’ہومو نالیدی‘، انسانوں کی ایک نئی قسم دریافت!

کاظمی بابا

محفلین
شاید ایک جگہ پڑھا کہ یہ دریافت 2013 میں ہوئی تھی ۔
تو پھر اس کو جنید جمشید کی گستاخی والی وڈیو کی طرح دو تین سال بعد پذیرائی بخشے جانے کے اسباب کیا ہوں گے ؟:)

ایسی باتوں کو دہرانے اور زندہ رکھنے کے مقاصد وہی ہوتے ہیں جن کے لئے ایسی باتیں کی اور پھیلائی جاتی ہیں۔
 

محمدظہیر

محفلین
دخل اندازی کے لیے معافی چاہتا ہوں کاظمی صاحب مجھے نہیں لگتا کہ آدم علیہ السلام کو دنیا میں آکر اتنا کم عرصہ گزرا ہوگا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں آدم علیہ السلام کے متعلق آپ جو کہ رہے ہیں کہ صرف 6000 سال پہلے دنیا میں آئے اس کا ثبوت کیا ہے۔
 

زیک

مسافر
کیوں نہیں معلوم؟
اپنی کم علمی کو اصول بنا کر مت پیش کریں۔
لگ بھگ چھ ہزار سال پہلے اتارے گئے تھے، زمین پر۔
چلیں آپ کی بات اگر مان لیں کہ آدم چھ ہزار سال پہلے اتارے گئے تھے تو پھر آسٹریلین ایبئوریجن اور امریکہ کے نیٹو امریکن یقیناً آدم کی اولاد نہیں ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
کیوں نہیں معلوم؟
اپنی کم علمی کو اصول بنا کر مت پیش کریں۔
لگ بھگ چھ ہزار سال پہلے اتارے گئے تھے، زمین پر۔
کیا لگ بھگ 6000 سال کا یہ زمانہ قرآن سے ثابت ہے یا حدیث سے؟ حوالہ عنایت فرما دیں لیکن اپنی کم علمی کو اصول بنا کر مت پیش کریں۔
 
ابو البشر حضرت آدم علیھ السلام کے زمانے سے کتنی مدت گزر چکی ھے؟
سوال
ابو البشر حضرت آدم علیھ السلام کے زمانے سے کتنی مدت گزر چکی ھے؟
ایک مختصر
اس سلسلے میں قرآن مجید میں کوئی واضح بات بیان نھیں ھوئی ھے لیکن تاریخ کی کتابوں میں آیا ھے کھ حضرت آدم علیھ السلام کی خلقت چھه یا سات ھزار سال پھلے ھوئی ھے۔ البتھ یھ بات قطعا سائنسدانوں کے اس نظریھ کے ساتھه متناقض نھیں جس میں وه کھتے ھیں کھ زمین پر انسان کی عمر کروڑوں سال سے زیاده ھے۔ یعنی ممکن ھے کھ حضرت آدم علیھ السلام سے پھلے انسانی نوع کی ھزاروں نسلیں موجود ھوں اور وه مٹ گئ ھوں ۔ یھ نکتھ قرآنی آیات اور روایات کےساتھه میل بھی کھاتا ھے ۔
تفصیلی جوابات
زمین پر بنی نوع انسان کی خلقت کے بارے میں آج تک کتنے سال گزر گئے ھیں؟ اس کے بارے میں قرآن مجید میں کوئی واضح بات نھیں کی گئی ھے۔
علامھ طباطبائی تفسیر المیزان میں فرماتے ھیں؛ یھود کی تاریخ میں آیا ھے کھ زمین پر بنی نوع انسان کے خلق ھونے کی عمر سات ھزار سال سے زیاده نھیں ھے اور عقلی اعتبار بھی اس تاریخ کی تائید کرتا ھے۔ کیونکھ نسل کا عامل دو آدمیوں کو سو سال میں ایک ھزار آدمی بناتا ھے ، اور جب اسی حساب سے سات ھزار سال کی مدت تک اوپر چلے جائیں گے یعنی ستر (۷۰) صدیوں تک جاری رکھیں گے تو ھم یھ دیکھیں گے کھ انسان کی تعداد ڈھائی بلین پھنچے گی اور یھ تعداد وھی آج کل کی موجوده تعداد ھے جسے بین الاقوامی اداروں نے بیان کیا ھے۔
پس عقلی دلیل بھی اسی کی تائید کرتی ھے جسے تاریخ نے بیان کیا ھے۔ ماھرین زمین جیولوجسٹس(Geologists) کا نقطھ نظر یھ ھے کھ انسان کی عمر کروڑوں سال ھے. اور اس کی دلیل وه انسانی ڈھانچے ھیں جو کھدائی کے دوران نکلے ھیں۔ ان کے علاوه انھوں نے قدیم انسانی ڈھانچوں کو نکالا جو پتھروں میں تبدیل ھوئے تھے جن کی عمر ان کے حساب سے پانچ لاکھه سال سے زیاده بتائی جاتی ھے ان کے اس نظریھ کی بیان شده دلیل کافی نھیں ھے کھ وه ثابت کرسکیں کھ یھ ڈھانچے آج کے اس انسان کے اجداد کے بدن کے ھیں جو پتھر میں تبدیل ھوئے ھیں ۔ اسی طرح اس بات پر بھی کوئی دلیل نھیں ھے کھ اس نظریھ کو رد کرسکیں، کھ یھ ڈھانچے آج کے دور کے انسان کے علاوه کسی اور دور کے انسان کے ھیں جو زمین پر رھتے تھے ۔ البتھ ممکن ھے کھ اسی طرح ھو اور ھمارا دور، ڈھانچوں کے دور کے انسان کے ساتھه جڑا ھوا نھ ھو۔ بلکھ ممکن ھے کھ وه حضرت آدم ابو البشر سے پھلے اس زمین پر رھتے ھوں پھر ختم ھوگئے ھوں ، اور انسانوں کی یھ خلقت اور نابودی کا سائیکل مکرر ھوا ھو یھاں تک کھ نسل حاضر کے انسان تک نوبت پھنچی ھو۔ [1] اس نقطھ نظر کو یھ بات قوت بخشتی ھے کھ حضرت آدم کی خلقت کا زمانھ نئی نسل کے انسان کی خلقت سے متعلق ھے اور ممکن ھے کھ حضرت آدم اور اس کی نسل حاضر سے پھلے دوسری مخلوق اور انسان کے دوسرے عالم اور دوسرے آدم اس زمین پر زندگی گزار رھے ھوں اور وه بھی ختم ھوگئے ھوں۔ اور آثار قدیمھ کے ماھرین کی دریافت سے نکلے انسانی ڈھانچے لاکھوں سال پھلے انسانوں کے ھوں جن کی عمریں پندره ھزار سال تک ھوتی تھی۔ اور یھ ڈھانچے اس انسان کے پھلے دور کے انسان سے متعلق ھوں۔ یھ نظریھ قرآن مجید[2] اور روایات[3] سے ھم آھنگ ھے۔

[1]طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ترجمھ ، ج ۴ ص ۲۲۲۔
[2]وه فرماتے ھیں : قرآن مجید واضح الفاظ میں زمیں پر انسان کی خلقت کی کیفیت کو بیان نھیں کرتا ھے کھ کیا اس انسان کا وجود زمین پر موجوده دور کے انسان میں منحصر ھے ، یا دوسرے دور بھی موجود تھے۔ اور ھمارا دور انسان کی خلقت کا آخری دور ھے؟ اگر چھ قرآنی آیات اور اسلامی روایات میں یھ بات ضمنی طور پر سمجھه میں آتی ھے کھ موجوده دور کے انسان سے پھلے اور انسان بھی موجود تھے جیسے کھ آیھ شریفھ میں ارشاد ھے : "واذ قال ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلفیۃ قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء " اس سے یھ نکتھ واضح ھوتا ھے کھ آدم کی خلقت سے پھلے دوسرے دور بھی انسانیت کے گزرے ھیں ھاں اھل البیت علیھم السلام کے وارد شده روایات میں یھ بات ثابت ھوتی ھے کھ موجوده دور سے پھلے اور بھی دور انسانوں کے گزرے ھیں ( المیزان ج ۴ ص ۲۲۳)
[3]حضرت امام جعفر صادق علیھ السلام فرماتے ھیں: شاید آپ لوگ یھ تصور کریں کھ آپ سے پھلے خداوند متعال نے اور کسی انسان کو خلق نھیں کیا ھے ، نھیں ، ایسا بالکل نھیں ھے ، بلکھ ھزاروں ھزار آدم خلق ھوئے ھیں ، اور آپ اس آدم کی آخری نسل سے ھیں ( توحید صدوق ، ج ۲ ص ۲۷۷ ، طبع تھران ) ابن میثم بھی نھج البلاغھ کی شرح میں بھی اسی مفھوم کی ایک اور حدیث حضرت امام محمد باقر علیھ السلام سے نقل کرتے ھیں ( ابن میثم شرح نھج البلاغھ ج ۱ ص ۱۷۳) مرحوم صدوق نے اسی کو اپنی کتاب "خصال" میں نقل کیا ھے ، (خصال ج ۲ ص ۶۵۲ ، ح ۵۴) اور خصال میں امام صادق علیھ السلام سے روایت نقل کی ھے کھ امام نے فرمایا: خداوند متعال نے باره ھزار عالم قراردئے ھیں کھ ان میں کا ھر عالم سات آسمان اور سات زمینوں سے بڑا ھے ان میں ھر عالم کے رھنے والے کبھی یھ تصور نھیں کرسکتے ھیں کھ خدا نے اس کے عالم کے علاوه کوئی اور عالم بھی بنایا ھے (خصال ج ۲ ص ۶۳۹، ح ۱۴) اور اسی کتاب میں حضرت امام باقر سے مروی ھے کھ آپ نے فرمایا: خداوند متعال نے اسی زمین پر جب سے اس کو خلق کیا ھے سات عالم بھی خلق کئے ھیں ( پھر انھیں ختم کیا ھے ) اور ان میں سے کوئی بھی عالم حضرت آدم ابو البشر کی نسل سے نھیں ھے اور خداوند متعال نے عالموں کو زمین کے چھلکے سے بنایا اور ایک نسل کو دوسری نسل کے بعد خلق کیا اور ھر ایک عالم کیلئے ایک اور عالم خلق کیا ھے یھاں تک آخر میں حضرت آدم ابو البشر کو خلق کیا اور اسکی نسل سے اسے نکالا ، (خصال ج ۲ ص ۳۵۸ ، ح ۴۵)۔
 
1. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


دور حاضر میں‌ مغرب کی فکری اسیری اور ذہنی غلامی میں مبتلا بعض گروہوں کی جانب سے قرآن کے نام پر قرآن ہی کا آپریشن تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اور اس آپریشن کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کو دور حاضر کے مغربی اسٹینڈرڈز کے مطابق چھیل چھال کر ’تاریک دور کی کتاب‘ کے الزام سے بچا کر عصر حاضر کی جدید سائنسی تحقیقات سے ’ہم آہنگ‘ ثابت کیا جا سکے۔ اس کاوش میں‌ یہ احباب اس قدر دلیر واقع ہوئے ہیں کہ صریح‌ قرآنی آیات کی بھی ایسی دور از کار تاویلات کے ذریعے سے اس میں‌شکوک پیدا کرتے ہیں، جنہیں تاویل کی بجائے تحریف کہنا حقیقت حال کے زیادہ لائق ہوگا۔ چودہ صدیوں سے امت جن چیزوں پر متفق چلی آ رہی ہے ان میں سے کئی ایک پر، ان احباب کی مہربانیوں‌سے، دور حاضر میں‌شک کی گرد پھیل چکی ہے۔ انہی متفق علیہ قسم کے مسائل میں‌ایک مسئلہ شخصیت آدمٕ علیہ السلام کا بھی ہے۔

اگر آپ آج تک یہ سمجھتے آئے ہیں کہ آدم اس اولین فرد بشر کا نام ہے ، جو تمام انسانوں کا مورث اعلیٰ ہے، کوئی انسان اس کی پیدائش سے پہلے پیدا نہیں ہوا اور وہ تمام افراد بشر کا باپ ہے، اور خود اس انسان کا کوئی باپ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے براہ راست تخلیق کے عمل سے پیدا فرمایا تھا ، اس کا اسم علم آدم تھا، اور یہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام ، اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ پیغمبر تھے۔ تو دل تھام کر بیٹھئے، آپ ان حضرات کے نظریہ پر شدید گمراہی میں‌مبتلا ہیں۔ قرآنی اسلام کے بالمقابل حدیثی اسلام اور امامی روایات پر عمل پیرا ہیں۔ فتنہ عجم کے متاثرین میں‌شامل ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ ان کی قرآنی فکر کے مطابق لفظ آدم سے مطلق بشر یا مطلق انسان مراد ہے یعنی یہ کسی شخص کا نام نہیں۔ بلکہ لفظ انسان کی طرح، لفظ آدم سے بھی نوع انسانی مراد ہے۔ اور قرآن میں‌جو جگہ جگہ آدم و حوا نامی جوڑے کی داستان سنائی گئی ہے ، وہ دراصل ایک تمثیلی داستان ہے جو خود حضرت انسان کی سرگزشت ہے نہ کہ آدم نامی کسی شخص‌یا نبی کی۔
مشہور منکر حدیث علامہ پرویز کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ کیجئے تاکہ ان کا نظریہ سمجھا جا سکے۔
’ہمارے ہاں بھی (محرف) تورات کے زیر اثر عام طور پر مشہور یہی ہے کہ قرآن کریم میں بیان کردہ قصہ آدم ، ایک جوڑے (آدم و حوا) کی داستان ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ یہ کسی ایک فرد یا ایک جوڑے کی داستان نہیں ہے، بلکہ یہ خود ’آدمی‘ کی سرگزشت ہے جسے قرآن نے تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے، اس داستان کا آغاز، انسان کی اس حالت سے ہوتا ہے جب اس نے قدیم انفرادی زندگی کی جگہ ، پہلے پہل تمدنی زندگی شروع کی یعنی قدیم قبائل کی شکل میں۔ قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ آدم سے مراد انسان یا بشر ہے اور قصہ آدم کسی ایک جوڑے کی داستان نہیں بلکہ یہ خود انسان کی سرگزشت ہے جسے قرآن نے بڑے لطیف اور دلکش محاکاتی (ڈرامائی) انداز سے بیان کیا ہے۔‘ [تفسیر مطالب الفرقان جلد ۲ صفحہ ۶۱]
آئیے، انہی‌حضرات کے گراؤنڈ پر ’صرف قرآن‘‌کی روشنی میں‌جائزہ لیتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے، کیا آدم اول البشر اور اللہ کے برگزیدہ نبی گزرے ہیں یا یہ بس ایک حکایت کے بیان کے لئے تمثیلاً دیا گیا ایک نام ہے۔
آدم علیہ السلام -- اولین فرد بشر:


ملت اسلامیہ کا چودہ صدیوں پر محیط لٹریچر ، اس حقیقت پر شاہد ہے کہ ہر دور کے مفکرین و مجتہدین، مفسرین و محدثین، علماء و فقہاء اور مؤرخین و اصحاب سیر نے ، حضرت آدم علیہ السلام کو ہمیشہ ، اللہ تعالیٰ‌کا ایک برگزیدہ پیغمبر اور نبی تسلیم کیا ہے۔ نیز قرآن پاک نے تخلیق آدم کا جہاں بھی ذکر کیا ہے، اس انداز سے کیا ہے کہ وہ اولین فرد بشر تھے، اور ان سے قبل، کوئی انسان بھی پیدا نہیں کیا گیا تھا، البتہ جنوں کی پیدائش قبل از انسان واقع ہو چکی تھی۔ انسانیت کی ابتدا کے تعلق سے قرآن کریم کی سورۃ‌السجدہ کے یہ الفاظ قابل غور ہیں:
الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ۔ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ
جس نے ہر چیز کو بہت اچھی طرح بنایا (یعنی) اس کو پیدا کیا۔ اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا۔ پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے نچوڑ (یعنی نطفہ) سے چلایا۔
یہاں قرآن مجید صاف طور پر یہ بیان فرماتا ہے کہ انسان کی ابتداء اور تخلیق براہ راست مٹی سے کی گئی، لیکن پھر اس کی نسل کا سلسلہ عمل تناسل سے جاری کیا گیا۔ اس کو ذہن میں بٹھا لیں اور اب درج ذیل آیت مبارکہ پر غور کیجئے:

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ [ص: ۷۵]
ترجمہ از فتح محمد جالندھری: (اللہ نے) فرمایا کہ اے ابلیس جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا۔ کیا تو غرور میں آگیا یا اونچے درجے والوں میں تھا؟
ترجمہ از احمد علی: فرمایا اے ابلیس! تمہیں اس کے سجدہ کرنے سے کس نے منع کیا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا کیا تو نے تکبر کیا یا تو بڑوں میں سے تھا
ترجمہ از شبیر احمد: فرمایا: اے ابلیس! کس چیز نے روکا تجھے سجدہ کرنے سے اس کو جسے پیدا کیا ہے میں نے اپنے ہاتھوں سے۔ کیا تو، گھمنڈ کررہا ہے یا تو کوئی برتر ہستی ہے؟۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ یقیناً کسی ایک شخص کا ذکر فرما رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ شخصیت کون ہیں، جنہیں ابلیس نے سجدہ کرنا تھا اور نہ کیا؟ قرآن ہی سے جواب پوچھ لیتے ہیں۔
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَةِ اسْجُدُواْ لِآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا [17:60]
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔ بولا کہ بھلا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں، جس کو تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔
آیت کی تفسیر آیت سے کیجئے اور درج بالا دونوں آیات کو یکجا کریں تو بالکل صراحت سے ثابت ہو جاتا ہے کہ درج بالا آیت میں آدم سے مراد ’ایک شخص‘ ہے نا کہ پوری آدمیت یا انسانیت۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ ابلیس نے سجدہ صرف ایک شخص کو کیا، جن کا نام آدم تھا۔ کیونکہ اوپر ہم پڑھ آئے ہیں کہ پہلے اللہ نے مٹی سے انسان کو تخلیق کیا پھر عمل تناسل کا سلسلہ نطفہ سے چلایا۔ اور یہاں شیطان یہی اعتراض کر رہا ہے کہ مٹی سے بنائے انسان کو میں کیوں سجدہ کروں؟ اگر یہاں آدم سے مراد تمام آدمی یعنی بنی نوع انسان ہوتے، تو اس آیت میں مٹی کو حقیر قرار دینے کی بجائے نطفہ کو حقیر قرار دیا گیا ہوتا، جو کہ ہے بھی حقیر شے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ شیطان نے کسی ایسی شخصیت کو سجدہ کرنا تھا جس کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی نہ کہ نطفہ سے۔ اور ایسی شخصیت آدم ؑ ہی ہیں۔
دوسری دلیل:
إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ [آل عمران: ۳۳]
بے شک اللہ نے منتخب فرمایا آد م کو اور نوح کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو اہلِ عالم (کی رہنمائی) کے لیے۔
درحقیقت یہی ایک آیت منکرین شخصیت آدمؑ کے تمام نظریات کے باطل ہونے کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کا تذکرہ دیگر انبیاء کے ساتھ کیا ہے، جس سے درج ذیل باتیں واضح ہو جاتی ہیں:
۱۔ آدم ؑاسم خاص ہے جو ایسے ہی ایک شخص کا نام ہے جیسے کہ نوحؑ۔۲۔ آدمؑ سے مراد فرد واحد ہے ، نا کہ مطلق انسان یا مطلق بشر یا نوع انسانی۔۳۔ آدمؑ کوئی عام انسان نہیں تھے، بلکہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے جیسے کہ حضرت نوحؑ۔

تیسری دلیل:
أُوْلَئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَن خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا [مریم : ۵۸]
یہ ہیں وہ لوگ کہ انعام فرمایا اللہ نے اُن پر انبیا میں سے جو اولاد تھے آدم کی اور اُن کی جن کو سوار کیا تھا ہم نے نوح کے ساتھ اور یہ نسل سے تھے ابراہیم و اسرائیل کی اور اُن لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔ جب پڑھی جاتی تھیں اُن کے سامنے آیات رحمن کی تو گرِ پڑتے تھے سجدے میں روتے ہُوئے۔
درج بالا آیت میں بھی حضرت آدم علیہ السلام کو ان انبیاء میں شامل کیا گیا ہے جن کی اولاد پر اللہ نے انعام کیا۔ ممکن ہے کچھ عجلت پسند حضرات یہاں یہ فرما دیں کہ منعم علیہم ، آدم نہیں بلکہ ان کی ذریت (اولاد) ہے ۔ جو نبوت آدم ؑ کی دلیل نہیں بن سکتی۔ تو ہم عرض کریں گے کہ اس طرز استدلال کی بنا پر پھر ابراہیم اور اسرائیل کی نبوت کا انکار بھی لازم آئے گا۔ کیونکہ آیت میں ان دونوں پیغمبروں کی بھی ذریت ہی کا ذکر ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ذریت آدم کا ذکر کیا گیا ہے۔

درج بالا آیات میں آپ آدم ؑ کی جگہ نوع انسانی کے الفاظ فٹ کر کے دیکھ لیں۔ ان صریح آیات میں کوئی لغو سے لغو تاویل بھی ایسی نہیں کی جا سکتی کہ جس سے شخصیت آدم ؑ بحیثیت فرد واحد کے بجائے بطور مطلق انسان، مطلق بشر کا ثبوت مہیا ہو سکے۔
مزید دلائل:
فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [البقرۃ: ۳۷]
پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف کر دیا بے شک وہ معاف کرنے والا (اور) صاحبِ رحم ہے۔
درج بالا آیت بار بار پڑھئے اور پھر خود سے سوال کیجئے کہ کیا پوری نوع انسانی نے اللہ تعالیٰ سے کچھ کلمات سیکھے تھے اور کیا سب کے قصور اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی معاف کر دئے ہیں؟
فَدَلاَّهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْءَاتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ:۲۲]
پس وہ فریب کے ذریعے دونوں کو (درخت کا پھل کھانے تک) اتار لایا، سو جب دونوں نے درخت (کے پھل) کو چکھ لیا تو دونوں کی شرم گاہیں ان کے لئے ظاہر ہوگئیں اور دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے، تو ان کے رب نے انہیں ندا فرمائی کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت (کے قریب جانے) سے روکا نہ تھا اور تم سے یہ (نہ) فرمایا تھا کہ بیشک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے
قرآن میں جگہ جگہ آدم و حوا کا قصہ مختصر و مطول بیان ہوا ہے۔ اور قرآن کریم کا انداز بیان ایسا ہی ہے جیسے ایک جوڑے کی داستان بیان کی جا رہی ہو۔ اس عام فہم داستان کو خواہ مخواہ تمثیلی داستان و حکایت کا روپ دے کر اس کے باطنی مفاہیم اخذ کرنے کی کوشش کرنا بجائے خود قرآن کو ہی چیستاں اور پہیلیوں کی کتاب بنا دینے کے مترادف ہے۔
فیصلہ کن آیت:


شخصیت آدم، حوا اور ان کی اولاد کے تعلق سے صرف درج ذیل آیت ہی اگر بیان کر دی جائے تو ہر شخص اس کی روشنی میں بآسانی حق و باطل کے درمیان امتیاز کرسکتا ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا [۴:۱]
اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں نفس واحدہ ( ایک جان، ایک نفس، ایک شخصیت ) سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا زوج (جوڑا، بیوی) بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو بے شک الله تم پر نگرانی کر رہا ہے۔
لیجئے جناب، درج بالا آیت سے ثابت ہوا کہ:
۱۔ انسانی تخلیق کی ابتدا صرف ایک شخص (نفس واحدہ، آدم) سے ہوئی تھی۔
۲۔ اس ایک شخص (آدم ؑ) (منہا)میں سے (زوجہا) ایک زوج (جوڑا) بنایا گیا، جو کہ دراصل حواؑ تھیں۔
۳۔ پھر صرف اس ایک جوڑے (مرد و عورت، میاں بیوی، آدم و حوا) میں سے (منہما) بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔ (ناکہ بہت سے مرد و عورتوں سے بہت سی مرد و عورتیں پھیلیں، جیسے کہ کچھ گروہ ، اولاد آدم میں بھائی بہنوں کی آپسی شادی کے اقرار سے بچنے کے لئے تاویل گھڑتے ہیں)۔
۴۔ یا ایھا الناس کہہ کر تمام بنی نوع انسان کو اس آیت میں خطاب کیا گیا ہے۔ لہٰذا ابو البشر کی نسبت مجازی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ آپ فی الواقعہ سب مردوں اور عورتوں کے باپ ہیں۔
عقلی دلیل:
جو احباب آدم ؑ سے مطلق انسان یا بشر مراد لیتے ہیں۔ تو ان کی خدمت میں سوال ہے کہ ہر انسان یا بشر کو آخر آدم ہی کیوں کہا جاتا ہے؟
آدمی ، دراصل یائے نسبتی کے ساتھ حضرت آدمؑ کی جانب اسی طرح منسوب ہے ، جیسے مثلاً قریشی یائے نسبتی کے ساتھ قریش کی جانب منسوب ہے۔

بھئی، سیدھی سی بات ہے کہ جس طرح اموی قبیلے کے کسی فرد کا سلسلہ نسب امیہ نامی کسی شخص تک منتہی ہوتا ہےاور امیہ کی ذات سے قبل کسی اموی کا وجود تک نہیں پایا جا سکتا ، بالکل اسی طرح ہر آدمی کا شجرہ نسب حضرت آدم علیہ السلام تک پہنچتا ہے اور آدم ؑ کے وجود سے قبل کسی ’آدمی کا وجود امر محال ہے۔ جس طرح امیہ تمام امویوں کا مورث اعلیٰ ہے ، جو خود کسی اموی کی نسل میں سے نہیں، بلکہ تمام اموی اس کی نسل میں سے ہیں۔ بالکل اسی طرح آدم ؑ تمام آدمیوں کا مورث اعلیٰ ہے، جو خود کسی آدمی کی نسل میں سے نہیں، بلکہ تمام آدمی اس کی نسل میں سے ہیں۔ اور آدم ؑ سے قبل کسی اور آدم یا آدمی کا وجود امر محال ہے۔
آدم بمعنی مطلق بشر ماننے والوں کے دلائل کا تجزیہ:


ہمیں ہیڈنگ میں سمجھانے کی خاطر مجبوراً لفظ دلائل لکھنا پڑا ہے۔ ورنہ جیسی باطل تاویلات اس مد میں کی جاتی ہیں، ایسی لغو تاویلات سے دنیا کا کون سا فلسفہ قرآن سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ خیر، بہتر ہے کہ قارئین دونوں طرف کا موقف جان لیں، اور دلائل ، اعتراضات و جوابات پڑھ کر ہر شخص خود اپنے لئے فیصلہ کر لے کہ اسے کون سی راہ منتخب کرنی ہے۔
پہلی دلیل: جمع کی ضمیریں:
اگر آپ یہ توقع کر رہے تھے کہ جیسی صریح آیات سے آدم کا فرد واحد ہونا، برگزیدہ نبی ہونا مذکور ہے، یہ احباب بھی ایسی ہی کوئی ایک آدھ صریح دلیل رکھتے ہوں گے، تو تصحیح کر لیجئے۔ ہم یہاں ضمائر پر گفتگو کرنے لگے ہیں۔ لیں جی، ان احباب کی پہلی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بھی ابلیس کی طرف سے انسانوں کو گمراہ کرنے کی انتقامی کاروائی کا ذکر کیا ہے، تو وہاں جمع کے صیغے استعمال کئے ہیں، مثلاً دیکھئے آیات:
قَالَ رَبِّ بِمَآ أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ [15:39]
کہا اے میرے رب! جیسا تو نے مجھے گمراہ لیا ہے البتہ ضرور ضرور میں زمین میں انہیں ان کے گناہوں کو مرغوب کر کے دکھاؤں گا اور ان سب کو گمراہ کروں گا
قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [7:16]
(پھر) شیطان نے کہا مجھے تو تُو نے ملعون کیا ہی ہے میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان (کو گمراہ کرنے) کے لیے بیٹھوں گا
ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ [7:17]
پھر ضرور میں گھیروں گا اُن کو اُن کے آگے سے اور پیچھے سے اور اُن کی دائیں طرف سے اور بائیں طرف سے اور نہ پائے گا تو اُن میں سے اکثر کو شکر گزار۔


درج بالا آیات میں ’ھُم‘ کی ضمیر، خواہ وہ مجروری حالت میں ہو یا مفعولی حالت میں، جمع ہی کی ضمیر ہے ، اس سے ان حضرات کا استدلال یوں ہے کہ چونکہ یہاں ھم جمع کی ضمیر ہے ، جس کے معنی تمام انسان ہیں، اور پھر لفظ اجمعین نے اس کی مزید وضاحت کر دی ہے کہ یہ ایک فرد (آدم) یا ایک جوڑے (آدم و حوا) کا قصہ نہیں، تمام نوع انسانی کی داستان ہے۔

کوئی شک نہیں کہ ان آیات میں ضمیر جمع ہی کی ہے، اور جمع کی ضمیر کا استعمال کیوں اور کس وجہ سے ہوا؟ اس کا جواب آگے آ رہا ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمع کی ان ضمیروں کی بنیاد پر ، اگر تمام نوع انسانی مراد لی بھی جائے ، تو اس سے یہ کیسے لازم ہو گیا کہ آدم وہ اوّلین (ابوالبشر) انسان نہیں ہے؟ (جو کسی بھی فرد بشر کی اولاد نہیں، بلکہ ساری نوع انسانی، اسی کی اولادہے؟) چنانچہ اصل زیر بحث مسئلہ تو یہی ہے کہ آیا آدم، وہ پہلا انسان ہے جس سے پہلے کسی فرد بشر کا وجود تک نہ تھا؟ یا وہ نسل انسانی کے آغاز و اجراء کے بعد (دوران نسل بشر) کوئی آدمی تھا؟
جمع کی ضمیروں کی اصل وجہ
اب اگر درضیائے قرآن، اس بات کی تحقیق کی جائے کہ شیطان یا ابلیس نے ’لاغوینھم‘ اور اس طرح کی دیگر آیات میں جمع کا صیغہ کن افراد و اشخاص کے لئے استعمال کیا ہے ، تو اس سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ آدم جس ہستی کا اسم علم ہے۔ وہ تمام نسل انسانی کا مورث اعلیٰ اور باپ ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں قصہ آدم و ابلیس بیان کرتے ہوئے قرآن مجید نے شیطان کی طرف سے ، اغوائے بشر اور اضلال انسان کے لیے ، اس کا ارادہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَ۔ذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلاَّ قَلِيلاً [بنی اسرائیل: ۶۲]
اور (شیطان) کہنے لگا ذرا دیکھیے تو سہی اسے جس کو فضیلت دی ہے آپ نے مجھ پر (کیا یہ اس قابل تھا؟) اگر مہلت دیں آپ مُجھے روزِ قیامت تک تو میں جڑ کاٹ ڈالوں گا اُس کی نسل کی مگر تھوڑے لوگ (بچ جائیں گے)۔
اس آیت سے دو باتیں بالکل واضح ہیں۔
اولا یہ کہ لاغوینھم اجمعین۳۹:۱۵لاقعدن لھم۔۔۔ثم لاتینھم ۱۷:۷، ۱۶
وغیرہ آیات میں جہاں بھی جمع کی ضمیر ’ھُم‘ استعمال کی گئی ہے۔ تو اس سے مراد (سورہ بنی اسرائیل کی اس آیت ۶۲ کی رو سے) ذریت آدم (یعنی اولاد آدم) ہے۔ اور لفظ ذریۃواحد یا جمع دونوں کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے۔

لہٰذا قرآن کریم میں مذکور، جمع کی ضمیروں سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ نوع انسانی کے اولین جوڑے کی سرگزشت نہیں ہے، ایک بےجا بات ہے۔
ثانیاً یہ بھی نوٹ کیجئے کہ قرآن مجید میں ذریتہ کے الفاظ، اس امر کو ہر شک و شبہ سے بالا تر کر دیتے ہیں کہ آدم خود کسی کی ذریت میں شامل نہیں تھا، بلکہ افراد انسانی خود اس کی ذریت میں شامل ہیں، لہٰذا وہی اول البشر تھا۔
دوسری دلیل: لفظ ثم (پھر) سے استدلال:
یہ احباب اپنے موقف کی تائید میں درج ذیل آیت بھی شد و مد سے پیش کرتے ہیں:
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَةِ اسْجُدُواْ لِآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ [الاعراف: ۱۱]
اور بے شک ہم نے تمہاری تخلیق کی پھر تمہاری شکل و صُورت بنائی پھر کہا ہم نے فرشتوں سے کہ سجدہ کرو آدم کو تو سجدہ کیا سب نے سوائے ابلیس کے، نہ تھا وہ شامل سجدہ کرنے والوں میں۔
یہاں ان کی بنائے استدلال یہ ہے کہ آدم کے ذکر سے قبل، بنی نوع انسان (جن کے لئے یہاں جمع کی ضمیر، ’کُم‘ استعمال ہوئی ہے) کی تخلیق کا ذکر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خلق آدم سے قبل یہ لوگ پیدا ہو چکے تھے۔ لہٰذا آدم اول البشر اور ابو البشر نہیں تھے۔ یہ نتیجہ انہوں نے لفظ ’ثم‘ (پھر) سے نکالا ہے جسے انہوں نے ترتیب بیان پر محمول کیا ہے۔ یہ نتیجہ بجائے خود بھی غلط ہے اور جس بنیاد پر یہ استنتاج کیا گیا ہے (یعنی یہ کہ لفظ ثم ترتیب بیان ہی کے لئے ہوتا ہے) وہ بھی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس لفظ کا ترتیب کے لئے آنا ضروری نہیں۔ مثلاً مشہور منکر حدیث علامہ پرویز لکھتے ہیں کہ:ثم حرف ہے اور عام طور پر اس مقام پر آتا ہے جہاں کوئی ترتیب بیان کرنا مقصود ہو، جیسے ہم کہتے ہیں کہ اس نے کھانا کھایا پھر پانی پیا، لیکن ضروری نہیں کہ ہر جگہ ترتیب (پھر) کے معنوں ہی میں استعمال ہو۔ [تفسیر مطالب الفرقان، جلد۱ صفحہ ۳۵۳]

اسی آیت کو ملاحظہ کر لیجئے، پہلے پیدا کرنے کا، پھر صورت گری کرنے کا ذکر ہے۔ حالانکہ ترتیب دیکھی جائے تو انسان کی صورت گری پہلے ہوتی ہے اور پیدا وہ بعد میں ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر آیت میں دیگر انسانوں کی تخلیق کا ذکر پہلے ہے اور آدم کا تذکرہ بعد میں ہے تو اس سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا کیونکہ لفظ ثم ہر جگہ ترتیب بیان کے لئے نہیں ہے۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ آدم کو سجدہ کرنے کے حکم سے قبل، خلقناکم اور صورناکم میں جمع کی ضمیریں کس مصلحت کی آئینہ دار ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت زیر بحث اور اس سے قبل کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان پر کی جانے والی نعمتوں کا ذکر کیا ہے۔ پہلی آیت میں یہ فرمایا کہ :
’ہم نے تمہیں زمین میں ٹھکانا بخشا اور اس میں تمہاری روزی کا سرو سامان رکھ دیا (مگر کثیر نعمتیں پا کر) تم شکر کی روش میں قصیر ہو۔‘

چنانچہ اس آیت میں مادی نعمتوں کا ذکر ہے۔ اور اس سے اگلی آیت میں معنوی نعمتوں کا ذکر ہے جن میں سب سے بالا تر نعمت وہ اعزاز ہے جو مسجود ملائکہ ہونے کی حیثیت سے انسان کو ملا، اگرچہ یہ اعزاز نوع انسانی کے مورث اعلیٰ یعنی حضرت آدم ؑ کو ملا تھا، مگر اس عام قاعدے کے مطابق کہ باپ پر ہونے والی نعمت، اولاد پر بھی اور اسلاف پر کئے جانے والے انعامات، اخلاف پر بھی متصور ہوتے ہیں، اس اعزاز کو تمام اولاد آدم کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور یہ کوئی ہمارا گھڑا ہوا قاعدہ نہیں، بلکہ قرآن سے اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً
۱۔ البقرۃ: ۴۹ ::: اور جب ہم نے تمہیں آل فرعون سے نجات دی۔۲۔ البقرۃ: ۵۷:::: اور ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا۔۳۔ البقرۃ: ۵۲:::: پھر ہم نے اس کے بعد، تمہیں معاف کر دیا۔

درج بالا تمام آیات میں ’کُم‘ کی ضمیر، ان یہودیوں کی طرف راجع نہیں ہے جو دور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم میں زندہ تھے ، بلکہ ان کے ان اسلاف کی طرف راجع ہے، جن کے یہ لوگ اخلاف تھے۔ اور جو ان سے صدیوں پہلے مر چکے تھے، جس طرح ان آیات میں مخاطب تو اخلاف کو کیا گیا ہے، لیکن مراد اسلاف ہیں۔ بالکل اسی طرح الاعراف آیت ۱۱ میں اگرچہ خطاب عام انسانوں کو ہے، مگر مراد آدم ؑ ہیں۔ جو تمام انسانوں کی اصل تھے۔ پوری نوع انسانی کے باپ اور جملہ نسل بشر کے مورث اعلیٰ تھے۔ اس لئے ان کی خلق اور تصویر کو تمام انسانوں کی طرف بالکل اسی طرح منسوب کیا گیا ہے، جس طرح اسلاف یہود کے اعمال کو، ان اخلاف کی طرف نسبت دی گئی ہے جو دور نبوی میں زندہ موجود تھے۔

نوٹ: میرے ناقص مطالعہ کی حد تک یہی دو قوی اعتراضات تھے، جن کے جوابات دے دئے گئے ہیں، اگر کوئی صاحب ان کے علاوہ بھی کوئی دلیل رکھتے ہوں تو ضرور پیش فرمائیے۔
خلاصہ بحث:
ہم نے ایمانداری سے صرف قرآن کی روشنی میں ساری بات قارئین کے سامنے رکھ دی ہے۔ چاہیں تو اب بھی آدم سے مراد آدمی سمجھتے رہئے اور چاہیں تو ان قرآنی دلائل کی روشنی میں آدم سے ، اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر، اول البشر، ابوالبشر ، نسل انسانی کے مورث اعلیٰ مراد لے لیجئے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ شخصیت آدم کے بارے میں یہی موقف یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کا ہے۔ اگر آدم سے مراد کوئی شخصیت نہ ہوتی، تو قرآن واضح ترین انداز میں عیسائیوں اور یہودیوں کے اس نظریہ کی تردید کرتا جیسے کہ ان کے دیگر عقائد و معاملات کی تردید کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم بھی یہی ہے۔الناس کلہم بنو اٰدم و اٰدم من تراب (ترمذی)
تمام انسان آدم کے بیٹے ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو صراط مستقیم دکھادے ، اور پھر بلا تعصب اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جب بھی موت آئے تو بس اس حال میں کہ ہم مومن ہوں، اور ہمارا اللہ ہم سے راضی ہو۔ آمین یا رب العالمین۔

نوٹ: اس موضوع کے لئے درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ آپ بھی مزید تفصیلات کے لئے ان بہترین تحقیقی کتب کو ڈاؤن لوڈ کیجئے:
تفسیر مطالب الفرقان کا علمی و تحقیقی جائزہ از پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی [پی ایچ ڈی مقالہ]
عقل پرستی اور انکار معجزات از عبدالرحمٰن کیلانی
 

arifkarim

معطل
یہ واضح نہیں ہے کہ یہ نالیدی ۲۵ لاکھ سال پہلے کے تھے۔ یہ تو کسی کو علم ہی نہیں کہ آدم کس زمانے میں تھے۔ کوئی ہامینڈ آج تک نہیں ملا جو انتہائی لمبے قد کا ہو۔
سب سے اونچے قد کا ہامینڈ اب تک کتنا اور کہاں پر ملا ہے؟

لگ بھگ چھ ہزار سال پہلے اتارے گئے تھے، زمین پر۔
یہ کیا خلائی مخلوق تھی جو زمین پر ’’اتاری‘‘ گئی تھی؟

دخل اندازی کے لیے معافی چاہتا ہوں کاظمی صاحب مجھے نہیں لگتا کہ آدم علیہ السلام کو دنیا میں آکر اتنا کم عرصہ گزرا ہوگا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں آدم علیہ السلام کے متعلق آپ جو کہ رہے ہیں کہ صرف 6000 سال پہلے دنیا میں آئے اس کا ثبوت کیا ہے۔
یہ عمر یہود و نصاریٰ بائیبل کے حساب سے درست ہے۔ یہودیوں کا کیلنڈر اس بات کی گواہ ہے۔ اس کیلنڈر کے مطابق آدم کی تخلیق سے لیکر اب تک 5775 سال گزر گئے ہیں:
ایک یہودی کے سوال پر ایک رابی کا جواب:
You're right. We are now in the year 5759 from the creation of Adam. We have an unbroken tradition that this is so; we've been writing this in our marriage documents for thousands of years.

For textual sources, look at the chronologies from Adam down through Avraham (Genesis, Chapters 5,11). This shows that Avraham was born in the year 1948 (!) from Creation. The Exodus from Egypt was 500 years later (Genesis 21:5, 15:13), bringing us to the year 2448. Add 480 years from the Exodus until the First Temple (Kings I, 6:1) and you have 2928. Add 410 years that the First Temple stood, 70 years of Babylonian exile, 420 years that the Second Temple stood, and 1931 years since its destruction. This gives you exactly 5759​
http://ohr.edu/ask_db/ask_main.php/216/Q5/

کیا لگ بھگ 6000 سال کا یہ زمانہ قرآن سے ثابت ہے یا حدیث سے؟ حوالہ عنایت فرما دیں لیکن اپنی کم علمی کو اصول بنا کر مت پیش کریں۔
حوالہ اوپر دیکھ لیں۔ حوالہ یہودیوں کا کیلنڈر ہے جو کہ تخلیق آدم سے لیکر اب تک کا زمانہ بطور ٹائم فریم کے استعمال کرتا ہے۔

یہاں کیا بونگی ماری تھی؟ :)

خالد محمود چوہدری بھائی ! بہت شکریہ جناب۔۔۔ آپ کے جواب سے کافی تشفی ہوئی ہے۔
یہ کیا مذاقاً کہا تھا؟ :)
 

فاتح

لائبریرین
حوالہ اوپر دیکھ لیں۔ حوالہ یہودیوں کا کیلنڈر ہے جو کہ تخلیق آدم سے لیکر اب تک کا زمانہ بطور ٹائم فریم کے استعمال کرتا ہے۔
میرا سوال غور سے پڑھیں۔۔۔ میں نے قرآن یا حدیث سے جواب مانگا تھا، یہودیوں کی کتابوں سے نہیں۔
اگر یہاں یہودیوں کی کتابوں میں لکھی اس ایک بات کو ہم تسلیم کرتے ہیں تو کس وجہ سے اور انہی کتابوں کی باقی باتوں کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟

یہاں کیا بونگی ماری تھی؟ :)
دو بار ایک ہی مراسلہ ارسال ہو گیا تھا
 

زہیر عبّاس

محفلین
یہ کیا مذاقاً کہا تھا؟ :)

[3]حضرت امام جعفر صادق علیھ السلام فرماتے ھیں: شاید آپ لوگ یھ تصور کریں کھ آپ سے پھلے خداوند متعال نے اور کسی انسان کو خلق نھیں کیا ھے ، نھیں ، ایسا بالکل نھیں ھے ، بلکھ ھزاروں ھزار آدم خلق ھوئے ھیں
 

محمدظہیر

محفلین
یہ عمر یہود و نصاریٰ بائیبل کے حساب سے درست ہے۔ یہودیوں کا کیلنڈر اس بات کی گواہ ہے۔ اس کیلنڈر کے مطابق آدم کی تخلیق سے لیکر اب تک 5775 سال گزر گئے ہیں:
ایک یہودی کے سوال پر ایک رابی کا جواب:
You're right. We are now in the year 5759 from the creation of Adam. We have an unbroken tradition that this is so; we've been writing this in our marriage documents for thousands of years.

For textual sources, look at the chronologies from Adam down through Avraham (Genesis, Chapters 5,11). This shows that Avraham was born in the year 1948 (!) from Creation. The Exodus from Egypt was 500 years later (Genesis 21:5, 15:13), bringing us to the year 2448. Add 480 years from the Exodus until the First Temple (Kings I, 6:1) and you have 2928. Add 410 years that the First Temple stood, 70 years of Babylonian exile, 420 years that the Second Temple stood, and 1931 years since its destruction. This gives you exactly 5759​
http://ohr.edu/ask_db/ask_main.php/216/Q5/
یہودیوں کی لکھی گئی تاریخ مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہے؟
 
Top