سخنورانِ محفل کے شعری فن پارے۔۔۔!

آپ کو یہ دھاگہ کیسا لگا۔۔۔؟


  • Total voters
    62

عظیم

محفلین
آپ شاعری اچھی کرتے ہیں بس ذرا اس میں فکر و فلسفہ کا تڑکا لگائیے ۔۔۔۔غالب فیل ہو جائیں گے :)

جی ہاں جاتا ہوں صبح لائبریری فلسفہ کی ڈھیر ساری کتابیں اُٹھا کر لاؤں گا ۔ مگر میرے بھائی کا کہنا ہے کہ گدھے پر فلسفے کی کتابیں لاد دینے سے وہ فلاسفر نہیں بن جاتا ۔ ۔
 
جی ہاں جاتا ہوں صبح لائبریری فلسفہ کی ڈھیر ساری کتابیں اُٹھا کر لاؤں گا ۔ مگر میرے بھائی کا کہنا ہے کہ گدھے پر فلسفے کی کتابیں لاد دینے سے وہ فلاسفر نہیں بن جاتا ۔ ۔
قران کی ایک آیت بھی تو ہے اسی طرح ۔۔۔۔ مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا۔۔۔۔
 
قران کی ایک آیت بھی تو ہے اسی طرح ۔۔۔۔ مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا۔۔۔۔
لیجئے پوری آیت بھی مل گئی ۔۔۔۔۔۔
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (سورہ جمعہ 5 )
جن لوگوں (کے سر) پر تورات لدوائی گئی پھر انہوں نے اس (کے بار تعمیل) کو نہ اٹھایا ان کی مثال گدھے کی سی ہے جن پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں۔ جو لوگ خدا کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں ان کی مثال بری ہے۔ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
 

عظیم

محفلین
لیجئے پوری آیت بھی مل گئی ۔۔۔۔۔۔
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (سورہ جمعہ 5 )
جن لوگوں (کے سر) پر تورات لدوائی گئی پھر انہوں نے اس (کے بار تعمیل) کو نہ اٹھایا ان کی مثال گدھے کی سی ہے جن پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں۔ جو لوگ خدا کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں ان کی مثال بری ہے۔ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا

بہت شکریہ بھائی ۔
 

گل زیب انجم

محفلین
شQUOTE="متلاشی, post: 1228603, member: 5103"]سو سب سے پہلے اپنی سب سے بہترین کاوش(بزعمِ خود) پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔۔۔! آپ کی آراء و تبصرہ جات کا شدت سے انتظار رہے گا۔۔۔!
دُعا
الٰہی مجھ کو تو ذوقِ مسیحائی عطا کر دے
جنوں کو تو مرے، مولا شکیبائی عطا کر دے

بنوں رہبر دکھاؤں راہ میں گمراہ لوگوں کو
مجھے وہ معرفت ، ایماں، وہ مولائی عطاکردے

مری بے نام منزل کو نشانِ راہ دے دے تو
مجھے تو ذات سے اپنی شناسائی عطا کر دے

الٰہی سوچ سے میری ،ہو روشن اک جہانِ نو
تخیل کو مرے تو ایسی گہرائی عطا کردے

نگہ میری اٹھے جس سمت دنیا ہی بدل جائے
مری بے نور آنکھوں کو ،وہ بینائی عطا کر دے

معطر روح ہو جس سے ، مسخر قلب ہو جس سے
زبان و نطق کو یارب ،وہ گویائی عطا کردے

زَمن جس سے منور ہو، چمن جس سے معطر ہو
مرے کردار کو مولا، وہ رعنائی عطا کر دے

خیالوں کو ملے تصویر اور تعبیر خوابوں کو
مرے وجدان کو یارب، وہ دانائی عطا کر دے

اگر چہ عجز سے ہوں میں تہی دامن ، کرم سے تُو
مرے بے ربط جملوں کو پذیرائی عطا کردے

ترے در پر ندامت سے ،جھکی ہے پھر جبیں میری
تمنائے حزیں کو اب، تو شنوائی عطا کر دے

ترا ہی نام ہو لب پر ، نہ ہو پھر دوسرا کوئی
نصرؔ کو اب تو وہ خلوت، وہ تنہائی عطا کردے



محمد ذیشان نصر
اپریل 2012
[/QUOTE]
ماشاء اللہ بہت خوب
 

گل زیب انجم

محفلین
پروفیسر انوار حسین چشتی
کی یاد میں

داغ مفارقت سے سینہ پاش پاش ہے میرا
کرنا پھر بھی مجھے غموں کا اظہار نہیں آتا

مسلماں ہوں عقیدہ کُل نفسً ذائقۃالموت ہے میرا
جانے پھر کیوں تیری موت کا اعتبار نہیں آتا

نوحہ تیرا خوں سے لکھوں یا لکھوں سیائی سے
کسی صورت بھی میرے دل کو قرار نہیں آتا

بہا کر بحر اشک آنکھوں نے کچھ تو تسکین پا لی
کروں کیا دل کا دل کو صبر و قرار نہں آتا

میں تیرا ہر اک انداز چرا بھی لیتا مگر پھر بھی
تجھ سا تو ، مجھے سلیقہ گفتار نہیں آتا

کل کی طرح آج بھی تکتی ہے ماں راہگذر تیری
کہے کسے بسم اللہ کوئی تجھ سا سائیکل سوار نہیں آتا

بات کوئی تو تجھ میں منفرد تھی نرالی تھی
ورنہ یونہی کسی کو کسی پہ پیار نہیں آتا

پوچھا گیا جب تیرے مکتب کے اک طالب علم سے
کہنے لگا سبھی آتے ہیں مگر ڈھیری کا شہسوار نہیں آتا

منعقد آج بھی ہو رہی ہیں ہر سو محفلیں بہت
مگر اُن میں کوئی تجھ سا ہروفیسر انوار نہیں آتا
 
پہلے سوچا تھا کہ اردو غزل اور نظم کو ایک ہی کتاب میں جمع کیا جائے، تب اس کا نام ’’حرفِ اَلِف‘‘ سوچا تھا۔
وہی نظم پیش ہے۔
محمد یعقوب آسی ۔ 13۔ اگست 1986ء

استاذِ گرامی نظم بہت پسند آئی خصوصا یہ حصہ
مرے لفظوں کی حرمت کے خریداروں میں شامل ہے
صدائے نغمہ ریز
ان بچیوں کی، جو یہ کہتی تھیں:
’’وہ دیکھو!
پار اُن ٹیلوں کے ہوتا ہے طلوعِ بدر
تم سارے دعا مانگو!
خدا کا شکر واجب ہے‘‘
وہ کہتی تھیں کہ ’’ہم ہیں
بیٹیاں نجار کے کنبے کی
باعث ہے مسرت کا
کہ انسانوں کا محسن
آدمیت کے تقدس کا پیمبر
ہو گا، ہمسایہ ہمارا،
تم دعا مانگو!‘‘
پیامِ انبساط و سرخوشی تھا
اہلِ یثرب کے لئے یہ گیت
جو، اَب ہے
مری عزت کا باعث
اور میرے حرف سارے
اس حبیبِ کبریا کے بابِ عزت پر
کھڑے ہیں
دست بستہ، بے زباں، بے جرأتِ اظہار
لرزاں!
کوئی گستاخی نہ ہو جائے!

کہ بقولِ اقبال بھی
خیمہِ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
 

گل زیب انجم

محفلین
نظم

جب سے
گنگنانا چهوڑی ہے
غزل تیری
تب سے
یہ سر اپنی
بےسرور لگتی ہے

ملنا
ہوا ہے محال
جب سے
کر لی بلند اس نے
فصیل اپنی
دید کی مشتاق
آنکھوں کی بنیائی
مجبور لگتی ہے

جہاز
ریل کار اور کاریں
سب کچھ تو ماجود
مقدر کے در پہ
بنی منزل
بہت
دور لگتی ہے

بالشت بهر کا سفر
عمر بهر
ہم سے طے
ہو نہ پایا
اس کے شکوے لبوں تک ہی رہے
مگر
گلہ میں بھی اس سے
کر نہ بایا
کہ
میری ہی زندگی
میری قسمت کی طرح
بہت
مجبور لگتی ہے
 
"بہترین غزل" تو دور کی بات ہے ، اپنے کسی مجموعۂ اشعار کو "غزل" کا نام دینا بھی مناسب نہیں گلتا ، بس ہیئت کے لحاظ سے نظم وغیرہ سے فرق کرنے کے لیے اپنے جن مجموعوں کو اب تک "غزل" کا نام دیا ہے ان میں سے ایک مجموعہ پیش ہے:

بے کیف ہے یہ تبصرے کرنا پیے بغیر
ممکن نہیں زباں کا نکھرنا پیے بغیر

کیا بے مزہ سفر ہے یہ کوہِ حیات کا
چڑھنا پیے بغیر ، اترنا پیے بغیر

زہریلا جام تھام کے سوچے ہے تشنہ کام
اچھا ہے پی کے مرنا کہ مرنا پیے بغیر

ہم کر رہے ہیں تھوک نگل کر گزارہ جو
مشکل ہے مے کدے سے گزرنا پیے بغیر

ساقی ہمارے دیس کے کیا قیس ہوگئے
دو بھر ہے دو پیالے جو بھرنا پیے بغیر

ٹکتی نہیں ہے روئے بنا آبشار بھی
بھرتا نہیں ہے بھائیو! جھرنا پیے بغیر

فتویٰ کچھ اور لکھتا اسامہ! ترا قلم
ہوتا اگر نہ تیرا مکرنا پیے بغیر​
 
غزلِ
واصفؔ علی واصف
ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت
سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صورت
جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سِوا کیا ترے دیدار کی صورت
پہچان لیا تجھ کو تری شیشہ گری سے
آتی ہے نظر فن سے ہی فنکار کی صورت
اشکوں نے بیاں کرہی دِیا رازِ تمنّا
ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت
اس خاک میں پوشیدہ ہیں ہر رنگ کے خاکے
مٹی سے نکلتے ہیں جو گلزار کی صورت
دل ہاتھ پہ رکھا ہے، کوئی ہے جو خریدے
دیکھوں تو ذرا میں بھی خریدار کی صورت
صورت مری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت
واصفؔ کو سرِ دار پکارا ہے کسی نے
انکار کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت
 
وہ دل ہی کیا جو تیرے ملنے کی دعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کر زندہ رہوں خدا نہ کرے
رہے گا ساتھ تیرا، پیار زندگی بن کر
یہ اور بات ہے زندگی میری وفا نہ کرے
یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے
اگر وفا پر بھروسہ رہے نہ دنیا کو
تو کوئی شخص محبت کا حوصلہ نہ کرے
سنا ہے محبت اس کو دعائیں دیتی ہیں
جو دل پہ چوٹ کھائے مگر گلہ نہ کرے
بجھا دیا نصیبوں نے میرے پیار کا چاند
کوئی دیا میری پلکوں پہ اب جلا نہ کرے
زمانہ دیکھ چکا ہے پرکھ چکا ہے اسے
قتیل جان سے جائے یہ التجا نہ کرے
قتیل شفائی
 
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
سمجھو وہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھر نہیں گرتا
اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے
اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا
انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا
حیراں ہے کوئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا
اس بندہء خوددار پہ نبیوں کا ہے سایا
جو بھوک میں بھی لقمہء تر پر نہیں گرتا
کرنا ہے جو سر معرکہِ زیست تو سُن لے
بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا
قائم ہے قتیل اب یہ میرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا
 
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو ان کا طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں
شاعر: ساغرؔ صدیقی
 
Top