پاکستان:’43 فیصد خواتین کے مطابق شوہر کا پیٹنا جائز

پاکستان میں ایک سرکاری سروے کے مطابق ملک کی آبادی کی تقریباً 43 فیصد خواتین اور ایک تہائی مرد سمجھتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کی پٹائی کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں آبادی سے متعلق قومی ادارے انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن سٹیڈیز کے آبادی اور صحت سے متعلق ایک تازہ سروے میں یہ رائے سامنے آئی ہے۔
یہ سروے سال 1990 سے لے کر سال 2013 تک تین بار کیا گیا ہے اور اس سروے میں 15 سے 49 سال تک کی عمر کی 13 ہزار خواتین اور تین ہزار مردوں کو شامل کیا گیا۔
اس میں خواتین کی ملازمت، گھریلو فیصلوں میں شرکت، اثاثوں کی ملکیت اور بیوی پر کی پٹائی جیسے سوالات پوچھے گئے۔
گھریلو تشدد سے متعلق خواتین اور مردوں سے پوچھا گیا کہ کیا کھانا خراب بننے، شوہر کے ساتھ بحث کرنے، شوہر کو بغیر بتائے گھر سے جانے، بچوں اور سسرال کو نظر انداز کرنے یا جنسی تعلقات سے انکار کرنے کی وجہ سے کوئی شوہر اپنی بیوی کو مار سکتا ہے؟
سوچا ہی نہیں تھا
"
خواتین کیوں گھریلو تشدد کو صحیح سمجھتی ہیں؟ ایک مرد سے پوچھا گیا، کہ اگر عورت کا کام کھانا پکانا ہے اور نہ اچھا بنانے پر اس کی پٹائی کی جانی چاہیے، تو اگر آپ کا کام کمانا ہے اور آپ نہیں کما پائے تو آپ پر ہاتھ اٹھانا چاہیے؟ وہ بہت حیران ہوئے، کیونکہ اس پہلو پر انھوں نے سوچا نہیں تھا"
خاور ممتاز
اس پر 34 فیصد خواتین کا جواب تھا کہ اگر بیوی شوہر سے بحث کرے تو تشدد کا جواز بنتا ہے جبکہ 20 فیصد مردوں کے مطابق اگر بیوی بغیر بتائے گھر سے جائے تو بیوی پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر 43 فیصد خواتین مجموعی طور پر شوہر کے تشدد کو جائز سمجھا۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن ربعیہ وقار کے مطابق گھریلو تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار اور رویوں کے بارے میں پہلی بار حکومت کی جانب سے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ صوبوں میں گھریلو تشدد سے متعلق قانون سازی کے لیے یہ اعداد و شمار اہم ہیں۔ جس میں صوبہ سندھ میں 20 فیصد خواتین کے مطابق وہ نفسیاتی یا جسمانی تشدد کا شکار رہی ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں ایسے واقعات 57 فیصد کے قریب ہیں۔
’سروے کی وجہ سے گھریلو تشدد کے بارے میں ہمارے پاس اب ریاست کی جانب سے اعداد و شمار آگئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس صوبے میں سب سے پہلے قانون سازی ہوئی، وہاں ایسے واقعات کم ہوئے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ ہیں۔‘
پاکستان میں 52 فیصد خواتین گھریلو تشدد کے واقعات کے بارے میں رپورٹ نہیں کرتی ہیں
سال 2009 میں قومی اسمبلی میں گھریلو تشدد کے خاتمے سے متعلق بل منطور ہوا تھا تاہم بعض مذہبی جماعتوں کے اعتراضات کی وجہ سے یہ قانون نہیں بن سکا تھا۔
18ویں ترمیم کے بعد صوبہ سندھ نےگذشتہ سال گھریلو تشدد سے متعلق قانون منظور کیا تھا اور اس برس جنوری میں اسی طرح کا قانون پنجاب اسمبلی میں پیش ہوا جبکہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا نے گھریلو تشدد سے متعلق قانون سازی نہیں کی۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے قومی ادارے نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ومین کی سربراہ خاور ممتاز کا کہنا ہے’خواتین کیوں گھریلو تشدد کو صحیح سمجھتی ہیں؟ ایک مرد سے پوچھا گیا، کہ اگر عورت کا کام کھانا پکانا ہے اور نہ اچھا بنانے پر اس کی پٹائی کی جانی چاہیے، تو اگر آپ کا کام کمانا ہے اور آپ نہیں کما پائیں تو آپ پر ہاتھ اٹھانا چاہیے؟ وہ بہت حیران ہوئے، کیونکہ اس پہلو پر انھوں نے سوچا نہیں تھا۔‘
سروے کے بعض اعداد وشمار
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے اور ان پر تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوتے رہتے ہیں
خواتین کی شادی کرنے کی اوسط عمر 19.5 سال اور مردوں کی 24.7 سال ہے۔
14 میں سے ایک بچے کی اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے موت واقع ہو جاتی جبکہ 11 میں سے ایک بچہ اپنی پانچویں سالگرہ تک زندہ نہیں رہتا۔
پاکستانی مرد اور خواتین چار بچے چاہتے ہیں۔ یہ تعداد صوبہ بلوچستان میں چھ جبکہ اسلام آباد میں تین ہے۔
سال 1990 میں 9 فیصد مرد اور خواتین جبکہ سال 2013 میں 26 فیصد خاندانی منصوبہ بندی کے جدید طریقے استعمال کرتے تھے۔
45 فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 11 فیصد شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔
گھریلو تشدد کی شکار 52 فیصد خواتین نے تشدد کے بارے میں کسی کو آگاہ نہیں اور نہ ہی مدد مانگی۔
ملک میں چھ فیصد خواتین اور 45 فیصد مرد تمباکو نوشی کرتے ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/01/140122_pakistan_population_health_survey_zz.shtml
 
بیوی پر تشدد کے بعد آپس میں محبت کا تعلق کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ اور اگر آپس میں محبت نا ہو تو ساتھ رہنے کا کیا جواز ہے؟ صرف بچے؟
ایک دوسرے کو سمجھ کر زندگی گزارنی چاہئے ایسی نوبت ہی نا آئے کہ کوئی کسی پر ہاتھ اٹھائے۔
 

ساقی۔

محفلین
اس کا ایک حل ہے میرے پاس ۔
بیویوں کو چاہیے کہ مردوں کو دوسری شادی کرنے دیں اس سے پٹائی بھی تقسیم ہو جائے گی ۔ اگر تیسری کی اجازت بھی مل جائے تو پٹائی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی ۔ اس سے پیدا ہو گا ایک خوشحال گھرانہ۔
یعنی دنیا میں ہی جنت کے مزے۔







































































دعا کرنا میری "بے غم"اس مراسلے کو نہ پڑھے ورنہ خبر کا عنوان الٹا کرنا پڑے گا
 

x boy

محفلین
بیوی پر تشدد کے بعد آپس میں محبت کا تعلق کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ اور اگر آپس میں محبت نا ہو تو ساتھ رہنے کا کیا جواز ہے؟ صرف بچے؟
ایک دوسرے کو سمجھ کر زندگی گزارنی چاہئے ایسی نوبت ہی نا آئے کہ کوئی کسی پر ہاتھ اٹھائے۔
بالکل درست 100 فیصد،
لیکن بہت سی جگہہ دیکھا ہے کہ محبت نہیں کرتے سخت اختلاف ہے پھر بھی بچے درجن بھر۔
 

x boy

محفلین
ھمارے اندر ایک احساس پایا جاتا ھے کہ اگر ھم ھر وقت حسرت و یاس میں ڈوبے رھیں،، بات بے بات آنسو بہتے رھیں، جینے پر جی نہ چاھے،کسی خوش ھونے والی بات پر خوش نہ ھوا جائے ، اگر چند ساتھی،دوست یا سہیلیاں ھنس رھے ھیں تو انہیں فوراً موت کا ڈراوہ دے دینا ، ھر وقت قبر کے کیڑے اور آخرت کے احوال یاد کر کر کے اپنے آپ کو تھر کمبا چڑھائے رکھے تو اس کا مطلب ھے کہ آپ دیندار اور ولی اللہ ھیں ! جی نہیں آپ مریض ھیں فوری طور پر نفسیاتی ڈاکٹر سے ملیئے ،چھ ماہ کا علاج ھے ان شاء اللہ آرام آ جائے گا ! اس سے پہلے کہ اللہ سے ملنے کا شوق آپ کو پہاڑی پر سے چھلانگ لگانے پر آمادہ کر لے !! غیر شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں سے گزارش ھے جو اپنی چھوٹی عمر میں ھی مفتی یا مفتیینی بننے کی مہم پر نکلی ھوئی ھیں کہ وہ اپنی عمر کے ساتھ چلیں ! آخر مفتی یا مفتیینی والا مرحلہ بھی آ ھی جائے گا !!
جی تو آپ کی اگر شادی ھو جائے تو بیوی کو مزاق، شوخ، خوش مزاج و مزاق کرنے والا ، کبھی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرنے والا، بدمزا کھانا بغیر تنز کے کھالینے والا، مشکل وقت میں صبر وشکر کرنے والا چاہیے اور،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
شوھر کو تو ھرنی کی طرح چوکڑیاں بھرتی ، اٹھکیلیاں کرتی، بات بے بات قہقے لگاتی، چلتے پھرتے چونڈیاں مارنے والی بیوی چاھئے ھو گی،، ۔
اگر انسان اس کے برعکس بالا احساس والا معاملات والا بن جائے تو چھ ماہ نہیں نکال سکیں گی،،یہ حالت تو بچاس سال کی عمر کے بعد ھوتی ھے،، اس لیئے سب کو اپنا جائزہ لیںا ہوگا ،، اور خوش رھنے اور رکھنے کی کوشش کرنی ہوگی ،، وقت آئے گا عمر آئے گی تو سب نے اللہ کی طرف ھی لوٹ کر جانا ھے،، منہ لٹکا کر جینے سے اللہ تعالی خوش نہیں ھو جاتا !
 

شمشاد

لائبریرین
شہنشاہ اکبر کو دیکھ لیں ملکہ ممتاز سے کتنا عشق کرتا تھا کہ 14ویں بچے کی پیدا پر وہ مر گئی تو پیار کی یادگار تاج محل بنوا دیا۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
اس مراسلے کو ختم کر دیا گیا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بچی کے نامہ اعمال میں ڈهیر سارے "ناپسندیدہ" جمع ہو رہے تهے اور لوگوں کو بهی تهوڑی ٹنشن کا سامنا تها جو کہ مقصد نہیں تها! :)
براہ کرم اپنے اپنے "ناپسندیدہ" واپس لے لیں ہمیں ان کااچار پسند نہیں شکریہ :)
 
آخری تدوین:

ماہی احمد

لائبریرین
ویسے سنجیدگی برطرف میں سوچ رہی تھی یہ 43 فیصد یا تو ساسیں ہوں گی یا پھر پھاپھے کُٹنیاں یا وہ جن کی ابھی شادی ہی نہیں ہوئی :rollingonthefloor:
 

ماہی احمد

لائبریرین
وہ کون کون سی وجوہات ہوسکتی ہیں؟
وہ تمام باتیں جو ایک مومنہ کو زیب نہیں دیتیں، جو گھر میں فساد کا باعث ہوں، بچوں کی شخصیت پر غلط اثر ڈال رہی ہوں اور عورت انہیں قبول نہ کرے اور انہیں چھوڑنے پر راضی نہ ہو وغیرہ۔
ایسا کچھ حکم اسلام میں بھی ہے جہاں تک مجھے علم ہے۔
 

x boy

محفلین
وہ کون کون سی وجوہات ہوسکتی ہیں؟
بھائی جی کیا آپ کی شادی ہوگئی؟
اگر نہیں تو ایک "ضرورت رشتہ شادی گھر" کی لڑی شمشاد بھائی نے کھولی تھی اس میں ڈھونڈسکتے ہیں
%3Ft%3D20090304215722
 

ام اریبہ

محفلین
اس کا ایک حل ہے میرے پاس ۔
بیویوں کو چاہیے کہ مردوں کو دوسری شادی کرنے دیں اس سے پٹائی بھی تقسیم ہو جائے گی ۔ اگر تیسری کی اجازت بھی مل جائے تو پٹائی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی ۔ اس سے پیدا ہو گا ایک خوشحال گھرانہ۔
یعنی دنیا میں ہی جنت کے مزے۔







































































دعا کرنا میری "بے غم"اس مراسلے کو نہ پڑھے ورنہ خبر کا عنوان الٹا کرنا پڑے گا
میں تو اسے فون کرکے بتاوں گی نہ صرف بتاوں گی بلکہ اس کے ساتھ آپ کی "دوسری"شادی کی تیاری بھی کراوں گی
 
Top