"وہم" باہمی تعلقات میں سب سے بڑا مسئلہ

شزہ مغل

محفلین
آج ہمارے آپس کے رشتے اور تعلقات اس لیے کمزور ہوتے جا رہے ہیں کہ ہم اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالوں کے جواب خود ہی سوچ لیتے ہیں اور دوسروں کے بارے میں ایسے وہم کو من میں جگہ دے دیتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہم دوسروں سے متعلق سوالات ان ہی سے نہیں پوچھ پاتے اور پھر اپنے پیارے رشتے کھو بیٹھتے ہیں؟؟؟؟؟
 
وجوہات کی نشاندہی کیجیئے گا پلیز
میں اپنا ذاتی مشاہدہ عرض کر سکتا ہوں۔

1- خواتین میں خود ہی کسی معاملے میں کسی سے بدگمان ہوجانے کی بڑی وجہ ان میں عام طور پر پایا جانے والا ڈیپریشن کا مرض ہوتا ہے۔ اور ڈیپریشن کی ایک اہم وجہ ان کی صحت کا ٹھیک نہ ہونا اور صحت کے مسائل کی ایک بڑی وجہ اپنی خوراک کی طرف توجہ نہ دینا ہے۔ اس کے علاوہ گھر کے کام کاج کی وجہ سے نیند کا پورا نہ ہونا۔ یاد رہے کہ خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کو زیادہ اور بہتر خوراک کی۔
مزید خواتین کو ڈائٹنگ کا شوق بھی ڈیپریشن کا مریض بنا سکتا ہے ایک تو کم خوراکی کی وجہ سے اور دوسرا ڈائٹنگ کے نتیجے میں چہرے سے رونق کے رخصت ہو جانے کی وجہ سے۔
2- حسد بھی ایک وجہ ہوسکتا ہے جس سے بدگمانیوں کو تقویت ملے۔ حسد کی وجہ سے ہم (مرد اور عورت دونوں) خوامخواہ کسی سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور جب کسی سے نفرت کرنے لگتے ہیں محسود کے بارے میں معلوم ہونے والی کسی بھی منفی بات پر آسانی سے یقین کر لیتے ہیں۔
3- خود کو زیادہ عقلمند سمجھنے کی عادت بھی بغیر تحقیق کے محض گمان یا وہم کی بنیاد پر ہمیں غیر حقیقی منفی بات پر یقین کرنے پر اکساتی ہے اور رشتوں میں دراڑ ڈالنے کا سبب بن سکتی ہے۔
 
ایک اور حقیقی کیس یاد آگیا۔
ایک شادی شدہ مرد ہے جسے وہم کی بیماری ہے۔
اس کے ساتھ ہوتا یہ ہے کہ وہ کسی کے بھی بارے میں کوئی خیالی منفی رائے قائم کر لیتا ہے اور اس پر سختی سے یقین کر لیتا ہے اگر کوئی اسے سمجھانے کی کوشش کرے تو اس کی بات نہیں مانتا اور بحث برائے بحث کرتا ہے بلکہ اسے اپنا مخالف سمجھتا ہے۔ اس کی وہم کی عادت کی وجہ سے اپنی بیوی سے بھی تعلقات خراب ہیں بلکہ مزید خطرے میں آچکے تھے۔ بیوی پر بلا وجہ شک کرنے کی وجہ سے۔
اس کے نفسیاتی مرض کی وجہ سے جب ڈاکٹر سے رجوع کیا گیا تو ڈاکٹر نے اسے ڈیپریشن کی دوا دی۔ اس دوا سے اس کی حالت کچھ بہتر ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
کمیونیکیشن گیپ سو طرح کی غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے۔ آپ ایک دوست کو آنے کا کہتے ہیں پھرکسی وجہ سے نہیں جا سکتےایسا بہت دفعہ ہو سکتا ہے۔ لیکن آپ بروقت آگاہ نہ کر کے اُسے انتظار کی کوفت میں مُبتلا رکھیں یہ غلط ہے اور بدترین صورتِ حال یہ ہے کہ بعد میں ملنے پر دوست آپ کو اِس پر آڑے ہاتھوں لینے کی بجائے خاموش رہے اور بات کو دِل میں سُلگتا رکھے۔ تعلقات میں خرابی عموما" ایک دوسرے سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے اور پھراِن کے پورا نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔
 

نظام الدین

محفلین
میرا خیال ہے کہ شک ایسی بیماری ہے جو انسانی ذہن میں بڑی مضبوطی سے جڑ پکڑ لیتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ یقین میں تبدیل ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ لہٰذا جب یقین کی کیفیت طاری ہوجائے تو پھر سوالات کے جوابات پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔۔۔۔
 

شزہ مغل

محفلین
میں اپنا ذاتی مشاہدہ عرض کر سکتا ہوں۔

1- خواتین میں خود ہی کسی معاملے میں کسی سے بدگمان ہوجانے کی بڑی وجہ ان میں عام طور پر پایا جانے والا ڈیپریشن کا مرض ہوتا ہے۔ اور ڈیپریشن کی ایک اہم وجہ ان کی صحت کا ٹھیک نہ ہونا اور صحت کے مسائل کی ایک بڑی وجہ اپنی خوراک کی طرف توجہ نہ دینا ہے۔ اس کے علاوہ گھر کے کام کاج کی وجہ سے نیند کا پورا نہ ہونا۔ یاد رہے کہ خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کو زیادہ اور بہتر خوراک کی۔
مزید خواتین کو ڈائٹنگ کا شوق بھی ڈیپریشن کا مریض بنا سکتا ہے ایک تو کم خوراکی کی وجہ سے اور دوسرا ڈائٹنگ کے نتیجے میں چہرے سے رونق کے رخصت ہو جانے کی وجہ سے۔
2- حسد بھی ایک وجہ ہوسکتا ہے جس سے بدگمانیوں کو تقویت ملے۔ حسد کی وجہ سے ہم (مرد اور عورت دونوں) خوامخواہ کسی سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور جب کسی سے نفرت کرنے لگتے ہیں محسود کے بارے میں معلوم ہونے والی کسی بھی منفی بات پر آسانی سے یقین کر لیتے ہیں۔
3- خود کو زیادہ عقلمند سمجھنے کی عادت بھی بغیر تحقیق کے محض گمان یا وہم کی بنیاد پر ہمیں غیر حقیقی منفی بات پر یقین کرنے پر اکساتی ہے اور رشتوں میں دراڑ ڈالنے کا سبب بن سکتی ہے۔
اتفاق کرتی ہوں کہ خواتین زیادہ وہمی ہوتی ہیں۔
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس کی ایک وجہ خواتین کی گھر سے باہر کی دنیا سے لاتعلقی بھی ہے؟؟
 

شزہ مغل

محفلین
ایک اور حقیقی کیس یاد آگیا۔
ایک شادی شدہ مرد ہے جسے وہم کی بیماری ہے۔
اس کے ساتھ ہوتا یہ ہے کہ وہ کسی کے بھی بارے میں کوئی خیالی منفی رائے قائم کر لیتا ہے اور اس پر سختی سے یقین کر لیتا ہے اگر کوئی اسے سمجھانے کی کوشش کرے تو اس کی بات نہیں مانتا اور بحث برائے بحث کرتا ہے بلکہ اسے اپنا مخالف سمجھتا ہے۔ اس کی وہم کی عادت کی وجہ سے اپنی بیوی سے بھی تعلقات خراب ہیں بلکہ مزید خطرے میں آچکے تھے۔ بیوی پر بلا وجہ شک کرنے کی وجہ سے۔
اس کے نفسیاتی مرض کی وجہ سے جب ڈاکٹر سے رجوع کیا گیا تو ڈاکٹر نے اسے ڈیپریشن کی دوا دی۔ اس دوا سے اس کی حالت کچھ بہتر ہے۔
آپ نے تو وہ کیس بتایا جس کا حل نکال لیا گیا ہے۔ مگر بےشمار ایسے کیسز ہیں جن کی وجہ نہ کوئی جان پایا ہے اور نہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور نتیجہ وہی نکلتا ہے جو محترم نظام الدین صاحب نے فرمایا
میرا خیال ہے کہ شک ایسی بیماری ہے جو انسانی ذہن میں بڑی مضبوطی سے جڑ پکڑ لیتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ یقین میں تبدیل ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ لہٰذا جب یقین کی کیفیت طاری ہوجائے تو پھر سوالات کے جوابات پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔۔۔۔
 

شزہ مغل

محفلین
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے توجہ دی جائے۔ اور یہ ہر انسان کا حق بھی ہے۔ جب کسی کی حق تلفی کی جاتی ہے تو وہ وہم و گمان سے دوستی کر لیتا ہے۔ کبھی کبھی ان غلط خیالات سے اسے وقتی تسکین بھی ملتی ہے۔ مگر دور رس نتائج تو ادھوری اور منفی شخصیت کی صورت میں ہی منظرعام پر آتے ہیں
 

شزہ مغل

محفلین
میں اپنا ذاتی مشاہدہ عرض کر سکتا ہوں۔

1- خواتین میں خود ہی کسی معاملے میں کسی سے بدگمان ہوجانے کی بڑی وجہ ان میں عام طور پر پایا جانے والا ڈیپریشن کا مرض ہوتا ہے۔ اور ڈیپریشن کی ایک اہم وجہ ان کی صحت کا ٹھیک نہ ہونا اور صحت کے مسائل کی ایک بڑی وجہ اپنی خوراک کی طرف توجہ نہ دینا ہے۔ اس کے علاوہ گھر کے کام کاج کی وجہ سے نیند کا پورا نہ ہونا۔ یاد رہے کہ خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کو زیادہ اور بہتر خوراک کی۔
مزید خواتین کو ڈائٹنگ کا شوق بھی ڈیپریشن کا مریض بنا سکتا ہے ایک تو کم خوراکی کی وجہ سے اور دوسرا ڈائٹنگ کے نتیجے میں چہرے سے رونق کے رخصت ہو جانے کی وجہ سے۔
2- حسد بھی ایک وجہ ہوسکتا ہے جس سے بدگمانیوں کو تقویت ملے۔ حسد کی وجہ سے ہم (مرد اور عورت دونوں) خوامخواہ کسی سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور جب کسی سے نفرت کرنے لگتے ہیں محسود کے بارے میں معلوم ہونے والی کسی بھی منفی بات پر آسانی سے یقین کر لیتے ہیں۔
3- خود کو زیادہ عقلمند سمجھنے کی عادت بھی بغیر تحقیق کے محض گمان یا وہم کی بنیاد پر ہمیں غیر حقیقی منفی بات پر یقین کرنے پر اکساتی ہے اور رشتوں میں دراڑ ڈالنے کا سبب بن سکتی ہے۔
حسد واقعی بہت بری بیماری ہے۔ دیمک کی طرح مثبت جذبات کو خاموشی سے چاٹ لیتی ہے اور انسان مثل مورت تکتا ہی رہ جاتا ہے۔
 

شزہ مغل

محفلین
خود کو زیادہ عقلمند سمجھنے کی عادت بھی بغیر تحقیق کے محض گمان یا وہم کی بنیاد پر ہمیں غیر حقیقی منفی بات پر یقین کرنے پر اکساتی ہے اور رشتوں میں دراڑ ڈالنے کا سبب بن سکتی ہے۔
اچھا نقطہ اٹھایا۔
جبھی تو مجھے خود پرستی و خود نمائی پسند نہیں
 

شزہ مغل

محفلین
کمیونیکیشن گیپ سو طرح کی غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے۔ آپ ایک دوست کو آنے کا کہتے ہیں پھرکسی وجہ سے نہیں جا سکتےایسا بہت دفعہ ہو سکتا ہے۔ لیکن آپ بروقت آگاہ نہ کر کے اُسے انتظار کی کوفت میں مُبتلا رکھیں یہ غلط ہے اور بدترین صورتِ حال یہ ہے کہ بعد میں ملنے پر دوست آپ کو اِس پر آڑے ہاتھوں لینے کی بجائے خاموش رہے اور بات کو دِل میں سُلگتا رکھے۔ تعلقات میں خرابی عموما" ایک دوسرے سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے اور پھراِن کے پورا نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔
امیدوں کی بات خوب کہی۔
واقعی
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
یہ ٹھیک بات ہے کہ عورتیں زیادہ وہمی ہوتی ہیں، مگر مرد بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں ہوتے۔ عورتوں کے زیادہ وہمی ہونے ایک وجہ جو مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ بھی ہو سکتی کہ مرد ہمیشہ سے اپنے آپ کو برتر سمھتے ہیں اور زندگی کے بہت سارے معاملات میں عورتوں کو گھاس بھی نہیں ڈالتے ، جس سے احساس کمتری بھی پیدا ہوتا ہےاور جب انسان احساس کمتری کا شکار ہو جائے تو ڈپریشن کا مریض ہو جانا بڑی عام سی بات ہے ۔ جیسے کہ لیئق بھائی نے کہا کہ ڈپریشن بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتا ہے ۔۔
عورت ہو یا مرد جب وہ اپنے معاملات کو ایک دوسرے سے ڈسکس نہیں کرتے تو وہم کا شکار ضرور ہوتے ہیں ، تعلق کی مضبوطی کی بنیاد یہی ہے کہ آپ کے شریک حیات کو آپ کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کا علم ہو چاہے وہ مرد ہو یا عورت،
عورتیں بہت ساری باتیں چھپا لیتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مرد وہ باتیں سننے کے بعد بھڑک اٹھتے ہیں اور اگر وہی باتیں انہیں کسی اور سے پتا چل جائیں تو اس کا نتیجہ وہم ہی نکلتا ہیے۔
اور مرد بہت ساری باتیں اس لیے نہیں بتاتے کہ وہ بتانا ضروری ہی نہیں سمجھتے۔۔۔
باہمی تعلقات میں اعتماد بہت ضروری ہے اور کرنا بھی چاہیے کہ جب آپ نے کسی کو شریک سفر بنا لیا تو اس سفر میں آنے والے ہر رستے اور ہر موڑ کے بارے میں دوسرے کو آگاہ کرنا آپ کا فرض ہے اور جاننا دوسرے کا حق۔۔۔۔
 
درحقیت وہم کی وجہ شیطانی وسوسات ہیں
وہ لوگ جو پاک صاف نہیں رہتے اور گناہ میں مبتلا رہتے ہیں اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ وہم کا شکار ہوں کیونکہ شیطان کے لیے وسوسے ڈالنے اسان ہوجاتا ہے۔ شیطانی وسوسات کو اک طرح سے پمپ کرتا رہتا ہے۔ انسانی ذہن ان وسوسات کو پروسیس کرکے وہم کا شکار ہوجاتا ہے۔
یہ مرد و خواتین میں تفریق نہیں بلکہ ناپاکی میں رہنا یا ذکرِاللہ سے پرہیز کی وجہ سے ہوتاہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
1۔سب سے بڑی بات ہے '' فاصلہ '' رشتوں میں فاصلہ آج کل کے مشینی دور نے بڑھا دیا ہے ۔ ٹیکنالوجی ۔۔۔ایک طرف گھر کے ہال میں بیٹھے سب حاضرین آپسی گفتگو کے بجائے موبائلز یا ٹی وی میں مصروف ہوتے ہیں ÷آپس میں جب تک بات چیت نہیں ہوں گے ۔ وہاں گمان کا راستہ '' خلا'' منفی سوچوں سے بھردیتا ہے جس سے مضبوط رشتوں میں ڈراڑیں پڑجاتی ہیں ÷

2۔دوسری بات ہمارا تعصب ہوتا ہے ۔تعصب ہمیں باہمی مشاورت سے دور رکھ کر نفرت کی طرف لے جاتا ہے

3۔تیسری چیز۔۔۔۔آج کل کے زمانے میں پرائمری رشتے کھو چکے ہیں ۔۔جب ہم پرائمری سے سیکنڈری کی طرف آتے ہیں یا پئیر گروپس کی طرف ہمارا دھیان والدین سے بٹ کر اب اساتذہ اور کلاس فیلو میں ہوجاتا ہے ۔۔۔ اب جب یہی لوگ گاؤں سے شہر یا شہر سے میٹرو پولیٹن یا دوسرے ممالک جاتے ہیں تو ان کو ٹریشری رشتے ملتے ہیں ۔۔۔ سو یہ رشتے کاروباری ہوتے ہیں کچھ پروفشنلز ہوتے ہیں ۔اس طرح رشتوں کی ری پلیسمنٹ نے '' گمانوں ؛'' کو جگہ دی ہے

4۔چوتھا :۔۔۔۔۔۔ ایک بڑے سیاسی لیڈر کی اہمیت ختم ہو کر خاندانوں کا جوائینٹ سے نیوٹرل ہونا۔۔۔ اس سے سوشل پریشر ختم ہوتا ہے اور دوریاں بڑھتی ہے جو کہ کلچرل تبدیلی کا باعث بنتی ہے

میرا خیال ہے یہ کافی ہی ہیں ۔۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک پر بہت مفصل لکھا جا سکتا ہے
 

شزہ مغل

محفلین
یہ ٹھیک بات ہے کہ عورتیں زیادہ وہمی ہوتی ہیں، مگر مرد بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں ہوتے۔ عورتوں کے زیادہ وہمی ہونے ایک وجہ جو مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ بھی ہو سکتی کہ مرد ہمیشہ سے اپنے آپ کو برتر سمھتے ہیں اور زندگی کے بہت سارے معاملات میں عورتوں کو گھاس بھی نہیں ڈالتے ، جس سے احساس کمتری بھی پیدا ہوتا ہےاور جب انسان احساس کمتری کا شکار ہو جائے تو ڈپریشن کا مریض ہو جانا بڑی عام سی بات ہے ۔ جیسے کہ لیئق بھائی نے کہا کہ ڈپریشن بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتا ہے ۔۔
عورت ہو یا مرد جب وہ اپنے معاملات کو ایک دوسرے سے ڈسکس نہیں کرتے تو وہم کا شکار ضرور ہوتے ہیں ، تعلق کی مضبوطی کی بنیاد یہی ہے کہ آپ کے شریک حیات کو آپ کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کا علم ہو چاہے وہ مرد ہو یا عورت،
عورتیں بہت ساری باتیں چھپا لیتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مرد وہ باتیں سننے کے بعد بھڑک اٹھتے ہیں اور اگر وہی باتیں انہیں کسی اور سے پتا چل جائیں تو اس کا نتیجہ وہم ہی نکلتا ہیے۔
اور مرد بہت ساری باتیں اس لیے نہیں بتاتے کہ وہ بتانا ضروری ہی نہیں سمجھتے۔۔۔
باہمی تعلقات میں اعتماد بہت ضروری ہے اور کرنا بھی چاہیے کہ جب آپ نے کسی کو شریک سفر بنا لیا تو اس سفر میں آنے والے ہر رستے اور ہر موڑ کے بارے میں دوسرے کو آگاہ کرنا آپ کا فرض ہے اور جاننا دوسرے کا حق۔۔۔۔
ایک دوسرے پر اعتماد تو ہر رشتے میں ازحد ضروری ہوتا ہے۔ چاہے قدرت کے بنائے رشتے ہوں یا انسان کے اپنے۔
ہاں مگر انسان کے اپنے بنائے رشتوں میں اعتماد زیادہ ضروری ہوتا ہے۔
میاں بیوی میں ضروری اس لیے بھی ہے کہ ان دونوں نے ایک خاندان بنانا ہوتا ہے۔ ماں باپ کے فرائض بھی پورے کرنے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کے ساتھ تعلقات بھی نبھانے ہوتے ہیں۔
 

شزہ مغل

محفلین
درحقیت وہم کی وجہ شیطانی وسوسات ہیں
وہ لوگ جو پاک صاف نہیں رہتے اور گناہ میں مبتلا رہتے ہیں اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ وہم کا شکار ہوں کیونکہ شیطان کے لیے وسوسے ڈالنے اسان ہوجاتا ہے۔ شیطانی وسوسات کو اک طرح سے پمپ کرتا رہتا ہے۔ انسانی ذہن ان وسوسات کو پروسیس کرکے وہم کا شکار ہوجاتا ہے۔
یہ مرد و خواتین میں تفریق نہیں بلکہ ناپاکی میں رہنا یا ذکرِاللہ سے پرہیز کی وجہ سے ہوتاہے۔
جی۔
مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہم انسانی فطرت میں شامل ہے
 
Top