عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
عشق میں نام کر گیا ہُوں مَیں
آج حد سے گُزر گیا ہُوں مَیں

کُچھ نہ تیرے سوا نظر آیا
اس جہاں میں جدھر گیا ہُوں مَیں

کب سُلجھتے ہیں مُجھ سے اُلجھائے
تُم نے دیکھا سُدھر گیا ہُوں مَیں

دیکھتا ہُوں مَیں اپنی صورت اور
دیکھ تُجھ میں اُتر گیا ہُوں مَیں

پوچھتا پھر رہا ہوں دُنیا سے
کُچھ بتاؤ کدھر گیا ہُوں مَیں

میری قسمت کی چال بگڑی تو
اس کے بدلے سنور گیا ہُوں مَیں

آہ کوئی تو مُجھ کو دفنا دو
وہ بهی کہتے ہیں مر گیا ہُوں مَیں

چُھپ کے بیٹھا ہُوں اپنے سائے سے
اپنے ہونے سے ڈر گیا ہُوں مَیں

جو نہیں بس تھا مرے صاحب
کام ایسا ہی کر گیا ہُوں مَیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
یاد اُس کی سمائی رہتی ہے
دِل پہ مستی سی چھائی رہتی ہے

ہم نے دُنیا اگر کما لی ، کیا
آخرت کی کمائی رہتی ہے

دل وہ در ہے جہاں کہیں چھُپ کر
اُس کی ساری خُدائی رہتی ہے

میری آہوں میں کُچھ اثر لائے
ایک ایسی دہائی رہتی ہے

ہر کسی بات پر نہ جانے کیوں
مُجھ سے میری لڑائی رہتی ہے

ہو بَھلائی کا حق ادا صاحب
ایک یہ ہی بَھلائی رہتی ہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اِس سے پہلے کہ گالیاں بک دیں
ہم، زباں کاٹ کر کہیں رکھ دیں

ہم کو دھکا جو دیجئے صاحب
اُن کی چوکھٹ تا اُن کے در تک دیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
یُوں شرمندہ ہم اپنی بات سے ہیں
کہ رنجیدہ خُود اپنی ذات سے ہیں

جنہیں اپنا سمجھتے تھے ، وہ ہم سے
خفا سے دیکھئے کل رات سے ہیں

ہمارا حالِ دِل سمجھو، رقیبو !
نہ واقف ہم خُدا کے سات سے ہیں

تُمہیں ہوں جیت کی خُوشیاں مبارک
کہ ہم خُوش اب ہماری مات سے ہیں

خُود اپنا ہی گریباں چیر ڈالیں
بہت ہی دور تیرے ہات سے ہیں

شبِ ہجراں جو گُزری کیا بتائیں
پہ کیسے درد میں کل رات سے ہیں

انہیں کہئے بهی کیونکر اپنا صاحب
وابستہ ہم جنہی کی ذات سے ہیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
دن گئے وہ کہ آہ بھرتے تھے
جب کسی دہر سے گُزرتے تھے

کیسے کم عقل تھے کہ تُجھ جیسے
بے وفاؤں کی چاہ کرتے تھے

کیا تجھے یاد ہے کہ اک تیرے
دیکھنے کے لئے سنورتے تھے

پھول ہی پھول ہیں نگاہُوں میں
ہم کبھی دشت سے گزرتے تھے

تھے کُچھ ایسے بگڑنے والوں میں
جو ترے واسطے سُدھرتے تھے

خُوب واقف ہیں حرصِ دُنیا سے
روزِ محشر سے ہم بھی ڈرتے تھے

اللہ اللہ وہی ہیں یہ صاحب
جو ہراک بات سے مکرتے تھے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
فکرِ اجر و ثواب رہنے دیں
شیخ صاحب خراب رہنے دیں

ہم کہاں اور کیا مقامِ عشق
جانے دیجئے جناب رہنے دیں

ٹوٹ جاتے ہیں مثلِ آئینہ
دیکھ رکھے ہیں خواب رہنے دیں

ہم مسافر ہیں دشت و صحرا کے
خار دیجئے گلاب رہنے دیں

حُسن والوں سے کیجئے درخواست
کُچھ تو پردہ، حجاب رہنے دیں

اپنی خُوشیوں کا کھولئے دیوان
میرے غم کی کتاب رہنے دیں

عرض کرتے ہیں مدعا صاحب
آپ ایسے جناب رہنے دیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
بُھول کر بھی تجھے بُھول پائیں گے کیا
جو نہیں کر سَکے کر دِکھائیں گے کیا

ایک مدت ہوئی خُود سے بچھڑے ہوئے
اپنی پہچان خُود سے کرائیں گے کیا

آزمائے ہوئے ہیں خُداؤں کے ہم
یہ زمانے ہمیں آزمائیں گے کیا

سوچتے ہیں دل و جان سے ماورا
ہم اب اُس دِلرُبا پر لٹائیں گے کیا

پوچھتے ہیں ہمارے ہی بارے میں آپ
اپنے بارے میں ہم ہی بتائیں گے کیا

حالِ دِل پتھروں سے نہ کہئے عظیم
جانے دیجئے بُتوں کو رُلائیں گے کیا
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل کے بقی اشعار خوب ہیں، لیکن یہ
پھول ہی پھول ہیں نگاہُوں میں
ہم کبھی دشت سے گزرتے تھے

خُوب واقف ہیں حرصِ دُنیا سے
روزِ محشر سے ہم بھی ڈرتے تھے
دو لخت لگتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
بس ان میں ایک آنچ کی کسر محسوس ہوئی
ہم کہاں اور کیا مقامِ عشق
جانے دیجئے جناب رہنے دیں
کہاں مقام عشق کر دو تو بہتر ہو جائے

ٹوٹ جاتے ہیں مثلِ آئینہ
دیکھ رکھے ہیں خواب رہنے دیں
دیکھنے سننے میں تو خوب ہے، سمجھ میں نہیں آ سکا

عرض کرتے ہیں مدعا صاحب
آپ ایسے جناب رہنے دیں
نیانیہ اچھا نہیں، یہاں ردیف کارگر نہیں
 

الف عین

لائبریرین
بُھول کر بھی تجھے بُھول پائیں گے کیا
جو نہیں کر سَکے کر دِکھائیں گے کیا

ایک مدت ہوئی خُود سے بچھڑے ہوئے
اپنی پہچان خُود سے کرائیں گے کیا

آزمائے ہوئے ہیں خُداؤں کے ہم
یہ زمانے ہمیں آزمائیں گے کیا

سوچتے ہیں دل و جان سے ماورا
ہم اب اُس دِلرُبا پر لٹائیں گے کیا

پوچھتے ہیں ہمارے ہی بارے میں آپ
اپنے بارے میں ہم ہی بتائیں گے کیا

حالِ دِل پتھروں سے نہ کہئے عظیم
جانے دیجئے بُتوں کو رُلائیں گے کیا
اچھی غزل ہے۔ کسی کسی شعر میں ردیف میں ’گے‘ نہ ہونے سے بہتر ہو گا۔ لیکن اس صورت میں وہی بحر ہو جائے گی، فاعلاتن مفاعلن فعلن جس میں تمہاری شویا نوے فی صد غزلیں ہوں۔
 

شوکت پرویز

محفلین
کیجئے، دیجئے۔۔۔
اور
کیجے، دیجے۔۔۔
کے (عروضی) فرق کو ملحوظ رکھیں۔
ہم کہاں اور کیا مقامِ عشق
جانے دیجئے جناب رہنے دیں

ہم مسافر ہیں دشت و صحرا کے
خار دیجئے گلاب رہنے دیں
اور
حالِ دِل پتھروں سے نہ کہئے عظیم
جانے دیجئے بُتوں کو رُلائیں گے کیا
ان تینوں مقامات پر "دیجے" کی ضرورت ہے، "دیجئے" کی نہیں :)۔
۔۔۔
ہاں! درج ذیل مقام پر "کیجئے" ہی درست ہے۔
حُسن والوں سے کیجئے درخواست
کُچھ تو پردہ، حجاب رہنے دیں
آپ کا کلام تو خوبصورت ہے ہی (y)، جیسا کہ انکل بھی کہہ چُکے ہیں۔
 

عظیم

محفلین
ہم اپنے درد کے قصے سنائیں
نہ جانے لوگ کیونکر مسکرائیں

جو اتنا یاد پھر سے آ رہے ہو
کہو تو ہم رقیبوں کو بُلائیں

عجب اک مدعا ہے غم تمہارا
خُوشی سے جھوم جائیں، جھوم جائیں

کہاں سے ڈھونڈ کر تُم ہی بتاؤ
ہم اپنے ساتھیوں کا ساتھ لائیں

تمہاری زلف کے محصور ہیں ہم
ہمیں زنداں سے یوسف کیوں ڈرائیں

دکھائی دے رہی ہے اُن کی صورت
خُوشی سے ہم اے یارو مر نہ جائیں

دعا دیجئے عظیم اُن رہبروں کو
جو آپ ایسوں کو سیدھی راہ دِکھائیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
بس ان میں ایک آنچ کی کسر محسوس ہوئی
ہم کہاں اور کیا مقامِ عشق
جانے دیجئے جناب رہنے دیں
کہاں مقام عشق کر دو تو بہتر ہو جائے

ٹوٹ جاتے ہیں مثلِ آئینہ
دیکھ رکھے ہیں خواب رہنے دیں
دیکھنے سننے میں تو خوب ہے، سمجھ میں نہیں آ سکا

عرض کرتے ہیں مدعا صاحب
آپ ایسے جناب رہنے دیں
نیانیہ اچھا نہیں، یہاں ردیف کارگر نہیں


یہ آنچ کی کسریں نکالتے نکالتے اپنے بیٹے کو مت جلا دیجئے گا ، پھر پوچھتے پھریں گے کہ میاں عظیم ہُوا کرتا تھا : )
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کیجئے، دیجئے۔۔۔
اور
کیجے، دیجے۔۔۔
کے (عروضی) فرق کو ملحوظ رکھیں۔

اور

ان تینوں مقامات پر "دیجے" کی ضرورت ہے، "دیجئے" کی نہیں :)۔
۔۔۔
ہاں! درج ذیل مقام پر "کیجئے" ہی درست ہے۔

آپ کا کلام تو خوبصورت ہے ہی (y)، جیسا کہ انکل بھی کہہ چُکے ہیں۔



بہت شکریہ میرے بھائی ۔۔( الف عین ) بابا مجھے '' کیجئے '' دیجئے '' وغیرہ لکھنے میں بھی خوبصورت لگتا ہے اور میرے خیال میں یہ اُس تلفظ کی بھی خُوب وضاحت کرتا ہے جو میری زبان سے ادا ہوتا ہے ۔ آپ کیا فرماتے ہیں ؟
 

عظیم

محفلین
دِن گئے وہ کہ آہ بھرتے تھے
جب کسی دہر سے گزُرتے تھے

کیسے کم عقل تھے کہ تُجھ جیسے
بے وفاؤں کی چاہ کرتے تھے

کیا تُجھے یاد ہے کہ اِک تیرے
دیکھنے کے لئے سنورتے تھے

تھے کُچھ ایسے بگڑنے والوں میں
جو کہ تیرے لئے سُدھرتے تھے

اللہ اللہ وہی ہیں یہ صاحب
جو ہراِک بات سے مُکرتے تھے
 

عظیم

محفلین
فکرِ اجر و ثواب رہنے دیں
شیخ صاحب خراب رہنے دیں

ہم کہاں اور کہاں مقامِ عشق
جانے دیجئے جناب رہنے دیں

ٹُوٹ جاتے ہیں مثلِ آئینہ
دیکھ رکھے ہیں، خواب رہنے دیں

ہم مسافر ہیں دشت و صحرا کے
خار دیجئے گلاب رہنے دیں

حُسن والوں سے کیجئے درخواست
کُچھ تو پردہ، حجاب رہنے دیں

اپنی خُوشیوں کا کھولئے دِیوان
میرے غم کی کتاب رہنے دیں

کُچھ تو فرق آہ اور واہ میں آپ
شیخ صاحب ، جناب رہنے دیں
 
آخری تدوین:
Top