"کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کُن فیکون"

باباجی

محفلین
بھائی میرے جیسے پانی نہ ملنے پر جسم کی موت ہوتے ہے ویسے ہی توجہ اور پیار نہ ملنے پر احساسات وجذبات کی بھی موت ہوتی ہے۔ اور لوگ ایسے شخص کو بے حس کہنے لگتے ہیں۔ یا پھر ڈھیٹ (شزہ)
مجھے بھی آپ ایسا ہی کچھ کہہ لیں ڈھیٹ یا بے حس.. لیکن شاید یہاں سب جانتے ہیں کہ میں اپنا دو ٹوک مؤقف دینے کے بعد آگے بحث نہیں کرتا... سب کی رائے کا احترام کرتا ہوں.. شاید میں پانی اور پیار میں فرق والی کو ٹھیک سے سمجھا نا پاؤں اس لیے میں اپنی بات واپس لیتا ہوں.. شکریہ
آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ گھر پہ کچھ نا ملے تو بندہ باہر ہی جائے گا.
 
حیرت ہے کہ آپ ایڈووکیٹ بھی ہیں اور آگیومینٹس سے بھی ڈرتے ہیں۔۔۔ حالانکہ آپ کو اس لڑی میں زیادہ سے زیادہ بات کرنی اور سننی چاہیئے۔
آرگیومنٹس سے کوئی حل نکلنا ہی نہیں ہیں کیوں خواہ مخواہ اپنے لیے منفی درجہ بندیوں کا سامان مہیا کرواؤں۔
 
آخری تدوین:

ناصر رانا

محفلین
آرگیومنٹس سے کوئی حل نکلنا ہی نہیں ہیں کیوں خواہ مخواہ اپنے لیے منفی درجہ بندیوں کا سامان مہیا کرواؤں۔
حل تو بنا آرگیومنٹس کے بھی نہیں نکلے گا کہ یہ دنیا ایسی ہی پرپیچ ہے اور ایسا روز ازل سے ہو رہا ہے۔
لیکن آرگیومنٹس سے کم از کم اتنا ہو سکتا ہے کہ آپ کی کسی بات کسی دلیل سے کسی کی کوئی ذہنی گرہ کھل سکتی ہے۔ کوئ اور شاہدہ اس احساسِ کرب سے نکل سکتی ہے، ہوسکتا ہے کوئی اور شیخ حرمت ازسر نو اپنی ترجیحات کو مرتب نہ کرے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بجا فرمایا۔۔۔
مگر میں نے اسلام کو ایک ایسا گلستان پایا کہ کوئی دور سے گزرے تو بھی خوشبو پائے۔۔۔
قریب سے گُزرے تو خوشبو اور نظارہ پائے۔۔۔
اندر سے گُزرے تو پھل بھی پائے۔۔۔
اور اندر ہی رہے تو پوری کھیتی پائے اور بڑھائے۔۔۔۔۔

یہی حال مجبوری ، شوق اور مطیع ہونے کا ہے۔۔۔۔۔

اور اگر ہم ایک ہی دفعہ شوق کہ راہ پکڑ لیں تو انسان کیسے ہو پائیں۔۔۔۔
ارے بھئی۔۔۔۔۔ہم انسان بھی تو ہیں۔۔۔۔۔۔۔
اور انسان کا مطلب ہی بھول جانے والا ہے۔۔۔اور یہ صفت کسی اور مخلوق میں نہیں۔۔۔۔ بلکہ ہمارا ہی خاصہ ہے۔۔۔۔
اور ایک مقدس روایت کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالٰی کو بار بار توبہ کرنے والا زیادہ پسند ہے بنسبت اس کے جو شروع سے متقی ہو۔۔۔۔
اور یہ سُن کے مجھ سی گنہگار کو تسکین در تسکین ملتی چلی گئی۔۔۔۔
ہم انسان ہیں نا۔۔۔۔ اپنی مرضی کے مطلب نکالنے والے۔۔۔۔۔۔:cry2:

انسان تو نکالتا مرضی کے مطلب اور مانگتا ہے اپنی مرضی کا نمبر ۔۔۔۔۔ ایک تحقیق کے مطابق مذہب پرستی ایک قسم کی پناہ ہے اور جب ہم طلب جتنی تسکین نہیں پاسکتے ہیں تو ہماری موت یقینی ہوجاتی ہے چاہے وی قدرت کی جانب سے اور چاہے وہ انسان خود اس کی طرف مڑے ۔۔۔۔آپ کیا کیا نظریہ ہے کہ انسان پناہ سے جلد موت کا سامنا کیوں ہوتا ہت ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
آپی جان آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ ہاتھ لرز رہے ہیں۔ پھوٹ پھوٹ کر ماتم کرنے کا دل کر رہا ہے۔
افسوس قلبی دوریاں کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔
یہ قلبی دوریاں ایسے ایسے واقعات کو جنم دے رہی جہاں معاشرہ بے حس تماشائی ہوتا ہے اور حساس لوگوں کے آنسو لہو ہوتے رہتے ہیں

گھر والے توجہ اس لیے نہیں دیتے کہ انہیں لگتا ہے کہ بچوں کے اپنے کوئی احساسات نہیں ہوتے بس جو ان کو کہہ دیا وہ انہیں مان لینا چاہیئے اور بس۔۔۔
گھر والے صرف اپنی ذات میں گم ہوتے ہیں انہیں سروکار نہیں کہ بچے بھی انسان ہوتے ہیں ان کے بھی جذبات ہوتے ہیں احساسات ہوتے ہیں ضروریات ہوتی ہیں پسند ہوتی ہے نا پسند ہوتی ہے۔
بچوں سے پیار بھی صرف اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ انہیں اچھے لگتے ہیں اس لیے نہیں کہ پیار بچے کا حق بھی ہے اور ضرورت بھی۔
اس محفل میں ہم سب کے آنے کی وجہ بھی یہی توجہ اور پیار ہے۔ ورنہ ہم سب تو انتہائی مصروف لوگ ہیں۔ اگر ہم توجہ حاصل کرنے نہیں آئے تو کیوں آئے ہیں؟؟؟؟؟ بتائیے۔
جو لوگ وقت گزاری کے لیے آئے ہیں وہ بھی اپنی ضرورت کے تحت ہی آئے ہیں۔ ورنہ ہم جیسے لوگ تو صرف اپنے مقصد کے لیے ہی کوئی کام کرتے ہیں۔
یہاں کون سا تنخواہ ملتی ہے جو ہم آ جاتے ہیں۔ توجہ لینے ہی آتے ہیں

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب گھر سے توجہ نہیں ملتی تو ہم بھی ویسا رد عمل پاتے ان کو اگنور کرتے ہیں کہ ان کو ہم سے پیار نہیں تو ہمیں فرق نہیں پڑتا ؟

بہنا علم کو عمل میں نہ ڈھالا تو سوچ کیسے تعلیم یافتہ ہو سکتی ہے؟؟؟؟
متفق !

نور سعدیہ شیخ آپی شکریہ شاہدہ کی آواز اٹھانے کا۔
شکریہ ! آپ کو کہ آپ نے اس کو پڑھا اور اس میں چھپے درد کو محسوس کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سعدیہ بہن انتہائی متاثر کن تحریر ہے جتنی تعریف کی جائے کم ہے دل تو کرتا ہے اس موضوع پر بہت کچھ لکھوں لیکن الفاظ کم پڑ جاتے ہیں.....
اس چھوٹی سی زندگی میں بہت کچھ دیکھ چکی ہوں آپ تو اپنا مشاہدہ پیش کر رہی ہو میں خود ایسے ہی ملتے جلتے حالات کا شکار رہی ہوں

کچھ روشنی کرو تاکہ اس تحریر سے کوئی اور راہنمائی لے سکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں سوچ اور عمل کو یہاں بیان کرتے کچھ لوگ اپنے اعمال درست کرنے میں اگر کامیاب ہو پائے تو میں کامیاب ہو پائی
 

نور وجدان

لائبریرین
مجھے بھی آپ ایسا ہی کچھ کہہ لیں ڈھیٹ یا بے حس.. لیکن شاید یہاں سب جانتے ہیں کہ میں اپنا دو ٹوک مؤقف دینے کے بعد آگے بحث نہیں کرتا... سب کی رائے کا احترام کرتا ہوں.. شاید میں پانی اور پیار میں فرق والی کو ٹھیک سے سمجھا نا پاؤں اس لیے میں اپنی بات واپس لیتا ہوں.. شکریہ
آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ گھر پہ کچھ نا ملے تو بندہ باہر ہی جائے گا.

آپ بے حس نہیں لگتے ۔۔۔پانی اور پیار والی بات اگر کھل کے کہ پائیں تو مجھے بھی جاننے کا موقع ملے گا ۔۔۔۔۔۔

آرگیومنٹس سے کوئی حل نکلنا ہی نہیں ہیں کیوں خواہ مخواہ اپنے لیے منفی درجہ بندیوں کا سامان مہیا کرواؤں۔
ناصر بھائی نے بہت اچھا جواب دیا ہے

حل تو بنا آرگیومنٹس کے بھی نہیں نکلے گا کہ یہ دنیا ایسی ہی پرپیچ ہے اور ایسا روز ازل سے ہو رہا ہے۔
لیکن آرگیومنٹس سے کم از کم اتنا ہو سکتا ہے کہ آپ کی کسی بات کسی دلیل سے کسی کی کوئی ذہنی گرہ کھل سکتی ہے۔ کوئ اور شاہدہ اس احساسِ کرب سے نکل سکتی ہے، ہوسکتا ہے کوئی اور شیخ حرمت ازسر نو اپنی ترجیحات کو مرتب نہ کرے۔
 

جاسمن

لائبریرین
جی بالکل۔
دراصل یہی جاننا تھا کہ آپ اس تحریر سے کیا حاصل کر پائیں سوائے رونے کے؟؟:p
اللہ کا شکر ہے نااصر بھائی! میری بیٹی تو لاڈو ہے ہماری۔ باوجود اس کے کہ اُس کی پرورش اور تربیت میں مجھے بہت بے آرامی ہوئی۔ خاصی مشکل پیش آئی۔ لیکن میں نے آج تک اُسے ایک ہلکا سا تھپڑ بھی نہیں مارا۔ وہ اگر کبھی رونے لگے تو میرے دِل کو کچھ ہونے لگتا ہے۔اُسے گلے لگاؤں تو کہتی ہوں کہ ایمی میرے دِل میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے تمہیں گلے لگا کر۔محمد کبھی چِڑ جائے تو مزاق میں کہتی ہوں کہ یہ تو میری سگی بیٹی ہے۔میں اُس کی سہیلی ہوں۔ وہ اپنی ساری باتیں مجھے بتاتی ہے۔ہم دونوں مل کے کبھی کبھی کھیلتے بھی ہیں۔اڈا کھڈا،کیکلی،کوکلا چھپاکی،لڈو،گُڑیا پٹولے۔ایک بار شادی بھی کی ہم نے گڈا گڑیا کی۔
اللہ کا شکر ہے۔ اللہ ہمارے بچوں کے مقدر اچھے کرے۔ آمین!
ایمی کے لئے لوری۔
چھوٹی چھوٹی دُنیا
ننھی مُنی دُنیا
پیاری پیاری ہے یہ
راج دُلاری ہے یہ
سوہنی سوہنی دُنیا
پیاری پیاری دُنیا
 
س معاشرتی مسئلے میں نفیسات کے حوالے سے کچھ کہنا چاہیں گے ؟ ایسا کیونکر ہوتا ہے کہ باوجود بیٹی بھی معاشی ترقی میں کردار ادا کرتی ہے پھر اس کو کم تر سمجھا جاتا ہے ؟یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے ۔۔۔۔ آپ اس کے حل کے لیے کوئی تجویز دینا چاہیں گے کیا پتا کسی ایک قاری کو راستہ مل جائے
یہ طویل موضوع ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ مکمل اعداد و شمار اور ملک بھر کے تمام علاقوں کے تجزیہ کے بغیر صرف اپنے ذاتی مشاہدے پر یہاں کوئی رائے قائم کروں کہ کیوں ہوتا ہے، اور کون کون ذمہ دار ہے، اور کیا تفصیلی طریقۂ کار اختیار کیا جا سکتا ہے، اس مسئلہ کے حل کے لئے۔ کیونکہ ذاتی مشاہدہ میں یہ مسئلہ بہت کم نظر آیا۔ (ذاتی مشاہدہ سے مراد قریبی اور دور کے رشتہ دار، محلہ دار وغیرہ شامل ہیں)۔ لیکن اس بنیاد پر میں ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسئلہ کم ہے، کیونکہ بہرحال یہ مسئلہ معاشرے میں موجود ہے۔

جو مسائل معاشرے میں سالہا سال پر کر جوان ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کو ختم کرنے کے لئے اس سےزیادہ محنت، تحمل اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
جس میں اس معاشرے کے با اثر طبقات (اپنے اپنے دائرہ میں) کا کردار اہم ہوتا ہے۔ جن میں حکومت، اساتذہ، علماء، والدین شامل ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے۔ بلکہ شاید ان مسائل میں بڑھوتری کا باعث ہیں۔

سب سے زیادہ قابلِ عمل مگر صبر آزماء اپروچ وہی ہے جو میں نے اپنی گذشتہ پوسٹ میں لکھی۔ اپنے آپ سے شروع کریں۔ اپنے خاندان میں اس مسئلے کے خلاف آواز اٹھائیں۔ جو آپ کی بات کو تسلیم کرے، اس کو ساتھ ملا کر آواز کو مضبوط بنائیں۔اگر ٹیچر ہیں تو طالبِ علموں کی درست رہنمائی کریں۔ اپنے ارد گرد موجود با اثر افراد تک اس بات کو پہنچائیں، ان کو اس مسئلے پر اپنا کردار ادا کرنے کی توجہ دلائیں۔

یہ جتنی آسانی سے میں نے لکھ دیا ہے، اتنا آسان کام نہیں ہے۔ حق کے لئے آواز اٹھائیں گے تو صبر بھی کرنا پڑے گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
پنے آپ سے شروع کریں۔ اپنے خاندان میں اس مسئلے کے خلاف آواز اٹھائیں۔ جو آپ کی بات کو تسلیم کرے، اس کو ساتھ ملا کر آواز کو مضبوط بنائیں۔اگر ٹیچر ہیں تو طالبِ علموں کی درست رہنمائی کریں۔ اپنے ارد گرد موجود با اثر افراد تک اس بات کو پہنچائیں، ان کو اس مسئلے پر اپنا کردار ادا کرنے کی توجہ دلائیں۔
شکر ہے بطور استاد بھی اِس مسلۂ پہ آواز اُٹھائی ہے۔ بچیوں کی راہنمائی کی ہے۔ (جس قدر ہو سکتا ہے،کرتے ہیں) اللہ کا شکر ہے۔ طلباء کو پڑھانے کا موقع ملا تو اُن سےبھی باتیں ہوئی ہیں۔
 
انسان تو نکالتا مرضی کے مطلب اور مانگتا ہے اپنی مرضی کا نمبر ۔۔۔۔۔ ایک تحقیق کے مطابق مذہب پرستی ایک قسم کی پناہ ہے اور جب ہم طلب جتنی تسکین نہیں پاسکتے ہیں تو ہماری موت یقینی ہوجاتی ہے چاہے وی قدرت کی جانب سے اور چاہے وہ انسان خود اس کی طرف مڑے ۔۔۔۔آپ کیا کیا نظریہ ہے کہ انسان پناہ سے جلد موت کا سامنا کیوں ہوتا ہت ؟
مذہب پرستی واقعی ایک پناہ ہے۔۔۔۔۔
جیسے کوئی بھی آفت آئے تو بچہ ماں کی گود میں چھپ جاتا ہے دوڑ کر یا ٹانگوں سے لپٹ جاتا ہے۔۔۔۔
میرے خیال میں نفسیاتی طور پر مذہب کا کردار وہی ہے۔۔۔
اور اسلام۔۔۔۔ ( دا لیٹسٹ ورژن)
ستّر ماؤں جتنی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بکہ ستّر ماؤں سے بڑھ کر پناہ دینے والا رحیم و کریم اللہ۔۔۔!
مجھے اس تحقیق سے اتفاق ہے مگر۔۔۔۔
انسان کیوں نہ پائے طلب سے بڑھ کر؟؟؟؟؟
دنیا کا کوئی شعبہ ، کوئی بادشاہ یا کوئی زمانہ ہمیں طلب سے بڑھ کر نہیں دے پاتا۔۔۔۔
لیکن وہ اہ جس کے سوا کوئی معبود ہےےےےے ہی نہیں۔۔۔۔! وہ ہمیشہ طلب سے بڑھ کر دیتا ہے۔۔۔۔۔
اسی لئے تو ہم زندہ ہیں۔۔۔۔۔ کم از کم میں اپنی زندگی کی وجہ یہی سمجھتی ہوں۔۔۔۔ مادی زندگی بھی اور روحانی زندگی بھی۔۔۔۔۔ ہاں ! میں بہت کچھ سہنے، دیکھ لینے، آگہی، ستم ظریفی ۔۔۔اس معاشرے میں رہنا ایک پرسنٹ بھی آسان نہیں۔۔۔۔۔۔۔ سب کے باوجود میں زندہ ہوں تو اسی لئے کیونکہ مذہبی پناہ نے ہمیشہ اس سے بڑھ کر لوٹایا ہے جو مرا اصل تھا۔۔۔اور اس سے بڑھ کر تھمایا ہے جو مری طلب تھی۔۔۔۔۔
بہت ناقص عقل اور ناقص ترین اعمال کے باوجود اللہ تعالی نے عطا کے خزانوں کے در ہمیشہ وا کیے رکھے۔۔۔۔
وہ حقیقی محبوب ہے جس کی طرف ایک قدم بڑھاؤ تو وہ 10 قدم بڑھاتا ہے میری طرف۔۔۔
اور جن کو طلب سے کم ملتا ہے اور موت کہ طرف بڑھے جاتے ہیں۔۔۔۔۔
وہ تمام انسان۔۔۔۔۔
سب سے پہلے اپنے آپ لو پہچانیں۔۔۔۔۔۔کہ وہ ہیں کون اور چاہتے کیا ہیں؟
اور پھر قبلہ درست کریں۔۔۔۔اور صرف کرنے کا فائدہ بہت کم ہے۔۔۔قبلہ درست "رکھیں"

قبلہ اور عقیدہ بیج کا کام کرتا ہے ایمان کے پودے کہ افزائش کیلیء۔۔۔۔
اور میرا ہرگز یہ مطلب ہو ہی نہیں سکتا کہ میرا قبلہ "ہی" درست ہے۔۔۔۔
نہ نہ نہ۔۔۔۔
مطلب فقط اتنا ہے کہ میری جستجو یہ کہتی ہے۔۔۔۔۔
اور میرا مشاہدہ گواہ ہے۔۔۔۔!
 
مذہب پرستی واقعی ایک پناہ ہے۔۔۔۔۔
جیسے کوئی بھی آفت آئے تو بچہ ماں کی گود میں چھپ جاتا ہے دوڑ کر یا ٹانگوں سے لپٹ جاتا ہے۔۔۔۔
میرے خیال میں نفسیاتی طور پر مذہب کا کردار وہی ہے۔۔۔
اور اسلام۔۔۔۔ ( دا لیٹسٹ ورژن)
ستّر ماؤں جتنی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بکہ ستّر ماؤں سے بڑھ کر پناہ دینے والا رحیم و کریم اللہ۔۔۔!
مجھے اس تحقیق سے اتفاق ہے مگر۔۔۔۔
انسان کیوں نہ پائے طلب سے بڑھ کر؟؟؟؟؟
دنیا کا کوئی شعبہ ، کوئی بادشاہ یا کوئی زمانہ ہمیں طلب سے بڑھ کر نہیں دے پاتا۔۔۔۔
لیکن وہ اہ جس کے سوا کوئی معبود ہےےےےے ہی نہیں۔۔۔۔! وہ ہمیشہ طلب سے بڑھ کر دیتا ہے۔۔۔۔۔
اسی لئے تو ہم زندہ ہیں۔۔۔۔۔ کم از کم میں اپنی زندگی کی وجہ یہی سمجھتی ہوں۔۔۔۔ مادی زندگی بھی اور روحانی زندگی بھی۔۔۔۔۔ ہاں ! میں بہت کچھ سہنے، دیکھ لینے، آگہی، ستم ظریفی ۔۔۔اس معاشرے میں رہنا ایک پرسنٹ بھی آسان نہیں۔۔۔۔۔۔۔ سب کے باوجود میں زندہ ہوں تو اسی لئے کیونکہ مذہبی پناہ نے ہمیشہ اس سے بڑھ کر لوٹایا ہے جو مرا اصل تھا۔۔۔اور اس سے بڑھ کر تھمایا ہے جو مری طلب تھی۔۔۔۔۔
بہت ناقص عقل اور ناقص ترین اعمال کے باوجود اللہ تعالی نے عطا کے خزانوں کے در ہمیشہ وا کیے رکھے۔۔۔۔
وہ حقیقی محبوب ہے جس کی طرف ایک قدم بڑھاؤ تو وہ 10 قدم بڑھاتا ہے میری طرف۔۔۔
اور جن کو طلب سے کم ملتا ہے اور موت کہ طرف بڑھے جاتے ہیں۔۔۔۔۔
وہ تمام انسان۔۔۔۔۔
سب سے پہلے اپنے آپ لو پہچانیں۔۔۔۔۔۔کہ وہ ہیں کون اور چاہتے کیا ہیں؟
اور پھر قبلہ درست کریں۔۔۔۔اور صرف کرنے کا فائدہ بہت کم ہے۔۔۔قبلہ درست "رکھیں"

قبلہ اور عقیدہ بیج کا کام کرتا ہے ایمان کے پودے کہ افزائش کیلیء۔۔۔۔
اور میرا ہرگز یہ مطلب ہو ہی نہیں سکتا کہ میرا قبلہ "ہی" درست ہے۔۔۔۔
نہ نہ نہ۔۔۔۔
مطلب فقط اتنا ہے کہ میری جستجو یہ کہتی ہے۔۔۔۔۔
اور میرا مشاہدہ گواہ ہے۔۔۔۔!
ویسے دیکھا جائے تو مذہب ہی جنسی تفریق کا ذمے دار ہے۔
مذہب نے بصورتِ انسان عورت کو کبھی عزت نہیں دی۔
کسی کی ماں بہن بیٹی کے ہی طور پر دی ہے۔
 
اللہ کا شکر ہے نااصر بھائی! میری بیٹی تو لاڈو ہے ہماری۔ باوجود اس کے کہ اُس کی پرورش اور تربیت میں مجھے بہت بے آرامی ہوئی۔ خاصی مشکل پیش آئی۔ لیکن میں نے آج تک اُسے ایک ہلکا سا تھپڑ بھی نہیں مارا۔ وہ اگر کبھی رونے لگے تو میرے دِل کو کچھ ہونے لگتا ہے۔اُسے گلے لگاؤں تو کہتی ہوں کہ ایمی میرے دِل میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے تمہیں گلے لگا کر۔محمد کبھی چِڑ جائے تو مزاق میں کہتی ہوں کہ یہ تو میری سگی بیٹی ہے۔میں اُس کی سہیلی ہوں۔ وہ اپنی ساری باتیں مجھے بتاتی ہے۔ہم دونوں مل کے کبھی کبھی کھیلتے بھی ہیں۔اڈا کھڈا،کیکلی،کوکلا چھپاکی،لڈو،گُڑیا پٹولے۔ایک بار شادی بھی کی ہم نے گڈا گڑیا کی۔
اللہ کا شکر ہے۔ اللہ ہمارے بچوں کے مقدر اچھے کرے۔ آمین!
ایمی کے لئے لوری۔
چھوٹی چھوٹی دُنیا
ننھی مُنی دُنیا
پیاری پیاری ہے یہ
راج دُلاری ہے یہ
سوہنی سوہنی دُنیا
پیاری پیاری دُنیا
میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔۔۔۔۔۔
ایک ہی بہن ہوں۔۔۔۔۔۔ بہت بہت بہت پیار ملا اور ملتا ہے۔۔۔۔۔۔ بھرپور توجہ اور سب کچھ۔۔۔۔ بلکک مجھے کبھییییییییی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھائیوں کو ایسا لگتا ہو گا کہ یہ آپی پہ نظرِ کرم خاص ہے۔۔۔ اور گھر میں میری رائے بھی بہت اہم ہے۔۔۔۔ لیکن یہ بات سب سے زیادہ توجہ کی مستحق ہے وہ یہ ہے کہ ہر "قرض" چکانا پڑتا ہے۔۔۔محبتوں کا حساب بھی سُود سمیت مانگا جاتا ہے

لیکن لیکن لیکن۔۔۔۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ ضروری نہیں یہ مسئلہ ہر جگہ قابلِ ذکر ہو۔۔۔۔۔۔ مگر کسی نہ کسی صورت میں ہر جگہ موجود ہے۔۔۔۔
مثلاََ
عملی میدان میں۔۔۔۔۔۔ میں نے جتنی اوپر باتیں کہیں وہ باتیں ہی ہیں۔۔۔۔۔ لیکن عملی طور پہ پھر بھی مردوں کو ہی فوقیت ہے چاہے وہ جتنے بھی چھوٹے ہوں۔
دوسری بات یہ کہ لڑکی کو بچپن سے اچھی تربیے لرنے کیلئے ہمیشہ کام کاج پہ لگایا جاتا ہے وہ پڑھتی بھی ہے اور کام بھی کرتی ہے۔۔۔۔بہتتت کام نہ سہی۔۔۔لیکن یہ اسکی ڈذمہ داری ہی گِنی جاتی ہے کہ اس نے کام کرنا ہے اور اگر وہ نہ کرے تو یہ اسکی اپنے فرائض سے شدید کوتاہی ہے ۔۔۔۔ لیکن لڑکے۔۔۔۔۔۔ انکا کام صرف پڑھنا ہے۔۔۔۔۔۔ انکو کیوں نہیں بچپن سے کسی کاریگر کے ساتھ لگا کہ ہنر سکھایا جاتا؟؟؟؟؟؟؟؟؟
تیسری بات جو نایاب انکل نے کہی کہ لڑکی کالج جائے تو اس کو بٹھا کہ سمجھایا جاتا ہے ہماری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے اور یہ سببببب کچھ۔۔۔۔۔جس لڑکی کے ذہن میں یہ بات سرے سے ہوتی ہی نہیں وہ بھی آ جاتی ہے۔۔۔۔ لیکن باہر یا کالج جاتے ہوئے لڑکوں کے ٹشن نرالے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ان پہ دباؤ بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔

مجھے پتا ہے کہ ان سب کے پیچھے وجوہات ہیں۔۔۔۔ مگر وہ وجوہات بھی اسی غلیظ معاشرے نے گھڑی ہیں عملی طور پر بھی اور نفسیاتی طور پر بھی۔۔۔۔
 
ویسے دیکھا جائے تو مذہب ہی جنسی تفریق کا ذمے دار ہے۔
مذہب نے بصورتِ انسان عورت کو کبھی عزت نہیں دی۔
کسی کی ماں بہن بیٹی کے ہی طور پر دی ہے۔
مجھے پتا تھا یہی ہونا ہے۔
لگتا ہے اب ہمیں حریصِ لذتِ آزار ہونا پڑے گا شاید تب لوگ غیر متفق کے بٹن سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔
 
ویسے دیکھا جائے تو مذہب ہی جنسی تفریق کا ذمے دار ہے۔
مذہب نے بصورتِ انسان عورت کو کبھی عزت نہیں دی۔
کسی کی ماں بہن بیٹی کے ہی طور پر دی ہے۔
بھیا!
جب فرق ہے۔۔۔۔ تو تفریق تو ہو گی۔۔۔۔۔
ظاہر ہے اور یقینی ہے۔۔۔۔۔
لیکن ہم اس تفریق کی نوعیت پر غور کر رہے ہیں جو معاشرے کی من گھڑت ہے۔۔۔۔
اسلام کسی غیر عورت کی طرف دوسری بار دیکھنے کو (پہلی نظر جو کہ دانستہ نہ ہو معاف ہے) نظروں کا زنا گردانتا ہے۔۔۔۔۔

ہم اس قسم کی معاشرتی برائیوں کے حل پہ بحث کر رہے ہیں بھیا۔۔۔
اور ہم نے یہ کہا ہے کہ اگر شاہدہ کے ابا اسے ہر جگہ ساتھ نہیں لے جاسکتے تھے تو اسکے لئے کسی متبادل سرگرمی کا انتظام اور اسے وقت اور توجہ دینا تو ان پر فرض تھا۔۔۔۔۔
اور حضرت فاطمہ رض کی مثال معلوم ہو گی آپکو۔۔۔۔۔
 
بھیا!
جب فرق ہے۔۔۔۔ تو تفریق تو ہو گی۔۔۔۔۔
ظاہر ہے اور یقینی ہے۔۔۔۔۔
لیکن ہم اس تفریق کی نوعیت پر غور کر رہے ہیں جو معاشرے کی من گھڑت ہے۔۔۔۔
اسلام کسی غیر عورت کی طرف دوسری بار دیکھنے کو (پہلی نظر جو کہ دانستہ نہ ہو معاف ہے) نظروں کا زنا گردانتا ہے۔۔۔۔۔

ہم اس قسم کی معاشرتی برائیوں کے حل پہ بحث کر رہے ہیں بھیا۔۔۔
اور ہم نے یہ کہا ہے کہ اگر شاہدہ کے ابا اسے ہر جگہ ساتھ نہیں لے جاسکتے تھے تو اسکے لئے کسی متبادل سرگرمی کا انتظام اور اسے وقت اور توجہ دینا تو ان پر فرض تھا۔۔۔۔۔
اور حضرت فاطمہ رض کی مثال معلوم ہو گی آپکو۔۔۔۔۔
تفریق ہونی ہی کیوں چاہیے؟ فرق کس بات کا ہو؟
 
فرق فرق سب کہتے رہے اقبال اور اکبر الٰہ آبادی نے تو تعلیم کی بھی مخالفت کی علما نے کہا اتنا نہ پڑھاؤ کہ لکھنا جان جائیں وغیرہ وغیرہ پھر خود ہی وقت کے ہاتھوں مجبور ہوگئے اور مذہبی تعلیمات کو بھی اس کے مطابق ڈھال دیا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی تعلیمات کو اگلے لیول تک ڈھالیں اور مرد اور عورت کو برابر قرار دیں۔
 
ویسے دیکھا جائے تو مذہب ہی جنسی تفریق کا ذمے دار ہے۔
مذہب نے بصورتِ انسان عورت کو کبھی عزت نہیں دی۔
کسی کی ماں بہن بیٹی کے ہی طور پر دی ہے۔
بھیا آپ مذہب پر کیسے جنسی تفریق کا الزام عائد کر سکتے ہیں ایسا کون سا مقام ہے جہاں آپ کو لگا مذہب نے عورت کی حق تلفی کی ہے
باقی آپ اگر غیر متفق والی ریٹنگز سے پریشان ہیں تو میں یہ ختم کر دیتی ہوں ریٹنگ کا مطلب آپ کی اس بات سے غیر متفق ہونا ہے آپ کی ذات سے نہیں. آپ بشک مجھے غیر متفق والی ریٹنگ دیں کوئی پابندی نہیں ہے
 
Top