پاکستان:’43 فیصد خواتین کے مطابق شوہر کا پیٹنا جائز

اسلام میں شوہر کو بیوی پر یا باپ کو اولاد پر یہ اختیار ضرور ہے لیکن اس کا استعمال شرائط سے مقید ہے۔ مثلا ایک شرط یہ بھی ہے غصے کی حالت میں نہ ہو۔ اب اگر کوئی اپنی بیوی پر غصے میں ہاتھ اٹھائے (بالعموم ایسا ہی ہوتا ہے) تو یہ عمل نہ اسلام کے مطابق ہے نہ لائقِ تحسین۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم اسلام کی آڑ میں اپنے غلط عمل کا دفاع کرتے ہیں یا کسی فرد کے غلط عمل پر اسلام کے قانون پر اعتراض کرتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بائے دا وے عموماً جو لوگ پاکستان میں رہ کر بیویوں کو ذاتی جاگیر سمجھ کر ان کی دھلائی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں وہ باہر جا کر بیگمات کے ہاتھوں پٹتے بھی ہیں اور obvious reasons کی وجہ سے شکایت بھی نہیں کر پاتے یا نہیں کرتے۔
کانٹ سٹاپ لافنگ :rollingonthefloor:
 

ظفری

لائبریرین
اگر شوہر اور بیوی برابر ہیں تو ایک کی غلطی پر دوسرا اس کی تنبیہ اور مرمت کر سکتا ہے۔ پھر شوہر کی برائیوں پر بیوی کیوں کچھ نہیں کہہ سکتی جبکہ شوہر کو مارنے تک کا حق دیا گیا ہے؟
دین میں عورت اور مرد برابر ہیں ۔ مگر جب یہی مرد اور عورت یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ اب انہیں میاں بیوی کی حیثیت سے رہنا ہے تو حفظِ مراتب کے لحاظ سے ضروری ہے کہ آیا کس کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں ۔ کون خاندان کا کفیل بنے گا ۔ اور کون گھر کی سربراہی سنبھالے گا ۔ کیونکہ بلآخر ایک دن یہ میاں بیوی ماں باپ بھی بنیں گے اور یہ گھر ایک خاندان اور ادارے کی صورت بھی اختیار کرے گا ۔ لہذا ضروری ہے کہ کسی خاندان یا ادارے میں کسی ایسے شخص کے اختیارات باقی ایسے لوگوں سے اعلیٰ رکھیں جائیں ۔ جو اس پر انحصار کرتے ہیں ۔ یہ حق بیوی کو بھی مل سکتا ہے اور مرد کو ۔ لہذا یہ کہنا کہ " میاں " اور "بیوی " برابر ہیں ۔ یہ اصولی طور پر بھی ٹھیک نہیں ہوگا ۔ کہ بہرحال ایک ادارے میں کسی ہیڈ کی ضرورت ناگزیر ہے ۔ جس سے گھر کا نظم و ضبط کنٹرول میں رہے ۔ مگر ہیڈ کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہیڈ، ڈکٹیٹر بن جائے ۔ مگر جس طرح ایک ادارے کا سربراہ اپنے ادارے میں بدنظمی اور دیگر خرابیوں پر اپنے عملے کی سرزش کرسکتا ہے ۔ بلکل وہی اختیار ایک سربراہ کو دیا گیا ۔ حالات اور وقت پر منحصر ہے کہ یہ ذمہ داری کون اٹھا رہا ہے ۔ 1400 سال پہلے اور اب بھی دنیا کے بیشتر حصوں میں خاندان کی ذمہ داریاں مرد پر ہی عائد ہوتیں ہیں ۔ لہذا مرد کو ہی قرآن میں مخاطب کرکے اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا گیا ہے ۔ اور اس رشتے کی ذمہ داری کی پہلی کڑی اللہ نے مرد پر " حق مہر " کی شکل میں رکھی ہے ۔
قرآن جب کوئی اصول بیان کر رہا ہوتا ہے تو اس کے سامنے موجودہ زمانے کے لوگ ہوتے ہیں ۔ لہذا ضروری ہے کہ اس زمانے کے رسم و رواج کو سامنے رکھ کر کوئی اصول بیان کیا جائے ۔ بلکل اسی طرح جس طرح جب قرآن کہتا ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا تو اس کے سامنے مخاطب وہی تھے جن کے سامنے کلام نازل ہو رہا تھا ۔ اگر اللہ آ ج کی زبان میں مٹی کو " کیمیکل " کہہ کر انسان کی تخلیق پر روشنی ڈالتا تو وہ سب ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے ہوتے ۔
مرد کا عورت کو مارنا اور عورت مرد کو کچھ کہہ نہیں سکتی ۔ یہ دین نہیں کلچر ہے ۔ اس کو دین سے گڈمڈ کرنا صحیح نہیں ہے ۔
 

ملائکہ

محفلین
اگر کوئی مرد چاہے وہ باپ ، بھائی ، شوہر کوئی بھی ہے اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی بھی عورت پر ہاتھ اٹھائے۔۔۔ اگر کوئی بھی اس طرح کی کوشش کرے تو اسی وقت عورت کو چائیے کہ وہ اسے اپنے اوپر تشدد نہ کرنے دے اور چھوڑ دے اس انسان کو کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا سب زندہ رہتے ہیں۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اگر کوئی مرد چاہے وہ باپ ، بھائی ، شوہر کوئی بھی ہے اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی بھی عورت پر ہاتھ اٹھائے۔۔۔ اگر کوئی بھی اس طرح کی کوشش کرے تو اسی وقت عورت کو چائیے کہ وہ اسے اپنے اوپر تشدد نہ کرنے دے اور چھوڑ دے اس انسان کو کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا سب زندہ رہتے ہیں۔۔۔
متفق.
تادیب و سرزنش کے لیے اس صورت میں کہا گیا ہے جب بیوی اخلاق، مذہب ، وفاداری سے وابستہ تقاضوں کو پورا کرنے سے دانستہ احتراز کرے. یعنی انتہائی سنجیدہ معاملات. لیکن وہاں بهی تشدد یا مار دهاڑ کا نہیں کہا گیا. اب یہ تو ہمارے بہت سے باشرع مسلمان بهائیوں کی ذہنی بلوغت ہے نا کہ وہ نمک مرچ کم زیادہ ہونے پر بهی اپنی بیگمات کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کر دکهاتے ہیں اور آڑ لی جاتی ہے دین کی.
حالانکہ دین کبهی بهی تشدد کی تلقین نہیں کرتا. اور ان کو یہ بهی معلوم ہونا چاہئیے کہ کسی کو مارنے کا مطلب اپنی کمزوری اور نالائقی کا اعتراف ہے اور بس.
 

قیصرانی

لائبریرین
متفق.
تادیب و سرزنش کے لیے اس صورت میں کہا گیا ہے جب بیوی اخلاق، مذہب ، وفاداری سے وابستہ تقاضوں کو پورا کرنے سے دانستہ احتراز کرے. یعنی انتہائی سنجیدہ معاملات. لیکن وہاں بهی تشدد یا مار دهاڑ کا نہیں کہا گیا. اب یہ تو ہمارے بہت سے باشرع مسلمان بهائیوں کی ذہنی بلوغت ہے نا کہ وہ نمک مرچ کم زیادہ ہونے پر بهی اپنی بیگمات کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کر دکهاتے ہیں اور آڑ لی جاتی ہے دین کی.
حالانکہ دین کبهی بهی تشدد کی تلقین نہیں کرتا. اور ان کو یہ بهی معلوم ہونا چاہئیے کہ کسی کو مارنے کا مطلب اپنی کمزوری اور نالائقی کا اعتراف ہے اور بس.
بری بات، ایسے کہیں گی تو اس طرح انہیں "ذہنی معذوری" کا بہانہ مل جائے گا :rollingonthefloor:
 

نایاب

لائبریرین
عجب بات ہے کہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اک سعودی دوست کو تسلی دلاسہ دے کر آیا ہوں ۔ جس کی بیوی نے اکثر گھر سے راتوں کو باہر رہنے پر اس کی اس کے ہی غترے سے خوب دھنائی کی ۔ اب ہم خارجیوں کے پاس شرم کے مارے منہ چھپائے پڑا ہلدی ملا دودھ پی رہا ہے ۔۔۔۔۔
 
اگر تمام آپشنز استعمال کرنے کے بعد بھی کوئی گھمبیر مسئلہ(پوائنٹ آف نو ریٹرن والا مسئلہ) حل نہیں ہورہا اور ایسے میں آخری آپشن کے طور پر ہلکا پھلکا دھول دھپا :mrgreen::mrgreen::mrgreen:کرنے سےمسئلہ حل ہوسکتا ہے تو ضرور کرلینا چاہئیے۔
Lets be practical.....:donttellanyone::bighug::laugh:
 

قیصرانی

لائبریرین
اگر تمام آپشنز استعمال کرنے کے بعد بھی کوئی گھمبیر مسئلہ(پوائنٹ آف نو ریٹرن والا مسئلہ) حل نہیں ہورہا اور ایسے میں آخری آپشن کے طور پر ہلکا پھلکا دھول دھپا :mrgreen::mrgreen::mrgreen:کرنے سےمسئلہ حل ہوسکتا ہے تو ضرور کرلینا چاہئیے۔
Lets be practical.....:donttellanyone::bighug::laugh:
پوائنٹ آف نو ریٹرن کے حل کے لئے اسلام میں طلاق کا آپشن موجود ہے۔ اس کے علاوہ میرا یہ "گولڈن رول" یاد رکھیئے کہ انسانی تعلقات میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا جو دو بالغ انسان آپس میں بات چیت سے حل نہ کر سکیں :)
 
پوائنٹ آف نو ریٹرن کے حل کے لئے اسلام میں طلاق کا آپشن موجود ہے۔ اس کے علاوہ میرا یہ "گولڈن رول" یاد رکھیئے کہ انسانی تعلقات میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا جو دو بالغ انسان آپس میں بات چیت سے حل نہ کر سکیں :)

بات طلاق تک نہیں پہنچنی چاہئے، صرف اپنے بارے میں نہیں بچوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ میاں ،بیوی دونوں کو
 

قیصرانی

لائبریرین
بات طلاق تک نہیں پہنچنی چاہئے، صرف اپنے بارے میں نہیں بچوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ میاں ،بیوی دونوں کو
جس چیز کو آپ بات چیت سے نہ حل کر سکیں، اس کے لئے ہی طلاق ہے اور یہ بھی "عین اسلامی" ہے، چاہے جتنی ناپسندیدہ کیوں نہ ہو
کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مار پیٹ کر آپ شادی کو قائم دائم اور باہمی پیار اور محبت کو بڑھا سکتے ہیں؟
 
پوائنٹ آف نو ریٹرن کے حل کے لئے اسلام میں طلاق کا آپشن موجود ہے۔ اس کے علاوہ میرا یہ "گولڈن رول" یاد رکھیئے کہ انسانی تعلقات میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا جو دو بالغ انسان آپس میں بات چیت سے حل نہ کر سکیں :)
جناب طلاق تو بذاتِ خود پوائنٹ آف نو ریٹرن ہے۔۔۔۔میں مسئلے کے حل کی بات کر رہا ہوں۔۔اگر آپ اپنا گھر بچانا چاہتے ہیں (یعنی طلاق سے بچنا چاہتے ہیں ) اور اپنے بچوں پر ماں باپ دونوں کا سایہ چاہتے ہیں اور تعلقات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بات چیت سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوپارہا۔۔تو طلاق کا آپشن استعمال کرنے سے پہلے اگر آپ قرائن سے سمجھتے ہیں کہ یہ شاک ٹریٹمنٹ کام دے جائے گی اور فریقِ مخالف ٹرانس سے باہر آجائے گا اور وقتی طور پر ناراضگی اور جبر کے احساس کے باوجود in the long run جب مستقبل میں پلٹ کر اس واقعے کو دیکھ کر اس کام کےکارگر ہونے اور اسکی usefulness کو اپنے دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرلے گا ۔۔۔تو ضرور ایسا کیجئے۔۔۔ہاں اگر آپکو یقین ہے کہ اس سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید بغرجائے گا، تب بیشک علیحدگی اور طلاق ہی آخری صورت بچتی ہے۔۔۔
مسئلہ یہ ہے کہ مرد کی نفسیات اور عورت کی نفسیات میں کچھ فرق ہے۔۔۔۔مرد زیادہ تر منطقی اور عورتیں زیادہ تر جذباتی انداز میں سوچتے ہیں، لیکن اسکے باوجود شائد یہ حقیقت ہے کہ عورت اپنے جذباتی پن کو جانتی ہے اور دل کی گہرائیوں سے اس بات کو سمجھتی ہے کہ اسکے جذباتی پن سے اسکو نقصان بھی پہنچتا رہا ہے چنانچہ شائد اسی لئے emotionally driven ہونے کے باوجود اپنے اندر اتنی وسعت رکھتی ہے کہ مرد کو اس زبردستی پر معاف کرسکتی ہے اور اس واقعے کو بھول سکتی ہے۔۔۔۔
اب براہ کرم مجھ chauvinistic نہ سمجھا جائے۔۔۔:):mrgreen:
 
آخری تدوین:
جس چیز کو آپ بات چیت سے نہ حل کر سکیں، اس کے لئے ہی طلاق ہے اور یہ بھی "عین اسلامی" ہے، چاہے جتنی ناپسندیدہ کیوں نہ ہو
کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مار پیٹ کر آپ شادی کو قائم دائم اور باہمی پیار اور محبت کو بڑھا سکتے ہیں؟
گھریلو مسائل حل کرنے کے لئے مار پیٹ ضروری نہیں، مسئلہ زیادہ خراب ہونے کی صورت میں خاندان کے بڑوں کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جناب طلاق تو بذاتِ خود پوائنٹ آف نو ریٹرن ہے۔۔۔ ۔میں مسئلے کے حل کی بات کر رہا ہوں۔۔اگر آپ اپنا گھر بچانا چاہتے ہیں (یعنی طلاق سے بچنا چاہتے ہیں ) اور اپنے بچوں پر ماں باپ دونوں کا سایہ چاہتے ہیں اور تعلقات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بات چیت سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوپارہا۔۔تو طلاق کا آپشن استعمال کرنے سے پہلے اگر آپ قرائن سے سمجھتے ہیں کہ یہ شاک ٹریٹمنٹ کام دے جائے گی اور فریقِ مخالف ٹرانس سے باہر آجائے گا اور وقتی طور پر نناراضگی اور جبر کے احساس کے باوجود in the long run جب مستقبل میں پلٹ کر اس واقعے کو دیکھ کر اسکا کارگر ہونا اور اسکی usefulness کو اپنے دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرلے گا ۔۔۔ تو ضرور ایسا کیجئے۔۔۔ ہاں اگر آپکو یقین ہے کہ اس سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید بغرجائے گا، تب بیشک علیحدگی اور طلاق ہی آخری صورت بچتی ہے۔۔۔
مسئلہ یہ ہے کہ مرد کی نفسیات اور عورت کی نفسیات میں کچھ فرق ہے۔۔۔ ۔مرد م زیادہ تر منطقی اور عورتیں زیادہ تر جذباتی انداز میں سوچتے ہیں، لیکن اسکے باوجود شائد یہ حقیقت ہے کہ عورت اپنے جذباتی پن کو جانتی ہے اور دل کی گہرائیوں سے اس بات کو سمجھتی ہے کہ اسکے جذباتی پن سے اسکو نقصان بھی پہنچتا رہا ہے چنانچہ شائد اسی لئے emotionally driven ہونے کے باوجود اپنے اندر اتنی وسعت رکھتی ہے کہ مرد کو اس زبردستی پر معاف کرسکتی ہے اور اس واقعے کو بھول سکتی ہے۔۔۔ ۔
اب براہ کرم مجھ chauvinistic نہ سمجھا جائے۔۔۔ :):mrgreen:
میں شاید یہ کہنا بھول گیا تھا کہ
انسانی تعلقات میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا جو "ذہنی طور پر بالغ"دو انسان آپس میں بات چیت سے حل نہ کر سکیں
 
میں شاید یہ کہنا بھول گیا تھا کہ
انسانی تعلقات میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا جو "ذہنی طور پر بالغ"دو انسان آپس میں بات چیت سے حل نہ کر سکیں
جی ہاں۔۔لیکن یہ ایک آئیڈئیل صورتحال ہے۔۔ہر جوڑا ذہنی طور پر بالغ نہیں ہوتا۔۔۔ اور قرآن پاک ایک عملی کتاب ہے آئیڈیالوجی پر مبنی نہیں۔۔۔ہم جنت میں بیٹھ کر بات نہیں کر رہے بلکہ اسی دنیا کی گراؤنڈ ریالٹیز کی بات کر رہے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جی ہاں۔۔لیکن یہ ایک آئیڈئیل صورتحال ہے۔۔ہر جوڑا ذہنی طور پر بالغ نہیں ہوتا۔۔۔ اور قرآن پاک ایک عملی کتاب ہے آئیڈیالوجی پر مبنی نہیں۔۔۔ ہم جنت میں بیٹھ کر بات نہیں کر رہے بلکہ اسی دنیا کی گراؤنڈ ریالٹیز کی بات کر رہے ہیں۔
یعنی جو ذہنی طور پر بالغ نہیں، اس کو مار کر بالغ بنایا جائے :)
یہ آپ قرآن کی درست تعریف کر رہے ہیں نا؟
 

زیک

مسافر
اتنی زبردست تھریڈ ہے کہ بار بار پڑھنے کو جی کرتا ہے۔

جیسے مجھے علم ہی نہ تھا کہ اسلام کتنا پریکٹیکل مذہب ہے
 
یعنی جو ذہنی طور پر بالغ نہیں، اس کو مار کر بالغ بنایا جائے :)
یہ آپ قرآن کی درست تعریف کر رہے ہیں نا؟
یقین کیجئے میں نے وہ مراسلہ ایک شادی شدہ کینیڈین خاتون (پاکستانی نژاد) کے ساتھ گفتگو کرکے اور عورت کی نفسیات کے اس پہلو پر بات کرکے پوسٹ کیا ہے۔۔۔ اور یہ ایک عورت (جو کوئی خاص مذہبی نہیں ہیں) کی بھی رائے ہے۔چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ اس بات کو سطحی انداز میں لینے کی بجائے گہرائی سے لیا جائے تو اس بات کی وزڈم سمجھ میں آتی ہے۔۔۔
 
Top