جون ایلیا عیش ِ اُمید ہی سے خطرہ ہے۔ جون ایلیا

شیزان

لائبریرین
عیش ِ اُمید ہی سے خطرہ ہے
دِل کو اب دِلدہی سے خطرہ ہے

ہے کچھ ایسا کہ اُس کی جلوت میں
ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے

جس کی آغوش کا ہوں دیوانہ
اُس کی آغوش ہی سے خطرہ ہے

یاد کی دُھوپ تو ہے روز کی بات
ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے

ہے عجب کچھ معاملہ درپیش
عقل کو آگہی سے خطرہ ہے

شہرِ ِ غدار !جان لے کہ تجھے
ایک امروہوی سے خطرہ ہے

میں کہوں کِس طرح یہ بات اُس سے
تجھ کو جانم مُجھی سے خطرہ ہے

آج بھی اے کنار ِ بان مجھے!
تیری اِک سانولی سے خطرہ ہے

اُن لبوں کا لہُو نہ پی جاؤں
اپنی تِشنہ لبی سے خطرہ ہے

جون ہی تو ہے جون کے درپے
مِیر کو مِیر ہی سے خظرہ ہے

اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اِن سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے



جون ایلیا
 
کیا کوئی تصدیق کر سکتا ہے کہ اسی غزل کا ایک شعر یہ بھی ہے

آسمانوں میں ہے خُدا تنہا
اور ہر آدمی سے خطرہ ہے
 
Top