"کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کُن فیکون"

نور وجدان

لائبریرین
موضوع پر نور بہن، راحیل بھائی، نایاب بھائی و دیگر نے بڑی تفصیل سے بات رکھ دی ہے. میری طرف سے صرف اتنا ہی کہ جب بھی کوئی معاشرتی یا کسی بھی قسم کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو اپنے آپ سے پہلا سوال کرتا ہوں. کیا یہ مسئلہ میرے اندر تو موجود نہیں؟
اگر کسی بھی درجے میں ہے تو اس برائی کو اپنے اندر سے نکالوں.
اس کے بعد اپنے آس پاس جن لوگوں تک اس پیغام کو پہنچا سکتا ہوں، ان تک پہنچاؤں.
کسی بھی معاشرتی برائی کے ختم ہونے میں اور اچھائی کے پھیلنے میں "میرا" کردار بہت اہم ہے.
جو لکھ کر یہ پیغام پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ اس موضوع پر لکھے. جو بول کر بہتر ابلاغ کر سکتا ہے وہ اس موضوع پر بولے. اپنی اپنی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق اپنا کردار ادا کریں گے تو ان شاء اللہ ایک دن ضرور اجالا ہو گا.
اللہ تعالٰی ہمیں اپنے آپ کو اور معاشرے کو بہتر کرنے کی کوشش کی توفیق عطا فرمائے. آمین
آپ کا مثبت کردار تو اس فارم میں مظاہرہ کرچکی ہوں ۔۔۔۔۔۔تابش بھائی ہمارے ملک کو آپ جیسے افراد کی سخت ضرورت ہے ۔۔۔۔۔اس معاشرتی مسئلے میں نفیسات کے حوالے سے کچھ کہنا چاہیں گے ؟ ایسا کیونکر ہوتا ہے کہ باوجود بیٹی بھی معاشی ترقی میں کردار ادا کرتی ہے پھر اس کو کم تر سمجھا جاتا ہے ؟یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے ۔۔۔۔ آپ اس کے حل کے لیے کوئی تجویز دینا چاہیں گے کیا پتا کسی ایک قاری کو راستہ مل جائے
 

ناصر رانا

محفلین
ایک دل دکھا دینے والی تحریر۔:applause:
دیکھا جائے تو قصوروار کوئی بھی نہیں ہے، اور تقریباً سب ہی بشمول سعدیہ اور خود شاہدہ کے سب ہی قصوروار بھی ہیں۔
سعدیہ بی بی، دنیا یونہی ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس کی تقدیر نہیں بدل سکے۔ اللہ میاں نے بنایا ہی ایسا ہے۔ اب اس سے مقابلہ کون کرے؟
غالبؔ نے دلی کے گلی کوچوں میں زندگی سے برسرِپیکار مفلسوں کو دیکھ کر کچھ اس قسم کی بات کہی تھی کہ اللہ مجھے عطا کرے تو انھیں اس حال میں نہ رہنے دوں۔ پر کیا کروں کہ میرا اپنا حال کم و بیش یہی ہے۔
شاہدہ کی داستانِ حیات درد انگیز ہے۔ مگر کس کی نہیں ہے؟ نبیِ کریمﷺ کے بدن پر کھری چارپائی پر لیٹنے سے پڑے ہوئے نشانات دیکھ کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ رو پڑے۔ شکوہ کیا کہ قیصر و کسریٰ کی آسائشات کیا کیا ہیں اور سرورِ کائناتﷺ کی کیفیت کتنی پردرد ہے۔ حضورﷺ نے تعجب کی نگاہ سے انھیں دیکھا اور استفسار فرمایا کہ عمر! کیا تمھیں واقعی اگلی زندگی کا یقین نہیں؟
زندگی یہی ہے۔ بس خوش رہیے۔ خوش رہنے کا سامان بھی کم نہیں۔ میں ایدھی صاحب کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں، الٰہی! دنیا میں اتنے دکھ ہیں کہ اس شخص کی عمر گزر گئی انسانیت کے دکھ بانٹتے اور وہ پرِ پشہ کے برابر بھی کم نہیں ہوئے؟ پھر پطرس کی جانب نگاہ کرتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں کہ دنیا میں اتنی مسکراہٹیں ہیں کہ بارہ مضمونوں کا تبسم اتنی دہائیوں سے ماند نہیں پڑا؟
مجھے سمجھ نہ آ سکی کہ آپ کے اس تبصرہ کا اور تحریر کا کیا ربط ہے ۔
حیرت ہے کہ آپ کو اس تبصرے اور تحریر کا ربط سمجھ نہیں آیا۔ جب کہ عین تحریر کا جواب ہے یہ تبصرہ۔

کیا بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دینا اللہ کی رضا ہے ؟
اور مجھے اس پر بھی حیرت ہے کہ یہ سوال کہاں سے پیدا ہو گیا؟
تحریر تو کچھ یوں کہتی ہے۔
گو کہ شاہدہ کیلئے اُنکے پیار میں کمی نہ آئی

ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شاہدہ کے والدین کی کوتاہی تھی کہ وہ شاہدہ کی دلی کیفیت نہ جان سکے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ مال اور اولاد امتحان ہیں۔ لیکن یہ کوئی جرم نہیں اگر والدین اولاد کی کیفیت نہیں جان پائیں، ہر طرح کے والدین ہوتے ہیں، کچھ تو اپنے بچوں کی ایک ایک نفسیات کو سمجھتے ہیں اور کچھ بس بے پناہ پیار ہی پیار رکھتے ہیں اولاد کیلئے۔ کچھ پیار کے ساتھ ساتھ ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے ہیں۔ شاہدہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا کہ والدین کی جانب سے تو پیار میں کمی نہیں آئی مگر توجہ میں کچھ کمی ضرور آئی اور اس کی وجہ بیٹے کا ہونا نہیں۔ اگر بیٹی بھی ہوتی تو بھی توجہ میں ضرور کمی آتی کہ نومولود کو زیادہ وقت اور توجہ درکار ہوتی ہے۔ خود شاہدہ نے کونسا سمجھداری کا مظاہرہ کیا؟ یا اس کی دوست نے کب اس کی نفسیاتی گرہوں کو کھولنے کی کوشش کی۔ ایسے تو سب ہی قصوروار ہیں۔

یہاں میں اپنی مثال دیتا ہوں۔
بچپن میں میرے ایک پھوپھی زاد کزن کو (جو مجھ سے قریب چار سال چھوٹا ہے) CHEILOGNATHOSCHISIS یعنی پیدائشی طور پر کٹے ہونٹ کا مسئلہ تھا۔ وہ لوگ پنجاب کے شہر بہاولنگر میں رہتے تھے اور میری پھوپھی اس کے علاج معالجے کیلئے کراچی آتی تھیں۔ جب ہم اسکول و مدرسہ کی ابتدائی جماعتوں میں تھے تو ان دنوں وہ یہاں آیا ہوا تھا کیونکہ اس کے ہونٹ کا آپریشن تھا۔ ایک تو اس کا ننھیال اوپر سے وہ بیمار تو لازمی بات ہے کہ اس کی خاطر مدارت ہونی تھی، جبکہ ہم ٹھہرے دنیا بھر کے شرارتی، تو جب بھی ہم اس کو کسی بات پر رگڑا لگانے لگتے تو میری دادی مرحومہ میرے وہ لتے لیتیں کہ ہوش ٹھکانے آجاتے۔
اس کھلی طرفداری کے نتیجے میں میرے دل میں اس کیلئے نفرتیں بھر گئیں، اس پر مہر اس دن لگی جب ایک دن دوپہر کو سب کھانا کھانے بیٹھے تو اس نواب کے بچے کیلئے الگ سے دہی منگایا گیا اور چینی ڈال کر اس کو کھلائی گئی اور کھلانے والی کوئی اور نہیں میری اپنی سگی امی:cry2:
میرے دل پر کیا گزری یہ میں ہی جانتا تھا لیکن دل میں تہیہ کر لیا کہ اس خبیث کو نہیں چھوڑوں گا۔ مجھے اس وقت کیا پتا تھا کہ اس امتیازی سلوک کی کیا وجہ تھی، مجھے بس اتنا پتا تھا کہ میرے معاملے میں اسے فوقیت دی جاتی تھی۔
یہ تو بہت بعد میں جب شعور آنے لگا تو احساس ہوا کہ کیا معاملہ تھا، لکن کچھ کچھ کسک آج بھی ہے۔

تو بی بی یہ سب شاید ایسے ہی ہونا تھا۔ ایک دفعہ پھر کہوں گا کہ ویسے تو قصوروار کوئی نہیں یا پھر ہم سب ہی کسی نہ کسی طور زمہ دار ہیں۔
 
ایک دل دکھا دینے والی تحریر۔:applause:
دیکھا جائے تو قصوروار کوئی بھی نہیں ہے، اور تقریباً سب ہی بشمول سعدیہ اور خود شاہدہ کے سب ہی قصوروار بھی ہیں۔


حیرت ہے کہ آپ کو اس تبصرے اور تحریر کا ربط سمجھ نہیں آیا۔ جب کہ عین تحریر کا جواب ہے یہ تبصرہ۔


اور مجھے اس پر بھی حیرت ہے کہ یہ سوال کہاں سے پیدا ہو گیا؟
تحریر تو کچھ یوں کہتی ہے۔


ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شاہدہ کے والدین کی کوتاہی تھی کہ وہ شاہدہ کی دلی کیفیت نہ جان سکے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ مال اور اولاد امتحان ہیں۔ لیکن یہ کوئی جرم نہیں اگر والدین اولاد کی کیفیت نہیں جان پائیں، ہر طرح کے والدین ہوتے ہیں، کچھ تو اپنے بچوں کی ایک ایک نفسیات کو سمجھتے ہیں اور کچھ بس بے پناہ پیار ہی پیار رکھتے ہیں اولاد کیلئے۔ کچھ پیار کے ساتھ ساتھ ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے ہیں۔ شاہدہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا کہ والدین کی جانب سے تو پیار میں کمی نہیں آئی مگر توجہ میں کچھ کمی ضرور آئی اور اس کی وجہ بیٹے کا ہونا نہیں۔ اگر بیٹی بھی ہوتی تو بھی توجہ میں ضرور کمی آتی کہ نومولود کو زیادہ وقت اور توجہ درکار ہوتی ہے۔ خود شاہدہ نے کونسا سمجھداری کا مظاہرہ کیا؟ یا اس کی دوست نے کب اس کی نفسیاتی گرہوں کو کھولنے کی کوشش کی۔ ایسے تو سب ہی قصوروار ہیں۔

یہاں میں اپنی مثال دیتا ہوں۔
بچپن میں میرے ایک پھوپھی زاد کزن کو (جو مجھ سے قریب چار سال چھوٹا ہے) CHEILOGNATHOSCHISIS یعنی پیدائشی طور پر کٹے ہونٹ کا مسئلہ تھا۔ وہ لوگ پنجاب کے شہر بہاولنگر میں رہتے تھے اور میری پھوپھی اس کے علاج معالجے کیلئے کراچی آتی تھیں۔ جب ہم اسکول و مدرسہ کی ابتدائی جماعتوں میں تھے تو ان دنوں وہ یہاں آیا ہوا تھا کیونکہ اس کے ہونٹ کا آپریشن تھا۔ ایک تو اس کا ننھیال اوپر سے وہ بیمار تو لازمی بات ہے کہ اس کی خاطر مدارت ہونی تھی، جبکہ ہم ٹھہرے دنیا بھر کے شرارتی، تو جب بھی ہم اس کو کسی بات پر رگڑا لگانے لگتے تو میری دادی مرحومہ میرے وہ لتے لیتیں کہ ہوش ٹھکانے آجاتے۔
اس کھلی طرفداری کے نتیجے میں میرے دل میں اس کیلئے نفرتیں بھر گئیں، اس پر مہر اس دن لگی جب ایک دن دوپہر کو سب کھانا کھانے بیٹھے تو اس نواب کے بچے کیلئے الگ سے دہی منگایا گیا اور چینی ڈال کر اس کو کھلائی گئی اور کھلانے والی کوئی اور نہیں میری اپنی سگی امی:cry2:
میرے دل پر کیا گزری یہ میں ہی جانتا تھا لیکن دل میں تہیہ کر لیا کہ اس خبیث کو نہیں چھوڑوں گا۔ مجھے اس وقت کیا پتا تھا کہ اس امتیازی سلوک کی کیا وجہ تھی، مجھے بس اتنا پتا تھا کہ میرے معاملے میں اسے فوقیت دی جاتی تھی۔
یہ تو بہت بعد میں جب شعور آنے لگا تو احساس ہوا کہ کیا معاملہ تھا، لکن کچھ کچھ کسک آج بھی ہے۔

تو بی بی یہ سب شاید ایسے ہی ہونا تھا۔ ایک دفعہ پھر کہوں گا کہ ویسے تو قصوروار کوئی نہیں یا پھر ہم سب ہی کسی نہ کسی طور زمہ دار ہیں۔
جی بھائی! آپ نے بالکل صحیح کہا ہے۔۔۔۔
تحریر یہ نہیں بتاتی کہ فوقیت کی وجوہات کیا ہیں؟ بلکہ تحریر دراصل سب کو قصور وار ٹھہراتی ہے اس معاملے میں کہ کوئی بھی کسی کی نفسیات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ گو کہ سب پر فرض نہیں مگر والدین پر تو یہ فرض ہے، مگر یہ فرض آہستہ آہستہ قرض بن جاتا ہے۔
تحریر میں اصل اسباق درج ذیل ہیں:
ہر کسی کو نفسیات کے حساب سے ڈِیل کرنا چاہئیے
کسی کے ہر عمل کے پیچھے ایک وجہ ہوتی ہے، کوئی اس وقت آپکو جیسا معلوم ہو رہا ہے یا گھن آرہی ہے۔۔۔۔یا آپ ججمنٹل ہو کے اس کو کسی ایک کیٹگری میں ڈال دیتے ہیں تو ایسا نہیں کرنا چاہئیے۔۔۔ناسکی وجہ کہیں نہ کہیں آپ بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔بیک گراؤنڈ جانے بغیر ہم نہیں سمجھ سکتے کہ فلاں ایسا کیوں ہے۔۔۔

اور اس تحریر میں وہی بیک گراؤنڈ بیٹے کی فوقیت ہے۔۔۔۔ ضروری نہیں کہ یہ مسئلہ ہر گھر میں شدید ہو یا قابلِ ذکر ہو۔۔۔۔ مگر کسی نہ کسی حد تک یہ ہر گھر میں موجود ہے چاہے وہ حد فریکشن میں ہی کیوں نہ ہو۔
اور تحریر کا مقصد یہ نہیں کہ انکے پیار میں کمی آ گئی تھی بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہم شاہدہ کی آنکھوں سے کہانی دکھا رہے ہیں۔ ہر کہانی کسی ایک آنکھ سے دیکھی جاتی ہے اور مسائل کی اصل وجہ یہی ہے۔مصنف کبھی غنڈے کے اندر کی بات بتا کر اسے اچھا ثابت کر دیتا ہے اور کبھی متقی کے کھوٹ پر سے پردہ کھینچ لیتا ہے۔ زندگی میں ہم بھی ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں اپنی آنکھ۔۔۔۔۔۔ اور یہ سب کچھ پتا ہونے کے باوجود بھی ایسے سیچوئشن میں دل تو دُکھتا ہی ہے۔۔۔کیونکہ دل کا کام ہے دُکھنا۔۔۔۔چاہے آپکو سب آگہی ہو پھر بھی۔۔۔۔
اور آپ نے کہا کہ اگر لڑکی بھی ہوتی تو توجّہ تو بٹنی تھی۔۔۔ مگر آپ نے شاید یہ نہیں پڑھا کہ اسکا پورا جسم کان بن جاتا تھا جب ابّا ننھے شہزاد کو گھمانے لے جاتے ہوئے اس پر ایک نظر بھی نہیں ڈالتے تھے۔۔۔۔ اگر اس چھوٹی عمر میں بھی ابا کے ذہن میں پردہ کا مسئلہ تھا تو پھر شاہدہ کیلیے کوئی متبادل تفریح اور اس میں ان کا وقت درکار تھا اور پرسوں کئی گھروں پر آسمانی بجلی گری تھی ، راکھ بنی شاہدہ سب لوگوں کی توجہ کا مرکز بلآخر بن ہی گئی۔۔۔۔
بہر حال جو سعدیہ کا قصور ہے۔۔۔۔ بھائی یہ بھی وہی قصور ہے کہ کوئی بھی بندہ دوسرے کو اسکی نفسیات کے حساب سے ڈیل نہیں کرتا ۔۔۔۔ اور اگر کرے۔۔۔تو بھی یہ عادتیں چھوٹتے چھوٹتے ہی چھوٹتی ہیں۔۔۔۔۔ فطرت کو موڑا جا سکتا ہے بدلا نہیں۔۔۔۔۔ چند ماہ کے مختصر دورانیہ میں سعدیہ اس لڑکی کی از سرِ نو تعمیر نہیں کر سکتی تھی جو زیست کی قید کے سولہ سال کاٹ چُکی تھی۔۔۔!
 

ناصر رانا

محفلین
جی بھائی! آپ نے بالکل صحیح کہا ہے۔۔۔۔
تحریر یہ نہیں بتاتی کہ فوقیت کی وجوہات کیا ہیں؟ بلکہ تحریر دراصل سب کو قصور وار ٹھہراتی ہے اس معاملے میں کہ کوئی بھی کسی کی نفسیات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ گو کہ سب پر فرض نہیں مگر والدین پر تو یہ فرض ہے، مگر یہ فرض آہستہ آہستہ قرض بن جاتا ہے۔
تحریر میں اصل اسباق درج ذیل ہیں:
ہر کسی کو نفسیات کے حساب سے ڈِیل کرنا چاہئیے
کسی کے ہر عمل کے پیچھے ایک وجہ ہوتی ہے، کوئی اس وقت آپکو جیسا معلوم ہو رہا ہے یا گھن آرہی ہے۔۔۔۔یا آپ ججمنٹل ہو کے اس کو کسی ایک کیٹگری میں ڈال دیتے ہیں تو ایسا نہیں کرنا چاہئیے۔۔۔ناسکی وجہ کہیں نہ کہیں آپ بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔بیک گراؤنڈ جانے بغیر ہم نہیں سمجھ سکتے کہ فلاں ایسا کیوں ہے۔۔۔

اور اس تحریر میں وہی بیک گراؤنڈ بیٹے کی فوقیت ہے۔۔۔۔ ضروری نہیں کہ یہ مسئلہ ہر گھر میں شدید ہو یا قابلِ ذکر ہو۔۔۔۔ مگر کسی نہ کسی حد تک یہ ہر گھر میں موجود ہے چاہے وہ حد فریکشن میں ہی کیوں نہ ہو۔
اور تحریر کا مقصد یہ نہیں کہ انکے پیار میں کمی آ گئی تھی بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہم شاہدہ کی آنکھوں سے کہانی دکھا رہے ہیں۔ ہر کہانی کسی ایک آنکھ سے دیکھی جاتی ہے اور مسائل کی اصل وجہ یہی ہے۔مصنف کبھی غنڈے کے اندر کی بات بتا کر اسے اچھا ثابت کر دیتا ہے اور کبھی متقی کے کھوٹ پر سے پردہ کھینچ لیتا ہے۔ زندگی میں ہم بھی ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں اپنی آنکھ۔۔۔۔۔۔ اور یہ سب کچھ پتا ہونے کے باوجود بھی ایسے سیچوئشن میں دل تو دُکھتا ہی ہے۔۔۔کیونکہ دل کا کام ہے دُکھنا۔۔۔۔چاہے آپکو سب آگہی ہو پھر بھی۔۔۔۔
اور آپ نے کہا کہ اگر لڑکی بھی ہوتی تو توجّہ تو بٹنی تھی۔۔۔ مگر آپ نے شاید یہ نہیں پڑھا کہ اسکا پورا جسم کان بن جاتا تھا جب ابّا ننھے شہزاد کو گھمانے لے جاتے ہوئے اس پر ایک نظر بھی نہیں ڈالتے تھے۔۔۔۔ اگر اس چھوٹی عمر میں بھی ابا کے ذہن میں پردہ کا مسئلہ تھا تو پھر شاہدہ کیلیے کوئی متبادل تفریح اور اس میں ان کا وقت درکار تھا اور پرسوں کئی گھروں پر آسمانی بجلی گری تھی ، راکھ بنی شاہدہ سب لوگوں کی توجہ کا مرکز بلآخر بن ہی گئی۔۔۔۔
بہر حال جو سعدیہ کا قصور ہے۔۔۔۔ بھائی یہ بھی وہی قصور ہے کہ کوئی بھی بندہ دوسرے کو اسکی نفسیات کے حساب سے ڈیل نہیں کرتا ۔۔۔۔ اور اگر کرے۔۔۔تو بھی یہ عادتیں چھوٹتے چھوٹتے ہی چھوٹتی ہیں۔۔۔۔۔ فطرت کو موڑا جا سکتا ہے بدلا نہیں۔۔۔۔۔ چند ماہ کے مختصر دورانیہ میں سعدیہ اس لڑکی کی از سرِ نو تعمیر نہیں کر سکتی تھی جو زیست کی قید کے سولہ سال کاٹ چُکی تھی۔۔۔!
مریم آپ نے بہت عمدگی سے تجزیہ کیا ہے۔ آفرین ہے کہ اتنی کم عمری میں ہی آپ اتنا گہرا سوچتی ہیں۔
میں شاہدہ کے والدین کی یا بیٹوں کو فوقیت دینے والے والدین کی حمایت ہر گز نہیں کر رہا۔ بلکہ میں دراصل یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ ہم انسان بہت ناشکرے ہیں۔
آپ نے درست کہا بلکہ بہترین کہا کہ ہر کہانی کسی ایک آنکھ سے دیکھی جاتی ہے اور یہی بہت سے مسائل کی وجہ بھی ہے۔
میری عادت یے کہ کسی بھی معاملے پر کوئی رائے یا فیصلہ دینے سے قبل اس کو تین نظروں یا تین سمتوں سے دیکھتا پرکھتا ہوں۔ اول و دوم فریقین کی نظر سے اور سوم غیرمتعلقہ یا طائرانہ نگاہ سے اور ہر حال میں دل شکنی سے بچنے کو مقدم رکھتا ہوں کہ میرے نزدیک دل شکنی سے بڑا گناہ کوئی بھی نہیں۔
آپ کی تمام باتوں سے اتفاق ہے سوائے آخری بات کے کہ چند ماہ تو کیا چند لمحے بھی کبھی کبھار پوری زندگی پر حاوی ہوتے ہیں۔ کوشش تو ضرور کرنا چاہیئے۔

میرے ایک استاد فرماتے تھے کہ آجکل ایک اوسط پاکستانی بچہ دین کو کتنا وقت دیتا ہے؟ چوبیس گھنٹوں میں زیادہ سے زیادہ ایک یا دو گھنٹے، باقی وقت میں سے چھ گھنٹے سونے کے نکال دو تو سولہ گھنٹے بچے جوکہ دنیا اور دنیا داری میں صرف ہوتے ہیں ایسے میں بظاہر اثرات تو ان سولہ گھنٹوں کے ہونے چاہیئے لیکن کوئی لمحہ ایسا ہوتا ہے کوئی استادِ کامل ایسا ہوتا ہے کہ ان چند لمحوں کا اثر پوری زندگی پر ہوتا ہے۔ یہی بات اس کے وائس ورسہ پر بھی لاگو ہے۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
والدین ایسا کیوں کرتے ہیںِ؟
کیا ایک ماں جان کے یہ رویہ برتتی ہے ؟ یا وہ ایک سربراہ کے آگے مجبور ہوتی ہے ؟ یا ایک عورت دوسری عورت کو نظر انداز کرتی ہے یعنی بیٹی اور ماں۔۔۔ دونوں ۔۔
کیا اس کے پیچھے نفیسات کی کوئی گرہ ہے ؟ ماں کس اثر کے لحاظ سے بیٹے کو تر جیح دیتی ہے ؟ اور باپ کس نفیسات کے اثر بیٹے کو ترجیح دیتا اور بیٹی کو اگنور کرتا ہے ؟
صرف والدین کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا نادانی ہے ۔ میں بحیثیت " فرد " جس معاشرے کو قائم کیئے ہوئے ہوں ۔ وہ معاشرہ " صنفی تفریق " بارے میری ہی سوچ اور عمل کو اپناتے مجموعی طور پر اس کا ذمہ دار ہے۔ ہم بیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ بیٹیوں کو زندہ تو نہیں گاڑتے بلکہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی بنا گلا گھونٹے مار دیتے ہیں ۔
صنفی تفریق پر مبنی تعصب اور تشدد کچھ یوں ہمارے اندر راسخ ہو چکا ہے کہ ہم اس کو محسوس بھی نہیں کرتے ۔ اور بیک جنبش قلم و زبان اسے اللہ کی رضا کی جانب پھیر رکھتے ہیں ۔۔۔ بیٹا اک مرد اور مرد کی برتری کو کلام الہی سے ثابت کر دیتے ہیں ۔ بیٹی پر بیٹے کو، بہن پر بھائی کو، بیوی پر خاوند کو فوقیت دیتے ہیں اور " مرد " کی برتری کا یہ سبق ہم روز اپنے بچوں کو پڑھاتے، سکھاتے اور دکھاتے ہیں۔ بیٹیوں، بہنوں، بیویوں اور ماؤں کی ضروریات اور تمنائیں والد، بھائی، خاوند اور بیٹوں پر قربان کی جاتی ہیں۔اور انہیں ایثار و قربانی کا نام دیا جاتا ہے ۔
بیٹا جسے آزمائیش قرار دیا گیا ہے اسے بیٹی پر جسے رحمت فرمایا گیا ہے یہ کہتے فوقیت دی جاتی ہے ۔ کہ بیٹی تو بوجھ ہے اس نے بڑی ہو کر اگلے گھر جانا ہے ۔ اسے خدمت کرنا سیکھ لینا چاہیئے ۔ اس نے کونسا یہاں رہنا ہے ۔ اور یہ بیٹیاں بھی عجب صابر کہ بچا کچھا کھا پی کر نہ صرف گھر کو جھاڑو دیتے کھانا تیار کرتے برتن دھوتے کپڑے دھوتے اور گھر کی صفائی ستھرائی وغیرہ بلکہ گھر سے باہر کے بھی کام خاص طور پر دیہات میں مال مویشیوں کی دیکھ بال کھیتوں میں کام کرتی ہے ۔ غرض عورت ہر وقت خدمت میں مصروف رہتے ہوئے بھی آفرین بھرے حوصلہ افزائی بھرے صلہ سے محروم ہی رہتی ہے ۔ ، نہ لاڈ نہ پیار بس اک بے حس خدمتگار وجود ۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ بیٹا بھائی شوہر باپ شہزادے ۔ جو بس حکم چلانے کے عادی ۔۔۔۔۔!!!
یہی بیٹی شادی کے بعد بیوی بن اپنی زندگی اپنے سرتاج کے حوالے کرتے اس کے ساتھ ہر دکھ سکھ غمی خوشی ہر مشکل برداشت کرتی ہے ۔ اور بہت کم پاؤں کی جوتی سے زیادہ وقعت پاتی ہے ۔
یہی بیٹی جب اپنے بیٹے کی ماں بنتی ہے تو اپنی آخری سانس تک بیٹے کی آرام دہ زندگی کے لیے کوشاں رہتی ہے ۔
ستم ظریفی اور کڑوی حقیقت یہ بھی ہے کہ
یہ ماں جو کبھی خود بیٹی تھی وہ غیر شعوری طور پر معاشرے کی اقتدا کرتے اپنے بیٹے کو بیٹی کی نسبت زیادہ اہمیت دیتی ہے ۔ بیٹی کو سدا سر جھکانے اور زیادتی برداشت کرنے کی نصیحت میں مصروف رہتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کی آبادی کا اکیاون فیصد ہوتے بھی اقلیت قرار پاتی ہے ۔
کیسا عجب معاشرتی رویہ ہے کہ بیٹا یونیورسٹی جاتا ہو تو بن ٹھن بنا کسی نصیحت کے ۔۔اور بیٹی جائے تو ماں پاوَں میں دوپٹے رکھتی ہے کہ ہماری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ باپ الگ سے بلا کر سمجھا رہا ہوتاہے کہ بیٹا اپنی پگڑی تمہارے حوالے کر رہاہوں اب اسکی حفاظت کرنا تمہار ا کام ہے۔ بھائی جو چند لمحے پہلے باہر بازار میں کسی کی ماں بہن کو چھیڑ کر آرہا ہوتا ہے، گلوگیر لہجے میں کہتاہے بہن ہمارا سر نہ جھکا دینا۔
یہ انتہائی شرمناک رویہ ہے کہ مرد اپنی بہن ، بیوی اور بیٹی کو ہر وقت شک کی نگاہ سے دیکھتاہے اور اس کو پردے میں رکھنے کےلیے ہر ممکن جتن کرتاہے۔۔ کیونکہ اس کو لگتا ہے کہ یہ گھر سے باہر دوسرے مرد کی بانہوں میں سمانے کےلیے جاتی ہے۔۔
اس لیئے اس پر بے حد و حساب پابندیاں لگائی جاتی ہیں ۔ اور اسی جبر کے باعث کچھ بچیاں اپنی تلخ کیفیات میں الجھ سرکش ہوتے اپنے لیئے آسانیاں تلاش کر لیتی ہیں ۔ جہاں ان کو بنا کسی جبر کے بنا روک ٹوک پیار محبت خلوص مل سکے ۔۔۔۔
ذرا توجہ سے معاشرے میں بیٹی بارے غور کیا جائے تو مجموعی تاثر یہی سامنے آئے گا کہ عورت ناقص العقل اور ناقص العقیدہ یا فتنہ ہے۔ باقی ضروریاتِ زندگی کی طرح عورت استعمال کی معمولی چیز ہے۔ یا “شوگر کوٹڈ” بیان مقصود ہو تو عورت ایک قیمتی زیور جسے سنبھال کر رکھنا ضروری ہے۔ یا مٹھائی کا ٹکڑا جسےلپیٹ کر رکھنا مکھیوں سے محفوظ رکھنے کا آخری حربہ ہے۔
اور اس تاثر کو تقویت دینے میں والدین سمیت ہم سب شامل ہوتے ہیں
یہاں پر فرائیڈن تھیوری ہے یا کارل جنگ کی روحانیت کی جانب پھرتی کوئی فلاسفی ؟
محترم بٹیا رانی میں ان تھیوریز بارے لا علم ہوں ۔ کوشش کروں گا کہ کہیں سے اردو میں ان کی تلخیص مل جائے اور میں سمجھ سکوں ۔۔۔۔
یہ ضرور پڑھا ہے کہ " بیٹا ماں کو پیارا اور بیٹی باپ کو بہت پیاری ہوتی ہے ۔ اور بلوغت کے بعد ان کے درمیان اک غیر محسوس جھجھک اور فاصلہ جنم لے لیتا ہے ۔ اور نفسیاتی طور پر بیٹا بیٹی متاثر ہو جاتے ہیں ۔ اور اپنی اپنی کیفیات کو بلا جھجھک بیان کرنے واسطے کوئی ساتھی تلاش لیتے ہیں ۔ اور یہ ساتھی ان کا وقتی سہارا بنتے کبھی کبھی ایسا بھی عمل کر جاتا ہے کہ زندگیاں ہی برباد ہو جاتی ہیں ۔ ۔کچھ اس عمل سے شدید دکھ پاتے روحانیت میں پناہ تلاشتے ہیں ، اور خوابوں میں سکون پاتے ہیں ۔
بہت دعائیں
 
مریم آپ نے بہت عمدگی سے تجزیہ کیا ہے۔ آفرین ہے کہ اتنی کم عمری میں ہی آپ اتنا گہرا سوچتی ہیں۔
میں شاہدہ کے والدین کی یا بیٹوں کو فوقیت دینے والے والدین کی حمایت ہر گز نہیں کر رہا۔ بلکہ میں دراصل یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ ہم انسان بہت ناشکرے ہیں۔
آپ نے درست کہا بلکہ بہترین کہا کہ ہر کہانی کسی ایک آنکھ سے دیکھی جاتی ہے اور یہی بہت سے مسائل کی وجہ بھی ہے۔
میری عادت یے کہ کسی بھی معاملے پر کوئی رائے یا فیصلہ دینے سے قبل اس کو تین نظروں یا تین سمتوں سے دیکھتا پرکھتا ہوں۔ اول و دوم فریقین کی نظر سے اور سوم غیرمتعلقہ یا طائرانہ نگاہ سے اور ہر حال میں دل شکنی سے بچنے کو مقدم رکھتا ہوں کہ میرے نزدیک دل شکنی سے بڑا گناہ کوئی بھی نہیں۔
آپ کی تمام باتوں سے اتفاق ہے سوائے آخری بات کے کہ چند ماہ تو کیا چند لمحے بھی کبھی کبھار پوری زندگی پر حاوی ہوتے ہیں۔ کوشش تو ضرور کرنا چاہیئے۔

میرے ایک استاد فرماتے تھے کہ آجکل ایک اوسط پاکستانی بچہ دین کو کتنا وقت دیتا ہے؟ چوبیس گھنٹوں میں زیادہ سے زیادہ ایک یا دو گھنٹے، باقی وقت میں سے چھ گھنٹے سونے کے نکال دو تو سولہ گھنٹے بچے جوکہ دنیا اور دنیا داری میں صرف ہوتے ہیں ایسے میں بظاہر اثرات تو ان سولہ گھنٹوں کے ہونے چاہیئے لیکن کوئی لمحہ ایسا ہوتا ہے کوئی استادِ کامل ایسا پوتا ہے کہ ان چند لمحوں کا اثر پوری زندگی پر ہوتا ہے۔ یہی بات اس کے وائس ورسہ پر بھی لاگو ہے۔
بہت آداب بھیا!!!!
اور کسی بھی مسئلہ کو پرکھنے کیلئے میری بھی یہی تین سمتیں ہیں۔۔۔۔۔
اور میں متفق ہوں آپکی ہر بات سے۔۔۔
اور مجھے معلوم ہے کہ آپ حمایت نہیں کر رہے۔۔۔۔۔۔ آپ جو کر رہے ہیں میں نےا ُسی کا جواب دیا تھا
:p
اب آتے ہیں آخری بات کی طرف۔۔۔ تو مجھے اس سے بھی مکمل اتفاق ہے ۔۔۔مگر آپ نے خُود ہی تو کہا ہے کہ چند لمحے "کبھی کبھار" پوری زندگی پر حاوی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔اور یہ "کبھی کبھار" نہیں آ پائے اسکی زندگی میں بہر حال۔۔۔۔۔۔
اور بہت عمدہ مثال دی آپ نے دینی اور دنیاوی تعلیم میں اوقات کی تقسیم و اثرات پہ۔۔۔۔ میں بھی اکثر یہ نکتہ سوچتی ہوں لیکن میں ابھی تک اس تجزیے پہ پہنچی ہوں کہ ہم انسان پہلے ہیں اور مسلمان بعد میں۔۔۔اسی طرح نفسیات پہلے ہے اور اسلامیات بعد میں۔۔۔۔ یہ ترجیح کی بات نہیں ہے بلکہ یہ درحقیقت ہمارے اندر کی بات ہے۔۔۔جیسے بچہ روتا ہوا دنیا میں آیا یہ نفسیات تھی اور بچہ روتا اور ہنستا اور مشاہدہ کرتا ہے جب ابھی وہ اللہ کی معرفت حاصل نہیں کر پایا ہوتا تب بھی نفسیات کا عمل دخل ہوتا ہے۔۔۔
اسلامیات ، نفسیات کو کنٹرول کرنے کیلیے ہے۔۔۔۔کیونکہ نفسیات عملیات کی تشکیل کرتی ہے اور اسلامیات نفسیات کی۔۔۔۔
مگر چونکہ ہم مکمل مؤمن نہیں بن پاتے اسلئے اسلامیات کے پردے میں جہاں روزن رہتا ہے۔۔۔۔وہیں سے نفسیات چھلک پڑتی ہے۔۔۔۔
اگر کسی کے اندر وحشت ہے اور یہ اسکی نفسیات کا حصہ ہے اور قرآن پاک درحقیقت اسکی رہنمائی کرتا ہے اور روحانی تقویت و سکون دیتا ہے۔۔۔۔ اور وحشت ملتوی ہوتی جاتی ہے اندر سے ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔ اور جیسے ہی ہم ادھر اُدھر ہوتے ہیں وہ دورہ پڑ جاتا ہے۔۔۔۔ اور وائس ورسا۔۔۔۔
اور اسی لیے ہم بار بار رجوع کرتے ہیں۔۔۔۔کیونکہ ہم انسان ہیں۔۔۔۔ انسان اور نسیان کا رُوٹ ایک ہی ہے اور مطلب ہے بُھول جانا۔۔۔۔

(ہو سکتا ہے میں غلط ہوؤں ، تو درست رہنمائی فرمائیے۔۔۔ مگر میں نے اس کو ایسا پایا ہےبہت غور و فکر کے بعد )
 
مریم آپ نے بہت عمدگی سے تجزیہ کیا ہے۔ آفرین ہے کہ اتنی کم عمری میں ہی آپ اتنا گہرا سوچتی ہیں۔
میں شاہدہ کے والدین کی یا بیٹوں کو فوقیت دینے والے والدین کی حمایت ہر گز نہیں کر رہا۔ بلکہ میں دراصل یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ ہم انسان بہت ناشکرے ہیں۔
آپ نے درست کہا بلکہ بہترین کہا کہ ہر کہانی کسی ایک آنکھ سے دیکھی جاتی ہے اور یہی بہت سے مسائل کی وجہ بھی ہے۔
میری عادت یے کہ کسی بھی معاملے پر کوئی رائے یا فیصلہ دینے سے قبل اس کو تین نظروں یا تین سمتوں سے دیکھتا پرکھتا ہوں۔ اول و دوم فریقین کی نظر سے اور سوم غیرمتعلقہ یا طائرانہ نگاہ سے اور ہر حال میں دل شکنی سے بچنے کو مقدم رکھتا ہوں کہ میرے نزدیک دل شکنی سے بڑا گناہ کوئی بھی نہیں۔
آپ کی تمام باتوں سے اتفاق ہے سوائے آخری بات کے کہ چند ماہ تو کیا چند لمحے بھی کبھی کبھار پوری زندگی پر حاوی ہوتے ہیں۔ کوشش تو ضرور کرنا چاہیئے۔

میرے ایک استاد فرماتے تھے کہ آجکل ایک اوسط پاکستانی بچہ دین کو کتنا وقت دیتا ہے؟ چوبیس گھنٹوں میں زیادہ سے زیادہ ایک یا دو گھنٹے، باقی وقت میں سے چھ گھنٹے سونے کے نکال دو تو سولہ گھنٹے بچے جوکہ دنیا اور دنیا داری میں صرف ہوتے ہیں ایسے میں بظاہر اثرات تو ان سولہ گھنٹوں کے ہونے چاہیئے لیکن کوئی لمحہ ایسا ہوتا ہے کوئی استادِ کامل ایسا پوتا ہے کہ ان چند لمحوں کا اثر پوری زندگی پر ہوتا ہے۔ یہی بات اس کے وائس ورسہ پر بھی لاگو ہے۔
بہت آداب بھیا!!!!
اور کسی بھی مسئلہ کو پرکھنے کیلئے میری بھی یہی تین سمتیں ہیں۔۔۔۔۔
اور میں متفق ہوں آپکی ہر بات سے۔۔۔
اور مجھے معلوم ہے کہ آپ حمایت نہیں کر رہے۔۔۔۔۔۔ آپ جو کر رہے ہیں میں نےا ُسی کا جواب دیا تھا
:p
اب آتے ہیں آخری بات کی طرف۔۔۔ تو مجھے اس سے بھی مکمل اتفاق ہے ۔۔۔مگر آپ نے خُود ہی تو کہا ہے کہ چند لمحے "کبھی کبھار" پوری زندگی پر حاوی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔اور یہ "کبھی کبھار" نہیں آ پائے اسکی زندگی میں بہر حال۔۔۔۔۔۔
اور بہت عمدہ مثال دی آپ نے دینی اور دنیاوی تعلیم میں اوقات کی تقسیم و اثرات پہ۔۔۔۔ میں بھی اکثر یہ نکتہ سوچتی ہوں لیکن میں ابھی تک اس تجزیے پہ پہنچی ہوں کہ ہم انسان پہلے ہیں اور مسلمان بعد میں۔۔۔اسی طرح نفسیات پہلے ہے اور اسلامیات بعد میں۔۔۔۔ یہ ترجیح کی بات نہیں ہے بلکہ یہ درحقیقت ہمارے اندر کی بات ہے۔۔۔جیسے بچہ روتا ہوا دنیا میں آیا یہ نفسیات تھی اور بچہ روتا اور ہنستا اور مشاہدہ کرتا ہے جب ابھی وہ اللہ کی معرفت حاصل نہیں کر پایا ہوتا تب بھی نفسیات کا عمل دخل ہوتا ہے۔۔۔
اسلامیات ، نفسیات کو کنٹرول کرنے کیلیے ہے۔۔۔۔کیونکہ نفسیات عملیات کی تشکیل کرتی ہے اور اسلامیات نفسیات کی۔۔۔۔
مگر چونکہ ہم مکمل مؤمن نہیں بن پاتے اسلئے اسلامیات کے پردے میں جہاں روزن رہتا ہے۔۔۔۔وہیں سے نفسیات چھلک پڑتی ہے۔۔۔۔
اگر کسی کے اندر وحشت ہے اور یہ اسکی نفسیات کا حصہ ہے اور قرآن پاک درحقیقت اسکی رہنمائی کرتا ہے اور روحانی تقویت و سکون دیتا ہے۔۔۔۔ اور وحشت ملتوی ہوتی جاتی ہے اندر سے ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔ اور جیسے ہی ہم ادھر اُدھر ہوتے ہیں وہ دورہ پڑ جاتا ہے۔۔۔۔ اور وائس ورسا۔۔۔۔
اور اسی لیے ہم بار بار رجوع کرتے ہیں۔۔۔۔کیونکہ ہم انسان ہیں۔۔۔۔ انسان اور نسیان کا رُوٹ ایک ہی ہے اور مطلب ہے بُھول جانا۔۔۔۔

(ہو سکتا ہے میں غلط ہوؤں ، تو درست رہنمائی فرمائیے۔۔۔ مگر میں نے اس کو ایسا پایا ہےبہت غور و فکر کے بعد )
 
صرف والدین کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا نادانی ہے ۔ میں بحیثیت " فرد " جس معاشرے کو قائم کیئے ہوئے ہوں ۔ وہ معاشرہ " صنفی تفریق " بارے میری ہی سوچ اور عمل کو اپناتے مجموعی طور پر اس کا ذمہ دار ہے۔ ہم بیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ بیٹیوں کو زندہ تو نہیں گاڑتے بلکہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی بنا گلا گھونٹے مار دیتے ہیں ۔
صنفی تفریق پر مبنی تعصب اور تشدد کچھ یوں ہمارے اندر راسخ ہو چکا ہے کہ ہم اس کو محسوس بھی نہیں کرتے ۔ اور بیک جنبش قلم و زبان اسے اللہ کی رضا کی جانب پھیر رکھتے ہیں ۔۔۔ بیٹا اک مرد اور مرد کی برتری کو کلام الہی سے ثابت کر دیتے ہیں ۔ بیٹی پر بیٹے کو، بہن پر بھائی کو، بیوی پر خاوند کو فوقیت دیتے ہیں اور " مرد " کی برتری کا یہ سبق ہم روز اپنے بچوں کو پڑھاتے، سکھاتے اور دکھاتے ہیں۔ بیٹیوں، بہنوں، بیویوں اور ماؤں کی ضروریات اور تمنائیں والد، بھائی، خاوند اور بیٹوں پر قربان کی جاتی ہیں۔اور انہیں ایثار و قربانی کا نام دیا جاتا ہے ۔
بیٹا جسے آزمائیش قرار دیا گیا ہے اسے بیٹی پر جسے رحمت فرمایا گیا ہے یہ کہتے فوقیت دی جاتی ہے ۔ کہ بیٹی تو بوجھ ہے اس نے بڑی ہو کر اگلے گھر جانا ہے ۔ اسے خدمت کرنا سیکھ لینا چاہیئے ۔ اس نے کونسا یہاں رہنا ہے ۔ اور یہ بیٹیاں بھی عجب صابر کہ بچا کچھا کھا پی کر نہ صرف گھر کو جھاڑو دیتے کھانا تیار کرتے برتن دھوتے کپڑے دھوتے اور گھر کی صفائی ستھرائی وغیرہ بلکہ گھر سے باہر کے بھی کام خاص طور پر دیہات میں مال مویشیوں کی دیکھ بال کھیتوں میں کام کرتی ہے ۔ غرض عورت ہر وقت خدمت میں مصروف رہتے ہوئے بھی آفرین بھرے حوصلہ افزائی بھرے صلہ سے محروم ہی رہتی ہے ۔ ، نہ لاڈ نہ پیار بس اک بے حس خدمتگار وجود ۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ بیٹا بھائی شوہر باپ شہزادے ۔ جو بس حکم چلانے کے عادی ۔۔۔۔۔!!!
یہی بیٹی شادی کے بعد بیوی بن اپنی زندگی اپنے سرتاج کے حوالے کرتے اس کے ساتھ ہر دکھ سکھ غمی خوشی ہر مشکل برداشت کرتی ہے ۔ اور بہت کم پاؤں کی جوتی سے زیادہ وقعت پاتی ہے ۔
یہی بیٹی جب اپنے بیٹے کی ماں بنتی ہے تو اپنی آخری سانس تک بیٹے کی آرام دہ زندگی کے لیے کوشاں رہتی ہے ۔
ستم ظریفی اور کڑوی حقیقت یہ بھی ہے کہ
یہ ماں جو کبھی خود بیٹی تھی وہ غیر شعوری طور پر معاشرے کی اقتدا کرتے اپنے بیٹے کو بیٹی کی نسبت زیادہ اہمیت دیتی ہے ۔ بیٹی کو سدا سر جھکانے اور زیادتی برداشت کرنے کی نصیحت میں مصروف رہتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کی آبادی کا اکیاون فیصد ہوتے بھی اقلیت قرار پاتی ہے ۔
کیسا عجب معاشرتی رویہ ہے کہ بیٹا یونیورسٹی جاتا ہو تو بن ٹھن بنا کسی نصیحت کے ۔۔اور بیٹی جائے تو ماں پاوَں میں دوپٹے رکھتی ہے کہ ہماری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ باپ الگ سے بلا کر سمجھا رہا ہوتاہے کہ بیٹا اپنی پگڑی تمہارے حوالے کر رہاہوں اب اسکی حفاظت کرنا تمہار ا کام ہے۔ بھائی جو چند لمحے پہلے باہر بازار میں کسی کی ماں بہن کو چھیڑ کر آرہا ہوتا ہے، گلوگیر لہجے میں کہتاہے بہن ہمارا سر نہ جھکا دینا۔
یہ انتہائی شرمناک رویہ ہے کہ مرد اپنی بہن ، بیوی اور بیٹی کو ہر وقت شک کی نگاہ سے دیکھتاہے اور اس کو پردے میں رکھنے کےلیے ہر ممکن جتن کرتاہے۔۔ کیونکہ اس کو لگتا ہے کہ یہ گھر سے باہر دوسرے مرد کی بانہوں میں سمانے کےلیے جاتی ہے۔۔
اس لیئے اس پر بے حد و حساب پابندیاں لگائی جاتی ہیں ۔ اور اسی جبر کے باعث کچھ بچیاں اپنی تلخ کیفیات میں الجھ سرکش ہوتے اپنے لیئے آسانیاں تلاش کر لیتی ہیں ۔ جہاں ان کو بنا کسی جبر کے بنا روک ٹوک پیار محبت خلوص مل سکے ۔۔۔۔
ذرا توجہ سے معاشرے میں بیٹی بارے غور کیا جائے تو مجموعی تاثر یہی سامنے آئے گا کہ عورت ناقص العقل اور ناقص العقیدہ یا فتنہ ہے۔ باقی ضروریاتِ زندگی کی طرح عورت استعمال کی معمولی چیز ہے۔ یا “شوگر کوٹڈ” بیان مقصود ہو تو عورت ایک قیمتی زیور جسے سنبھال کر رکھنا ضروری ہے۔ یا مٹھائی کا ٹکڑا جسےلپیٹ کر رکھنا مکھیوں سے محفوظ رکھنے کا آخری حربہ ہے۔
اور اس تاثر کو تقویت دینے میں والدین سمیت ہم سب شامل ہوتے ہیں

محترم بٹیا رانی میں ان تھیوریز بارے لا علم ہوں ۔ کوشش کروں گا کہ کہیں سے اردو میں ان کی تلخیص مل جائے اور میں سمجھ سکوں ۔۔۔۔
یہ ضرور پڑھا ہے کہ " بیٹا ماں کو پیارا اور بیٹی باپ کو بہت پیاری ہوتی ہے ۔ اور بلوغت کے بعد ان کے درمیان اک غیر محسوس جھجھک اور فاصلہ جنم لے لیتا ہے ۔ اور نفسیاتی طور پر بیٹا بیٹی متاثر ہو جاتے ہیں ۔ اور اپنی اپنی کیفیات کو بلا جھجھک بیان کرنے واسطے کوئی ساتھی تلاش لیتے ہیں ۔ اور یہ ساتھی ان کا وقتی سہارا بنتے کبھی کبھی ایسا بھی عمل کر جاتا ہے کہ زندگیاں ہی برباد ہو جاتی ہیں ۔ ۔کچھ اس عمل سے شدید دکھ پاتے روحانیت میں پناہ تلاشتے ہیں ، اور خوابوں میں سکون پاتے ہیں ۔
بہت دعائیں
انکل! آپکا حرف حرف سچائی سے عبارت ہے۔۔۔۔
دل کو چُھو لینے والی تحریر۔۔۔۔۔
اور بالکل ایسا ہی ہوتا ہے بلا مبالغہ۔۔۔۔
کہیں کھلے عام اور کہیں سرد جنگ۔۔۔۔
کہیں عملی، کہیں نفسیاتی۔۔۔۔
بہت عمدہ لکھا آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔ :applause:
 

نور وجدان

لائبریرین
ذرا توجہ سے معاشرے میں بیٹی بارے غور کیا جائے تو مجموعی تاثر یہی سامنے آئے گا کہ عورت ناقص العقل اور ناقص العقیدہ یا فتنہ ہے۔ باقی ضروریاتِ زندگی کی طرح عورت استعمال کی معمولی چیز ہے۔ یا “شوگر کوٹڈ” بیان مقصود ہو تو عورت ایک قیمتی زیور جسے سنبھال کر رکھنا ضروری ہے۔ یا مٹھائی کا ٹکڑا جسےلپیٹ کر رکھنا مکھیوں سے محفوظ رکھنے کا آخری حربہ ہے۔
اور اس تاثر کو تقویت دینے میں والدین سمیت ہم سب شامل ہوتے ہیں

بالکل درست کہا: فتنہ ، ناقص العقل ۔۔۔۔۔۔۔ اس مجموعی تاثر کو دور کرنے کے لیے اور اچھے معاشرے کی تعلیم سے زیادہ ایک عورت کی سوچ کی پرورش ضروری ہے جو معاشرہ چلاتی ہے ۔۔۔

یہ ضرور پڑھا ہے کہ " بیٹا ماں کو پیارا اور بیٹی باپ کو بہت پیاری ہوتی ہے ۔ اور بلوغت کے بعد ان کے درمیان اک غیر محسوس جھجھک اور فاصلہ جنم لے لیتا ہے ۔ اور نفسیاتی طور پر بیٹا بیٹی متاثر ہو جاتے ہیں ۔ اور اپنی اپنی کیفیات کو بلا جھجھک بیان کرنے واسطے کوئی ساتھی تلاش لیتے ہیں ۔ اور یہ ساتھی ان کا وقتی سہارا بنتے کبھی کبھی ایسا بھی عمل کر جاتا ہے کہ زندگیاں ہی برباد ہو جاتی ہیں ۔ ۔کچھ اس عمل سے شدید دکھ پاتے روحانیت میں پناہ تلاشتے ہیں ، اور خوابوں میں سکون پاتے ہیں ۔


فرائید کے دو کمپلیکز ۔۔۔۔الیکٹرا اور ایڈیپس ۔۔۔۔۔۔شیکس کا ہیملٹ ، نیل کا مارننگ بیکم الیکٹڑا اور سوفوکلیز کا ڈرامہ ایڈیپش ریکس فرائیڈ کی سائکالوجیز کی مکمل توضیح کرتا ہے . گھر میں رہنے والے افراد ایک دوسرے سے جنسی کشش رکھتے ہیں .جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں کی جنس سے مکمل طور پر قریب ہوتا ہے . اس لیے مقناطیس کے مخالف قطب کشش اور ایک جیسے دفع کیے جاتے ہیں . جیسے ہیملٹ میں بچہ اپنی ماں سے قریب تھا . اس کے چچا نے ہیملٹ کے باپ کو زہر دے کے مارا اور چچا نے ماں سے شادی کرلی . یوں ہیملٹ ماں سے نفرت کرنے لگ گیا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی ماں چچا سے شادی نہ کرے اور ایڈیپس ریکس میں شہزادہ پہاڑ سے گرا دیا جاتا ہے کہ اس کے بارے پیشن گوئی کی جاتی ہے وہ اپنی ماں سے شادی کرے گا اور اپنے باپ کو قتل کرے گا . یوں پہاڑ سے گرا بچہ کسی اور ریاست میں پلتے دوبارہ اپنے سلطنت کی جانب نادانستگی میں جاتا اس کو مفتوح کرتے باپ یعنی بادشاہ کو قتل کرتا ہے اور سلطنت کی ملکہ سے شادی کرتا جبکہ اس کو معلوم نہیں ہوتا جب اس کو علم ہوتا ہے تو ماں خود کشی کرتی ہے اور ایڈیپس اپنی آنکھیں نکال کے غاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے ..اپنی سلطنت کو اپنے بیٹوں میں تقسیم کیے دیتا ہے . یا مارننگ بی کم الیکٹرا میں بھائی ماں سے بہت قریب ہوتا ہے اور ہر کام کرتا ہے جو اس کی ماں چاہے اور جب ماں اس کہانی میں مرجاتی ہے تو بہن کو شادی پر آمادہ ہونے کو کہتا جس کی باعث بہن خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے ........................

اس کے برعکس کارل جنگ .......... فرائیڈ کی طرح شہرت نہ پاسکا کیونکہ اس کے نزدیک ہر چیز کا پس منظر قصے کہانیاں مذہبی سمبلر سے ہوتا ہے اور یہی فرد واحد کی سائکالوجی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں . اس کے نزدیک جنسی کشش ہونا محرم رشتوں میں کوئی معانی نہیں رکھتا جبکہ وہ کشش کے نظام کے تحت ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں جبکہ بہن بھائیوں کے سائکالوجی میں نکتہ بہت اہم ہے کہ ماں باپ بعض بچوں کو بعض پر ترجیح دیتے ہیں اور اس ترجیح پر جو اعتماد پا جاتے ہیں وہ نڈر ہوتے ہیں وہی اسی اعتماد کی بنا پر اپنی بات منوالیتے زندگی میں کامیاب ٹھہرتے ہین جبکہ وہ رشتے جو اس کے نتیجے میں دب جاتے ہیں وہ خوف کو اپنے گرد مقید کرلیتے ہیں انہیں لگتا ہے اگر وہ اپنے آپ کو چیزوں سے ، سرگرمیوں سے چھپالیں گے اس لیے وہ ایسے کام کرتے ہیں جو ان کو لطف دیں جیسا کہ کوئی آرٹسٹ بن جاتا ہے تو کوئی شاعر اس کی وجہ ان کی تحلیل نفسی کا ذریعہ ان کی تخییل کی دنیا بن جاتا ہے اس کے لیے وہ اپنی دنیا کو سجانے کے لیے مطالعے میں غرق ہوجاتے ہیں معاشرے کے مطیع ہوجاتے ہیں اور اس حد تک کہ ان کی مرضی اور معاشرہ اک کشمکش میں رہتا ہے اس کشمکش میں یہی خلا میں چلے جاتے ہیں کیونکہ رشتوں سے بہت دور ہوتے ہیں اس طرز سے خود کشی کی جانب مائل ہوجاتے ہیں..کارل جنگ کے مطابق ہمیں کہتے ........مرد بن ...مرد بن........یہ طعنہ ایک مرد کو ایک مکمل شخصیت کے بجائے احساس کمتری پر جانے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر اس میں شوق عورتوں والے ہوں اور اگر کسی عورت کو مرد ہونے کے طعنہ دیا جائے تو وہ بھی اس کی شخصیت کی خامی بن جاتا ہے کہ لوگ اس پر دباؤ ڈالتے ہیں اس دباؤ کے اثر میں وہ مطیع یا باغی ہوجاتی ہے .......باغی تو انقلابی بن جاتے ہیں مگر مطیع ہونے والے لوگ صبر وشکر سے زندگی کی جنگ احساس کمتری کے ساتھ گزارتے ہیں .
 

نور وجدان

لائبریرین

نور وجدان

لائبریرین
اسلامیات ، نفسیات کو کنٹرول کرنے کیلیے ہے۔۔۔۔کیونکہ نفسیات عملیات کی تشکیل کرتی ہے اور اسلامیات نفسیات کی۔۔۔۔
آپ کیسے سمجھتی ہو اسلامیات نفسیات کی کنٹرول کے لیے ہے۔ اسلام کی جانب شوق رکھنا اور بات ہے اور خود کو مطیع رکھنا اور بات ہے ۔۔مطیع ہونے کا شوق اور بات ہے جبکہ مجبور ہو کے مطیع ہونا اور بات ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
اور اسی لیے ہم بار بار رجوع کرتے ہیں۔۔۔۔کیونکہ ہم انسان ہیں۔۔۔۔ انسان اور نسیان کا رُوٹ ایک ہی ہے اور مطلب ہے بُھول جانا۔۔۔۔
ہمارا بار بار رجوع کرنا یعنی بار بار توبہ کرنا کیا بہتر نہیں ایک ہی دفعہ شوق کی راہ پکڑ لیں ؟
 
بالکل درست کہا: فتنہ ، ناقص العقل ۔۔۔۔۔۔۔ اس مجموعی تاثر کو دور کرنے کے لیے اور اچھے معاشرے کی تعلیم سے زیادہ ایک عورت کی سوچ کی پرورش ضروری ہے جو معاشرہ چلاتی ہے ۔۔۔




فرائید کے دو کمپلیکز ۔۔۔۔الیکٹرا اور ایڈیپس ۔۔۔۔۔۔شیکس کا ہیملٹ ، نیل کا مارننگ بیکم الیکٹڑا اور سوفوکلیز کا ڈرامہ ایڈیپش ریکس فرائیڈ کی سائکالوجیز کی مکمل توضیح کرتا ہے . گھر میں رہنے والے افراد ایک دوسرے سے جنسی کشش رکھتے ہیں .جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں کی جنس سے مکمل طور پر قریب ہوتا ہے . اس لیے مقناطیس کے مخالف قطب کشش اور ایک جیسے دفع کیے جاتے ہیں . جیسے ہیملٹ میں بچہ اپنی ماں سے قریب تھا . اس کے چچا نے ہیملٹ کے باپ کو زہر دے کے مارا اور چچا نے ماں سے شادی کرلی . یوں ہیملٹ ماں سے نفرت کرنے لگ گیا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی ماں چچا سے شادی نہ کرے اور ایڈیپس ریکس میں شہزادہ پہاڑ سے گرا دیا جاتا ہے کہ اس کے بارے پیشن گوئی کی جاتی ہے وہ اپنی ماں سے شادی کرے گا اور اپنے باپ کو قتل کرے گا . یوں پہاڑ سے گرا بچہ کسی اور ریاست میں پلتے دوبارہ اپنے سلطنت کی جانب نادانستگی میں جاتا اس کو مفتوح کرتے باپ یعنی بادشاہ کو قتل کرتا ہے اور سلطنت کی ملکہ سے شادی کرتا جبکہ اس کو معلوم نہیں ہوتا جب اس کو علم ہوتا ہے تو ماں خود کشی کرتی ہے اور ایڈیپس اپنی آنکھیں نکال کے غاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے ..اپنی سلطنت کو اپنے بیٹوں میں تقسیم کیے دیتا ہے . یا مارننگ بی کم الیکٹرا میں بھائی ماں سے بہت قریب ہوتا ہے اور ہر کام کرتا ہے جو اس کی ماں چاہے اور جب ماں اس کہانی میں مرجاتی ہے تو بہن کو شادی پر آمادہ ہونے کو کہتا جس کی باعث بہن خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے ........................

اس کے برعکس کارل جنگ .......... فرائیڈ کی طرح شہرت نہ پاسکا کیونکہ اس کے نزدیک ہر چیز کا پس منظر قصے کہانیاں مذہبی سمبلر سے ہوتا ہے اور یہی فرد واحد کی سائکالوجی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں . اس کے نزدیک جنسی کشش ہونا محرم رشتوں میں کوئی معانی نہیں رکھتا جبکہ وہ کشش کے نظام کے تحت ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں جبکہ بہن بھائیوں کے سائکالوجی میں نکتہ بہت اہم ہے کہ ماں باپ بعض بچوں کو بعض پر ترجیح دیتے ہیں اور اس ترجیح پر جو اعتماد پا جاتے ہیں وہ نڈر ہوتے ہیں وہی اسی اعتماد کی بنا پر اپنی بات منوالیتے زندگی میں کامیاب ٹھہرتے ہین جبکہ وہ رشتے جو اس کے نتیجے میں دب جاتے ہیں وہ خوف کو اپنے گرد مقید کرلیتے ہیں انہیں لگتا ہے اگر وہ اپنے آپ کو چیزوں سے ، سرگرمیوں سے چھپالیں گے اس لیے وہ ایسے کام کرتے ہیں جو ان کو لطف دیں جیسا کہ کوئی آرٹسٹ بن جاتا ہے تو کوئی شاعر اس کی وجہ ان کی تحلیل نفسی کا ذریعہ ان کی تخییل کی دنیا بن جاتا ہے اس کے لیے وہ اپنی دنیا کو سجانے کے لیے مطالعے میں غرق ہوجاتے ہیں معاشرے کے مطیع ہوجاتے ہیں اور اس حد تک کہ ان کی مرضی اور معاشرہ اک کشمکش میں رہتا ہے اس کشمکش میں یہی خلا میں چلے جاتے ہیں کیونکہ رشتوں سے بہت دور ہوتے ہیں اس طرز سے خود کشی کی جانب مائل ہوجاتے ہیں..کارل جنگ کے مطابق ہمیں کہتے ........مرد بن ...مرد بن........یہ طعنہ ایک مرد کو ایک مکمل شخصیت کے بجائے احساس کمتری پر جانے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر اس میں شوق عورتوں والے ہوں اور اگر کسی عورت کو مرد ہونے کے طعنہ دیا جائے تو وہ بھی اس کی شخصیت کی خامی بن جاتا ہے کہ لوگ اس پر دباؤ ڈالتے ہیں اس دباؤ کے اثر میں وہ مطیع یا باغی ہوجاتی ہے .......باغی تو انقلابی بن جاتے ہیں مگر مطیع ہونے والے لوگ صبر وشکر سے زندگی کی جنگ احساس کمتری کے ساتھ گزارتے ہیں .
علم میں اضافہ ہوا۔۔۔
کارل ینگ کے نظریے کی مطابقت ہمارے معاشرے سے زیادہ ہے۔۔۔۔۔
اور جو آپ نے پہلے ایک پلے کا ذکر کِیا ۔۔۔ کیا یہ وہی ہے جو نصاب میں شامل ہے؟ مجھے سُنا سُنا لگ رہا ہے۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
بالکل درست کہا: فتنہ ، ناقص العقل ۔۔۔۔۔۔۔ اس مجموعی تاثر کو دور کرنے کے لیے اور اچھے معاشرے کی تعلیم سے زیادہ ایک عورت کی سوچ کی پرورش ضروری ہے جو معاشرہ چلاتی ہے ۔۔۔




فرائید کے دو کمپلیکز ۔۔۔۔الیکٹرا اور ایڈیپس ۔۔۔۔۔۔شیکس کا ہیملٹ ، نیل کا مارننگ بیکم الیکٹڑا اور سوفوکلیز کا ڈرامہ ایڈیپش ریکس فرائیڈ کی سائکالوجیز کی مکمل توضیح کرتا ہے . گھر میں رہنے والے افراد ایک دوسرے سے جنسی کشش رکھتے ہیں .جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں کی جنس سے مکمل طور پر قریب ہوتا ہے . اس لیے مقناطیس کے مخالف قطب کشش اور ایک جیسے دفع کیے جاتے ہیں . جیسے ہیملٹ میں بچہ اپنی ماں سے قریب تھا . اس کے چچا نے ہیملٹ کے باپ کو زہر دے کے مارا اور چچا نے ماں سے شادی کرلی . یوں ہیملٹ ماں سے نفرت کرنے لگ گیا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی ماں چچا سے شادی نہ کرے اور ایڈیپس ریکس میں شہزادہ پہاڑ سے گرا دیا جاتا ہے کہ اس کے بارے پیشن گوئی کی جاتی ہے وہ اپنی ماں سے شادی کرے گا اور اپنے باپ کو قتل کرے گا . یوں پہاڑ سے گرا بچہ کسی اور ریاست میں پلتے دوبارہ اپنے سلطنت کی جانب نادانستگی میں جاتا اس کو مفتوح کرتے باپ یعنی بادشاہ کو قتل کرتا ہے اور سلطنت کی ملکہ سے شادی کرتا جبکہ اس کو معلوم نہیں ہوتا جب اس کو علم ہوتا ہے تو ماں خود کشی کرتی ہے اور ایڈیپس اپنی آنکھیں نکال کے غاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے ..اپنی سلطنت کو اپنے بیٹوں میں تقسیم کیے دیتا ہے . یا مارننگ بی کم الیکٹرا میں بھائی ماں سے بہت قریب ہوتا ہے اور ہر کام کرتا ہے جو اس کی ماں چاہے اور جب ماں اس کہانی میں مرجاتی ہے تو بہن کو شادی پر آمادہ ہونے کو کہتا جس کی باعث بہن خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے ........................

اس کے برعکس کارل جنگ .......... فرائیڈ کی طرح شہرت نہ پاسکا کیونکہ اس کے نزدیک ہر چیز کا پس منظر قصے کہانیاں مذہبی سمبلر سے ہوتا ہے اور یہی فرد واحد کی سائکالوجی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں . اس کے نزدیک جنسی کشش ہونا محرم رشتوں میں کوئی معانی نہیں رکھتا جبکہ وہ کشش کے نظام کے تحت ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں جبکہ بہن بھائیوں کے سائکالوجی میں نکتہ بہت اہم ہے کہ ماں باپ بعض بچوں کو بعض پر ترجیح دیتے ہیں اور اس ترجیح پر جو اعتماد پا جاتے ہیں وہ نڈر ہوتے ہیں وہی اسی اعتماد کی بنا پر اپنی بات منوالیتے زندگی میں کامیاب ٹھہرتے ہین جبکہ وہ رشتے جو اس کے نتیجے میں دب جاتے ہیں وہ خوف کو اپنے گرد مقید کرلیتے ہیں انہیں لگتا ہے اگر وہ اپنے آپ کو چیزوں سے ، سرگرمیوں سے چھپالیں گے اس لیے وہ ایسے کام کرتے ہیں جو ان کو لطف دیں جیسا کہ کوئی آرٹسٹ بن جاتا ہے تو کوئی شاعر اس کی وجہ ان کی تحلیل نفسی کا ذریعہ ان کی تخییل کی دنیا بن جاتا ہے اس کے لیے وہ اپنی دنیا کو سجانے کے لیے مطالعے میں غرق ہوجاتے ہیں معاشرے کے مطیع ہوجاتے ہیں اور اس حد تک کہ ان کی مرضی اور معاشرہ اک کشمکش میں رہتا ہے اس کشمکش میں یہی خلا میں چلے جاتے ہیں کیونکہ رشتوں سے بہت دور ہوتے ہیں اس طرز سے خود کشی کی جانب مائل ہوجاتے ہیں..کارل جنگ کے مطابق ہمیں کہتے ........مرد بن ...مرد بن........یہ طعنہ ایک مرد کو ایک مکمل شخصیت کے بجائے احساس کمتری پر جانے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر اس میں شوق عورتوں والے ہوں اور اگر کسی عورت کو مرد ہونے کے طعنہ دیا جائے تو وہ بھی اس کی شخصیت کی خامی بن جاتا ہے کہ لوگ اس پر دباؤ ڈالتے ہیں اس دباؤ کے اثر میں وہ مطیع یا باغی ہوجاتی ہے .......باغی تو انقلابی بن جاتے ہیں مگر مطیع ہونے والے لوگ صبر وشکر سے زندگی کی جنگ احساس کمتری کے ساتھ گزارتے ہیں .
کارل یُنگ
 
Top