کہہ سکیں ان سے جو کہنا ہو ضروری تو نہیں
پوری ہر ایک تمنا ہو ضروری تو نہیں

محفلِ دل میں انھیں دیکھ کے پاتے ہیں سرور
ملنا اور پینا پلانا ہو ضروری تو نہیں

کیا بتاؤں انھیں اس اشک بہانے کا سبب
ہر بہانے کا بہانہ ہو ضروری تو نہیں

ان کی راہوں میں پڑے تکیہ کیے ہیں ان پر
سر کے نیچے بھی سرہانا ہو ضروری تو نہیں

اشک کا بحر ہے یہ شعر کی بحروں سے جدا
ہر سمندر کا دہانہ ہو ضروری تو نہیں

سرسری لطف اٹھا لو غزل و عشق کا تم
غالب و قیس کے جتنا ہو ضروری تو نہیں
 
کیا بتاؤں انھیں اس اشک بہانے کا سبب
ہر بہانے کا بہانہ ہو ضروری تو نہیں

ان کی راہوں میں پڑے تکیہ کیے ہیں ان پر
سر کے نیچے بھی سرہانا ہو ضروری تو نہیں
واہ واہ
 
کیا بتاؤں انھیں اس اشک بہانے کا سبب
ہر بہانے کا بہانہ ہو ضروری تو نہیں
یہ شعر مجھے بہت اچھا لگا ۔
مبارک مبارک
بہت داد
 
کیا بتاؤں انھیں اس اشک بہانے کا سبب
ہر بہانے کا بہانہ ہو ضروری تو نہیں
یہ شعر مجھے بہت اچھا لگا ۔
مبارک مبارک
بہت داد
بہت شکریہ جناب پسندیدگی کا۔
جزاکم اللہ خیرا۔
مگر مجھے تو اصلاح کا انتظار ہے، کاش کسی استاد کا یہاں گزر ہوجائے، ٹیگ اس لیے نہیں کرتا کہ اساتذہ کی قیمتی مصروفیات اس بے ربط و بے معنی تک بندی کی وجہ سے متاثر نہ ہوں۔
 
قوافی ذرا قابل توجہ ہیں
ہر بہانے کی ببجائے کچھ بہانے کیسا دہے گا؟
جی استاد صاحب ۔۔۔ ”کچھ بہانے“ زیادہ اچھا لگ رہا ہے، بلکہ اب تو مجھے یہی درست لگ رہا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
قوافی میں حرف روی ”الف“ ہے۔
 
قوافی گو کہ درست ہیں۔ البتہ اولی یہ ہے کہ مطلع میں ایک مصرعے سے نون کی قید ہٹا دی جائے۔ تمنا کی بجائے ایسا، پہلا، مداوا وغیرہ کو قافیہ کرلیں۔
 
قوافی مجے غلط ہی لگ رہے ہیں۔ مزمل شیخ بسمل کیا کہتے ہیں؟
قوافی گو کہ درست ہیں۔ البتہ اولی یہ ہے کہ مطلع میں ایک مصرعے سے نون کی قید ہٹا دی جائے۔ تمنا کی بجائے ایسا، پہلا، مداوا وغیرہ کو قافیہ کرلیں۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
قوافی گو کہ درست ہیں۔ البتہ اولی یہ ہے کہ مطلع میں ایک مصرعے سے نون کی قید ہٹا دی جائے۔ تمنا کی بجائے ایسا، پہلا، مداوا وغیرہ کو قافیہ کرلیں۔
یوں کرلوں؟
کہہ سکیں ان سے جو کہنا ہو ضروری تو نہیں
پورا ہر ایک ارادہ ہو ضروری تو نہیں
 
Top