’ہومو نالیدی‘، انسانوں کی ایک نئی قسم دریافت!

arifkarim

معطل
’ہومو نالیدی‘، انسانوں کی ایک نئی قسم دریافت
صرف خود کو ہی اشرف المخلوقات سمجھنے والے حضرتِ انسان کے لیے یہ خبر ایک نیا دھچکا ہے کہ سائنسدانوں نے جنوبی افریقہ کے غاروں میں انسان کی ایک نئی قسم دریافت کر لی ہے، جو غالباً اپنے مُردوں کو دفن بھی کیا کرتی تھی۔


سائنسدانوں کے مطابق قطعی طور پر تو بتانا مشکل ہے تاہم اندازہ ہے کہ یہ ’انسان‘ 2.5 ملین سال پہلے زمین پر بستا تھا

انسانوں کی اس قسم کی قدیم باقیات جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ سے پچاس کلومیٹر شمال مغرب کی جانب واقع غاروں سے ستمبر 2013ء میں ہی برآمد کی گئی تھیں۔ جوہانسبرگ کی یونیورسٹی آف وِٹ واٹر لینڈ میں ارتقائی علوم کے انسٹیٹیوٹ کے لی بیرگر کے مطابق یہ سب کچھ عین ناک کے نیچے تھا لیکن محققین بے خبر رہے۔

سائنسی جریدے ای لائف (eLife) اور نیشنل جیوگرافک میگزین میں انسانوں کی اس نئی قسم کو ’ہومو نالیدی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ نالیدی جنوبی افریقہ کی ایک مقامی زبان سیسوتھو میں ’ستارے‘ کو کہتے ہیں اور چونکہ یہ باقیات ’رائزنگ سٹار‘ (ابھرتے ستارے) نامی غار سے برآمد ہوئی ہیں، اس لیے انسانوں کی اس نئی قسم کو بھی یہی نام دے دیا گیا ہے۔

جس غار سے یہ باقیات برآمد کی گئی ہیں، وہاں سے کچھ ہی دور ایک نیوز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس سے خطاب کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کے نائب صدر سیرل رامافوسا نے کہا:’’آج ہم اپنے ماضی پر سے پردہ ہٹا رہے ہیں۔ ہم کوئی استثنائی مخلوق نہیں ہیں۔ ہم اکیلے ہی نہیں ہیں، جو اپنے مُردوں کو دفن کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔‘‘

اب تک کی جانے والی تحقیق کے مطابق ’ہومو نالیدی‘ کا قد ایک میٹر پچاس سینٹی میٹر کے لگ بھگ اور وزن پنتالیس کلوگرام ہوا کرتا تھا۔ اس ’انسان‘ کی کھوپڑی، دانت اور دھڑ انسانوں کی ایک ابتدائی قسم ’ہومو ہابیلس‘ سے مماثلت رکھتے تھے جبکہ شانے بن مانسوں کی طرح کے تھے۔ پاؤں آج کل کے انسان سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔

سائنسدانوں نے اپنی اس تحقیق کے لیے پندرہ سو پچاس ہڈیوں کو بنیاد بنایا ہے، جو اُنہیں اب تک اس غار میں سے ملی ہیں۔ یہ ہڈیاں پندرہ ’انسانوں‘ کی ہیں، جن میں بچوں سے لے کر بڑی عمر تک کے افراد کی ہڈیاں بھی شامل ہیں۔ جس جگہ سے یہ ہڈیاں ملی ہیں، وہاں کسی اور جاندار کے آثار نہیں ملے اور نہ ہی ہڈیوں پر دانتوں کے نشانات ہیں۔ دوسرے معنوں میں ایسا نہیں ہے کہ اس جگہ کسی درندے نے گھر بنا رکھا تھا اور یہ ہڈیاں اُس کے کھاجے میں سے باقی بچی تھیں۔ اس جگہ اور ابھی مزید کتنی ہڈیاں موجود ہیں، یہ بات بھی ابھی قطعی طور پر نہیں بتائی جا سکتی ہے۔ امکان ہے کہ یہ ’انسان‘ اپنے ہم جنسوں کو مرنے کے بعد گہرے دُشوار گزار غاروں میں لے جا کر رکھ دیا کرتے تھے۔


یہ ہڈیاں پندرہ ’انسانوں‘ کی ہیں، جن میں بچوں سے لے کر بڑی عمر تک کے افراد کی ہڈیاں بھی شامل ہیں

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ’ہومو نالیدی‘ کا دماغ چمپینزی سے ذرا سا ہی بڑا ہوتا تھا۔ سائنسدان قطعی طور پر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ باقیات کتنی پرانی ہیں تاہم اُن کا اندازہ ہے کہ غالباً یہ آثار 2.5 ملین سال پرانے ہیں۔

جس غار کے اندر سے یہ ہڈیاں ملی ہیں، اُس تک جانے کے راستے بہت ہی تنگ تھے اور اُن کی چوڑائی محض اٹھارہ سینٹی میٹر (سات انچ) تھی۔ ایسے میں لی بیرگر اور اُن کی ٹیم نے سوشل میڈیا پر ایک اپیل جاری کی، جس میں ایسے لوگوں سے رابطہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی، جو نہ صرف غاروں میں اترنے کی مہارت رکھتے ہوں بلکہ تنگ جگہوں سے بھی گزر سکتے ہوں۔

یہ غاریں اور ان کے آس پاس کا علاقہ اقوام متحدہ کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے اور اس جگہ سے ملنے والی قدیم انسانی باقیات کی بہتات کے باعث اسے ’بنی نوعِ انسانی کا پالنا‘ بھی کہا جاتا ہے۔
ماخذ
 
مدیر کی آخری تدوین:

arifkarim

معطل
جنوبی افریقہ میں انسان نما مخلوق کی باقیات دریافت
150910104220_homo_naledi_southafrica_624x351_johnhawks.jpg


جنوبی افریقہ میں سائنسدانوں نے انسانوں سے ملتی جلتی ایک نئی مخلوق کے ڈھانچے دریافت کیے ہیں۔ یہ دریافت ایک گہرے غار میں تدفین کرنے والے چیمبر سے کی گئی ہے۔

15 جزوی ڈھانچوں پر مشتمل یہ دریافت افریقہ میں اپنی نوعیت کی منفرد مثال ہے۔

محققین کا خیال ہے کہ اس دریافت سے قدیم انسان کے بارے میں ہمارے خیالات تبدیل ہوجائیں گے۔

سائنسی جریدے ایلائف میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں یہ اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ یہ افراد مذہبی رجحانات کے حامل بھی تھے۔

اس نسل کو نالیڈی کا نام دی گیا ہے اور اسے حیاتیاتی گروہ ’ہومو‘ میں شامل کیا گیا ہے، جدید انسان کا تعلق بھی ایسی حیاتیاتی گروہ سے ہے۔

جن ماہرین نے یہ تحقیق کی ہے وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ مخلوق کتنا عرصہ زندہ رہی تاہم محققین کی ٹیم کے سربراہ پروفیسر لی برگر نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ انھیں یقین ہے کہ یہ اپنی نوعیت (جینس ہومو) کے اول ترین ہیں اور یہ ممکن ہے کہ وہ افریقہ میں 30 لاکھ سال پہلے تک قیام پذیر رہے تھے۔

دیگر محققین کی طرح انھوں نے ’گمشدہ تعلق‘ کی اصطلاح کے استعمال سے گزیر کیا ہے۔ پروفیسر برگر کہتے ہیں کہ نالیڈی کو دو ٹانگوں پر چلنے والی ابتدائی مخلوق اور انسان کے درمیان ایک ’پل‘ خیال کیا جا سکتا ہے۔

150910104536_naledi_homo_southafrica_624x351_bbc_nocredit.jpg


وہ کہتے ہیں: ’ہم ایک فوسل کی تلاش کے لیے اندر گئے تھے۔ وہاں کئی فوسل سامنے آئے۔ اور پھر یہ کئی ڈھانچوں اور کئی افراد کی دریافت کے طور پر سامنے آئے۔‘

پروفیسر برگر کے مطابق ’چنانچہ 21 دن کے بعد، ہم نے افریقہ کی تاریخ کی انسان سے ملتے جلتے فوسلز کی سب سے بڑی دریافت کر لی۔ یہ ایک غیرمعمولی تجربہ تھا۔‘

نیچرل ہسٹری میوزیم کے پروفیسر سٹرنگر کہتے ہیں کہ نالیڈی ’ایک انتہائی اہم دریافت ہے۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’ہمیں زیادہ سے زیادہ یہ شواہد مل رہے ہیں کہ قدرت انسانی ارتقا کے لیے تجربات کر رہی تھی، جس کے باعث مختلف قسم کی انسان سے ملتی جلتی مخلوقات افریقہ کے مختلف حصوں میں سامنے آئیں۔ صرف ایک قسم کی نسل بچی رہی جو بالآخر ہم تک پہنچی۔‘

میں ان ہڈیوں کو دیکھنے کے لیے گیا جو وٹواٹرزریبڈ یونیورسٹی کے ایک محفوظ کمرے میں رکھی گئی تھیں۔ اس کمرے کا دروازہ کسی بنک کی تجوری کی طرح مقفل تھا۔ پروفیسر برگر نے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے مجھے بتایا کہ ابتدائی انسان کے بارے میں ہمارے علم کا انحصار ان جزوی ڈھانچوں اور کھوپڑی پر ہے۔

15 نامکمل ڈھانچوں میں مختلف عمروں کے مرد و خواتین کی باقیات شامل ہیں، جن میں شیرخوار بچوں سے بڑی عمر کے افراد شامل ہیں۔

افریقہ میں ہونے والی یہ دریافت بے مثال ہے اور یہ انسانی ارتقا کے بارے میں مزید رہنمائی فراہم کرے گی۔

پروفیسر برگر نے مجھے بتایا: ’ہم اس نسل کے بارے میں سب کچھ جان لیں گے۔‘

’ہم یہ جان لیں گے کہ کب بچوں کو دودھ چھڑایا گیا، وہ کب پیدا ہوئے، ان کی نشو و نما کیسے ہوئی، کس رفتار سے ان کی نشو و نما ہوئی، نشو و نما کی ہر سطح کے دوران نر اور مادہ میں ہونے والی تبدیلیوں سے لے کر بچپن سے نوعمری تک وہ کیسے بڑھے اور ان کی موت کیسے ہوئی۔‘

150910104645_homo_naledi_southafrica_624x351_bbc_nocredit.jpg

’اس کا ہاتھ بھی انسانوں جیسا تھا، تاہم اس کی انگلیوں پر بل کسی بن مانس جیسے تھے‘
میں محفوظ کی گئی ہڈیوں کو دیکھ کر حیرات زدہ رہ گیا کہ وہ کس قدر بہتر انداز میں محفوظ رکھی گئی تھیں۔ کھوپڑی، دانت اور پیر ایسے دکھائی دیتے تھے جیسے وہ کسی بچے کے ہوں، اگرچہ وہ ڈھانچہ کسی بڑی عمر کی مادہ کا تھا۔

اس کا ہاتھ بھی انسانوں جیسا تھا، تاہم اس کی انگلیوں پر بل کسی بن مانس جیسے تھے۔

ہومو نالیڈی افریقہ سے ملنے والے کسی بھی ابتدائی انسان سے مماثلت نہیں رکھتے۔ ان کا دماغ چھوٹا ہے، کسی گوریلے کے دماغ کے برابر۔

تاہم انھیں انسانوں کے حیاتیاتی گروہ میں ہی شامل کیا گیا ہے ، ان کی کھوپڑی کی شکل، نسبتًا چھوٹے دانتوں، لمبی ٹانگوں اور جدید تر دکھائی دیتے ہوئے پیروں کی وجہ سے۔

پروفیسر برگر نے بتایا: ’میں نے دیکھا تو میں نے سوچا میں اپنے پورے کیریئر میں ایسا کبھی نہیں دیکھ سکوں گا۔‘

’یہ وہ لمحہ تھا جس نے 25 سال بطور پالیونتھروپولوجسٹ مجھے تیار نہیں کیا تھا۔‘

یہ ایک اہم سوال ہے کہ یہ باقیات وہاں تک کیسے پہنچیں۔

150910104842_homo_naledi_southafrica_624x351_bbc_nocredit.jpg

محققین کا خیال ہے کہ اس دریافت سے قدیم انسان کے بارے میں ہمارے خیالات تبدیل ہوجائیں گے
میں نے دریافت کے مقام کا دورہ کیا جسے ’رائیزنگ کیو‘ کہا جاتا ہے، اور یہ یونیورسٹی سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ’انسانیت کی آغوش‘ نامی علاقے میں ہے۔ یہ غار ایک تنگ سرنگ تک جاتی ہے جس کے ذریعے پروفیسر برگر کی ٹیم کے کچھ ارکان رینگتے ہوئے اندر گئے۔ اس کام کے لیے نیشنل جیوگرافی سوسائٹی نے امدادی تعاون فراہم کیا تھا۔

اس کام کے لیے چھوٹی خواتین کا انتخاب کیا گیا کیونکہ سرنگ بہت تنگ تھی۔ وہ اندھیرے میں رینگتی گئیں اور انھیں صرف ہیلمٹ پر نصب ٹارچ کی روشنی میسر تھی۔ بالآخر 20 منٹ کی مسافت کے بعد وہ ایک چیمبر تک پہنچیں جہاں سینکڑوں کی تعداد میں ہڈیاں موجود تھیں۔

انھیں میں مرینہ ایلیٹ بھی شامل تھیں۔ انھوں نے مجھے غار کا تنگ داخلی راستہ دکھایا اور بتایا کہ انھیں کیا محسوس ہوا جب انھوں نے پہلی بار چیمبر دیکھا۔

انھوں نے بتایا: ’جب میں پہلی بار کھدائی کی جگہ پہنچی تو مجھے ایسا لگا جیسا ہاورڈ کارٹر نے توت عنخ آمون کی مقبرے کو کھولنے پر محسوس کیا ہوگا۔ آپ ایک تنگ جگہ پر ہیں جو ایک کھلی جگہ پر کھلتی ہے اور اچانک آپ یہ تمام حیرت انگیز چیزیں دیکھتے ہیں۔ یہ ناقابل یقین تھا۔‘

مرینہ ایلیٹ اور ان کے ساتھیوں کو یقین تھا کہ انھوں نے تدفین کا ایک چیمبر دریافت کیا ہے۔ ہومو نالیڈی لوگوں میں بظاہر اپنے مردوں کو ایک گہرے غار میں دفن کرنے کا نظام تھا اور وہ انھیں اس چیمبر میں دفن کرتے تھے، ممکنہ طور پر کئی نسلوں سے۔

150910114004_homo_naledi__624x351_johnhawks.jpg

قدیم ڈھانچے دریافت کرنے والی ٹیم کے ارکان

اگر ایسا ہی تھا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نالیڈیوں میں رسم و رواج کا رجحان موجود تھا اور ممکنہ طور پر علامتی خیالات بھی تھے، یہ پہلو ابھی تک گذشتہ دو لاکھ سال سے انسان سے منسوب کیا جا رہا ہے۔

پروفیسر برگر کہتے ہیں: ہمیں یہ گہری سوچ وبچار کرنا ہوگی کہ یہ کیسے انسان تھے۔ کیا ہم اس رجحان کے بارے میں غلط تھے کہ یہ صرف جدید انسان سے ہی منسلک ہے؟‘

’کیا ہم نے یہ رجحان قدیم وقتوں سے وراثت میں پایا ہے اور کیا یہ ابتدائی انسان ہمیشہ سے کرنے کے قابل تھے؟‘

پروفیسر برگر کا خیال ہے کہ اس مخلوق کی دریافت جدید اور ابتدائی انسان کا ملغوبہ ہے جس پر سائنسدانوں کو انسان کی تعریف پر دوبارہ غوروفکر کرنا چاہیے۔ وہ خود بھی نالیڈی کو انسان کہنے سے اجتناب کرتے ہیں۔

دیگر محققین جیسا کہ پروفیسرسٹرنگر کا خیال ہے کہ نالیڈی کو ابتدائی انسان قرار دینا چاہیے۔ تاہم وہ اس امر پر یقین کرتے ہیں حالیہ نظریات کو دوبارہ جانچنے کی ضرورت ہے اور ہم نے صرف انسانی ارتقا کی پیچیدہ اور بھرپور کہانی کی سطح کھرچی ہے۔
ماخذ
 

arifkarim

معطل
جنوبی افریقہ: انسانیت کے گہوارے جنوبی افریقہ میں ایک نیا انکشاف ہوا ہے کہ انسان سے مطابقت رکھنے والی ایک قدم مخلوق بھی اپنے مردوں کو دفنانے کا فن جانتی تھی۔

تفصیلات کے مطابق جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ سے کچھ فاصلے پرواقع قدیم انسانی آبادیوں کے آثارقدیمہ کے مرکز’اسٹرک فونٹین‘اور’سوارٹ کرانز‘ کی ایک غار سے ملنے والے ڈھانچوں نے انسانی ارتقاء کی تاریخ پر نئی بحث کا آغاز کردیا ہے۔

image.jpg


تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ لی برجر کا کہنا تھا کہ یہ دریافت بالکل ہماری ناک کے نیچے افریقہ کی اس وادی میں ہوئی ہے جہاں قدیم انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ دریافتیں ہوئی ہیں۔

اس نئی نوع کو سائنسدانوں نے ’ہومونالیدی‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ نام اسے ’رائزنگ اسٹار‘ نامی اس غارکا نام ہے جہاں سے یہ دریافت ہوئی ہے۔ افریقہ کی سیسوتھو زبان میں نالیدی ستارے کو کہا جاتا ہے۔

image.jpg


ماہرین بشریات کے مطابق یہ نوع اپنے مردے باقاعدگی سے دن کرتی تھی اور اس دریافت سے قبل سمجھا جاتا تھا کہ مردوں کو ان کی آخری منزل تک پہنچانے کا یہ طریقہ صرف انسان نے اپنایا ہے۔

ہومو نیلادی نامی اس مخلوق کی دریافت ستمبر 2013 میں ہوئی تھی اور تب سے اب تک ان پر تحقیق جاری تھی۔

image.jpg


ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نوع کے دماغ کا حجم ذہانت میں انسان سے قریب ترین مخلوق چمپینزی کے دماغ سے بڑا ہے تاہم یہ نوع تاریخ کے کس دور سے تعلق رکھتا ہے یہ اندازہ لگانا دشوارہے۔

برجر کا کہنا ہے فی الحال اس نوع کے زمین پر رہنے کے دور کا اندازہ لگانا دشوارہے لیکن انکی جسمانی ساخت اور اعضا کی ہیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ زمین پر لگ بھگ 25 لاکھ سال قبل چلتی پھرتی ہوگی اور اپنے روزمرہ کے امور انجام دیتی ہوگی۔

image.jpg


واضح رہے کہ انسان کے اس قریبی رشتے دار کی دریافت جس علاقے سے ہوئی ہے وہ اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی ورثہ قراردیا جاچکا ہے اورجنوبی افریقہ کی حکومت نے اسے انسانیت کے گہوارے کانام دیا گیا ہے جس کا سبب وہاں سے کثیر تعداد میں برآمد ہونے والے فاسلز ہیں
ماخذ
 

کاظمی بابا

محفلین
دشمن چالاک اور مسلح ہے۔
نظریاتی بنیاد پر وار کرتا ہے۔

انسان کو اللہ تعالی نے "احسن تقویم" میں تخلیق فرمایا، بندر کے سلسلہ نسب سے نہیں۔

اگر تھوڑی سی جستجو کی جائے تو سیدنا آدم علیہ السلام کے زمین پر اتارے جانے کا عرصہ جانا جا سکتا ہے اور یہی ڈارون کے نظریہ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔

وہ بنتا پھرے بندر کی اولاد، ہم تو پیارے سیدنا آدم علیہ السلام ہی کی اولاد ہیں، ہاں جی۔
 

arifkarim

معطل
دشمن چالاک اور مسلح ہے۔
کیا "دشمن" نے یہ دریافت گولا بارود سے کی تھی؟

نظریاتی بنیاد پر وار کرتا ہے۔
جب کوئی انسانی نظریہ غلط بنیادوں پر قائم ہو تو اسے صحیح بنیادوں پر لانا آثار قدیمہ سے ملنے والے شواہد کا کام ہے۔

انسان کو اللہ تعالی نے "احسن تقویم" میں تخلیق فرمایا، بندر کے سلسلہ نسب سے نہیں۔
نظریہ ارتقاء کے مطابق انسان بندروں کے نسب سے نہیں۔

اگر تھوڑی سی جستجو کی جائے تو سیدنا آدم علیہ السلام کے زمین پر اتارے جانے کا عرصہ جانا جا سکتا ہے اور یہی ڈارون کے نظریہ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
کیا محض 6000 سال کے عرصہ میں چینی النسل،کاکیشائی نسل ، افریقی النسل اور دور حاضر کی دیگر نسل انسانی کا وجود ممکن میں آسکتا ہے؟

اللہ تعالی نے ہمارے لئے اسلام کو بطور دین منتخب کیا۔
باقی سب باطل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے سوچنے اور سمجھنے والا دماغ بھی عطا کیا ہے۔ کبھی کبھار اسکا استعمال بھی جائز قرار دیا ہے۔

وہ بنتا پھرے بندر کی اولاد، ہم تو پیارے سیدنا آدم علیہ السلام ہی کی اولاد ہیں، ہاں جی۔
آپکو کسنے کہا کہ انسان بندروں کی اولاد ہے؟

لگ بھگ 6000 سال ہی بنتا ہے۔ آپ کو جنت سے اتارا گیا تھا کسی ارتقائی عمل سے وضع نہیں کیا گیا تھا۔
یہ دریافت حضرت آدم علیہ السلام کے بارہ میں نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
زیک بھائی سے خاص درخواست ہے کہ اس ہم دریافت پر کچھ مزید روشنی ڈالیں۔ اور خالی ریٹنگز کا استعمال کرنے سے اجتناب کریں تاکہ بحث کو مثبت رنگ میں معلوماتی اور علمی بنایا جا سکے۔ شکریہ
 

کاظمی بابا

محفلین
ناراضگی معاف جناب
-
ہم پاکستان میں رہتے ہیں اور پاکستانی خیالات رکھتے ہیں۔ اگر ہمارا اظہار خیال آپ کی برداشت سے باہر ہے تو اگنور کا آپشن موجود ہے۔
 

ummargul

محفلین
بھائی جب جدید سائنس صرف ڈھانچے دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں تو شکل اور مقام کو دیکھ کر ۔۔۔۔ اندازہ نہیں کر سکتے ؟
 
Top