"کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کُن فیکون"

نور وجدان

لائبریرین
وہ شیخ حُرمت اور ثُریا بیگم کی پہلوٹھی کی اولاد تھی. اتنی من موہنی صُورت تھی کہ جو دیکھے , دیکھتا ہی رہ جائے. ثریا بیگم کے میکے کی جانب سے اس ننھی پری کا نام شاہدہ رکھا گیا. گو کہ شیخ صاحب کا گھرانہ مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتا تھا مگر ننھی شاہدہ کے ناز نخرے یُوں اُٹھائے جاتے , گویا مُنہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہُوئی ہو.
جب شاہدہ نے عمر کے چوتھے سال میں قدم رکھا تو شیخ صاحب کے ہاں "شہزاد" نے جنم لِیا. اگرچہ وہ پہلوٹھی کی اولاد نہ تھا , مگر تھا تو شیخ صاحب کا جانشین....شیخِ ثانی... گو کہ شاہدہ کیلئے اُنکے پیار میں کمی نہ آئی لیکن اگر شاہدہ کی آنکھوں سے دیکھا جائے تو پیار بَٹ رہا تھا , ترجیحات از سرِ نو مقرر ہو رہی تھیں اور 'بٹیا رانی' پس منظر میں جا رہی تھی. وہ جو گھر لوٹتے ہی شیخ صاحب کے لبوں سے 'شاہدہ شاہدہ' کی تکرار ہوا کرتی تھی , اُس نے ایک اور رُوپ دھار لِیا تھا.

شاہدہ کے حساس ذہن کے پردے پر شہزاد کے 'گھناؤنے پن' اور 'حق تلفی ' کا احساس روز بروز بڑھتا جا رہا تھا اور یہ احساس ایک نیا رُوپ اختیار کرتا چلا گیا. جب تک شہزاد چھوٹا تھا , شاہدہ اُسے چارپائی سے گِرانے, کھلونے توڑنے اور اُسے کسی طور رُلانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتی تھی. مگر جب شہزاد نے قدرے ہوش سنبھالا تو شاہدہ خُود اذیتی کی قید میں گرفتار ہوتی چلی گئی. وہ باپ کی توجّہ اور اماں کی محبت حاصل کرنے کے لیے نئے نئے کام سیکھنے لگی مگر وہ مہر جو اس کو 'چاہئیے' تھی وہ شہزاد کے ماتھے پر ثبت ہوتی رہی اور ننھی شاہدہ کی ننھی کوششوں کے باوجود وہ سب کی توجہ کا 'مرکز' نہ بن سکی.ہاں....اُسے "مرکز" بننا تھا. جب بھی ابّا شہزاد کو گُھمانے لے جاتے تو شاہدہ ہمہ تن گوش ہو جاتی کہ اب اُسے پکارا جائے گا اور ساتھ چلنے کو کہا جائے گا. مگر وہ وقت نہ آنا تھا, نہ آیا....کیونکہ وہ 'بیٹی' تھی.

چند سال یُونہی سِرکے تو شاہدہ نے اپنی توجّہ سکول کی جانب مبذول کر لی اور اسے ہی اپنی دلچسپیوں کا مرکز ٹھہرایا. وہ قدرے ذہین طالبہ تھی, مگر یہاں بھی اسکا مقصد اساتذہ کیلیے'مرکزِ نگاہ' بننا تھا. لہٰذاگھنگھریالے بالوں اور گندمی رنگت والی شاہدہ ہر نئے مقابلے میں شرکت اور ہر امتحان میں بہتر نمبر لینے کی جدوجہد کرنے لگی. وہ ہر جگہ بہتر تو کر پائی , مگر ہر سرگرمی میں سرگرمِ عمل ہونے کی وجہ سے وہ کبھی اوّل نہ آ سکی اور اوّل نہ آنے کے باعث وہ توجہ کا "مرکز" نہ بن پائی اور ناتمام آرزوؤں نے کچھ اور سر اُٹھانا شروع کر دِیا.
ایک دِن گراؤنڈ میں بیٹھی اپنی ذات کو موردِ الزام ٹھہراتی شاہدہ کی ملاقات علی سے ہوئی. وہ اُسے یوں بیٹھی دیکھ کر ٹھٹھک کر رُکا تھا کہ اُسے تسلّی دے. مگر جب وہ اُٹھا تو بذاتِ خود شاہدہ کی زلف کا اسیر ہو چُکا تھا. معمولی سی مزاحمت کے بعد شاہدہ بھی شریکِ محبت ہوتی چلی گئی. بلآخر وہ کسی کی توجہ کا "مرکز" بن ہی گئی تھی. روزوشب یوں ہی گُزرنے لگے, مگر ایک دِن علی کے ابّا کی وفات نے گویا پیروں تلے سے زمین کھینچ لی. علی کو پڑھائی چھوڑ کر اپنے ابا کی موٹر ورکشاپ سنبھالنی پڑی. سب عہد و پیمان ہوا ہُوئے اور دونوں کے درمیان دیواریں آتی چلی گئیں.


اتنی توجہ کے بعد اکیلے رہ جانا شاہدہ کیلئے پاتال میں گِرتے چلے جانے کے مترادف تھا. انہی دِنوں سعدیہ اسکی دوست بنی, جو اسکے زخموں پر مرہم تو نہ رکھ سکتی تھی مگر اسکے رونے کیلئے کندھا فراہم کر سکتی تھی . وہ دونوں گھنٹوں باتیں کرتیں مگر چند ماہ کے بعد ان دونوں کے راستے اچانک یُوں جُدا ہوئے کہ ایک عرصہ ملاقات نہ ہو پائی, کیونکہ وہ دونوں سکول سے فارغ التحصیل ہو کر الگ الگ کالجز میں داخلہ لے چُکی تھیں.


کالج میں بھی شاہدہ نے جدوجہد جاری رکھی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رہی. ایسے ہی ایک مقابلے کی ریہرسلز کے دوران حَسن اس کی قابلیتوں کا ایسا معترف ہُوا کہ روز بروز زندگی کے سینے پر اک نئی داستان رقم ہونے لگی.شاہدہ ایک بار پھر ہواؤں میں اُڑنے لگی اور محبت بھری پینگیں جُھولنے لگی. مگر ابھی چند ہی ماہ گُزرے تھے کہ وہ جو اُسکی قابلیتوں کا معترف ہُوا کرتا تھا اُسے کوئی بہتر لڑکی مل گئی , جو شاہدہ سے زیادہ قابل تھی اور حَسن کی آنکھ کا تارہ بنتی چلی گئی, جب کہ پچھلا تارہ "شاہدہ" گویا شہابِ ثاقب بن کر عرش سے فرش کی جانب گرتا چلا گیا اور کہیں راہ میں ہی معدوم ہو گیا شاید.
شاہدہ کو ایک دِن سرِ راہ ہی سعدیہ مل گئی تو وہ زمان و مکاں سے لا پرواہ ہو کر اسکے گلے لگ کر پھوٹ پُھوٹ کر رو دِی اور داستانِ مختصر سُنا ڈالی.


یہ آج سے قریباََ دو مہینے پہلے کی بات ہے۔ کہ میں کچھ سوال لیئے جواب تلاش رہی تھی کہ .
شاہدہ کیوں اس کشمکش کا شکار رہی ۔؟
, اس پر جوحالات بیتے ان کے پیچھے اصل ہاتھ کِس کا تھا ؟

کیا والدین بنا صنف کی تفریق کیئے اپنے بچوں کی نفسیاتی تسکین بھی فرض ہے یا واجب, ؟
شاید اس سوال پر اک لمبی بحث جنم لے ۔

مگر آج جب کوئلہ بنی شاہدہ کو کفن میں دیکھا تو میں اپنی دلخراش چیخ ضبط نہ کر پائی...جی ہاں! میں وہی سعدیہ ہوں , شاہدہ کی سہیلی....
کل رات اک طوفان باد باراں میں گِرنے والی بجلی کی زَد میں آتے شاہدہ کا گھر محفوظ نہیں رہ پایا. اس کی والدہ نانا کے گھر اور شہزاد اور ابّا کسی میچ کے سلسلے میں گھر سے باہر تھے ۔ جب وہ حساس رُوح اپنے جسدِ خاکی سے نجات پاگئی اور اسکا کوئلہ بنا جسم سب کی توجّہ کا "مرکز" بن گیا. جی ہاں! "مرکز".

جو تمام عمر مرکز نہیں بن پاتے , انہیں موت یہ موقع فراہم کرتی ہے.... لیکن ہمارے اردگرد موجُود مگر قلبی طور پر کوسوں دُور موجُود اِن پیاروں کو کیا معلُوم...
 
سعدیہ بی بی، دنیا یونہی ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس کی تقدیر نہیں بدل سکے۔ اللہ میاں نے بنایا ہی ایسا ہے۔ اب اس سے مقابلہ کون کرے؟
غالبؔ نے دلی کے گلی کوچوں میں زندگی سے برسرِپیکار مفلسوں کو دیکھ کر کچھ اس قسم کی بات کہی تھی کہ اللہ مجھے عطا کرے تو انھیں اس حال میں نہ رہنے دوں۔ پر کیا کروں کہ میرا اپنا حال کم و بیش یہی ہے۔
شاہدہ کی داستانِ حیات درد انگیز ہے۔ مگر کس کی نہیں ہے؟ نبیِ کریمﷺ کے بدن پر کھری چارپائی پر لیٹنے سے پڑے ہوئے نشانات دیکھ کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ رو پڑے۔ شکوہ کیا کہ قیصر و کسریٰ کی آسائشات کیا کیا ہیں اور سرورِ کائناتﷺ کی کیفیت کتنی پردرد ہے۔ حضورﷺ نے تعجب کی نگاہ سے انھیں دیکھا اور استفسار فرمایا کہ عمر! کیا تمھیں واقعی اگلی زندگی کا یقین نہیں؟
زندگی یہی ہے۔ بس خوش رہیے۔ خوش رہنے کا سامان بھی کم نہیں۔ میں ایدھی صاحب کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں، الٰہی! دنیا میں اتنے دکھ ہیں کہ اس شخص کی عمر گزر گئی انسانیت کے دکھ بانٹتے اور وہ پرِ پشہ کے برابر بھی کم نہیں ہوئے؟ پھر پطرس کی جانب نگاہ کرتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں کہ دنیا میں اتنی مسکراہٹیں ہیں کہ بارہ مضمونوں کا تبسم اتنی دہائیوں سے ماند نہیں پڑا؟
 
آخری تدوین:

باباجی

محفلین
گو کہ الفاظ سے کبھی دکھ کا عشر عشیر بھی بیاں نہیں ہوپاتا..
لیکن ذریعہ اظہار بھی یہی الفاظ ہوتے ہیں
اللہ مغفرت فرمائے اور سکون عطا فرمائے
آمین
 

نور وجدان

لائبریرین
سعدیہ بی بی، دنیا یونہی ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس کی تقدیر نہیں بدل سکے۔ اللہ میاں نے بنایا ہی ایسا ہے۔ اب اس سے مقابلہ کون کرے؟
غالبؔ نے دلی کے گلی کوچوں میں زندگی سے برسرِپیکار مفلسوں کو دیکھ کر کچھ اس قسم کی بات کہی تھی کہ اللہ مجھے عطا کرے تو انھیں اس حال میں نہ رہنے دوں۔ پر کیا کروں کہ میرا اپنا حال کم و بیش یہی ہے۔
شاہدہ کی داستانِ حیات درد انگیز ہے۔ مگر کس کی نہیں ہے؟ نبیِ کریمﷺ کے بدن پر کھری چارپائی پر لیٹنے سے پڑے ہوئے نشانات دیکھ کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ رو پڑے۔ شکوہ کیا کہ قیصر و کسریٰ کی آسائشات کیا کیا ہیں اور سرورِ کائناتﷺ کی کیفیت کتنی پردرد ہے۔ حضورﷺ نے تعجب کی نگاہ سے انھیں دیکھا اور استفسار فرمایا کہ عمر! کیا تمھیں واقعی اگلی زندگی کا یقین نہیں؟
زندگی یہی ہے۔ بس خوش رہیے۔ خوش رہنے کا سامان بھی کم نہیں۔ میں ایدھی صاحب کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں، الٰہی! دنیا میں اتنے دکھ ہیں کہ اس شخص کی عمر گزر گئی انسانیت کے دکھ بانٹتے اور وہ پرِ پشہ کے برابر بھی کم نہیں ہوئے؟ پھر پطرس کی جانب نگاہ کرتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں کہ دنیا میں اتنی مسکراہٹیں ہیں کہ بارہ مضمونوں کا تبسم اتنی دہائیوں سے ماند نہیں پڑا؟


مجھے سمجھ نہ آ سکی کہ آپ کے اس تبصرہ کا اور تحریر کا کیا ربط ہے ۔ مجھے کہیں سے کوئی ربط سمجھ نہ آ سکا ۔ کیا یہ تحریر میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب ہے ۔ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ نے اس کہانی کو میری سرگزشت مان مجھے اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی تلقین کر دی
اس تحریر کا جو بنیادی پیغام یا سوال ہے ۔ وہ آپ کے تبصرے سے بہت دور ہے ۔کیا بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دینا اللہ کی رضا ہے ؟:
اگر مجھے ربط سمجھا سکیں تحریر اور تبصرے کی تو شکر گزار....یہ کہانی ہے جس کا مشاہدہ کیا گیا ہے ... میری صلاحیت کہ اول آنے والوں میں سے ہوں ' نگاہوں کا مرکز رہی ہوں...
 

لاریب مرزا

محفلین
افسوس!! حیرت ہے ایسے والدین پر جو بیٹوں اور بیٹیوں میں تفریق کرتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے والدین کو توفیق دیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو سمجھیں اور ان سے شفقت کا معاملہ کریں تاکہ وہ توجہ حاصل کرنے کے غلط متبادل گھر سے باہر نہ تلاشیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
سعدیہ۔ راحیل نے آپ کی اِس تحریر/کہانی پہ ہی تبصرہ کیا ہے۔ اور بہت خوبصورت تبصرہ ہے۔ زندگی واقعی یونہی ہے۔ صنفی امتیاز کے علاوہ بھی اگر دیگر امتیازات دیکھے جائیں تو اس سے ملتی جلتی لاکھوں کہانیاں ہیں۔۔۔۔دُکھ بانٹنے والے بھی ایدھی کی صورت موجود ہیں۔۔۔
آپ کا دل بہت حساس ہے۔ راحیل نے آپ کو دلاسہ دیا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
یہ ایک ایسے دل سے نکلی تحریر ہے جو لوگوں کے دُکھ گہرائی میں جا کے محسوس کرتا ہے۔ ایسے دلوں کو اللہ سکون سے بھر دے۔ آمین!
 

باباجی

محفلین
دراصل ہمارے ہاں والدین پتا نہیں کیوں بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دیتے ہیں... اسلیے معاشرے میں برداشت کا توازن بگڑ رہا ہے.. لیکن پھر بھی گھر والوں کی توجہ کا نعم البدل کوئی باہر والا نہیں ہوسکتا..
خاص طور سے ایسی صورت حال لڑکیوں کے لیے بہت خطرناک ہوتی ہے... اللہ سب کو محفوظ رکھے
 

نایاب

لائبریرین
بیٹے اور بیٹی کے درمیان صنفی تفریق اور امتیاز پر قائم " بے حس معاشرے " میں مسلسل برپا رہنے والا المیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور " مجھ ایسے فرد " جن پر معاشرہ استوار ہے ۔۔۔۔
"سجدے میں گر گئے جب وقت قیام آیا " مصداق بجائے اس کےکہ " بیٹی اور بیٹے " کے درمیان موجوداس معاشرتی تضاد کو دور کرنے کے لیئے کوشش کریں ۔ تاکہ کسی بھی بیٹی کو اپنے بھائی اسے کسی بھی صورت جلن نہ ہو ۔ دونوں اک جیسے معیارت کے حامل توازن پر گھر کے بزرگوں کی نگاہ میں اک جیسے سلوک کے حقدار اور توجہ کے " مرکز " ہوں ۔ اور کسی بیٹی کو اس احساس کمتری میں مبتلا ہونے کا موقع ہی نہ ملے کہ وہ " باہر مرکز نگاہ " بنتے توجہ حاصل کرنے کی خواہش کرے ۔
" ہم " اسے قران اور اسلام سے " صبر و رضا " پر قائم رہنے کی نصیحتوں کی رسی سے باندھ دیتے ہیں ۔
.کیونکہ وہ 'بیٹی' تھی.
سچ لکھا آپ نے " بیٹی " بارے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس معاشرے میں بیٹی کو قران سے بیاہ سے بیاہ دینا ۔ اپنے خاندانی مفاد کی بھینٹ چڑھا دینا عام ہو۔
بیٹی کو اپنی زندگی کے تمام دکھ " رضائے الہی " مانتے سر جھکا زندگی گزارنا کی نصیحتیں بچپن سے دینا تاکہ یہ " حق " کی آواز بلند ہی نہ کرسکے ۔ اس معاشرے میں بیٹی اکثر ہی اس کرب و بلا سے گزرتی ہے ۔
اس پر جوحالات بیتے ان کے پیچھے اصل ہاتھ کِس کا تھا ؟
اگر والدین بیٹے اور بیٹی کے درمیان صنفی امتیاز نہ رکھیں ۔ اور دونوں کو یکساں نگاہ سے دیکھتے دونوں کی نفسیات کو سمجھتے ان کی پرورش کریں ۔ تو دونوں میں سے کسی کو بھی گھر سے غیر نصابی طور پر " مرکز نگاہ " بننے کی خواہش اور حسرت ہی نہ ہو ۔
" شاہدہ کیا چاہتی تھی " صرف یہی کہ اسے بھی اسی پیار کی نگاہ سے دیکھا جائے اسے بھی وہی توجہ ملے جو اس کے " بھائی " کو ملتی ہے ۔اس کی یہی سوچ اسے زندگی کے دکھوں کی تلخی میں ڈبوتی گئی ۔
کیا والدین بنا صنف کی تفریق کیئے اپنے بچوں کی نفسیاتی تسکین بھی فرض ہے یا واجب, ؟
والدین پر بلاشک اپنے بچوں کی بنا صنفی تفریق نفسیاتی تسکین واجب ہے ۔ تاکہ وہ کسی بھی صورت کوئی تشنگی نہ محسوس کریں ۔ گھر والوں کی نگاہ سے چھپ کر معاشرے میں چور راستے تلاش کرتے اپنے آپ کو تسکین دینے کی کوشش میں گمراہی کی راہ پر نہ چل پڑیں ۔۔۔۔۔
آگہی بکھیرتی اک خوبصورت تحریر
" شاہدہ " کے لیئے دعائے مغفرت کے ہمراہ
آپ کے لیے بہت سی دعاؤں بھری داد
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
وعلیکم السلام ۔
جیتی رہیں ہنستی مسکراتی رہیں سدا
محترم بٹیا رانی
کرم ہے اللہ سچے کا سب خیریت ہے ۔
یہ کم کم دکھنا محفل میں " نیٹ بابا " کا قصور ۔۔
محفل تو چیز ہی ایسی ہے نہ چھوڑی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
موضوع پر نور بہن، راحیل بھائی، نایاب بھائی و دیگر نے بڑی تفصیل سے بات رکھ دی ہے. میری طرف سے صرف اتنا ہی کہ جب بھی کوئی معاشرتی یا کسی بھی قسم کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو اپنے آپ سے پہلا سوال کرتا ہوں. کیا یہ مسئلہ میرے اندر تو موجود نہیں؟
اگر کسی بھی درجے میں ہے تو اس برائی کو اپنے اندر سے نکالوں.
اس کے بعد اپنے آس پاس جن لوگوں تک اس پیغام کو پہنچا سکتا ہوں، ان تک پہنچاؤں.
کسی بھی معاشرتی برائی کے ختم ہونے میں اور اچھائی کے پھیلنے میں "میرا" کردار بہت اہم ہے.
جو لکھ کر یہ پیغام پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ اس موضوع پر لکھے. جو بول کر بہتر ابلاغ کر سکتا ہے وہ اس موضوع پر بولے. اپنی اپنی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق اپنا کردار ادا کریں گے تو ان شاء اللہ ایک دن ضرور اجالا ہو گا.
اللہ تعالٰی ہمیں اپنے آپ کو اور معاشرے کو بہتر کرنے کی کوشش کی توفیق عطا فرمائے. آمین
 
آخری تدوین:
محترم سعدیہ نور شیخ بٹیا جی
مجھے لگتا ہے کہ کرداروں اور مصنف کے نام میں " شیخ " کی مماثلت اس کی وجہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
انکل ! شاید اصل وجہ لکھنے والی کا "سعدیہ" ہونا ہے جو شاہدہ کی سہیلی ہے اور بہت نزدیکی مشاہدہ ہے۔۔۔۔۔
اور پرسوں رات واقعی آسمانی بجلی گری تھی کئی گھروں پر اور پورے کے پورے کئی کُنبے جل کر مر گئے۔
اب یہ کہانی فسانے میں حقیقت ہے یا حقیقت میں کوئی فسانہ۔۔۔۔۔ یہ تو ہمیں سعدیہ ہی بتائیں گی۔
 

نور وجدان

لائبریرین
گو کہ الفاظ سے کبھی دکھ کا عشر عشیر بھی بیاں نہیں ہوپاتا..
لیکن ذریعہ اظہار بھی یہی الفاظ ہوتے ہیں
اللہ مغفرت فرمائے اور سکون عطا فرمائے
آمین
دُکھ محسوس کرنا ہر حساس روح کی امانت ہے ۔۔۔۔۔ آمین ۔ اللہ تعالیٰ مغفرت کرے ۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
افسوس!! حیرت ہے ایسے والدین پر جو بیٹوں اور بیٹیوں میں تفریق کرتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے والدین کو توفیق دیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو سمجھیں اور ان سے شفقت کا معاملہ کریں تاکہ وہ توجہ حاصل کرنے کے غلط متبادل گھر سے باہر نہ تلاشیں۔
لاریب بہنا ! بات وہی ہوگئی کہ آپ نے حالات کا بہترین تجزیہ کیا ہے کیا ہم سے ہر کوئی حل نہیں بتاسکتا ہے کہ ایسا ہوتا ہے اس کا سبب یہ تھا اور یوں نہ ہوتا تو یہ المیہ نہیں ہوتا ۔ ۔۔شاید اس طرح کوئی اس تحریر کو پڑھ کو راہ سیدھی کرلے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ ایک ایسے دل سے نکلی تحریر ہے جو لوگوں کے دُکھ گہرائی میں جا کے محسوس کرتا ہے۔ ایسے دلوں کو اللہ سکون سے بھر دے۔ آمین!
جاسمن بہنا ! آپ کا حُسن ظن ہے اور درحقیقت آپ نے پڑھ کے بصورت تبصرہ اور راحیل بھائی نے بھی دلاسے دیتے عیاں کی ہے ۔۔۔ جس طرح آگہی نعمت ہے اور اذیت بھی ہے ۔بس یہی حال ہے ، آپ کے نزدیک اس دکھ اور المیے سے کیسے بچا جائے ۔ میرے سامنے جناب بی بی حضرت سید زہرا فاطمہ رض کا سراپا سامنے آتا ہے جن کا لقب ام ابیھا اور اپنے بابا کی لاڈلی تھیں ۔ وہ زمانہ اور آج کا زمانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔صنف تقسیم نے سو رنگ اختیار کیے ۔۔ اس تفریق سے سو دکھ جنم لیے ہیں ۔ اس دکھ کا مداوا نہیں ہوسکتا ہے مگر مستقبل میں بچا جاسکتا ہے ۔۔۔مگر کیسے ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
دراصل ہمارے ہاں والدین پتا نہیں کیوں بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دیتے ہیں... اسلیے معاشرے میں برداشت کا توازن بگڑ رہا ہے.. لیکن پھر بھی گھر والوں کی توجہ کا نعم البدل کوئی باہر والا نہیں ہوسکتا..
خاص طور سے ایسی صورت حال لڑکیوں کے لیے بہت خطرناک ہوتی ہے... اللہ سب کو محفوظ رکھے
گھر والے توجہ کیوں نہیں دیتے ۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور گھر کی تخریب معاشرے کی تخریب میں شمار ہوجاتی ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
اگر والدین بیٹے اور بیٹی کے درمیان صنفی امتیاز نہ رکھیں ۔ اور دونوں کو یکساں نگاہ سے دیکھتے دونوں کی نفسیات کو سمجھتے ان کی پرورش کریں ۔ تو دونوں میں سے کسی کو بھی گھر سے غیر نصابی طور پر " مرکز نگاہ " بننے کی خواہش اور حسرت ہی نہ ہو ۔
" شاہدہ کیا چاہتی تھی " صرف یہی کہ اسے بھی اسی پیار کی نگاہ سے دیکھا جائے اسے بھی وہی توجہ ملے جو اس کے " بھائی " کو ملتی ہے ۔اس کی یہی سوچ اسے زندگی کے دکھوں کی تلخی میں ڈبوتی گئی ۔

آپ نے سبب سانحہ کی توضیح کرتے اس کے سد باب کا کہا ہے ۔ اس کے زیر اثر بہت خوب جواب کہا ہے ۔ والدین ایسا کیوں کرتے ہیںِ؟ کیا ایک ماں جان کے یہ رویہ برتتی ہے ؟ یا وہ ایک سربراہ کے آگے مجبور ہوتی ہے ؟ یا ایک عورت دوسری عورت کو نظر انداز کرتی ہے یعنی بیٹی اور ماں ۔۔۔۔۔۔دونوں ۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس کے پیچھے نفیسات کی کوئی گرہ ہے ؟ ماں کس اثر کے لحاظ سے بیٹے کو تر جیح دیتی ہے ؟ اور باپ کس نفیسات کے اثر بیٹے کو ترجیح دیتا اور بیٹی کو اگنور کرتا ہے ؟ یہاں پر فرائیڈن تھیوری ہے یا کارل جنگ کی روحانیت کی جانب پھرتی کوئی فلاسفی ؟
 
Top