کراچی کی رونق ۔۔۔۔ از س ن مخمور

loneliness4ever

محفلین
کراچی کی رونق
(مرکزی خیال ماخوذ)
س ن مخمور

ڈاکٹر نے ہم سے فیس لیتے ہوئے ہم کو مشورہ دیا کہ ہم اُس کے کلینک جوکہ فیڈرل بی ایریا میں بد قسمتی سے واقع تھا، وہاں سےصدر ،صدر سے اردو بازار پھر وہاں سے کیماڑی اور پھر کیماڑی سے سے ناظم آباد او ر ناظم آباد سے بفرزون اور پھر بفرزون سے واپس اپنے گھر یعنی فیڈرل بی ایریا تشریف لے آئیں اور کل شام میں آ کر ڈاکٹر صاحب طبیعت کی ناسازی اور بد ہضمی کے بارے میں آگاہ کریں۔ہم حیران، پریشان اپنا چھوٹا سا منہ کھولے ڈاکٹر صاحب کو ایسے تک رہے تھے جیسے وہ ڈاکٹر نہ ہوئے مونا لیزا کی تصویر ہوئے۔اسی طرح کچھ دیر ہم اپنا قیمتی وقت برباد کرتے رہے پھر ہمیں خیا ل آیا کہ اپنا چھوٹا سا منہ بندکر لیں کہ کہیں کوئی بن بلایا مہمان اندر تشریف نہ لے آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے ہماری جانب دیکھا اور فرمایا

’’ اور ہاں مغموم صاحب یہ سارا سفر آپ بس سے کیجئے گا ‘‘

ہم نے ڈاکٹر صاحب کی یہ بات سنی اور گرد ن کی ورزش کرتے ہوئے ان کے کمرے سے اس اندازسے باہر نکلے جیسے سوتے میں چل رہے ہوں۔باہر آکے کاونٹر کی دوسری جانب دیکھا تو ڈاکٹر صاحب کے کمپائونڈر اپنے کام میں مصروف نظر آئے۔ہم نے اک نظر اُن پر ڈالی تو یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کمپائونڈر صاحب اپنی بڑی تھوند کے ساتھ کس مستعدی اور تیزی سے کام کر رہے ہیں۔اُ ن کی قابلِ رشک اور قابلِ تشویش صحت کو دیکھ کر ہمیں اپنا آپ لمبے بانس کی مانند محسوس ہونے لگا جس پر کسی دھوبی نے سفید کُرتا شلوار دُھونے کے بعد سُکھانے کے لئے لٹکا دیا ہو۔ہم نے سوچا کہ کمپائونڈر صاحب سے اُن کی صحت کا راز معلوم کیا جائے۔اپنے اس ارادے کے ہاتھوں مجبور ہو کرہم کاونٹرپر اس طرح جا پہنچے جیسے کسی جج کے سامنے ہماری پیشی ہو۔کاونٹر پر پہنچ کر ہم نے اپنا مداح کمپائونڈر صاحب کی گستاخ سماعت کو پیش کیا تو کمپائونڈر صاحب نے ایک بھر پور اور شاید قہر آلود نگاہ ہمارے سراپے پر ڈالی جیسے ہم قربانی کی خاطر فروخت ہونے والے بکرے ہوں۔اور پھر وہ اپنی کالی اورخوفناک مونچھوں پر شفقت سے ہاتھ پھرنے لگے۔اور پھر نہ جانے کس خطا کی سزا اپنی مونچھوں کو دیتے ہوئے یعنی انھیں تائو دیتے ہوئے فرمانے لگے

’’ میں روزانہ بس میں سفر کرتا ہوں‘‘

ہم اُن کی یہ با ت سن کر حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگے۔ہمیں غوطے کھاتے دیکھ کر کمپائونڈر نے پان کے خون سے سجی بتیسی بنا کسی ٹکٹ کے نمائش کے لئے پیش کر دی مجبوراَ ہمیں بھی اپنے خوشنما دانتوں کو بے پردہ کرنا پڑااور کچھ عجیب مگر غریب سے خیالات لے کر ہم کلینک سے باہر آگئے۔ ہمارا ننھا سا ذہن ہمیں کراچی کی بسوں کے فائدے گنوانے لگا۔اور ہم بھی سوچنے لگے کہ اگر غور کیا جائے تو اِن بسوں کے فائدے زیادہ اور نقصانات کم ہیں ۔ روشنیوں سے جگ مگ کرتے دلہن جیسی نگری کی سب سے بڑی رونق تو یہ بسیں ہی ہیں۔ہر گھڑی شراب کی صراحی کی مانند لبالب بھری رہتی ہیں۔ لیکن پھر بھی رندوں یعنی اپنے امیدواروں کو سیراب نہیں کر پاتیں ۔جیسے ہی دور سے کوئی بس آتی دکھائی دیتی ہے لوگوں کا ایک بڑا ہجوم اُس کی جانب یلغار کرتا ہے اور پُرانے وقتوں کی جنگوں کا سا ماحول پیدا ہو جاتا ہے اور اِس یلغار میں آ پ کو اچھی خاصی ورزش کا موقعہ مل جاتا ہے۔اور جب آپ کافی دھکے اور ورزش کر کے بس کے دروازے تک پہنچتے ہیں تو حسب معمول اُسے دلہن کی طرح لدی پھندی پاتے ہیں۔اور آخر جب شامت کے مارے لوگ بس میں داخل ہو جاتے ہیں تو بس کا ماحول اُنھیں آپس میں مل جل کر رہنا سیکھاتا ہے۔ اخوت اور بھائی چارے کا جذبہ بڑھتا ہے۔اور یوں کم سے کم جگہ میں بھی آپ کو رہنے کی عادت ہو سکتی ہے۔ اور جناب یہ بسیں ایک با ر اسٹارٹ ہو جائیں تو ان کی رفتار کا مقابلہ امریکہ کے بلسٹک میزائل بھی نہیں کر پاتے اور ہر لمحہ مسافر کو اپنی موت سامنے نظر آنے لگتی ہے اور وہ اپنے گناہوں پرتوبہ و استغفار کر کے اپنی عاقبت سنوارنے کے متعلق سوچنے لگتا ہے۔اس طرح یہ بسیں اللہ کو بُھولے ہوئےلوگوں کو جھٹکے دے دے کر اللہ اللہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔یوں ڈرائیور حضرات کے نامہ اعمال میں بھی کئی گنا نیکیوں کا اضافہ ہوجاتا ہے۔

بس ڈرائیور آرٹ اور ا دب کی بھی بے لوث خدمت کرتے ہیں اور اکثر آرٹ سے دلچسپی رکھنے والے حضرات نقش و نگار کے نادر نمونے بسوں پر نقش پاتے ہیں۔ادب پسند لوگوں کے ذوق کو مدّنظر رکھتے ہوئے اعلی معیار کے اشعار بھی ڈرائیور حضرات اپنی بسوں پر جگہ جگہ تحریر کرواتے ہیں۔اور جب کبھی تھکی ماندی لڑکیاں بس میں سوار ہوتی ہیں تو ڈرائیور صاحب اُن حسینائوں کی روح کو غذا فراہم کرنے کے لئے بس میں لگا ٹیپ ریکارڈ آن کر دیتے ہیں اور پھر اعلی معیا ر کی موسیقی مسافروں کو سُننے کو ملتی ہے۔یوں ڈرائیور حضرات مہنگائی کے اِس جابر دور میں کراچی کے لوگوں کو سستی تفریح فراہم کرتے ہیں۔ قبرستانوں کی رونق بھی اِن بسوں کے دم سے ہے ۔کبھی ان کو کسی تھانے کی دیوار سے عشق ہوجاتا ہے تو کبھی کسی گھر کی دیوار کو اپنا محبوب بنا لیتی ہیں اور بنا کسی نوٹس کے گلے سے لگ جاتی ہیں۔یوں ڈرائیور حضرات کے نامہ اعمال میں بھی کئی گنا نیکیوں کا اضافہ ہوجاتا ہے۔یہی حال دیکھ کر بعض لوگ تو بسوں میں سفر کرنے سے پہلے ہی اپنا بیمہ کرا لیتے ہیںاور بعض اپنے عزیز و اقارب سے مل کر جاتے ہیں آیا واپسی ممکن بھی ہو کے نہیں اور کبھی تو وصیت بھی لکھوا جاتے ہیں۔اور سچ کہیں توان بسوں ہی کی بدولت بہت سے لوگو ں کا روزگار لگا ہوا ہے ، مثلاَ گورکنوں کا ، ڈاکٹروں کا آئے دن کے حادثات کی جو رونق ان بسوں کے دم سے ہے اس سے ان حضرات کا بڑا بھلا ہوتا ہے۔اور اس کے علاوہ ان بسوں سے بیماروں کو شفا بھی حاصل ہوتی ہے۔اگر کسی کو بد ہضمی کی شکایت ہے، پیٹ میں درد ہو یا بھوک کم لگتی ہو۔تو وہ حضرات ان بسوں میں سفر کریں ۔زندگی رہی تو ان شاء اللہ ایک ہی خوراک سے افاقہ ہو گا ۔بس جناب یہ خیالات آتے ہی ہم صدر جانے کے لئے ’’6‘‘ نمبر کی بس کی جانب دوڑ پڑے۔

س ن مخمور
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
وہ " بس " بس ہی نہیں جو کہ " بس " نہ کروا دے سواری کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوبصورت تحریر
بہت دعائیں
 
زبردست۔
کسی زمانے میں،صرف 3 ماہ کے لیے میں بھی کراچی مقیم رہا ہوں۔ کچھ کچھ تو یاد ہیں لیکن شاید اس وقت یہ سارے سلسلے نہ ہوتے ہوں گے۔
مجھے ان بسوں کی ایک 'خوبی' یاد ہے، کہ چلتی ہوئی بس پر سوار ہونا پڑتا تھا اور چلتی ہوئی بس سے ہی اترنا پڑتا تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اچھا لکھا :)
کراچی میں ایک بار ہی بس پر سواری ہوئی تھی اور وہ بھی کزن کے اصرار پر، کہ اس سے زیادہ خطرناک تماشا وہ نہیں دکھا سکتا :)
 

قیصرانی

لائبریرین
آجکل پی آئی اے کا تماشا زیادہ خطرناک ہے۔
ویسے آج تک سب سے زیادہ خطرناک فلائٹ جو میں نے دیکھی تھی، وہ بیمان ایئرلائن تھی، بنگلہ دیش کی۔۔۔ اس پر سواری کا وقت آیا تو فلائٹ کئی بار ڈیلے ہوئی اور جب روانہ ہوئی تو صرف ایک پائلٹ۔ کاک پٹ کا دروازہ تو کیا اس پر پردہ بھی نہیں لٹکا تھا۔ کافی ساری سیٹیں خالی تھیں (مجھے بتایا گیا تھا کہ بہت رش ہے)۔ جب انجن سٹارٹ ہوئے تو پتہ چلا ان سیٹوں پر اے سی کا پانی لیک ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ بھی کہ اس سے پچھلے دو سالوں میں دو جہاز تباہ بھی ہو چکے تھے :(
 

سید زبیر

محفلین
,بہت۔ خوب ، اب کچھ ذکر ان بسوں کے پائلٹ کا بھی ہو جائے ، کہ صدر سے نکل کر ناظم آباد ، کریم آباد ، عزیز آباد اور گلبرگ میں یہ کس شان سے داخل ہوتے ہیں ۔ اور وہاں سے صدر کے لئے نکلتے ہوئے ان کے انداز کیسے ہوتے ہیں ۔ انتظار رہے گا ۔ خوش رہیں
 

دلاور خان

لائبریرین
اچھا لکھا :)
کراچی میں ایک بار ہی بس پر سواری ہوئی تھی اور وہ بھی کزن کے اصرار پر، کہ اس سے زیادہ خطرناک تماشا وہ نہیں دکھا سکتا :)
کون سی بس تھی
اگر تو 7C پر سفر کیا ہو تو واقعی اس سے زیادہ خطرناک تماشا نہیں ہونا تھا:)
 

سلمان حمید

محفلین
مجھے اپنے ایک کزن کی بات یاد آ گئی۔ میں ننھیال گیا ہوا تھا اور میاں چنوں سے ملتان جانا تھا جو کہ تقیریبًا ڈیڑھ گھنٹے کا سفر ہے۔ کزن نے کہا کہ چیمے پر چلتے ہیں۔ چیمہ بھی نیو خان کی طرح کی بس سروس تھی ان دنوں (شاید اب چلتی ہے کہ نہیں)
میں نے کہا کہ چیمے پر ہی کیوں؟ تو کزن نے ایک یادگار جملہ کہا تھا کہ
"کیونکہ جو لوگ چیمے پر جاتے ہیں وہ اگلے دن اخبار پر آتے ہیں۔"
 
مخمور صاحب گو خمار میں رہتے ہوئے بھی اس پائے کے مضامین نوشت فرماتے ہیں۔ بہت خوب ، بہت مزا آیا،
اس پر مجھے ٹی وی شو سٹوڈیو ڈھائی یاد آیا کہ معین اختر کو اﷲ جنت الفردوس نصیب کرے کراچی کے بس ڈرائیور کا کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے ایسے ہی ’’پرفیکٹ‘‘ انداز میں اس کی نقشہ کشی کی تھی جیسے آج مخمور بھائی نے کی۔ میں داد دیتا ہوں۔
 

loneliness4ever

محفلین
وہ " بس " بس ہی نہیں جو کہ " بس " نہ کروا دے سواری کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوبصورت تحریر
بہت دعائیں


آہا ۔۔۔ نایاب بھائی آداب ۔۔۔۔
کیا کہنے جی ۔۔۔ خوب کہا آپ نے ۔۔۔
آپکی آمد اور پسندیدگی پر ممنون ہوں
اللہ صحت و تندرستی سے مالا مال رکھے آپکو ۔۔۔۔ آمین
 
Top