مقفل مسجد میں بلند آواز میں آذان سے لوگ متحیر

رانا

محفلین
ایک بات یہ کہنا چاہوں گا کہ جو جنات کو نہیں مانتا اس پر کفریہ فتوے لگانے کی ضرورت نہیں۔ وہ نہیں مانتا اسکی مرضی آپ مانتے ہیں آپ کی مرضی۔ جبر تو ہے ہی نہیں۔ نہ ماننے والا اگر نہ ماننے کی وجوہات بتا رہا ہے تو غصہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ غصہ تو تب آنا چاہئے کہ اگر وہ کہے کہ نہیں میں نہیں مانتا اور وجہ بھی نہیں بتاؤں گا۔

بہرحال جنات کا ذکر کیوں کہ قرآن میں موجود ہے اس لئے مانے بغیر چارہ نہیں۔ کیوں کہ مسلمان کو اس بات میں نہیں پڑنا چاہئے کہ لیبارٹری میں ثابت ہوگی تو مانوں گا۔ قرآن نے جنات کا ذکر کیا ہے تو ماننا ہی پڑے گا۔ لیکن جو قرآن کا حوالہ دے کر زبردستی وہ چیز منوانا چاہتے ہیں جو ان کے ذہن میں ہے تو ان سے میں کہوں گا میں صرف وہی مانوں گا جو قرآن میں ہے، وہ نہیں مانوں گا جو آپ کے ذہن میں ہے کہ لنگوٹی پہنے ہوئے دو سینگوں والا عورتوں سے فلرٹ کرتا ہوا پکڑا جانے والا جن جو پکڑے جانے پر جب تک کسی عامل سے چھتر نہ پڑیں جان ہی نہیں چھوڑتا۔ ایسے جن کا نہ قرآن میں ذکر ہے نہ میں اسکا قائل ہوں۔ جو ایسے کو مانتے ہیں وہ قرآن سے ہی ثبوت دیں ورنہ دھونس زبردستی سے نہ منوائیں۔

عربی میں تو خوبصورت باپردہ عورتوں کو بھی جن کہا گیا ہے اب ایسے جن کو لیبارٹری سے باہر بھی ثابت کیا جاسکتاہے۔ پھر بڑے آدمیوں اور خاص کر متکبر آدمیوں کو جن کی ڈیوڑھیوں پر دربان ہوتےہیں کہ عوام الناس ان سے مل ہی نہیں سکتے ان کو بھی جن کہا گیا ہے۔ ایسے جنوں کا وجود بھی لیب سے باہر ہی نظر آجاتا ہے۔قرآن سے بھی کئی جگہ پتہ لگتا ہے کہ ایسے انسانوں کے لئے بھی جن کا لفظ بولا گیا ہے۔ پھر انسانی نگاہ سے اوجھل اور پوشیدہ نظر نہ آنے والی شے کو بھی جن کہا جاتا ہے لیکن اس کی خیالی تصویر اپنے ذہن میں بنانے کی ضرورت نہیں۔ ایک حدیث بھی ہے کہ ہڈیوں اور خشک گوبر سے استنجا نہ کیا کرو کیونکہ وہ جنوں کی خوراک ہیں۔ اس حدیث کی سچائی وہ لوگ زیادہ بہتر جان سکتے ہیں جو گاؤں دیہات کے ماحول میں رفع حاجت کو کبھی باہر گئے ہوں۔ کہ ایسے مواقع پر استنجا کرنے کو جو چیزیں سامنے نظر آتی ہیں ان میں پتھر، ہڈیاں وغیرہ نمایاں ہیں۔ ان تمام چیزوں میں سے جس چیز پر سب سے زیادہ جراثیم یا بیکٹریا ہوتےہیں وہ ہڈیاں ہیں۔ جن سے استنجا کرنے سے سخت نقصان اور بیماریوں کا اندیشہ ہے۔ اب بیکٹریا ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتے لیکن ان جنات کو لیبارٹری میں دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ یہاں ایک بات دلچسپ ہے کہ قرآن بھی کہتا ہے کہ انسان سے پہلے جنات کو سخت گرم ہوا کی آگ سے بنایا اور سائنسدان بھی زندگی کے آغاز میں تسلیم کرتے ہیں کہ ابتدائی جاندار یک خلوی یا بیکٹریا ہی تھے جو حرارت سے توانائی حاصل کرتے تھے۔بہرحال جنہیں سائنس کا ذکر پسند نہ ہو تو وہ اس بات کو نہ بھی مانیں لیکن ہڈیوں والی حدیث پر تو غور کرنا چاہئے۔ ان انسانی آنکھ سے اوجھل، ہڈیوں اورخشک گوبر پر گزارا کرنے والے بیکٹیریا کے لئے جن کے لفظ کا اطلاق تو بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ تو جب اصلی جنات موجود ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ خیالی جنات کی ذہن میں تصویر کشی کی جائے۔ ان کے علاوہ بھی جنات نام کی کوئی مخلوق ہوگی اور ضرور ہوگی عدم علم سے عدم شے تو لازم نہیں۔ اللہ نے بہت سی مخلوق بنائی ہے لیکن خدا کی مخلوق کو چھوڑ کر ہمیں اپنے ذہن میں بنائی گئی بھونڈی سے مخلوق پر ایمان لانے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے جس کو منوانے کی کوشش کرنے والوں نے کبھی خود بھی نہیں دیکھا ہوتا۔ صرف سنے سنائے قصے ہوتے ہیں۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سینکڑوں سالوں سے اتنے لوگ ان کا ذکر کرتے آئے ہیں تو ماننے کا امکان کھلا رکھنا چاہئے۔ اس پر ایک واقعہ یاد آگیا کافی عرصے پہلے پڑھا تھا۔غالبا تقسیم کے آس پاس کی بات ہے کہ ایک فرانسیسی لڑکی کو دورے پڑنے شروع ہوگئے اور دوروں کی حالت میں وہ جرمن زبان میں دعائیں پڑھنا شروع کردیتی۔ جبکہ وہ لڑکی جرمن زبان کا ایک حرف بھی نہ جانتی تھی۔ اب تو سب نے شور مچا دیا کہ جنات کے حملے میں اب کیا شک باقی رہا کہ اس لڑکی کو تو جرمن آتی ہی نہیں یہ تو فرانسیسی ہے۔ اب اس واقعے سے اندازہ لگائیں کہ یہ اگر کوئی ہزار دو ہزار سال پہلے ہوا ہوتا تو کس نام سے مشہور ہوتا۔ ظاہر ہے کہ ہزاروں نے اسے سالوں تک بیان کرتے چلے جانا تھا کہ فلاں جگہ اس لڑکی پر جن عاشق ہوئے تھے۔ لیکن یہ بیسویں صدی کا واقعہ تھا اور ستم یہ کہ علاج کرنے والے ڈاکٹروں میں سے ایک ایسا بھی تھا جو ہر چیز کو سائنسی بنیاد پر پرکھنے کاعادی تھا۔ اس نے اس کی کھوج لگانے کی ٹھانی اور پتہ لگایا کہ جب یہ لڑکی دو سال کی تھی تو اس کی ماں ایک جرمن پادری کے پاس چرچ میں کام کرتی تھی۔ اس نے اس پادری کا پتہ لگایا اور وہاں تک پہنچا تو پتہ لگا کہ اس کا تو انتقال ہوگیا ہے۔ اس نے پادری کے گھروالوں سے پادری کی پرانی چیزیں اور کاغذات وغیرہ دیکھنے کو خواہش کی تو اس کے پرانے کاغذات جو گھر والوں کے پاس محفوظ تھے وہ ڈاکٹر کو دکھائے گئے۔ اس ڈاکٹر نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کے لکھے ہوئے کاغذات میں وہی سرمن لکھی ہوئی ہیں جو وہ لڑکی دوروں کی حالت میں پڑھتی تھی۔ جب وہ پادری سرمن دے رہا ہوتاتو یہ بچی اس وقت قریب ہی جھولے وغیرہ میں پڑی ہوتی اور اس وقت کی سرمن اس کے ذہن کے گوشوں میں محفوظ تھی جو ان دوروں میں لاشعوری طور پر زبان پر آگئی۔ اس واقعے سے جنات کے حامیوں کو شائد دھچکا لگے لیکن دوسری طرف ان کے لئے ایک مثبت چیز یہ ہے کہ اسلام میں بچے کے پیدا ہوتے ہی کان میں اذان کہنے کا حکم ہے۔ اس حکم کی حکمت کا اس واقعے سے پتہ لگتا ہے کہ بچہ جب اس دنیا میں آجاتا ہے تو اس کا دماغ اب اس قابل ہے کہ اسکی اسی وقت سے تعلیم و تربیت کا خیال رکھا جائے ۔

ایک بات کسی نے یہ کہی کہ سائنس خدا کے وجود کو ثابت کرسکتی ہے۔ تو وہ خدا ہی کیا جس کو سائنس ثابت کربیٹھے۔ سائنس صرف ‘ہونا چاہے’ تک جاسکتی ہے۔ لیکن ‘ہے’ کے مرتبہ تک پہنچنا اس کی مجال نہیں۔ قرآن میں ہے کہ آنکھیں اس کو نہیں پاسکتیں البتہ وہ آنکھوں تک پہنچتا ہے۔ یعنی خدا خود ہی اپنا جلوہ دکھاتا ہے تو یقین کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے ورنہ ‘ہونا چاہئے’ سے آگے بات ہی نہیں بڑھ سکتی۔ یہ صرف انبیاء کا کام ہے کہ ان کے ذریعے خدا کا وجود ثابت ہوتا ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
ایک بات یہ کہنا چاہوں گا کہ جو جنات کو نہیں مانتا اس پر کفریہ فتوے لگانے کی ضرورت نہیں۔ وہ نہیں مانتا اسکی مرضی آپ مانتے ہیں آپ کی مرضی۔ جبر تو ہے ہی نہیں۔ نہ ماننے والا اگر نہ ماننے کی وجوہات بتا رہا ہے تو غصہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ غصہ تو تب آنا چاہئے کہ اگر وہ کہے کہ نہیں میں نہیں مانتا اور وجہ بھی نہیں بتاؤں گا۔

بہرحال جنات کا ذکر کیوں کہ قرآن میں موجود ہے اس لئے مانے بغیر چارہ نہیں۔ کیوں کہ مسلمان کو اس بات میں نہیں پڑنا چاہئے کہ لیبارٹری میں ثابت ہوگی تو مانوں گا۔ قرآن نے جنات کا ذکر کیا ہے تو ماننا ہی پڑے گا۔ لیکن جو قرآن کا حوالہ دے کر زبردستی وہ چیز منوانا چاہتے ہیں جو ان کے ذہن میں ہے تو ان سے میں کہوں گا میں صرف وہی مانوں گا جو قرآن میں ہے، وہ نہیں مانوں گا جو آپ کے ذہن میں ہے کہ لنگوٹی پہنے ہوئے دو سینگوں والا عورتوں سے فلرٹ کرتا ہوا پکڑا جانے والا جن جو پکڑے جانے پر جب تک کسی عامل سے چھتر نہ پڑیں جان ہی نہیں چھوڑتا۔ ایسے جن کا نہ قرآن میں ذکر ہے نہ میں اسکا قائل ہوں۔ جو ایسے کو مانتے ہیں وہ قرآن سے ہی ثبوت دیں ورنہ دھونس زبردستی سے نہ منوائیں۔

عربی میں تو خوبصورت باپردہ عورتوں کو بھی جن کہا گیا ہے اب ایسے جن کو لیبارٹری سے باہر بھی ثابت کیا جاسکتاہے۔ پھر بڑے آدمیوں اور خاص کر متکبر آدمیوں کو جن کی ڈیوڑھیوں پر دربان ہوتےہیں کہ عوام الناس ان سے مل ہی نہیں سکتے ان کو بھی جن کہا گیا ہے۔ ایسے جنوں کا وجود بھی لیب سے باہر ہی نظر آجاتا ہے۔قرآن سے بھی کئی جگہ پتہ لگتا ہے کہ ایسے انسانوں کے لئے بھی جن کا لفظ بولا گیا ہے۔ پھر انسانی نگاہ سے اوجھل اور پوشیدہ نظر نہ آنے والی شے کو بھی جن کہا جاتا ہے لیکن اس کی خیالی تصویر اپنے ذہن میں بنانے کی ضرورت نہیں۔ ایک حدیث بھی ہے کہ ہڈیوں اور خشک گوبر سے استنجا نہ کیا کرو کیونکہ وہ جنوں کی خوراک ہیں۔ اس حدیث کی سچائی وہ لوگ زیادہ بہتر جان سکتے ہیں جو گاؤں دیہات کے ماحول میں رفع حاجت کو کبھی باہر گئے ہوں۔ کہ ایسے مواقع پر استنجا کرنے کو جو چیزیں سامنے نظر آتی ہیں ان میں پتھر، ہڈیاں وغیرہ نمایاں ہیں۔ ان تمام چیزوں میں سے جس چیز پر سب سے زیادہ جراثیم یا بیکٹریا ہوتےہیں وہ ہڈیاں ہیں۔ جن سے استنجا کرنے سے سخت نقصان اور بیماریوں کا اندیشہ ہے۔ اب بیکٹریا ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتے لیکن ان جنات کو لیبارٹری میں دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ یہاں ایک بات دلچسپ ہے کہ قرآن بھی کہتا ہے کہ انسان سے پہلے جنات کو سخت گرم ہوا کی آگ سے بنایا اور سائنسدان بھی زندگی کے آغاز میں تسلیم کرتے ہیں کہ ابتدائی جاندار یک خلوی یا بیکٹریا ہی تھے جو حرارت سے توانائی حاصل کرتے تھے۔بہرحال جنہیں سائنس کا ذکر پسند نہ ہو تو وہ اس بات کو نہ بھی مانیں لیکن ہڈیوں والی حدیث پر تو غور کرنا چاہئے۔ ان انسانی آنکھ سے اوجھل، ہڈیوں اورخشک گوبر پر گزارا کرنے والے بیکٹیریا کے لئے جن کے لفظ کا اطلاق تو بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ تو جب اصلی جنات موجود ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ خیالی جنات کی ذہن میں تصویر کشی کی جائے۔ ان کے علاوہ بھی جنات نام کی کوئی مخلوق ہوگی اور ضرور ہوگی عدم علم سے عدم شے تو لازم نہیں۔ اللہ نے بہت سی مخلوق بنائی ہے لیکن خدا کی مخلوق کو چھوڑ کر ہمیں اپنے ذہن میں بنائی گئی بھونڈی سے مخلوق پر ایمان لانے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے جس کو منوانے کی کوشش کرنے والوں نے کبھی خود بھی نہیں دیکھا ہوتا۔ صرف سنے سنائے قصے ہوتے ہیں۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سینکڑوں سالوں سے اتنے لوگ ان کا ذکر کرتے آئے ہیں تو ماننے کا امکان کھلا رکھنا چاہئے۔ اس پر ایک واقعہ یاد آگیا کافی عرصے پہلے پڑھا تھا۔غالبا تقسیم کے آس پاس کی بات ہے کہ ایک فرانسیسی لڑکی کو دورے پڑنے شروع ہوگئے اور دوروں کی حالت میں وہ جرمن زبان میں دعائیں پڑھنا شروع کردیتی۔ جبکہ وہ لڑکی جرمن زبان کا ایک حرف بھی نہ جانتی تھی۔ اب تو سب نے شور مچا دیا کہ جنات کے حملے میں اب کیا شک باقی رہا کہ اس لڑکی کو تو جرمن آتی ہی نہیں یہ تو فرانسیسی ہے۔ اب اس واقعے سے اندازہ لگائیں کہ یہ اگر کوئی ہزار دو ہزار سال پہلے ہوا ہوتا تو کس نام سے مشہور ہوتا۔ ظاہر ہے کہ ہزاروں نے اسے سالوں تک بیان کرتے چلے جانا تھا کہ فلاں جگہ اس لڑکی پر جن عاشق ہوئے تھے۔ لیکن یہ بیسویں صدی کا واقعہ تھا اور ستم یہ کہ علاج کرنے والے ڈاکٹروں میں سے ایک ایسا بھی تھا جو ہر چیز کو سائنسی بنیاد پر پرکھنے کاعادی تھا۔ اس نے اس کی کھوج لگانے کی ٹھانی اور پتہ لگایا کہ جب یہ لڑکی دو سال کی تھی تو اس کی ماں ایک جرمن پادری کے پاس چرچ میں کام کرتی تھی۔ اس نے اس پادری کا پتہ لگایا اور وہاں تک پہنچا تو پتہ لگا کہ اس کا تو انتقال ہوگیا ہے۔ اس نے پادری کے گھروالوں سے پادری کی پرانی چیزیں اور کاغذات وغیرہ دیکھنے کو خواہش کی تو اس کے پرانے کاغذات جو گھر والوں کے پاس محفوظ تھے وہ ڈاکٹر کو دکھائے گئے۔ اس ڈاکٹر نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کے لکھے ہوئے کاغذات میں وہی سرمن لکھی ہوئی ہیں جو وہ لڑکی دوروں کی حالت میں پڑھتی تھی۔ جب وہ پادری سرمن دے رہا ہوتاتو یہ بچی اس وقت قریب ہی جھولے وغیرہ میں پڑی ہوتی اور اس وقت کی سرمن اس کے ذہن کے گوشوں میں محفوظ تھی جو ان دوروں میں لاشعوری طور پر زبان پر آگئی۔ اس واقعے سے جنات کے حامیوں کو شائد دھچکا لگے لیکن دوسری طرف ان کے لئے ایک مثبت چیز یہ ہے کہ اسلام میں بچے کے پیدا ہوتے ہی کان میں اذان کہنے کا حکم ہے۔ اس حکم کی حکمت کا اس واقعے سے پتہ لگتا ہے کہ بچہ جب اس دنیا میں آجاتا ہے تو اس کا دماغ اب اس قابل ہے کہ اسکی اسی وقت سے تعلیم و تربیت کا خیال رکھا جائے ۔

ایک بات کسی نے یہ کہی کہ سائنس خدا کے وجود کو ثابت کرسکتی ہے۔ تو وہ خدا ہی کیا جس کو سائنس ثابت کربیٹھے۔ سائنس صرف ‘ہونا چاہے’ تک جاسکتی ہے۔ لیکن ‘ہے’ کے مرتبہ تک پہنچنا اس کی مجال نہیں۔ قرآن میں ہے کہ آنکھیں اس کو نہیں پاسکتیں البتہ وہ آنکھوں تک پہنچتا ہے۔ یعنی خدا خود ہی اپنا جلوہ دکھاتا ہے تو یقین کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے ورنہ ‘ہونا چاہئے’ سے آگے بات ہی نہیں بڑھ سکتی۔ یہ صرف انبیاء کا کام ہے کہ ان کے ذریعے خدا کا وجود ثابت ہوتا ہے۔

بہت مفصل بات کی ہے آپ نے اللہ آپ کو جزا دے، بہرحال ہر انسان کو اپنا نقطہ نگاہ بطریق احسن پیش کرنے میں کوئی عار نہیں۔ کہ ہمارے دین میں بھی جبرکی کوئی جگہ نہیں۔ تاہم تضحیک کرنے سے دامن بچانا چاہیے۔ جیسے مثال کے طور پہ اگر مجھے خدا کے وجود کو سائنسی دلیلوں سے ثابت کرنے کی ذمہ داری دی جائے تو میرا کم علمی کے سبب میرا دامن خالی ہے کیونکہ سائنس کسی بگ بینگ کو مانتی ہے اور میں کن فیکون کو ۔۔سو اس خالی دامن کی بنیاد پر عقیدوں کی تضحیک تو کوئی احسن قدم نہیں؟؟؟ اور نہ ہی کسی پر کفر کے فتوے لگانے کا کسی کو اختیار ہے ہاں درست کو درست اور ٖغلط کو غلط کہنے کا حق تو ہر مہذب معاشرے کا قائدہ ہے
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
ہر وجود رکھنے والی شئے کا لیبارٹری میں مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔ ہم سب خواب دیکھتے ہیں لیکن کسی لیبارٹری میں یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ فلاں شخص اس وقت اگر خواب دیکھ رہا ہے تو کیا دیکھ رہا ہے کیونکہ کسی فرد کا خواب ایک سبجیکٹو ریالٹی ہے۔۔۔ لیبارٹری والے یہ دیکھ سکتے ہیں کہ خواب دیکھنے کے دوران کسی شخص کے کیا تاثرات ہوتے ہیں یا دماغ کے کونسے حصوں میں دوران خون کی مقدار کم یا زیادہ ہوتی ہے یا کونسے کیمیکل پھوٹتے ہیں لیکن اسکو کیا نظر آرہا ہے اور کیا محسوس ہورہا ہے، یہ لیبارٹری والے نہیں جانتے بلکہ اس تجربے سے گذرنے والا شخص ہی جانتا ہے۔۔۔ اور اگر اس سبجیکٹو ریالٹی کو ہر سائنسدان تسلیم کرتا ہے (کیونکہ یہ اسکے تجربے میں بھی ہے اور اسکے لئے نارمل بات ہے) تو پھر جنات نامی مخلوق یا فینامینن کو ایک سجیکٹو ریالٹی ماننے میں کیا پریشانی ہے۔۔۔ ۔۔اور دیکھا جائے تو یہاں ہر شئے کی پرسپشن سجیکٹو ہے۔اور اگر ہر زمانے میں ہر کلچر میں کافی لوگوں نے انکا مشاہدہ کرنے کا دعوی کیا ہو تو امکانات کے دائرے کو ذرا وسیع رکھنا چاہئیے۔۔
پہلی بات تو یہ کہ خواب اب سائنس سے کچھ اتنا دور نہیں رہے۔ خواب کیوں آتا ہے، کیسے آتا ہے، اس پر بہت کچھ موجود ہے اور بہت کچھ زیر تحقیق ہے۔ لہذا خواب کی حقیقت دلیل سے خالی نہیں۔ اور نہ ہی محض فرد کی پرسیپشن تک محدود ہے۔
اب مسئلہ رہا جن بابا کا۔۔۔
تو اگر تو آپ "جن" کو ایک "Alien" سمجھ لیں تو سائنس فی الوقت "خلائی مخلوق" کا انکار یا اقرار نہیں کر رہی۔ کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا۔ بلکہ سائنس اور سائنسدانوں کا رویہ اس پر بہت مثبت ہے۔ دوسری دنیاؤں میں زندگی تلاش کرنے کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں۔
کیا آپ "جن" (Alien) کے اس ورژن پر خوش ہیں ؟ :)
 

فاتح

لائبریرین
ہیں جی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ سردی کچھ بھی نہیں ہے ؟؟؟ تو پھر وہ کیا ہے جو کہ ہمیں لگتی ہے اور سی سی سی کی آوازیں منہ شریف سے برآمد ہونا شروع ہوجاتی ہیں ۔۔ویسے اگر سردی کچھ بھی نہیں ہے تو پھر اس کا وجود اور نام سردی چہ معنی دارد ؟؟؟ سیدھا سیدھا کہنا چاہے کم گرمی یا لو گرمی ۔۔۔
جس احساس کا نام ہم نے سردی رکھ لیا ہے وہ دراصل حرارت کی کمی ہی ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں کہ سورج دیگر کئی ستاروں کی نسبت بہت ٹھنڈا ہے حالانکہ اس کا درجۂ حرارت ساڑھے پانچ ہزار سینٹی گریڈ ہے تو دراصل ہم یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ سورج کم گرم ہے دیگر کئی ستاروں کی نسبت۔
اور ویسے بھی استاد محترم آپ نے میرے پورے سوال کا جواب نہیں دیا؟؟
آپ کا پورا سوال یہ تھا:
استاد محترم ایک سوال میرا بھی جسٹ فار حصول علم اگر گرمی انرجی ہے تو پھر سردی کیا ہے ؟؟؟ کیا وہ انرجی نہیں ؟ کیا اسے ہم انرجی نہیں کہہ سکتے اور یہ کہ گرمی یعنی انرجی کا اپوزٹ کیا ہے ؟؟ انرجی کا عدم وجود یعنی گرمی کا نہ ہونا یا پھر کچھ اور؟؟؟
اس کے دو حصے کر لیتے ہیں۔۔۔
اگر گرمی انرجی ہے تو پھر سردی کیا ہے ؟؟؟ کیا وہ انرجی نہیں ؟ کیا اسے ہم انرجی نہیں کہہ سکتے
اس حصے کا جواب دے چکا ہوں کہ سردی کچھ بھی نہیں۔۔۔
اور یہ کہ گرمی یعنی انرجی کا اپوزٹ کیا ہے ؟؟ انرجی کا عدم وجود یعنی گرمی کا نہ ہونا یا پھر کچھ اور؟؟؟
انرجی کا اپوزٹ ہم سردی کو نہیں کہہ سکتے کیوں کہ تھرمو ڈائنامکس کے اصولوں کے تحت مطلق صفر absolute zero درجۂ حرارت ممکن ہی نہیں اور ہم مطلق صفر یا ایبسلوٹ زیرو صرف اس کم ترین درجۂ حرارت کو کہتے ہیں جو موجود ہونا ممکن ہے۔
انرجی کا اپوزٹ کچھ نہیں جیسا کہ آپ کا یا میرا کوئی مطلق اپوزٹ نہیں۔۔۔ کوئی شے یا ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔۔۔ ہاں!کچھ تھیوریزپیش کی گئی ہیں جو نیگیٹو ماس یا نیگیٹو انرجی کا نظریہ پیش کرتی ہیں لیکن ان تھیوریز کو ابھی تک تجربات سے ثابت نہیں کیا جا سکا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یقیناََ آپ کو اس خبر کے اوریجن یا سورس کے بارے میں ضرور تفتیش کرنی چاہیے تھی، مگر جب تک تحقیق کے باوجود اسکی اصل نہ معلوم ہوتی ،آپکا بلا وجہ ہنسنا کیاpremature evaluation نہیں کہلائے گا؟
آپ یہ دیکھیئے کہ ایک علاقے کے مسلمان ہندو مسلم فسادات کی وجہ سے علاقہ چھوڑ گئے ہیں۔ اب مسجد سے اگر اذان بفرضِ محال سنائی بھی تو کیا وہ ہندو فرقے والے جنہوں نے بزورِ طاقت مسلمانوں کو بھگا دیا ہے، وہ اس کی تشہیر کرنا پسند کریں گے کہ مسلمانوں کی مسجد سے اذان ہو رہی ہے؟ کیا اس سورس کی تصدیق کے لئے مزید بھی کوئی عقلی دلیل درکار ہے؟
 

ابن رضا

لائبریرین
آپ یہ دیکھیئے کہ ایک علاقے کے مسلمان ہندو مسلم فسادات کی وجہ سے علاقہ چھوڑ گئے ہیں۔ اب مسجد سے اگر اذان بفرضِ محال سنائی بھی تو کیا وہ ہندو فرقے والے جنہوں نے بزورِ طاقت مسلمانوں کو بھگا دیا ہے، وہ اس کی تشہیر کرنا پسند کریں گے کہ مسلمانوں کی مسجد سے اذان ہو رہی ہے؟ کیا اس سورس کی تصدیق کے لئے مزید بھی کوئی عقلی دلیل درکار ہے؟
قیصرانی صاحب یہاں یہ بحث تمام ہو چکی کہ اذان کس نے دی کسی بشر نے کہ جن نے؟ بلکہ یہ بحث جاری ہے کے جن کا وجود ہے یا نہیں۔ رہی بات اذان کی تو توہم پرستی بھی شیاطین کے حیلے ہوتے ہیں سادہ لوح لوگوں کو ورغلانے کے اس لیے اللہ ہی جانے کے اذان کس نے دی۔ناہی ہمیں سنی سنائی بات پہ من و عن یقین کر لینا چاہیے کہ بعض اوقات آنکھوں دیکھا بھی سچ نہیں ہوتا
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی صاحب یہاں یہ بحث تمام ہو چکی کہ اذان کس نے دی کسی بشر نے کہ جن نے؟ بلکہ یہ بحث جاری ہے کے جن کا وجود ہے یا نہیں۔ رہی بات اذان کی تو توہم پرستی بھی شیاطین کے حیلے ہوتے ہیں سادہ لوح لوگوں کو ورغلانے کے اس لیے اللہ ہی جانے کے اذان کس نے دی۔ناہی ہمیں سنی سنائی بات پہ من و عن یقین کر لینا چاہیے کہ بعض اوقات آنکھوں دیکھا بھی سچ نہیں ہوتا
یہ بہتر ہے کہ
اذان دی بھی گئی کہ نہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائڈ اور ہوا وغیرہ matter یعنی مادہ ہی ہیں اور انہیں بہت آسانی سے لیبارٹری میں ثابت کیا جا سکتا ہے۔
گرمی انرجی ہے (اور سردی دراصل گرمی نام کی انرجی کی کمی کو کہتے ہیں) اور اسے بھی لیبارٹری میں ثابت کیا جا سکتا ہے۔
بُو (خوش بُو یا بد بُو) اور ذائقہ مادہ ہی ہیں یعنی کیمیکل کمپاؤنڈ سے خارج ہونے والے پارٹیکلز جو ہمارے آلفیکٹری سسٹم حسِ شامہ میں داخل ہوتے ہیں اور انہیں بھی لیبارٹری میں ثابت کیا جا سکتا ہے۔
پیرا نارمل نامی شےکو سائنس تسلیم نہیں کیا جاتا، نہ ہی اسے کسی سائنسی زمرے میں رکھا جاتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی ثابت کر سکا ہے۔
یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ سائنسی طور پر کسی شے کو تجربے سے ثابت کرنے کی ایک بنیادی شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ تجربہ بار بار دہرانے پر نتائج ایک سے آئیں۔
درجہ حرارت یا گرمی اور سردی بنیادی طور پر مالیکیولز کی حرکت کو کہتے ہیں۔ جب آپ مالیکیولز کی حرکت کو کم یا زیادہ کرتے ہیں تو درجہ حرارت کم یا زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ یعنی جب مالیکیولز ایک دوسرے سے زیادہ ٹکرائیں گے تو ایک دوسرے پر توانائی صرف کریں تو ہمیں وہ گرم جسم محسوس ہوگا اور جب یہ حرکت کم ہو جائے گی تو درجہ حرارت کم محسوس ہوگا۔ خلاء میں چونکہ مادہ نہ ہونے کے برابر موجود ہوتا ہے اس لئے وہاں درجہ حرارت انتہائی کم رہتا ہے :)
 

ابن رضا

لائبریرین
جو خدا کو نہیں مانتا وہ تو کہے گا کہ خدا کے ہونے کی دلیل لایئے تو مانوں :)
یہ تو شکر ہے کہ یہ بات قرانی سند ہے کہ جن و شیاطین بھی موجود ہیں اگر یہ حدیث کی بات ہوتی تو روایات اور راوی سے ابہام و اختلاف ہو سکتا تھا لیکن اس صورت میں ایسا نہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ تو شکر ہے کہ یہ بات قرانی سند ہے کہ جن و شیاطین بھی موجود ہیں اگر یہ حدیث کی بات ہوتی تو روایات اور راوی سے ابہام و اختلاف ہو سکتا تھا لیکن اس صورت میں ایسا نہیں۔
مسئلہ یہیں پیدا ہوتا ہے جو بندہ مسلمان ہی نہیں یا کسی مذہب کو نہیں مانتا، اسے کیسے سمجھایا جائے کہ بھئی سیدھی راہ پر آ جاؤ، ورنہ جن کھا جائے گا؟
 

فاتح

لائبریرین
درجہ حرارت یا گرمی اور سردی بنیادی طور پر مالیکیولز کی حرکت کو کہتے ہیں۔ جب آپ مالیکیولز کی حرکت کو کم یا زیادہ کرتے ہیں تو درجہ حرارت کم یا زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ یعنی جب مالیکیولز ایک دوسرے سے زیادہ ٹکرائیں گے تو ایک دوسرے پر توانائی صرف کریں تو ہمیں وہ گرم جسم محسوس ہوگا اور جب یہ حرکت کم ہو جائے گی تو درجہ حرارت کم محسوس ہوگا۔ خلاء میں چونکہ مادہ نہ ہونے کے برابر موجود ہوتا ہے اس لئے وہاں درجہ حرارت انتہائی کم رہتا ہے :)
بالکل! مالیکیولز اور ایٹمز کی حرکت سے حرارپیدا ہوتی ہے اور حرارت انرجی کی ایک قسم (تھرمل انرجی)ہے
 
Top