حسان خان

لائبریرین
تار و پودِ عالمِ امکان به هم پیوسته است
عالمی را شاد کرد آن کس که یک دل شاد کرد
(صائب تبریزی)


عالمِ امکاں (کائنات) کے تانے بانے آپس میں پیوست ہیں؛ لہٰذا جس نے کسی ایک دل کو خوش کیا اُس نے پوری دنیا کو خوش کیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مجو درستیِ عهد از جهانِ سست نهاد
که این عجوزه عروسِ هزار داماد است

(حافظ شیرازی)
ناپایدار دنیا سے عہد کی استواری و پختگی مت ڈھونڈو کیونکہ یہ بڑھیا ہزار شوہروں کی دلہن ہے۔ یعنی دنیا نے ہزاروں سے رشتہ جوڑا ہے اور ان کو ختم کیا ہے۔

آنچه جانِ عاشقان از دستِ هجرت می‌کشد
کس ندیده در جهان جز کشتگانِ کربلا

(منسوب به حافظ شیرازی)
عاشقوں کی جان کو تمہارے ہجر کے ہاتھوں جو کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے اُسے دنیا میں شہیدانِ کربلا کے بجز کسی نے نہیں دیکھا ہے۔

معلم، غالباً، امروز درسِ عشق می‌گوید
که در فریاد می‌بینیم طفلان را به مکتب‌ها

(هلالی جغتایی)
آج معلم غالباً عشق کا درس دے رہا ہے کیونکہ ہمیں مکتبوں میں بچے فریاد کرتے نظر آ رہے ہیں۔

لاف زنی که عاشقم، دیدهٔ اشکبار کو؟
سوزشِ جان و دل کجا؟ سینهٔ پرشرار کو؟

(مولانا میر غیاث الدین غیاثی)
تم ڈینگیں تو مار رہے ہو کہ تم عاشق ہو، لیکن ذرا دکھاؤ تو کہ اشکبار آنکھیں، جان و دل کی سوزش، اور پُرشرار سینہ کہاں ہیں؟ (یعنی یہ سب چیزیں ہی تو عشق کی علامات ہیں۔ ان کے بغیر عاشقی کی لاف زنی کیسی؟)

مخند ای نوجوان زنهار بر موی سفیدِ ما
که این برفِ پریشان‌سیر بر هر بام می‌بارد
(صائب تبریزی)

اے نوجوان! ہمارے سفید بالوں پر ہرگز مت ہنسو کیونکہ یہ یہ آوارہ گرد برف ہر چھت پر برستی ہے۔

ما اگر مکتوب ننوشتیم عیبِ ما مکن
در میانِ رازِ مشتاقان قلم نامحرم است

(فیضی دکنی)
اگر ہم نے خط نہیں لکھا تو اس پر ہماری سرزنش مت کرو۔۔۔۔ (ہم نے خط اس لیے نہیں لکھا کیونکہ) عاشقوں کے باہمی رازوں کے درمیان قلم بھی نامحرم ہوتا ہے۔

نخست روز که دیدم رخِ تو دل می‌گفت
اگر رسد خللی خونِ من به گردنِ چشم

(حافظ شیرازی)
میں نے پہلے روز جب تمہارا چہرہ دیکھا تو میرا دل کہتا تھا کہ اگر مجھے (یعنی دل کو) اس دیدار کے نتیجے میں کوئی خلل پہنچا تو میرا خون آنکھ کی گردن پر ہو گا۔

یک شبم آن ماه مهمان بود و زان عمری گذشت
می‌کند کسبِ ضیا مهر از شبستانم هنوز

(امیر علی‌شیر نوایی)
ایک رات وہ چاند (جیسا محبوب) میرا مہمان تھا۔۔۔ یہ واقعہ ہوئے عمر گذر گئی لیکن ابھی تک سورج میرے شبستان سے نور کسب کرتا ہے۔

بسکه در جانِ فگار و چشمِ بیدارم تویی
هر که پیدا می‌شود از دور، پندارم تویی

(مولانا عبدالرحمٰن جامی)
میری زخمی جان اور بیدار آنکھوں میں تم اس قدر (بس گئے) ہو کہ جو کوئی بھی دور سے ظاہر ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ تم ہو۔

امشب به قصهٔ دلِ من گوش می‌کنی
فردا مرا چو قصه فراموش می‌کنی

(هوشنگ ابتهاج)
تم آج رات میرا قصۂ دل تو سن رہے ہو لیکن کل تم مجھے ایک قصے ہی کی طرح فراموش کر دو گے۔

حدیث از مطرب و می گو و راز دهر کمتر جو
که کس نگشود و نگشاید به حکمت این معما را

(حافظ شیرازی)
مطرب و شراب کی باتیں کرو اور زمانے کا راز کمتر تلاش کرو؛ کیونکہ دانائی و حکمت سے نہ کسی نے یہ معما کھولا ہے، اور نہ ہی کبھی کھول پائے گا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
محتسب از سخت جانی نے دلم تنہا شکست
شیشہ را گردن، سبو را دست، خم را پا شکست


سراج الدین خان آرزو

محتسب نے اپنی سنگ دلی اور بے رحمی کی وجہ سے صرف میرا دل ہی نہیں توڑا بلکہ جام کی گردن، سبو کا ہاتھ اور خم کے پاؤں بھی توڑ دیے۔
 

حسان خان

لائبریرین
با دلِ سنگینت آیا هیچ درگیرد شبی
آهِ آتشناک و سوزِ سینهٔ شبگیرِ ما؟

(حافظ شیرازی)
کیا ہماری آہِ آتشیں اور ہمارے نالۂ سحرگاہی کا سوز و گداز کسی شب تمہارے بے رحم دل پر اثر کر پائیں گے؟

تا دلِ دیوانه در زنجیرِ زلفت بسته‌ایم
ای بسا عاقل که شد دیوانهٔ زنجیرِ ما

(خواجوی کرمانی)
جب سے ہم نے اپنے دیوانے دل کو تمہاری زلفوں کی زنجیر میں باندھا ہے، کتنے ہی عاقل ہیں کہ جو ہماری (اِس) زنجیر کے دیوانے ہو گئے ہیں۔

با من آمیزشِ او الفتِ موج است و کنار
روز و شب با من و پیوسته گریزان از من

(ابوطالب کلیم کاشانی)
میرے ساتھ اُس کی ہم نشینی موج اور ساحل کی باہمی الفت کی طرح ہے؛ یعنی وہ روز و شب میرے ساتھ بھی ہے اور مسلسل مجھ سے گریزاں بھی۔۔۔

من و بیداریِ شب‌ها و شب تا روز یا رب‌ها
نبیند هیچ کس در خواب، یا رب، این چنین شب‌ها

(هلالی جغتایی)
میں اور شبوں کی بیداری اور شب سے لے کر روز تک یا رب یا رب [کی فریادیں]۔۔۔ یا رب، کوئی شخص خواب میں [بھی] ایسی شبیں نہ دیکھے۔

سیه‌روزانِ هجران را چه حاصل بی تو از خوبان
که روزِ تیره را خورشید می‌باید، نه کوکب‌ها

(هلالی جغتایی)
فراق کے مارے بدبختوں اور غم زدوں کو تمہارے بغیر دوسرے حسین لوگوں سے کیا حاصل ہو گا؛ تاریک دن کو خورشید کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ستاروں کی۔۔۔

چو ریزم اشک، از دل آهِ دردآلود برخیزد
بلی باران چو بر آتش بریزد، دود برخیزد

(حیدری تبریزی)
جب میں آنسو بہاتا ہوں تو دل سے درد آلود آہ نکلتی ہے؛ بے شک جب آگ پر بارش گرے تو دھواں اٹھتا ہی ہے۔

دلم به پاکیِ دامانِ غنچه می‌لرزد
که بلبلان همه مستند و باغبان تنها

(صائب تبریزی)
میرا دل غنچے کی پاک دامنی کی فکر میں لرز رہا ہے کہ بلبل سب مست ہیں اور باغبان تنہا ہے۔

دلا! هرگز منه از کوی دلبر یک قدم بیرون
که باشد کشتنی صیدی که آید از حرم بیرون

(موالی لاری)
اے دل! کوئے دلبر سے ہرگز ایک قدم بھی باہر نہ نکالنا کیونکہ جو شکار حرم سے باہر آ جائے اُس کا خون حلال ہو جاتا ہے۔
شریعتِ اسلامی کے مطابق جب تک جانور حرمِ کعبہ کی حدود میں رہتا ہے، اُس کا شکار کرنا ممنوع ہوتا ہے۔ اس شعر میں اسی جانب اشارہ ہے۔

آدمی گر خون بگرید از گرانباری رواست
کآنچه نتوانست بردن آسمان، بر دوشِ اوست

(صائب تبریزی)
اگر انساں گراں باری (یعنی بوجھ سے لدے ہوئے ہونے) کی وجہ سے خون روئے تو یہ روا ہے کیونکہ جو بوجھ آسمان نہیں اٹھا سکا تھا وہ اس کے کندھوں پر ہے۔

آدمی در عالمِ خاکی نمی‌آید به دست
عالمی دیگر بباید ساخت، وز نو آدمی

(حافظ شیرازی)
اس دنیائے خاکی میں کوئی (حقیقی) انسان دستیاب نہیں ہوتا۔ لازم ہے کہ اب کوئی دوسرا جہاں بنایا جائے اور کوئی تازہ انسان دوبارہ پیدا کیا جائے۔

یک دست جامِ باده و یک دست جعدِ یار
رقصی چنین میانهٔ میدانم آرزوست

(مولانا جلال الدین رومی)
ایک دست میں جامِ بادہ اور ایک دست میں یار کی پیچ و تاب کھائی زلف۔۔۔ مجھے میدان کے درمیان اس طرح کے بے خودانہ رقص کی آرزو ہے۔

تو بندگی چو گدایان به شرطِ مزد مکن
که دوست خود روشِ بنده پروری داند

(حافظ شیرازی)
تم گداؤں کی طرح اجر و پاداش کی خاطر بندگی مت کرو؛ کیونکہ دوست خود ہی بندہ نوازی کی رسم و راہ سے بخوبی آگاہ ہے۔

مرا افسوس می‌آید که تیرت می‌خورد دشمن
من آخر دوستم، جانا، دلم خوش کن به پیکانی

(امیر خسرو)
مجھے اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ تمہارا تیر دشمن کو نصیب ہوتا ہے۔ اے جان، میں آخر تمہارا دوست ہوں، میرا دل بھی کسی پیکان (تیر کی نوک) سے خوش کرو۔

تا توان خاموش بودن دم نمی‌باید زدن
عالمِ آسوده را برهم نمی‌باید زدن

(صائب تبریزی)
جب تک خاموش رہا جا سکتا ہو، بولنا نہیں چاہیے؛ عالمِ آسودہ کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کسی کو دردِ پنهانی ندارد
تنی دارد ولی جانی ندارد
اگر جانی هوس داری طلب کن
تب و تابی که پایانی ندارد

(علامه اقبال)

(منظوم اردو ترجمہ)
جو نہیں ہے عشق کے دردِ دروں کا راز داں
تن وہ رکھتا ہے مگر مفقود ہے اُس تن میں جاں
جسم میں اپنے اگر تجھ کو طلب ہے جان کی
دل میں پیدا کر گداز و اضطرابِ بے کراں
(عبدالرحمٰن طارق)
 
آخری تدوین:
محتسب از سخت جانی نے دلم تنہا شکست
شیشہ را گردن، سبو را دست، خم را پا شکست


سراج الدین خان آرزو

محتسب نے اپنی سنگ دلی اور بے رحمی کی وجہ سے صرف میرا دل ہی نہیں توڑا بلکہ جام کی گردن، سبو کا ہاتھ اور خم کے پاؤں بھی توڑ دیے۔
بہت شاندار
 

محمد وارث

لائبریرین
عشق می ورزم و امّید کہ ایں فنِّ شریف
چوں ہنر ہائے دگر موجبِ حرماں نشود


حافظ شیرازی

میں عشق اختیار کرتا ہوں اور یہ امید ہے کہ یہ شریف فن، دوسرے ہنروں کی طرح محرومی کا سبب نہ ہوگا۔ (ترجمہ از قاضی سجاد حسین)
 

طارق شاہ

محفلین

دینِ حق از کافری رُسوا تر است
زانکہ مُلا مؤمن کافر گر است

کم نگاہ و کور ذوق و ہرزہ گرد
ملت از قال و اقولش فرد فرد

مکتب و مُلا و اسرارِ کتاب
کورِ مادر زاد و نُورِ آفتاب

دینِ کافر فکر و تدبیر و جہاد
دینِ مُلا فی سبیل اللہ فساد
اقبال
آج دینِ حق کفارکے دین سے زیادہ رُسوا ہے
کیونکہ ہمارا مُلا مومنوں کو کافر بنانے پر لگا ہُوا ہے
یہ کم نِگاہ، کم سمجھ اور ہرزہ گرد ہے
جسکی وجہ سے آج مِلّت فرد فرد میں بٹ گئی ہے
مکتب، مُلّا اور اسرار قرآن کا تعلق ایسا ہی ہے
جو کسی پیدائشی اندھے کا سُورج کی روشنی سے ہوتا ہے
آج کافر کا دین فکراور تدبیرِجہاد(جہد مسلسل) ہے
جبکہ مُلا کا دین فی سبیل اللہ فساد ہے

علامہ اقبال
 

محمد وارث

لائبریرین
گفتم بہ بُلبُلے کہ علاجِ فراق چیست؟
از شاخِ گُل بہ خاک فتاد و طپید و مُرد

شیخ علی حزیں

میں نے ایک بُلبُل سے پوچھا کہ جدائی کیا علاج کیا ہے؟ وہ پھولوں کی شاخ سے زمین پر گری، بے قرار ہو کر تڑپی اور مر گئی۔
https://www.facebook.com/naqsh5/pho...0106/293712260779432/?type=1&relevant_count=1
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عقل گوید شش جہت حد است و بیروں راہ نیست
عشق گوید ہست راہ و رفتہ ام من بارہا

عقل نے کہا کہ شش جہت حد ہے اور اس سے باہر کوئی راستہ نہیں۔
عشق نے کہا کہ راستہ ہے اور میں کئی بار اس راستے سے گزرا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
آنان که عاشقانِ ترا طعنه می‌زنند
معذور دارشان که رخت را ندیده‌اند

(امیر خسرو)
جو لوگ تمہارے عاشقوں کو طعنہ مارتے ہیں اُنہیں معذور سمجھو کیونکہ اُنہوں نے (ابھی تک) تمہارا چہرہ نہیں دیکھا ہے۔

جایی که زاهدان به هزار اربعین رسند
مستِ شرابِ عشق به یک آه می‌رسد

(خواجه معین الدین چشتی اجمیری)
جس مقام پر زُہّاد ہزار چلّوں کے بعد پہنچتے ہیں، وہاں مستِ شرابِ عشق ایک آہِ مستانہ ہی سے پہنچ جاتا ہے۔

چو آفتابِ می و صبحِ رویِ ساقی هست
چراغ و شمع چه حاجت بُوَد شبستان را

(قاآنی شیرازی)
جب شراب جیسا آفتاب اور ساقی کے چہرے جیسی صبح موجود ہے تو پھر شبستاں کو چراغ اور شمع کی کیا حاجت ہے؟

کی تواند شدن از سرِّ اناالحق واقف
هر که او را غمِ آنست که بردار کنند

(سید عمادالدین نسیمی)
جس کسی کو اس بات کا غم یا خوف ہو کہ اُسے سولی پر لٹکا دیا جائے گا، وہ شخص 'اناالحق' کے راز سے کیسے واقف ہو سکتا ہے؟

ز آثارِ بدان چون قدرِ نیکان می‌شود پیدا
در این عالم وجودِ ناقصِ ما هم به کار آید

(غیرت همدانی)
چونکہ بد لوگوں کے آثار سے نیک لوگوں کی قدر ظاہر ہوتی ہے، [لہٰذا] اِس دنیا میں ہمارا ناقص وجود بھی [کسی] کام آ جائے گا۔
(یعنی ہماری ناقص شخصیت کا کم از کم یہی فائدہ ہو جائے گا کہ ہمارے اعمال دیکھ کر لوگ کاملوں کی قدر کرنا شروع کر دیں گے۔)

میانِ زهد و رندی عالمی دارم، ‌نمی‌دانم
که چرخ از خاکِ من تسبیح یا پیمانه می‌سازد

(لسانی شیرازی)
میری کیفیت کچھ زہد اور رندی کے درمیان کی ہے؛ میں نہیں جانتا کہ آسمان میری خاک سے تسبیح بنائے گا یا کہ پیمانہ۔۔۔

همچو لیلیٰ مُستمَندم در فراقش روز و شب
همچو مجنون گِردِ عالَم دوست‌جویان می‌روم

(شیخ فریدالدین عطّار نیشابوری)
میں لیلیٰ کی طرح روز و شب دوست کے فراق میں ملول رہتا ہوں؛ اور میں مجنوں کی طرح دنیا کے اطراف میں دوست کو تلاش کرتے پھرتا رہتا ہوں۔

فضیلتی که جمالِ تراست بر خورشید
فضیلتی‌ست که خورشید بر قمر دارد

(امیر خسرو)
تمہارے حُسن کو جو فضیلت خورشید پر حاصل ہے، وہ ویسی ہی فضیلت ہے جیسی خورشید کو قمر پر حاصل ہے۔

آفرین بر دلِ نرمِ تو، که از بهرِ ثواب
کشتهٔ غمزهٔ خود را به نماز آمده‌ای

(حافظ شیرازی)
تمہارے مہربان و رحیم دل پر آفریں ہے کہ تم اپنے اُس عاشق کے مردہ پیکر پر ثواب کی خاطر نمازِ جنازہ پڑھنے آئے ہو، جسے تم نے اپنے ناز اور غمزے کے تیروں سے قتل کیا تھا۔

آن‌ها که خوانده‌ام همه از یادِ من برفت
الّا حدیثِ دوست که تکرار می‌کنم

(سعدی شیرازی)
میں نے اب تک جو کچھ بھی پڑھا ہے وہ سب فراموش ہو گیا ہے؛ سوائے دوست کی حکایت کے، کہ جسے میں بار بار دہراتا رہتا ہوں۔

معشوق چون نقاب ز رخ در نمی‌کشد
هر کس حکایتی به تصور چرا کنند؟

(حافظ شیرازی)
جب معشوق پنہاں ہے اور وہ اپنے چہرے سے نقاب اٹھا کر اپنے جمال کو آشکار نہیں کرتا، تو پھر آخر کیوں ہر کوئی اپنے گمان و تصور سے اُس کی تصویر بنا کر اُس کے بارے میں گفتگو کرتا ہے؟

ای ز جان خوشتر، بیا، تا بر تو افشانم روان
نزدِ تو مردن به از تو دور و حیران زیستن

(فخرالدین عراقی)
اے میرے جان سے بھی زیادہ محبوب تر دوست! آ جا تا کہ تجھ پر اپنی سانسیں نچھاور کر دوں؛ تیرے نزدیک مرنا اس بات سے بہتر ہے کہ میں تجھ سے دور اور سرگرداں زندگی بسر کرتا رہوں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بہ ہر بلا کہ کنی مبتلا قبولِ دل است
کہ چاشنی ندہد عشق بے بلا ہرگز


نظیری نیشاپوری

اے محبوب، تُو جتنی بھی تکلیفیں اور رنج دیتا ہے میرے دل کو قبول ہیں کہ تکلیفوں اور آزمایشوں کے بغیر عشق ہرگز بھی لطف نہیں دیتا۔
https://www.facebook.com/naqsh5/pho...0106/299851056832219/?type=1&relevant_count=1
 

آصف شفیع

محفلین
Muhtaram WariS sahib!
App ka adab kay qareen per ehsan hai jo aap Farsi shairee ka umda intekhab pesh kartay hai. Facebook per bhi aap kay post kardah ashaar say lutf andoz hotay hai aur yahan bhi aap ki posts dekh ker khushi hue. Allah Tala Humesha aap ko khush rakhay. Aameen.
 

حسان خان

لائبریرین
نیست ممکن که به یک شهر دو سلطان باشد
در دلِ هر که غمِ اوست غمِ عالم نیست

(میر شمس‌الدین فقیر دهلوی)
یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی شہر میں دو سلطان ہوں؛ اسی لیے جس کے دل میں اُس (دوست) کا غم ہوتا ہے، اُس کے دل میں دنیا کا غم نہیں ہوتا۔

چاک می‌شد به برت جامهٔ تقویٰ چون من
گر تو هم می‌شدی ای شیخ گرفتارِ کسی

(علی قلی خان واله داغستانی)
اے شیخ! اگر تو بھی میری طرح کسی کی محبت میں گرفتار ہوا ہوتا تو تیرے سینے پر موجود جامۂ تقویٰ بھی چاک ہو چکا ہوتا۔

سبحه بر کف، توبه بر لب، دل پُر از شوقِ گناه
معصیت را خنده می‌آید ز استغفارِ ما

(صائب تبریزی)
ہاتھوں میں تسبیح، لب پر توبہ اور دل گناہ کے شوق سے پُر۔۔۔ ہمارے ایسے استغفار پر خود گناہ کو بھی ہنسی آ جاتی ہے۔

(رباعی)
از سینه غبارِ غم نمی‌باید شست
وز دل رقمِ الم نمی‌باید شست
پایی که به راهِ عشق شد خاک آلود
از آبِ حیات هم نمی‌باید شست
(مشفقی دهلوی)

سینے سے غم کا غبار نہیں دھونا چاہیے؛ اور دل سے الم کا نشان نہیں دھونا چاہیے؛ جو پاؤں عشق کی راہ میں خاک آلود ہوا ہو اُسے آبِ حیات سے بھی نہیں دھونا چاہیے۔

ای اجل، آن قدری صبر کن امروز که من
لذتی گیرم از آن زخم که بر جانم زد

(امیر خسرو)
اے موت! آج ذرا اتنا صبر کر کہ میں (مرنے سے پہلے) اُس زخم سے تھوڑی لذت اٹھا لوں جو اُس نے میری جان پر وارد کیا ہے۔

مشو دلتنگ اگر یک چند اشکت بی‌اثر باشد
که سازد خاک را گلزار، آب آهسته آهسته

(صائب تبریزی)
اگر تمہارے کچھ آنسو بے اثر گئے ہیں تو رنجیدہ مت ہو؛ کیونکہ پانی خاک کو آہستہ آہستہ ہی گلزار بناتا ہے۔

(رباعی)
ای عشقِ تو کشته عارف و عامی را
سودای تو گم کرده نکونامی را
ذوقِ لبِ میگونِ تو آورده برون
از صومعه بایزیدِ بسطامی را
(بایزید بسطامی)

اے کہ تیرے عشق نے عارف و عامی (یعنی عالم و جاہل) دونوں کو مار ڈالا؛ اور تیری محبت نے ساری نیک نامی ضائع کر دی؛ تیرے مے جیسے سرخ ہونٹوں کا ذوق بایزید بسطامی کو خانقاہ سے باہر لے آیا ہے۔

من ناتوان ز یادِ کسی گشتم، ای طبیب
آن دارویم بده که فراموشی آورد

(امیر خسرو)
میں کسی کی یاد میں ناتواں ہو گیا ہوں؛ اے طبیب، مجھے وہ دوا دے جو فراموشی لے آئے۔

بسیار بکوشم که بپوشم غمِ خود، لیک
آتش چو بگیرد نتوان داشت نهانش

(امیر خسرو)
میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ اپنا غم دوسروں سے چھپائے رکھوں، لیکن ایک بار جب آگ لگ جائے تو پھر اُسے نہاں نہیں رکھا جا سکتا۔

(رباعی)
گر بویی از آن زلفِ معنبر یابی
مشکل که دگر پای خود از سر یابی
از خجلتِ داناییِ خود آب شوی
گر لذتِ نادانیِ ما دریابی
(رضی آرتیمانی)

اگر تم تک اُس معطر زلف کی ذرا سی خوشبو پہنچ جائے تو (تم زلف کے اشتیاق میں اتنے مدہوش ہو جاؤ گے کہ) مشکل ہے کہ تم اس کے بعد اپنے پاؤں اور سر کے درمیان فرق کر سکو؛ اگر تم ہماری نادانی کی لذت سے پوری طرح واقف ہو جاؤ تو اپنی دانائی کی شرمندگی سے پانی پانی ہو جاؤ گے۔

(رباعی)
با یار به بوستان شدم رهگذری
کردم نظری سوی گل از بی‌صبری
آمد برِ من نگار و در گوشم گفت:
رخسارِ من اینجا و تو در گل نگری؟
(فخرالدین عراقی)

میں یار کے ساتھ باغ میں گیا اور (میں نے وہاں جا کر) بے صبری سے پھول پر ایک نظر ڈالی۔۔۔ میرا خوبصورت محبوب میرے نزدیک آیا اور اُس نے میرے کان میں کہا کہ میرا رخسار یہاں ہے پھر بھی تم پھول کو دیکھ رہے ہو؟

شد جهان در چشمِ من از رفتنِ جانان سیاه
بُرد با خود میهمانِ من چراغِ خانه را

(صائب تبریزی)
میری آنکھوں میں دنیا یار کے جانے سے سیاہ ہو گئی ہے؛ میرا مہمان (جاتے ہوئے) اپنے ساتھ گھر کے چراغ کو بھی لے گیا۔

دشنامِ خلق را ندهم جز دعا جواب
ابرم که تلخ گیرم و شیرین عوض دهم

(طالب آملی)
میں لوگوں کی گالیوں کا سوائے دعا کے کچھ اور جواب نہیں دیتا؛ میں بادل (کی طرح) ہوں کہ میں (سمندر کا) تلخ پانی لے کر اُس کے بدلے میں (بارش کا) شیریں پانی دیتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چون گذارد خشتِ اول بر زمین معمار کج
گر رساند بر فلک، باشد همان دیوار کج

(صائب تبریزی)
جب زمین پر معمار پہلی اینٹ (یعنی بنیاد) ہی کج رکھے تو پھر وہ خواہ دیوار کو آسمان تک لے جائے، وہ کج ہی رہتی ہے۔

گر مرا بی‌تو در بهشت برند
دیده از دیدنش بخواهم دوخت

کاین چنینم خدای وعده نکرد
که مرا در بهشت باید سوخت

(سعدی شیرازی)
اگر مجھے تمہارے بغیر جنت میں لے جائیں تو میں اپنی آنکھیں بند کر لوں گا اور اُس کی طرف نہیں دیکھوں گا، کیونکہ خدا نے مجھ سے اس طرح کا وعدہ نہیں کیا تھا کہ مجھے جنت میں بھی جلایا جائے گا۔

وادیِ عشق بسی دور و درازست ولی
طی شود جادهٔ صد ساله به آهی گاهی

(علامه اقبال)
عشق کی وادی اگرچہ بہت دور و دراز ہے لیکن بعض اوقات سو سالوں پر محیط راہیں بھی صرف ایک آہ ہی سے طے ہو جاتی ہیں۔

این نکته را شناسد آن دل که دردمند است
من گرچه توبه گفتم نشکسته‌ام سبو را

(علامه اقبال)
اِس نکتے کو وہی دل سمجھ سکتا ہے جو دردمند ہو کہ اگرچہ میں نے توبہ تو کہہ دی ہے لیکن ابھی تک اپنا سبو نہیں توڑا ہے۔

گر تیغ برکشد که محبان همی‌زنم
اول کسی که لافِ محبت زند منم

(سعدی شیرازی)
اگر یار تلوار نکال کر کہے کہ میں اِس سے اپنے محبوں کو ماروں گا تو پہلا شخص جو محبت کا دعویٰ کرے گا وہ میں ہوں گا۔

(رباعی)
شب خیز که عاشقان به شب راز کنند
گردِ در و بامِ دوست پرواز کنند
هر جا که دری بود به شب بربندند
الا درِ عاشقان که شب باز کنند

(ابوسعید ابوالخیر)

راتوں کو جاگو کیونکہ عشاق رات کو راز کی باتیں کرتے ہیں اور دوست کے در و بام کے گرد پرواز کرتے ہیں۔۔۔ جس جگہ پر بھی کوئی در ہو اسے رات کو بند کر دیا جاتا ہے، سوائے عاشقوں کے در کے کہ اسے رات کے وقت ہی کھولا کرتے ہیں۔

آغازِ عشق یک نظرش با حلاوتست
انجامِ عشق جز غم و جز آهِ سرد نیست

(سنایی غزنوی)
عشق کا آغاز تو اُس کی ایک مٹھاس بھری نظر ہے لیکن عشق کا انجام غم اور ٹھنڈی آہوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
دوشینه شبم بود شبیهِ یلدا
آن مونسِ غمگسار نامد عمدا
شب تا به سحر ز دیده دُر می‌سفتم
می‌گفتم رَ‌بِّ لا تَذَرْ‌نی فَرْ‌دا

(مهستی گنجوی)

کل میری شب یلدا (سال کی طویل ترین شب) کی مانند [طویل] تھی اور وہ غمگسار مونس جان بوجھ کر نہیں آیا؛ میں شب سے لے کر صبح تک آنکھوں سے [اشکوں کے] موتی پروتی رہی اور کہتی رہی کہ اے میرے رب مجھے تنہا مت چھوڑنا۔۔۔
آخری مصرعے میں 'رب لا تذرنی فردا' سورهٔ انبیاء کی آیت ۸۹ سے مقتبس ہے۔
 
آخری تدوین:
Top