متوازی دنیائیں (Parallel Worlds) از میچیو کاکو

زہیر عبّاس

محفلین
پیش لفظ


بحیثیت مجموعی کائنات کے مطالعہ کو کونیات کہتے ہیں جس میں اس کی تخلیق اور انجام بھی شاید شامل ہے ۔کونیات نے اپنے سست رفتار اور تکلیف دہ ارتقا میں کافی بہروپ بدلے ہیں۔ ایک ایسا ارتقا جو اکثر مذہبی طبقے اور توہمات کی وجہ سے گہنا جاتا ہے ۔

کونیات کا پہلا ارتقا سترویں صدی کی شروعات میں دوربین کی ایجاد کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوا ۔ دوربین کی مدد سے گلیلیو گلیلی نے اپنے پیش رو عظیم ماہر فلکیات نکولس کوپرنیکس اور جوہانس کیپلر کے کام کو بنیاد بنا کر تاریخ میں پہلی بار سنجیدہ سائنسی تفتیشی عینک لگا کر فلک کے حیرت کدے میں جھانکنے کی قابلیت حاصل کی ۔ اس پہلے مرحلے کی پیش رفت کا اختتام آئزک نیوٹن کے کام پر منتج ہوا جس نے سماوی اجسام کی حرکت کے ابتدائی قوانین کی بنیاد ڈالی ۔ ان قوانین کے بعد فلکی اجسام کی حرکت کو جادو اور اسراریت کے بجائے اس طاقت کے مطیع و فرمانبردار دیکھنا شروع کیا گیا جس کا حساب کتاب لگایا جا سکتا تھا ۔ کونیات کی دنیا میں دوسرا انقلابی دور اس وقت بیسویں صدی میں آیا جب عظیم دوربین کو متعارف کروایا گیا ۔ جیسا کہ ایک ماؤنٹ ولسن کی دیوہیکل سو انچ کی انعکاسی آئینے والی دوربین تھی ۔ ١٩٢٠ء کے عشرے میں ، فلکیات دان ایڈوِن ہبل نے اس دیوہیکل دوربین کا استعمال کرتے ہوئے صدیوں پرانے مسلمہ عقائد کا بھرکس نکال دیا ۔ ان پرانے نظریات کی رو سے کائنات ابدی اور ساکن تھی ۔ اس نے ثابت کیا کہ فلک میں موجود کہکشائیں زمین سے انتہائی تیز سمتی رفتار سے دور بھاگی جا رہی ہیں یعنی کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ یہ نتیجہ آئن سٹائن کے نظریئے اضافیت سے مکمل ہم آہنگ تھا ۔ جس کے مطابق مکان و زمان کی ساخت چپٹے اور خطی ہونے کے برعکس متحرک اور خمیدہ تھی ۔ اس دریافت نے پہلی بار کائنات کے ماخذ کے بارے میں قیاس لگایا ، یعنی کہ کائنات ایک عظیم دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی جس کو ہم عظیم دھماکا یا عظیم انفجار کہتے ہیں ۔ اس دھماکے کے نتیجے میں ستارے اور کہکشائیں خلائے بسیط میں دھکیل دیے گئے ۔ جارج گیمو اور ان کے رفقائے کاروں کے بگ بینگ کے نظریئے اور فریڈ ہوئیل کے عناصر کے ماخذ پر امتیازی کام کی بدولت ایک ایسی عمارت کی بنیاد نمودار ہونا شروع ہوئی جس نے کائنات کے ارتقا کے خاکے کو واضح کرنا شروع کر دیا ۔

تیسرا انقلابی دور چل رہا ہے ۔ یہ ابھی صرف پانچ سال کا ہی ہوا ہے ۔ اس دور کے شروع ہونے میں نئے جدید آلات مثلاً خلائی سیارچے ، لیزر، ثقلی موجی سراغ رساں ، ایکس رے دوربینیں، تیز رفتار سپر کمپیوٹرز کا کافی عمل دخل رہا ہے ۔ اب ہمارے پاس کائنات کی نوعیت کے بارے میں سب سے زیادہ مستند مواد موجود ہے جس میں اس کی عمر ، اس کی ترکیب اور شاید اس کا مستقبل اور حتمی انجام بھی شامل ہے ۔

ماہرین فلکیات نے اب اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ کائنات بے قابو ہو کر، بغیر کسی حد کے اسراع پذیر ہو کر پھیل رہی ہے اور وقت کے ساتھ بتدریج ٹھنڈی سے ٹھنڈی تر ہو رہی ہے ۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہتا رہا تو ہم ایک "عظیم انجماد " کا سامنا کریں گے جب کائنات ظلمت کے گہرے اور ٹھنڈے کنویں میں ڈوب جائے گی اور تمام ذی شعورمخلوقات کا خاتمہ ہو جائے گا ۔

یہ کتاب اس تیسرے عظیم انقلابی دور کا احاطہ کرتی ہے ۔ یہ طبیعیات پر لکھی ہوئی میری پہلی کتابوں "آئن سٹائن سے دور " اور "اضافی خلاء" سے مختلف ہے جنہوں نے عوام الناس میں اضافی جہتوں اور سپر اسٹرنگ نظریئے کو متعارف کروایا تھا ۔ متوازی دنیائیں بجائے مکان و زمان پر روشنی ڈالنے کے، فلکیات کی دنیا میں ہونے والی اس عظیم پیش رفت کو بیان کرتی ہے جو پچھلے کئی برسوں میں وقوع پذیر ہوئی ہیں ۔ ان کی بنیاد ان نئے شواہد پر مشتمل ہے جو ہمیں دنیا کی تجربہ گاہوں ، خلائے بسیط کی اتھاہ گہرائیوں اور نت نئی دریافتوں کے ذریعہ مل رہے ہیں۔ میری پوری کوشش اور نیت یہ رہی ہے کہ یہ کتاب ایسے پڑھی اور سمجھی جا سکے جس کے لئے پہلے سے طبیعیات یا فلکیات کے تعارف سے روشنائی کی ضرورت نہ ہو ۔

کتاب کے پہلےحصّہ میں ، میں کائنات کے مطالعہ پر زور رکھوں گا ، اس میں مختصراً اس بات کو بھی بیان کروں گا کہ کونیات کے ابتدائی مراحل کو ہم نے کیسے پار کرکے اس دور میں قدم رکھا اور کس طرح سے ہم "افراط " پذیرکائنات کے نظریئے تک پہنچے ۔ یہ وہ نظریہ ہے جس نے بگ بینگ سے متعلق ہمیں ابھی تک کی سب سے جدید ضابطہ بندی عطا فرمائی ہے ۔ کتاب کے دوسرے حصّے میں ، خصوصی طور پر میں کثیر کائناتوں کے تازہ ترین نظریئے پر زیادہ توجہ دوں گا ۔ کثیر کائناتیں ایسی دنیائیں ہیں جو مختلف کائناتوں سے مل کر بنی ہے اور ہماری کائنات ان کائناتوں میں سے ایک ہے ۔ اس حصّے میں ، ثقب کرم کے امکان ، مکان و زمان کی خمیدگی ، اور کس طرح سے اضافی جہتیں ممکنہ طور پر ان کو ملاتی ہیں ان تمام چیزوں کے بارے میں بھی بات چیت ہوگی ۔ سپر اسٹرنگ نظریئے اور ایم نظریئے نے ہمیں آئن سٹائن کے اصل نظریئے کے بعد ہمیں پہلی دفعہ کوئی اہم قدم اٹھانے میں مدد دی ہے ۔ یہ مزید اس بات کے شواہد فراہم کر رہی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ہماری کائنات دوسری کائناتوں میں سے بجز ایک کائنات ہی ہو ۔ آخر ی حصّہ سوم میں ، میں عظیم انجماد کے بارے میں بحث کاروں گا اور یہ بتاؤں گا کہ سائنس دان کائنات کا انجام کس طرح سے دیکھ رہے ہیں ۔ میں ایک نظری لیکن سنجیدہ تصوّر بھی زیر بحث کروں گا کہ کس طرح سے آج سے دسیوں کھربوں سال مستقبل بعید میں کوئی جدید تہذیب طبیعیات کے قوانین کا سہارا لیتے ہوئے ہماری کائنات کو خدا حافظ کہہ کر ایک دوسری زیادہ بہتر اور دوستانہ کائنات میں داخل ہو سکتی ہے تاکہ تخلیق نو کا عمل دوبارہ دہرایا جائے یا ہو سکتا ہے کہ وہ وقت میں سفر کرتے ہوئے ماضی کے اس وقت میں چلی جائے گی جب کائنات گرم تھی ۔

آج حاصل ہونے والے اس اطلاعی سیلاب اور فلک کو چھاننے والے خلائی سیارچوں ، موجی سراغ رساں سیارچوں اور تکمیل کے آخری مراحل میں موجود شہر کے حجم جتنے نئے جوہری تصادم گر جیسے نئے آلات کے ساتھ طبیعیات دان سمجھتے ہیں کہ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوئے چاہتے ہیں جس کو فلکیات کا سنہرا دور کہا جا سکتا ہے ۔مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کا دور طبیعیات دانوں اور اس مہم کے مسافروں کے لئے بہت ہی اچھا ہے جو کائنات کا ماخذ اور اس کے مقدر کو جاننے کے سفر پر نکلے ہیں ۔


میچیو کاکو
 

زہیر عبّاس

محفلین
حصّہ اوّل - کائنات


باب اوّل -1



طفلی شبیہِ کائنات



شاعر صرف " ستاروں سے آگے جہاں او ر بھی ہیں" کی بات کرتا ہے۔ یہ تو منطقی ہوتا ہے جو اسے ان جہانوں کا احساس دلاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس احساس کو دلاتے ہوئے اس کے اپنے دماغ کی چولیں ہل جاتی ہیں۔

جی کے چیسٹر سن


جب میں چھوٹا تھا تو اس وقت میرے اپنے مذہبی عقیدے سے کچھ ذاتی اختلافات ہو گئے تھے۔ میرے والدین بدھ مت کے پیرو کار تھے۔ تاہم میں ہر ہفتے دینی مدرسے ("اتوار کے اسکول")جاتا تھا جہاں مجھے انجیل کے قصّے سننا بہت پسند تھے جو وہیل ، کشتیوں، نمک کے ستونوں، پسلیوں اور سیبوں کے بارے میں ہوتے تھے۔ میں عہد نامہ قدیم کی حکایات سے بہت زیادہ متاثر ہوتا تھا اور مدرسے میں میری سب سے زیادہ دلچسپی اسی حصّے میں ہوتی تھی۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ عظیم سیلاب، جنگل کی آگ ، اور دریا میں پانی کو چیر کر راستہ بنانا، بدھ مت کے بھجنوں اور مراقبوں سے کہیں زیادہ دلچسپ ہیں۔ درحقیقت یہ جانبازی اور المناکی کی قدیمی کہانیاں جو نہایت واضح انداز میں خیر و شر اور اخلاقیات کو بیان کرتی ہیں ساری زندگی میری ہمدم بنی رہیں۔

مدرسے میں ایک دن ہم توریت کا پہلا باب "کتاب پیدائش" پڑھ رہے تھے۔ آسمان سے خدا کی آتی ہوئی گرج ، "روشن ہو جا !" نروانا کے خاموش مراقبے کے مقابلے میں کافی ڈرامائی لگتی ہے۔ اپنی معصومانہ جاننے کی جستجو کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دن میں نے مدرسے کی معلمہ سے پوچھ ہی لیا ، "کیا خدا کی ماں ہے ؟" گہرے اخلاقی سبق دینے کے علاوہ عام طور پر وہ سوال کے جواب کاٹ کھانے کے انداز سے دیتی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ اس سوال کو سن کر وہ حیرت میں پڑھ گئیں۔ نہیں ، انہوں نے تذبذب سے جواب دیا۔ شاید خدا کی کوئی ماں نہیں ہے۔" تو پھر خدا کہاں سے آیا ؟" میں نے پوچھا۔ انہوں نے منمناتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں وہ منتظم سے پوچھ کر ہی بتا سکتی ہیں۔

مجھے اس بات کا احساس نہیں تھا کہ حادثاتی طور پر میں نے علم الہیات کا عظیم سوال پوچھ لیا تھا۔ میں حیران تھا کیونکہ بدھ مت میں تو کوئی خدا تھا ہی نہیں بس وقت سے ماورا کائنات تھی جس کی نہ تو ابتدا تھی نہ ہی انتہا۔ بعد ازاں جب میں نے دنیا کے عظیم علم الاساطیر کا مطالعہ کرنا شروع کیا ، تو مجھ پر یہ بات عیاں ہوئی کہ مذہب میں دو طرح کے کائنات سے متعلق نظریئے موجود ہیں۔ ایک کی بنیاد اس لمحے پر ہے جب خدا نے کائنات کو تخلیق کیا جبکہ دوسرا نظریہ اس بات پر کھڑا ہے کہ کائنات ابد سے ہے اور ازل تک رہے گی۔

یہ دونوں کیسے صحیح ہو سکتے ہیں۔ میں نے سوچا۔

بعد ازاں مجھ پر یہ بات آشکار ہونا شروع ہوگئی کہ یہ دونوں نظریئے باقی ثقافتوں میں بھی ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر چینی دیومالائی کہانیوں میں ابتدا میں ایک کائناتی انڈا تھا۔ نوزائیدہ دیوتا "پان کو " لگ بھگ ہمیشہ سے اس انڈے کے اندر تھا جو ایک بے شکل خلائے بسیط کے سمندر میں تیر رہا تھا۔ جب انڈے سے مکمل طور پر دیوتا نکلنے کے لئے تیار ہو گیا ، تو پان کو بہت تیزی سے بڑھنے لگا ، اس کے بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دس فٹ فی دن تھی ، اس طرح سے انڈے کا اوپری آدھا چھلکا آسمان بن گیا جبکہ نچلا آدھا حصّہ زمین بن گیا۔ ١٨ ہزار برسوں کے بعد، وہ ہماری زمین کو جنم دینے کے بعد مر گیا : اس کا خون ہمارے دریا بن گئے ، جبکہ اس کی آنکھیں سورج اور چاند اور آواز آسمانی بجلی کی گرج بن گئی۔ کئی طرح سے ، پان کو کا دیومالائی قصّہ دوسرے مذاہب اور قدیمی دیومالائی قصّوں کا ہی عکس ہے ، یعنی کہ کائنات "عدم سے اچانک " ہی وجود میں آ گئی۔ یونانی داستانوں میں ، کائنات خلائے بسیط کی حالت میں شروع ہوئی (درحقیقت لفظ "خلائے بسیط " یونانی زبان سے آیا ہے جس کا مطلب "تحتالثریٰ" ہے )۔ یہ شکل و صورت سے بے نیاز خلاء اکثر ایک سمندر کے طور پر بیان کی جاتی ہے مثلاً بابلی اور جاپانی داستانوں میں اسے ایسے ہی بیان کیا جاتا ہے۔ قدم مصری داستانوں کا مرکزی خیال بھی ایسے ہی پایا جاتا ہے جہاں پر سورج دیوتا "را " تیرتے ہوئے انڈے سے نکلتا ہے۔ پولی نيشِيائی داستان میں انڈے کے چھلکے کو ناریل کے خول سے بدل دیا گیا۔ مایا والوں کا عقیدہ اس کہانی سے کچھ الگ ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق کائنات ہر پانچ ہزار سال بعد پیدا ہوتی اور فنا ہوتی ہے۔ اور بار بار زندہ ہونے کے لئے وجود و فنا کا یہ چکر بار بار دہرا کر ایک نا ختم ہونے والے سلسلے کی طرح جاری رہتا ہے۔

عدم سے وجود میں آنے کا عقیدہ بدھ مت اور ہندوؤں کے فرقوں کے عقائد کے برخلاف ہے۔ ان کی داستانوں کے مطابق کائنات وقت سے ماورا ہے جس کی نہ تو کوئی ابتدا ہے نہ ہی کوئی انتہا۔ وجود کے کئی مرحلے ہو سکتے ہیں جن میں سب سے بلند مقام نروانا ہے جو ابدی ہے اور صرف پاکیزہ ریاضت سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہندوؤں کے مہاپرانا میں یہ لکھا ہوا ہے ، "اگر خدا نے جہاں کو بنایا ہوتا تو وہ تخلیق سے پہلے کہاں تھا ؟۔۔۔ یہ بات معلوم تھی کہ دنیا اور وقت بذات خود بنا نہیں ہے، بغیر کسی شروعات اور انجام کے۔"یہ داستانیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں ،اور ان کے درمیان کو بظاہر مفاہمت ہوتی بھی نظر نہیں آتی ہے۔ دونوں میں سے ایک بات ہی ہو سکتی ہے یا تو کائنات کی ابتدا تھی یا پھر ایسا نہیں تھا۔ دونوں کے بیج کسی قسم کا راستہ نظر نہیں آتا۔

آج بہرحال ان دونوں کے درمیان بالکل ایک نئی سمت سے مفاہمت ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یہ نئی سمت سائنس کی دنیا ہے۔ یہ ان نتائج کا حاصل ہے جو نئے نسل کے طاقتور سائنسی آلات سے حاصل کئے ہیں جو خلائے بسیط میں بلندی پر بھیجے گئے۔ قدیمی دیومالائی قصّے کہانی بیان کرنے والے کےان فلسفیانہ افکار کی تشریح ہوتے تھے جو وہ ہماری کائنات کے ماخذ کے بارے میں لگاتے تھے۔ آج سائنس دان خلائی سیارچوں کی فوج ظفر موج ، لیزر ، ثقلی موجی سراغ رساں ، تداخل پیما ، تیز رفتار سپر کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ کا استعمال کائنات کے متعلق ہمارے فہم میں انقلاب بپا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور ہمیں اب تک کی حاصل ہونے والی کائنات کی تخلیق سے متعلق پر زور دلیلیں دے رہے ہیں۔

ابھی تک کے حاصل ہونے والے مواد سے جو چیز بتدریج نمودار ہو رہی ہے وہ ان دونوں مخالف نظریوں کا وسیع تناظر میں ہم آہنگ ہونا ہے۔ شاید سائنس دان اس بات کا گمان کر رہے ہیں کہ تخلیق بار بار نروانا کے وقت سے ماورا سمندر میں واقع ہوتی ہے۔ اس نئے تناظر میں ہماری کائنات بڑے سمندر میں تیرتے ہوئے ایک بلبلے کی مثل ہے۔ اس سمندر میں نئے بلبلے ہمہ وقت بنتے رہتے ہیں۔ اس نظریئے کے مطابق ، کائنات، ابلتے پانی میں بنتے بلبلوں ، کی طرح مسلسل تخلیق کے عمل سے گزر رہی ہے۔ کائنات کا یہ کھیل کا میدان جہاں وہ تیر رہی ہے وہ نروانا کی گیارہ جہتوں کا اضافی خلاء ہے۔ طبیعیات دانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات کو بیان کرتی ہے کہ اصل میں ہماری کائنات ایک عظیم انفجار کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے جس کو بگ بینگ کا نام دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ دوسری کائناتوں کے ازلی سمندر کے موجود ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو بگ بینگ آپ کی ان سطروں کو پڑھتے ہوئے بھی واقع ہو رہا ہوگا۔

دنیا بھر کے طبیعیات دان اور ماہر فلکیات اب ان قیاس آرائیوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کہ متوازی دنیائیں دیکھنے میں کیسے لگتی ہوں گی۔ یہ کن قوانین کے تابع ہوں گی ، یہ کیسے پیدا ہو کر آخر میں اختتام پذیر ہوں گی۔ ممکن ہے کہ یہ متوازی جہان اجاڑ اور ویران ہوں جہاں پر حیات کی بنیادی اجزا ہی موجود نہ ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ہماری کائنات جیسے ہی ہوں اور یہ کسی کوانٹمی واقعے کے نتیجے میں ہماری کائنات سے الگ ہو گئے۔ کچھ طبیعیات دان تو یہاں تک قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ ایک دن جب حیات ہماری موجودہ کائنات میں اس کی بڑھتی عمر اور ٹھنڈ کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں ہوگی تو وہ کسی دوسری کائنات کی جانب فرار ہو جائے گی۔ ان نظریوں کو پھلنے پھولنے کا موقع اس وسیع مواد سے ملا ہے جو خلاء میں موجود خلائی سیارچے تخلیق کے باقی بچے ہوئے حصّوں کی تصاویر لے کر بہم پہنچا رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر سائنس دان اب بگ بینگ سے صرف تین لاکھ اسی ہزار سال کے بعد کے اس عرصے تک میں تاکا جھانکی کر سکتے ہیں جب تخلیق نے کائنات کو پہلے پہل اپنی جھلک دکھا کر لبریز کر دیا تھا۔ شاید سب سے پراثر اس تخلیق کے عمل سے پیدا ہونے والی شعاع ریزی کی تصویر جو ہم نے حاصل کی ہے وہ ڈبلیو میپ کی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
حصّہ اوّل - کائنات


باب اوّل -2

ڈبلیو میپ سیارچہ




"ناقابل یقین !"، "ایک سنگ میل" یہ وہ الفاظ تھے جو فروری ٢٠٠٣ء میں فلکیاتی طبیعیات دانوں کے منہ سے عام طور پر اس وقت نکلتے تھے جب وہ تازہ ترین سیارچے سے حاصل ہونے والے قیمتی مواد کو دیکھتے تھے۔ ڈبلیو میپ (ولکنسن مائیکروویو اینسو ٹروپی پروب ) سیارچہ جس کو شہرہ آفاق عالم تکوینیات کے نام پر ان کی خدمات کے صلے میں رکھا تھا ، اسے ٢٠٠١ء میں خلاء میں بھیجا گیا تھا۔ اس سیارچے نے سائنس دانوں کو بے مثل درستگی کے ساتھ ، ابتدائی کائنات کی ایک تفصیلی تصویر اس دور کی پیش کی جب اس کی عمر صرف تین لاکھ اسی ہزار برس کی تھی۔ستاروں اور کہکشاؤں کو پیدا کرنے والے اصل آگ کے گولے میں سے بچی عظیم الجثہ توانائی ہماری کائنات میں ارب ہا برسوں سے آوارہ گردی کر رہی تھی جس کی مفصل تصویر ڈبلیو میپ سے لے لی گئی ہے۔ اس نے ایسا نقشہ دکھایا ہے جسے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ، آسمان کی ایسی تصویر جو مفصل طور پر خرد امواج کی اشعاع پر مشتمل ہے جس کی تخلیق بذات خود بگ بینگ نے کی ہے۔ اس کو ٹائم میگزین نے تخلیق کی گونج کا خطاب دیا تھا۔ اب ماہر فلکیات آسمان کو اس طرح سے کبھی نہیں دیکھ سکیں گے جیسا کہ پہلے دیکھتے تھے۔ ڈبلیو میپ سیارچے کی چھان بین کونیات کے لئے "قیاس سے درستگی کا دستوری راستہ " بن گئی۔ اس بات کا اظہار پرنسٹن کے ایڈوانسڈ اسٹڈی انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے جان بہکل نے کیا۔ پہلی مرتبہ اطلاعات کے اس سیلاب نے جو کائنات کی تاریخ کے ابتدائی دور سے حاصل کیا گیا ہے ماہرین تکوینیات کو انتہائی صحت کے ساتھ ان تمام قدیمی سوالات کا جواب دینے کے قابل بنا دیا ہے جنہوں نے انسانیت کو اس وقت سے پریشان اور الجھا کر رکھا ہوا ہے جب سے اس نے پہلی بار رات کے آسمان کی سماوی سحر انگیزی کی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھا ہے۔ کائنات کی عمر کتنی ہے؟ یہ کس سے مل کر بنی ہے ؟ کائنات کا انجام کیا ہوگا؟

(١٩٩٢ء میں ایک اور دوسرا سیارچہ جس کا نام کوبی [کاسمک بیک گراؤنڈ ایکسپلورر سیٹلائٹ ] تھا اس نے ہمیں آسمان میں موجود پس منظر اشعاع کی پہلی دھندلی تصویر دی۔ ہرچند اس سے حاصل کردہ نتیجے انقلابی تھے لیکن یہ اس قدر شاندار نہیں تھے کیونکہ یہ نوزائیدہ کائنات کی دھندلی تصویر تھی۔ یہ تمام تر دھندلاہٹ اخبار والوں کو اس کا نام "خدا کا چہرہ " رکھنے سے باز نہیں رکھ سکی۔ تاہم کوبی سے حاصل ہونے والی اس دھندلی تصویر کا صحیح نام نوزائیدہ کائنات کا "طفلی شبیہ " ہو سکتا ہے۔ اگر کائنات کی عمر اسی برس کی ہو تو کوبی اور بعد میں ڈبلیو میپ سے حاصل ہونے والی نوزائیدہ کائنات کی تصویر ایک دن سے بھی کم عمر کائنات کی ہے۔)

جس وجہ سے ڈبلیو میپ نوزائیدہ کائنات کی اس بے نظیر تصویر کو لے سکتی ہے وہ یہ ہے کہ رات کا آسمان ایک طرح سے ٹائم مشین ہے۔ کیونکہ روشنی ایک محدود رفتار سے سفر کرتی ہے ، لہٰذا وہ ستارے جو ہم رات کو آسمان میں دیکھتے ہیں وہ ان کے حال کی نہیں بلکہ ماضی کے کسی وقت کی تصویر ہوتی ہے۔ روشنی کو چاند سے زمین تک پہنچنے میں صرف ایک سیکنڈ سے تھوڑا اوپر کا وقت لگتا ہے۔، لہٰذا جب ہم چاند کو دیکھتے ہیں تو اصل میں اس جگہ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جہاں وہ ایک سیکنڈ پہلے تھا یا جیسا وہ ایک سیکنڈ پہلے تھا۔ روشنی کو سورج سے زمین تک پہنچنے کے لئے آٹھ منٹ کا وقت لگتا ہے۔ اسی طرح سے ہمارے زیادہ تر شناسا ستارے جن کو ہم فلک میں دیکھتے ہیں ہم سے اس قدر دور واقع ہیں کہ ان کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں دس سے سو نوری برس کا عرصہ لگتا ہے۔( دوسرے الفاظ میں وہ زمین سے دس سے سو نوری برس کے فاصلے پر موجود ہیں۔ ایک نوری برس لگ بھگ ساٹھ کھرب میل کا فاصلہ ہوتا ہے یا با الفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ فاصلہ جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دور دراز کہکشاؤں کی روشنی کروڑوں برسوں سے لے کر ارب ہا برسوں تک دور ہو۔ نتیجتاً وہ " رکازی " روشنی کی نمائندگی کرتے ہیں ، ان میں سے کچھ کی روشنی تو ڈائنو سارس کے زمین پر نمودار ہونے سے پہلے کی ہے۔ دور دراز کے کچھ اجسام جن کو ہم اپنی دوربینوں کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں وہ کوزار کہلاتے ہیں، یہ عظیم سماوی انجن ہیں جو ناقابل تصوّر اور ناقابل بیان مقدار میں توانائی کو قابل مشاہدہ کائنات کی انتہائی آخری کناروں میں پیدا کر رہے ہیں۔ ان کا زمین سے فاصلہ بارہ سے تیرہ ارب نوری برس کا ہے۔ اور اب ڈبلیو میپ سیارچے نے اس اشعاع ریزی کا سراغ لگایا ہے جو ان سے بھی پہلے آگ کے اس اصل گولے سے خارج ہوئی ہیں جس سے کائنات کی تخلیق ہوئی ہے۔ کائنات کی تشریح کے لئے اکثر اوقات ماہرین تکوینیات امپائر اسٹیٹ کی عمارت کی چھت نیچے دیکھنے کی مثال دیتے ہیں۔ اس عمارت کی چھت مین ہٹن سے اوپر سو منزل سے بھی زیادہ کی ہے۔ جب آپ اوپر کھڑے ہو کر نیچے کی جانب دیکھتے ہیں تو آپ کو بمشکل ہی سڑک کی سطح دکھائی دیتی ہے۔ اگر ہم امپائر اسٹیٹ کی عمارت کی بنیاد کو بگ بینگ فرض کریں ، اور اوپر سے دیکھنا شروع کریں تو سب سے دور دراز کی کہکشاں دسویں منزل پر موجود ہو گئی۔ دوربین سے دور دراز نظر آنے والے کوزار ساتویں منزل پر ہوں گے۔ کائناتی پس منظر کی اشعاع جو ڈبلیو میپ نے ناپی ہیں وہ سمجھ لیں کہ سڑک سے صرف آدھے انچ کے فاصلے تک کی ہے۔ اور اب ڈبلیومیپ سیارچے نے ہمیں کائنات کی عمر کے بارے میں جو اندازے فراہم کیے ہیں وہ ششدر کر دینے والی ایک فیصد درستگی تک کے ہیں یعنی تیرہ ارب ستر کروڑ برس پہلے کے۔

ڈبلیو میپ مہم ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے پر محیط فلکیاتی طبیعیات دانوں کی کڑی محنت کا ثمر ہے۔ ڈبلیو میپ کا تصور ناسا میں سب سے پہلے ١٩٩٥ ء میں دیا گیا اور اس کے دو سال کے بعد اس کی منظوری دے دی گئی۔ ٣٠ جون ٢٠٠١ء میں ناسا نے ڈبلیو میپ سیارچے کا بسیرا ڈیلٹا دوم راکٹ کے ذریعہ زمین اور سورج کے درمیان موجود شمسی مدار میں کروایا۔ منزل انتہائی احتیاط کے ساتھ چنی گئی لاگرینج نقطہ دوم (یا ایل ٹو ، ایک مخصوص نقطہ جو زمین سے قریب موجود مدار میں کافی پائیدار ہوتا ہے )۔ اس تفوق والی جگہ سے سیارچہ ہمیشہ سورج ، زمین اور چاند سے دور رہے گا ، لہٰذا اس کو کائنات کا مکمل غیر مسدود نظارہ ملے گا۔ یہ پورے آسمان کی چھان بین ہر ششماہی میں مکمل کر لیتا ہے۔

اس کے آلات انتہائی اختراعی نوعیت کے ہیں۔ طاقتور حساسیوں کے ساتھ یہ مدھم خرد موجی اشعاع کا سراغ لگا سکتا ہے جو بگ بینگ کے بعد بچی تھیں اور جنہوں نے کائنات کو اپنی ضو سے نہلا رکھا ہے لیکن زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی ہمارا کرۂ ہوائی ان کو جذب کر لیتا ہے۔ ایلومینیم پر مشتمل سیارچہ 3.8 بائی 5 میٹر کا ہے اور اس کا وزن ٨٤٠ کلوگرام کا ہے۔ اس میں یکے بعد دیگرے دو دوربینیں لگی ہوئی ہیں جو آسمان سے آتی خرد موجی اشعاع پر مرتکز ہوتی ہے اور پھر وہاں سے اطلاعات کو زمین پر نشر کرتی ہیں۔ یہ صرف ٤١٩ واٹس کی برق کا استعمال کرتی ہیں (لگ بھگ عام پانچ برقی قمقموں کے برابر )۔ زمین سے لاکھوں میل دور بیٹھ کر ڈبلیو میپ سیارچہ زمین کے کرۂ ہوائی کی مداخلت سے کہیں زیادہ دور ہے۔ زمین کا کرۂ ہوائی ان کمزور پس منظر کی خرد امواج کو چھپا دیتا ہے۔ زمین کے کرۂ ہوائی سے دور مدار میں رہ کر یہ مستقل تمام آسمان کی چھان بین کرتا رہتا ہے۔

سیارچے نے اپنا پہلا مکمل آسمان کا مشاہدہ اپریل ٢٠٠٢ء میں مکمل کیا۔ چھ مہینے بعد پورے آسمان کا مشاہدہ مکمل ہوا۔ آج ڈبلیومیپ سیارچے نے ہمیں اس اشعاع کا اب تک حاصل ہونے والا سب سے زیادہ جامع اور مفصل نقشہ فراہم کیا ہے۔ پس منظر کی خرد موجی امواج جس کا سراغ ڈبلیو میپ نے لگایا ہے اس کا سب سے پہلے اندازہ جارج گیمو اور ان کے رفقائے کاروں کی ٹیم نے ١٩٤٨ء میں کیا تھا۔ انہوں نے ان اشعاع کا درجہ حرارت بھی درج کیا تھا۔ ڈبلیو میپ نے اس درجہ حرارت کو مطلق صفر سے ذرا سا اوپر ، یا 2.7249 سے لے کر 2.7251 کے درمیان بتایا ہے۔

خالی آنکھ سے دیکھنے پر یہ ڈبلیو میپ سے لیا ہوا آسمان کا نقشہ بالکل ہی غیر دلچسپ نظر آتا ہے۔ یہ صرف اٹکل پچو نظر آنے والے نقطے نظر آتے ہیں۔ بہرحال ان نقاط کے مجموعہ نے تو ماہرین فلکیات کو جذبات کی شدت سے رلا دیا تھا۔ ان کے لئے ان نقاط میں اتار چڑھاؤ یا بےقاعدگی بگ بینگ کے اس اصل شدت دھماکے کو ظاہر کر رہی تھی جو اس کی تخلیق کے بعد فوراً پیدا ہوئی تھی۔ یہ چھوٹے اتار چڑھاؤ "تخم" جیسا تھے جو اس وقت کے بعد سے بہت تیزی سے کائنات کے باہری جانب پھیلنے کے ساتھ پھیلے۔ یہ چھوٹے تخم آج پھوٹ کر کہکشانی جتھوں اور کہکشاؤں میں بدل چکے ہیں جن کو ہم فلک کو روشن کرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ، ہماری ملکی وے کہکشاں اور دوسرے کہکشانی جتھے جو ہم ارد گرد دیکھتے ہیں وہ کبھی یہ ہی چھوٹے اتار چڑھاؤ تھے۔ ان اتار چڑھاؤ کو ناپ کر ہم کہکشانی جتھوں کے ماخذ کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ نقطے رات کے آسمان پر ٹنگے ہوئے کائناتی نقشے میں پروئے ہوئے ہیں۔




یہ نوزائیدہ کائنات کی تصویر ہے جو ڈبلیو میپ نے لی ہے ، اس وقت کائنات کی عمر صرف تین لاکھ اسی ہزار برس کی تھی۔ ان میں سے ہر ایک نقطہ تخلیق کے بعد کی شفق میں ہونے والے ننھے کوانٹم اتار چڑھاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ نقطے یا اتار چڑھاؤ آگے چل کر ان کہکشاؤں اور کہکشانی جتھوں کی شکل میں پھیل گئے جنھیں آج ہم دیکھتے ہیں۔

آج فلکیاتی مواد کی مقدار سائنسی نظریوں سے کہیں زیادہ تیز ی سے آ رہی ہے۔ درحقیقت میں تو کہتا ہوں کہ ہم فلکیات کے سنہرے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ (ڈبلیو میپ سیارچہ جس قدر اثر انگیز تھا ، اس کی اثر انگیزی پلانک سیارچے کے سامنے مانند پر جائے گی ، اس سیارچے کو یورپی ٢٠٠٧ء میں خلاء میں چھوڑنے جا رہے ہیں؛ پلانک ماہرین فلکیات کو اس پس منظر خرد امواج اشعاع کی تصویر کی مزید تفصیلات فراہم کرے گا۔) دور حاضر میں علم تکوین ، برسوں سائنس کے سائے میں ڈوبے رہنے اور قیاسات کی دلدل اور بے تکے اندازوں کی گمنامی کے اندھیرے سے نکل کر، اپنے جوبن پر آ رہا ہے۔ تاریخ کے آئنے میں علم تکوین کی ساکھ پر کافی دھبے لگے ہیں۔ جس جذبے اور طمطراق کے ساتھ انہوں نے کائنات سے متعلق نظریات پیش کئے تھے وہ ان کی کم علمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جیسا کہ نوبیل انعام یافتہ لیو لینڈو اکثر بھپتی کستے ہیں ،" ماہرین تکوینیات اکثر غلط تو ہو سکتے ہیں لیکن کبھی متشکک نہیں ہوتے۔" سائنس کی ایک مشہور کہاوت ہے :" پہلے قیاس آرائی کی جاتی ہے اور اس کے بعد مزید قیاس آرائیاں ہوتی ہیں اور اس کے بعد علم تکوین حاصل ہوتا ہے۔"

١٩٦٠ء کی دہائی کے آخر میں ہارورڈ میں طبیعیات پڑھتے ہوئے ، میں نے انتہائی کم عرصے کے لئے کونیات کے مطالعہ کو سرسری سا پڑھا۔ عہد طفلی سے ہی میرے اندر کائنات کے ماخذ کو جاننے کا جوش تھا۔ بہرحال ایک اچٹتی سے نگاہ اس میدان میں ڈالنے پر یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یہ میدان تو شرمندگی کی حد تک اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔ یہ تجرباتی سائنس تو بالکل بھی نہیں ہے جہاں کوئی بھی قیاسی تجربات کو انتہائی درستگی سے ناپنے والے آلات کی مدد سے کر سکتا ہو بلکہ یہ تو ان نظریات کا مجموعہ تھی جو بہت ہی زیادہ اندازوں پر قائم تھی۔ ماہرین تکوینیات ہمیشہ سے اس بات میں الجھے رہتے ہتے کہ آیا کائنات کسی دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے یا پھر ہمیشہ سے ایک اور ساکن حالت میں ہے۔ لیکن کیونکہ مواد انتہائی کم تھا لہٰذا نظریات زیادہ اور ان کی جانچ کے لئے مواد نہ ہونے کے برابر تھا۔ درحقیقت جتنا کم مواد تھا اتنی ہی زیادہ گرما گرم بحث چل رہی تھیں۔

علم تکوین کی پوری تاریخ میں قابل اعتبار مواد کی شدید کمی نے ماہرین فلکیات کے درمیان تلخ اور لمبی عداوتوں کو جنم دیا جو اکثر عشروں تک جاری رہیں۔ (مثال کے طور پر جب ماؤنٹ ولسن رصدگاہ کے ماہر فلکیات ایلن سینڈیج کائنات کی عمر کے بارے میں بیان دینے والے تھے تو ان سے پہلے کے مقرر نے طنزیہ کہا ، " اب جو آپ سننے جا رہے ہیں وہ سب غلط ہے۔" اور سینڈیج نے جب یہ سنا کہ مخالف گروہ کس طرح کی زبردست تشہیر کر رہا ہے تو وہ دھاڑا ، " یہ بکواس کرنے والوں کا ایک ٹولہ ہے۔ یہ تو جنگ ہے - جنگ!")

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب اوّل -3

کائنات کی عمر



ماہرین فلکیات کائنات کی عمر جاننے کے لئے ہمیشہ سے پر تجسس رہے ہیں . صدیوں تک عالم، راہب اور عالم دین کوشش کرتے رہے کہ کائنات کی عمر کے بارے میں تخمینے لگا سکیں۔ اس مقصد کے لئے ان کے پاس ایک ہی طریقہ تھا یعنی کہ انسانیت کی شجرہ نصب کو باوا آدم اور اماں حوا سے ناپ لیں۔ پچھلی صدی میں ماہرین ارضیات نے چٹانوں میں بچی ہوئی اشعاع ریزی کا استعمال کرتے ہوئے زمین کی عمر کا سب سے بہتر تخمینہ لگایا۔ اس کے مقابلے میں ڈبلیومیپ سے حاصل شدہ مواد نے ہمیں اب تک کا سب سے مستند تخمینہ کائنات کی عمر سے متعلق لگا کر دیا ہے۔ ڈبلیو میپ کے مواد نے ہم پر یہ بات آشکار کی کہ کائنات ایک انتہائی ہولناک دھماکے سے وجود میں آئی ہے جو آج سے تیرہ ارب ستر کروڑ برس پہلے رونما ہوا تھا۔

(گزرے برسوں میں سب سے شرمندہ کرنے والی حقیقت جو علم فلکیات سے چمٹی رہی وہ اس کی عمر کا اندازہ تھا جس کا اندازہ اکثر اوقات ستاروں اور سیاروں کی عمر سے بھی کم لگایا گیا تھا۔ اور اس کا سبب غلط مواد تھا۔ کائنات کی عمر سے متعلق پچھلے اندازے ایک سے دو ارب برس کے تھے جو زمین کی عمر( چار ارب پچاس کروڑ برس ) سے ہی میل نہیں کھاتے تھے۔ یہ تضاد بہرحال اب ختم ہو گیا ہے۔)

ڈبلیو میپ نے ایک نئی عجیب بحث شروع کردی ہے کہ کائنات کس چیز سے بنی ہے ، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کو یونانیوں نے آج سے دو ہزار برس پہلے پوچھا تھا۔ ہزاروں محتاط تجربوں کے بعد سائنس دانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کائنات بنیادی طور پر لگ بھگ ایک سو سے زائد قسم کے مختلف جوہروں سے مل کر بنی ہے ، جس کو انہوں نے دوری جدول میں ترتیب دے کر رکھا ہوا ہے جو ہائیڈروجن سے شروع ہوتا ہے۔ اس نے ہماری جدید کیمیا کی بنیاد ڈالی اور درحقیقت میں یہ تمام اسکولوں میں سائنس کے مضامین میں پڑھایا جاتا ہے۔ ڈبلیو میپ نے اس تصوّر کی بنیاد کو ختم کر دیا ہے۔ پچھلے تجربات کی تصدیق کرتے ہوئے ، ڈبلیو میپ نے یہ راز ہم پر آشکار کیا کہ ہمارے ارد گرد نظر آنے والا مرئی مادّہ تمام توانائی اور مادّے کا صرف چار فیصد ہے۔ ( اس چار فیصد میں سے بھی زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیئم پر مشتمل ہے اور شاید صرف 0.03 فیصد مادّہ بھاری عناصر پر مشتمل ہے۔ کائنات زیادہ تر پراسرار ، غیر مرئی مادّے سے بنی ہے جس کے ماخذ سے ہم مکمل طور پر بے خبر ہیں۔ ایک طرح سے سائنس صدیوں پیچھے جوہر کے نظرئیے کو پیش کرنے سے پہلے کے دور میں چلی گئی ہے کیونکہ طبیعیات دان اس حقیقت میں الجھ گئے ہیں کہ کائنات پر مکمل نئی غیر معلوم مادّے اور توانائی کی حکمرانی ہے۔

ڈبلیو میپ کے حاصل کردہ مواد کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٢٣ فیصد کائنات عجیب اور غیر واضح عنصر سے بنی ہے جس کو "تاریک مادّہ" کہا جاتا ہے۔ اس کا وزن بھی ہے اور یہ کہکشاؤں کے گرد دیوہیکل ہالے کی شکل میں موجود ہے لیکن مکمل طور پر غیر مرئی ہے۔ تاریک مادّہ اتنا اثر پذیر اور وافر مقدار میں ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے میں ہے کہ یہ ہماری کہکشاں کے تمام ستاروں سے دس گنا زیادہ ہے۔ ہرچند یہ غیر مرئی ہے ، لیکن اس عجیب تاریک مادّے کا بالواسطہ مشاہدہ سائنس دان اس وقت کر سکتے ہیں جب یہ ستاروں کی روشنی کو شیشے کی طرح خم دیتا ہے۔ اس طرح سے اس کی موجودگی کہ پتا لگ جاتا ہے۔ جتنا زیادہ یہ روشنی کو کم دیتا ہے اتنا ہی زیادہ سائنس دان اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ڈبلیو میپ سیارچے سے حاصل کردہ نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پرنسٹن کے ماہر فلکیات جان بہکل نے کہا ، " ہم ایک عجیب اور حیران کن کائنات میں رہتے ہیں ، ایک ایسی کائنات جس کی واضح کرنے والی خاصیت کو ہم اب جان گئے ہیں۔"

لیکن ڈبلیو میپ سے حاصل کردہ سب سے عظیم جھٹکا تو وہ مواد ہے ، جس مواد نے سائنس دانوں کو چکرا کر رکھا ہوا ہے یعنی کہ ٧٣ فیصد کائنات ایک مکمل نا شناختہ توانائی سے بنی ہوئی ہے جو کافی زیادہ مقدار ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مکمل طور پر مخفی توانائی ہے جو خلاء میں پنہاں ہے۔ ١٩١٧ ء میں آئن سٹائن نے خود سے اس کو متعارف کروایا اور بعد میں اس کو رد کر دیا ( آئن سٹائن نے مخفی توانائی کے رد کرنے کو اپنی عظیم غلطی قرار دیا )۔ تاریک توانائی یا خالی خلاء یا عدم کی توانائی اب کائنات پر غالب توانائی کی حیثیت سے نمودار ہو رہی ہے۔ تاریک توانائی اب ضد قوّت ثقل کے طور پر دیکھی جا رہی ہے جو کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے۔ کائنات کا حتمی انجام یہ تاریک توانائی ہی متعین کرے گی۔

فی الوقت کسی کے پاس بھی اس بات کا جواب نہیں ہے کہ "عدم کی توانائی" کہیں سے آ رہی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم اس کو نہیں جانتے کہ یہ کیا ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ اس کا کیا اثر ہوتا ہے [لیکن] ہم مکمل طور پر بے خبر ہیں۔۔۔۔ہر کوئی اس سے بے خبر ہے۔"سیٹل میں واقع واشنگٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر فلکیات دان ، کریگ ہوگن اس بات کو برملا قبول کرتے ہیں۔

اگر ہم تازہ ذیلی جوہری ذرّات کے نظرئیے کو لیں اور اس تاریک توانائی کی مقدار کا حساب لگائیں تو ہمیں١٠ ١٢٠ عدد ملے گا۔ (ایک ایسا عدد جس میں ایک کے بعد ایک سو بیس صفر لگے ہوئے ہیں )۔ نظرئیے اور تجربے کے درمیان یہ تضاد سائنس کی تاریخ میں پایا جانے والے سب سے بڑا تضاد ہے۔ اس بات نے ہماری خجالت کی انتہا کردی ہے - ہمارے بہترین نظرئیے بھی پوری کائنات میں موجود توانائی کے سب سے بڑے منبع کی قدر کا تخمینہ نہیں لگا سکتے۔ بلاشبہ نوبیل انعام ان مہم جو افراد کی راہ تک رہا ہے جو تاریک مادّے اور تاریک توانائی کے راز سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں۔


افراط پذیر کائنات

ماہرین فلکیات اب بھی ڈبلیو میپ سے حاصل کردہ طوفانی مواد سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیونکہ کائنات سے متعلق پرانے نظریات اس نے دیوار پر دے مارے لہٰذا ایک نئی تکوینی تصویر نمودار ہو رہی ہے۔" ہم نے کونیات کے مربوط وحدتی نظرئیے کی بنیاد ڈال دی ہے ،" اس بات کا اظہار چارلس ایل بینیٹ نے کیا جو ایک بین الاقوامی ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں جس نے ڈبلیو میپ سیارچے کو بنانے اور اس سے حاصل کردہ مواد کا تجزیہ کرنے میں مدد دی ہے۔ سردست تو "افراط پذیر کائنات کا نظریہ" ہی اپنا غلبہ قائم کرتا نظر آ رہا ہے۔ اس نے بگ بینگ نظریہ کو موجودہ صورت میں ڈھالنے کے لئے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نظرئیے کو سب سے پہلے ایم آئی ٹی کے ایلن گتھ نے پیش کیا تھا۔ اس افراط پذیر کائناتی منظر میں پہلے سیکنڈ کے دس کھرب حصّے کے دس کھرب حصّوں میں ایک پراسرار ضد ثقل قوّت نے کائنات کو ہمارے پچھلے اندازوں سے بھی سرعت رفتاری سے پھیلایا۔ افراط زدہ دور ناقابل تصوّر حد تک انفجاری تھا جس میں کائنات سریع از نور رفتار سے پھیل رہی تھی۔(یہ آئن سٹائن کے اس نظرئیے کے خلاف نہیں ہے جس میں کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کر سکتی ہے۔ کیونکہ یہ خالی خلاء تھی جو پھیل رہی تھی۔ مادّی اجسام کے لئے روشنی کی رفتار کو توڑنا ممکن نہیں ہے۔) ایک سیکنڈ کے کچھ ہی حصّے میں ، کائنات ناقابل تصوّر طور پر ١٠٥٠ کے تناسب سے پھیلی۔

افراط زدہ دور کی قوّت کا اندازہ لگانے کے لئے ایک غبارے کا تصوّر کریں جو بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے اور اس کی سطح پر موجود نقطے سمجھ لیں کہ کہکشائیں ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ جس کائنات کو ہم ستاروں اور کہکشاؤں سے بھرا ہوا دیکھتے ہیں وہ سب کے سب اس کے اندر ہونے کے بجائے اس کی سطح پر موجود ہیں۔ اب ایک خرد بینی دائرہ غبارے پر بنائیں۔ یہ ننھا دائرہ قابل مشاہدہ کائنات کو ظاہر کر رہا ہے یعنی اس میں ہر وہ چیز ہے جس کو ہم اپنی دوربین سے دیکھ سکتے ہیں۔ (موازنے کی خاطر یوں سمجھیں کہ اگر قابل مشاہدہ کائنات ذیلی جوہری ذرّے کے برابر ہے تو اصل کائنات ہماری قابل مشاہدہ کائنات سے بھی کہیں زیادہ بڑی ہو گئی۔) با الفاظ دیگر افراط پذیر دور کی پھیلاؤ اتنا شدید تھا کہ کائنات کے ایسے حصّے موجود ہوں گے جو ہمیشہ کے لئے ہمارے مشاہدے اور پہنچ سے دور رہیں گے۔ درحقیقت یہ افراط زدہ دور اس قدر طاقتور تھا کہ غبارہ ہمیں اپنے پڑوس میں چپٹا نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو ڈبلیو میپ سیارچے نے تجرباتی طور پر ثابت بھی کر دیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے زمین ہمیں چپٹی نظر آتی ہے کیونکہ ہم زمین سے نصف قطر کے مقابلے میں کہیں زیادہ چھوٹے ہیں۔ کائنات اس لئے ہمیں چپٹی نظر آتی ہے کیونکہ یہ بہت ہی بڑے پیمانے پر جا کر خم کھاتی ہے۔ اگر یہ بات فرض کی جائے کہ ابتدائی کائنات اس افراط کے عمل سے گزری ہے ، تو کوئی آسانی کے ساتھ کائنات سے جڑے کئی معموں کو آسانی کے ساتھ بیان کر دے گا جیسا کہ کائنات کیوں چپٹی اور یکساں نظر آتی ہے۔ افراط پذیر کائنات پر تبصرہ کرتے ہوئے، طبیعیات دان جوئل پریماک کہتے ہیں ، "کوئی بھی نظریہ اتنی خوبصورتی سے پہلے کبھی غلط نہیں ہوا جتنا یہ ہے۔"


کثیر کائناتیں


ہرچند کہ افراط زدہ کائنات کا نظریہ ڈبلیو میپ سے حاصل کردہ مواد سے میل کھاتا ہے اس کے باوجود یہ اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ کس چیز نے افراط پذیر دور کو شروع کیا۔ کس چیز نے اس ضد ثقل کو کائنات پھیلانے پر مجبور کیا ؟ کم از کم پچاس مفروضات ایسے ہیں جنہوں نے اس بات کی وجوہات کو بیان کرنے کو کوشش کی ہے کہ کس چیز نے افراط زدہ دور کو شروع اور ختم کیا جس کے نتیجے میں اس کائنات کا جنم ہوا جس کو ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں۔ بہرصورت ان کے درمیان کوئی اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔ طبیعیات دانوں کی کثیر تعداد اس مرکزی افراط زدہ دور کے خیال کے گرد گھوم رہی ہے، بہرصورت اس بات کا کسی کے پاس کوئی ٹھوس جواب موجود نہیں ہے کہ اس افراط پذیر دور کو کس چیز نے شروع کیا۔

کیونکہ درست طور پر کوئی بھی نہیں جانتا کہ افراط زدہ دور کیسے شروع ہوا لہٰذا اس بات کا امکان اپنی جگہ موجود ہے کہ وہی سلسلہ دوبارہ بھی شروع ہو سکتا ہے - افراط زدہ دور بار بار دہرایا جا سکتا ہے۔ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے روسی نژاد طبیعیات دان کا کچھ ایسا ہی نظریہ ہے - جس چیز نے بھی کائنات کو اس طرح پھلایا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ نظام اب بھی مصروف عمل ہو اور کائنات کے دور دراز مقامات کو پھیلانے میں مصروف ہو۔

اس نظرئیے کے مطابق شاید کائنات کا ایک چھوٹا سا حصّہ اچانک سے افراط پذیر ہونا شروع ہوا، اس نے کونپل کی طرح سے پھوٹنا شروع کیا جس کے نتیجے میں ایک شیرخوار کائنات یا نوزائیدہ کائنات پیدا ہو گئی جو کبھی بھی دوسری نوزائیدہ کائنات کو جنم دے سکتی ہے اور اس طرح سے وہ ہمیشہ پھلتی پھولتی رہتی ہے۔ ہوا میں بلبلے پھلانے کا ذرا تصوّر کریں۔ اگر ہم تیزی سے انھیں پھلانے کی کوشش کریں گے تو ہم دیکھیں گے کہ ان میں سے کچھ دو بلبلوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ بعینہ ایسے ہی کائنات تواتر کے ساتھ نئی کائناتوں کو جنم دیتی رہے گی۔ اگر یہ بات سچ ہے تو ہم کائنات کے سمندر میں رہ ہے ہیں ، جس طرح سے سمندر میں ایک بلبلا دوسرے بلبلوں کے ساتھ تیرتا رہتا ہے۔ درحقیقت اس کو ہم کثیر کائناتوں یا میگا کائناتوں کے طور پر بہتر انداز میں بیان کر سکتے ہیں۔ لنڈے اس نظریہ کو ابدی خود افزائش نو افراط یا کلی انتشاری افراط کہتے ہیں۔ کیونکہ انھیں کبھی نہ ختم ہونے والا متوازی کائناتوں کا مسلسل افراط زدہ دور لگتا ہے۔ افراط پذیر کائنات خود سے ہم پر کثیر کائناتوں کا نظریہ ٹھوس رہی ہے ،" اس بات کا اظہار ایلن گتھ نے کیا جنہوں نے سب سے پہلے افراط پذیر کائنات کا نظریہ پیش کیا تھا۔

اس نظریہ کا یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ ہماری کائنات شاید کبھی خود سے کسی نوزائیدہ کائنات کو جنم دے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری کائنات خود کسی دوسری قدیم کائنات کے بطن سے پیدا ہوئی ہو۔ جیسا کہ عظیم برطانیہ کے شاہی فلکیات دان ، سر مارٹن ریس نے کہا تھا ، " جو روایتی کائنات کہلاتی ہے وہ کل کائنات کا ایک جز ہو سکتی ہے۔ لاتعداد ایسی جگہیں ہوں گی جہاں پر مختلف قسم کے قوانین لاگو ہوں گے۔ جس کائنات میں ہم نمودار ہوئے ہیں اس کا تعلق ایک غیر معمولی ذیلی جوڑے سے ہو سکتا ہے جس نے پیچیدگی اور شعور کو پنپنے کی اجازت دی ہو۔"



نظریاتی شواہد کثیر کائناتوں کے وجود کی گواہی دے رہے ہیں ، جہاں پر پوری کائنات متواتر دوسری کائناتوں سے پھوٹ رہی ہے۔ اگر یہ بات سچ ہوئی تو یہ دو عظیم مذاہب کے دیومالائی تصورات کو ایک نظریہ میں پرو دے گا، تخلیق اور نروانا۔ تخلیق وقت سے ماورا نروانا کے اندر متواتر جاری رہے گی۔

کثیر کائنات سے متعلق چلنے والے اس تمام تر تحقیقی عمل نے دوسری کائناتوں کے بارے میں قیاسات کو جنم دیا ہے مثلاً وہ دیکھنے میں کیسی ہوں گی ، کیا وہ حیات کے لئے موافق ہوں گی اور کیا ہم ان سے کسی صورت رابطے میں آ سکیں گے یا نہیں۔ کالٹک ،ایم آئی ٹی، پرنسٹن، اور دوسرے تعلیمی اداروں نے ریاضی کے پیچیدہ حساب لگائے ہیں تاکہ اس بات کو جان سکیں کہ آیا متوازی کائنات میں داخل ہونا قوانین طبیعیات کی رو سے ممکن ہے یا نہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
باب اوّل -4

ایم نظریہ اور گیارہویں جہت




شروع میں متوازی کائناتوں کا نظریہ سائنس دانوں کی نظر میں کافی متشکک ٹھرا۔ وہ اس کو روحانی ، بہروپیے اور کھسکے ہوئے لوگوں کا تختہ مشق سمجھتے تھے۔ کوئی بھی سائنس دان جو متوازی کائناتوں کے نظریہ پر کام کرنے کی ہمت کرتا اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور اس کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا تھا۔ کیونکہ آج بھی کوئی ایسے تجرباتی شواہد موجود نہیں ہیں جو ان کی موجودگی کا بین ثبوت ہوں۔

لیکن حالیہ دور میں یہ سلسلہ تبدیل ہو گیا ہے۔ اب دنیا کے اعلیٰ ترین افراد تندہی سے اس مفروضے پر کام کر رہے ہیں۔ اس اچانک تبدیلی کی وجہ ایک نئے نظریہ اسٹرنگ اور اس کے جدید نظریہ ایم کی آمد ہے۔ یہ دونوں نظریات نا صرف اس بات کی امید دلاتے ہیں کہ ہم متوازی کائناتوں پر سے پردہ اٹھا سکیں گے بلکہ یہ ہمیں خدا کی حکمت کو بھی سمجھنے میں مدد دیں گے ، جیسا کہ آئن سٹائن نے ایک دفعہ اس کو خوش بیانی میں بیان کیا تھا۔ اگر یہ بات ثابت ہو گئی، تو یہ دو ہزار سال کی طبیعیاتی تحقیقات میں اس وقت سے اتمام حاصل ہوگا جب یونانیوں نے پہلی دفعہ ایک مربوط اور جامع کائنات کے نظرئیے کی تلاش شروع کی تھی۔ اسٹرنگ اور ایم نظرئیے سے متعلق مقالہ جات کی تعداد دسیوں ہزار تک جا پہنچی ہے۔ سینکڑوں بین الاقوامی کانفرنسیں ان پر رکھی جاچکی ہیں۔ دنیا کی تمام بڑی جامعات میں یا تو کوئی جماعت اسٹرنگ کے نظرئیے پر کام کررہی ہے یا پھر اس کو سیکھنے کی لگن لئے ہوئے ہے۔ بہرصورت یہ نظریہ ہمارے دور حاضر کے کمزور آلات کے بل بوتے پر جانچا نہیں جا سکتا لیکن اس کے باوجود اس نے طبیعیات کی دنیا میں آگ لگا کر رکھی ہوئی ہے۔ طبیعیات دان ، ریاضی دان بلکہ یہاں تک کہ تجرباتی بھی اس میں زبردست دلچسپی لے رہے ہیں اور اس امید میں ہیں کہ مستقبل میں اس نظرئیے کا حدود اربعہ خلائے بسیط میں بھیجے طاقتور ثقلی موجوں کے کھوجی اور عظیم جوہری تصادم گروں کی مدد سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔

آخر کار یہ نظریہ ان سوالات کا جواب دے سکتا ہے جو ماہرین تکوینیات کو بگ بینگ کے نظرئیے کے پیش کرنے کے بعد سے الجھائے ہوئے ہیں یعنی کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟

اس کام کے لئے ہمیں اپنی طبیعیات کے مکمل علم کی طاقت، اور ہر طبیعیاتی دریافت کو صدیوں تک جمع کرنا ہوگا۔ تب کہیں جا کر ہم اس قابل ہوں گے کہ کوئی قابل ذکر بات معلوم کر سکیں۔ آئن سٹائن نے اپنی عمر کے آخری تیس برس اس نظرئیے کو حاصل کرنے میں گزار دیے لیکن اس کے باوجود بھی وہ ناکامی سے دوچار ہوا۔

فی الوقت، سب سے اہم (اور اکلوتا) نظرئیے جو ان طاقتوں کی تنوع کو بیان کر سکتا ہے جن کو ہم کائنات کو چلاتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ اسٹرنگ کا نظریہ ہے یا اس کی بعد کی تازہ شکل ایم نظریہ ہے۔(یہاں ایم کا مطلب جھلی ہے لیکن اس سے اسرار، جادو یہاں تک کہ ماں کا مطلب بھی لیا جا سکتا ہے۔ ہرچند کہ اسٹرنگ نظریہ اور ایم نظریہ ملتا جلتا ہے ، ایم نظریہ زیادہ پراسرار اور پیچیدہ بنیادی ساخت ہے جو مختلف اسٹرنگ کے نظریوں کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔)

جب سے یونانی فلسفیوں نے اندازہ لگایا تھا کہ مادّے کو بنانے والا چھوٹے سے چھوٹا ذرّہ ، ننھا ذرّہ ہو سکتا ہے تب سے انہوں نے اس کو جوہر کا نام دیا۔ آج ہم طاقتور جوہری تصادم گروں اور ذرّاتی اسراع گر کی مدد سے جوہروں کو الیکٹران اور مرکزے میں توڑ سکتے ہیں۔ پھر ان ذرّات کو ہم مزید ذیلی ذرّات میں توڑ سکتے ہیں۔ بجائے ہم سادہ اور نفیس ڈھانچہ حاصل کرتے ہمیں سینکڑوں ذیلی ذرّات ان ذرّاتی اسراع گروں سے حاصل ہوئے جن کے نام بھی کافی عجیب ہیں جیسے کہ نیوٹرینو، کوارک ، میسون، لیپٹون ، ہیڈرون، گلوآن ، ڈبلیو بوسون وغیرہ وغیرہ۔ اس بات پر یقین کرنا واقعی بہت مشکل ہے کہ قدرت اس بنیادی سطح پر ایسے عجیب ذیلی ذرّات کا جمعہ بازار لگا کر بیٹھی ہوئی ہے۔ اسٹرنگ کا نظریہ اور ایم نظریہ اس سادے اور نفیس خیال پر انحصار کرتے ہیں کہ پوری کائنات کو بنانے والے ان ذیلی ذرّات کی بوقلمونی ان سروں کی مانند ہیں جن کو کوئی بھی بعینہ پیانو کے تار کو چھیڑ کر یا ڈھول کی جھلی کو پیٹ کر مختلف آوازیں نکال کرحاصل کر سکتا ہے۔( یہ کوئی عام سریں یا جھلیاں نہیں ہیں ؛ ان کا وجود دسویں اور گیارہویں جہت کی اضافی خلاء میں ہے۔)

روایتی طور پر طبیعیات دان الیکٹران کو ایک نقطے والا ذرّہ گردانتے تھے جو حد درجے صغیر ہوتے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ طبیعیات دانوں کو سینکڑوں ذیلی جوہری ذرّات میں سے ہر ایک کو الگ نقطے والا ذرّہ گردانہ پڑتا جو کہ بہت ہی پریشان کن امر تھا۔ لیکن اسٹرنگ نظرئیے کے مطابق اگر ہمارے پاس فوقی خرد بین موجود ہوتی جو الیکٹران کے قلب میں جھانک سکتی تو ہم دیکھتے کہ یہ نقطے والا ذرّہ نہیں ہے بلکہ ننھا مرتعش دھاگہ ہے۔ یہ نقطے والا ذرّہ اس لئے ہمیں دکھائی دیتا ہے کیونکہ ہمارے آلات کافی خام ہیں۔

یہ ننھے دھاگے مختلف تعدد ارتعاش اور گونج میں مرتعش ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس مرتعش دھاگے کو کھینچے تو یہ اپنی طبیعی صورت کو بدل کر ایک دوسرا ذیلی جوہری ذرّہ بن جائے گا جیسے کہ کوارک۔ دوبارہ سے اس کو کھینچیں تو اب یہ نیوٹرینو بن جائے گا۔ اس طرح سے ہم ان ذیلی جوہری ذرّات کے جمعہ بازار کو تار کے مختلف سر کہہ سکتے ہیں۔

اس نئی زبان میں ، ہزاروں برس کے دوران احتیاط کے ساتھ کئے گئے تجربات کی روشنی میں طبیعیات کے قوانین کچھ اور نہیں بلکہ سروں میں ہم آہنگی کے قوانین ہیں جس کو تاروں اور جھلیوں کی صورت میں لکھا جا سکتا ہے۔ کیمیا کے قوانین وہ دھنیں ہیں جن کو کوئی بھی ان تاروں سے بجا سکتا ہے۔ کائنات تاروں کی سمفونی (پورے آرکسٹرا کے لیے تیار کیا گیا نغمہ) ہے۔ اور جس خدا کی حکمت کے بارے میں آئن سٹائن نے بہت ہی فصیح طریقے سے بیان کیا ہے وہ کائناتی موسیقی کی گونج ہے جو اضافی خلاء میں بج رہی ہے۔ (اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر کائنات تاروں کی سمفونی ہے تو کیا کوئی اس کا راگ ساز بھی ہے؟ میں اس سوال کو بارہویں باب میں بیان کروں گا۔


موسیقی مماثل اسٹرنگ مماثل

موسیقی کی تال ریاضی
رباب کے تار سپر اسٹرنگ
سُر ذیلی جوہری ذرّات
تال کے قوانین طبیعیات
دھن کیمیا
کائنات اسٹرنگ کی سیمفونی
خدا کی حکمت اضافی خلاء میں موسیقی کی گونج
موسیقار ؟



کائنات کا انجام

ڈبلیو میپ نا صرف ابتدائی کائنات کی انتہائی درست تصویر پیش کرتا ہے بلکہ یہ بھی مفصل طور سے بیان کرتا ہے کہ ہماری کائنات کی موت کس طرح سے ہو گی۔ جس طرح سے ضد ثقل قوّت نے زمان کی ابتداء میں کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور کرنا شروع کیا تھا ، یہی ضد ثقل قوت اب کائنات کو اس کے حتمی انجام کی طرف دھکیل رہی ہے۔پہلے ماہرین فلکیات سمجھتے تھے کہ کائنات کا پھیلاؤ بتدریج آہستہ ہو رہا ہے۔ اب ہمیں اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ کائنات اصل میں اسراع پذیر ہے جس میں کہکشائیں ہم سے بتدریج بڑھتی ہوئی رفتار سے دور ہو رہی ہیں۔ وہی تاریک توانائی جو کائنات کے کل مادّے اور توانائی کے تہتر فیصد حصّے پر مشتمل ہے وہی کائنات کے پھیلاؤ کو اسراع دے رہی ہے۔ اس وجہ سے کہکشائیں متواتر بڑھتی ہوئی رفتار سے ہم سے دور ہو رہی ہیں۔ "کائنات ایک ایسے ڈرائیور کی طرح برتاؤ کر رہی ہے جو ٹریفک کی سرخ بتی تو دیکھ کر آہستہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ہری بتی دیکھتے ہی رفتار بڑھا دیتا ہے،" اسپیس ٹیلی اسکوپ انسٹیٹیوٹ کے ایڈم ریس کہتے ہیں۔

تاوقتیکہ کوئی ایسا واقع وقوع پذیر ہو جو اس اسراع کو الٹا کر دے ، ١٥٠ ارب برسوں بعد ہماری ملکی وے کہکشاں بالکل اکیلی رہ جائے گی کیونکہ 99.99999 فیصد قریبی کہکشائیں قابل مشاہدہ کائنات کی سرحد کو عبور کر چکی ہوں گی۔ رات کے آسمان میں دکھائی دینے والی ہماری شناسا کہکشائیں اتنی تیزی سے ہم سے دور جا رہی ہوں گی کہ ان کی روشنی ہم تک کبھی نہیں پہنچے گی۔ کہکشائیں بذات خود غائب نہیں ہوں گی ، لیکن وہ ہم سے اس قدر دور ہو جائیں گی کہ ہماری دوربینیں ان کا مزید مشاہدہ نہیں کر سکیں گی۔ اگرچہ قابل مشاہدہ کائنات میں ایک کھرب کہکشائیں موجود ہیں ، ١٥٠ ارب برسوں میں صرف چند ہزار کہکشائیں جو مقامی گروہ کے فوق جتھے میں موجود ہیں وہ ہی نظر آئیں گی۔ یہاں تک کہ مزید وقت گزرنے پر صرف ہمارے مقامی جماعت پر مشتمل لگ بھگ ٣٦ کہکشائیں، قابل مشاہدہ کائنات میں باقی نظر آئیں گی ، جبکہ ارب ہا کہکشائیں کائناتی افق کے کنارے سے بھی باہر تیرتی ہوئی نکل جائیں گی۔

(اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی جماعت کے درمیان موجود قوّت ثقل اتنی طاقتور ہے جو اس پھیلاؤ کو برداشت کر لے گی۔ حیرت انگیز طور پر جیسے ہی دور دراز کہکشائیں ہماری نظروں کے سامنے سے دور ہوں گی ، کوئی بھی فلکیات دان جو اس تاریک دور میں موجود ہوگا وہ کائنات میں ہونے والے پھیلاؤ کا سراغ لگانے میں ناکام رہے گا۔ مستقبل بعید میں رات کے آسمان کا تجزیہ کرنے والے فلکیات دان پہلی بار اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں گے کہ کائنات میں کوئی پھیلاؤ بھی چل رہا ہے اور وہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ کائنات ساکن اور صرف چھتیس کہکشاؤں پر مشتمل ہے۔)

اگر اس ضد ثقل قوّت کی کارستانیاں جاری رہیں تو کائنات حتمی طور پر عظیم انجماد کے انجام سے دوچار ہوگی۔ کائنات میں رہنے والی تمام ذہین مخلوق آخر کار منجمد ہو کر اذیت ناک موت سے ہمکنار ہوگی۔ کیونکہ اس وقت درجہ حرارت مطلق صفر تک گر جائے گا اور اس درجہ حرارت پر سالمات بذات خود بمشکل حرکت کر پاتے ہیں۔ آج سے دسیوں کھرب سال بعد کسی وقت ستارے اپنی تابانی ہمیشہ کے لئے کھو دیں گے ، ان کے ایندھن ختم ہونے کی وجہ سے ان میں جاری رہنے والی نیوکلیائی آگ بجھ جائے گی۔ اور رات کا آسمان ہمیشہ کے لئے ظلمت کے اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔ کائناتی پھیلاؤ اپنے پیچھے صرف ٹھنڈی اور مردہ کالے بونے ستاروں، نیوٹران ستاروں اور بلیک ہولز کی کائنات کو چھوڑ دے گی۔ اور مستقبل میں اور آگے بلیک ہولز بھی اپنی توانائی کو خارج کر دیں گے۔ نتیجتاً بے جان ، ٹھنڈے بنیادی ذرّات کی کہر ہی بچے گی۔ اس سرد ، خنک اور ویران کائنات میں کوئی ذی شعور حیات طبعی طور پر تو وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔ حرحرکیات کے فولادی قوانین ایسے کسی بھی منجمد ماحول میں اطلاعات کی منتقلی کی اجازت نہیں دیتے۔ لہٰذا اس ماحول میں تمام حیات کو لازمی طور پر فنا ہونا ہوگا۔

سب سے پہلے اس بات کا ادراک اٹھارویں صدی میں ہوا کہ کائنات کی موت ٹھنڈ میں ہوگی۔ مایوس کن خیال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ قوانین طبیعیات تمام ذی شعور حیات کا خاتمہ کر دیں گے چارلس ڈارون لکھتا ہے ، " میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ مستقبل بعید میں انسان آج کے مقابلے میں زیادہ مکمل ہوگا ، یہ ایک ناقابل برداشت خیال ہے کہ وہ اور دوسری تمام ذی حس ہستیاں ایک لمبے مسلسل اور سست عمل کے نتیجے میں مکمل فنا سے دوچار ہوں گی۔" بدقسمتی سے ڈبلیو میپ سے حاصل کردہ تازہ ترین مواد ڈارون کے بدترین خدشے کی تصدیق کرتا نظر آ رہا ہے۔


اضافی خلاء میں فرار

یہ طبیعیات کا قانون ہے کہ تمام ذی شعور حیات جو کائنات میں رہتی ہے لازمی طور پر اس حتمی موت سے دوچار ہوگی۔ لیکن یہ بھی ارتقا کا قانون اپنی جگہ موجود ہے کہ جب بھی ماحول تبدیل ہوتا ہے ، حیات یا تو اس ماحول کو چھوڑ دیتی ہے، یا اس سے مطابقت پیدا کر لیتی ہے یا پھر مر جاتی ہے۔ کیونکہ کسی ایسی کائنات کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنا مشکل ہے جو موت سے دوچار ہو رہی ہو، لہٰذا ہم دو چیزوں میں سے صرف ایک ہی کا انتخاب کر سکتے ہیں یا تو مر جائیں یا پھر کائنات کو چھوڑ دیں۔ جب کائنات اپنی حتمی موت کی جانب گامزن ہوگی ، تو کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی تہذیب جو ہم سے کھرب ہا برس آگے اور جدید ہو ، وہ اس قابل ہوں کہ تمام ضروری ٹیکنالوجی کو جمع کرکے ہماری کائنات کو ایک جہتی بچاؤ کشتی میں بیٹھ کر دوسری نوجوان اور گرم کہکشاں کی طرف تیر جائیں؟ اور یا وہ اپنی اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے "وقت کو خم" دے سکیں اور واپس اپنے ماضی میں سفر کر سکیں جب درجہ حرارت کافی گرم تھا؟

کچھ طبیعیات دانوں نے کچھ معقول تجاویز کو پیش کیا ہے ، ہرچند کہ یہ ابھی بہت زیادہ قیاسی ہیں لیکن انہوں نے دستیاب شدہ سب سے جدید طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی حقیقی نقطۂ نظر دوسری کائناتوں میں جانے والے جہتی گزر گاہوں یا راستوں کو پیش کیا ہے۔ طبیعیات کی تجربہ گاہوں میں موجود بلیک بورڈ تجریدی مساواتوں سے اٹے پڑے ہیں۔ طبیعیات دان حساب لگا رہے ہیں کہ آیا "عجیب توانائی" اور بلیک ہولز کا کوئی استعمال دوسری کائناتوں کی گزر گاہوں کو معلوم کرنے کے لئے کیا جا سکتا ہے۔ کیا کوئی جدید تہذیب ، شاید آج سے کروڑوں سے لے کر ارب ہا برسوں بعد ہماری ٹیکنالوجی سے اتنا آگے ہوگی کہ مروجہ قوانین قدرت کا استعمال کرتے ہوئے دوسری کائناتوں میں داخل ہونے کے قابل ہو سکے؟

کیمبرج یونیورسٹی کے ماہر تکوین اسٹیفن ہاکنگ نے ایک دفعہ از روئے طنز کہا تھا ،" ثقب کرم ، اگر ان کا وجود ہے تو، خلاء کے تیز رفتار سفر کے لئے انتہائی موزوں ہوں گے۔ آپ ثقب کرم میں سے ہو کر کہکشاں کے دوسری جانب سفر کر سکتے ہیں اور واپس آکر رات کا کھانا گھر میں کھا سکتے ہیں۔"

اگر ثقب کرم اور جہتی گزرگاہیں بہت ہی زیادہ چھوٹی ہیں اور اس بات کی اجازت دیں کہ ہم اپنی کائنات سے ہجرت کر سکیں تو ایک اور دوسرا اختیار بھی ہوگا یعنی کہ ایک جدید ذی شعور تہذیب کے مکمل علم کو سالماتی پیمانے پر چھوٹا کرکے ان راستوں میں داخل کیا جائے ، تاکہ یہ دوسری جگہ پہنچ کر خود سے اپنی آپ کو از سر نو ترتیب دے سکیں۔ اس طرح سے ایک پوری تہذیب اپنا تخم جہتی گزر گاہوں کے ذریعہ بھیج کر اپنے آپ کو پوری عظمت کے ساتھ قائم کر سکتی ہے۔ اضافی خلاء ، نظری طبیعیات دانوں کے کھیل کے میدان سے نکل کر ممکنہ طور پر ایک ایسا امیدوار بن کر سامنے آئی ہے جو حتمی طور پر ذی شعور حیات کو مرتی ہوئی کائنات سے نجات دلائے گا۔

لیکن اس واقع کے مضمرات کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے ہمیں پہلے یہ بات سمجھنی ہوگی کہ کس طرح سے سخت محنت کرتے ہوئے ماہرین تکوینیات اور ماہرین طبیعیات اس تعجب خیز نتیجے تک پہنچے۔ متوازی جہانوں کے سفر میں ، ہم علم تکوین کی تاریخ پر نظر ڈالیں گے بالخصوص ہمارا زور ان تناقضات پر ہوگا جنہوں نے اس میدان میں صدیوں تک خلل ڈالے رکھا اور جو افراط پذیر کائنات کی شکل میں منتج ہوئے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو تمام تجرباتی مواد سے تو ہم آہنگ ہے لیکن ہمیں کثیر کائناتوں کے خیال کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دوسرا باب - 1

متناقض کائنات







اگر میں تخلیق کے وقت موجود ہوتا تو میں کائنات کی ترتیب کے لئے کچھ کارآمد مشورے دیتا۔
-حکیم الفانس

نظام شمسی پر لعنت ہو۔ خراب روشنی؛ بہت دور سیارے؛ دم دار ستاروں کی تکلیف، کمزور حکمت ؛ اس سے کہیں بہتر [کائنات[میں بنا سکتا تھا۔
-لارڈ جیفری

اس کھیل "جیسا آپ کہیں " میں شیکسپیئر نے لافانی الفاظ میں لکھا
تمام دنیا ایک اسٹیج ہے،
تمام مرد اور عورتیں صرف اس کے کردار ہیں۔
ان کی آمد اور اخراج ہوتا ہے۔

قرون وسطیٰ میں، دنیا حقیقت میں ایک اسٹیج تھی، لیکن یہ اس وقت چھوٹی اور ساکن تھی اور صرف چھوٹی سی ایک چپٹی زمین پر مشتمل تھی جس کے گرد اجرام فلکی پراسرار طور پر نہایت بے عیب طریقے سے آسمانی مداروں میں چکر لگاتے تھے۔ دم دار ستاروں کو برا شگون سمجھا جاتا تھا اور ان کے نمودار ہونے کو بادشاہ کی موت کی تعبیر سے موسوم کیا جاتا تھا۔ جب عظیم دم دار تارہ ١٠٦٦ ء انگلستان میں نمودار ہوا تھا، تو بادشاہ ہیرالڈ کے سیکسن کے فوجی خوف زدہ ہو گئے تھے اور نہایت تیزی کے ساتھ انہوں نے اپنی برتری کو فاتح ولیم کے دستوں کے سامنے گنوا دیا، اور اس کے نتیجے میں جدید انگلستان کی بنیاد پڑی۔

یہی دم دار تارہ انگلستان میں ١٦٨٢ء میں دوبارہ نمودار ہوا اور اس نے پورے یورپ کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ دہقان سے لے کر بادشاہ تک ہر کوئی اس غیر متوقع فلکی مہمان کے آنے سے پریشان تھا جو آسمان فلک میں دور تک جاتا نظر آتا تھا۔ دم دار تارے کہاں سے آتے ہیں؟ یہ جاتے کہیں ہیں؟ ان کا مقصد کیا ہوتا ہے؟

ایک صاحب ثروت، ذی مرتبہ انسان جس کا نام ایڈمنڈ ہیلے تھا اور وہ ایک شوقیہ فلکیات دان بھی تھا وہ اس دم دار تارے سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اپنے دور کے نابغہ روزگار سائنس دان یعنی کہ آئزک نیوٹن سے اس کے بارے میں رائے جاننی چاہی۔ جب اس نے نیوٹن سے یہ جاننا چاہا کہ کون سی ممکنہ طاقت اس دم دار ستارے کی حرکت کو قابو میں رکھتی ہے، تو نیوٹن نے نہایت اطمینان سے جواب دیا کہ دم دار ستارہ ایک بیضوی مدار میں حرکت کرتا ہے جو قانون معکوس مربع کی قوّت کا حاصل ہے ( یعنی کہ دم دار ستارے پر لگنے والی قوّت سورج سے دور جاتے وقت فاصلے کے جذرالمربع کی نسبت کم ہوتی ہے۔)اصل میں نیوٹن اس سیارچہ کا مشاہدہ اپنی نئی دوربین کے ذریعہ کر رہا تھا جو اس نے حال میں ہی ایجاد کی تھی۔ ( یہی وہ انعکاسی دوربین ہے جو آج کل ماہرین فلکیات پوری دنیا میں استعمال کر رہے ہیں ) اور اس دم دار تارے کا مدار اس کے قوّت ثقل کے قوانین کے تابع ہیں جو اس نے بیس سال پہلے بنائے تھے۔ ہیلے یہ بات سن کر مبہوت رہ گیا وہ اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔ "تمہیں کیسے معلوم ہوا؟" اس نے جاننا چاہا۔ "کیوں، اس لئے کہ میں نے اس کا حساب لگایا ہے،" نیوٹن نے جواب دیا۔ ہیلے نے تو اپنے خواب و خیال میں بھی فلکی اجرام کے راز کو جاننے کا نہیں سوچا تھا جسے اس نئے قوّت ثقل کے قانون کی مدد سے بیان کیا جا سکتا تھا۔ اس دم دار ستارے نے انسانیت کو اس وقت سے ورطہ حیرت میں ڈالا ہوا تھا جب سے انسان نے فلک پر نظر ڈالی تھی۔

اس عظیم الشان دریافت کی اہمیت کے پیش نظر ہیلے نے اس کے نئے نظریات کو چھپوانے کی فراغ دلانا پیش کش کی۔ ١٦٨٧ء میں ہیلے کی حوصلہ افزائی اور مالی تعاون کی بدولت نیوٹن نے اپنا شاہکار کام "قدرتی فلسفے کے ریاضی اصول " کو شایع کیا۔ اس کو اب تک شایع ہونے والے کام میں سب سے زیادہ ممتاز مقام حاصل ہے۔ ایک ہی ہلے میں، وہ سائنس دان جو نظام شمسی کے بڑے اجسام کے قوانین سے نا واقف تھے، اچانک ہی سے نہایت صحت اور درستگی کے ساتھ اجرام فلکی کی حرکت کا اندازہ لگانے کے قابل ہو گئے تھے۔

اصول کا اثر اس قدر وسیع پیمانے پر ہوا کہ حجام کی دکان اور آنگنوں میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ یہاں تک کہ شاعر الیگزینڈر پوپ نے لکھا :

قدرت اور قدرت کے قوانین شب میں چھپے ہوئے تھے،
خدا نے کہا، نیوٹن ہوجا ! اور سب روشن ہو گیا۔

(ہیلے اس بات کو سمجھ گیا تھا کہ اگر دم دار تارے کا مدار بیضوی ہے تو کوئی بھی اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ اگلی مرتبہ کب انگلستان میں نمودار ہوگا۔ پرانے اندراجات کی خاک چھاننے کے بعد اس نے معلوم کرلیا کہ ١٥٣١ ء، ١٦٠٧ ء اور ١٦٨٢ ء کا دم دار تارہ حقیقت میں ایک ہی تھا۔ وہ دم دار تارہ جس کو جدید انگلستان کی بنیاد میں انتہائی اہمیت حاصل ہے اور جسے ١٠٦٦ء میں ہر ایک نے دیکھا تھا جس میں جولیس سیزر بھی شامل تھا۔ ہیلے نے اندازہ لگایا کہ دم دار تارہ انگلستان میں دوبارہ ١٧٥٨ء میں نمودار ہوگا، نیوٹن اور ہیلے دونوں کے وفات کے کافی عرصے بعد۔ جب دم دار تارہ کرسمس کے دن اپنے وقت کے مطابق اس سال نمودار ہوا تو اس کا نام ہیلے کا دم دار تارہ رکھ دیا۔)

نیوٹن نے کائناتی قوّت ثقل کا قانون بیس سال پہلے اس وقت دریافت کرلیا تھا جب طاعون کی بیماری کی وجہ سے کیمبرج یونیورسٹی کو بند کر دیا گیا تھا اور بحالت مجبوری اس کو اپنے گاؤں وولس تھورپ لوٹنا پڑا۔ اس کو یہ بات بیان کرنے کا بہت شوق تھا کہ جب وہ اپنی زمین کا چکر لگا رہا تھا تو اس نے ایک سیب کو گرتے دیکھا۔ تب اس نے اپنے آپ سے سوال کیا جس نے بالآخر انسانیت کی تاریخ بدل دینی تھی: اگر سیب گر سکتا ہے تو کیا چاند بھی گر سکتا ہے؟ اچانک ہی اس پر منکشف ہوا کہ، سیب، چاند اور تمام سیارے ایک ہی قوّت ثقل کے قانون کے تابع ہیں اور وہ تمام کے تمام قانون معکوس مربع کے زیر اثر ہی ہیں۔ جب نیوٹن یہ سمجھ گیا کہ سترویں صدی کی ریاضی اس قانون قدرت کو حل کرنے کے لئے بہت ہی ابتدائی نوعیت کی ہے تو اس نے ریاضی کی ایک نئی شاخ نکالی جس کو علم الا احصا کہتے ہیں۔ اس کی مدد سے گرتے ہوئے سیب اور چاند کی حرکت کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔

اصول میں نیوٹن نے میکانیات کے قوانین کو بھی لکھا، وہ قانون جو تمام میدانی اور فلکی اجسام کی سمتی حرکت کا تعین کرتےہیں۔ ان قوانین نے مشین بنانے، بھاپ کی طاقت کو زیر استعمال لانے اور ریل کے انجن کو بنانے کے بنیادی قوانین کو ڈھالا۔ جنہوں نے آگے چل کر صنعتی انقلاب اور جدید تہذیب کی داغ بیل ڈالی۔ آج فلک شگاف عمارتیں، ہر پل اور ہر راکٹ نیوٹن کے قوانین حرکت کو استعمال کرتے ہوئے بنایا جاتا ہے۔ اس نے دنیا کے بارے میں ہمارے پرانے خیالات کو بدل دیا اور ہمیں ایک ایسی نئی کائنات سے روشناس کروایا جہاں پر اجرام فلکی پر حکمرانی کرنے والے پراسرار قوانین زمین پر چلنے والے قوانین جیسے ہی تھے۔ اب حیات کی سیج صرف ڈرانے والے فلکی اجرام کے شگونوں سے نہیں گھری ہوئی تھی، بلکہ وہ قوانین جو ہم پر لاگو ہوتے تھے وہی ان پر بھی لاگو تھے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دوسرا باب - 2

بنٹلے کا تناقض





کیونکہ اصول ایک حوصلہ مندانہ کام تھا لہٰذا اس نے کائنات کی ساخت کے متعلق پہلی بار پریشان کر دینے والے تناقضات کو پیدا کر دیا۔ اگر دنیا ایک سیج ہے تو یہ کتنی بڑی ہے؟ کیا یہ محدود ہے یا لامحدود ہے؟ یہ سوال زمانہ قدیم سے موجود ہے۔، رومی فلاسفر لکریٹیس اس بات سے متحیر تھا۔ "کائنات کسی بھی سمت میں محدود نہیں ہے،" اس نے لکھا۔ " اگر ایسا ہوتا تو اس کی لازمی طور پر کہیں حد ہوتی۔ لیکن صاف ظاہر ہے کہ اس چیز کی کوئی حد نہیں ہو سکتی تاوقتیکہ اس کے باہر کوئی چیز اس کو محدود کرنے کے لئے موجود ہو۔۔۔۔ تمام جہتوں میں ایک ہی طرح، اس طرف یا اس طرف، اوپر یا نیچے پوری کائنات میں کوئی حد نہ اہے۔"

لیکن نیوٹن کے نظریہ نے کسی بھی محدود یا لامحدود کائنات کے بارے میں تناقض کو سامنے لا کھڑا کیا۔ ایک سادہ سا سوال تضاد کی دلدل میں لے جاتا ہے۔ نیوٹن اس شہرت کی دھوپ سینکنے لگا جو اصول کی اشاعت سے اس کو حاصل ہوئی تھی، اس نے اس بات کو جان لیا تھا کہ اس کا قوّت ثقل کا نظریہ لازمی طور پر تناقضات کی پہیلیوں میں الجھا ہوا ہے۔ ١٦٩٢ء میں ایک پادری جس کا نام رچرڈ بنٹلے تھا اس نے بظاہر ایک انتہائی پرسکون اور سادہ نظر آنے والا لیکن درحقیقت پریشان کر دینے والا خط نیوٹن کو لکھا۔ کیونکہ قوّت ثقل ہمیشہ کھینچتی ہے اور کبھی دفع نہیں کرتی لہٰذا کوئی بھی ستاروں کا مجموعہ خود سے اپنے آپ پر منہدم ہو جائے گا۔ بنٹلے نے لکھا۔ اگر کائنات محدود ہے تب رات کا آسمان بجائے ابدی اور ساکن نظر آنے کے ناقابل بیان کشت و خوں کا منظر پیش کرتا ہوا نظر آتا کیونکہ ستارے ایک دوسرے میں گھس جاتے اور ایک خوفناک فوق ستارے میں تبدیل ہو جاتے۔ لیکن بنٹلے نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ اگر کائنات لامحدود ہے تو کسی بھی جسم پر لگنے والی کوئی بھی طاقت اس کو سیدھی یا الٹی جانب کھینچ لے گی اور یہ لگنے والی طاقت بھی لامحدود ہوگی لہٰذا ستاروں کو ایک شعلہ فشاں انشقاق عظیم میں ریزہ ریزہ کر دے گی۔

شروع میں تو ایسا لگا جیسے کہ بنٹلے نے نیوٹن کو مات دے دی۔ یا تو کائنات محدود تھی ( اور اس کو ایک آگ کے گولے میں منہدم ہونا تھا )، یا پھر یہ لامحدود تھی ( جس کے نتیجے میں تمام ستاروں کو ریزہ ریزہ ہو جانا تھا )۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی بات اس نوزائیدہ نظریئے کے لئے زہر قاتل تھی جس کو نیوٹن نے پیش کیا تھا۔ اس مسئلہ نے تاریخ میں پہلی بار ایک لطیف لیکن فطری تناقض کو اجاگر کیا کہ اگر ہم قوّت ثقل کو آفاقی طور پر لاگو کریں تو کیا ہوگا۔

انتہائی محتاط رہتے ہوئے نیوٹن نے جواب لکھا کہ اس کے دلائل میں ایک سقم ہے۔ وہ ایک لامحدود کائنات کے نظریئے کی طرف راغب ہے جو مکمل طور پر یکساں ہو۔ لہٰذا اگر ایک ستارہ، لامحدود ستاروں کی وجہ سے سیدھی جانب کھنچا جا رہا ہے تو وہی ستارہ الٹی جانب کی طرف کے لامحدود ستاروں کی وجہ سے الٹی جانب بھی کھینچا جا رہا ہے اس طرح سے دونوں جانب کا کھنچاؤ ایک دوسرے کو زائل کر دیتا ہے۔ تمام قوّتیں ہر سمت میں توازن برقرار رکھی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ایک ساکن کائنات وجود میں آ گئی ہے۔ لہٰذا اگر قوّت ثقل ہمیشہ سے جاذبی قوّت ہے تو بنٹلے کے تناقضے کا واحد حل یہ ہے کہ کائنات لامحدود ہے اور یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہے۔

درحقیقت نیوٹن نے بنٹلے کی دلیل میں ایک سقم تلاش کر لیا تھا۔ لیکن نیوٹن اتنا ہوشیار تھا کہ اس کو اپنے جواب کی کم مائیگی کا احساس بھی تھا۔ اس نے ایک خط میں اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ ہرچند اس کا فراہم کردہ حل تیکنیکی بنیادوں پر درست ہے لیکن خلقی طور پر پائیدار نہیں ہے۔ نیوٹن کی یکساں اور لامحدود کائنات شیشے کے گھر جیسی ہوگی جو دیکھنے میں تو پائیدار ہوگی لیکن ذرا سی ہلچل سے منہدم ہو جائے گی۔ اس بات کا حساب کوئی بھی آسانی سے لگا سکتا ہے کہ کسی بھی ایک ستارے میں ننھی سی ہلچل، ستاروں میں زنجیری عمل کے طور پر ہلچل پھیلا دے گی اور ستاروں کے جتھے فوراً ہی منہدم ہونا شروع ہو جائیں گے۔ نیوٹن کے کمزور جواب نے ایک "خدائی طاقت" کا جواز پیدا کر دیا تھا جس نے اس شیشے کے گھر کو چکنا چور ہونے سے بچا کر رکھا ہوا تھا۔ "ایک متواتر معجزہ درکار تھا تاکہ وہ سورج اور ساکن ستاروں کو قوّت ثقل کے زیر اثر ایک دوسرے میں گھسنے سے بچا سکے۔" اس نے لکھا۔

نیوٹن کے مطابق کائنات ایک جسیم گھڑی کی مانند تھی جس کی چابی اس کائنات کی ابتدا میں خدا نے بھر دی تھی۔ اب یہ کائنات اس وقت سے حرکت کے تین قوانین کی بدولت بغیر خدا کی مداخلت کے چل رہی ہے۔

لیکن کبھی کبھار، خدا کو مداخلت کرنی پڑتی ہے تاکہ کائنات کی نوک پلک سنوار کر اس کو منہدم ہونے سے بچا سکے۔(با الفاظ دیگر کبھی کبھار خدا کو اس لئے مداخلت کرنی پڑتی ہے کہ حیات کی سیج کو ان کے اداکاروں پر گرنے سے بچا سکے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دوسرا باب - 3

اولبرز کا تناقض






بنٹلے کے تناقض کے علاوہ ایک اور گہرا تناقض کسی بھی لامحدود کائنات کے نظریئے میں خلقی طور پر موجود ہے۔ اولبرز کا تناقض اس سوال سے شروع ہوتا ہے کہ رات کا آسمان کالا کیوں ہے۔ جوہانس کیپلر کے دور کے ماہرین فلکیات نے اس بات کا احساس کرلیا تھا کہ اگر کائنات یکساں اور لامحدود ہے تو جہاں کہیں بھی آپ پر نگاہ دوڑائیں گے آپ کو لامحدود تعداد کے ستاروں سے آتی ہوئی روشنی نظر آئے گی۔ آسمان میں کہیں پر بھی دیکھیں، ہماری نگاہ آخر کار ان گنت ستاروں کی تعداد سے جا ٹکرائے گی اور اس طرح سے ہمیں لامحدود ستاروں کی روشنی نظر آئے گی۔ لہٰذا رات کے آسمان میں تو آگ لگی ہوئی ہونی چاہئے! یہ حقیقت کہ رات کا سفید نہیں آسمان کالا ہے بہت ہی لطیف ہے لیکن اس کا کائناتی تناقض پر بہت ہی عمیق اثر صدیوں تک رہا ہے۔

اولبرز کا تناقض، بنٹلے کے تناقض کی طرح معصومانہ حد تک سادہ ہے لیکن اس نے کئی نسلوں سے فلسفیوں اور ماہرین فلکیات کو دق کرکے رکھا ہوا ہے۔ بنٹلے اور اولبرز کا تناقض اس مشاہدے پر انحصار کرتا ہے کہ لامحدود کائنات میں ثقلی قوّتیں اور روشنی کی کرنیں صرف لامحدود بے معنی نتائج فراہم کریں گے۔ صدیوں تک غلط جوابات کا ڈھیر پیش کیا جاتا رہا۔ کیپلر تو اس تناقض سے اتنا مایوس ہوا کہ اس نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ کائنات محدود ہے جو ایک خول میں بند ہے۔ لہٰذا اس لئے ستاروں کی محدود روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔

اس متناقض بات پر پراگندگی اس قدر زبردست تھی کہ ایک ١٩٨٧ء کی تحقیق بتاتی ہے کہ فلکیات کی ٧٠ فیصد نصاب کی کتب میں غلط جواب دیے گئے تھے۔

شروع میں تو کوئی بھی اولبرز کے تناقض کو حل کرنے کے لئے یہ کہہ سکتا ہے کہ ستاروں کی روشنی گرد کے بادلوں میں جذب ہو جاتی ہے۔ یہ وہی جواب ہے جو ہینرچ ولہیلم البرز نے خود کو ١٨٢٣ء میں اس وقت دیا جب اس نے واضح طور پر اس تناقض کو بیان کیا تھا۔ البرز نے لکھا، " یہ کتنی خوش قسمتی کی بات ہے کہ زمین فلکی گنبد کے ہر نقطے سے ستاروں کی روشنی حاصل نہیں کرتی! باوجود ناقابل تصوّر روشنی اور حرارت کے جو ٩٠ ہزار گنا اس روشنی اور حرارت کے ہوتی جس کو ہم اب محسوس کرتے ہیں، پروردگار عالم آسانی کے ساتھ ایسے جاندار تخلیق کر سکتا تھا جو اس شدید ماحول میں اپنے آپ کو ڈھال سکتے۔"

زمین کو سورج کی قرص جتنی پس منظر کی روشنی میں نہانے سے بچنے کے لئے، اولبرز نے تجویز پیش کی کہ گرد کے بادلوں نے لازمی طور پر یہ شدید حرارت جذب کر لی ہوگی تاکہ زمین پر حیات پروان چڑھ سکے۔ مثال کے طور پر ہماری کہکشاں کا شعلہ فشاں مرکز جو رات کے آسمان پر چھایا ہوا ہوتا ہے، اصل میں گرد کے بادلوں کے عقب میں چھپا ہوا ہے۔ اگر ہم برج قوس کے مجموع النجوم کی جانب دیکھیں جہاں پر ملکی وے کا قلب واقع ہے تو ہمیں خیرہ کنا آگ کی گیند کے بجائے تاریکی کے ٹکڑے نظر آئیں گے۔

لیکن گرد کے بادل البرز کے تناقض کا صحیح حل پیش نہیں کرتے۔ لامحدود وقت میں یہ گرد کے بادل جو لامحدود ستاروں کی روشنی کو جذب کر رہے ہوں گے بالآخر خود بھی گرم ہو کر کسی ستارے کی طرح منور ہو جائیں گے۔ لہٰذا گرد کے بادل بھی رات کے آسمان میں درخشاں نظر آئیں گے۔

اسی طرح سے کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ستارہ جتنا دور ہوگا اس کی روشنی اتنی ہی مدھم ہوگی۔ یہ بات سچ ہے، لیکن یہ بھی کوئی درست جواب نہیں ہوگا۔ اگر ہم رات کے آسمان کے ایک حصّہ کی جانب دیکھیں، تو دور دراز کے ستارے حقیقت میں بہت ہی مدھم ہیں، لیکن آپ جتنا اور زیادہ دور دیکھیں گے اتنے ہی اور زیادہ ستارے آپ کو نظر آئیں گے۔ یہ دونوں اثرات ایک یکساں کائنات میں ایک دوسرے کا اثر زائل کر دیں گے جس کے نتیجے میں آسمان روشن ہو جائے گا۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ ستاروں کی روشنی کی شدت فاصلے کے جذر المربع کی نسبت سے کم ہوتی ہے، اس کم ہوتی روشنی کا اثر بڑھتے ہوئے فاصلے پر ستاروں کی تعداد فاصلے کی نسبت سے جزر المربع سے بڑھے گی۔)

عجیب بات ہے کہ تاریخ میں سب سے پہلا شخص جس نے اس تناقض کو حل کیا ہے وہ امریکی پراسرار کہانیاں لکھنے والا مصنف ایڈگر ایلن پو تھا جس کو فلکیات میں کافی عرصے سے دلچسپی رہی تھی۔ اپنا مرنے سے کچھ عرصے پہلے، اس نے اپنے مشاہدے کو ہلکے پھلکے انداز کی فلسفیانہ نظم میں پیش کیا جس کا نام "میں نے پا لیا : نثری نظم "تھی۔ ایک قابل دید پیراگراف میں اس نے لکھا:

اگر ستاروں کا تسلسل غیر مختتم ہوتا، تو آسمان کا پس منظر یکساں تابانی کا مظہر ہوتا، جیسا کہ کہکشاں میں نظر آتا ہے - کیونکہ مطلق طور پر پورے پس منظر میں کوئی بھی نقطہ ایسا نہ ہوتا جہاں پر کوئی ستارہ موجود نہ ہوتا۔ صرف ایک ہی بات ایسی ہو سکتی ہے جس میں ہم کو اپنی دوربین سے نظر آنے والی یہ لاتعداد خالی جگہیں سمجھ آتی ہیں کہ غیر مرئی پس منظر میں فاصلہ اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی کوئی بھی شعاع ہم تک اب تک پہنچنے کے قابل نہیں ہوئی ہے۔

اس نے اپنی بات تمام کرکے ایسے درج کی " یہ خیال کافی اچھا ہے کہ سچائی کو اس کی اساسیت کے تابع نہ کیا جائے۔"

یہ درست جواب تھا۔ کائنات لامحدود طور پر پرانی نہیں ہے۔ تخلیق کا عمل تھا۔ ایک محدود انفصالی نقطہ اس روشنی کے لئے موجود تھا جو ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے۔ سب سے دور دراز ستارے کی روشنی ابھی ہم تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ ماہر تکوین ایڈورڈ ہیرسن جنہوں نے سب سے پہلے اولبرز کے تناقض کا 'پو' کا حل دریافت کیا تھا، نے لکھا ہے، "جب میں نے 'پو' کے لفظوں کو پہلی دفعہ پڑھا تو میں ہکا بکا رہ گیا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شاعر بلکہ اس کو شوقیہ سائنس دان کہنا بہتر ہوگا، نے صحیح جواب برسوں پہلے بوجھ لیا تھا جبکہ ہمارے کالجز میں غلط وضاحت ابھی تک پڑھائی جا رہی ہے؟"

١٩٠١ء میں اسکاٹ لینڈ کے رہائشی طبیعیات دان لارڈ کیلون نے بھی صحیح جواب حاصل کرلیا تھا۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ جب آپ رات کے آسمان کو دیکھتے ہیں، تو آپ روشنی کی رفتار کی حد کی وجہ سے اس کو حال کے بجائے ماضی میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ روشنی کی رفتار زمین کے پیمانے پر بہت برق رفتار (١٨٦،٢٨٢ میل فی سیکنڈ) ہونے کے باوجود محدود ہے، اور دور دراز تاروں کی روشنی کو زمین تک پہنچنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ کیلون نے حساب لگایا کہ رات کے آسمان کو روشن ہونے کے لئے کائنات کو ہزار ہا کھرب نوری برسوں پر پھیلا ہوا ہونا چاہئے۔ لیکن کیونکہ کائنات دسیوں کھرب سال عمر کی نہیں ہے لہٰذا رات کا آسمان لازمی طور پر کالا ہے۔ (ایک دوسری وجہ کہ آیا کیوں رات کا آسمان کالا ہے وہ ستاروں کی محدود زندگی ہے، جس کو ارب ہا برسوں میں ناپا جاتا ہے۔)

حال ہی میں پو کے حل کی صحت کو تجرباتی طور پر ہبل خلائی دوربین جیسے سیارچوں کی مدد سے جانچا جانا ممکن ہو سکا ہے۔ یہ طاقتور دوربینیں ہمیں ان سوالات کا جواب بھی دیتی ہیں جن کو بچے بھی اکثر پوچھتے ہیں : سب سے دور ستارہ کہاں ہے؟ اور اس پرے ستارے سے آگے کیا ہے؟ ان سوالات کے جواب کے لئے ماہرین فلکیات نے نے ہبل خلائی دوربین کو ایک تاریخی کام کرنے پر لگا دیا۔ یعنی کہ اس سے کائنات کے دور دراز حصّے کی تصویر لی۔ خلاء کی گہرائیوں میں موجود حد درجے دھندلا تی ستاروں کی روشنی کی تصویر حاصل کرنے کے لئے، دوربین کو ایک بے نظیر کام سرانجام دینا تھا یعنی انتہائی صحت و درستگی کے ساتھ آسمان میں برج جوزا کے قریب آسمان کے ایک نقطہ کی طرف دوربین سے کل ملا کر کئی سو گھنٹے تک دیکھنا تھا۔ اس کام کے لئے دوربین کو بے عیب طریقے سے زمین کے گرد چار سو مرتبہ چکر لگاتے ہوئے ایسا صف بستہ رہنا تھا کہ اس کی نظر ایک ہی جگہ ٹکی رہے۔ یہ کام اس قدر مشکل تھا کہ اس میں چار مہینے سے بھی زائد کا عرصہ لگ گیا تھا۔

٢٠٠٤ء میں ایک ششدر کر دینے والی تصویر شایع ہوئی جس نے دنیا میں اکثر اخباروں کے صفحہ اوّل پر جگہ پائی۔ اس میں دس ہزار کہکشاؤں کا مجموعہ نظر آ رہا تھا جو بگ بینگ کے بعد بننا شروع ہوئی تھیں۔ "شاید ہم شروعات کا اختتام دیکھ رہے تھے" اس بات کا اظہار اسپیس ٹیلی سکوپ سائنس انسٹیٹیوٹ کے انٹون کوکے مور نے کیا۔ اس تصویر میں بے ترتیب مدھم کہکشائیں زمین سے تیرہ ارب نوری برس کے فاصلے پر نظر آ رہی ہیں یعنی ان کو روشنی کو زمین تک پہنچنے کے لئے تیرہ ارب برس کا وقت لگا۔ کیونکہ خود کائنات کی عمر تیرہ ارب ستر کروڑ برس کی ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ کہکشائیں لگ بھگ تخلیق کے پچاس کروڑ برس بعد بننا شروع ہو گئیں تھیں۔ جب اولین ستارے اور کہکشائیں بگ بینگ کے بچے ہوئے گیسوں کے ملغوبے سے بننا شروع ہو گئیں تھیں۔ "ہبل ہمیں بگ بینگ کے نہایت قریب لے جاتی ہے،" انسٹیٹیوٹ کے ماہر فلکیات ماسیمو اسٹیواویلی نے کہا۔

لیکن اس سے سوال اٹھتا ہے کہ دور دراز کی کہکشاں کے پار کیا ہے؟ جب اس حیرت انگیز تصویر کو دیکھتے ہیں تو سب سے زیادہ واضح چیز ان کہکشاؤں کے درمیان تاریکی ہی نظر آتی ہے۔ یہ تاریکی ہی رات کے آسمان کی تاریکی کا سبب ہے۔ یہ دور دراز کے ستارے سے آتی ہوئی روشنی کا آخری انفصالی نقطہ ہے۔ بہرحال یہ تاریکی اصل میں پس منظر کی خرد موجی اشعاع ہیں۔ لہٰذا حتمی جواب اس سوال کا جس میں یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیوں رات کا آسمان کالا ہے یہ ہے کہ رات کا آسمان کالا تو بالکل بھی نہیں ہے۔ (اگر ہماری آنکھیں صرف بصری روشنی کے بجائے خرد موجی اشعاع دیکھنے کے قابل ہوتیں تو ہم بگ بینگ سے نکلنے والی اشعاع کا سیلاب دیکھ سکتے۔ ایک طرح سے بگ بینگ سے پیدا ہونے والی اشعاع روزانہ رات کے آسمان میں نظر آتی ہیں۔ اگر ہماری آنکھیں خرد موجوں کو دیکھنے کے قابل ہوتیں تو ہم دور دراز تارے کے پار تخلیق کو خود سے دیکھ سکتے۔)

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دوسرا باب - 4

باغی آئن سٹائن







نیوٹن کے قوانین اس قدر کامیاب تھے کہ سائنس کو البرٹ آئن سٹائن کے کام کے ساتھ اگلا نتیجہ خیز قدم اٹھانے میں دو سو سال سے کچھ زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ آئن سٹائن نے اپنا پیشہ بطور غیر امید افزا انقلابی امیدوار کے شروع کیا۔ ١٩٠٠ء میں جب زیورخ میں واقع پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سے فارغ التحصیل ہوا تو اس کا سامنا مایوس کن حالات سے ہوا۔ وہ بیروزگار تھا۔ اس کا مستقبل اس کے پروفیسر کے ہاتھوں برباد ہو گیا تھا۔ پروفیسر جماعت سے اکثر غائب رہنے والے اس منہ پھٹ اور بیباک طالبعلم کو انتہائی ناپسند کرتا تھا۔ اس کے خطوط کی صورت میں موجود بیان اس بات کی گہرائی کو ثابت کرتے تھے کہ کس طرح سے ٹوٹ کر اس سے بدلہ لیا گیا تھا۔ آئن سٹائن اپنے آپ کو ایک ناکام اور والدین پر تکلیف دہ بوجھ سمجھتا تھا۔ ایک دل خراش خط میں، وہ قبول کرتا ہے کہ اس نے خود کو ختم کرنے کا بھی سوچا تھا۔" میرے والدین کی بدقسمتی ہے، جنہیں کئی برسوں تک مسرت کا کوئی لمحہ میسر نہیں ہوا اس کا سب سے بڑا سبب میں ہوں۔۔۔۔ میں صرف اپنے رشتے داروں پر بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں ہوں۔۔۔ یہ یقینی طور پر زیادہ بہتر ہوتا اگر میں پیدا ہی نا ہوا ہوتا،" اس نے اداسی سے لکھا۔

مایوسی کی حالت میں اس نے اپنا پیشہ تبدیل کیا اور ایک انشورنس کمپنی میں ملازمت کر لی۔ یہاں تک کہ اس نے بچوں کی معلمی بھی کی لیکن اس کی اپنے آجر سے کسی بات پر تلخ کلامی ہو گئی اور اس کو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ جب اس کی محبوبہ ملیوا مارک غیر متوقع طور پر امید سے ہو گئی تب اسے احساس ہوا کہ ان کے بچے غیر قانونی طور پر پیدا ہوں گے کیونکہ اس کے پاس شادی کرنے کے لئے وسائل موجود نہیں تھے۔(کوئی نہیں جانتا کہ اس کی غیر قانونی بیٹی لیزرل کے ساتھ کیا ہوا۔) اور یہ گہرے ذاتی صدمے سے اس وقت اور دوچار ہوا جب اس کے والد کی اچانک موت ہو گئی۔ اس صدمے نے اس کے دل پر وہ داغ چھوڑا جو کبھی نہیں بھر سکا۔ اس کے والد کا انتقال یہ سوچتے ہوئے ہو گیا کہ اس کا بیٹا ناکارہ ہے۔

ہرچند ١٩٠١ء اور ١٩٠٢ء آئن سٹائن کی زندگی کا بدترین دور تھا، لیکن جس چیز نے آئن سٹائن کو گمنامی کے اندھیرے میں ڈوبنے سے بچایا وہ اس کے ہم جماعت مارسیل گروسمین کی سفارش تھی جس کے نتیجے میں اس کو ایک نسبتاً محفوظ البتہ حقیر محرر کی نوکری برن میں واقع سوئس پیٹنٹ آفس میں ملی۔



اضافیت کے تناقضات

بظاہر دیکھیں تو پیٹنٹ آفس کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں سے طبیعیات کی دنیا میں نیوٹن کے بعد عظیم انقلاب برپا کیا جائے۔ لیکن اس جگہ کے اپنے فوائد تھے۔ میز پر رکھی پیٹنٹ کی فائلوں کو تیز رفتاری کے ساتھ بھگتانے کے بعد آئن سٹائن سکون سے بیٹھ جاتا تھا اور اپنے اس خواب کو دیکھنے لگتا تھا جو وہ اپنے لڑکپن کی عمر سے دیکھتا آیاتھا۔ اپنی نوجوانی کے عالم میں اس نے ایرون برنسٹین کی ایک کتاب پڑھی تھی جس کا نام "قدرتی سائنس پر عوامی کتاب" تھا۔ "ایک ایسا کام جس کو میں توجہ سے سانس لئے بغیر پڑھ جاتا تھا،" وہ بتاتا ہے۔ برنسٹین قارئین سے کہتا ہے کہ وہ اس بات کا تصوّر کریں کہ وہ برق کے ساتھ اس وقت چل رہے ہیں جب وہ تار میں سے گزر رہی ہے۔ جب وہ سولہ برس کا ہوا تو آئن سٹائن نے خود سے سوال کیا : روشنی کی کرن اس وقت کیسی لگے گی جب آپ اس کو پکڑیں گے؟ آئن سٹائن ماضی کے اوراق پلٹ کر یاد کرتا ہے،" ایسا کو بھی اصول اس تناقض کا نتیجہ ہوگا جس سے میرا واسطہ سولہ برس کی عمر میں پڑا تھا۔ اگر میں روشنی کی کرن کو سمتی رفتار ج (روشنی کی سمتی رفتار خلاء میں ) سے پکڑنے کی کوشش کروں، تو مجھے ایسی روشنی کی کرن کا مشاہدہ کرنا چاہئے جو مکانی مرتعش برقی مقناطیسی میدان میں حالت سکون میں ہو۔ بہرحال ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی چاہئے وہ تجربات کی رو سے ہوئے یا میکسویل کی مساوات کی روشنی میں۔" بچے کے طور پر آئن سٹائن نے سوچا کہ اگر آپ روشنی کی کرن کے ساتھ ساتھ دوڑ سکتے ہیں تو وہ منجمد دکھائی دے گی جیسا کہ حرکت کے بغیر موج۔ بہرحال کسی نے بھی منجمد روشنی کو نہیں دیکھا لہٰذا اس میں کچھ زبردست مسئلہ موجود ہے۔

صدی کے آغاز میں طبیعیات کے دو ایسے عظیم ستون موجود تھے جس پر طبیعیات کی تمام عمارت کھڑی تھی۔ ایک تو نیوٹن کی میکانیات اور قوّت ثقل تھی، جبکہ دوسری میکسویل کا روشنی کا نظریہ تھا۔ ١٨٦٠ء کے عشرے میں اسکاٹ لینڈ کے رہائشی طبیعیات دان جیمز کلارک میکسویل نے اس بات کو ثابت کیا کہ روشنی مرتعش برق اور مقناطیسی میدان پر مشتمل ہے جو متواتر ایک دوسرے میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ آئن سٹائن حیرت زدہ تھا کیونکہ یہ دونوں ستون ایک دوسرے سے متصادم تھے اور ان میں سے کسی ایک کو گرنا تھا۔

میکسویل کی مساوات میں اس نے اس معمے کا حل تلاش کرلیا جو اس کو دس برس سے پریشان کیے ہوئے تھا۔ آئن سٹائن نے ایک ایسی چیز کھوج لی تھی جس کو دریافت کرنے سے میکسویل بھی چوک گیا تھا۔ میکسویل کی مساوات نے بتایا کہ روشنی مسلسل ایک سمتی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آپ اس کو پکڑنے کے لئے کتنی بھی کوشش کر لیں۔ روشنی کی رفتار ج تمام جمودی ترتیب میں ایک جیسی ہی ہوگی (یعنی ترتیب ایک مستقبل سمتی رفتار سے سفر کرے گی)۔ چاہئے آپ ساکن کھڑے ہوں، یا ٹرین میں محو سفر ہوں، یا پھر تیز رفتار دم دار ستارے پر سوار ہوں، آپ روشنی کی ایک ایسی کرن دیکھیں گے جو آپ سے آگے اسی ایک جیسی رفتار سے بھاگ رہی ہوگی۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آپ کتنی تیزی سے حرکت کرتے ہیں آپ کبھی بھی روشنی کی رفتار کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ نظریہ فوری طور پر تناقضات کے پہاڑ کھڑا کر دیتا ہے۔ ایک لمحے کے لئے تصوّر کریں کہ کوئی خلا نورد روشنی کی کرن کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ خلا نورد اپنے راکٹ کو دوڑاتا ہے یہاں تک کہ وہ روشنی کی رفتار کے دوش بدوش چلنے لگتا ہے۔ زمین پر کھڑا ناظر اس فرضی پکڑم پکڑائی کو دیکھ کر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ خلا نورد اور روشنی کی رفتار ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو سفر کر رہی ہیں۔ بہرحال خلا نورد ایک مکمل الگ بیان دے گا۔ وہ بتائے گا کہ روشنی تو اس سے ایسے تیز رفتاری سے آگے نکلتی ہوئی نظر آ رہی ہے جیسے کہ اس کا راکٹ ساکن کھڑا ہو۔

جو سوال آئن سٹائن کو پریشان کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ دو لوگ ایک ہی واقعہ کی دو مختلف تاویل پیش کریں ؟ نیوٹن کے نظریہ کے مطابق روشنی کی رفتار کو کوئی بھی ہمیشہ پکڑ سکتا تھا۔ آئن سٹائن کی دنیا میں یہ بات ناممکن تھی۔ اچانک ہی اس پر منکشف ہوا کہ طبیعیات کی بنیاد میں تو ایک بنیادی نقص ہے۔ ١٩٠٥ء کے موسم بہار میں "میرے دماغ میں ایک طوفان چل رہا تھا۔" آئن سٹائن یاد کرتا ہے۔ ایک ہی ہلے میں اس نے آخر کار مسئلہ کا حل تلاش کرلیا۔ وقت مختلف شرح سے گزرتا ہے، اس کے گزرنے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ کتنی تیزی سے حرکت کر رہے ہیں۔ حقیقت میں جتنا تیز آپ حرکت میں ہوں گے اتنی ہی آہستہ وقت گزرے گا۔ وقت کوئی مطلق چیز نہیں ہے، جیسا کہ نیوٹن کبھی سوچتا تھا۔ نیوٹن کے مطابق، وقت یکساں رفتار سے پوری کائنات میں گزرتا ہے، لہٰذا زمین پر گزرا ایک سیکنڈ مشتری یا مریخ پر گزرے ایک سیکنڈ کے برابر ہی ہوگا۔ گھڑیاں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ پوری کائنات میں چلتی ہیں۔ آئن سٹائن کے مطابق بہرحال مختلف گھڑیاں مختلف شرح سے پوری کائنات میں چلتی ہیں۔

آئن سٹائن کو اس بات کا ادرک ہو گیا تھا کہ اگر وقت کی تبدیلی آپ کی سمتی رفتار پر منحصر ہے تو دوسری چیزیں جیسا کہ لمبائی، مادّہ اور توانائی کو بھی تبدیل ہونا چاہئے۔ اس کو معلوم ہوا کہ جتنا تیز آپ حرکت کریں گے اتنا ہی فاصلہ سمٹ جائے گا (اس کو اکثر لورینٹز فٹز جیرالڈ سمٹاؤ بھی کہتے ہیں )۔ اسی طرح سے جتنا تیز آپ حرکت کریں گے اتنی ہی زیادہ آپ بھاری ہوں گے۔(درحقیقت جب آپ روشنی کی رفتار کے قریب پہنچیں گے، وقت آہستہ ہو کر رک جائے گا، جو بہت ہو فضول سی بات لگتی ہے۔) یہی وجہ ہے کہ آپ روشنی کی رفتار کی حد کو نہیں توڑ سکتے۔ روشنی کی رفتار کائنات میں کسی بھی چیز کی رفتار کی حد ہے۔)

مکان و زمان کے اس محیرالعقل بگاڑ، نے ایک شاعر کو یہ لکھنے پر مجبور کر دیا:

ایک نوجوان مقتدی جس کا نام فسک تھا
جس کی تلوار بازی کا فن نہایت ہی بہترین تھا
اس کے وار اس قدر برق رفتار تھے
کہ فرٹز جیرالڈ کے سمٹاؤ نے
اس کی دو دھاری تلوار کو کم کرکے قرص بنا دیا تھا۔

جس طرح سے نیوٹن کی دریافت نے زمینی طبیعیات کو سماوی طبیعیات سے ہم آہنگ کر دیا تھا، بعینہ ایسے ہی آئن سٹائن نے مکان کو زمان کے ساتھ ایک کر دیا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ مادّہ اور توانائی بھی ایک ہی ہیں لہٰذا ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئی جسم تیزی سے حرکت کرتا ہوا بھاری ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ توانائی، مادّے میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اس کا الٹ بھی درست ہوگا - مادّہ بھی توانائی میں بدل سکتا ہے۔ آئن سٹائن نے حساب لگایا کہ کتنی توانائی مادّہ میں تبدیل ہو سکتی ہے اور نتیجتاً اس کو E=MC2کا فارمولا حاصل ہوا۔ یعنی کہ مادّے کی ننھی سی مقدار "میم " کو بھی اس وقت ایک عظیم عدد سے ضرب دینا ہوگا (جو روشنی کی رفتار کا مربع ہوگا) جب وہ توانائی میں بدلتی ہے۔

اس طرح سے ستاروں کی توانائی کے پراسرار مادّے کے منبع کی توانائی میں تبدیلی اس مساوات کے ذریعہ ظاہر ہوئی اور اسی نے کائنات کو روشن کیا ہوا ہے۔ ستاروں کا راز ایک سادے سے جملے سے حاصل کیا جا سکتا ہے کہ روشنی کی رفتار ہر جمودی ڈھانچے میں یکساں ہوگی۔

اپنے پیش رو نیوٹن کی طرح آئن سٹائن نے حیات کی سیج کو دیکھنے کا طریقہ بدل دیا۔ نیوٹن کی دنیا میں تمام اداکاروں کو نہایت درستگی کے ساتھ معلوم تھا کہ کیا وقت ہوا ہے اور فاصلہ کیسے ناپا جاتا ہے۔ وقت کے بہنے کی رفتار اور سیج کی جہت کبھی بھی نہیں بدلتی تھی۔ لیکن اضافیت نے ہمیں مکان و زمان کو سمجھنے کا ایک عجیب نقطۂ نظر دیا۔ آئن سٹائن کی دنیا میں تمام اداکاروں کی گھڑی وقت کو الگ الگ بتاتی ہے۔ لہٰذا سیج پر موجود تمام گھڑیوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ناممکن ہے۔ اداکاروں کی ریہرسل کے لئے دوپہر کا مطلب مختلف اداکاروں کے لئے مختلف ہوگا۔ دراصل عجیب و غریب چیزیں اس وقت پیدا ہونا شروع ہو جائیں گی جب اداکار سیج پر دوڑنے لگیں گے۔ جتنا تیزی سے وہ حرکت کریں گے، اتنا آہستہ ان کی گھڑیاں چلیں گی اور ان کے جسم اتنے ہی زیادہ بھاری اور چپٹے ہوں گے۔

آئن سٹائن کے نقطۂ نظر کو سائنسی سماج میں اپنی پہچان بنانے میں برسوں کا عرصہ لگ گیا۔ لیکن آئن سٹائن بیکار نہیں بیٹھا ؛ وہ اپنے اس اضافیت کے نظریئے کو قوّت ثقل پر لاگو کرنا چاہتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے، اس نے اپنے دور کے سب سے زیادہ کامیاب نظریئے سے شروع کیا۔ میکس پلانک جو کوانٹم کے نظریئے کا بانی تھا اس نے اسے خبردار کرتے ہوئے کہا، " ایک دیرینہ ساتھی کی حیثیت سے، میں تمہیں اس کے خلاف پہلے ہی نصیحت کرتا ہوں، تم کامیاب نہیں ہو گے، اور اگر کامیاب بھی ہو گئے تو کوئی بھی تمہارا یقین نہیں کرے گا۔"

آئن سٹائن کو اس بات کا ادراک ہو چکا تھا کہ اس کا نظریہ اضافیت نیوٹنی قوّت ثقل کے نظریئے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ نیوٹن کے مطابق قوّت ثقل فی الفور تمام کائنات میں سفر کرتی ہے۔ لیکن اس سے ایک سوال اٹھتا ہے جو اکثر بچے بھی پوچھتے ہیں کہ "اس وقت کیا ہوگا جب سورج غائب ہو جائے گا؟" نیوٹن کے مطابق تمام کائنات سورج کے غائب ہونے کی ایک ساتھ شاہد ہوگی۔ لیکن خصوصی اضافیت کے نظریئے میں یہ بات ناممکن تھی کیونکہ ستارے کا غائب ہونا روشنی کی رفتار سے مشروط ہے۔ اضافیت کے مطابق سورج کے یکدم غائب ہو جانے سے ایک کروی ثقلی صدماتی موج پیدا ہوگی جو باہر کی جانب روشنی کی رفتار سے سفر کرے گی۔ اس صدماتی موج سے باہر شاہد کہے گا کہ سورج اب بھی چمک رہا ہے کیونکہ قوّت ثقل ابھی اس تک نہیں پہنچی ہے۔ لیکن کرہ کے اندر کوئی بھی شاہد کہے گا کہ سورج غائب ہو گیا ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے آئن سٹائن نے ایک بالکل ہی مختلف مکان و زمان کی صورت پیش کی۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دوسرا باب - 5

قوّت بطور مکانی خمیدگی







نیوٹن نے مکان و زمان کو خالی کھیل کے میدان کے طور پر لیا تھا جس میں واقعات اس کے قوانین حرکت کے تحت وقوع پذیر ہوتے تھے۔ سیج حیرتوں اور اسرار سے بھری ہوئی تھی، لیکن یہ لازمی طور پر جمودی اور بے حرکت ہوتی ہے، جیسے کوئی بے حس قدرت کے ناچ کا ناظر۔ آئن سٹائن نے بہرحال اس خیال کو الٹ پلٹ دیا۔ آئن سٹائن کے لئے سیج بذات خود زندگی کا ایک اہم حصّہ بن گئی تھی۔ آئن سٹائن کی کائنات میں مکان و زمان نیوٹن کے فرض کیے ہوئے ساکن کھیل کے میدان نہیں تھے۔ بلکہ یہ متحرک اور عجیب انداز میں خمیدہ اور مڑے ہوئے تھے۔ حیات کی سیج کو ایک ترپال کے جال سے بدل کر اس طرح فرض کر لیں، جیسے اداکار حلیمانہ طریقے سے اپنے وزن سے اس میں دھنس رہے ہیں۔ اس طرح کے کھیل کے میدان میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیج خود سے اتنا اہم ہو گیا ہے جتنا کہ اس کے اداکار۔

فرض کریں کہ ایک باؤلنگ بال کو بستر پر رکھا ہوا ہے جو آہستگی کے ساتھ گدے میں دھنس رہی ہے۔ آپ ایک کنچا گدے کی خمدار سطح کی جانب چھوڑیں۔ یہ باؤلنگ بال کے گرد ایک خمدار راستے میں محو سفر ہوگا۔ ایک نیوٹنی جو دور سے کنچے کا نظارہ کر رہا ہوگا وہ یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ باؤلنگ بال کوئی پراسرار قوّت کنچے پر لگا رہی ہے۔ ایک نیوٹنی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ باؤلنگ بال فی الفور کھنچاؤ پیدا کر رہی ہے جو کنچے کو مرکز کی جانب دھکیلنے کے لئے قوّت لگا رہی ہے۔

لہٰذا آئن سٹائن اس نتیجے پر پہنچا کہ قوّت ثقل ایک غیر مرئی چیز کے بجائے ایک ساخت ہے جو کائنات میں فی الفور عمل کرتی ہے ۔ اگر کوئی اس ساخت کو تیزی سے ہلائے گا تو موجیں پیدا ہوں گی جو سطح کے ساتھ ایک محدود رفتار سے سفر کریں گی۔ یہ امر سورج کے غائب ہونے کے تناقض کو حل کر دیتا ہے۔ اگر قوّت ثقل مکان و زمان کی ساخت کے خم ہونے کی ضمنی پیداوار ہے، تو سورج کے غائب ہونے کا مقابلے باؤلنگ بال کو اچانک بستر سے اٹھا کر کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی بستر واپس اچھل کر اپنی اصل جگہ جائے گا ویسے ہی موجیں بستر کی چادر پر محدود رفتار سے سفر کریں گی۔ لہٰذا مکان و زمان کے خم کو کم کرکے آئن سٹائن قوّت ثقل اور اضافیت میں موافقت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

فرض کریں کہ ایک چیونٹی ایک شکن دار کاغذ کے پنے کو چل کر پار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ ایک نشے میں دھت ملاح کی طرح چل رہی ہوگی، جب وہ شکن شدہ علاقے کو پار کرنے کی کوشش کر رہی ہوگی تو وہ سیدھی سے الٹی طرف بصورت معکوس جھول رہی ہوگی۔ چیونٹی احتجاج کرے گی کہ وہ نشے کی حالت میں نہیں ہے بلکہ کوئی پراسرار قوّت اس کو کبھی سیدھے سے الٹے تو کبھی الٹے سے سیدھی جانب کھینچ رہی ہے۔ چیونٹی کے لئے خالی جگہ پراسرار قوّتوں سے لبریز ہے جو اس کو سیدھے راستے پر چلنے نہیں دے رہی۔ قریب سے چیونٹی کو دیکھنے سے ہمیں معلوم ہوگا کہ کوئی بھی ایسی طاقت نہیں ہے جو اس کو کھینچ رہی ہو۔ اس کو شکن دار کاغذ کے پنے کی شکنوں سے پریشانی ہو رہی ہے۔ چیونٹی پر لگنے والی قوّت ایک ایسا سراب ہے جو مکان کے خم سے خود پیدا ہوا ہے۔ یہ "کھنچاؤ " کی قوّت اصل میں "دھکیل" کی قوّت ہے جو سی وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ کاغذ کی شکن پر چل رہی ہوتی ہے۔ با الفاظ دیگر قوّت ثقل اصل میں کھینچتی نہیں ہے بلکہ خلاء دھکیلتی ہے۔

١٩١٥ء میں آئن سٹائن نے بالآخر عمومی نظریئے اضافیت کو مکمل کرلیا جو تب سے لے کر اب تک اس عمارت کی بنیاد بنی ہوئی ہے جس پر تمام علم تکوین رکھا ہوا ہے۔ اس نئی حیران کن تصویر میں قوت ثقل کوئی ایسی خود مختار قوّت نہیں ہے جس نے کائنات کو لبریز کیا ہوا ہے بلکہ یہ تو مکان و زمان کی ساخت میں ہونے والے خم کا ایک ظاہری اثر ہے۔ اس کا نظریہ اس قدر طاقتور تھا کہ وہ اس کو صرف ایک آدھ انچ کی مساوات میں بیان کر سکتا تھا۔ اس شاندار نئے نظریئے میں مکان و زمان میں خم کی مقدار کو مادّے اور توانائی کی مقدار سے معلوم کیا جاتا ہے۔ ایک تالاب میں پتھر کو پھنکتے ہوئے تصوّر کریں، پتھر تالاب میں گرنے کے ساتھ ہی لہروں کا ایک سلسلہ پیدا کرے گا۔ جتنا بڑا پتھر ہوگا اتنا ہی وہ تالاب کی سطح میں خم پیدا کرے گا۔ بعینہ جتنا بڑا ستارہ ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ اپنے آس پاس کے مکان و زمان میں خلل ڈالے گا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دوسرا باب - 6

علم کائنات کی پیدائش






آئن سٹائن اس تصویر کا استعمال کرتے ہوئے بحیثیت مجموعی کائنات کو بیان کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس بات سے بے خبر کہ اس کو بنٹلے کے اس تناقض کا سامنا کرنا ہوگا جسے صدیوں پہلے پیش کیا گیا تھا۔ ١٩٢٠ء کی دہائی میں زیادہ تر ماہرین فلکیات اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کائنات یکساں اور ساکن ہے۔ لہٰذا آئن سٹائن نے شروع اس بات سے کیا کہ کائنات یکساں طور پر گرد و ستاروں سے بھری ہوئی ہے۔ ایک نمونے میں کائنات کو ایک بڑے غبارے یا بلبلے سے ملایا جا سکتا تھا۔ ہم غبارے کی سطح پر رہ رہے ہیں۔ ستارے اور کہکشائیں جو ہمارے ارد گرد ہیں ان کو غبارے کی سطح پر منقش نقطوں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔

اس کی توقعات کے برخلاف وہ جب بھی مساوات کو حل کرنے جاتا، تو اس کو کائنات متحرک نظر آتی۔ آئن سٹائن نے اسی مسئلہ کا سامنا کیا جس کو بنٹلے نے دو سو برس پہلے تشخیص کیا تھا۔ کیونکہ قوّت ثقل ہمیشہ سے کشش رکھتی ہے، اور کبھی دفع نہیں کرتی، ایک محدود ستاروں کے مجموعے کو منہدم ہوتے ہوئے ایک آگ کے گولے میں تبدیل ہونا چاہئے تھا۔ یہ بہرحال ابتدائی بیسویں صدی کی کائنات فہمی سے متصادم بات تھی جو کہتی تھی کہ کائنات یکساں اور ساکن ہے۔

آئن سٹائن جیسا انقلابی اس بات پر یقین نہیں کر سکتا تھا کہ کائنات حرکت میں ہو سکتی ہے۔ نیوٹن اور دوسرے سائنس دانوں کے جم غفیر کی طرح آئن سٹائن بھی ساکن کائنات پر یقین رکھتا تھا۔ لہٰذا ١٩١٧ء میں آئن سٹائن مجبور ہوا کہ اپنی اس مساوات میں ایک نئی اصطلاح کو شامل کرے۔ ایک "من گھڑت عامل" جو ایک نئی طاقت کو اس نظریئے میں پیدا کرتا ہے یعنی کہ ضد ثقل جو ستاروں کو ایک دوسرے سے دور کرتی ہے۔ آئن سٹائن نے اس کو "کونیاتی مستقل" کا نام دیا۔ یہ ایک ایسا بدصورت چوزہ تھا جو آئن سٹائن کے نظریئے کو پیش کرنے کے بعد کا خیال تھا۔ آئن سٹائن نے پھر اس ضد ثقل کو قوّت ثقل کو زائل کرنے کے لئے خود ہی سے شامل کرلیا جس کے نتیجے میں کائنات ساکن ہو گئی۔ با الفاظ دیگر کائنات ایک حکم کے ذریعہ ساکن بن گئی تھی۔ قوّت ثقل کی وجہ سے کائنات کا اندرونی طرف سمٹاؤ تاریک توانائی کے باہر طرف زور لگانے سے زائل ہو گیا تھا۔ (ستر برسوں تک، یہ ضد ثقل کی قوّت یتیم بنی رہی تاوقتیکہ پچھلے چند برسوں میں اس کو دریافت کیا گیا۔)

١٩١٧ء میں ولندیزی طبیعیات دان ویلم ڈی سٹر نے آئن سٹائن کے نظریئے کا ایک اور حل پیش کیا، جس میں کائنات لامحدود تو تھی لیکن مکمل طور پر مادّے سے خالی تھی۔ اصل میں وہ صرف توانائی پر مشتمل تھی (یعنی کہ کائناتی مستقل)جو خالی جگہ میں موجود تھا۔ یہ خالص ضد ثقل کی قوّت ہی اس قابل تھی کہ تیز اور برق رفتار کائنات کے پھیلاؤ کو جاری رکھے۔ بلکہ مادّے کے بغیر، یہ تاریک توانائی بھی پھیلتی ہوئی کائنات کو پیدا کر سکتی ہے۔

طبیعیات دان اب ایک مخمصے کا سامنا کر رہے تھے۔ آئن سٹائن کی کائنات میں مادّہ تو تھا لیکن حرکت نہیں تھی، ڈی سٹر کی کائنات میں حرکت تھی لیکن کوئی مادّہ نہیں تھا۔ آئن سٹائن کی کائنات میں کائناتی مستقل لازمی تھا تاکہ قوّت ثقل کی کشش کو زائل کرکے ایک ساکن کائنات کو بنا سکے۔ جبکہ دی سٹر کی کائنات میں صرف کائناتی مستقل ہی پھیلتی ہوئی کائنات کو بنانے کے لئے کافی تھا۔





١٩١٩ء میں سائنس دانوں کی دو جماعتیں آئن سٹائن کی روشنی سے متعلق پیشن گوئی کی تصدیق کرنے کے لئے نکلیں۔ اس پیش گوئی میں کہا گیا تھا کہ دور دراز ستاروں کی روشنی جب سورج کو پار کرے گی تو وہ خم کھا جائے گی۔ لہٰذا سورج کی موجودگی میں ستارے کا محل وقوع اس کے عام محل وقوع سے دور حرکت کرتا ہوا نظر آئے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج نے اپنے ارد گرد مکان و زمان میں خم پیدا کیا ہوگا۔ لہٰذا قوّت ثقل "کھینچتی" نہیں ہے بلکہ "دھکیلتی " ہے۔

بالآخر ١٩١٩ء میں جب یورپ جنگ عظیم اوّل کی خونریزی اور بربادی کے ملبے سے نکلنے کی سعی کر رہا تھا، تو ماہرین فلکیات کی ٹیموں کو پوری دنیا میں بھیجا گیا تاکہ وہ آئن سٹائن کے پیش کردہ نئے نظریئے کی جانچ کر سکیں۔ آئن سٹائن پہلے ہی یہ کہہ چکا تھا کہ سورج کا پیدا کردہ مکان و زمان کا خم اتنا ہوگا کہ وہ اپنے ارد گرد سے گزرنے والی ستاروں کی روشنی کو موڑ سکے۔ ستاروں کی روشنی کو سورج کے گرد درست اور قابل حساب طریقے سے خم کھانا چاہئے تھا بعینہ جیسے شیشہ روشنی کو موڑ دیتا ہے۔ لیکن کیونکہ دن میں سورج کی چمک ستاروں کی روشنی کو چھپا لیتی ہے لہٰذا سائنس دانوں کو سورج گرہن کا انتظار کرنا ہوگا تاکہ وہ اس فیصلہ کن تجربے کو کر سکیں۔

ایک جماعت جس کی سربراہی فلکی طبیعیات دان آرتھر ایڈنگٹن کر رہے تھے اس کو خلیج گنی میں واقع جزیرہ پرنسیپی بھیجا گیا جو مشرقی افریقہ کے ساحل کے ساتھ ہے تاکہ وہ سورج کے گرد سے آتی ہوئی ستاروں کی روشنی کے خم کو اگلے سورج گرہن کے دوران ناپ سکیں۔ ایک اور ٹیم جس کی سربراہی اینڈریو کروملن کر رہے تھے وہ شمالی برازیل میں واقع سوبرال کی جانب روانہ ہو گئے تھے۔ جو اعداد و شمار انہوں نے حاصل کیے اس کے مطابق ستاروں کی روشنی کا اوسط انحراف 1.74 آرک سیکنڈ تھا جو آئن سٹائن کی 1.74 آرک سیکنڈ کی پیش گوئی (تجرباتی غلطی) کے اندر تھا۔

بالفاظ دیگر روشنی سورج کے قریب خم کھا رہی تھی۔ ایڈنگٹن نے بعد میں اس بات کا دعویٰ کیا کہ آئن سٹائن کے نظریئے کی تصدیق کرنا اس کی زندگی کا سب سے یادگار لمحہ تھا۔

٦ نومبر ١٩١٩ء کورائل سوسائٹی اور رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی ان لندن کے ایک مشترکہ اجلاس میں نوبیل انعام یافتہ اور رائل سوسائٹی کے صدر جے جے تھامسن نے باضابطہ طور پر کہا کہ " یہ انسانی شعور ی تاریخ میں ایک عظیم کامیابی ہے۔ یہ دریافت کسی دورافتادہ جزیرے کی نہیں بلکہ نئے سائنسی خیالات کے پورے براعظم کی دریافت ہے۔ جب سے نیوٹن نے اپنے قواعد کا اعلان کیا تھا اس وقت سے لے کر اب تک کی یہ تجاذب سے متعلق عظیم دریافت ہے۔"

(ایک قصّے کے مطابق، بعد میں ایک صحافی نے ایڈنگٹن کے پوچھا، "ایک خبر گردش کر رہی ہے کہ پوری دنیا میں صرف تین لوگ ہی آئن سٹائن کے نظریئے کو سمجھتے ہیں۔ یقینی طور پر آپ ان میں سے ایک ہوں گے۔" ایڈنگٹن خاموش رہا، لہٰذا صحافی نے کہا، "ایڈنگٹن اتنی منکسرالمزاجی مت دکھائیں۔" ایڈنگٹن نے کندھے اچکائے اور کہا،" بالکل بھی نہیں میں تو صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ تیسرا کون ہے۔")

اگلے دن، لندن ٹائمز نے شہ سرخی لگائی، " سائنس میں انقلاب - کائنات کا نیا نظریہ - نیوٹن کا نظریہ پھینک دیا گیا۔" اس وقت جب آئن سٹائن دنیا کی ایک نامی گرامی شخصیت بن گیا تھا اس وقت اخبار کی شہ سرخی تھی، "ستاروں کا پیام بر۔" یہ اعلان نا صرف اہم تھا بلکہ اس میں آئن سٹائن نے بنیادی طور پر نیوٹن سے انحراف کیا تھا جس کی وجہ سے اس نے نمایاں رد عمل پیدا کیا۔ کئی ممتاز ماہرین طبیعیات اور ماہرین فلکیات نے اس نظریئے کی اعلانیہ مخالفت کی۔ کولمبیا یونیورسٹی کے چارلس لین پوور، جو سماوی میکانیات کے پروفیسر تھے وہ اضافیت پر تنقید کرنے میں پیش پیش تھے انہوں نے کہا" مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسا کہ میں کسی طلسماتی دنیا میں گھوم رہا ہوں اور کسی جادوگر کے ساتھ چائے پی رہا ہوں۔"

ہمارے فہم و ادراک میں اضافیت کا آنا اس کے غلط ہونے کی وجہ نہیں ہے، اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہماری فہم عامہ حقیقت کی نمائندہ نہیں ہے۔ ہم کائنات میں منفرد ہیں۔ ہم ایک غیر معمولی قطعہ زمین کے باسی ہیں جہاں حرارت، کثافت اور سمتی رفتار بہت ہی مناسب ہیں۔ بہرحال "اصل کائنات" میں درجہ حرارت ستاروں کے قلب میں جھلسا دینے والا ہوتا ہے یا پھر خلائے بسیط میں سن کر دینے والی سردی ہوتی ہے۔ اور ذیلی جوہری ذرّات تمام خلاء میں روشنی کر رفتار سے محو سفر رہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ہماری عقل سلیم ایک ایسے ماحول میں پلی ہے جو کائنات میں انتہائی غیر معمولی اور مخفی جگہ یعنی کہ زمین پر موجود ہے۔ لہٰذا اس بات میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ہماری عقل سلیم سچی کائنات کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ مسئلہ اضافیت میں نہیں بلکہ اپنے فہم کو حقیقت سمجھنے میں ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دوسرا باب - 7

کائنات کا مستقبل







ہرچند کہ آئن سٹائن کے نظریئے نے کامیابی کے ساتھ فلکیاتی مظاہر جیسا کہ سورج کے گرد ستاروں کی روشنی میں خم اور سیارہ عطارد کے مدار میں ہلکی سی ڈگمگاہٹ کو بیان کیا ہے، لیکن اس کے کائناتی اندازے اب بھی انوکھے ہیں۔ مادّے کو کافی وضاحت کے ساتھ روسی طبیعیات دان الیگزینڈر فرائیڈ مین نے بیان کیا۔ اس نے آئن سٹائن کی مساوات کا عمومی اور حقیقی حل تلاش کیا۔ آج بھی اس کی کھوج کو تمام سند عطا کرنے والے اضافیت کے کورس میں پڑھایا جاتا ہے۔( اس نے اس حل کو ١٩٢٢ء میں حاصل کیا لیکن اس کا انتقال ١٩٢٥ء میں ہوا اور اس کا کام بحیثیت مجموعی بعد کے کئی برسوں تک بھلا دیا گیا۔)

آئن سٹائن کا نظریئے مشتمل ہی غیر معمولی اور مشکل مساوات کے سلسلے پر ہے جس کو حل کرنے کے لئے اکثر کمپیوٹر درکار ہوتا ہے۔ بہرحال فرائیڈمین نے فرض کیا کہ کائنات متحرک ہے اور اس کے بعد دو سادہ سے مفروضے لئے ( جو کائناتی اصول کہلائے): یعنی کہ کائنات تمام اطراف میں یکساں ہے ( یہ ہمیشہ سے ایک جیسی ہی لگے گا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آپ کہاں سے اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں )، اور کائنات ہم مشابہ ہے ( یہ ایک جیسی ہی ہے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم کہاں پر موجود ہیں )۔

ان دو سادے مفروضوں کی رو سے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مساواتیں منہدم ہو جاتی ہیں۔( اصل میں آئن سٹائن اور ڈی سٹر دونوں کے حل، فرائیڈ مین کے عمومی حل کی مخصوص حالت ہیں۔) غیر معمولی طور پر اس کا حل تین مقدار معلوم پر انحصار کرتا ہے:

١۔ H، جو کائناتی پھیلاؤ کی شرح کا تعین کرتا ہے۔ (آج ہم اس کو ہبل کا مستقل کہتے ہیں، اس کا نام ہبل کی عظیم خدمات کے صلے میں رکھا گیا ہے۔ ہبل نے سب سے پہلے کائناتی پھیلاؤ کو ناپا تھا۔)
٢۔ اومیگا، جو کائنات میں مادّے کی اوسط مقدار کو ناپتا ہے۔
٣۔ لمبڈا، وہ توانائی جو خالی خلاء سے نسبت رکھتی ہے یا تاریک توانائی۔

کئی عالم تکوینیات اپنی پوری پیشہ وارانہ زندگی صرف اس مقصد کے حصول میں گزار دیتے ہیں کہ کسی طرح سے ان تینوں اعداد کی صحت اور درستگی کے ساتھ مقدار کا تعین کر سکیں۔ ان تینوں مستقلات کے درمیان ہلکا سا تفاوت ہی پوری کائنات کے مستقبل کے ارتقا کا تعین کرے گا۔ مثال کے طور پر کیونکہ قوّت ثقل کشش رکھتی ہے، لہٰذا کائنات کی کثافت یعنی اومیگا ایک طرح سے رکاوٹ کا کام دے گی۔ تاکہ بگ بینگ کے پھیلاؤ کی شرح کو الٹا کرکے کائنات کے پھیلاؤ کو آہستہ کر دے۔ ذرا ایک پتھر کو فضا میں پھینکنے کا تصوّر کریں۔ عام طور پر قوّت ثقل اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ پتھر کی سمت کو بدل دیتی ہے جو واپس زمین کی طرف ہی گرتا ہے۔ بہرحال اگر کوئی پتھر کو کافی تیز پھینکے تو وہ زمین کی قوّت ثقل سے مفر ہو سکتا ہے۔ اور خلاء میں ہمیشہ کے لئے بلند ہو سکتا ہے۔ پتھر کی طرح، کائنات شروع میں بگ بینگ کی وجہ سے پھیلی، لیکن مادّہ یا اومیگا کائنات کے پھیلاؤ میں ایک رکاوٹ کے طور پر کام کر سکتا ہے بعینہ ایسی جیسے کہ زمین کی ثقلی قوّت پتھر کے لئے رکاوٹ کا کام کرتی ہے۔

ایک لمحے کے لئے فرض کریں کہ لمبڈا یعنی کہ خالی خلاء سے نسبت رکھنے والی توانائی صفر ہے۔ تو کائنات کی کثافت کو اومیگا مان لیتے ہیں جس کو مبصرانہ کثافت سے تقسیم کرتے ہیں۔(کائنات کی مبصرانہ کثافت لگ بھگ ہائیڈروجن کے ١٠ جوہر فی مکعب میٹر ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ کائنات کس قدر خالی ہے یوں سمجھ لیں کہ کائنات کی مبصرانہ کثافت ایسی ہے جیسا کہ ایک ہائیڈروجن کے ایٹم کو تین باسکٹ بال کے حجم میں اوسطاً تلاش کیا جائے۔)

اگر اومیگا ایک سے کم ہوگا، تو سائنس دان نتیجہ اخذ کریں گے کہ کائنات میں مادّہ اتنا نہیں ہے کہ بگ بینگ سے شروع ہونے والے پھیلاؤ کو الٹا سکے۔(مثال کے طور پر پتھر کو ہوا میں پھینکیں اور اگر زمین کی کمیت زیادہ نہیں ہوگی تو پتھر بالآخر زمین پر واپس نہیں لوٹے گا۔) اس نتیجے میں کائنات ہمیشہ پھیلتی رہے گی جس کے نتیجے میں بالآخر اس وقت عظیم انجماد رونما ہوگا جب درجہ حرارت مطلق صفر تک گر جائے گا۔(یہی اصول ریفریجریٹر اور ایئر کنڈیشنر کے پیچھے کارفرما ہے۔ جب گیس پھیلتی ہے، تو یہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے ایئر کنڈیشنر میں پائپ میں دوڑنے والی گیس پھیلتی ہے جس کے نتیجے میں پائپ اور کمرے کو ٹھنڈا کرتی ہے۔)

اگر اومیگا ایک سے بڑا ہوگا، تو کائنات میں اتنا مادّہ اور قوّت ثقل موجود ہوگی کہ کائناتی پھیلاؤ کے عمل کو الٹا دے۔ نتیجتاً کائنات کا پھیلاؤ روک جائے گا اور کائنات سکڑنا شروع ہو جائے گی۔ (جیسا کہ پتھر کو ہوا میں پھینکا تھا تو اگر زمین کی کمیت زیادہ ہوگی تو پتھر زیادہ سے زیادہ اونچائی پر جا کر واپس زمین کی جانب ہی لوٹ آئے گا۔ درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو جائے گا کیونکہ ستارے اور کہکشائیں ایک دوسرے کی جانب دوڑ لگا دیں گے۔( آپ میں سے جس نے بھی سائیکل کے پہیے میں ہوا بھری ہوگی تو وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہوگا کہ گیس کو دبانے سے حرارت پیدا ہوتی ہے، بعینہ اسی طرح کائنات کا سکڑاؤ ثقلی توانائی کو حرارتی توانائی میں بدل دے گا۔) بالآخر درجہ حرارت اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ تمام حیات معدوم ہو جائے گی کیونکہ کائنات ایک قیامت خیز " عظیم چرمراہٹ" کی جانب محو سفر ہوگی۔ (ماہر فلکیات کین کروسویل اس عمل کو تخلیق سے احتراق کہتے ہیں۔)



کائنات کے ارتقا کے تین ممکنہ حل ہیں۔ اگر اومیگا ایک سے کم ہوگا (اور لمبڈا صفر ہو )، تو کائنات ہمیشہ پھیلتی رہے گی یہاں تک کہ عظیم انجماد وقوع پذیر ہو جائے گا۔ اگر اومیگا ایک سے بڑا ہوگا تو کائنات واپس ایک بڑے چرمراہٹ میں منہدم ہو جائے گی۔ اگر اومیگا ایک کے برابر ہوگا تب کائنات چپٹی ہوگی اور ہمیشہ پھیلتی رہے گی۔ (ڈبلیو میپ سیارچے سے حاصل کردہ مواد بتاتا ہے کہ اومیگا اور لمبڈا ملا کر ایک کے برابر ہیں، یعنی کہ کائنات چپٹی ہے۔ یہ بات افراط پذیر کائنات کے نظریئے سے مطابقت رکھتی ہے۔)





اگر اومیگا ایک سے کم ہوگا (اور لمبڈا صفر ہوگا)، تب کائنات کھلی ہوئی ہوگی اور اس کا خم منفی ہوگا جیسا کہ زین کی صورت میں ہوتا ہے۔ متوازی خط کبھی بھی نہیں ملیں گے اور تکون کے زاویوں کا مجموعہ ہمیشہ ١٨٠ درجے سے کم ہوگا۔

ایک تیسرا ممکنہ حل یہ ہے کہ اومیگا کی قدر بالکل صحیح ایک کے ہو، بالفاظ دیگر کائنات کی کثافت مبصرانہ کثافت کے برابر ہو، اس صورت میں کائنات دو انتہاؤں کے درمیان لٹکتی رہے گی لیکن ساتھ ساتھ ازل تک پھیلتی بھی رہے گی۔ ( یہ صورت حال افراط پذیر کائناتی تصویر میں فٹ بیٹھتی ہے۔)

آخر میں یہ بھی ممکن ہے کہ کائنات، عظیم چرمراہٹ کے بعد، دوبارہ سے ایک نئے بگ بینگ کی صورت میں نمودار ہو سکتی ہے۔ اس نظریئے کو جھولتی کائنات کا نظریہ کہتے ہیں۔

فرائیڈمین نے یہ بھی ثابت کیا کہ ان تمام صورتوں میں مکان و زمان کے خم کا تعین بھی ہوگا۔ اگر اومیگا ایک سے کم ہے اور کائنات ہمیشہ پھیلتی رہے گی تو نا صرف وقت لامحدود ہوگا بلکہ خلاء بھی لامتناہی ہوگی۔ ایسی کائنات کو ہم کھلی ہوئی کائنات کہیں گے۔ یعنی کہ وہ مکان وزمان میں لامحدود ہے۔ جب فرائیڈ میں نے کائنات کے خم کا حساب لگایا تو اسے یہ منفی ملا۔ ( جیسا کہ کسی گدی یا زین جیسا ہوتا ہے۔ اگر کوئی کیڑا اس کی سطح پر رہتا ہو، تو اس کو دو متوازی لکیریں کبھی بھی ملتی ہوئی نظر نہیں آئیں گی۔ اور تکون کے اندر کے زاویوں کو جب جمع کیا جائے گا تو وہ ہمیشہ ١٨٠ درجے سے کم ہوگا۔) اگر اومیگا ایک سے زیادہ ہوگا تو کائنات بالآخر سکڑ کر عظیم چرمراہٹ میں ختم ہو جائے گی۔ مکان و زمان محدود ہوگا۔ فرائیڈ مین کو کائنات کا خم مثبت ملا (جیسا کہ کرہ کا ہوتا ہے )۔ بالآخر اگر اومیگا ایک کے برابر ہوگا تو خلاء سپاٹ ہوگی اور مکان و زمان دونوں غیر مجلد ہوں گے۔



اگر اومیگا ایک سے زیادہ ہوگا، تو کائنات بند ہوگی اور اس کا خم مثبت ہوگا، جیسا کہ کرہ میں ہوتا ہے۔ متوازی خط ہمیشہ ملیں گے اور تکون کے زاویوں کا مجموعہ ہمیشہ ١٨٠ درجوں سے زیادہ ہوگا۔

فرائیڈ مین نے نہ صرف پہلی مرتبہ آئن سٹائن کی کائناتی مساوات تک جامع رسائی دی بلکہ اس نے روز قیامت کی بھی حقیقی صورت پیش کی۔ یعنی کہ کائنات کا حتمی مقدر کیا ہوگا آیا کہ یہ عظیم انجماد میں ختم ہوگی یا پھر ایک عظیم چرمراہٹ میں بھن جائے گی یا پھر یہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان جھولتی رہے گی۔ اس کا جواب انتہائی اہم مقدار معلوم میں پنہاں ہے۔ یعنی کہ کائنات کی کثافت اور خلاء کی توانائی میں۔

لیکن فرائیڈ مین کی تصویر میں ایک بڑا شگاف تھا۔ اگر کائنات پھیل رہی تھی، تو اس کا مطلب تھا کہ اس کی شروعات بھی تھی۔ آئن سٹائن کا نظریہ کائنات کی ابتدا کے بارے میں خاموش تھا۔ جو چیز اس میں سے غائب تھی وہ تخلیق کا لمحہ یعنی کہ بگ بینگ تھا۔ اور آخر کار تین سائنس دانوں نے ہمیں بگ بینگ کی ناقابل رد تصویر پیش کردی۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 1

بگ بینگ (عظیم دھماکہ )


کائنات صرف اتنی عجیب نہیں ہے جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں ، یہ تو ہماری سوچ سے بھی زیادہ عجیب ہے ۔

جے بی ایس ہیلڈین

ہم انسان تخلیق کی کہانی میں ایک ایسے دنیا کے تجرباتی راستے کے متلاشی ہیں جو بیک وقت ہمارے لئے ماورائے ادراک جہاں کھولے اور ہمیں اس کے اندر جگہ دے۔ یہی لوگ چاہتے ہیں ۔ یہی چیز روحیں ہم سے مانگ رہی ہیں۔

جوزف کمپبل


٦ مارچ ١٩٩٥ء میں ٹائمز میگزین کے سرورق پر عظیم مرغولہ نما کہکشاں ایم ١٠٠ کی تصویر چھپی تھی ، اور سرخی تھی " کائنات افراتفری میں۔" علم فلکیات ایک طوفان میں گھرا نظر آیا کیونکہ ہبل خلائی دوربین سے حاصل کردہ تازہ اعداد و شمار اس بات کا عندیہ دے رہے تھے کہ کائنات اپنے پرانے ترین ستارے سے بھی نوعمر ہے ۔ یہ ایک ایسی بات تھی جو سائنسی بنیاد پر ناممکن تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق کائنات کی عمر آٹھ ارب سے لے کر بارہ ارب سال کے درمیان تھی۔ جبکہ کچھ لوگوں کے خیال میں کائنات میں موجود سب سے عمر رسیدہ ستارے کی حیات بھی چودہ ارب سال کی ہے۔ "آپ اپنی والدہ سے بڑے نہیں ہو سکتے،" یونیورسٹی آف ایریزونا کے کرسٹوفر امپی مزاقاً کہتے ہیں۔


لیکن جب آپ صحیح طریقے سے نظر ڈالتے ہیں تو آپ کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ بگ بینگ کا نظریئے کافی صحت مندانہ ہے۔ بگ بینگ کے نظریئے کو رد کرنے کے لئے اکلوتی کہکشاں ایم ١٠٠ کو بنیاد بنا گیا تھا جو سائنس کی دنیا میں متشکک طریقہ فکر ہے۔ مضمون میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ سقم اتنے زیادہ ہیں کہ " اس میں سے انٹرپرائز نجمی خلائی جہاز بھی آسانی سے گزر سکتا ہے۔" ہبل خلائی دوربین سے حاصل کردہ اعداد و شمار پر انحصار کرتے ہوئے کائنات کی عمر ١٠ سے ٢٠ فیصد سے زیادہ درستگی سے نہیں ناپی جا سکتی۔


میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ بگ بینگ کا نظریہ اندازوں پر قائم نہیں ہے بلکہ اس کی اساس وہ سینکڑوں نقاط ہیں جو مختلف ذرائع سے حاصل کئے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک مربوط نظریئے کی جانب مائل ہوتا نظر آتا ہے ۔

(سائنس کے جہاں میں تمام نظریات ایک جیسی بنیادیں نہیں رکھتے۔ ہر کوئی اس بات میں آزاد ہے کہ تخلیق کے متعلق اپنا نقطۂ نظر پیش کرے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو ان سینکڑوں نقاط کی مدد سے بیان کیا جا سکے جو ہم نے جمع کیے ہیں اور جو بگ بینگ کے نظریئے سے باہم مربوط ہیں۔)

بگ بینگ نظریئے کے تین عظیم "ثبوت" ان عظیم سائنس دانوں کے کام پر انحصار کرتے ہیں جنہوں نے اپنے متعلقہ میدان کار میں سکہ جمایا ہوا تھا۔ ایڈون ہبل، جارج گیمو اور فریڈ ہوئیل ۔


ایڈون ہبل عالی نسب فلکیات دان


ہرچند علم کائنات کی بنیادیں آئن سٹائن نے رکھ دی تھیں ۔ لیکن جدید کائناتی مشاہدہ صرف تن تنہا ایڈون ہبل نے کیا تھا ، جو غالباً بیسویں صدی کا سب سے اہم فلکیات دان تھا۔

١٨٨٩ء میں مرشفیلڈ ، مسوری کے دور افتادہ علاقے میں پیدا ہوا ۔ ہبل ایک شرمیلا دیہاتی لڑکا تھا جس کے ارادے چٹانوں جیسے مضبوط تھے۔ اس کا باپ ایک وکیل اور انشورنس ایجنٹ تھا اور اس کی دیرینہ خواہش تھی کہ ہبل قانون میں اپنا مستقبل بنائے۔ ہبل بہرحال جولیس ورن کی کتابوں اور ستاروں کے سحر میں گم تھا۔ اس کو سائنسی قصص جیسا کہ " ٹوئنٹی تھاوزنڈ لیگ انڈر دا سی " اور " فرام د ا ارتھ ٹو دا مون" پسند تھے۔ وہ ایک باکسر بھی تھا، اس کے موید چاہتے تھے کہ وہ باکسنگ کو بطور پیشہ اختیار کر لے تاکہ دنیا میں ہونے والے ہیوی ویٹ باکسنگ کے مقابلوں میں حصّہ لے سکے ۔


اس نے آکسفورڈ میں قانون پڑھنے کے لئے رہوڈ ز کا با وقار وظیفہ حاصل کیا جہاں اس نے برطانیہ کی اشرفیہ کے رسم و رواج کو سیکھنا شروع کیا۔ (اس نے سوٹ پہننا ، پائپ پینا ، برطانیہ کا ممتاز لہجہ اختیار کرنا اور لڑائی کے زخموں کے بارے میں بولنا شروع کر دیا تھا ۔)


ہبل بہرحال خوش نہیں تھا۔ اس کو وکیلوں کی کالی ٹائی اور سوٹ پہننا اچھا نہیں لگتا تھا ، اس کی محبت تو ستارے تھے یہ محبت تو اس کے لڑکپن سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ اس نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا تعلیمی مستقبل بدل لیا اور یونیورسٹی آف شکاگو اور ماؤنٹ ولسن کی رصدگاہ کی جانب رخت سفر باندھ لیا جہاں زمین پر اس وقت کی سب سے بڑی دوربین جس کے آئینے کا قطر ١٠٠ انچ کا تھا نصب تھی۔ اس میدان میں اس کی آمد کافی دیر سے تھی لہٰذا وہ کافی جلدی میں تھا۔ وقت کے زیاں کو پورا کرنے کے لئے اس نے نہایت برق رفتاری سے کچھ سب سے گہرے اور فلکیات کی دنیا میں لمبے عرصے سے چلنے والے اسراروں کا جواب دینا شروع کیا۔


١٩٢٠ء کے عشرے میں کائنات ایک نہایت آرام دہ جگہ سمجھی جاتی تھی ؛ سب کا یہ ماننا تھا کہ پوری کائنات صرف ملکی وے کہکشاں پر ہی مشتمل ہے۔ دھند کی وہ لکیر جو پورے آسمان پر ایسے پھیلی ہوئی ہے جیسے کسی نے آسمان پر دودھ بکھیر دیا ہو۔( لفظ "کہکشاں" اصل میں یونانی لفظ دودھ سے نکلا ہے ۔) ١٩٢٠ء میں ایک عظیم بحث ہارورڈ کے ہارلو شیپلی اور لک رصدگاہ کے ہیبر کرٹس کے درمیان ہوئی۔ اس کا عنوان تھا " کائنات کا درجہ" جو ملکی وے کہکشاں اور کائنات کے حجم سے متعلق تھا۔ شیپلی کا کہنا تھا کہ تمام قابل مشاہدہ کائنات ملکی وے کہکشاں پر مشتمل ہے۔ کرٹس کا ماننا تھا کہ ملکی وے سے پرے "مرغولہ نما سحابیہ " موجود ہے جو بہت ہی عجیب لیکن پھولا ہوا دھند کا بھنور ہے ۔( ١٧٠٠ء کی دہائی میں فلسفی ایمانو یل کانٹ نے اندازہ لگایا تھا کہ یہ سحابیہ "جزیرہ نما کائنات " ہیں ۔)


ہبل اس بحث سے کافی حیرت زدہ تھا۔ اہم مسئلہ ستاروں کے فاصلوں کا تعین کرنا تھا (یہ مسئلہ اب بھی اپنی جگہ موجود ہے) فلکیات میں یہ کام سب سے جان لیوا ہوتا ہے۔ ایک روشن ستارہ جو کافی فاصلہ پر واقع ہو وہ ایک مدھم ستارے جیسا ہی نظر آتا ہے اگر مدھم ستارہ ہم سے قریب ہو ۔ یہ پریشانی ہی فلکیات کی دنیا میں کافی تنازعات اور دیرینہ دشمنیوں کا سبب بنی ہے ۔


ہبل کو ایک "معیاری شمع" کی ضرورت تھی ۔ ایک ایسا جسم جو کائنات میں کہیں بھی ایک جیسی روشنی کی مقدار خارج کرے تاکہ اس مسئلہ سے جان چھوٹ سکے۔ (علم فلکیات میں آج بھی زیادہ تر حصّہ اس بات کی کوشش میں لگتا ہے کہ کوئی ایسی چیز مل جائے یاایسی کسی معیاری شمع کی پیمانہ بندی کی جا سکے۔ فلکیات کی دنیا میں زیادہ تر ہونے والے مباحثے اس بات کے ارد گرد ہی گھومتے نظر آتے ہیں کہ یہ معیاری شمعیں کس قدر قابل بھروسہ ہیں۔) اگر ہمارے پاس معیاری شمع موجود ہو جو کائنات میں ہر جگہ ایک جیسا ہی طرح سے جل سکے تو ستارے جو عام ستاروں سے چار گنا زیادہ مدھم ہوتے ہیں وہ زمین سے دوگنا زیادہ فاصلے پر موجود ہوں گے ۔


ایک رات وہ اینڈرومیڈا سحابیہ کی تصویر کا تجزیہ کر رہا تھا ، اس لمحہ کی ہبل کے لئے وہی اہمیت تھی جب ارشمیدس یوریکا کہہ کر بھاگا تھا ۔ اس نے اینڈرومیڈا کے اندر ایک متغیر ستارے کی قسم کو تلاش کرلیا ( جن کو قیقاؤسی متغیر کہتے ہیں )۔ ان کا پہلا مطالعہ ہنریٹا لیوٹ نے کیا تھا۔ یہ معلوم تھا کہ یہ ستارے برابر روشن ہوتے اور وقت کے ساتھ مدھم ہوتے رہتے ہیں اور ایک پورے مکمل چکر کا وقت اس کی تابانی کے ساتھ مربوط ہوتا ہے ۔ جتنا زیادہ ستارہ روشن ہوگا اتنا ہی زیادہ لمبا اس کے مرتعش ہونے کا ہوگا۔ لہٰذا سادے طور پر اگر ہم اس چکر کے دورانیہ کو ناپ لیں تو کوئی بھی اس کی تابانی کی پیمانہ بندی کر سکتا ہے اور اس طرح سے فاصلہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ہبل نے یہ بات معلوم کر لی کہ اس کا دورانیہ 31.4 دن کا ہوتا ہے ۔ اس بات کا مطلب یہ تھا کہ ان کا فاصلہ ملکی وے سے بھی باہر دسیوں لاکھ برس دور تھا جو ہبل کی امید کے برخلاف تھا۔ (ملکی وے کہکشاں کی تاباں قرص صرف ایک لاکھ نوری برس پر پھیلی ہوئی ہے ۔ بعد کے حسابات نے اس بات کو ثابت کیا کہ ہبل نے اینڈرومیڈا تک کے فاصلے کو ہیچ سمجھا ، اصل میں اینڈرومیڈا کا فاصلہ بیس لاکھ نوری برس کے آس پاس تھا۔)


جب اس نے یہی تجربہ دوسری مرغولہ نما سحابیوں پر کیا تو اس کو وہ بھی ملکی وے سے باہر دور بہت دور نظر آئے۔ بالفاظ دیگر یہ بات واضح تھی کہ یہ مرغولہ نما سحابیہ اپنی ذات میں خود جزیرہ نما کائنات تھے اور ملکی وے گنبد افلاک کی کہکشاؤں میں سے صرف ایک کہکشاں تھی۔


ایک ہی ہلے میں کائنات کا حجم بہت ہی زیادہ بڑا ہو گیا تھا ۔ ایک کہکشاں سے اچانک ہی کائنات کروڑوں کہکشاؤں پر یا شاید ارب ہا کہکشاؤں پر مشتمل ہو گئی تھی۔ صرف ایک لاکھ نوری برس سے کائنات شاید ارب ہا نوری برس تک پھیل گئی تھی۔


یہ دریافت ہی اس بات کی گارنٹی دے رہی تھی کہ ہبل نے فلکیات دانوں کی نامور جماعت میں جگہ بنا لی تھی ۔ لیکن اس نے تو اس سے بھی بڑھ کر دریافت کر لی تھی۔ نہ صرف اس نے کہکشاؤں کا فاصلہ معلوم کیا تھا بلکہ اس نے یہ حساب بھی لگا لیا تھا کہ وہ کس رفتار سے حرکت کر رہی ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 2
تغیر آواز کا اثر اور پھیلتی ہوئی کائنات

ہبل جانتا تھا کہ کسی بھی دور دراز جسم کی رفتار کو معلوم کرنے کا ایک سادہ طریقہ یہ ہے کہ اس جسم سے نکلتی آواز یا خارج ہوتی ہوئی روشنی کا تجزیہ کیا جائے۔ اس کو تغیر آواز کا اثر یا ڈوپلر کا اثر کہا جاتا ہے۔ سڑک پر ہمارے سامنے سے گزرتی گاڑیاں اس اثر کو پیدا کرتی ہیں۔ پولیس اس اثر کو گاڑیوں کی رفتار کو ناپنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ وہ ایک لیزر کی شعاع گاڑی پر مارتے ہیں جو ان کی گاڑی تک معکوس ہوتی ہے ۔ لیزر کی روشنی کے تعدد ارتعاش میں ہونے والی تبدیلی کو ناپتے ہوئے وہ ہماری سمتی رفتار کو معلوم کر لیتے ہیں ۔

مثال کے طور پر اگر ایک ستارہ ہماری طرف چلا آ رہا ہے تو روشنی کی موجوں کو وہ خارج کر رہا ہوگا وہ دستی آرگن کی طرح نچڑی ہوئی ہوں گی۔ نتیجتاً اس کا طول موج چھوٹا ہوگا ۔ ایک پیلا ستارہ ہلکا سا نیلا نظر آئے گا ( کیونکہ نیلے رنگ کی طول موج پیلے رنگ سے چھوٹی ہوتی ہے)۔ اسی طرح سے اگر کوئی ستارہ ہم سے دور جا رہا ہوگا تو اس کی روشنی کی موجیں کھنچی ہوئی ہوں گی جس کے نتیجے میں اس کا طول موج لمبا ہوگا اس طرح سے ایک پیلا ستارہ ہلکا سا لال نظر آئے گا۔ بگاڑ جس قدر زیادہ ہوگا اسی قدر زیادہ ستارے کی سمتی رفتار ہوگی ۔ لہٰذا اگر ہمیں ستارے کی روشنی کے تعدد ارتعاش کی تبدیلی کے بارے میں معلوم ہو تو ہم ستارے کی رفتار کو معلوم کر سکتے ہیں۔


١٩١٢ء میں فلکیات دان وسٹو سلیفر نے یہ بات معلوم کر لی تھی کہ کہکشائیں زمین سے زبردست سمتی رفتار سے دور ہو رہی تھیں۔ نا صرف کائنات ہماری پرانی سوچ سے کہیں زیادہ بڑی تھی بلکہ یہ زبردست رفتار سے پھیل بھی رہی تھی۔ چند ایک استثناء کو چھوڑ کر اس کو زیادہ تر کہکشائیں نیلی تبدیلی کے بجائے سرخ تبدیلی کا اخراج کرتی ہوئی نظر آئیں ۔ اس کی وجہ حرکت کرتی ہوئی کہکشاؤں کی ہم سے دوری تھی۔ سلیفر کی دریافت نے اس بات کو ثابت کیا تھا کہ کائنات اصل میں نیوٹن اور آئن سٹائن کی سوچ کے برخلاف ساکن کے بجائے متحرک ہے۔


پچھلے دور میں جن سائنس دان جنہوں نے بنٹلے اور البرز کے تناقض کا مطالعہ کیا ان میں سے کسی نے بھی سنجیدگی سے کائنات کے پھیلنے کا نہیں سوچا۔ ١٩٢٨ء میں ہبل نے ویلم ڈی سٹر سے ملنے کا ہالینڈ کا ثمر آور دورہ کیا ۔ ہبل کو ڈی سٹر کے اس تصور نے بہت زیادہ حیرت میں ڈال رکھا تھا کہ کہکشاں جتنی زیادہ ہم سے دور ہو گئی اتنا ہی زیادہ تیزی سے وہ حرکت کرے گی ۔ ذرا ایک ایسے غبارے کا تصور کریں جس کی سطح پر کہکشائیں موجود ہیں ۔ جیسے ہی غبارہ پھولے گا ،وہ کہکشائیں جو ایک دوسرے سے قریب ہوں گی وہ ایک دوسرے سے نسبتاً آہستہ دور ہوں گی ۔یعنی کہکشائیں جتنا ایک دوسرے سے قریب ہوں گی اتنا ہی آہستہ دور ہوں گی ۔ لیکن جو کہکشائیں غبارے کی سطح پر ایک دوسرے سے خاصی دور ہوں گی وہ زیادہ تیزی سے اور دور ہوں گی۔


ڈی سٹر نے ہبل سے درخواست کی کہ وہ اس اثر کو اپنے اعداد و شمار میں تلاش کرے۔ اس چیز کو کہکشاؤں کی سرخ منتقلی کا جائزہ لے کر معلوم کیا جا سکتا ہے۔ جتنا زیادہ کہکشاؤں کی سرخ منتقلی ہو گئی ، اتنا ہی تیزی سے وہ دور ہو رہی ہوں گی لہٰذا وہ ہم سے اتنا ہی دور ہوں گی ۔( آئن سٹائن کے نظرئیے کے مطابق ، تیکنیکی طور پر کہا جائے تو کہکشاؤں کی سرخ منتقلی اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ زمین سے تیزی سے دور جا رہی ہیں بلکہ اس کی وجہ کہکشاؤں کے درمیان مکان کا بذات خود پھیلاؤ ہے۔ سرخ منتقلی کا اصل ماخذ یہ ہے کہ دور دراز کہکشاں سے آتی ہوئی روشنی پھیلتے ہوئے خلاء کی وجہ سے کھنچی ہوئی یا لمبوتری ہوتی ہے لہٰذا وہ سرخی مائل نظر آتی ہے۔)


ہبل کا قانون


جب ہبل واپس کیلی فورنیا پہنچا تو اس نے ڈی سٹر کے مشورے کا احتیاط کے ساتھ جائزہ لیا اور اس اثر کے ثبوتوں کی تلاش شروع کردی۔ چوبیس کہکشاؤں کا تجزیہ کرنے کے بعد اس نے آخر کار معلوم کر لیا کہ جو کہکشاں جتنی دور ہو گئی وہ اتنا ہی تیز ہم سے دور بھاگ رہی ہے۔ بعینہ آئن سٹائن کی مساوات کے عین مطابق۔ ان دونوں (رفتار تقسیم بذریعہ فاصلہ) کی نسبت لگ بھگ مستقل ہی تھی۔ یہ جلد ہی ہبل کے مستقل یا ایچ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ غالباً یہ علم فلکیات میں واحد سب سے زیادہ اہم مستقل ہے۔ کیونکہ اس سے ہمیں اس شرح کا معلوم ہوتا ہے جس سے کائنات پھیل رہی ہے۔

سائنس دانوں نے سوچا کہ اگر کائنات پھیل رہی ہے تو یقیناً اس کی ابتدا بھی ہوگی۔ ہبل کے مستقل کا الٹ اصل میں کائنات کی عمر کا حساب لگانے میں مدد دیتا ہے۔ کسی دھماکے کی ویڈیو کا تصوّر کریں ، دھماکے کی جگہ سے نکلنے والی گرد و غبار سے پھیلاؤ کی سمتی رفتار معلوم کر سکتی ہے ۔ یعنی اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہم ویڈیو کو اس وقت تک الٹا چلا سکتے ہیں جب تک وہ اس نقطہ پر نہ پہنچ جائے جہاں تمام ملبہ ایک تھا ۔ کیونکہ ہمیں پھیلاؤ کی سمتی رفتار معلوم ہے لہٰذا ہم اس بات کا خام اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دھماکہ کس وقت وقوع پذیر ہوا تھا۔


(ہبل کے اصل اندازے نے کائنات کی عمر کو ایک ارب اسی کروڑ بتایا تھا ، جس نے کئی ماہرین تکوینیات کو سر درد میں مبتلا کر رکھا تھا کیونکہ یہ عمر زمین اور ستاروں کی مسلمہ عمر سے کم تھی۔برسوں بعد ماہرین فلکیات نے آخر کار اس بات کو معلوم کر ہی لیا کہ اینڈرومیڈا میں موجود قیقاؤسی متغیر سے خارج ہونے والی روشنی نے ہبل کے مستقل کی غلط مقدار دے دی تھی۔ اصل میں "ہبل کی جنگ" جو ہبل مستقل کی درست مقدار کو معلوم کرنے کے لئے ہوئی وہ ستر برس تک جاری رہی ۔ عصر حاضر میں سب سے زیادہ قابل بھروسہ مقدار ڈبلیو میپ سیارچے سے حاصل ہوئی ہے۔)


١٩٣١ء میں جب آئن سٹائن نے ماؤنٹ ولسن رصدگاہ کا دورہ کیا تو وہ پہلے ہبل سے ملا۔ جب اسے کائنات کے پھیلاؤ کا اندازہ ہوا تو اس نے اپنے فلکیاتی مستقل کو زندگی کی سب سے بھیانک غلطی تسلیم کرلیا۔( بہرحال آئن سٹائن کی اس فاش غلطی نے ، غلط ہونے کے باوجود فلکیات کی بنیادوں کی ہلا کر رکھ دیا ہے جیسے کہ ہم اس کو اس وقت دیکھیں گے جب ہم ڈبلیو میپ سیارچے سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کو اس باب میں آگے زیر بحث کریں گے۔) جب آئن سٹائن کی بیوی کو اس جسیم رصدگاہ کا دورہ کرایا گیا تو اس کو بتایا گیا کہ یہ دیوہیکل دوربین کائنات کی حتمی ساخت کا تعین کرنے جا رہی ہے۔ آئن سٹائن کی بیوی نے سرد مہری سے جواب دیا ،" میرا شوہر یہ کام پہلے ہی اس پرانے لفافے کی پشت پر کر چکا ہے ۔"
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 3

بگ بینگ (عظیم دھماکہ )

بیلجیئم کا رہنے والا ایک راہب جس کا نام جارج لیمیترے تھا اس نے آئن سٹائن کے نظرئیے کو پڑھا ۔ وہ اس بات سے کافی زیادہ متاثر ہوا کہ نظرئیے کے مطابق کائنات پھیل رہی تھی لہٰذا پھیلتی ہوئی کائنات کا آغاز بھی ہونا چاہئے۔ کیونکہ دبتی ہوئی گیسیں گرم ہوتی ہیں لہٰذا اس پر منکشف ہوا کہ کائنات اپنی ابتدا میں انتہائی گرم ہوگی۔ ١٩٢٧ ء میں اس نے کہا کہ کائنات لازمی طور پر ایک بڑے جوہر سے نکل کر شروع ہوئی ہوگی جس کی کمیت اور درجہ حرارت ناقابل تصوّر ہوگا اور جو اچانک باہر کی جانب پھٹا ہوگا جس کے نتیجے میں ہبل کی پھیلتی ہوئی کائنات کا جنم ہوا ہوگا۔ اس نے لکھا ، "دنیا کے ارتقا کا مقابلے ایک ایسی آتش بازی سے کیا جا سکتا ہے جس کا اختتام ابھی ہوا ہو۔ چند سرخ دھوئیں کے بادل ، راکھ اور دھواں ۔ بجھتے ہوئے ٹھنڈے انگارے پر کھڑے ہو کر ہم آہستہ مدھم ہوتے سورجوں کو دیکھتے ہیں اور ہم اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ مٹتی ہوئے جہاں کے ماخذ کی شان و شوکت کو یاد کر سکیں۔"

(وہ پہلا شخص جس نے وقت کے آغاز میں اس فوق جوہر کے خیال کو پیش کیا تھا وہ ایڈگر ایلن پو ہی تھی ۔ اس کا کہنا تھا کہ مادّہ دوسرے مادّے کو کھینچتا ہے، لہٰذا وقت کی ابتدا میں یہ بات لازم ہونی چاہئے کہ تمام جوہر ایک جگہ لامحدود طور پر مرتکز تھے۔)

لیمیترے طبیعیات کے ہونے والے اجلاس میں جاتا اور سائنس دانوں کو اپنا خیال پیش کرتا ۔ وہ اس کی بات مضحکہ اڑانے کے لئے سنتے اور سرد مہری سے اس کا خیال رد کر دیتے۔ آرتھر ایڈنگٹن ، جو اپنے دور کا ایک ممتاز طبیعیات دان تھا ، نے کہا" بطور سائنس دان میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ چیزوں کا نظم ایک دھماکے سے شروع ہوا ہو ۔۔۔۔ اس منظم قدرت میں ڈھلنے والی اچانک شروعات کا تصوّر مجھے سخت ناگوار گزرتا ہے۔"

لیکن برسوں گزر جانے کے بعد اس کی استقامت نے طبیعیات کے جہاں میں مزاحمت کو بتدریج کم کر دیا ۔ وہ سب سے اہم سائنس دان جو بگ بینگ کو بیان کرنے اور اس کو مشہور کرنے والے تھے انہوں نے آخر کار نظرئیے کے بدیہی ثبوت دینے شروع کر دیئے۔

جارج گیمو ، فلکیاتی مسخرا

ہرچند کہ فلکیات کی دنیا میں ہبل ایک اطوار اور عالی نسب والا تھا ، لیکن اس کے کام کو ایک اور نابغہ روزگار جارج گیمو نے جاری رکھا۔ گیمو ہبل سے ہر پہلو سے مختلف تھا ۔ وہ ایک مسخرا ، کارٹون بنانے والا ، اور اپنے عملی ٹھٹھوں اور سائنس پر بیس کتابوں کی وجہ سے مشہور تھا ۔ ان کتابوں میں سے زیادہ تر نوجوانوں کے لئے لکھی گئی تھیں ۔ طبیعیات دانوں کی کئی نسلیں (بشمول میرے) اس کی طبیعیات اور علم فلکیات پر معلوماتی اور تفریح سے بھرپور کتابیں پڑھ کر بڑی ہوئی ہیں ۔ اس دور میں جب اضافیت اور کوانٹم نظرئیے سائنس اور معاشرے میں انقلاب بپا کر رہا تھا ، اس کی کتابیں تن تنہا کھڑی تھیں ، صرف جدید سائنس پر موجود نوجوانوں کے لئے اس کی کتابیں ہی مستند ذریعہ علم تھیں۔

ہر چند کم ہی سائنس دان خیالات کے بارے میں بنجر ہوتے ہیں ، پہاڑ جیسے خشک اعداد و شمار سے خوشی سے الجھنے والا گیمو اپنے دور کے اختراعی قوّت کے حامل افراد میں سے ایک تھا ۔ ایک بحر العلوم جو اکثر ایسے خیالات کا اظہار کرتا جو نیوکلیائی طبیعیات ، علم فلکیات یہاں تک کہ ڈی این اے کی تحقیق کو بھی نئے راستے پر گامزن کر دیتے۔ غالباً یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ جیمز واٹسن جس جے فرانسس کرک کے ساتھ مل کر ڈی این اے سالمہ کا راز افشا کیا تھا اس نے اپنی سوانح حیات کا عنوان لونیہ ،گیمو اور لڑکیاں رکھا تھا۔ جیسا کہ اس کے رفیق ایڈورڈ ٹیلر بیان کرتے ہیں ، "گیمو کے نوے فیصد نظریات غلط تھے ، اور ان کو آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا تھا کہ وہ غلط ہیں ۔ لیکن وہ اس بات سے بے پرواہ رہتا تھا ۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی کسی بھی ایجاد پر فخر کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے ۔ وہ اپنا تازہ ترین مفروضہ بیان کرنے کے بعد اس کو مذاق میں اڑا دیتا تھا۔" لیکن اس کے باقی دس فیصد خیالات نے سائنسی دنیا کے پورے منظر نامے کو تبدیل کر دیا۔
گیمو روس میں واقع اوڈیسا میں ١٩٠٤ء میں ملکی معاشی انقلاب عظیم کے دوران پیدا ہوا۔ گیمو بتاتا ہے کہ " جماعتوں کو اکثر و بیشتر اس وقت منسوخ کر دیا جاتا تھا جب اوڈیسا پر دشمن کے جہاز بمباری کرتے تھے یا پھر جب یونانی، فرانسیسی اور برطانوی مہماتی افواج شہر کی اہم شاہراوں کے ساتھ ساتھ سفید، سرخ بلکہ ہری مورچہ بند روسی افواج پر سنگین حملہ کرتے تھے یا کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ مختلف رنگوں کے لباس میں ملبوس روسی فوج خود سے ہی لڑ پڑتی تھی۔"
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
اچھا لکھ رہے ہیں۔ آخری دو پوسٹس میں تحریر معمول سے چھوٹی نظر آ رہی ہے۔ اسکو درست کر دیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 4



اس کی زندگی میں اس وقت تبدیلی آ گئی جب اس نے چرچ جانا شروع کیا اور کام کرنے کے بعد وہاں سے چوری چھپے کچھ اشتراکی روٹیاں گھر لانے لگا۔ خرد بین سے دیکھنے پر اسے اشتراکی روٹی جس کو حضرت عیسی کے بدن کا ٹکرا بیان کیا جاتا تھا اور عام روٹی میں کوئی فرق نہیں دکھائی دیا۔ اس نے نتیجہ اخذ کیا، "میرے خیال میں یہ وہ تجربہ تھا جس نے مجھے سائنس دان بنا دیا۔"


اس نے یونیورسٹی آف لیننگراڈ سے طبیعیات دان الیگزینڈر فرائیڈ مین کے زیر نگرانی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں یونیورسٹی آف کوپن ہیگن میں وہ کافی عظیم طبیعیات دانوں جیسا کہ نیلز بوہر وغیرہ سے ملا۔ (١٩٣٢ء میں اس نے اپنی بیوی کے ساتھ سوویت یونین سے بھاگنے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی۔ وہ کریمین سے کشتی پر بیٹھ کر ترکی جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ بعد ازاں وہ اپنی اس کوشش میں اس وقت کامیاب ہو گیا جب وہ برسلز میں ہونے والی ایک طبیعیات کی کانفرنس میں گیا ۔ اور اس کے نتیجے میں سوویت یونین نے اسے واجب القتل قرار دے دیا۔)


گیمو اپنے دوستوں کو مخمس ہجویہ نظم بھیجنے کے لئے مشہور تھا۔ ان میں سے زیادہ تر تو ناقابل اشاعت ہیں تاہم ان میں سے ایک ہجویہ نظم نے ماہرین تکوینیات کی اس بے بسی کا احاطہ کیا جب وہ فلکیاتی اعداد سے نبرد آزما ہوتے تھے اور لا محدودیت ان کے چہرے کو تکتی تھی :


ایک نوجوان مقتدی ٹرینٹی سے تعلق رکھتا تھا

جس نے لا محدودیت کا جزر المربع لیا
لیکن ہندسوں کے اعداد نے
اس کو مضطرب کر دیا؛
اس نے ریاضی کو چھوڑ کر الوہیت اختیار کر لی۔

١٩٢٠ء کی دہائی میں روس میں گیمو نے پہلے پہل کامیابی اس وقت حاصل کی جب اس نے اس اسرار سے پردہ اٹھایا کہ تابکاری انحطاط کیونکر ممکن ہوتا ہے۔ مادام کیوری اور دوسروں کے کام کی وجہ ہے سائنس دان اس بات کو جان سکے کہ آیا کیوں یورینیم کے جوہر غیر پائیدار ہوتے ہیں اور تابکاری کو الفا شعاعوں (ہیلیئم کے جوہر مرکزے) کی صورت میں خارج کرتے ہیں۔ تاہم نیوٹنی میکانیات کے مطابق پراسرار نیوکلیائی طاقت جو مرکزوں کو جوڑی رکھتی ہے اس کے پاس کوئی بند ہونا چاہئے تھا جو اس رساؤ کو ہونے سے روکتا۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟


گیمو (اور آر ڈبلیو گرنی اور ای یو کونڈون )نے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ تابکاری انحطاط کوانٹم کے نظرئیے کی رو سے ہونا ممکن تھا یعنی اصول عدم یقین کا مطلب تھا کہ کوئی کبھی بھی کسی بھی ذرّے کی درست سمتی رفتار اور محل وقوع معلوم نہیں کر سکتا؛ لہٰذا ہمیشہ اس بات کا تھوڑا بہت امکان رہے گا کہ یہ سرنگ بن جائے یا پھر سیدھا رکاوٹ میں سے جذب ہو جائے۔ (دور حاضر میں یہ سرنگ کا خیال طبیعیات کی دنیا کی جان ہے اور اس کا استعمال برقی آلات کی خصوصیات ، بلیک ہول اور بگ بینگ کو بیان کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کائنات بھی اسی سرنگ جیسی کسی چیز کی وجہ سے معرض وجود میں آئی ہو ۔)


اس تمثیلی خیال کا استعمال کرتے ہوئے گیمو نے ایک قیدی کو جیل کی اونچی دیواروں میں بند تصوّر کیا۔ نیوٹن کی مستند دنیا میں ، فرار ناممکن ہے۔ لیکن کوانٹم نظرئیے کی عجیب و غریب دنیا میں ، آپ اس بات کو درست طور پر نہیں جان سکتے کہ قیدی اس لمحے کہاں ہے اور اس کی سمتی رفتار کیا ہوگی۔ اگر قیدی جیل کی دیواروں سےمسلسل ٹکراتا رہے گا تو آپ اس موقع کا حساب لگا سکتے ہیں جو ایک دن اسے اس دیوار میں سے گزرنے کے لئے ملے گا۔ یہ بات براہ راست عقل عامہ اور نیوٹن کی میکانیات سے متصادم ہے۔ اس محدود امکان کا ریاضی میں قابل حل صورت موجود ہے کہ وہ کبھی جیل کی دیواروں سے باہر نکل سکے گا۔ اس امکان کے وقوع پذیر ہونے کے لئے قیدی جیسے بڑے اجسام کے لئے کائنات کی عمر سے بھی لمبی عمر درکار ہو گئی جس میں یہ معجزانہ واقعہ رونما ہو سکے۔ لیکن الفا ذرّات کے لئے اور ذیلی جوہری ذرّات کے لئے یہ معجزے ہر وقت رونما ہوتے رہتے ہیں کیونکہ یہ ذرّات مرکزے کی دیواروں سے وسیع توانائی کی مقدار کے ساتھ متواتر ٹکراتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ گیمو کو اس اہم کام کے لئے نوبیل کا انعام دینا چاہئے تھا۔


١٩٤٠ء میں گیمو کی دلچسپی اضافیت سے فلکیات کی طرف منتقل ہو گئی جو اس کے وجدان میں زیادہ زرخیز اور ان دیکھی دنیا تھی۔ کائنات کے بارے میں اس وقت جو معلوم تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ آسمان سیاہ ہے اور کائنات پھیل رہی ہے۔ گیمو کو ایک خیال نے راہ دکھائی۔ کوئی بھی ایسا ثبوت یا "رکاز" حاصل کیا جائے جو اس بات کو ثابت کر سکے کہ بگ بینگ ارب ہا برس پہلے شروع ہوا تھا۔ یہ بہت ہی پریشان کن امر تھا کیونکہ فلکیات اپنی اصل روح میں کوئی تجرباتی سائنس تو تھی نہیں۔ کوئی بھی ایسا تجربہ نہیں تھا جو بگ بینگ کے لئے کیا جا سکتا۔ فلکیات ایک طرح سے سراغ رسانی کی کہانی ہے ، یہ تجرباتی سائنس کے برعکس ایک مشاہداتی سائنس ہے، تجرباتی سائنس میں آپ صحت کے ساتھ تجربہ کر کے "باقیات" کی تلاش یا جرم کے منظر سے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

آخری دو پوسٹس میں تحریر معمول سے چھوٹی نظر آ رہی ہے۔ اسکو درست کر دیں۔

امید ہے کہ فونٹ اب ٹھیک نظر آرہا ہوگا۔

 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 5

کائنات کی نیوکلیائی بھٹی


گیمو کی اگلی سائنس کی دنیا کی خدمت اس نیوکلیائی عمل کا دریافت کرنا تھا جس نے ان ہلکے عناصر کو جنم دیا جن کو ہم کائنات میں دیکھتے ہیں۔ وہ اس کو "ماقبل کائناتی بھٹی " کہتا تھا جہاں تمام کائنات کے عناصر اصل میں بگ بینگ کی شدید حرارت میں پکے تھے۔ آج اس عمل کو ہم "نیوکلیائی ترتیب" کے نام سے جانتے ہیں یا اسے کائنات میں عناصر کی فراوانی کا حساب بھی کہا جاتا ہے۔ گیمو کے خیال میں یہ ایک لگاتار زنجیر ی عمل تھا جو ہائیڈروجن سے شروع ہوا اور بعد میں ہائیڈروجن کے عنصر میں مزید ذرّات کو جمع کرتے ہوئے دوسرے عناصر کو بناتا گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ مینڈلوف کے کیمیائی عناصر کا پورا دوری جدول بگ بینگ کی حرارت سے بنایا جا سکتا ہے ۔

گیمو اور اس کے طالبعلم نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ کیونکہ تخلیق کے لمحے کائنات ناقابل تصوّر حد تک گرم پروٹون اور نیوٹران کا امتزاج تھی لہٰذا ہو سکتا ہے کہ عمل گداخت شروع ہو گیا ہو ۔ جس میں ہائیڈروجن کے جوہر ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہوئے ہیلیئم کے جوہروں میں بدلتے رہے ہوں۔ جیسا کہ کسی ہائیڈروجن کے بم یا ستارے میں ہوتا ہے کہ درجہ حرارت اس قدر بلند ہوتا ہے کہ ہائیڈروجن جوہر کے پروٹون ایک دوسرے سے تصادم شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہیلیئم کا مرکزہ معرض وجود میں آتا ہے۔ ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے بعد کے ٹکراؤ اسی طرح کے اگلے عنصر کی تشکیل کرتے ہیں جس میں لیتھیم اور بیریلیئم بھی شامل ہیں۔ گیمو نے اس بات کو فرض کیا کہ بھاری عنصر اسی طرح سے سلسلہ وار ذیلی جوہری ذرّات کو مرکزے میں جمع کرکے بنائے جا سکتے ہیں - بالفاظ دیگر تمام کے تمام سو کے لگ بھگ عنصر جنہوں نے مل قابل مشاہدہ کائنات کو بنایا ہے ، وہ بگ بینگ کی اصل قیامت خیز حرارت میں ہی پکے ہوں گے۔


ایک خاص انداز میں گیمو نے اپنے اس جرات مند پروگرام کے نقشے کے خطوط رکھے اور اپنے پی ایچ ڈی کرنے والے طالبعلم رالف الفر کو اس کی تفصیلات بھرنے دیا۔ جب مقالہ تیار ہو گیا تو وہ عملی مذاق کرنے سے باز نہیں رہا۔ اس نے طبیعیات دان ہانس بیتھ کا نام مقالے پر اس کی اجازت کے بغیر لکھ دیا اور یہ مقالہ شہرہ آفاق الفا بیٹا گیما مقالے کے نام سے مشہور ہو گیا۔


گیمو نے اس بات کی کھوج کر لی تھی کہ بگ بینگ اس قدر گرم تھا کہ ہیلیئم کی تشکیل ہو سکتی تھی جو کائنات کی کل کمیت کا ٢٥ فیصد ہے اس طرح الٹ کر بگ بینگ کو "ثابت" کرنے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آج سادے طور پر ستاروں اور کہکشاؤں کو دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہو گئی کہ وہ ٧٥ فیصد ہائیڈروجن اور ٢٥ فیصد ہیلیئم سے بنے ہیں جبکہ دوسرے عناصر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ (جیسا کہ پرنسٹن کے طبیعیات دان ڈیوڈ اسپرجل کہتے ہیں ، "جب بھی آپ غبارہ خریدتے ہیں ، آپ اس میں بھرے وہ جوہر لے رہے ہوتے ہیں [جس میں سے کچھ] بگ بینگ وقوع ہونے کے صرف چند منٹ میں ہی پیدا ہو گئے تھے۔")


بہرحال گیمو کو تخمینہ لگانے میں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا نظریہ شروع کے ہلکے عناصر سے تو خوب ہم آہنگ رہتا ہے ۔ لیکن وہ عنصر جن میں 5 اور 8 نیوٹران اور پروٹون ہوتے ہیں وہ کافی غیر پائیدار ہوتے ہیں لہٰذا وہ کسی بھی طرح سے ایک "پل" کا کام نہیں کر سکتے تھے جس کو پار کرتے ہوئے وہ بڑے اعداد والے پروٹون اور نیوٹران رکھنے والے عنصر کو بنا سکیں اور یہی بات اپنے پیچھے ایک فلکیاتی اسرار چھوڑ دیتا ہے۔ پانچ اور آٹھ ذرّاتی جگہ سے آگے گیمو کے پروگرام کی ناکامی عرصہ دراز تک ایک ضدی مسئلہ بنا رہا اور اس کے اس تصوّر کے آگے ایک دیوار کی طرح ثابت رہا جس میں کائنات کے تمام عناصر بگ بینگ کے لمحے میں ہی تخلیق ہو گئے تھے ۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 6

کائناتی پس منظر کی خرد امواجی شعاعیں

اسی دوران ایک اور مفروضے نے اس کی توجہ حاصل کر لی: اگر بگ بینگ نا قابل تصوّر طور پر گرم ہوگا تو اس کی کچھ باقی بچی ہوئی حرارت اب بھی کائنات میں چکر لگا رہی ہوگی۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو یہ بگ بینگ کا بذات خود ایک طرح سے "رکازی ثبوت" ہوگا۔ غالباً بگ بینگ اتنا جسیم ہوگا کہ اس کے بعد پیدا ہونے والی حرارت اب بھی کائنات میں اشعاع کی دھند کی صورت میں موجود ہوگی۔

١٩٤٦ء میں گیمو نے فرض کیاکہ بگ بینگ فوقی گرم نیوٹران کے قلب سے شروع ہوا ہوگا۔ یہ ایک معقول مفروضہ تھا کیونکہ اس وقت تک ذیلی جوہری ذرّات کے بارے میں الیکٹران، پروٹون اور نیوٹران سے زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا۔ اگر وہ اس نیوٹران کی گیند کا درجہ حرارت کا اندازہ کر سکتا تو وہ اس اشعاع کی مقدار اور نوعیت معلوم کر سکتا تھا جو اس عمل میں خارج ہوئی ہوگی۔ دو برس بعد گیمو نے ثابت کیا کہ اس فوقی گرم گیند سے نکلنے والی اشعاع ایک طرح سے "سیاہ جسم کی اشعاع" کی طرح کا برتاؤ کرے گی۔ یہ اشعاع بہت ہی مخصوص قسم کی ہوتی ہے جو ایک گرم جسم خارج کرتا ہے۔ وہ اس تمام روشنی کو جذب کر لیتا ہے جو اس سے ٹکراتی ہے اور پھر اشعاع کو ایک مخصوص خاصیت کے ساتھ خارج کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سورج، پگھلا ہوا لاوا، آگ میں جلتا ہوا گرم کوئلہ اور بھٹی میں موجود گرم سفال سب کے سب زرد مائل سرخ ہو کر تاباں ہوتے ہیں اور سیاہ جسم کی اشعاع خارج کرتے ہیں۔(سیاہ جسم کی اشعاع سب سے پہلے چینی مٹی بنانے والے مشہور شخص تھامس ویجووڈ نے ١٧٩٢ء میں دریافت کی تھی۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ جب خام مال اس کی بھٹی میں پکتا ہے ، تو اس کا رنگ سرخ سے پیلا اور پھر سفید میں درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔)


اس بات کی اہمیت یوں ہے کہ ایک دفعہ جب ہمیں کسی گرم جسم کا رنگ معلوم ہو جاتا ہے تو اس کا درجہ حرارت کا اندازہ لگانا بصورت معکوس آسان ہوتا ہے۔ گرم اجسام اور ان سے خارج ہونے والی اشعاع کا درست فارمولا سب سے پہلے میکس پلانک نے ١٩٠٠ء میں حاصل کیا جس کے نتیجے میں کوانٹم کے نظرئیے کا جنم ہوا۔(اصل میں یہ ایک طریقہ ہے جس میں سائنس دان سورج کے درجہ حرارت کو ناپنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ سورج عام طور سے پیلی روشنی ہی خارج کرتا ہے جو سیاہ جسم کے لگ بھگ ٦ ہزار کیلون درجہ حرارت کی ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم سورج کی باہری سطح کا درجہ حرارت جان لیتے ہیں ۔ اسی طرح سے سرخ دیو ستارہ ابط الجوزا کی سطح کا درجہ حرارت ٣ ہزار کیلون ہے جو سیاہ جسم کے سرخ رنگ سے نسبت رکھتا ہے ، یہ درجہ حرارت کوئلے کے گرم سرخ ٹکڑے سے بھی نکلتا ہے۔)


گیمو کے ١٩٤٨ء کے مقالے میں پہلی مرتبہ کسی نے تجویز دی تھی کہ غالباً بگ بینگ سے نکلنے والی اشعاع کی مخصوص خاصیت - سیاہ جسم کی اشعاع کی صورت میں ہو سکتی ہے۔


گیمو کا پی ایچ ڈی کرنے والا طالبعلم اور ایک اور دوسرے طالبعلم رابرٹ ہرمن نے اس کے درجہ حرارت کا حساب لگا کر گیمو کے اندازہ کو مکمل کرنے کی کوشش کی۔ گیمو لکھتا ہے ، " کائنات کے ابتدائی دنوں سے لے کر دور حاضر تک ورائی ادراج (کسی متغیرہ کی قیمتوں کا اس حد کے ماورا قریبی تخمینہ لگانا جس کے لیے قیمتوں کا حساب لگایا گیا ہو) لگانے سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اس دور زمان میں جو گزر چکا ہے ، کائنات کو لازمی طور پر مطلق صفر سے 5 ڈگری درجہ حرارت اوپر ہونا چاہئے۔"


١٩٤٨ء میں الفر اور ہرمن نے ایک مقالہ چھپا جس میں انہوں نے مفصل بحث اس بات پر کی تھی کہ آیا کیوں آج بگ بینگ سے ہونے والے دھماکے کا درجہ حرارت مطلق صفر سے پانچ درجہ اوپر ہونا چاہئے۔(ان کا اندازہ حیرت انگیز طور پر اس سے نہایت قریب تر ہے جس کو اب ہم مطلق صفر سے اوپر 2.7 کا درست درجہ حرارت مانتے ہیں۔) یہ اشعاع جن کو انہوں نے خرد امواج کے اندر تشخیص کیا تھا ان کو اب بھی کائنات میں چکر لگانا چاہئے تھا ، ان کے مفروضے کے مطابق ان کو کائنات میں یکساں طور پر موجود ہونا چاہئے تھا۔


(اس کی وجہ یہ ہے ۔ بگ بینگ کے برسوں بعد ، کائنات کا درجہ حرارت اس قدر گرم تھا کہ جب بھی کوئی جوہر بنتا تھا ، تو وہ بنتے ہی ریزہ ریزہ ہو جاتا تھا ؛ لہٰذا ایسے کافی آزاد الیکٹران موجود تھے جو روشنی کو منتشر کر سکتے تھے ۔ لہٰذا کائنات شفاف کے بجائے دھندلی تھی۔ روشنی کی کوئی بھی کرن جو اس زبردست گرم کائنات میں حرکت میں ہوگی وہ تھوڑا ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد جذب ہو جاتی ہوگی ، لہٰذا کائنات ابر آلود لگ رہی ہوگی۔ کچھ تین لاکھ اسی ہزار برسوں بعد، بہرحال درجہ حرارت ٣ ہزار ڈگری تک گر گیا تھا۔ اس درجہ حرارت سے نیچے جوہر تصادم میں بکھرتے نہیں ہیں ۔ نتیجتاً پائیدار جوہر بننا شروع ہو گئے اور روشنی کی کرن نے اب نوری برسوں کا فاصلہ بغیر جذب ہوئے کرنا شروع کر دیا تھا۔ لہٰذا پہلی دفعہ خالی خلاء شفاف بن گئی تھی۔ یہ اشعاع جو اب اپنے بننے کے بعد جذب نہیں ہو رہی تھی اس کو کائنات میں چکر لگانا چاہئے تھا۔)


جب الفر اور ہرمن نے گیمو کو کائنات کے حتمی درجہ حرارت کے تخمینا جات دکھائے تو گیمو بہت زیادہ مایوس ہو ا۔ یہ درجہ حرارت اس قدر سرد تھا کہ اس کا سراغ لگانا انتہائی مشکل تھا۔ گیمو کو تخمینا جات کی درستگی کا یقین کرنے میں پورا ایک برس لگ گیا۔ لیکن وہ اس بات سے نہایت مایوس تھا کہ اتنا مدھم درجہ حرارت کبھی بھی ناپا نہیں جا سکے گا۔ ١٩٤٠ء کے عشرے میں دستیاب آلات اس قابل نہیں تھے کہ وہ اتنی مدھم گونج کو ناپ سکتے۔ (بعد کے حساب میں ، ایک غلط مفروضے کو لیتے ہوئے گیمو نے اشعاع کا درجہ حرارت ٥٠ ڈگری تک بڑھا دیا تھا۔)


انہوں نے اپنا کام چھپوانے کے لئے کافی گفت و شنید کی ۔ بدقسمتی سے ان کی پیشگوئی کو نظر انداز کر دیا گیا۔ الفر نے کہا ، "ہم نے اس کام کی بابت میں اپنی پوری توانائی کو جھونک دیا ۔ کسی نے بھی، کسی نے بھی کہا کہ اس کو ناپا نہیں جا سکتا ہے ۔۔۔۔ لہٰذا ١٩٤٨ء سے ١٩٥٥ء کے دور تک ، ایک طرح سے ہم نے ہار مان لی تھی۔"


بیباک گیمو ، اپنی کتابوں اور لیکچرز کے ذریعہ وہ شخصیت بن گیا جو بگ بینگ کے نظرئیے کے پرچار میں مصروف رہا ۔ لیکن اس کا سامنا مد مقابل کے ایک پرجوش مخالف سے ہوا جو کئی طرح سے اس کے برابر ہی تھا۔ گیمو اپنے سامعین کو شریر لطیفوں اور جملے بازی سے لطف و اندوز کرتا تھا جبکہ فریڈ ہوئیل اپنے سامعین کو اپنی زبردست فراست اور جارحیت پسند جسارت سے سحر انگیز کر دیتا تھا۔


مخالف فریڈ ہوئیل


پس منظر کی خرد موجی امواج نے ہمیں بگ بینگ کے نظرئیے کا دوسرا ثبوت فراہم کیا۔ لیکن وہ شخص جس نے بگ بینگ کے ہونے کا تیسرا ثبوت بذریعہ جوہری ترتیب دیا وہ فریڈ ہوئیل تھا۔ یہ وہ آدمی تھا جس نے اپنی پوری زندگی بگ بینگ کے نظرئیے کو غلط ثابت کرنے میں جھونک دی۔


ہوئیل ایک ناموزوں علمی تجسم تھا ، ایک روشن فکر مخالف جو روایتی طرز فکر کو نزاع پسندانہ طریقے سے للکارنے والا تھا۔ ہبل ایک اونچے درجہ کا شریف النفس انسان تھا جو آکسفورڈ کے طور طریقوں کی تقلید کرتا تھا ، جبکہ گیمو ایک تفریح طبع فراہم کرنے والا مسخرا اور جامع العلوم تھا جو اپنے سامعین کو ذومعنی جملوں، ہجویہ نظموں اور عملی مذاق سے ششدر کر دیتا تھا۔ ہوئیل کا طرز عمل بغیر تربیت کے بلڈاگ جیسا تھا ، وہ کیمبرج یونیورسٹی کے مشہور شخصیات کے ہال میں تو بالکل بھی مناسب نہیں لگتا تھا ، وہ آئزک نیوٹن کی روح لگتا تھا۔


ہوئیل ١٩١٥ء میں شمالی انگلستان میں اس علاقے میں پیدا ہوا جہاں اونی صنعت کا غلبہ تھا ، وہ ایک کپڑے کے سوداگر کا بیٹا تھا۔ جب وہ چھوٹا تھا تو سائنس سے بہت زیادہ تحیر انگیز رہتا تھا ، ریڈیو تازہ تازہ گاؤں میں آیا تھا۔ اور جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے کہ صرف بیس سے تیس کے قریب لوگوں کے گھروں کی ہی ریڈیو کے رسیور تک رسائی تھی۔ اس کی زندگی کا اہم موڑ اس وقت آیا جب اس کے والدین نے اسے تحفے میں دوربین دی۔


ہوئیل کی جھگڑالو طبیعت اس وقت سے شروع ہو گئی تھی جب وہ بچہ تھا۔ اس نے تین برس کی عمر میں ہے(ریاضی کے) پہاڑوں میں کمال حاصل کر لیا تھا ۔ تب اس کے استاد نے اس کو رومن اعداد سیکھنے کا کہا۔" کوئی اتنا خبطی کیسے ہو سکتا ہے کہ 8 کو VIII لکھے؟" وہ تحقیر انگیز انداز سے یاد کرتا ہے۔ جب اس کو بتایا گیا کہ قانون کی رو سے اسے اسکول جانے پڑے گا ، تو اس نے لکھا ، " میں نے رنج کے عالم میں نتیجہ اخذ کیا ، میں ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوا ہوں جہاں پر دیووں کا غلبہ ہے جس کو "قانون" کہا جاتا ہے جو دونوں یعنی کہ نہایت طاقتور اور انتہائی احمقانہ ہی ہیں ۔"


اس کی صاحب منصب لوگوں سے کراہت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی استانی سے بلا ضرورت اس وقت لڑ گیا جب اس کو جماعت میں بتایا گیا کہ ایک مخصوص پھول کی پانچ پتیاں ہوتی ہیں۔ اپنی استانی کو غلط ثابت کرنے کے لئے وہ جماعت میں ایک ایسا پھول لے آیا جس کی چھ پتیاں تھیں۔ نافرمانی کی اس گستاخ حرکت پر اس کی استانی نے ایک زور دار ضرب اس کے الٹے کان پر لگائی ۔ (ہوئیل بعد میں اس کان سے بہرہ ہو گیا تھا۔)
 
Top