علم کو انگریزی میں Knowledge کہتے ہیں جسکے لغوی معنی کوئی بات جاننے یا اسکی آگہی کے ہیں۔ حالانکہ اس سے ملتی جلتی اصطلاح Information کے لغوی معنی معلومات کے ہیں جو کہ لفظ
معلوم یعنی کسی بات کا علم ہونا ہی سے نکلا ہے۔ پھر سائنسی علوم ہیں جنکی اردو میں کوئی اصطلاح مستعمل نہیں۔ انکے علاوہ دینی، روحانی، اخلاقی اور لاتعداد دوسرے علوم دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ علم کی کوئی ایک تعریف ڈھونڈنے نے نکلیں گی تو ساری عُمر ڈھونڈتی ہی رہیں گی کیونکہ
علم کبھی ساکن تو ہوتا نہیں ہے اور پھیلانے سے بڑھتا اور پھولتا ہے۔ یوں اسکی تعریف بھی واحد و مطلق نہیں ہو سکتی۔
یہاں آپکا یہ سوال بنتا ہے کہ ہم صرف سائنس ہی کو اصل علم کیوں کہتے ہیں تو وہ اسلئے کہ یہ
علم لاتعداد مشاہدات، تجربات کی رو سے ’’ثابت‘‘ ہو چکا ہے۔ جبکہ دیگر علوم کے بارہ میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ جیسے کوئی
غیرمسلم اسلامی دینی علوم سے مستفیض ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسی طرح دیگر مذاہب کے دینی علوم ہم مسلمانوں کیلئے بے فائدہ ہیں۔ مگر سائنسی علوم ہر انسان چاہے وہ مذہبی ہو یا نہ ہو، سب کے لئے یکساں فائدہ مند ہیں۔ کیا آپ نے کوئی یہودی موبائل فون دیکھا ہے؟ یا ہندو موٹر کار؟ یا عیسائی انٹرنیٹ؟ مطلب سائنسی علوم اور انسے حاصل ہونے والی ایجادات تمام انسانوں کی فلاح عامہ کیلئے ہیں جبکہ
سائنس سے ہٹ کر دیگر علوم مخصوص انسانی گروہوں یا آبادیوں تک محدود ہیں۔ مجھے امید ہے میری بات سمجھ آگئی ہو گی
یہ اسلئے کیونکہ
اردو ، عربی، فارسی اور دیگر ملتی جلتی زبانوں میں آج تک سائنس کیلئے کوئی الگ اصطلاح ایجاد کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اور یہی کم علمی یہاں کےدیسی معاشروں میں کنفیوژن پیدا کرتی ہے جب یہاں کے لوگ دیگر علوم کو سائنسی علوم کے ساتھ تشبیہ دے کر انہیں ایک ہی زمرے میں شمار کرنے لگ جاتے ہیں:
https://ur.wikipedia.org/wiki/سائنس
علم مرئی نہیں ہوتا۔ اگر کسی
انہونی سانحہ کے بعد زمین پر سے مخلوق انسانی کا خاتمہ ہو بھی ہو گیا تب بھی جو سائنسی علوم ہم نے اب حاصل کر لئے ہیں انہیں یہاں مستقبل میں آنے والی مبینہ جدید مخلوقات بروئے کار لانے میں کامیاب رہیں گی۔ کیونکہ
عقل، منطق اور دانش پر مبنی علوم کبھی ضائع نہیں ہوتے۔