متوازی دنیائیں (Parallel Worlds) از میچیو کاکو

قیصرانی

لائبریرین
پی ڈی ایف تو نہیں تاہم ایم ایس ورڈ کی فائل ہے وہ ارسال کرتا ہوں۔ ابھی دوسرے کمپیوٹر سے لاگ ان ہوں۔

ویسا اچھا ہوا کہ آپ نے خود ہی فائل کا کہہ دیا ورنہ میں خود کہنا چاہ رہا تھا کہ جس طرح سے ناممکن کی طبیعیات پر آپ نے نظر ثانی کی ہے اس کتاب پر بھی کردیجئے گا :)۔
جی، اسی حوالے سے کہا تھا
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 12
لارج ہیڈرون کولائیڈر - حصّہ اوّل



لیکن وہ مشین جو حتمی طور پر اس طرح کے کافی سوالات کا فیصلہ کرے گی وہ ایل ایچ سی (لارج ہیڈرون کولائیڈر ) ہے جو اب تکمیل کے آخری مراحل میں جنیوا ،سوئٹزر لینڈ کے قریب مشہور زمانہ تجربہ سرن میں واقع ہے۔ ہماری دنیا میں قدرتی طور پر پائے جانے والی مادّے کی اجنبی اقسام پر ہونے والے تجربات کے برعکس ایل ایچ سی اس قابل ہوگی کہ تجربہ گاہ میں خود سے ان ذرّات کو براہ راست پیدا کر سکے۔ ایل ایچ سی اس قابل ہوگی کہ ننھے فاصلوں یعنی پروٹون سے دس ہزار گنا چھوٹے فاصلے تک کی کھوج کر سکے اور ساتھ ساتھ ایسا درجہ حرارت پیدا کرے گی جس کو بگ بینگ کے بعد نہیں دیکھا گیا ہوگا۔ "طبیعیات دانوں کو یقین ہے کہ قدرت نے جن چیزوں کو اپنی آستینوں میں چھپایا ہوا ہے ان کو ان جھولوں میں لازمی طور پر افشاں ہونا ہوگا - شاید ایک اجنبی ذرّہ جیسا کہ ہگس بوسون جو شاید فوق تشاکل کے معجزانہ اثر کے ثبوت کے طور پر دریافت ہو جائے۔ یا شاید کوئی ایسی ناقابل امید چیز سامنے نمودار ہو جائے جو نظری ذرّاتی طبیعیات کو اپنے سر پر اٹھا لے،" سرن کے سابقہ ڈائریکٹر جنرل اور اب لندن کی یونیورسٹی کالج کے صدر لیویلن اسمتھ لکھتے ہیں۔ سرن کے آلات سے پہلے ہی ہزاروں استعمال کنندہ موجود ہیں یہاں سیارے پر موجود آدھے سے بھی زائد ذرّاتی طبیعیات کام کر رہے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر ایل ایچ سی کے تجربات میں براہ راست شامل ہیں۔

ایل ایچ سی ایک طاقتور دائروی مشین ہے جس کا نصف قطر ٢٧ کلومیٹر ہے یہ اتنی بڑی ہے کہ دنیا کے کافی شہروں کے گرد لپٹ جائے۔ اس کی سرنگ اتنی لمبی ہے کہ یہ فرانسیسی سوئس سرحد تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایل ایچ سی کی لاگت اتنی زیادہ تھی کہ یورپ کی کئی اقوام نے مل کر اس کو بنانے کا اشتراک کیا۔ جب یہ 2007ء میں حتمی طور پر چلنا شروع کرے گی تو طاقتور مقناطیس اس طرح سے دائروی سرنگ میں ترتیب ہوں گے کہ وہ پروٹون کی شعاع کو بڑھتی ہوئی توانائی کے ساتھ چکر لگوائیں گے تاوقتیکہ توانائی کی سطح 14 کھرب الیکٹران وولٹ تک پہنچ جائے گی۔

یہ مشین بڑے دائروی خالی خانے پر مشتمل ہوگی جہاں بہت بڑے مقناطیس اس طرح سے لگے ہوں گے کہ وہ طاقتور کرن کو ایک دائرے میں موڑ دیں گے۔ جیسا کہ یہ ذرّات سرنگ میں گھومتے ہیں توانائی خانے میں ڈالی جاتی ہے جس سے پروٹون کی سمتی رفتار بتدریج بڑھتی ہے۔ جب کرن حتمی طور پر اپنے ہدف سے ٹکراتی ہے تو اس سے دیوہیکل اشعاع کی پھوار نکلتی ہے۔ اس سے نکلنے والے ٹکڑوں کی سراغ رساں تصاویر بناتے ہیں تاکہ نئے ، اجنبی ذیلی جوہری ذرّات کے ثبوت حاصل کرسکیں۔

ایل ایچ سی واقعی میں ایک قوی الجثہ مشین ہے۔ لیگو اور لیزا حساسیت کے لحاظ سے تاہم ایل ایچ سی زبردست طاقت کے لحاظ سے آگے ہوگی۔ اس کے طاقتور مقناطیس جو پروٹون کی کرن کو ایک نفیس قوس میں تبدیل کرتے ہیں وہ 8.3 کے ٹیسلاس کے میدان پیدا کرے گی جو زمین کے مقناطیسی میدان سے 160 ہزار گنا زیادہ طاقتور ہیں۔ اس طرح کے جناتی مقناطیسی میدان پیدا کرکے طبیعیات دان برقی رو کو 120 ہزار ایمپ تک ایک لچھے میں پہنچا سکتے ہیں جس کو منفی 271 سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا کرنا ہوتا ہے۔ اس درجہ حرارت پر لچھے تمام مزاحمت کو ترک کرکے فوق موصل بن جاتے ہیں۔ کل ملا کر اس میں 15,123 میٹر لمبے مقناطیس موجود ہیں جنہوں نے مشین کے گھیراؤ کے 85 فیصد حصّے کو قبضے میں لیا ہوا ہے۔ سرنگ میں پروٹون کو روشنی کی رفتار کے 99.999999 فیصد تک اس وقت تک اسراع دیا جاتا ہے جب تک وہ ہدف سے نہ ٹکرا جائیں جو سرنگ میں چار جگہوں پر موجود ہوتے ہیں ، اس طرح سے ہر سیکنڈ میں ارب ہا تصادم پیدا کئے جاتے ہیں۔ عظیم الجثہ سراغ رساں وہاں لگائے ہوئے ہیں( سب سے بڑے کا حجم چھ منزلہ عمارت جتنا ہے) تاکہ دھول کا تجزیہ کرکے حیران کن ذیلی جوہری ذرّات کی تلاش کی جا سکے۔

جیسا کہ اسمتھ نے پہلے بتایا ہے ایل ایچ سی کا ایک مقصد حیرت انگیز ذرّے ہگس بوسون کی تلاش ہے جو معیاری نمونے کا آخری ٹکڑا اور قابو ہونے سے ابھی تک باقی بچا ہوا ہے۔ اس کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ یہ ذرّہ بے ساختہ تشاکل کو توڑنے کا ذرّاتی نظریات میں ذمہ دار ہے اور کوانٹم کی دنیا میں کمیت دینے کا ذمہ دار بھی ہے۔ ہگس بوسون کی کمیت کا تخمینہ کہیں 115 سے 200 ارب الیکٹران وولٹ کے درمیان ہے (موازنے کے لئے سمجھ لیں کہ پروٹون کا وزن ایک ارب الیکٹران وولٹ ہوتا ہے۔ ٹیواٹران ، شکاگو کے باہر فرمی لیب کی ایک کافی چھوٹی مشین ہے ، ہو سکتا ہے کہ یہ وہ پہلی مشین ہو جو حیران کن ہگس بوسون کو ڈھونڈ لے بشرطیکہ ذرّہ کی کمیت زیادہ نہ ہو ۔ اصولی طور پر ٹیوا ٹران دس ہزار تک ہگس بوسون کو پیدا کر سکتی ہے اگر وہ منصوبہ کے مطابق چل پائے ۔ ایل ایچ سی بہرحال اس سے سات گنا زیادہ توانائی کے ساتھ ذرّات کو پیدا کر سکتی ہے۔ 14 کھرب الیکٹران کے ساتھ ایل ایچ سی ہگس بوسون کے ذرّات کا کارخانہ بن سکتی ہے جس میں وہ پروٹون کے تصادم سے لاکھوں کی تعداد میں ان کو جنم دے سکتی ہے ۔)​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 13​
لارج ہیڈرون کولائیڈر - حصّہ دوم



ایل ایچ سی کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ ایسے حالات کو پیدا کیا جائے جو بگ بینگ کے بعد اب تک پیدا نہیں ہوئے۔ بالخصوص طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ابتداء میں بگ بینگ شدید گرم کوارک اور گلوآن پر مشتمل تھا جس کو کوارک گلوآن پلازما کہتے ہیں۔ ایل ایچ سی اس قسم کا کوارک گلوآن پلازما بنانے کے قابل ہوگی جس نے کائنات میں اپنا غلبہ اس کے وجود کے پہلے دس مائیکرو سیکنڈز میں رکھا ہوا تھا۔ ایل ایچ سی میں کوئی سیسے کے مرکزے کو ایک کھرب ایک ارب الیکٹران وولٹ سے ٹکرا سکتا ہے۔ اس دیوہیکل تصادم سے چار سو نیوٹران اور پروٹون "پگھل" سکتے ہیں اور کوارک کو گرم پلازما کی صورت میں آزاد کر سکتے ہیں۔ اس طرح سے کوارک گلوآن پلازما پر تجربہ گاہ میں کیے گئے انتہائی درستگی کے ساتھ تجربات سے کونیات بتدریج ایک مشاہداتی سائنس سے تجرباتی سائنس بن سکتی ہے۔

اس بات کی بھی امید ہے کہ ایل ایچ سی ننھے بلیک ہولز کواس دھول میں سے بھی تلاش کر لے گی جو پروٹون کے زبردست توانائی کے ساتھ آپس میں ٹکرانے کے بعد پیدا ہوئی ہوگی جیسا کہ ہم نے ساتویں باب میں بیان کیا ہے۔ عام طور پر کوانٹم بلیک ہولز کو پلانک توانائی کی سطح پر بننا چاہئے جو ایک پدم گنا ایل ایچ سی کی توانائی سے زیادہ ہوگی۔ تاہم اگر متوازی کائنات ہماری کائنات کے ملی میٹر حصّے کے اندر ہوگی تو یہ توانائی کو کم کرکے اتنا کر دے گی جہاں پر کوانٹم ثقلی اثرات قابل پیمائش ہوں گے اس طرح سے ننھے بلیک ہولز ایل ایچ سی کی پہنچ میں ہوں گے۔

آخر میں یہ اب بھی امید باقی ہے کہ ایل ایچ سی فوق تشاکل کے ثبوت کو تلاش کر سکے گی جو ذرّاتی طبیعیات کی ایک اہم دریافت ہوگی ۔ یہ ذرّات قدرتی طور پر پائے جانے والے ذرّات کے ساتھی ہوں گے۔ ہرچند کہ اسٹرنگ نظرئیے اور فوق تشاکل نے اندازہ لگایا ہے کہ ہر ذیلی ذرّات کا ایک جڑواں ذرّات مختلف گھماؤ کے ساتھ موجود ہونا چاہئے، فوق تشاکل کو قدرتی طور پر کبھی نہیں پایا گیا اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہماری مشینیں اتنی طاقتور نہیں ہیں کہ ان کا سراغ لگا سکیں۔ فوق ذرّات کا وجود دو مشکل اور تنگ کرنے والے سوالات کا جواب دیں گے۔ پہلا کہ آیا اسٹرنگ نظریہ درست ہے؟ ہرچند کہ اسٹرنگ کا براہ راست سراغ لگانا بہت ہی مشکل ہے تاہم یہ ممکن ہے کہ پست مسدس یا گمک کا سراغ لگا لیا جائے۔ اگر ذرّات دریافت ہو گئے تو ان کواسٹرنگ نظرئیے کے تجربات کے وجوب کو ثابت کرنے کے لئے کافی طویل سفر طے کرنا ہوگا (پھر بھی یہ اس کی درستگی کا براہ راست ثبوت نہیں ہوگا)۔

دوسرے یہ تاریک مادّے کے انتہائی معقول امیدوار ہوں گے۔ اگر تاریک مادّہ ذیلی جوہری ذرّات پر مشتمل ہے تو اس کو لازمی طور پر پائیدار اور تعادل ہونا چاہئے ( ورنہ وہ مرئی ہوتے)، اور ان کو لازمی طور پر ثقلی طور سے تعامل کرنا چاہئے ہوگا۔ یہ تمام تینوں خصوصیات ان ذرّات میں پائی جاتی ہیں جس کو اسٹرنگ کا نظریہ بیان کرتا ہے۔

ایل ایچ سی جب چلنا شروع ہوگی تو یہ سب سے طاقتور ذرّاتی اسراع گر ہوگی اور زیادہ تر طبیعیات دانوں کی پسند ہوگی1980ء کی دہائی میں صدر رونالڈ ریگن نے فوق موصل فوق تصادم گر (Superconducting Supercollider) بنانے کی منظوری دی تھی ۔ یہ ایک دیوہیکل مشین تھی جو 50 میل محیط پر مشتمل تھی اور جس کو ڈیلس ، ٹیکساس کے باہر بننا تھا، اس کے سامنے ایل ایچ سی تو ایک بونا ہوتی۔ ایل ایچ سی کو 14 کھرب الیکٹران وولٹ کی قوّت سے تصادم کرنے کے لئے بنایا گیا ہے جبکہ ایس ایس سی 40 کھرب الیکٹران وولٹ کی توانائی سے تصادم کرتی۔ منصوبے کو شروع میں منظور کر لیا تھا تاہم حتمی منظوری کے وقت یو ایس کانگریس نے ہڑبونگ میں منصوبے کو نامنظور کر دیا۔ یہ اضافی توانائی کے طبیعیات دانوں کے لئے انتہائی افسوسناک جھٹکا تھا اور اس نے پوری ایک نسل کو پیچھے کر دیا تھا۔

اصل میں بحث 11 ارب ڈالر کی مشین کی لاگت اور دوسری سائنسی ترجیحات پر تھی۔ سائنس دان خود سے ایس ایس سی پر بری طرح سے الگ نقطہ نظر رکھتے تھے کچھ طبیعیات دانوں کا دعویٰ تھا کہ ایس ایس سی ان کی تحقیق کا بھی حصّہ کھا جائے گی۔ تنازع اس قدر بڑھا کہ نیویارک ٹائمز نے ایک تنقیدی اداریہ "بڑی سائنس" کا "چھوٹی سائنس" کو ہضم کرنے کا خطرہ کے بارے میں لکھا۔ (دلائل گمراہ کن تھے، کیونکہ ایس ایس سی کا بجٹ چھوٹی سائنس کے بجٹ کے ذرائع کے علاوہ مختلف جگہ سے آنا تھا۔ اصل میں مقابلہ خلائی اسٹیشن کے لئے مختص کیے گئے فنڈز کا تھا جس کے بارے میں اکثر سائنس دان سمجھتے تھے کہ وہ اصل میں پیسے کا زیاں ہے۔)

ماضی میں تنازع اس بات پر بھی تھا کہ عوام سے بات کرنے کے طریقے کو سیکھا جائے جس کو وہ سمجھ سکیں۔ ایک طرح سے طبیعیاتی سماج کو عادت تھی کہ وہ اپنے دیوہیکل جوہری تصادم گر کو کانگریس سے اس لئے منظور کروا لیتےتھے کہ روس بھی اس کو بنا رہا ہوتا تھا۔ حقیقت میں روشی یو این کے اسراع گر کو ایس ایس سی سے مقابلے کرنے کے لئے بنا رہے تھے۔ قومی حمیت و وقار داؤ پر لگا ہوا تھا۔ تاہم روس کا شیرازہ بکھر گیا ان کی مشین ترک کردی گئی اور یہ ہوا بتدریج ایس ایس سی منصوبے تک پہنچ گئی۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 14
میز پر رکھا اسراع گر



ایل ایچ سی کے ساتھ طبیعیات دان بتدریج قابل حاصل توانائی کی اوپری سطح پر دور حاضر کے اسراع گروں کے ساتھ پہنچ رہے ہیں جو اب کافی جدید شہروں سے بڑے ہیں اور جن کی لاگت ارب ہا ڈالر تک جا پہنچی ہے ۔ یہ اتنی بڑے ہیں صرف اقوام کی بڑی شراکت داری سے ہی ان کو بنایا جا سکتا ہے۔ نئے خیالات اور اصول اس لئے ضروری ہیں اگر ہم چاہتے ہیں کہ روایتی اسراع گروں کو پیش آنے والی مشکلات سے نمٹا جا سکے۔ ذرّاتی طبیعیات کی جرت مندانہ مہم کا مقصد ایک "میز پر رکھا" ہو ا اسراع گر بنانا ہے جو ارب ہا الیکٹران وولٹ کی توانائی کی حامل کرن کو روایتی اسراع گروں کے مقابلے میں انتہائی کم لاگت اور حجم کے ساتھ پیدا کر سکے۔

مسئلہ کو سمجھنے کے لئے چوکی دوڑ کا تصوّر کریں جہاں پر دوڑنے والے ایک بہت بڑے دائروی دوڑ راہ کے گرد تقسیم ہیں۔ دوڑنے والوں کو راہ کے گرد دوڑتے ہوئے چھڑی کو ایک دوسرے کو دینا ہے۔ اب تصوّر کریں کہ ہر مرتبہ جب چھڑی ایک دوڑنے والے سے دوسرے دوڑنے والے کے ہاتھ میں جاتی ہے تو دوڑنے والے کو توانائی کا اضافی جھٹکا ملتا ہے اس طرح سے وہ راہ پر کامیابی کے ساتھ تیز دوڑ سکتا ہے۔

اسی طرح سے ذرّاتی اسراع گر میں ہوتا ہے جہاں پر چھڑی ذیلی ذرّات کی کرن پر مشتمل ہے جو دائروی راہ میں چکر لگا رہے ہیں۔ ہر مرتبہ جب کرن ایک دوڑنے والے سے دوسرے دوڑنے والے کے پاس پہنچتی ہے تو کرن کو ریڈیائی تعدد ارتعاش کی توانائی دی جاتی ہے جو اس کی سمتی رفتار کو تیز سے تیز تر اسراع دیتی ہے۔ یہی طریقہ ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے ذرّاتی اسراع گر پچھلی نصف صدی سے بنائے جا رہے ہیں۔ روایتی اسراع گروں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ریڈیائی تعدد ارتعاش کی توانائی کو ڈالنے کی آخری حد تک جا پہنچے ہیں جس کا استعمال کرکے اسراع گر کو چلایا جاتا ہے۔

اس پریشان کن مسئلے کو حل کرنے کے لئے سائنس دان بنیادی سطح پر مختلف طریقوں سے توانائی کو کرن میں ڈالنے کے تجربات کر رہے ہیں جیسا کہ طاقتور لیزر کی کرن جو توانائی کی قوّت میں شارحانہ اضافہ کرتی ہے۔ لیزر کی روشنی کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ "مربوط" ہوتی ہے – یعنی کہ روشنی کی تمام موجیں انتہائی درستگی کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے شاندار توانائی کی کرن کو پیدا کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ آج لیزر کی کرنیں توانائی کی وہ بوچھاڑیں پیدا تھوڑے سے وقت کے لئے پیدا کرتی ہیں جو کھرب ہا واٹس توانائی پر مشتمل ہوتی ہیں (موازنہ کے طور پر نیوکلیائی پاور پلانٹ ایک ارب واٹ توانائی کا کچھ حصّہ ہی پیدا کر سکتا ہے تاہم وہ مسلسل شرح سے ایسا کرتا ہے ۔) وہ لیزر جو ایک ہزار کھرب واٹ (ایک پدم واٹ یا پپیٹا واٹ) پیدا کر سکیں اب دستیاب ہیں۔ لیزر اسراع گر درج ذیل اصول کے تحت کام کرتے ہیں۔ لیزر کی روشنی اتنی گرم ہوتی ہے کہ پلازما کی گیس (آئن زدہ جوہروں کا مجموعہ )کو پیدا کر سکے۔ ان کو بعد میں موجوں کی طرح جھولوں پر اضافی سمتی رفتار کے ساتھ حرکت دی جا سکتی ہے جس طرح سے سمندری لہریں ہوتی ہیں۔ اس کے بعد ذیلی جوہری ذرّات کی کرن اس پلازما کی لہر پر سفر کرتی ہے۔ مزید لیزر کی توانائی کو داخل کرکے پلازما کی موج تیز سمتی رفتار سے سفر کر سکتی ہے اس طرح سے وہ اپنے پر سوار ذرّاتی کرن کی توانائی کو بڑھاوا دیتی ہے۔ حال ہی میں 50 ٹیرا واٹ کی لیزر کو ایک ٹھوس ہدف پر مار کر انگلینڈ میں ردر فورڈ اپلیٹن لیبارٹری کے سائنس دانوں نے ایک پروٹون کی کرن کو پیدا کیا، جس نے ہدف سے 40 کروڑ الیکٹران وولٹ کی توانائی متوازی کرن کی صورت میں حاصل کی ۔ ایکولی پولی ٹیکنیک ، پیرس میں طبیعت دانوں نے الیکٹران کو 20 کروڑ الیکٹران وولٹ پر ایک ملی میٹر کے فاصلے پر اسراع دیا۔ لیزر اسراع گر اب تک جو بنائے گئے ہیں وہ بہت چھوٹے ہیں اور زیادہ طاقتور نہیں ہیں۔ تاہم اگر ہم فی الوقت یہ فرض کر لیں کہ ان کو اس پیمانے پر بنا لیا جائے گا جس پر یہ ملی میٹر کے بجائے پورے میٹر کے فاصلے پر کام کر سکیں گے تب یہ اس قابل ہوں گے کہ الیکٹران کو 200 گیگا الیکٹران وولٹ پر ایک میٹر کے فاصلے پر اسراع دے سکیں گے اور یوں یہ میز کے اوپر رکھے ہوئے اسراع گر کا مقصد پورا کر سکیں گے ۔ ایک اور سنگ میل ٢٠٠١ء میں اس وقت حاصل ہوا جب ایس ایل اے سی ( اسٹینفورڈ خطی اسراع گر مرکز) کے طبیعیات دان اس قابل ہو گئے کہ الیکٹران کو 1.4میٹر کے فاصلے پر اسراع دے سکیں۔ لیزر کی کرن کو استعمال کرنے کے بجائے انہوں نے پلازما کی موج کو بار دار ذرّات کو داخل کرکے حاصل کیا۔ ہرچند کہ انہوں نے جو توانائی حاصل کی تھی وہ پست تھی تاہم اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ پلازما کی موجوں کو ذرّات میٹر کے فاصلے تک اسراع دے سکتے ہیں۔

تحقیق کے اس میدان میں ہونے والی امید افزا پیش رفت کافی تیز ہے ان اسراع گروں کو حاصل ہونے والی توانائی ہر پانچ برس میں دس گنا بڑھ رہی ہے۔ اس شرح سے ایک تجرباتی میز پر رکھا ہوا اسراع گر ہماری پہنچ میں جلد آ سکتا ہے۔ اگر یہ کامیاب ہوا تو اس سے ایل ایچ سی کسی قدیم زمانے کی مشین دکھائی دے گی۔ ہرچند یہ امید افزا تو ہیں تاہم ان کی راہ میں حائل رکاوٹیں کافی ہیں۔ ایک لہر پر سفر کرنے والے سرفر کی طرح جو دغا باز لہر کی وجہ سے گر گیا ہو ، کرن کو اس طرح قائم رکھنا کہ وہ صحیح طور سے پلازما کی موج پر سفر کر سکے کافی مشکل کام ہے (مسائل میں کرن پر توجہ مرکوز رکھ کر اس کی پائیداری اور شدت کا قائم رکھنا شامل ہیں)۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جونا قابل تسخیر ہو۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نواں باب - 15​
اسٹرنگ کا مستقبل



اسٹرنگ کے نظرئیے کو ثابت کرنے کے لئے بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کے کامیاب ہونے کا امکان کافی کم ہے۔ ایڈورڈ ویٹن امید کرتے ہیں کہ بگ بینگ وقوع ہونے کے وقت کائنات اس تیزی سے پھیلی کہ ہو سکتا ہے کہ اس کے ساتھ اسٹرنگ بھی پھیل گئے ہوں اس طرح سے خلاء میں تیرتے ہوئے عظیم اسٹرنگ موجود ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں، "ہرچند کسی حد تک طلسماتی تو ہے لیکن اسٹرنگ نظرئیے کی تصدیق کے لئے یہ میرا پسندیدہ منظرنامہ ہے، کیونکہ کوئی بھی چیز اس مسئلہ کو اس طرح ڈرامائی طور پر حل نہیں کر سکتی جیسا کہ دوربین سے اسٹرنگ کو دیکھنا۔"


برائن گرین ان پانچ تجرباتی اعداد کی ممکنہ مثال کی فہرست دیتے ہیں جو اسٹرنگ کے نظرئیے کی تصدیق یا کم از کم اس کو معتبر بناتے ہیں۔

1۔حیران کن بھوت جیسے ذرّے نیوٹرینو کی کمیت کو تجرباتی طور پر جانا جا سکتا ہے اور شاید اسٹرنگ کا نظریہ اس کو بیان کر سکتا ہے۔

2۔معیاری نمونے کی چھوٹی خلاف ورزیاں پائی جا سکتی ہیں جو نقطے جیسے ذرّات کی طبیعیات کی خلاف ورزی ہوں گے مثلاً مخصوص ذیلی ذرّات کا انحطاط۔

3۔ نئے لمبے علاقے پر اثر انداز ہوتی ہوئی قوّتیں (قوّت ثقل اور برقی مقناطیسی قوّت کے علاوہ) تجرباتی طور پر پائی جا سکتی ہیں جو ایک حد تک کیلب یو کی طرف اشارہ کریں گی۔

4۔ تاریک مادّے کے ذرّات تجربہ گاہ میں پا لئے جائیں اور ان کا موازنہ اسٹرنگ نظرئیے سے کیا جائے۔

5۔ اسٹرنگ نظریہ شاید کائنات میں موجود تاریک توانائی کی مقدار کا حساب لگا سکے۔


میرا اپنا خیال یہ ہے کہ اسٹرنگ نظرئیے کی تصدیق مکمل طور پر تجربات کے بجائے ریاضیاتی طور پر ہو گی۔ کیونکہ اسٹرنگ نظریہ ہر شئے کا نظریہ ہے لہٰذا اس کو روزمرہ کی توانائی کے نظرئیے کے ساتھ ساتھ کونیاتی بھی ہونا چاہئے۔ لہٰذا اگر ہم نظرئیے کو مکمل طور پر حل کر لیتے ہیں تو ہم نہ صرف خلاء میں پائے جانے والے اجنبی مادّے بلکہ اس سے عام مادّی اجسام کی خصوصیات کو بھی نکال سکیں گے۔ مثال کے طور پر اگر اسٹرنگ کا نظریہ پروٹون، نیوٹران اور الیکٹران کی کمیت پہلے اصول سے نکال سکتا ہے تو یہ پہلا ترقی کا زینہ ہوگا۔ طبیعیات کے تمام نمونوں میں (سوائے اسٹرنگ کے) ان شناسا ذرّات کی کمیتوں کو ہاتھ سے ڈالنا پڑتا ہے۔ ایک طرح سے ہمیں اس نظرئیے کی تصدیق کے لئے ایل ایچ سی کی ضرورت ہی نہیں ہوگی کیونکہ ہمیں پہلے ہی ذیلی جوہری ذرّات کی کمیت کا معلوم ہوگا جن کی حیثیت کا تعین اسٹرنگ نظرئیے نے بغیر کسی رد و بدل کے کیا ہوگا۔

جیسا کہ آئن سٹائن نے کہا، " میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہم خالص ریاضی کے بل بوتے پر تصوّرات اور قوانین کو دریافت کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ جو قدرتی مظاہر کو سمجھنے کے لئے بنیادی ادراک فراہم کرتی ہے۔ تجربات موزوں ریاضیاتی خیالات کو تجویز کر سکتے ہیں تاہم یقینی طور پر ان کو اس سے نہیں اخذ کیا جا سکتا۔۔۔۔۔ ایک طرح سے میں سمجھتا ہوں کہ خالص خیال حقیقت کو سمجھ سکتا ہے جس طرح سے قدما کا خواب تھا۔"

اگر درست ہوا تو شاید ایم نظریہ (یا کوئی بھی نظریہ جو ہمیں کوانٹم کے قوّت ثقل کے نظرئیے تک پہنچا دے) کائنات میں موجود تمام ذی شعور مخلوق کے آخری سفر کو ممکن بنا دے گا ، آج سے کھرب ہا برس بعد مرتی ہوئی کائنات سے فرار حاصل کرکے نئے گھر کا سفر۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب - 1
ہر چیز کا خاتمہ



[غور کریں] زیادہ تر طبیعیات سمجھتے ہیں کہ سورج تمام سیاروں سمیت وقت کے ساتھ حیات کے لئے بہت ہی سرد جگہ بن جائے گی تاوقتیکہ کوئی عظیم جسم سورج میں گرے اور اس کو نئی زندگی عطا کر دے – یقین رکھئیے جیسا کہ میں رکھتا ہوں کہ مستقل بعید میں انسان آج کے مقابلے میں کافی مکمل مخلوق ہوگی، یہ ایک ناقابل برداشت بات ہے کہ اتنی طویل اور سست رفتار ترقی کے بعد اس کا اور تمام ذی حس ہستیوں کا مقدر مکمل فنا بن جائے ۔
- چارلس ڈارون


نورس تمثیل کے مطابق روز حساب زوال کے دیوتا انقلاب حیات کے ساتھ جلوہ گر ہوں گے ۔ اس وقت وسطی زمین اور فلک ہڈیوں کا گودا جما دینے والی سردی کے شکنجے میں ہوں گی۔ چیر دینے والی ہوائیں، خیرہ کر دینے والے برفیلے طوفان، کھنڈر کر دینے والے زلزلے اور خشک سالی زمین سے لپٹ جائے گی اور مرد و عورت بڑی تعداد میں بے بسی سے مرنے لگیں گے۔ تین سرما کے موسم بغیر کسی سکون کے اسی طرح سے زمین کو مفلوج کر دیں گے ۔ جبکہ خونخوار بھیڑیے سورج اور چاند کو کھا جائیں گے اور زمین کو مکمل تاریکی میں ڈبو دیں گے۔ فلک کے ستارے گرنے لگے گئیں، زمین کپکپانے لگے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ بلائیں آزاد ہو جائیں گی کیونکہ تباہی کا دیوتا لوکی فرار ہو کر جنگ، افراتفری اور بے چینی سنسان زمین پر پھیلائے گا۔

اوڈین دیوتاؤں کا باپ اپنے جانبازوں کو آخری مرتبہ ولہا لا میں حتمی لڑائی کے لئے جمع کرے گا۔ بالآخر جب دیوتا ایک ایک کرکے مر جائیں گے تو برائی کا دیوتا'سرتر' آگ اور گندھک کی پھونک مارے گا جس سے ایک عظیم الجثہ دوزخ جنم لے گی جو آسمان و زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ پوری کائنات آگ کی لپیٹوں میں لپٹی ہوئی ہوگی زمین سمندر میں ڈوب جائے گی اور وقت رک جائے گا۔

تاہم اس راکھ سے ایک نئی شروعات ہوگی۔ ایک نئی دنیا پہلے سے مختلف سمندر میں سے ظہور ہونا شروع ہوگی اور نئے پھل اور اجنبی پودے زرخیز مٹی سے نکلنا شروع ہوں گے اور ایک نئی نسل انسانی کو جنم دیں گے۔

وائی کنگ کا عظیم الجثہ انجماد جس کے بعد آگ کے شعلوں اور حتمی جنگ دنیا کے انجام کی ایک انتہائی اندوہناک کہانی بیان کرتی ہے۔ پوری دنیا کی اساطیری کہانیوں میں آپ کو اسی قسم کی چیزیں ملیں گی۔ دنیا کا خاتمہ ایک عظیم ماحولیاتی تباہی جو عام طور پر ایک عظیم آگ ، زلزلہ یا برفیلا طوفان ہوتا ہے اس سے ہوتی ہے اور حتمی جنگ نیکی اور بدی کے درمیان چلتی ہے۔ تاہم اس کے بعد ایک امید کا پیغام بھی موجود ہوتا ہے ۔ راکھ میں سے نئی زندگی جنم لیتی ہے۔

سائنس دان جو طبیعیات کے سرد قوانین کا سامنا کر رہے ہیں ان کو بھی اسی قسم کی چیزوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کہانیوں کے بجائے اعداد و شمار بتا تے ہیں کہ سائنس دان کائنات کے اختتام کو کس طرح سے دیکھ رہے ہیں۔ تاہم اسی طرح کے قیاس سائنسی دنیا میں بھی موجود ہیں۔ آئن سٹائن کی مساوات کے حل میں ہمیں اسی طرح کا ممکنہ مستقبل نظر آتا ہے جو جما دینے والا سرد، آگ اور تباہی سے لبریز ہوگا اور آخر میں کائنات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ تاہم کیا ایک حتمی جنم ہوگا؟

ڈبلیومیپ سیارچہ سے حاصل کردہ تصویر بتاتی ہے کہ ایک پراسرار ضد ثقل قوّت کائنات کے پھیلاؤ کو اسراع دے رہی ہے۔ اگر یہ ارب ہا یا کھرب ہا برسوں تک جاری رہی تو کائنات لامحالہ طور پر ایک عظیم انجماد تک جا پہنچے گی جو زوال کے دیوتاؤں کی کہانیوں جیسا ہی انجام ہوگا جس میں تمام معلوم حیات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ ضد ثقل قوّت کائنات کو کائنات کی مقدار کے تناسب سے الگ کر رہی ہے۔ پس جتنی بڑی کائنات ہوگی اتنا زیادہ ہی یہ ضد ثقل کائنات کو الگ کرے گی۔ یہ برائی کا چکر ابد تک جاری رہے گا تاوقتیکہ کائنات بے قابو ہو کر شارحانہ طور پر پھیل جائے گی۔


بالآخر مقامی جماعت کے جھرمٹ کی صرف چھتیس کہکشائیں ہی قابل مشاہدہ کائنات کو تشکیل دے رہی ہوں گی کیونکہ ارب ہا کہکشائیں ہمارے افق سے بھی دور چلی گئی ہوں گی۔ کہکشاؤں کے درمیان خلاء روشنی کی رفتار سے بھی تیز رفتار پھیل رہا ہوگا کائنات انتہائی ہولناک طریقے سے تنہائی کا شکار ہو جائے گی۔ درجہ حرارت گر جائے گا کیونکہ بچی ہوئی توانائی خلاء میں مہین سے مہین تر ہوتی چلی جائے گی۔ جب درجہ حرارت مطلق سفر تک گر جائے گا ذی شعور نوع کو اپنے حتمی مقدر یعنی کہ منجمد ہو کر فنا ہونے کا سامنا کرنا ہوگا ۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب - 2

حرحرکیات کے تین قوانین




اگر تمام دنیا ایک سیج ہے جیسا کہ شیکسپیئر نے کہا تھا تب حتمی طور پر ایک ایکٹ سوم بھی ہوگا۔ ایکٹ اوّل میں ہمارے پاس بگ بینگ اور زمین پر ذی شعور حیات کا ظہور ہے۔ ایکٹ دوم میں شاید ہم ستاروں اور کہکشاؤں کی تلاش اپنا دوسرا مسکن حاصل کرنے کے لئے کریں گے۔ بالآخر ایکٹ سوم میں ہمیں کائنات کی موت ایک عظیم انجماد کی صورت میں ملے گی۔

بالآخر ہم دیکھتے ہیں کہ اسکرپٹ کو حرحرکیات کے قوانین کی پاسداری کرنی ہے۔ انیسویں صدی میں طبیعیات دانوں نے حر حرکیات کے تین قوانین کو بنایا جو حرارت کی طبیعیات سے متعلق تھے اس طرح سے انہوں نے کائنات کی موت کے بارے میں اندازے قائم کرنا شروع کر دیئے۔ 1854ء میں عظیم جرمن طبیعیات دان ہرمین وان ہیلم ہولٹز کو اس بات کا احساس ہوا کہ حر حرکیات کے قوانین کا اطلاق کل کائنات پر ہو سکتا ہے یعنی کہ ہمارے گرد موجود ہر چیز بشمول ستارے اور کہکشاؤں کو بالآخر ختم ہو جانا ہے۔

پہلا قانون کہتا ہے کہ مادّے اور توانائی کی کل مقدار قائم رہے گی۔ ہرچند کہ مادّہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں (آئن سٹائن کی مشہور زمانہ مساوات کے ذریعہ یعنی ای = ایم سی 2 ) تاہم مادّے اور توانائی کی کل مقدار کو بنایا یا تباہ نہیں کیا جا سکتا۔

دوسرا قانون سب سے زیادہ پراسرار اور بہت ہی عمیق اثر رکھتا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ ناکارگی (تباہی یا انتشار) کی کائنات میں کل مقدار میں ہمیشہ اضافہ ہوگا۔ بالفاظ دیگر ہر چیز اپنی عمر پوری کرکے ختم ہو جائے گی۔ جنگلات میں آگ، مشینوں میں زنگ کا لگنا، سلطنتوں کا زوال، اور انسانی جسم پر بڑھاپے کا طاری ہونا تمام کے تمام کائنات میں ناکارگی میں اضافے کو بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی کاغذ کے ٹکڑے کو آگ لگانا بہت آسان ہے۔ اس سے کل انتشار میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم یہ ممکن نہیں ہے کہ دھوئیں کو واپس کاغذ کی شکل دی جا سکے۔ (ناکارگی کو میکانکی کام کے ذریعہ کم کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ریفریجریٹر میں ، تاہم یہ کام کم پیمانے پر آس پاس ہی کیا جا سکتا ہے؛ پورے نظام کی ناکارگی -بشمول ریفریجریٹر اور ارد گرد کے ماحول کی - ہمیشہ بڑھے گی۔)

آرتھر ایڈنگٹن نے ایک مرتبہ دوسرے قانون کے بارے میں کہا تھا: " قانون جو یہ کہتا ہے کہ ناکارگی ہمیشہ بڑھے گی - یعنی حر حرکیات کا دوسرا قانون - میرے خیال میں قدرت کے قوانین میں سب سے اہم ہے ۔۔۔۔۔ اگر آپ کا کوئی نظریہ حر حرکیات کے دوسرے قانون کے خلاف ہے تو میں آپ کو کوئی امید نہیں دلاؤں گا؛ اس کا مقدر ذلت کے اندھیروں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔"

(ابتداء میں ایسا لگا کہ پیچیدہ حیات کی شکل نے دوسرے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ایسا لگتا ہے کہ زمین کے ابتدائی انتشاری حالات میں سے ناقابل تصوّر پیچیدہ بوقلمونی والی حیات کا ظہور ہوا جس میں ذہانت اور شعور بھی تھا اس طرح سے انہوں نے ناکارگی کو کم کیا۔ کچھ لوگ اس معجزے کو کریم خالق کا کام بتاتے ہیں۔ تاہم یہ بات یاد رکھیں کہ حیات کا ظہور ارتقا کے قدرتی قوانین کے ہاتھوں ہوا ہے، اور کل ناکارگی اس وقت بھی بڑھتی ہے۔)

تیسرا قانون کہتا ہے کہ کوئی بھی ریفریجریٹر مطلق صفر تک نہیں پہنچ سکتا۔ کچھ بھی کر لیں آپ مطلق سفر سے تھوڑا اوپر ہی درجہ حرارت تک جا سکتے ہیں اس سے نیچے نہیں ، آپ کبھی بھی صفر حرکت کی حالت تک نہیں پہنچ سکتے۔ (اور اگر ہم کوانٹم کا نظریئے کا اطلاق کر دیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سالموں میں ہمیشہ تھوڑی توانائی کی مقدار باقی رہے گی، کیونکہ صفر توانائی کا مطلب ہوگا کہ ہم ہر سالمے کی صحیح جگہ اور صحیح سمتی رفتار معلوم کر سکتے ہیں جو اصول عدم یقین کی خلاف ورزی ہوگی۔)

اگر دوسرے قانون کا اطلاق پوری کائنات پر کیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ کائنات بالآخر ختم ہو جائے گی ۔ ستارے اپنا ایندھن پھونک دیں گے، کہکشائیں آسمان فلک کو روشن کرنا بند کر دیں گی اور کائنات ایک حیات کے بغیر مردہ بونے ستاروں، نیوٹران ستاروں اور بلیک ہولز کا مجموعہ رہ جائے گی۔ کائنات ابدی تاریکی میں گر جائے گی۔

کچھ ماہرین کونیات اس مقدر سے کنی کتراتے ہوئے "گرم موت" کا تصوّر پیش کرتے ہیں جس میں کائنات جھول رہی ہوتی ہے۔ ناکارگی مسلسل بڑھے گی کیونکہ کائنات پھیلے اور سکڑے گی۔ تاہم عظیم چرمراہٹ کے بعد یہ نہیں معلوم کہ کائنات میں ناکارگی کا کیا ہوگا۔ کچھ یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ کائنات شاید اسی طرح اگلے چکر میں اپنے آپ کو دہرائے گی۔ سب سے زیادہ حقیقی منظرنامہ یہ ہے کہ ناکارگی اپنے آپ کو اگلے چکر میں بھی شامل رکھے گی یعنی کائنات کی حیات کا دور ہر چکر کے ساتھ بڑھتا چلا جائے گا۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آپ سوال کو کس طرح سے دیکھ رہے ہیں ، جھولتی ہوئی کائنات کھلی اور بند کائنات کی طرح بالآخر تمام ذہین مخلوق کے خاتمے پر ہی منتج ہوگی۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب - 3
عظیم چرمراہٹ








طبیعیات کا اطلاق کرتے ہوئے کائنات کے خاتمے کو بیان کرنے کی پہلی کوشش 1969ء میں ایک مقالہ میں سر مارٹن ریس نے بعنوان "کائنات کا ڈھنا : ایک معادیاتی تحقیق ۔" کے کی۔ اس وقت اومیگا کی قدر کچھ زیادہ صحیح معلوم نہیں تھی لہٰذا اس قدر کو دو فرض کرلیا تھا یعنی کائنات بالآخر پھیلنے سے رک جائے گی اور ایک عظیم انجماد کے بجائے عظیم چرمراہٹ میں ختم ہوگی۔

اس سے حساب لگایا کہ کائنات کا پھیلاؤ بالآخر اس وقت رک جائے گا جب کہکشائیں آج سے دگنے فاصلے پر ہوں گی اور جب قوت ثقل کائنات کے اصل پھیلاؤ پر غالب آ جائے گی۔ آسمان میں نظر آنے والی سرخ منتقلی نیلی منتقلی میں بدل جائے گی کیونکہ کہکشائیں ہماری جانب دوڑ لگانا شروع کر دیں گی۔

اس منظر نامے میں آج سے 50 ارب برس بعد قیامت سامان واقعات وقوع پذیر ہونے شروع ہوں گے جو کائنات کے حتمی موت کے ہرکارے ہوں گے۔ حتمی چرمراہٹ کے دس کروڑ برس پہلے کائنات میں موجود کہکشائیں بشمول ہماری ملکی وے کہکشاں کے ، ایک دوسرے سے ٹکرانا شروع ہو جائیں گی اور آخر میں ایک دوسرے میں ضم ہو جائیں گی۔ حیرت انگیز طور پر ریس کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ انفرادی ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے سے پہلے ہی تحلیل ہو جائیں گے جس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی کائنات میں موجود دوسرے ستاروں کی تابکاری سکڑتی کائنات کے ساتھ توانائی حاصل کرنا شروع کرے گی؛ اس طرح سے ستارے دوسرے ستاروں کی جھلسا دینے والی نیلی منتقلی میں نہا جائیں گے۔ دوسرے پس منظر کی خرد امواج کا درجہ حرارت وسیع طور پر بڑھ جائے گا کیونکہ آسمان کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہوگا۔ ان دونوں کے اثر مل کر ایسا درجہ حرارت پیدا کریں گے جو ستاروں کی سطح کے درجہ حرارت سے بڑھ جائے گا، جس کی وجہ سے وہ حرارت کو خارج کرنے سے زیادہ تیزی سے حرارت جذب کرنا شروع کر دیں گے۔ بالفاظ دیگر ستارے غالباً الگ ہو کر ایک فوق گرم گیس کے بادل میں پھیل جائیں گے۔

اس قسم کی صورتحال میں ذی شعور حیات قریبی ستاروں اور کہکشاؤں سے آتی ہوئی کونیاتی حرارت کی وجہ سے لازمی طور پر ختم ہو جائے گی۔ فرار کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ جیسا کہ فری مین ڈائی سن نے لکھا " افسوس اس صورت میں یہی نتیجہ نکال سکتا ہوں کہ ہمارے پاس بھننے سے فرار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑے گا ہم جتنا بھی زمین کی گہرائی میں جا کر اپنے آپ کو نیلی منتقلی کی پس منظر کی اشعاع سے بچانے کی کوشش کریں ، اس سے ہم اپنے بے بسی کے خاتمے کو صرف چند لاکھ برس تک ہی آگے بڑھا سکتے ہیں۔"

اگر کائنات عظیم چرمراہٹ کی طرف گامزن ہے تو اصل سوال یہ ہے کہ آیا کائنات منہدم ہو کر دوبارہ اٹھے گی جیسا کہ جھولتی ہوئی کائنات کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ یہی چیز پال اینڈرسن کے ناول تاؤ زیرو میں لی گئی ہے۔ اگر کائنات نیوٹنی ہے تو یہ ممکن ہو سکتا ہے اگر کہکشائیں ایک دوسرے میں گھس گئیں تو شاید اطراف میں کافی حرکت ہوگی۔ اس صورت میں ستارے کسی ایک نقطہ پر مرکوز نہیں ہوں گے بلکہ شاید دبنے کی انتہا پر ایک دوسرے سے دور ہوں اور ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر دوبارہ سے نمودار ہو جائیں۔

کائنات بہرحال نیوٹنی نہیں ہے؛ یہ آئن سٹائن کی مساوات کی پابند ہے۔ راجر پنروز اور اسٹیفن ہاکنگ نے دکھایا کہ بہت ہی عمومی صورتحال میں ایک منہدم ہوتی ہوا کہکشاؤں کا مجموعہ لازمی طور پر دبتا ہوا وحدانیت میں بدل جائے گا۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ کہکشاؤں کے اطراف کی حرکت میں توانائی موجود ہوگی اور وہ قوّت ثقل سے تعامل کرے گی۔ پس آئن سٹائن کے نظریئے میں موجود ثقلی کھنچاؤ منہدم ہوتی کائنات کے سلسلے میں نیوٹنی نظریئے سے کہیں زیادہ ہے اور کائنات ایک نقطہ پر منہدم ہو جائے گی۔)​
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب - 4
کائنات کے پانچ مرحلے - حصّہ اول



ڈبلیومیپ سیارچے سے حاصل ہونے والا حالیہ ڈیٹا عظیم انجماد کا اشارہ کر رہا ہے۔ کائنات کی حیات کی تاریخ کا تجزیہ کرنے کے لئے یونیورسٹی آف مشی گن کے سائنس دانوں فریڈ ایڈم اور گریگ لافلن نے کوشش کی ہے کہ کائنات کی حیات کو پانچ مختلف مراحل میں بانٹ دیں۔ کیونکہ ہم اصل میں فلکیاتی وقت کے پیمانے کی بات کر رہے ہیں لہٰذا ہم لوگارتھمی وقت کا پیمانہ استعمال کریں گے۔ لہٰذا 1020 کا مطلب 20 ہوگا۔ (یہ وقت کا پیمانہ اسراع پذیر کائنات کے اثرات کو جانے بغیر بنایا گیا تھا۔ تاہم کائنات کے مراحل عمومی طور پر یہی رہیں گے۔)


وہ سوال جو ہمارا پیچھا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ذہین نوع اپنی ذہانت کا استعمال باقی رہنے کے لئے، ان مختلف مراحل کے دوران جس میں قدرتی تباہی کے سلسلے یہاں تک کہ کائنات کی موت بھی شامل ہے، کر سکتی ہے؟

مرحلہ اوّل : قدیمی دور
پہلے مرحلے میں (منفی 50 اور 5 یا 10-50 اور 105 کے درمیان ) کائنات ایک تیز رفتار پھیلاؤ سے گزرتی ہوئی تیزی سے ٹھنڈی ہوئی۔ ٹھنڈے ہوتے ہوئے کافی قوّتیں جو پہلے "فوق قوّت " کی صورت میں متحد تھیں بتدریج الگ ہوتی گئیں اور ہماری شناسا چار قوّتوں میں بٹ گئیں۔ قوّت ثقل سب سے پہلے الگ ہوئی، اس کے بعد مضبوط نیوکلیائی قوّت، اور بالآخر کمزور نیوکلیائی قوّت۔ شروع میں کائنات گدلی تھی اور آسمان سفید تھا کیونکہ روشنی بنتے ہی جذب ہو گئی تھی۔ تاہم 380 ہزار برس کے بعد کائنات اتنی ٹھنڈی ہو گئی کہ جوہر آپس میں ٹکرا کر شدید حرارت سے الگ ہونے کے بجائے قائم رہ سکیں ۔ آسمان کالا ہو گیا۔ پس منظر کی اشعاع اسی دور سے تعلق رکھتی ہیں۔

اس دور میں، قدیمی ہائیڈروجن ہیلیئم میں گداخت ہو گئی اور یوں حالیہ دور میں استعمال ہونے والے نجمی ایندھن کی تخلیق ہوئی جو تمام کائنات میں پھیلا ہوا ہے۔ کائنات کے ارتقا کے اس مرحلے پر ہماری معلوم حیات کا وجود ناممکن تھا۔ حرارت اس قدر شدید تھی کہ کوئی بھی ڈی این اے یا دوسرا خود عمل انگیز منحنی سالمہ دوسرے جوہروں کے ساتھ اٹکل پچو ہونے والے تصادموں میں پاش پاش ہو جاتے اور حیات کو ممکن بنانے والے کیمیائی عناصر کو بنا نہ پاتے۔

مرحلہ دوم: ستاروں بھرا دور
آج ہم مرحلے دوم (6 اور 14 کے درمیان یا 106 یا 1014 سیکنڈ کے درمیان رہ رہے ہیں)، جب ہائیڈروجن گیس کو دبا کر ستارے جل کر آسمان کو روشن کرنے لگے۔ اس دور میں ہم ہائیڈروجن سے لبریز ستاروں کو دیکھتے ہیں جو ارب ہا برس تک جلتے رہیں گے تاوقتیکہ اپنا ایندھن پھونک نہ ڈالیں۔ ہبل خلائی دوربین نے ستاروں کی تصاویر کو ان کے ارتقا کے تمام مراحل میں لیا ہے جس میں طفلی ستارے گھومتی ہوئی گرد و غبار کی قرص گھرے ہوئے ہیں جو شاید سیاروں اور نظام ہائے شمسی کے پیش رو ہیں۔

اس مرحلے میں ڈی این اے اور حیات کو بنانے کی صورتحال مثالی ہے۔ قابل مشاہدہ کائنات میں ستاروں کی زبردست تعداد کو دیکھتے ہوئے ماہرین فلکیات معلوم سائنس کے قوانین کی بنیاد پر دوسرے نظام ہائے سیارگان پر ذی شعور مخلوق کے ابھرنے سے متعلق معقول دلائل دیتے ہیں۔ تاہم کسی بھی ذی شعور حیات کی شکل کو کئی کونیاتی مسائل کو سامنا کرنا ہوگا ، کچھ تو اس کے خود ہی بنائے ہوئے ہوں گے جیسا کہ آلودگی، عالمگیر حرارت اور نیوکلیائی ہتھیار۔ فرض کریں کہ ذہین مخلوق اپنے آپ کو تباہ نہیں کرتی تب اس کو لازمی طور پر قدرتی تباہی کے سلسلے کا سامنا کرنا ہوگا جس میں سے کوئی بھی اس کو تباہ کر دے گا۔

دس ہزار ہا برس کے وقت کے پیمانے پر کوئی برفیلا دور ہو سکتا ہے ایسا جس نے شمالی امریکا کو ایک میل گہری برف میں دفن کر دیا تھا ، یوں انسانی تہذیب کا پروان چڑھنا ناممکن ہوگا۔ دس ہزار برس سے پہلے انسانی زندگی بھیڑیوں کے غول کی طرح خوراک کی تلاش میں چھوٹے اور الگ قبیلوں میں رہتے ہوں۔ سائنس یا علم کی کوئی جمع پونجی نہ ہو۔ کوئی لکھی ہوئی چیز نہ ہو۔ انسانیت کا بس ایک ہی مقصد ہو : زندہ رہنا۔ پھر کسی وجہ سے برفیلا دور ختم ہو گیا ہو جس کی وجہ کو ہم نہیں جانتے اور پھر انسان تیزی سے برف سے ستاروں پر کمند ڈالنے کے لئے تیار ہو گیا ہو۔ بہرحال یہ بین ثلجین دور بھی ہمیشہ باقی رہنے کے لئے نہیں ہے۔ شاید ایک اور دس ہزار برس کے بعد ایک اور برفیلا دور پوری دنیا کو برف کی لپیٹ میں لے لے گا۔ ماہرین ارضیات کو یقین ہے کہ زمین کے محور کے گرد گھماؤ میں ہونے والی چھوٹی تبدیلیاں بالآخر برف کی چوٹیوں کو نیچے ارتفاع پر بہنے کی اجازت دیتی ہیں جس سے زمین جما دینے والی برف سے ڈھک جاتی ہے۔ اس وقت ہم شاید زمین کے اندر اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لئے چلے جائیں گے۔ کبھی زمین پوری برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ یہ دوبارہ بھی ہو سکتا ہے۔

ہزار ہا برس سے لے کر دس لاکھ برس کے پیمانے پر ہمیں لازمی طور پر سیارچوں اور شہابیوں کے حملوں کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ شہابیے یا سیارچے کے تصادم نے ہی 6 کروڑ 50 لاکھ برس پہلے ڈائنوسارس کا خاتمہ کر دیا تھا۔ سائنس دانوں کو یقین ہے کہ خلائی ماورائے ارضی جسم نےمیکسیکو کے جزیرہ نما یوکاتان کو کھود ڈالا تھا جس سے 180 میل پر پھیلا ہوا شہابی گڑھا بنا اور اتنا گرد و غبار نکلا جس نے ماحول کو ڈھانک کر سورج کی روشنی کو اپنی اوٹ میں چھپا لیا تھا اور زمین پر اندھیرا کر دیا تھا یوں زمین پر جما دینے والے درجہ حرارت نے نباتاتی حیات اور اس وقت زمین پر حکمرانی کرنے والے ڈائنوسارس کو ختم کر دیا تھا۔ ایک برس کے عرصے سے بھی کم وقت میں ڈائنوسارس اور زمین پر زیادہ تر نوع ختم ہو گئیں تھیں۔

ماضی کے تصادموں کی شرح کو دیکھتے ہوئے ایک لاکھ میں سے ایک کے اتفاقا وقوع ہونے کا امکان ہے کہ اگلے پچاس برسوں میں ایک سیارچے کا تصادم پوری دنیا میں تباہی پھیلا سکتا ہے۔ دسیوں لاکھوں برس میں ایسے کسی اتفاق کی شرح بڑھ کر شاید سو فیصد ہو سکتی ہے۔

(اندرونی نظام شمسی جہاں پر زمین واقع ہے، وہاں اندازاً ایک ہزار سے پندرہ سو کے قریب سیارچے ایسے ہیں جو ایک کلومیٹر یا اس سے بڑے ہیں اور دس لاکھ کے قریب 50 میٹر یا اس سے بڑے سیارچے موجود ہیں۔ کیمبرج کی اسمتھ سونین فلکی طبیعیاتی رصدگاہ میں کیا جانے والے مشاہدے میں پندرہ ہزار روزانہ کی شرح سے سیارچوں کا زمین سے ٹکرانا معلوم ہوا ہے۔ خوش قسمتی سے صرف بیالیس معلوم سیارچے ایسے ہیں جن کا زمین سے ٹکرانے کا محدود امکان ہے۔ ماضی میں ان سیارچوں کے ٹکرانے سے متعلق کچھ غلط اشارے بھی ملے ہیں، سب سے مشہور سیارچہ 1997XF11 تھا جس کے بارے میں ماہرین فلکیات نے غلطی سے تیس برس کے اندر زمین سے ٹکرانے کا اندازہ لگا لیا تھا جس سے پوری دنیا میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ تاہم ایک سیارچے 1950DA کا محتاط اندازہ لگانے کے بعد سائنس دانوں نے حساب لگایا کہ اس بات کا امکان اگرچہ صفر تو نہیں ہے تاہم کم ہے کہ یہ شاید زمین سے 16مارچ 2880ء میں زمین سے ٹکڑا جائے۔ سانتا کروز میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں کی گئی کمپیوٹر نقل نے بتایا کہ اگر یہ سیارچہ سمندروں سے ٹکرایا تو یہ 400 فٹ بلند لہریں پیدا کرے گا جو زیادہ تر ساحلی علاقوں کو تباہ کن سیلاب کی صورت میں نگل لے گا۔)

ایک ارب برس کے پیمانے پر ہمیں اس بات کی فکر کرنی ہوگی کہ سورج زمین کو نگل جائے گا۔ سورج پہلے ہی اپنی عہد طفلی کے دور کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ گرم ہو گیا ہے۔ کمپیوٹر سے کی گئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ تین ارب 50 کروڑ برس میں سورج آج کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ گرم ہوگا یعنی زمین بتدریج گرم ہوتی جائے گی۔ دن کے آسمان میں سورج بڑے سے بڑا ہوتا نظر آتا جائے گا تاوقتیکہ افق تا افق زیادہ تر آسمان کو ڈھانک لے ۔ کم عرصے کے درمیان زندہ مخلوق بے بسی کی حالت میں سورج کی جلا دینے والی حرارت سے جائے پناہ تلاش کر رہی ہوں گی۔ شاید وہ مجبور ہو کر سمندر میں واپس چلی جائیں اور یوں ارتقا کی تاریخ اس سیارے پر پلٹ جائے ۔ بالآخر سمندر بھی ابل جائیں گے اور ہماری جانی پہچانی حیات کا وجود قائم رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ 5 ارب برس بعد سورج کے قلب میں ہائیڈروجن ختم ہو جائے گی اور وہ سرخ دیو میں منقلب ہو جائے گا۔ کچھ سرخ ستارے تو اتنا دیوہیکل ہوتے ہیں کہ وہ اگر ہمارے سورج کی جگہ ہوتے تو مریخ تک ہر چیز نگل جاتے۔ تاہم ہمارا سورج ممکنہ طور پر صرف زمین کے مدار تک ہی پھیلے گا اور عطارد اور زہرہ کو نگلتا ہوا زمین کے پہاڑوں کو پگھلا دے گا۔ لہٰذا ہماری زمین کا مقدر برف کے بجائے آگ کی موت ہوگا اور مرنے کے بعد ایک جلی ہوئی سوختہ لاش سورج کے گرد چکر لگانے کو باقی بچ جائے گی۔

کچھ طبیعیات دان کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ یہ واقعہ وقوع پذیر ہو اگر ہم کسی دیوہیکل خلائی کشتی میں زمین سے دوسرے سیارے کی طرف ہجرت نہ کر سکے تو ہمیں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے زمین کو سورج کے گرد بڑے مدار میں اٹھا کر رکھ دینا چاہئے۔ " جب تک لوگ سورج کے زیادہ روشن ہونے سے پہلے ذہین اور برق رفتار ہوں گے تو زمین زندہ رہے گی،" یہ ماہر فلکیات اور مصنف کین کراس ویل کہتے ہیں۔

سائنس دانوں نے زمین کو اس کے سورج کے گرد دور حاضر کے مدار سے اٹھا کر کہیں اور رکھنے کے کئی طریقے پیش کئے ہیں۔ ایک سادہ طریقہ تو یہ ہے کہ احتیاط کے ساتھ سیارچوں کے سلسلے کو سیارچوں کی پٹی سے لاکر زمین کے قریب زور سے گزارا جائے۔ غلیل کا یہ اثر زمین کے مدار کو افزودہ کرکے اس کا فاصلہ سورج سے بڑھا دے گا۔ ہر مرتبہ زمین بتدریج حرکت کرے گی تاہم سینکڑوں سیارچوں کو اس طرح سے استعمال کرنے کے لئے کافی وقت درکار ہوگا۔ "سورج کے سرخ دیو میں بدلنے سے پہلے کافی ارب برسوں کے دوران ہماری نسل کسی گزرتے تارے کو پھانس کر سورج کے گرد مدار میں ڈال سکتی ہے اور پھر اپنے شمس کے گرد مدار کو ترک کرکے خود کو نئے ستارے کے مدار میں ڈال سکتی ہے ،" کراس ویل مزید اضافہ کرتے ہیں۔

ہمارے سورج کا مقدر زمین سے الگ ہوگا، یہ آگ کے بجائے برف میں منجمد ہو کر مرے گا۔ 70 کروڑ برس تک ہیلیئم کو بطور سرخ دیو جلانے کے بعد بالآخر سورج اپنا زیادہ تر نیوکلیائی ایندھن پھونک چکا ہوگا اور قوّت ثقل اس کو ایک سفید بونے میں تبدیل کر چکی ہوگی جس کا حجم لگ بھگ زمین کے جتنا ہوگا۔ ہمارے سورج سپرنووا اور پھر بلیک ہول بننے کے لئے کافی چھوٹا ہے۔ جب ہمارا سورج سفید بونا بن جائے گا اور آخر میں ٹھنڈا ہو جائے گا اس کے بعد مدھم سرخ رنگ میں چمکتا رہے گا پھر بھورا ہوگا اور آخر میں کالا ہو جائے گا۔ یہ کونیاتی خلاء میں مردہ نیوکلیائی فضلے کی صورت میں گھومتا رہے گا۔ اپنے ارد گرد دیکھے جانے والے تمام جوہروں کا مستقبل بشمول ہمارے اور ہمارے پیاروں کے اجسام کا مستقبل ایک جلے ہوئے کالے بونے ستارے کے گرد گھومتے ہوئے ہوگا۔ کیونکہ یہ بونا ستارہ صرف سورج کی کمیت کا 0.55 ہوگا لہٰذا زمین پر جو بھی کچھ بچا ہوا ہوگا وہ آج سے مزید 70 فیصد دور مدار میں چلا جائے گا۔


اس پیمانے پر ہم دیکھتے ہیں کہ نباتات اور جمادات کی بہار زمین پر صرف ایک ارب برس تک ہی قائم رہ سکتی ہے ( اور ہم اس سنہری دور کا نصف حصّہ طے کر چکے ہیں )۔ "اماں قدرت نے اس طرح چیزوں کو نہیں بنایا کہ ہمیں خوش رکھے،" ماہر فلکیات ڈونلڈ براؤن لی کہتے ہیں۔ کائنات کی عمر سے موازنہ کرتے ہوئے حیات کی بہار تو وقت میں بہت ہی مختصر عرصے کے لئے قائم ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب - 5
کائنات کے پانچ مرحلے - حصّہ دوم


مرحلہ سوم: انحطاطی دور
تیسرے مرحلے میں 15 اور 39 کے درمیان) کائنات میں موجود ستاروں کی توانائی بالآخر ختم ہو جائے گی۔ ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے جلنے کا ازلی لگنے والا عمل رک جائے گا اور اپنے پیچھے مردہ نیوکلیائی مادّے کے ٹکڑے بونے ستاروں، نیوٹران ستاروں اور بلیک ہول کی شکل میں چھوڑ دیں گے۔ آسمان میں موجود ستارے دمکنا بند کر دیں گے اور کائنات بتدریج تاریکی میں ڈوبتی جائے گی۔

مرحلہ سوم میں درجہ حرارت ڈرامائی طور پر گر جائے گا کیونکہ ستارے اپنا نیوکلیائی انجن کھو دیں گے۔ بفرض محال کہ زمین اس وقت تک باقی بچی رہ بھی گئی تو اس کی سطح پر جو کچھ بھی ہوگا وہ برف کی چادر میں بدل چکا ہوگا اور ذہین مخلوق کو مجبور کر دے گا کہ وہ نئے گھر کی تلاش کرے۔

اگرچہ دیوہیکل ستارے کچھ دسیوں لاکھ برس تک زندہ رہتے ہیں جبکہ ہائیڈروجن جلانے والے ستارے جیسا کہ ہمارا سورج ہے کچھ ارب ہا برس تک زندہ رہ سکتا ہے، چھوٹے سرخ ستارے حقیقت میں کھرب ہا برس تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا مدار کسی بونے ستارے میں بدلنے کے نظریئے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ زمین سے سب سے قریبی ستارہ پروکسیما قنطورس ہے جو ایک سرخ بونا ستارہ ہے جس کا فاصلہ زمین سے صرف4.3 برس کا ہے۔ ہمارا قریبی پڑوسی سورج کی کمیت کا صرف 15 فیصد ہے اور سورج سے چار سو گنا کم مدھم ہے، لہٰذا اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے کسی بھی سیارے کو اس کے انتہائی نزدیک ہونا ہوگا تاکہ اس کی مدھم شمسی توانائی سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ زمین کو سورج کے گرد اپنے موجودہ مدار کی نسبت 20 گنا زیادہ قریب چکر لگانا ہوگا تاکہ اتنی ہی سورج کی روشنی کو حاصل کر سکے۔ تاہم ایک مرتبہ کوئی سیارہ کسی سرخ بونے ستارے کے گرد آگیا تو سیارے کے پاس اتنی توانائی ہوگی کہ وہ کھرب ہا برس تک اس پر گزارا کر سکتا ہے۔

آخر میں وہ ستارے جو اپنا نیوکلیائی ایندھن جلانا جاری رکھیں گے وہ سرخ بونے ہوں گے ۔ بہرصورت وقت کے ساتھ یہ بھی تاریک ہو جائیں گے۔ ایک ہزار کھرب برسوں میں باقی ماندہ سرخ بونے بھی ختم ہو جائیں گے۔

مرحلہ چہارم: بلیک ہول کا دور
چوتھے مرحلے میں (40 سے 100 کے درمیان) توانائی کا صرف ایک ہی ذریعہ باقی بچے گا وہ ہے تبخیر ہوتے بلیک ہولز کی توانائی۔ جیسا کہ جیکب بیکنس ٹین اور اسٹیفن ہاکنگ نے دکھایا کہ بلیک ہولز اصل میں تاریک نہیں ہیں؛ وہ اصل میں قلیل مقدار میں توانائی کا اخراج کرتے ہیں جس کو تبخیر کہتے ہیں۔ (عملی طور پر یہ بلیک ہول کی تبخیر اس قدر چھوٹی ہوتی ہے کہ تجرباتی طور پر اس کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا، تاہم لمبے عرصے کے پیمانے پر تبخیر بلیک ہول کے حتمی مقدر کا فیصلہ کرے گی۔)

بلیک ہولز کے تبخیر ہونے کے مختلف حیاتی ادوار ہو سکتے ہیں۔ ایک چھوٹا بلیک ہول جس کا حجم ایک پروٹون کے جتنا ہو شاید 10 ارب واٹ توانائی کا اخراج نظام شمسی کی عمر تک کرتا رہے۔ سورج کے وزن کے جتنا بلیک ہول 1066 برس تک تبخیر کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ ایک بلیک ہول جس کا وزن کسی کہکشانی جھرمٹ جتنا ہو وہ 10^117 برس تک تبخیر کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ بہرحال جب بلیک ہول اپنی زندگی کے اختتام کی جانب حرارت کا اخراج آہستہ آہستہ کرتے ہوئے بڑھے گا تو وہ اچانک پھٹ پڑے گا۔ یہ ممکن ہے کہ ذہین حیات ، جس طرح بے گھر افراد کی طرح مرتی ہوئی آگ کے انگاروں کے پاس سکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، اس طرح مدھم حرارت خارج کرتے ان تبخیر ہوتے بلیک ہولز کے گرد جمع ہو جائیں تاکہ ان سے کچھ حرارت کو حاصل کیا جا سکے تاوقتیکہ وہ مکمل تحلیل ہو جائیں۔


مرحلہ پنجم: تاریک دور
پانچویں مرحلے میں (101 سے آگے) ہم کائنات کے تاریک دور میں داخل ہو جائیں گے جب حرارت کے تمام منبع ختم ہو چکے ہوں گے۔ اس مرحلے پر کائنات حرارتی موت کی طرف آہستہ سے محو پرواز ہوگی کیونکہ درجہ حرارت مطلق صفر کے قریب پہنچ چکا ہوگا۔ اس مرحلے پر جوہر خود سے حرکت کرنا بند کر دیں گے۔ شاید پروٹون خود سے انحطاط پذیر ہو جائیں گے اور صرف فوٹون کا تیرتا ہوا سمندر اور مہین شوربہ کمزور تعاملی ذرّات (نیوٹرینو، الیکٹران، اور ان کے ضد ذرّات یعنی پوزیٹرون )کو اپنے پیچھے چھوڑ دیں گے۔ کائنات شاید ایک نئی قسم کے جوہر پر مشتمل ہوگی جس کو پوسٹرونیم کہیں گے۔ جو الیکٹران اور پوزیٹرون پر مشتمل ہوں گے جو ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہے ہوں گے۔

کچھ طبیعیات دان رائے دیتے ہیں کہ یہ الیکٹران اور ضد الیکٹران کے "جوہر" شاید اس قابل ہوں کہ نئی قسم کی ذہین حیات کو اس تاریک دور میں جنم دے سکیں۔ بہرحال اس تصوّر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مشکلات بہت ہی مہیب ہیں۔ پوسٹر ونیم کا جوہر حجم میں عام جوہر جتنا ہی ہوگا۔ تاہم تاریک دور کا پوسٹرونیم آج کی قابل مشاہدہ کائنات سے کروڑ ہا گنا زیادہ بڑا لگ بھگ 10^12 میگا پار سیک پر پھیلا ہوگا ۔ لہٰذا اس تاریک دور میں جوہر بن سکتے ہیں تاہم ان کا حجم پوری کائنات جتنا ہوگا۔ کیونکہ کائنات تاریک دور میں زبردست فاصلے تک پھیل چکی ہوگی لہٰذا وہ آسانی کے ساتھ ان دیوہیکل پوسٹرونیم کے جوہروں کو سما لے گی۔ تاہم کیونکہ یہ پوسٹرونیم کے جوہر بہت بڑے ہوں گے ، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان جوہروں پر اطلاق ہونے والی کیمیا کو عظیم الجثہ وقت کے پیمانے پر کام کرنا ہوگا جو اس سے بالکل ہی مختلف ہوگا جس کو ہم جانتے ہیں۔


جیسا کہ ماہر کونیات ٹونی روتھ مین لکھتے ہیں، " اور اس طرح بالآخر 10^117 برس کے بعد کائنات کچھ الیکٹران اور پوزیٹرون جو بھاری بھرکم مدار میں بندھے ہوئے ہوں گے، عام مادّے کے انحطاط کے بعد باقی بچے ہوئے نیوٹرینو اور فوٹون اور پوسٹرو نیم اور بلیک ہولز کی تعدیم کے بعد بھٹکے ہوئے پروٹون پر مشتمل ہوگی۔ منزل کی کتاب میں بھی ایسا ہی لکھا ہوا ہے۔"
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
دسواں باب - 6
کیا ذی شعور ہستیاں زندہ بچی رہ سکتی ہیں؟



دماغ کو سن کر دینے والی شرائط عظیم انجماد کے آخر میں آنے کے بعد سائنس دان اس بارے میں بحث کر رہے ہیں کہ آیا کسی بھی قسم کی ذہین حیات ممکنہ طور پر زندہ باقی رہ سکتی ہے ۔ شروع میں ایسا لگتا تھا کہ مرحلہ پنجم میں جب درجہ حرارت مطلق سفر تک گر جائے گا حیات کا زندہ باقی رہنے کی بحث فضول ہے۔ بہرحال ایک روح کو گرما دینے والی بحث طبیعیات دانوں کے درمیان جاری ہے کہ آیا ذی شعور حیات زندہ بچ سکتی ہے یا نہیں۔

بحث دو اہم سوالات کے گرد گھومتی ہے۔ پہلا یہ ہے کہ آیا ذہین ہستیاں اپنی مشینوں کو اس وقت چلا سکتے ہیں جب درجہ حرارت مطلق صفر ہو؟ حر حرکیات کے قوانین کی رو سے توانائی کیوں کہ بلند درجہ سے پست درجہ تک بہتی ہے لہٰذا اس توانائی کی حرکت کو قابل لائق میکانکی کام کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میکانکی کام ایک حرارتی انجن سے حاصل کیا جا سکتا ہے جو دو مختلف علاقوں کو آپس میں جوڑے جن کا درجہ حرارت مختلف ہو۔ جتنا زیادہ درجہ حرارت میں فرق ہوگا اتنی ہی انجن کی کارکردگی اچھی ہوگی۔ یہی وہ بنیادی میکانیات ہے جس نے صنعتی انقلاب کی داغ بیل ڈالی جیسا کہ بھاپ سے چلنے والا انجن اور ریل ۔ شروع میں تو یہ ناممکن لگتا کہ مرحلہ پنجم سے کسی قسم کی توانائی کو حاصل کیا جا سکتا ہے کیونکہ تمام درجہ حرارت ایک ہی جیسا ہوگا۔

دوسرا سوال ہے کہ آیا ذہین حیات اطلاعات کی ترسیل و وصولی کر سکے گی؟ اطلاعات کے نظرئیے کے مطابق سب سے چھوٹی اکائی جس کو بھیجا اور وصول کیا جا سکے وہ درجہ حرارت کی نسبت سے ہوتی ہے۔ کیونکہ درجہ حرارت مطلق صفر تک گر جائے گا لہٰذا اطلاعات پر عمل کاری کرنے کی قابلیت بہت بری طرح سے متاثر ہوگی۔ اطلاعات کی اکائی کو ٹھنڈی ہوتی کائنات کے ساتھ چھوٹے سے چھوٹا تر ہونا پڑے گا۔

طبیعیات دان فری مین ڈائی سن اور دوسروں نے مرتی ہوئی کائنات میں ذی شعور حیات کی جدوجہد کا دوبارہ سے تجزیہ کیا۔ کیا کچھ اختراعی طریقے ذہین حیات کے لئے اس وقت زندہ رہنے کے لئے پائے جاتے ہوں گے جب درجہ حرارت گر کر مطلق صفر کے قریب ہو گیا ہو ؟ وہ پوچھتے ہیں۔

کیونکہ درجہ حرارت پوری کائنات میں ایک ساتھ گرنا شروع ہوگا لہٰذا مخلوق پہلے اپنے جسم کا درجہ حرارت جینیاتی طریقوں سے کم کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس طرح سے وہ کم ہوتی توانائی سے بہتر انداز میں نمٹ سکیں گے۔ تاہم بالآخر جسمانی درجہ حرارت اس نقطے پر پہنچ جائے گا جہاں پانی جم جاتا ہے۔ اس وقت ذی شعور مخلوق کو اپنے گوشت و خون سے بنے نازک بدن کو چھوڑنا پڑے گا اور روبوٹک اجسام میں پناہ لینی ہوگی۔ میکانکی جسم گوشت پوست کے مقابلے میں سردی کو بہتر انداز میں برداشت کر سکتی ہیں۔ تاہم مشینوں کو بھی قوانین اطلاعات و حر حرکیات کا تابع ہونا پڑتا ہے جس کی وجہ سے روبوٹس کے لئے بھی زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہو جائی گی۔

یہاں تک کہ اگر ذی شعور ہستیاں اپنے روبوٹک اجسام کو چھوڑ کر خود کو خالص شعور میں منتقل کر لیں تب بھی اطلاعات رسانی کی عمل کاری میں مسئلہ ہوگا۔ درجہ حرارت مسلسل گر رہا ہوگا صرف زندہ رہنے کا ایک ہی طریقہ یعنی آہستہ سوچو بچتا ہے ۔ ڈائی سن نتیجہ اخذ کرتے ہیں ذہین حیات کی صورت تب بھی سوچنے کے قابل ہوگی بشرطیکہ وہ لامتناہی وقت میں سوچتے ہوئے اطلاعات کی عمل کاری کے لئے درکار وقت کو پھیلا دے اور خود توانائی کو بچانے کے لئے غنودگی میں چلی جائے۔

ہرچند کہ طبیعیاتی وقت جو سوچنے اور اطلاعات پر عمل کاری کے لئے درکار ہوگا وہ ارب ہا برسوں پر پھیل چکا ہوگا ، نفسی وقت ذہین مخلوق کے لئے ویسا ہی رہے گا۔ وہ اس کا فرق کبھی محسوس نہیں کریں گے۔ وہ اس وقت بھی اتنی ہی گہرائی میں سوچیں گے تاہم وقت کا پیمانے انتہائی سست ہوگا۔ ڈائی سن نتیجہ ایک انتہائی عجیب تاہم رجائی طور پر نکالتے ہیں کہ اس طرح سے ذہین حیات اطلاعات پر عمل کاری کرکے سوچنے کے قابل لامتناہی طور پر ہو جائے گی۔ ایک خیال کو سوچنے کے لئے کھرب ہا برس کا طویل عرصہ لگے گا تاہم نفسی وقت کے لحاظ سے سوچنا عام حالت کی طرح ہی ہوگا۔ تاہم اگر ذہین مخلوق سست رفتاری سے سوچے گی تو شاید وہ کونیاتی کوانٹم عبور کو کائنات میں دیکھ سکیں۔

عام طور پر اسی طرح کا کونیاتی عبور جیسا کہ نوزائیدہ کائنات کی تخلیق یا کسی اور کوانٹم کائنات میں منتقلی میں کھرب ہا برسوں کا وقت لگتا ہے لہٰذا وہ خالص نظریاتی ہیں۔ مرحلہ پنجم میں بہرحال کھرب ہا برس نفسی وقت سے کم ہو کر ان ہستیوں کے لئے صرف چند سیکنڈ ہی ہوں؛ وہ اس قدر سست سوچیں گے کہ ہو سکتا ہے کہ انہوں عجیب و غریب کوانٹم کے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہوئے ہر وقت دکھائی دیں۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ کائناتی بلبلے عدم سے نکلتے ہوئے یا کوانٹم کی چھلانگوں کو دوسری متبادل کائنات میں لگاتا ہوا دیکھ سکیں گے۔

تاہم حالیہ اسراع پذیر کائنات کی دریافت کے بعد طبیعیات دانوں نے ڈائی سن کے کام کا دوبارہ تجزیہ کیا ہے اور ایک نئی بحث شروع کردی ہے اور وہ بحث کے مخالف نتیجے کو نکال کر بیٹھ گئے ہیں۔ ذی شعور حیات کو ایک اسراع پذیر کائنات میں لازمی طور پر فنا ہونا ہوگا ۔ طبیعیات دان لارنس کراس اور گلین اسٹار مین نے نتیجہ نکالا، " ارب ہا برس پہلے کائنات حیات کے وجود کے لئے بہت شدید گرم تھی، لاتعداد ادوار میں یہ ایسی ٹھنڈی اور خالی ہو جائے گی کہ حیات کو لامحالہ چاہئے وہ جتنی ہی اختراعی کیوں نہ ہو جائے ختم ہونا ہوگا۔"

ڈائی سن کے اصل کام میں اس نے کائنات میں منفی 2.7 ڈگری والی خرد امواج کو ہمیشہ کے لئے درجہ حرارت گرانا جاری رکھا تھا اس طرح سے ذہین ہستیاں درجہ حرارت میں ان معمولی فرق سے کام لائق چیزیں حاصل کر سکتے تھے۔ جب تک درجہ حرارت گرنا جاری رکھے گا کام کے قابل چیزوں کو حاصل کرنا ممکن ہوگا۔ بہرحال کراس اور اسٹیک مین نے کہا کہ اگر کائنات کے پاس کونیاتی مستقل ہے تو درجہ حرارت ہمیشہ نہیں گرتا جائے گا، جیسا کہ ڈائی سن نے اندازہ لگایا تھا بلکہ یہ اپنی نچلی حد تک گبسن ہاکنگ درجہ حرارت (لگ بھگ29^10- تک جا پہنچے گا۔ ایک مرتبہ اس درجہ حرارت تک پہنچ جائے تو پوری کائنات میں یہی درجہ حرارت رہے گا لہٰذا ذہین ہستیاں درجہ حرارت میں فرق کی وجہ سے قابل کام توانائی کو حاصل نہیں کر سکیں گی۔ ایک مرتبہ تمام کائنات یکساں درجہ حرارت تک پہنچ جائے تو تمام عمل کاری کا عمل رک جائے گا۔

(1980ء کی دہائی میں یہ معلوم ہوا کہ کچھ مخصوص کوانٹم کے نظام جیسا کہ مائع میں براؤنی حرکت کو کمپیوٹر کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ باہر کا درجہ حرارت کتنا سرد ہے۔ لہٰذا درجہ حرارت گرنے کے باوجود یہ کمپیوٹر کم سے کم توانائی کا استعمال کرتے ہوئے بھی عمل کاری کو جاری رکھ سکیں گے۔ یہ ڈائی سن کے لئے ایک اچھی خبر ہے۔ تاہم یہاں ایک مسئلہ ہے۔ نظام کو دو شرائط کو پورا کرنا ہوگا : اس کو ماحول کے ساتھ توازن میں رہنا ہوگا، اور اطلاع کو ضائع کبھی نہیں کرنا ہوگا۔

تاہم اگر کائنات پھیلتی ہے تو توازن حاصل کرنا مشکل ہے کیونکہ اشعاع اپنی طول موج میں مہین اور کھینچتی چلی جائیں گی۔ ایک اسراع پذیر کائنات اتنی تیزی سے تبدیل ہوگی کہ نظام کو توازن میں قائم رکھنا بہت ہی مشکل ہوگا۔

اور دوسری شرط اطلاع کو کبھی ضائع نہ کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ذہین ہستیوں کو کبھی بھولنا نہیں ہوگا۔ بالآخر ذہین ہستیاں پرانے خیالات کو بھلا نہیں سکیں گی اور پرانے خیالات کو بار بار یاد کرتی رہیں گی۔ " ابدیت ایک طرح سے غیر مختتم تخلیقی و تفتیشی افق کے بجائے ایک جیل بن جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ نروانا ہو ، تاہم کیا اس کو زندگی کہیں گے؟" کراس اور اسٹار مین سوال اٹھاتے ہیں۔)

مختصراً ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کونیاتی مستقل صفر سے قریب ہے تو ذہین حیات غنودگی اور آہستہ سوچنے کے ساتھ لامحدود طور پر سوچ سکتی ہے کیونکہ کائنات ٹھنڈی ہوگی۔ تاہم ایک اسراع پذیر کائنات میں جیسا کہ ہماری ہے یہ ناممکن بات ہے۔ تمام ذہین حیات کا مقدر قوانین طبیعیات کی رو سے فنا ہونا لکھا ہے۔ اس تفوق کی جگہ کھڑے ہو کر کونیاتی تناظر سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری جانی پہچانی حیات کی شرائط ایک لمبی کہانی میں موجود عارضی قسط ہیں۔ صرف تھوڑی سی جگہ ہی ایسی ہے جہاں درجہ حرارت حیات کی نمو کے لئے موزوں ہے نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈا۔

کائنات سے رخت سفر باندھنا
اطلاعات کی عمل کاری کے حتمی طور پر رک جانے کو ہم موت کہہ سکتے ہیں۔ کائنات میں موجود کوئی بھی ذہین نوع جس نے طبیعیات کے بنیادی قوانین کو سمجھنا شروع کیا ہو وہ لامحالہ طور پر مجبور ہوگی کہ کائنات میں موجود ذہین حیات کی حتمی موت کا سامنا کرے۔

خوش قسمتی سے کافی وقت موجود ہے جس میں ہم کسی ایسے سفر کے لئے توانائی کو جمع کر سکیں اور بہرحال اس کے متبادل بھی موجود ہیں جیسا کہ ہم اگلے باب میں دیکھیں گے۔ جس سوال کو ہم جانیں گے وہ یہ ہے کہ آیا قوانین طبیعیات ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ ہم متوازی کائنات میں فرار ہو جائیں؟
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
دسواں باب - 5
کائنات کے پانچ مرحلے - حصّہ دوم


مرحلہ سوم: انحطاطی دور
تیسرے مرحلے میں 15 اور 39 کے درمیان) کائنات میں موجود ستاروں کی توانائی بالآخر ختم ہو جائے گی۔ ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے جلنے کا ازلی لگنے والا عمل رک جائے گا اور اپنے پیچھے مردہ نیوکلیائی مادّے کے ٹکڑے بونے ستاروں، نیوٹران ستاروں اور بلیک ہول کی شکل میں چھوڑ دیں گے۔ آسمان میں موجود ستارے دمکنا بند کر دیں گے اور کائنات بتدریج تاریکی میں ڈوبتی جائے گی۔

مرحلہ سوم میں درجہ حرارت ڈرامائی طور پر گر جائے گا کیونکہ ستارے اپنا نیوکلیائی انجن کھو دیں گے۔ بفرض محال کہ زمین اس وقت تک باقی بچی رہ بھی گئی تو اس کی سطح پر جو کچھ بھی ہوگا وہ برف کی چادر میں بدل چکا ہوگا اور ذہین مخلوق کو مجبور کر دے گا کہ وہ نئے گھر کی تلاش کرے۔

اگرچہ دیوہیکل ستارے کچھ دسیوں لاکھ برس تک زندہ رہتے ہیں جبکہ ہائیڈروجن جلانے والے ستارے جیسا کہ ہمارا سورج ہے کچھ ارب ہا برس تک زندہ رہ سکتا ہے، چھوٹے سرخ ستارے حقیقت میں کھرب ہا برس تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا مدار کسی بونے ستارے میں بدلنے کے نظریئے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ زمین سے سب سے قریبی ستارہ پروکسیما قنطورس ہے جو ایک سرخ بونا ستارہ ہے جس کا فاصلہ زمین سے صرف4.3 برس کا ہے۔ ہمارا قریبی پڑوسی سورج کی کمیت کا صرف 15 فیصد ہے اور سورج سے چار سو گنا کم مدھم ہے، لہٰذا اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے کسی بھی سیارے کو اس کے انتہائی نزدیک ہونا ہوگا تاکہ اس کی مدھم شمسی توانائی سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ زمین کو سورج کے گرد اپنے موجودہ مدار کی نسبت 20 گنا زیادہ قریب چکر لگانا ہوگا تاکہ اتنی ہی سورج کی روشنی کو حاصل کر سکے۔ تاہم ایک مرتبہ کوئی سیارہ کسی سرخ بونے ستارے کے گرد آگیا تو سیارے کے پاس اتنی توانائی ہوگی کہ وہ کھرب ہا برس تک اس پر گزارا کر سکتا ہے۔

آخر میں وہ ستارے جو اپنا نیوکلیائی ایندھن جلانا جاری رکھیں گے وہ سرخ بونے ہوں گے ۔ بہرصورت وقت کے ساتھ یہ بھی تاریک ہو جائیں گے۔ ایک ہزار کھرب برسوں میں باقی ماندہ سرخ بونے بھی ختم ہو جائیں گے۔

مرحلہ چہارم: بلیک ہول کا دور
چوتھے مرحلے میں (40 سے 100 کے درمیان) توانائی کا صرف ایک ہی ذریعہ باقی بچے گا وہ ہے تبخیر ہوتے بلیک ہولز کی توانائی۔ جیسا کہ جیکب بیکنس ٹین اور اسٹیفن ہاکنگ نے دکھایا کہ بلیک ہولز اصل میں تاریک نہیں ہیں؛ وہ اصل میں قلیل مقدار میں توانائی کا اخراج کرتے ہیں جس کو تبخیر کہتے ہیں۔ (عملی طور پر یہ بلیک ہول کی تبخیر اس قدر چھوٹی ہوتی ہے کہ تجرباتی طور پر اس کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا، تاہم لمبے عرصے کے پیمانے پر تبخیر بلیک ہول کے حتمی مقدر کا فیصلہ کرے گی۔)

بلیک ہولز کے تبخیر ہونے کے مختلف حیاتی ادوار ہو سکتے ہیں۔ ایک چھوٹا بلیک ہول جس کا حجم ایک پروٹون کے جتنا ہو شاید 10 ارب واٹ توانائی کا اخراج نظام شمسی کی عمر تک کرتا رہے۔ سورج کے وزن کے جتنا بلیک ہول 1066 برس تک تبخیر کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ ایک بلیک ہول جس کا وزن کسی کہکشانی جھرمٹ جتنا ہو وہ 10117 برس تک تبخیر کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ بہرحال جب بلیک ہول اپنی زندگی کے اختتام کی جانب حرارت کا اخراج آہستہ آہستہ کرتے ہوئے بڑھے گا تو وہ اچانک پھٹ پڑے گا۔ یہ ممکن ہے کہ ذہین حیات ، جس طرح بے گھر افراد کی طرح مرتی ہوئی آگ کے انگاروں کے پاس سکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، اس طرح مدھم حرارت خارج کرتے ان تبخیر ہوتے بلیک ہولز کے گرد جمع ہو جائیں تاکہ ان سے کچھ حرارت کو حاصل کیا جا سکے تاوقتیکہ وہ مکمل تحلیل ہو جائیں۔


مرحلہ پنجم: تاریک دور
پانچویں مرحلے میں (101 سے آگے) ہم کائنات کے تاریک دور میں داخل ہو جائیں گے جب حرارت کے تمام منبع ختم ہو چکے ہوں گے۔ اس مرحلے پر کائنات حرارتی موت کی طرف آہستہ سے محو پرواز ہوگی کیونکہ درجہ حرارت مطلق صفر کے قریب پہنچ چکا ہوگا۔ اس مرحلے پر جوہر خود سے حرکت کرنا بند کر دیں گے۔ شاید پروٹون خود سے انحطاط پذیر ہو جائیں گے اور صرف فوٹون کا تیرتا ہوا سمندر اور مہین شوربہ کمزور تعاملی ذرّات (نیوٹرینو، الیکٹران، اور ان کے ضد ذرّات یعنی پوزیٹرون )کو اپنے پیچھے چھوڑ دیں گے۔ کائنات شاید ایک نئی قسم کے جوہر پر مشتمل ہوگی جس کو پوسٹرونیم کہیں گے۔ جو الیکٹران اور پوزیٹرون پر مشتمل ہوں گے جو ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہے ہوں گے۔

کچھ طبیعیات دان رائے دیتے ہیں کہ یہ الیکٹران اور ضد الیکٹران کے "جوہر" شاید اس قابل ہوں کہ نئی قسم کی ذہین حیات کو اس تاریک دور میں جنم دے سکیں۔ بہرحال اس تصوّر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مشکلات بہت ہی مہیب ہیں۔ پوسٹر ونیم کا جوہر حجم میں عام جوہر جتنا ہی ہوگا۔ تاہم تاریک دور کا پوسٹرونیم آج کی قابل مشاہدہ کائنات سے کروڑ ہا گنا زیادہ بڑا لگ بھگ 1012 میگا پار سیک پر پھیلا ہوگا ۔ لہٰذا اس تاریک دور میں جوہر بن سکتے ہیں تاہم ان کا حجم پوری کائنات جتنا ہوگا۔ کیونکہ کائنات تاریک دور میں زبردست فاصلے تک پھیل چکی ہوگی لہٰذا وہ آسانی کے ساتھ ان دیوہیکل پوسٹرونیم کے جوہروں کو سما لے گی۔ تاہم کیونکہ یہ پوسٹرونیم کے جوہر بہت بڑے ہوں گے ، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان جوہروں پر اطلاق ہونے والی کیمیا کو عظیم الجثہ وقت کے پیمانے پر کام کرنا ہوگا جو اس سے بالکل ہی مختلف ہوگا جس کو ہم جانتے ہیں۔


جیسا کہ ماہر کونیات ٹونی روتھ مین لکھتے ہیں، " اور اس طرح بالآخر 10117 برس کے بعد کائنات کچھ الیکٹران اور پوزیٹرون جو بھاری بھرکم مدار میں بندھے ہوئے ہوں گے، عام مادّے کے انحطاط کے بعد باقی بچے ہوئے نیوٹرینو اور فوٹون اور پوسٹرو نیم اور بلیک ہولز کی تعدیم کے بعد بھٹکے ہوئے پروٹون پر مشتمل ہوگی۔ منزل کی کتاب میں بھی ایسا ہی لکھا ہوا ہے۔"
فورم پر متن پیسٹ کرتے وقت براہ کرم ٹیکسٹ فارمیٹنگ ختم کر دیجیے (پوسٹ کرتے ہوئے اوپر ٹول بار میں انتہائی بائیں جانب سے دوسرا آپشن ہے
دوسری تجویز یہ بھی ہے کہ طاقت لکھتے وقت کیرٹ سائن لگا دیا کریں، جیسے 66^10۔ اس طرح واضح ہو جائے گا
 

زہیر عبّاس

محفلین
دوسری تجویز یہ بھی ہے کہ طاقت لکھتے وقت کیرٹ سائن لگا دیا کریں، جیسے 66^10۔ اس طرح واضح ہو جائے گا
نوٹ کرلی ۔
فورم پر متن پیسٹ کرتے وقت براہ کرم ٹیکسٹ فارمیٹنگ ختم کر دیجیے
آخری پوسٹ کو تدوین کردیا۔
لیکن ایک بات تو بتائیں کہ فارمیٹ کو ختم کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟ مجھے تو فارمیٹ اور بغیر فارمیٹ میں سوائے شہ سرخیوں کی تبدیلی کے سوا اور کچھ تبدیل ہوتا نظر نہیں آیا ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
نوٹ کرلی ۔

آخری پوسٹ کو تدوین کردیا۔
لیکن ایک بات تو بتائیں کہ فارمیٹ کو ختم کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟ مجھے تو فارمیٹ اور بغیر فارمیٹ میں سوائے شہ سرخیوں کی تبدیلی کے سوا اور کچھ تبدیل ہوتا نظر نہیں آیا ۔
فارمیٹ ختم نہ کرنا
2016-08-31%20%281%29.png

فارمیٹ ختم کرنے کے بعد
2016-08-31%20%282%29.png
 

زہیر عبّاس

محفلین
حیرت کی بات ہے میرے پاس تو فارمیٹ یا بغیر فارمیٹ کئے ایک ہی جیسا نتیجہ نکل رہا ہے یعنی نوری نستعلیق میں ہے متن ظاہر ہورہا ہے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حیرت کی بات ہے میرے پاس تو فارمیٹ یا بغیر فارمیٹ کئے ایک ہی جیسا نتیجہ نکل رہا ہے یعنی نوری نستعلیق میں ہے متن ظاہر ہورہا ہے ۔
اس کی وجہ شاید یہ ہوگی کہ آپ کے پاس یہ تمام تر فانٹس سسٹم پر انسٹالڈ ہیں۔ میں نے ابھی چند دن قبل نئی ونڈوز کی ہے تو میرے پاس صرف جمیل نستعلیق فانٹس ہی ہیں۔ اس طرح کی استثنائی صورتحال کے لیے فارمیٹ ختم کرنا مفید رہتا ہے
 

زہیر عبّاس

محفلین
گیارہواں باب - 1

کائنات سے فرار - حصّہ اوّل




کوئی بھی جدید ٹیکنالوجی جادو سے الگ نہیں ہوگی۔

- آرتھر سی کلارک



ناول دور میں سائنسی قصص گومصنف گریگ بیئر نے ایک دلدوز کہانی عارضی تباہ ہوتی دنیا کی متوازی کائنات میں فرار ہونے کی لکھی ہے۔ ایک عظیم الجثہ آفت نما سیارچہ خلاء سے سیارہ زمین کی طرف نکل آتا ہے اور بڑے پیمانے پر افراتفری اور ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔ بہرحال زمین سے ٹکرانے کے بجائے وہ عجیب طرح سے اس کے مدار میں چکر لگانے لگتا ہے۔ سائنس دانوں کی ٹیموں کو تفتیش کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ بہرحال اجاڑ مردہ دنیا کے بجائے ان کو سیارچہ اصل میں کھوکھلا ملتا ہے؛ یہ ایک عظیم الجثہ خلائی جہاز ہوتا ہے جس کو کسی بہتر ٹیکنالوجیکل نوع نے چھوڑ دیا ہوتا ہے۔ ، کہانی کی ہیروئن، پیٹریشیا واسکوئز جو ایک نظری طبیعیات دان ہوتی ہے، کو ویران خلائی جہاز کے اندر وسیع خانے ملتے ہیں اصل میں یہ دوسرے جہانوں میں داخل ہونے کے دروازے ہوتے ہیں جہاں جھیلیں، جنگل، درخت بلکہ پورے کے پورے شہر موجود ہوتے ہیں۔ مزید براں اس کو ایک بہت بڑی لائبریری ملتی ہے جس میں ان عجیب مخلوق کی مکمل تاریخ لکھی ہوتی ہے۔

ایک پرانی کتاب کو پڑھ کر اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹام سویر از مارک ٹوئن ہے لیکن دوبارہ 2110ء میں چھپتا ہے۔ تب اس کا احساس ہوتا ہے کہ سیارچہ کوئی اجنبی خلائی مخلوق کا نہیں ہے بلکہ زمین سے ہی 1,300 برس مستقبل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کو بیزار کرنے والی سچائی معلوم ہوتی ہے کہ یہ پرانے مندرج نامے بتاتے ہیں کہ ایک قدیمی نیوکلیائی جنگ ماضی بعید میں چھڑ گئی تھی جس میں ارب ہا لوگ مارے گئے تھے اور اس کے نتیجے میں نیوکلیائی سرما آگیا تھا جس نے مزید ارب ہا لوگوں کی جان لے لی تھی۔ جب اس کو اس نیوکلیائی جنگ کی تاریخ معلوم ہوتی ہے تو پتہ لگتا ہے کہ اس میں صرف دو ہفتے رہ گئے ہیں! وہ اس ناگزیر لڑائی کو روکنے کے لئے بے بس ہوتی ہے جو پورے سیارے کو جلد ہی اجاڑ دے گی اور اس کے پیاروں کو موت سی ہمکنار کر دے گی۔

پراسرار طور پر وہ اپنی ذاتی تاریخ بھی ان پرانے مندرج ناموں میں ڈھونڈ لیتی ہے اور اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مستقبل کی زمان و مکان کی تحقیق سیارچے میں ایک وسیع سرنگ بنانے کے لئے ابتدائی معلومات فراہم کرتی ہے ۔ اس سرنگ کا نام "راستہ" ہوتا ہے جو لوگوں کو سیارچہ میں داخل ہو کر دوسری کائناتوں میں جانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کا نظریہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ لامحدود تعداد میں کوانٹم کائناتیں موجود ہیں جو تمام ممکنہ صورتحال کو پیش کرتی ہیں ۔ مزید براں اس کے نظریات راستے کے ساتھ موجود دروازوں کو بناتے ہیں جو ان کائناتوں میں داخل ہونے کو ممکن بناتے ہیں، ہر ایک میں ایک مختلف متبادل تاریخ ہوتی ہے۔ بالآخر وہ سرنگ میں داخل ہو کر راستے میں سفر کرتی ہے اور ان لوگوں سے ملتی ہے جو سیارچے پر اپنی نئی نسل کے ساتھ آئے تھے ۔

یہ ایک عجیب دنیا ہوتی ہے، صدیوں پہلے انسانوں نے انسانی ساخت کو چھوڑ دیا تھا اور اب ان کی مختلف شکلیں اور جسم تھے۔ یہاں تک کہ لمبے عرصے پہلے مرے ہوئے لوگوں کی یادداشتیں اور شخصیت کو کمپیوٹر کے بینک میں ذخیرہ کیا ہوا تھا اور ان کو واپس زندہ کیا جا سکتا تھا۔ وہ دوبارہ زندہ کرکے کئی مرتبہ نئے اجسام میں ڈالے جا سکتے تھے۔ ان کے اجسام میں پیوستہ آلات انھیں لامحدود اطلاعات تک رسائی دیتے تھے۔ ہرچند ان لوگوں کے پاس ہر وہ چیز تھی جس کی وہ خواہش کرتے تاہم ہماری ہیروئن اس تیکنیکی جنت میں مصیبت زدہ اور تنہا تھی۔ اس کو اپنا خاندان، اپنا محبوب اور اپنی زمین یاد آتی تھی جو نیوکلیائی جنگ میں تباہ ہو گئی تھی۔ بالآخر اس کو اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ متوازی زمین کو راستے میں موجود کثیر کائناتوں کی چھان بین کرکے دیکھ لے جہاں پر نیوکلیائی جنگ کو ہونے سے روک دیا گیا ہو اور اس کے پیارے اب بھی زندہ ہوں۔ بالآخر اس کو ایک ایسی جگہ مل جاتی ہے جس میں وہ داخل ہو جاتی ہے۔

(بدقسمتی سے وہ ایک چھوٹی سی حسابی غلطی کرتی ہے؛ اور ایک ایسی کائنات میں پہنچ جاتی ہے جہاں مصری سلطنت کو کبھی زوال ہی نہیں آیا ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے باقی بچے ہوئے ایام اس متوازی جہاں کو چھوڑنے کی کوششوں میں گزارتی ہے تاکہ اپنا اصل گھر تلاش کر سکے۔)

ہرچند 'دور' میں بیان کئے گئے جہتی گزرگاہیں مکمل طور پر قصصی ہیں تاہم یہ ایک ہم سے متعلق دلچسپ حقیقت کو اٹھاتی ہیں: اگر ہماری اپنی کائنات میں رہنے کا ماحول ناقابل برداشت ہو جائے تو آیا کوئی متوازی جہانوں میں جنت کو پا سکتا ہے؟

ہماری کائنات کے حتمی انجام کے بارے میں مردہ الیکٹران، نیوٹرینو اور فوٹون کے بادل پہلے ہی سے تمام ذی شعور حیات کے مقدر کے بارے میں بتاتے ہیں۔ کونیاتی پیمانے پر ہم دیکھتے ہیں کہ حیات کس قدر نازک اور عبوری ہے۔ وہ دور جہاں حیات پھل پھول سکتی ہے انتہائی تنگ پٹی ہے آسمان کو روشن کرنے والے ستاروں کی حیات میں ایک عارضی دورانیہ ۔ ایسا لگتا ہے کہ کائنات کی عمر اور ٹھنڈے ہونے کے ساتھ حیات کا جاری رہنا ممکن نہ ہوگا۔ قوانین طبیعیات اور حر حرکیات اس معاملے میں کافی واضح ہیں: اگر کائنات کا پھیلاؤ اسراع پذیر ہو کر بے قابو ہو جائے گا، ہماری معلوم ذہانت باقی نہیں بچ سکے گی۔ تاہم جب کائنات کا درجہ حرارت مختلف ادوار میں گرتا چلا جائے گا کیا ایک جدید تہذیب اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے گی؟ اپنی نقیبی ٹیکنالوجی کے ساتھ اور کسی بھی دوسری تہذیب کی ٹیکنالوجی کے ساتھ جو اگر کائنات میں کہیں موجود ہے، کیا وہ ناگزیر عظیم انجماد سے راہ فرار حاصل کر سکتی ہیں؟

کیونکہ کائنات کے ارتقا کے مراحل کو ارب ہا یا کھرب ہا برسوں میں ناپا جاتا ہے لہٰذا کسی محنتی، چالاک تہذیب کے پاس کافی وقت موجود ہوگا کہ ان مبارزت سے نمٹ سکے۔ ہرچند تصور کرنے کے لئے صرف اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں کہ کس ایک جدید تہذیب اپنے وجود کو لمبے عرصے تک قائم رکھنے کے لئے طرح کی ٹیکنالوجی بناتی ہے، کوئی بھی معلوم قوانین طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے آج سے ارب ہا برس بعد موجود موٹے موٹے انتخابات کے بارے میں بات کر سکتا ہے۔ طبیعیات یہ نہیں بتاتی کہ ایک جدید تہذیب کون سے مخصوص منصوبے بنائے گی تاہم یہ بتا سکتی ہے کہ کس قسم کے پیرامیٹر کائنات سے فرار کے لئے موجود ہیں۔

ایک انجنیئر کے لئے کائنات کو چھوڑنے کے لئے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ آیا ہمارے پاس وہ ذرائع موجود ہیں جس سے ہم وہ مشین بنا سکیں جو یہ جرات مندانہ اقدام اٹھا سکے۔ تاہم ایک طبیعیات دان کے لئے اہم مسئلہ کچھ اور ہے۔ یعنی کہ آیا کیا قوانین طبیعیات ان مشینوں کو بنانے کی اجازت بھی دیتے ہیں۔ طبیعیات دان "نظریئے کا ثبوت" – چاہتے ہیں ، ہم دکھانا چاہتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس کافی جدید ٹیکنالوجی موجود ہو تو قوانین طبیعیات کی رو سے ایک اور کائنات میں فرار ممکن ہے۔ یہ ایک بعد کا سوال ہے کہ آیا ہمارے پاس مناسب ذرائع موجود ہیں یا نہیں، عملی تفصیلات عظیم انجماد کا سامنا کرنے والی آج سے ارب ہا برس بعد باقی رہنے والی تہذیب کے لئے چھوڑ دی جائیں گی۔

شاہی فلکیات دان سر ر مارٹن ریس کہتے ہیں، " ثقب کرم ، اضافی جہتیں، اور کوانٹم کمپیوٹر اندازوں بھرے منظر ناموں کا بھنڈار ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیں گے جو بالآخر ہماری کائنات کو ایک " زندہ کونیات" میں بدل دیں گے۔"​
 

زہیر عبّاس

محفلین
گیارہواں باب - 2
جماعت اوّل ، دوم اور سوم کی تہذیبیں - حصّہ اوّل



ہم سے ہزار ہا برسوں سے لے کر لاکھوں برسوں تک آگے ترقی یافتہ تہذیبوں کے بارے میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لئے طبیعیات دان اکثر ان تہذیبوں کو ان کے توانائی کے استعمال اور قوانین حر حرکیات کے انحصار کے مطابق درجہ بند کرتے ہیں ۔ جب آسمان میں ذہین مخلوق کی تلاش کے لئے اشاروں کو دیکھا جاتا ہے طبیعیات دان چھوٹے ہرے آدمیوں کو نہیں ڈھونڈھتے بلکہ وہ ان تہذیبوں کی تلاش کرتے ہیں جن کی توانائی کا استعمال جماعت اوّل، دوم یا سوم کی تہذیبوں سے ہو۔ یہ گروہ بندی روسی طبیعیات دان نیکولائی کاردیشوف نے 1960ء کی دہائی میں خلائے بسیط سے آنے والے تہذیبوں کے ریڈیائی اشاروں کو زمرہ بند کرنے کے لئے واضح کی تھی۔ ہر تہذیبی جماعت اشعاع کی ایک ایسی مخصوص خصوصیات کو چھوڑے گی جس کو ناپ کر درج کیا جا سکے گا۔ (یہاں تک کہ اگر کوئی جدید تہذیب جو اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کرے گی اس کا بھی ہمارے آلات سراغ لگا سکتے ہیں۔۔ حر حرکیات کے دوسرے قانون کی رو سے کوئی بھی جدید تہذیب فالتو حرارت کی صورت میں ناکارگی کو پیدا کرے گی جو لامحالہ طور پر خلاء میں فرار ہو جائے گی۔ اگر وہ اپنے وجود کو چھپانے کی کوشش بھی کریں گے تو بھی اپنی ناکارگی سے پیدا ہوئی مدھم روشنی کو وہ چھپا نہیں سکیں گے۔)

جماعت اوّل کی تہذیب وہ ہوگی جس نے سیاروی توانائی کو اپنے قابو میں کرلیا ہوگا۔ ان کی توانائی کی ضروریات کو کافی درستگی سے ناپا جا سکتا ہے : تعریف کی رو سے وہ تمام شمسی توانائی جو ان کے سیارے تک پہنچی ہے اس کو استعمال میں لا سکتی ہیں جو 10^16 ہے ۔ اس سیاروی توانائی کے ساتھ وہ موسم کو تبدیل یا اپنی مرضی سے چلا سکتے ہیں، طوفانوں کے چلنے کا انداز بدل سکتے ہیں، یا سمندروں میں شہر بسا سکتے ہیں۔ ایسی تہذیبیں حقیقت میں اپنے سیارے کی مالک ہوں گی اور سیاروی تہذیب کو جنم دے چکی ہوں گی۔

جماعت دوم کی تہذیب ایک سیارے کی توانائی کو استعمال کر چکی ہوگی اور وہ پورے ستارے کی توانائی کو اپنے زیر استعمال لا سکتی ہوگی جو لگ بھگ 10^26 واٹس ہوگی۔ ان میں یہ صلاحیت ہوگی کہ اپنے ستارے کی کل توانائی کو استعمال کر سکیں اور شاید شمسی طوفانوں کو قابو کرنے اور دوسرے ستاروں کو جلانے کے قابل بھی ہوں گے۔

جماعت سوم کی تہذیب نے ایک شمسی نظام کی توانائی کو پورا استعمال کرلیا ہوگا اور اپنی مقامی کہکشاں کے زیادہ تر حصّے پر نوآبادیاتی نظام بھی قائم کرلیا ہوگا۔ ایسی کوئی بھی تہذیب 10 ارب ستاروں کی توانائی یا 10^36واٹس کو استعمال کرنے کے قابل ہوگی۔

ہر قسم کی تہذیب اپنی کم تر تہذیب سے 10 ارب گنا زیادہ مختلف ہوگی۔ لہٰذا ایک جماعت سوم کی تہذیب ارب ہا نجمی نظاموں کی طاقت کو قابو کرکے جماعت دوم کے مقابلے میں توانائی کو 10 ارب گنا زیادہ استعمال کرے گی، جبکہ جماعت دوم کی تہذیب 10 ارب گنا زیادہ توانائی کا استعمال جماعت اوّل کی نسبت کرے گی۔ ہرچند ان تہذیبوں کو الگ کرنے کا فاصلہ فلکیاتی پیمانے کا ہے، یہ ممکن ہے کہ اندازہ لگایا جا سکے کہ تہذیبی جماعت سوم کتنے وقت میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ فرض کریں کہ کسی تہذیب میں توانائی کا استعمال ہر سال 2 سے 3 فیصد کی شرح سے نمو پا رہا ہے۔ (یہ ایک معقول بات ہے کیونکہ معاشی ترقی کا حساب کافی مناسب طریقے سے لگایا جا سکتا ہے اور اس کا براہ راست تعلق توانائی کے استعمال سے ہے۔ جتنی بڑی معیشت ہوگی وہ اتنا ہی زیادہ توانائی کو طلب کرے گی۔ کیونکہ کافی اقوام کی خام مقامی پیداوار کی شرح نمو ایک سے دو فیصد کے درمیان ہی رہتی ہے لہٰذا ہم امید کرتے ہیں کہ ان کی توانائی کی طلب بھی لگ بھگ اسی شرح سے بڑھے گی۔)

اس اعتدال پسندانہ شرح کے ساتھ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری تہذیب سو سے دو سو برسوں میں جماعت اوّل کا رتبہ حاصل کر لے گی۔ ہمیں ایک ہزار سے پانچ ہزار برس کا عرصے جماعت دوم کا رتبہ حاصل کرنے میں لگے گا اور شاید ایک لاکھ برسوں سے لے کر دس لاکھ برس کے اندر ہم جماعت سوم کا رتبہ حاصل کر لیں۔ اس پیمانے پر ہماری حالیہ تہذیب جماعت صفر میں درجہ بند ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی توانائی کو مردہ پودوں (تیل و کوئلے کی صورت میں ) سے حاصل کرتے ہیں۔ کسی طوفان کو قابو کرنا جس کی قوّت سینکڑوں نیوکلیائی بموں کے برابر ہوتی ہے سردست ہماری ٹیکنالوجی سے کہیں زیادہ دور کی بات ہے۔

ہماری حالیہ دور کی تہذیب کو بیان کرنے کے لئے ماہر فلکیات کارل ساگاں تہذیبوں کی جماعت کی مزید درجہ بندی کے حق میں تھے۔ جماعت اوّل ، دوم اور سوم کی تہذیبیں جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ کل توانائی بالترتیب لگ بھگ 10^16، 10^26، اور 10^36 واٹ کے پیدا کرتی ہیں۔ ساگاں نے ایک تہذیب اوّل ایک متعارف کروائی ہے مثال کے طور پر جو 1017 کی واٹ توانائی کا استعمال کرتی ہے، ایک اوّل دو کی تہذیب 10^18 واٹ کی توانائی کا استعمال کرتی ہے اور اسی طرح علی ہذالقیاس ۔ ہر جماعت کو مزید دس درجوں میں تقسیم کرکے ہم اپنی تہذیب کو درجہ بند کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ اس پیمانے پر ہماری حالیہ تہذیب زیادہ سے زیادہ 0.7 درجے کی تہذیب ہے - ایک حقیقی سیاروی تہذیب کے انتہائی قریب۔ (ایک جماعت 0.7 کی تہذیب اب بھی جماعت اول سے توانائی کی پیداوار کے لحاظ سے ہزار گنا چھوٹی ہے۔)​
 

زہیر عبّاس

محفلین
گیارہواں باب - 3
جماعت اوّل ، دوم اور سوم کی تہذیبیں - حصّہ دوم



ہرچند کہ ہماری تہذیب کافی ابتدائی ہے تاہم ہم پہلے ہی تبدیلی کو وقوع پذیر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ جب میں شہ سرخیوں پر نظر ڈالتا ہوں، تو میں اس تاریخی ارتقا کے بچے ہوئے حصّے کو مستقل طور پر دیکھتا ہوں۔ حقیقت میں ، مجھے زندہ رہ کر اس کا مشاہدہ کرنے پر بہت شکر ادا کرنا چاہئے:

  • انٹرنیٹ ایک طرح سے درجہ اوّل ٹیلیفون نظام کا پیش رو ہے۔ اس میں قابلیت ہے کہ یہ عالمگیری ذرائع ابلاغ کے جال کی بنیاد بن سکے۔
  • جماعت اوّل کی معیشت میں صرف اقوام کا غلبہ نہیں ہوگا بلکہ بڑے تجارتی شراکت دار یورپی یونین کی طرح ہوں گے جس کو بذات خود نافٹا (شمالی امریکا کے ممالک ) سے مقابلہ کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔
  • جماعت اوّل کے سماج کی زبان شاید انگریزی ہوگی جو پہلے ہی زمین پر دوسری زبان کے طور پر اپنا غلبہ قائم کر چکی ہے۔ جماعت اوّل کی تمام آبادی اس طرح سے دو زبانی ہوگی یعنی ایک مقامی زبان جبکہ ایک عالمگیر زبان بولے گی۔
  • ہرچند آنے والی کچھ صدیوں میں اقوام کسی صورت میں اپنا تشخص برقرار رکھیں گی تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ان کی اہمیت کم ہو جائے گی کیونکہ تجارتی سرحدیں ختم ہو جائیں گی اور دنیا معاشی طور پر ایک دوسرے پر زیادہ انحصار کرنے لگے گی۔ (جدید اقوام جو ابتداء میں سرمایہ داروں اور ان لوگوں نے بنائی ہوں گی جو ایک عالمگیر سکہ رائج الوقت، سرحدیں، محصولات، اور قوانین چاہتے تھے جن کے ساتھ وہ تجارت کر سکیں۔ کاروبار خود سے بین الاقوامی بن جائے گا اور قومی سرحدیں برائے نام ہی رہ جائیں گی۔) کوئی اکیلی قوم اتنی طاقتور نہیں ہوگی کہ اس جماعت اوّل کی طرف سفر کو روک سکے۔
  • جنگ کا شاید ہمارے ساتھ جنم جنم کا رشتہ رہے گا، تاہم جنگوں کی نوعیت سیاروی عالمگیر متوسط طبقے کے ظہور کے ساتھ بدل جائے گی جو سیاحت اور بجائے دوسرے لوگوں کو نیچا دکھا کر ان بازاروں اور جغرافیائی علاقوں پر قبضہ کرنے کے وہ دولت و ذرائع کو جمع کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہوگی ۔
  • آلودگی کو تیزی کے ساتھ عالمگیر پیمانے پر قابو کیا جائے گی۔ نباتاتی خانے کے اثر کی گیسوں، تیزابی بارشوں، جنگلات کی آگ، اور کسی قسم کی قومی سرحدوں کا نہ ہونے کی وجہ سے پڑوسی اقوام پر دباؤ رہے گی کہ وہ اپنا گند صاف کرتی رہیں۔ عالمگیری ماحولیاتی مسائل عالمگیر حل کو اسراع دینے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
  • بطور ذرائع ( جیسا کہ مچھلی کو پکڑنا، اناج اگانا، پانی کے وسائل ) بتدریج ضرورت سے زیادہ زرعی پیداوار اور ضرورت سے زیادہ کھپت کو برابر کر دیں گے عالمگیر سطح پر وسائل کے استعمال میں دباؤ بڑھے گا ورنہ غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
  • اطلاعات تقریباً مفت حاصل ہوں گی، سماج کو زیادہ سے زیادہ جمہوری ہونے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جس سے حق استصواب رائے سے محروم لوگوں کے لئے آواز بلند ہوگی اور آمریت پر دباؤ بڑھے گا۔

یہ قوّتیں کسی انفرادی شخص یا قوم کے قابو سے باہر ہوں گی۔ انٹرنیٹ کے استعمال کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکے گا۔ اصل میں اس طرح کے کسی بھی کام کی کوشش کا نتیجہ خوف کے بجائے اس کے اقدام کے مذاق کی صورت میں نکلے گا۔ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ انٹرنیٹ معاشی خوشحالی و سائنس اور ثقافت و تفریح کی جانب لے جانے والا راستہ ہوگا۔

تاہم جماعت صفر سے جماعت اوّل کی طرف کا سفر انتہائی خطرناک ہوگا کیونکہ ہم اس وقت بھی وہی سفاکانہ برتاؤ کا مظاہرہ کریں گے جب ہم جنگل سے نکلتے ہوئے کرتے تھے۔ ایک طرح سے ہماری تہذیب کی ترقی وقت کے ساتھ مقابلے کی دوڑ کی طرح ہے۔ ایک طرف جماعت اوّل سیاروی تہذیب کی طرف جانا ہمیں بے نظیر امن و خوشحالی کی امید دلاتا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف ناکارگی کی قوّتیں (نباتاتی خانے کے اثر والی گیسیں، آلودگی، نیوکلیائی جنگ، بنیاد پرستی، بیماریاں) ہمیں پاش پاش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ سر مارٹن ریس ان مسائل کو دہشت گردی، حیاتیاتی انجینئرنگ جرثوموں، اور دوسری تیکنیکی دہشتوں کے ساتھ ان کو انسانیت کو للکارتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہ ہمیں صرف آدھا موقع اس بات کا دیتے ہیں کہ ہم ان مسائل سے نمٹ لیں گے۔

شاید یہی ایک وجہ ہے کہ ہمیں ماورائے ارضی حیات خلاء میں نظر نہیں آتی۔ حقیقت میں اگر وہ وجود رکھتی تو شاید وہ اس قدر ترقی یافتہ ہوتی کہ ان کو ہماری اس قدیمی جماعتی 0.7 تہذیب میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

متبادل طور پر شاید وہ جنگ یا جماعت اوّل کی تہذیب کی طرف جاتے ہوئے خود کی پیدا کی ہوئی آلودگی سے ختم ہو سکتے تھے۔ (اس طرح سے وہ نسل جو اس وقت زندہ ہے شاید زمین کی سطح پر چلنے والی سب سے اہم نسل ہے؛ یہ اچھی طرح سے فیصلہ کرے گی کہ آیا ہم محفوظ طریقے سے جماعت اوّل کا راستہ عبور کر سکتے ہیں یا نہیں ۔)

تاہم جیسا کہ فریڈرک نیچا نے ایک مرتبہ کہا تھا ہمیں جو چیز نہیں مارتی اس سے ہم مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ ہمارا جماعت صفر سے جماعت اوّل کا سفر لازمی طور پر انگاروں کے راستے پر سے ہوتے ہوا چلے گا جہاں کافی جگر خراش واقعات رونما ہوں گے۔ اگر ہم اس چیلنج سے بخیر و عافیت کے گزر گئے تو ہم اور مضبوط ہو جائیں گے بعینہ اس طرح جیسا کہ سونا پک کر کندن بنتا ہے۔​
 
Top