔ اس سے چند برس پہلے ارنسٹ ماک کے مقتدی جوہروں کے وجود کا تمسخر یہ کہہ کر اڑایا کرتے تھے کہ جوہروں کو تجربہ گاہ میں کبھی بھی نہیں دیکھا جا سکے گا اور شاید ان کی حقیقت قصوں سے زیادہ نہیں ہوگی۔ ان کے دعوے کے مطابق جس شئے کو دیکھا نہ جا سکے وہ کیسے وجود رکھ سکتی ہے۔

عظیم جرمن طبیعیات دان لڈوگ بولٹزمین جس نے حرحرکیات کے قوانین کی بنیاد رکھی تھی اس نے ١٩٠٦ء میں خودکشی کر لی تھی ۔ اس کی موت کی وجوہات میں سے ایک اس کا جوہر کے مفروضے کو بیان کرنے کے دوران زبردست مذاق بنایا جانا تھا۔

پھر چند یادگار برسوں میں ١٩٢٥ء سے ١٩٢٧ء کے دوران جوہر کے راز افشاء ہونے شروع ہو گئے۔ جدید تاریخ میں (سوائے ١٩٠٥ء میں آئن سٹائن کے کام کے علاوہ) اس عظیم پیمانے کی دریافت اتنی کم عرصے میں نہیں حاصل کی گئی۔ وہیلر بھی اس انقلاب کا حصّہ بننا چاہتا تھا۔ لیکن اس کو اس بات کا احساس تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ طبیعیات کے میدان میں پیچھے رہ گیا ہے؛ کوئی ایک بھی عالمگیر مرتبہ کا طبیعیات دان یہاں موجود نہیں تھا۔ اپنے پیش رو جے رابرٹ اوپن ہائیمر کی طرح وہیلر نے امریکہ کو چھوڑ کر کوپن ہیگن کا سفر کیا تاکہ خود اس دور کے ماہر نیلز بوہر سے کچھ سیکھ سکے۔

الیکٹران پر ہونے والے پچھلے تجربات نے ثابت کیا تھا کہ وہ ذرّات اور موج کی طرح سے برتاؤ کرتے ہیں۔ یہ عجیب دھرا پن جو ذرّات اور موجوں کے درمیان موجود تھا حتمی طور پر کوانٹم طبیعیات دانوں نے تلاش کر لیا تھا۔ جوہر کے گرد ناچتے ہوئے الیکٹران ذرّات جیسے ہونے چاہئے تھے لیکن ان کے ساتھ ایک پراسرار موج بھی تھی۔١٩٢٥ء میں آسٹریا کے طبیعیات دان ارون شروڈنگر نے ایک مساوات کو پیش کیا (شہرہ آفاق شروڈنگر کی مساوات) جو انتہائی صحت کے ساتھ الیکٹران کے ساتھ موجود موج کی حرکت کو بیان کرتی تھی۔ اس موج کو یونانی حرف پی ایس آئی سے نمایاں کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں جوہر کے برتاؤ کے بارے میں انتہائی درستگی کے ساتھ پیش گوئی کی جا سکتی تھی اور اسی نے طبیعیات کے میدان میں انقلاب کے لئے چنگاری لگا دی۔ یکایک صرف پہلے ہی اصول کی مدد سے کوئی بھی جوہر کے اندر دیکھ کر یہ حساب لگا سکتا ہے کہ الیکٹران اپنے مدار میں کیسے ناچ رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ تغیر پیدا کرتے ہوئے جوہروں کو سالمات میں آپس میں باندھتے ہیں۔

بطور کوانٹم طبیعیات دان پال ڈیراک اکثر شیخی بگھارتے ہوئے کہتا تھا کہ جلد ہی طبیعیات تمام کیمیا کو کم کرکے صرف انجینئرنگ تک محدود کر دے گی۔ اس نے دعویٰ کیا ، "وہ طبیعیاتی قوانین جو طبیعیات کے بڑے حصّے کے ریاضی نظرئیے کے لئے ضروری ہیں اور پوری کیمیا جانی جا چکی ہے، مشکل صرف ان قوانین کے اطلاق کا ان مساوات پر ہے جو بہت زیادہ طور پر قابل حل ہونے کے لئے پیچیدہ ہیں۔" جتنا زیادہ پی ایس آئی فعل شاندار ہے اتنا ہی وہ اب بھی پراسرار ہی ہے کہ اصل میں آیا یہ کس چیز کو پیش کرتا ہے۔

بالآخر ١٩٢٨ء میں طبیعیات دان میکس بورن نے ایک مفروضہ پیش کیا کہ موجی تفاعل الیکٹران کے کسی بھی نقطے پر موجود ہونے کے امکان کو پیش کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر آپ کو کبھی نہیں پتا لگ سکے گا کہ الیکٹران کس جگہ پر ہے؛ آپ بس اتنا کر سکتے ہیں کہ اس کے موجی تفاعل کا حساب لگا سکتے ہیں جو آپ کو اس کے کسی جگہ پر موجود ہونے کا امکان بتا سکتا ہے۔ لہٰذا اگر جوہری طبیعیات کو الیکٹران کے ادھر یا ادھر ہونے کے موجی امکان تک کم کیا جا سکتا ہے اور اگر ایک الیکٹران بیک وقت دو جگہوں پر ہو سکتا ہے تو ہم کس طرح سے اس بات کا تعین کریں گے کہ اصل میں الیکٹران آخر میں ہے کہاں؟

بوہر اور ہائیزن برگ نے بالآخر کوانٹم کے پکانے کی کتاب میں نسخے کو مکمل کر لیا جو خوبصورتی کے ساتھ جوہری تجربات میں شاندار صحت کے ساتھ کام کرتا ہے۔ موجی تفاعل صرف آپ کو الیکٹران کے یہاں یا وہاں ہونے کے امکان کو بیان کرتا ہے۔ اگر موجی تفاعل کسی نقطے پر بڑا ہو جائے، تو اس کا مطلب ہوگا کہ الیکٹران کے وہاں ہونے کا امکان کافی زیادہ ہے۔ (اگر وہ چھوٹا ہے تو اس بات کا امکان کم ہے کہ الیکٹران وہاں ہوگا۔)

مثال کے طور پر اگر ہم کسی شخص کا موجی تفاعل کو "دیکھ" سکتے ہوں تو وہ اس شخص جیسے ہی لگے گا۔ بہرحال یہ موجود تفاعل انتہائی نرمی کے ساتھ خلاء میں جذب ہو رہا ہوگا، یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بات کا تھوڑا امکان موجود ہے کہ وہ شخص چاند پر بھی پایا جا سکتا ہے۔ (اصل میں انسان کا موجی تفاعل پوری کائنات میں پھیلا ہوا ہے ۔) اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ درخت کا موجی تفاعل آپ کو اس بات کے امکان کا بتا سکتا ہے کہ آیا وہ کھڑا ہے یہ گر گیا ہے لیکن وہ قطعیت کے ساتھ یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کس حالت میں ہے۔ لیکن عقل عامہ ہمیں بتاتی ہے کہ اجسام قطعی حالت میں ہوتے ہیں۔ جب آپ درخت کو دیکھتے ہیں ، تو وہ قطعیت کے ساتھ آپ کے سامنے ہوتا ہے - یا تو وہ کھڑا ہوتا ہے یا گرا ہوا ہوتا ہے لیکن بیک وقت دونوں حالتوں میں نہیں ہوتا۔

موجی امکان اور وجود کے بارے میں ہماری عقل عامہ میں ہونے والی اس اختلاف کو حل کرنے کے لئے بوہر اور ہائیزن برگ نے اس بات کو فرض کیا کہ کسی بھی شاہد کے مشاہدے کے بعد موجی تفاعل جادوئی طریقے سے منہدم ہو جاتا ہے ، اور الیکٹران ایک قطعی حالت میں آ جاتے ہیں – یعنی کہ درخت کو دیکھنے کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اصل میں وہ کھڑا ہے۔ بالفاظ دیگر ، مشاہدے کا عمل الیکٹران کی حتمی حالت کا تعین کرتا ہے۔ وجود کے لئے مشاہدہ بہت اہم ہے۔ الیکٹران کو دیکھنے کے بعد اس کا موجی تفاعل منہدم ہو جاتا ہے ، اس طرح سے الیکٹران قطعیت کی حالت میں آ جاتے ہیں اور اس کے بعد موجی تفاعل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

لہٰذا بوہر کے کوپن ہیگن کے مکتبہ فکر کا خلاصہ ہم اپنے الفاظ میں کچھ یوں بیان کر سکتے ہیں:

الف۔ تمام توانائی مجرد بنڈلوں میں ہوتی ہے جس کو کوانٹا کہتے ہیں (مثال کے طور پر روشنی کے کوانٹم ، فوٹون ہوتے ہیں۔ کمزور قوّت کے کوانٹا ڈبلیو اور زی بوسون کہلاتے ہیں، مضبوط قوّت کے کوانٹم گلوآن کہلاتے ہیں ، اور قوّت ثقل کے کوانٹم گریویٹون کہلاتے ہیں جن کو ابھی تجربہ گاہ میں دیکھا جانا باقی ہے۔)

ب۔ مادّہ نقطے جیسے ذرّات کے ذریعہ پیش ہوتا ہے، لیکن اس ذرّات کو حاصل کرنے کا امکان موجی تفاعل سے ملتا ہے۔ موج ایک موجی مساوات کا اتباع کرتی ہے (جیسا کہ شروڈنگر کی موجی مساوات)۔

ج۔ مشاہدے سے پہلے جسم تمام ممکنہ حالتوں میں بیک وقت موجود ہوتا ہے، اس بات کے تعین کے لئے کہ جسم کس حالت میں ہے ہمیں مشاہدہ کرنا ہوتا ہے جو موجی تفاعل کو منہدم کر دیتا ہے اور جسم ایک قطعی حالت میں آ جاتا ہے۔ مشاہدے کا عمل موجی تفاعل کو تباہ کر دیتا ہے اور جسم ایک قطعی حقیقت کو فرض کر لیتا ہے۔ موجی تفاعل نے اپنا کام پورا کر دیا ہوتا ہے یعنی کہ وہ ہمیں کسی جسم کو اس مخصوص حالت میں پانے کے لئے درست امکان فراہم کرتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
چھٹا باب - 3

جبریت یا غیر یقینی؟


کوانٹم کا نظریہ وقت کا سب سے کامیاب نظریہ ہے۔ کوانٹم کے نظریہ کی معراج معیاری نمونہ ہے جو عشروں پر محیط ذرّاتی اسراع میں ہونے والی تجرباتی ریاضتوں کا ثمر ہے۔ اس نظریہ کے کچھ حصّوں کو ایک حصّے میں دس ارب تک جانچا جا چکا ہے۔ اگر کوئی نیوٹرینو کی کمیت کو جمع کر دے تب معیاری نمونہ ان تمام تجربات سے بغیر کسی اِستثنیٰ کے مطابقت رکھے گا جو ذیلی جوہری ذرّات پر کیے گئے ہیں۔

لیکن چاہئے کوانٹم کا نظریہ جتنا بھی کامیاب ہو، تجرباتی طور پر یہ اس خیال پر انحصار کرتا ہے جس پر فلسفیوں اور نظریوں نے تنازعات کے طوفان کو پچھلے اسی برس سے برپا کیا ہوا ہے۔ دوسری بات با الخصوص یہ ہے کہ اس نے مذہبی خفگی کو بھی پیدا کیا ہے کیونکہ یہ اس بات پر سوال اٹھاتا ہے کہ ہماری تقدیر کا فیصلہ کون کرے گا۔ پوری تاریخ میں فلسفی، نظریاتی اور سائنس دان مستقبل کے بارے میں پر تجسس رہے ہیں کہ آیا کسی طرح سے ہم مقدر کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ شیکسپیئر کے مک بیتھ میں ، بنقو ، اس پردے کو اٹھانے کے لئے بیقرار تھا جس نے ہمارے مقدر کو ڈھانک رکھا تھا ، اس نے یادگار جملے کہے تھے:

اگر تم وقت کے تخم کو دیکھ سکتے ہو

اور یہ کہتے ہو کہ کون سا بیچ اگے گا اور کون سا نہیں

تو مجھ سے بات کرو۔۔۔

(ایکٹ ١، منظر ٣)



شیکسپیئر نے یہ الفاظ ١٦٠٦ء میں لکھے تھے۔ ٨٠ برس بعد ایک اور دوسرے انگریز آئزک نیوٹن نے یہ دعویٰ کرنے کی جسارت کی کہ وہ اس قدیمی سوال کا جواب جانتا ہے۔ آئن سٹائن اور نیوٹن دونوں ایک خیال پر یقین رکھتے تھے جس کو جبریت کہتے ہیں جو کہتا ہے کہ مستقبل کے تمام واقعات کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ نیوٹن کے لئے کائنات ایک جسیم گھڑی جیسی تھی جس کو خدا نے تخلیق کرتے وقت ابتدا میں چابی دے دی تھی۔ تب سے یہ چل رہی ہے اور اس کے حرکت کے تین قوانین کا اتباع انتہائی درستگی کے ساتھ قابل پیش گوئی کے کر رہی ہے۔ فرانسیسی ریاضی دان پیری سائمن ڈی لا پلاس جو نپولین کا سائنسی مشیر تھا لکھتا ہے کہ نیوٹن کے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی مستقبل کی پیش بینی بعینہ ایسے درستگی کے ساتھ کر سکتا ہے جیسے کہ کسی کے مستقبل کو دیکھا جاتا ہے۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ اگر کسی ہستی کو کائنات میں موجود تمام ذرّات کی سمتی رفتار اور مقام معلوم ہو تو" ایسی ذی شعور ہستی کے لئے کچھ بھی غیر یقینی نہیں ہوگا؛ اور مستقبل ماضی کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے ہوگا۔" جب لا پلاس نے نپولین کو اپنا شاہکار سماوی میکانیات پیش کیا ، تو بادشاہ نے کہا، "تم نے یہ اتنا سارا کام آسمانوں پر خدا کا ذکر کئے بغیر کیا ہے۔" لاپلاس نے جواب دیا ، "جناب ، مجھے اس خیال کی ضرورت نہیں تھی۔"

نیوٹن اور آئن سٹائن کے لئے آزاد اختیار یعنی کہ ہم اپنی منزل کے لئے خودمختار ہیں ایک دھوکہ تھا۔ حقیقت کا فہم یعنی کہ ٹھوس اجسام جن کو ہم چھوتے ہیں اصل میں ہوتے ہیں اور قطعی حالت میں وجود رکھتے ہیں، آئن سٹائن اس کو "ظاہری حقیقت" کہتا تھا۔ اس نے واضح طور پر اپنے نقطہ نظر کو اس طرح سے پیش کیا:

میں ایک جبریت کا قائل ہوں، اس بات کے لئے مجبور ہوں کہ اس طرح عمل کروں کہ جیسے آزاد اختیار ملا ہوا ہے ، کیونکہ اگر میں شہری سماج میں رہنے کی خواہش رکھتا ہوں تو مجھے ذمہ دار ہونا ہوگا۔ میں فلسفیانہ طور پر جانتا ہوں کہ ایک قاتل اپنے جرم کے لئے سزاوار نہیں ہے، لیکن میں اس کے ساتھ چائے پینے کو ترجیح نہیں دوں گا۔ میرا مستقبل کا تعین مختلف طاقتوں نے کیا ہوا ہے جس پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے ، بطور خاص ان پراسرار غدودوں میں جن میں قدرت نے حیات کی روح کو تیار کیا ہے۔ ہینری فورڈ اس کو اپنے دل کی آواز کہتا ہے ، سقراط اس کو شیطان کہہ کر پکارتا ہے: ہر آدمی اپنے طریقے سے اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ انسانی چاہت آزاد نہیں ہے۔۔۔ ہر چیز متعین ہے ۔۔۔ ان قوّتوں کے ذریعہ جن پر ہمارا کوئی قابو نہیں ہے ۔۔۔ چاہئے کیڑے ہوں یا ستارے ہوں۔ انسان، سبزیاں یا کائناتی خاک، ہم تمام پراسرار وقت کے ہاتھوں ناچ رہے ہیں ، فاصلہ میں آہستگی کے ساتھ ایک غیر مرئی کھلاڑی کے ساتھ۔

نظری بھی اس سوال سے نبرد آزما ہیں۔ دنیا کے اکثر مذاہب کسی قسم کی تقدیر کے لکھے پر یقین رکھتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہے کہ نہ صرف خدا قادر مطلق (طاقت والا)اور ہر جا حاضر (ہر جگہ موجود ) ہوتا ہے، بلکہ علام الغیوب (ہر چیز یہاں تک کہ مستقبل کا بھی جاننے والا) بھی ہے۔ کچھ مذاہب میں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خدا ہماری پیدائش سے پہلے ہی اس بات سے بھی باخبر ہے کہ آیا ہمیں جنّت میں جانا ہے کہ دوزخ میں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ "لوح محفوظ" آسمانوں میں کہیں موجود ہے جس میں ہر چیز کا ذکر ہے بشمول ہمارے نام، تاریخ پیدائش، ناکامیاں اور کامیابیاں، ہمارے خوشی اور غم، ہماری موت کی تاریخ، اور آیا ہم جنّت کے حقدار ہوں گے یا ابد تک دوزخ کی آگ میں جلیں گے۔

( مقدر کے اس نازک نظری سوال نے ایک طرح سے کیتھولک چرچ کو ١٥١٧ء میں آدھا کرنے میں اس وقت اہم کردار ادا کیا جب مارٹن لوتھر نے ویٹن برگ میں پچانوے گرجا گھروں سے گفت و شنید کی۔ اس میں اس نے گرجا کے گناہوں کے بعد معافی کے پرچار پر حملہ کیا – یہ ایک طرح سے امیر لوگوں کے لئے جنّت میں جگہ پانے کے لئے رشوت دینے جیسا عمل تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے لوتھر یہ کہنا چاہتا ہو، خدا ہمارے مستقبل کے بارے میں وقت سے پہلے جانتا ہے اور ہماری قسمت لکھی جا چکی ہے، لیکن خدا کو اس کی نیت کو تبدیل کرنے کے لئے چرچ کو موٹی رقم چندے کی مد میں دے کر راغب نہیں کیا جا سکتا۔)

لیکن ان طبیعیات دانوں کے لئے جو امکان کے تصوّر پر یقین رکھتے ہیں، اب تک کی سب سے متنازع شرط تیسری شرط ہے جس نے نسلوں سے طبیعیات دانوں اور فلسفیوں کو سر درد میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ "مشاہدہ" ایک کھلا اور غلط طریقے سے بیان کیا گیا ہوا تصوّر ہے۔ مزید براں یہ کہ یہ اس چیز پر انحصار کرتا ہے کہ اصل میں دو قسم کی طبیعیات ہے ۔ ایک تو ذیلی جوہروں کی عجیب و غریب دنیا ہے ، جہاں پر الیکٹران بیک وقت دو جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔ اور دوسری جہاں اکبر کی طبیعیات ہے جس میں ہم رہتے ہیں، جو نیوٹن کی عقل عامہ کے قوانین کا اتباع کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔

نیلز بوہر کے مطابق، ایک غیر مرئی "دیوار" ہے جس نے روزمرہ کی ہماری شناسا دنیا یعنی جہاں اکبر کو جوہری دنیا سے الگ کیا ہوا ہے۔ جوہری دنیا کوانٹم کے عجیب و غریب قوانین کے تابع ہے ، ہم دیوار کے اس پار رہتے ہیں ، ایک ایسے جہاں میں جہاں سیارے اور ستارے موجود ہیں جہاں موجی تفاعل پہلے ہی منہدم ہو چکا ہے۔

وہیلر جس نے کوانٹم میکانیات کو اس کے خالقوں سے سیکھا تھا، چاہتا تھا کہ اس سوال کے اوپر ان دونوں جہانوں کا خلاصہ بیان کرے۔ وہ بیس بال کے کھیل کی مثال دیتا تھا جس میں تین ثالث ہوتے ہیں اور وہ بیس بال کے اہم نقطے کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک فیصلہ کے دوران تینوں ثالث کہتے ہیں :

پہلا: میں ان کو ایسے پکاروں گا جیسا کہ میں دیکھوں گا۔

دوسرا: میں ان کو ایسا کہوں گا جیسے کہ وہ ہیں۔

تیسرا: وہ اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہیں جب تک میں انھیں کچھ کہوں نا۔


وہیلر کے لئے دوسرا ثالث آئن سٹائن تھا جو اس بات پر یقین رکھتا تھا انسان کے تجربے سے باہر ایک مطلق حقیقت موجود ہے۔ آئن سٹائن اس کو "معروضی حقیقت" کہتا تھا، یہ تصوّر جس میں اجسام ایک قطعی حالت میں انسانی مداخلت کے بغیر ہوتے تھے۔ تیسرا ثالث بوہر ہے جو اس بات کو بیان کرتا ہے کہ حقیقت مشاہدے کے بعد ہی بیان کی جا سکتی ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
چھٹا باب - 4

جنگل میں درخت


طبیعیات دان اکثر فلسفیوں کو ناپسندیدگی سے دیکھتے ہیں۔ اور رومی سیسرو کا قول اکثر دہراتے ہیں جس نے ایک دفعہ کہا تھا ، "کوئی بھی چیز اتنی بیہودہ نہیں ہوتی کیونکہ اس کو فلسفی نے نہیں کہا ہوتا۔" ریاضی دان اسٹینس لاء الام جو نامعقول تصوّرات کو پر وقار نام دینے پر شاکی تھا، اس نے ایک مرتبہ کہا تھا ، "پاگل پن وہ قابلیت ہے جو مختلف قسم کی بے وقوفیوں سے خود کو الگ کرتی ہے۔" آئن سٹائن نے خود ایک مرتبہ فلسفے کے بارے میں لکھا تھا ، " ایسا نہیں ہے جیسے تمام فلسفہ شہد سے لکھا ہو؟ جب کوئی اس پر دھیان دیتا ہے تو یہ بہت حیرت انگیز دکھتا ہے لیکن جب وہ دوبارہ نگاہ اٹھا کر دیکھتا ہے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ صرف چورا ہی بچتا ہے۔"

طبیعیات دان ایک غیر مستند کہانی کو بھی بیان کرتے ہیں جو غالباً ایک یونیورسٹی کے صدر نے اس وقت بیان کی تھی جب اس نے یونیورسٹی کے طبیعیات، ریاضی اور فلسفے کے شعبوں کا بجٹ دیکھا اور اس کو دیکھ کر بپھر گیا۔ غالباً اس نے پوچھا تھا ، "تم طبیعیات دان کیوں ہمیشہ مہنگے آلات مانگتے ہو؟ دیکھو ریاضی کے شعبے نے سوائے کاغذ، قلم اور کچرے دان کے کچھ نہیں مانگا، جبکہ فلسفے کا شعبہ تو اس سے بھی اچھا نکلا۔ اس نے تو کچرے کا ڈبہ بھی نہیں مانگا۔"

بہرصورت فلسفی شاید ہنسنے والوں میں سب سے آخر میں ہوں گے۔ کوانٹم کا نظریہ غیر مکمل ہے اور متزلزل فلسفیانہ بنیاد پر کھڑا ہے۔ یہ کوانٹم کا جھگڑا ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم فلسفی جیسا کہ بشپ برکلے کے کام کا دوبارہ جائزہ لیں۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اشیاء صرف اس لئے وجود رکھتی ہیں کیونکہ انسان ان کا مشاہدہ کرنے کے لئے موجود ہیں، یہ ایک ایسا فلسفہ ہے جس کو ہمہ انانیت یا فلسفہ تصوريت کہتے ہیں۔ اگر درخت جنگل میں گر جائے لیکن وہاں اس کو دیکھنے والا کوئی نہ ہو تو اصل میں وہ گرا نہیں ہوگا، ان کا دعویٰ ہے۔ اب ہمارے پاس جنگل میں درخت کے گرنے کی کوانٹم کی تعبیر نو آ گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ مشاہدہ کیا جائے، آپ کو نہیں معلوم ہوگا کہ آیا وہ گرا ہوا ہے یا نہیں۔ اصل میں درخت تمام ممکنہ حالتوں میں بیک وقت موجود ہوگا۔ وہ جلا ہوا ، گرا ہوا، لکڑی کی صورت میں ، برادے کی شکل میں علیٰ ہذا القیاس ہو سکتا ہے۔ ایک مرتبہ جب مشاہدہ ہو گیا تو پھر درخت یکایک ایک قطعی حالت میں آ جائے گا اور اس مثال میں ہم دیکھیں گے کہ وہ گرا ہوا ہے۔

کوانٹم نظریئے اور حقیقت کی فلسفیانہ مشکل کا موازنہ کرتے ہوئے فائن مین نے ایک دفعہ کہا تھا، "ایک وقت تھا جب اخبار میں خبر چھپی تھی کہ صرف بارہ آدمی ایسے ہیں جو اضافیت کو سمجھتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کوئی وقت آیا ہوگا۔۔۔ دوسری طرف، میں یہ بات یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی کوانٹم میکانیات کو نہیں سمجھ سکا ہے۔" اس نے لکھا کہ " کوانٹم میکانیات قدرت کو عقل عامہ کے نقطے نظر سے لغو بیان کرتی ہے۔ لیکن یہ تجربات سے مکمل ہم آہنگ بھی ہے۔ لہٰذا میں امید کرتا ہوں کہ آپ قدرت کو ایسے تسلیم کر لیں جیسے کہ وہ ہے – یعنی لغو۔" یہ چیز کافی عملی طبیعیات دانوں کو بے چین کر دیتی ہے، جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو تمام جہاں ریت کی دیوار پر بنا ہوا ہے۔ اسٹیون وائن برگ لکھتا ہے، "میں کچھ بے کلی کے ساتھ تسلیم کرتا ہوں کہ نظریاتی فریم ورک میں اپنی پوری زندگی کام کرتے ہوئے میں نے کسی کو بھی اسے پوری طرح سے سمجھتے ہوئے نہیں دیکھا۔"

روایتی سائنس میں، شاہد کوشش کرتا ہے کہ دنیا سے اپنے آپ کو جس حد تک ممکن ہو دور رکھ سکے۔ ( جیسا کہ ایک مسخرے نے کہا تھا، " آپ سائنس دان کو ہمیشہ قحبہ خانے میں پائیں گے کیونکہ وہی صرف سامعین کی جانچ کر رہا ہوتا ہے۔" لیکن اب پہلی مرتبہ اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ شاہد کو مشاہدے سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ میکس پلانک نے ایک مرتبہ کہا تھا، " سائنس قدرت کا حتمی اسرار نہیں حل کر سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخر ی جانچ میں ہم اس اسرار کا حصّہ ہوں گے جس کو ہم حل کر نے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔"
 

زہیر عبّاس

محفلین
چھٹا باب - 5
بلی کا مسئلہ


ارون شروڈنگر جس نے موج کی مساوات کو سب سے پہلے متعارف کروایا تھا، وہ سمجھتا تھا کہ یہ چیز کافی دور تک جائے گی۔ اس نے بوہر کے سامنے تسلیم کیا وہ کبھی موج کا تصوّر پیش نہیں کرتا اگر اس کو معلوم ہوتا کہ اس سے امکان طبیعیات میں متعارف ہو جائے گا۔

امکانات کے تصوّر کو ختم کرنے کے لئے اس نے ایک تجربے کی تجویز دی۔ فرض کریں کہ ایک بلی ایک بند ڈبے میں موجود ہے۔ ڈبے کے اندر ایک زہریلی گیس کی بوتل ہے، جو ایک لبلبی سے جڑی ہوئی ہے اور اس کا رابطہ گیگر کاؤنٹر سے ہے جو یورینیم کے ٹکڑے کے پاس رکھا ہوا ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یورینیم کے جوہر خالص کوانٹم وقوعہ ہیں جن کو وقت سے پہلے معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ فرض کریں کہ پچاس فیصد اتفاق اس بات کہ ہے کہ یورینیم کے جوہر اگلے سیکنڈ میں انحطاط پذیر ہوں گے، لیکن اگر یورینیم کے جوہر انحطاط پذیر ہوں گے تو یہ گیگر کاؤنٹر کو آزاد کر دیں گے جو اس ہتھوڑے کو چھوڑ دے گا جو زہریلی بوتل پر گر کر اسے توڑ ڈالے گا نتیجتاً بلی ہلاک ہو جائے گی۔ اس سے پہلے کہ آپ اس ڈبے کو کھولیں ، یہ بتانا ناممکن ہے کہ بلی زندہ ہے کہ مردہ۔ اصل میں بلی کو بیان کرنے کے لئے طبیعیات دان زندہ اور مردہ بلی کے موجی تفاعل کو جمع کرکے بیان کرتے ہیں۔ – یعنی کہ ہم بلی کو ایک ایسی دنیا میں رکھتے ہیں جہاں پر وہ بیک وقت پچاس فیصد مردہ ہے اور پچاس فیصد زندہ ہے۔ اب ڈبے کو کھولیں۔ ایک دفعہ جب ہم نے دبے میں جھانک لیا، تو مشاہدہ پورا ہو گیا، موجی تفاعل منہدم ہو گیا اور ہم نے دیکھ لیا کہ بلی فرض کریں کہ زندہ ہے۔ شروڈنگر کے لئے یہ بات انتہائی بیہودہ تھی۔ ایسا کیسا ہو سکتا ہے کہ بلی بیک وقت زندہ اور مردہ صرف اس وجہ سے ہو سکتی ہے کہ ہم نے اسے نہیں دیکھا ہے؟ کیا وہ اپنا وجود اس وقت بناتی ہے جب ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ آئن سٹائن نے اس توجیح سے خوش نہیں تھا۔ جب بھی مہمان اس کے گھر آتے تھے، تو وہ کہتا تھا ، چاند کو دیکھو۔ کیا یہ اس وقت یکایک نمودار ہو گیا ہے جب کسی چوہے نے اسے دیکھا ہے؟ آئن سٹائن اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ لیکن ایک طرح اس کا جواب ہاں میں بھی ہو سکتا ہے۔

صورتحال اس وقت گھمبیر ہو گئی جب ایک تاریکی ٹکراؤ آئن سٹائن اور بوہر میں سولوے کانفرنس میں ١٩٣٠ء میں ہوا۔ وہیلر نے بعد میں اس واقعہ کو اپنے تاریخ کے علم کی بنیاد پر شعوری بحث کی تاریخ میں عظیم قرار دیا۔ تیس برسوں میں اس نے کبھی بھی دو عظیم آدمیوں کے درمیان کسی ایسے گہرے مسئلے پر بحث نہیں سنی تھی جس کے کائنات کو سمجھنے کے انداز پر گہرے اثرات ہوں۔

آئن سٹائن ہمیشہ سے نڈر، بیباک، اور حد درجہ کا خوش گفتار تھا ، اس نے ایک "خیالی تجربہ" پیش کیا تاکہ کوانٹم کے نظریئے کو تہ و بالا کر دے۔ بوہر علی التواتر ہر حملے میں لڑکھڑاتے ہوئے منمنا رہا تھا۔ طبیعیات دان پال ایہرنفیسٹ کا مشاہدہ تھا ، " میرے لئے یہ انتہائی خوش گوار بات تھی کہ میں بوہر اور آئن سٹائن کے درمیان ہونے والے مکالمے میں موجود تھا۔ آئن سٹائن شطرنج کے کھلاڑی کی طرح نئی سے نئی مثال پیش کر رہا تھا۔ دوسری نسل کا ہمہ وقت متحرک ،جس کی نیت عدم یقین کے ذریعہ توڑنے کی تھی۔ بوہر ہمیشہ فلسفیانہ بادل میں سے ایک مثال کے بعد دوسری مثال کو توڑنے کے لئے ہتھیار نکالتا تھا۔ آئن سٹائن ڈبے کے کھلونے کی طرح ہر صبح تروتازہ نکلتا تھا۔ او، واقعی میں یہ کافی مزیدار تھا۔ لیکن میں ہمیشہ قطعی طور پر بوہر کی طرف اور آئن سٹائن کے مخالف ہوتا تھا۔ وہ بوہر کی جانب بالکل ایسے ہی آتا تھا جیسے کوئی ہمہ وقتی مطلق غازی اس سے برتاؤ کرے۔"

بالآخر آئن سٹائن نے ایک تجربہ کی تجویز پیش کی جو اس کے خیال میں کوانٹم کے نظریئے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتی۔ فرض کریں کہ ایک باکس میں گیس کے فوٹون ہیں۔ اگر باکس میں کوئی دروازہ ہو تو وہ تھوڑی سی دیر کے لئے کھل کر ایک فوٹون کو نکلنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ کیونکہ شٹر کی رفتار اور فوٹون کی توانائی کو درستگی کے ساتھ ناپا جا سکتا ہے لہٰذا فوٹون کی حالت کا تعین بھی لامتناہی درستگی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اس کے نتیجے میں اصول عدم یقین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

ایہرنفیسٹ لکھتا ہے، "بوہر کے لئے یہ ہوش اڑا دینے والا تھا۔ اس وقت اس سے کوئی جواب نہ بن سکا۔ وہ شام کی سیر کے تمام وقت انتہائی افسردہ رہا، ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹہلتا رہا، ہر شخص کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، کیونکہ اگر آئن سٹائن درست تھا تو اس کا مطلب طبیعیات کا خاتمہ تھا۔ لیکن وہ کوئی استرداد نہیں سوچ پا رہا تھا ۔ میں اس منظر کو نہیں بھول سکتا جب دو مخالف یونیورسٹی کے کلب سے جا رہے تھے۔ آئن سٹائن ایک شاہانہ انداز سے آرام سے ایک طنزیہ تبسم کے ساتھ جا رہا تھا اور بوہر اس کے ساتھ بہت ہی متزلزل ہو کر چل رہا تھا۔"

جب ایہرنفیسٹ بعد میں بوہر سے ملا، تو وہ اتنا لاجواب تھا کہ ایک ہی لفظ بار بار بول رہا تھا، آئن سٹائن ۔۔۔ آئن سٹائن ۔۔۔ آئن سٹائن۔"

اگلے دن سخت تناؤ اور ایک شب کی بیداری کے بعد بوہر نے آئن سٹائن کی دلیل میں ایک ننھا سا سقم تلاش کرلیا۔ فوٹون خارج کرنے کے بعد، باکس تھوڑا ہلکا ہو گیا ہوگا، کیونکہ مادّہ اور توانائی دونوں ایک دوسرے کے قائم مقام ہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ باکس قوّت ثقل کی وجہ سے تھوڑا سا اونچا ہو جائے گا، کیونکہ آئن سٹائن کے قوّت ثقل کے نظریئے کے مطابق توانائی کا وزن ہوتا ہے۔ لیکن یہ چیز فوٹون کی توانائی میں عدم یقین کو متعارف کروا دیتی ہے۔ اگر کوئی وزن اور شٹر دونوں میں عدم یقین کو ناپے گا تو معلوم ہوگا کہ باکس اصول عدم یقین پر کاربند ہے۔ اصل میں بوہر نے آئن سٹائن کا اپنا قوّت ثقل کا نظریہ اس کے استرداد کے لئے استعمال کیا! بوہر فاتح بن کر نمودار ہوا اور آئن سٹائن کو شکست ہوئی۔ بعد میں جب آئن سٹائن نے شکایات بھرے انداز میں کہا "خدا دنیا سے پانسے سے نہیں کھیلتا،" تو بوہر نے ترکی بہ ترکی جواب دیا، "خدا کو نہ بتاؤ کہ کیا کرنا ہے۔" بالآخر آئن سٹائن نے تسلیم کرلیا کہ بوہر نے کامیابی کے ساتھ اس کے دلائل کو رد کر دیا۔ آئن سٹائن نے لکھا، "میں مان گیا ہوں کہ بلاشبہ نظریہ قطعی طور پر سچائی رکھتا ہے۔"

(آئن سٹائن بہرحال طبیعیات دانوں کو اس لئے حقارت سے دیکھتا تھا کہ وہ کوانٹم کے نظریئے میں موجود خلقی لطیف تناقضات کو سمجھنے میں ناکام رہے تھے۔ اس نے ایک مرتبہ لکھا ، "بلاشبہ آج ہر بدمعاش سوچتا ہے کہ وہ جواب جانتا ہے لیکن وہ خود کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے۔")

کوانٹم طبیعیات دانوں کے درمیان اس طرح اور دوسری آگ اگلتے مباحثوں کے بعد، آئن سٹائن نے بالآخر ہار مان لی لیکن اس نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا۔ ان نے تسلیم کیا کہ کوانٹم کی طبیعیات صحیح ہے، لیکن اس کی عملداری صرف مخصوص میدان میں ہی ہے جو حقیقی سچ سے قریب قریب ہے۔ بعینہ جیسے اضافیت نیوٹن کے نظریئے کو عمومی حالت میں بیان کرتی ہے (لیکن وہ اس کو تباہ نہیں کرتی )، وہ چاہتا تھا کہ کوانٹم نظریئے کو مزید عمومی انداز، مزید طاقتور ایک عظیم وحدتی میدانی نظریئے میں پیش کرے۔

(یہ بحث جس میں آئن سٹائن اور شروڈنگر ایک طرف، اور بوہر اور ہائیزن برگ دوسری طرف تھے آسانی کے ساتھ نظرانداز نہیں کی جا سکتی تھی کیونکہ اب یہ خیالی تجربات ، تجربہ گاہوں میں دہرائے جا رہے تھے۔ ہرچند سائنس دان بلی کو زندہ اور مردہ طور پر نہیں لے سکتے تھے لیکن وہ انفرادی جوہروں سے نینو ٹیکنالوجی کے مدد سے خوب نمٹ سکتے تھے۔ حال ہی میں یہ دماغ میں درد کر دینے والے تجربات ایک ساٹھ جوہروں پر مشتمل کاربن کی بیضوی گیند پر کئے گئے، اس طرح سے "دیوار" جس کا تصوّر بوہر نے کیا تھا جو بڑے اجسام کو کوانٹم شئے سے الگ رکھتی تھی بوسیدہ ہونے لگی تھی۔ تجرباتی طبیعیات دان اب تو یہاں تک غور کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ ایک ہزار ہا جوہروں پر مشتمل جرثومے کو ایک ہی وقت میں دو جگہ پر موجود ہونے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہوگی۔)​
 
Top