عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
روگی کو عشق کے اب اُس دن شفا ملے گی
جس دن کو خاک اس کی مٹی میں جا ملے گی

آئیں گے روتے روتے دینے ہمیں تسلی
جن کی ہنسی سے ہم کو ہمت سدا ملے گی

ہم کو یقین ہے گر اس کو بھلائے رکھا
ہم سے ہماری ہستی محشر میں آ ملے گی

جب تک سنو گے اس کی تب تک تو ہے تمہاری
جس دن کہو گے اپنی دنیا خفا ملے گی

دل میں ہمارے جاناں تیرے ہیں درد ایسے
جن کی ترے ہی در سے ہم کو دوا ملے گی

نیت کا کھیل ہے سب کہنا یہ کارواں سے
رستہ ہے ایک جیسا منزل جدا ملے گی

تم نے عظیم دیکھو جرمِ وفا کیا ہے
جب تک ہے سانس باقی تب تک سزا ملے گی
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
آنکھ سے ہم لہو بہائیں کیوں
خود پہ اتنا بھی ظلم ڈھائیں کیوں

تم ہمارے نہیں ہوئے، لیکن
جگ سے رشتہ نہ ہم نبھائیں کیوں


دکھ رہا ہے جنوں میں جو منظر
عقل والے وہ دیکھ پائیں کیوں

وہ جو بگڑے ہماری باتوں سے
اُن رقیبوں سے مان جائیں کیوں

گور عاشق کی ہے مگر یاں سب
خود پرستی میں ڈوبے آئیں کیوں

قاصدوں نے نہ اُن کو پہنچائے
خط ہمارے جواب لائیں کیوں

خاک چہرے پہ آئینوں سے ہم
گرد جاکر بھی اب اُڑائیں کیوں

دشمنی خود سے جب ہماری ہے
مرنے دیں خود کو ہم بچائیں کیوں

گھر نہیں یہ مزار ہے اپنا
تم جو آو تو ہم سجائیں کیوں

عید کے دن جو تم نہیں آئے
بن ترے عید ہم منائیں کیوں

ہم عظیم اس ہی کشمکش میں ہیں
اک غزل روز گنگنائیں کیوں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اصلاح کی ضرورت نہیں لیکن کوئی خاص غزل بھی نہیں

بے حد شکریہ محترم
درست فرمایا آپ نے غزل میں ایسی کوئی خاص بات نہیں
مگر اک کامیاب مشق ثابت ہوئی تکنیکی اعتبار سے
جیسا کہ آپ نے فرمایا اصلاح کی ضرورت نہیں یہی کافی ہے میرے لیئے
اللہ سبحان و تعالی آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے
آمین
 
دکھ رہا ہے جنوں میں جو منظر
عقل والے وہ دیکھ پائیں کیوں



ہم عظیم اس ہی کشمکش میں ہیں
اک غزل روز گنگنائیں کیوں

دِکھنا بمعنی نظر آنا اردو میں مستعمل نہیں ہے
دکھائی دینا، دِکھانا، دِکھاوا وغیرہ تو ضرور ہیں۔

اسی طرح مقطع کے پہلے مصرع کو یوں کردیجیےتو ؟؟
ہم عظیم ایسی کشمکش میں ہیں​
 

عظیم

محفلین
جب تک کہ اُس کے نام کا غلبہ زمانے پر نہ ہو
تب تک خدا سے عہد کر کافر کا اُونچا سر نہ ہو

ممکن ہے میری زندگی میں آ ہی جائے وہ گھڑی
جس پل کو میرے واسطے اُس کا بھی کھلتا در نہ ہو

اب سوچتا ہوں کیا مرے لفظوں میں کوئی ہے کمی
محبوب تک لے جائے خط راضی ہی نامہ بر نہ ہو

خود سے میں اپنے آپ میں ملتا رہا برسوں مگر
لیکن نجانے کیوں مرا کم خود سے ملتے ڈر نہ ہو

منظر نگاری آہ کیوں جاتی ہے میری رائیگاں
جس کو بناوں لفظ میں ناقص وہی منظر نہ ہو

کہنا عظیم اُس معتبر سے تُم نے سوچاہے کبھی
عزت یہی ذلت تمہاری واں سرِ محشر نہ ہو

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
رنج و غم سارے بھلانے کو ہمارا جی کرے
اک خوشی کا گیت گانے کو ہمارا جی کرے

چھوڑ کر آئے تھے اِس کے واسطے ہم جو گلی
اُس گلی میں لوٹ جانے کو ہمارا جی کرے

تم قریب آو نہ، آئے ہو جب اپنی لاش کو
اپنے کاندھوں پر اُٹھانے کو ہمارا جی کرے

بد نصیبی ہائے اپنی جو نظر آتا نہیں
اس سے ہی نظریں ملانے کو ہمارا جی کرے

جس کی خوشبو نے ہماری ہم سے خوشبو چھین لی
وہ چمن اپنا جلانے کو ہمارا جی کرے

نفرتیں جب کر رہی ہیں چاہتوں کا خاتمہ
کیوں کسی سے چاہے جانے کو ہمارا جی کرے

ہو کے رہتا ہے جو ہونا ہے مقدر میں لکھا
بس یونہی رونے رلانے کو ہمارا جی کرے

کیا کریں اب تو عظیم اُن کی بھی سننی پڑ گئی
جن کو بس اپنی سنانے کو ہمارا جی کرے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
عزیزم، تمہاری شاعری میں عروضی اسقام تو نہیں نظر آتے۔ لیکن الفاظ کی نشست اکثر اوبڑ کھابڑ ہوتی ہے۔ یا کبھی مفہوم اتنا عام ہوتا ہے کہ شعر کو محض قبول کیا جا سکتا ہے، تعریف نہیں کی جا سکتی۔
الفاظ کی نشست کی مثال۔۔
خود سے میں اپنے آپ میں ملتا رہا برسوں مگر
لیکن نجانے کیوں مرا کم خود سے ملتے ڈر نہ ہو
اس کی نثر یوں ہو گی۔
میں (اپنے آپ میں) خود سے برسوں ملتا رہا مگر۔۔۔۔ (پہلے مصرع میں اپنے آپ میں زائد ہے۔
لیکن نجانے کیوں خود سے ملتے مرا ڈر کم نہ ہو
اصل دوسرے مصرع میں الفاظ کی نشست کتنی خراب ہے، اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔

اس غزل میں اصل خرابی زمین کی ہے، یعنی قوافی اور ردیف ہی ایسے ہیں کہ زبان کا درست استعمال نہیں ہو سکتا۔
محمد یعقوب آسی
مزمل شیخ بسمل
شوکت پرویز
 

عظیم

محفلین
عزیزم، تمہاری شاعری میں عروضی اسقام تو نہیں نظر آتے۔ لیکن الفاظ کی نشست اکثر اوبڑ کھابڑ ہوتی ہے۔ یا کبھی مفہوم اتنا عام ہوتا ہے کہ شعر کو محض قبول کیا جا سکتا ہے، تعریف نہیں کی جا سکتی۔
الفاظ کی نشست کی مثال۔۔
خود سے میں اپنے آپ میں ملتا رہا برسوں مگر
لیکن نجانے کیوں مرا کم خود سے ملتے ڈر نہ ہو
اس کی نثر یوں ہو گی۔
میں (اپنے آپ میں) خود سے برسوں ملتا رہا مگر۔۔۔ ۔ (پہلے مصرع میں اپنے آپ میں زائد ہے۔
لیکن نجانے کیوں خود سے ملتے مرا ڈر کم نہ ہو
اصل دوسرے مصرع میں الفاظ کی نشست کتنی خراب ہے، اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔

اس غزل میں اصل خرابی زمین کی ہے، یعنی قوافی اور ردیف ہی ایسے ہیں کہ زبان کا درست استعمال نہیں ہو سکتا۔
محمد یعقوب آسی
مزمل شیخ بسمل
شوکت پرویز


جی بجا فرمایا آپ نے
الفاط کی نشست پر میرا قابو نہیں رہتا البتہ کوشش ضرور کرتا ہوں
اگر اللہ نے چاہا تو یہ سب خامیاں بھی جلد دور ہو جائیں گی
میں اس فن میں بلکل نیا ہوں اور آج تک کسی استاد سے بھی کم و بیش محروم ہی رہا
اسی لیئے شاید صرف عروض تک ہی محدود ہوں
اگرآپ یونہی میری غلطیوں کی نشاندہی فرماتے رہے تو انشا اللہ جلد ایسا لکھنا شروع کر دونگا جس کی تعریف بھی کی جاسکے
اللہ سبحان و تعالی آپ کو اپنی رحمتوں کی پناہ میں رکھے
آمین
 
آخری تدوین:
محترمی جناب الف عین صاحب کا ارشاد توجہ طلب ہے کہ ردیف اور قوافی غزل کی فضا بنانے میں اور مضامین کی حدود کے تعین میں بہت اہم ہوتے ہیں۔ مجھے کمی ایک اور حوالے سے محسوس ہو رہی ہے۔ کہ فاضل شاعر ( عظیم شہزاد ) اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور کام نہیں لے رہے۔ قافیہ بہت کھلا ہے اور اس میں متنوع مضامین لائے جا سکتے ہیں۔ غزل کے محاسن و معائب پر دیگر احباب بھی گفتگو کریں گے، اگرچہ جناب الف عین کے بعد کچھ کہنے کو کم ہی بچا کرتا ہے۔

مصرعے کی لمبائی بھی (جسے عرفِ عام میں ہم چھوٹی بحر یا بڑی بحر کہہ دیتے ہیں) آپ پر کچھ پابندیاں لگاتی ہے، ایک مضمون ایسا ہے کہ آپ کو زیادہ الفاظ چاہئیں، آپ کے پاس بحر چھوٹی ہے، وہاں مشکل ہو جاتی ہے۔ ایسے میں آپ دو شعروں میں بھی ایک مضمون بیان کر سکتے ہیں (یعنی غزل کے اندر قطعہ)۔ مضمون مختصر الفاظ کا متقاضی ہے اور آپ کے پاس بحر لمبی ہے تو آپ کو بھرتی کے الفاظ لانے پڑتے ہیں جس سے شعر کی گیرائی متأثر ہوتی ہے۔

ایسے میں آپ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ بسیط مضامین اور مختصر مضامین کو الگ الگ نظم کر لیں، ایک کی بجائے دو، تین غزلیں چل پڑیں، سب میں شعر کہتے چلے جائیں، بعد میں قطع و برید کر کے غزلوں کو مکمل کر لیجئے۔ اور ہاں میں نے شعر گوئی کے لئے کبھی خود پر جبر نہیں کیا۔ تنہا فن کاری کی بنا پر آپ اچھا شعر کہہ بھی سکتے ہیں، تاہم وہ جو دل سے نکلی ہوئی بات ہوتی ہے اس کی کمی بہرحال محسوس ہوا کرتی ہے۔ لفظی بازی گری اور صنائع کی اہمیت بجا تاہم اصل چیز وہ بات، وہ مضمون، وہ پیغام، وہ محسوسات ہیں جس میں آپ اپنے قاری یا سامع کو شریک کر رہے ہیں، اور بنیادی اہمیت بھی اسی کی ہے (لفظ خیال کے تابع ہونا چاہئے نہ کہ خیال لفظ کے تابع)۔

خوش رہئے، اور اس فقیر کو دعا دیجئے۔
 
بڑے استاد جی الف عین کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ جناب عظیم شہزاد صاحب گو کہ میری طرح بہت زبردست موزوں طبع انسان ہیں۔ مگر الفاظ و تراکیب، نشست و برخواست، فصاحت اور بلاغت میں قواعد کو کافی اوپر نیچے یا آگے پیچھے کر گئے ہیں۔ چلیں پوری غزل پر اپنی رائے لکھ دیتا ہوں۔ امید ہے کہ اساتذہ اور خود شاعر ہماری جسارت کو ناگوار نہیں محسوس فرمائیں گے۔

جب تک کہ اُس کے نام کا غلبہ زمانے پر نہ ہو
تب تک خدا سے عہد کر کافر کا اُونچا سر نہ ہو
//کس کے نام کا غلبہ ؟ اور خدا سے عہد ”کرنا“ سے مراد؟ یہاں عہد لینا تو کسی حد تک درست ہوتا لیکن اس صورت میں تو بالکل درست نہیں ہے۔ ترتیب بھی مجروح ہے۔ ”کافر کا انچا سر ہونا“ یا ”کافر کا سر اونچا ہونا“؟ پھر شعر مبہم ہے، کچھ وضاحت ہو تو مزید کہوں۔

ممکن ہے میری زندگی میں آ ہی جائے وہ گھڑی
جس پل کو میرے واسطے اُس کا بھی کھلتا در نہ ہو
//اتنے آسان الفاظ بھی ابلاغ سے خالی ہیں۔ غالباً یہ مالک الملک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ میری زندگی میں وہ گھڑی آنا بھی ممکن ہے جس گھڑی میرے مالک کا در بھی میرے لئے بند ہوجائے۔ یا اگر غیر حقیقی شعر ہے تو اس شعر کے وجود سے عدم ہی بہتر تھا۔ عموماً مجازی اشعار کے لئے یہ مضمون باندھا نہیں جاتا۔ وضاحت مطلوب ہے۔

اب سوچتا ہوں کیا مرے لفظوں میں کوئی ہے کمی
محبوب تک لے جائے خط راضی ہی نامہ بر نہ ہو
// پہلی ہی قرات میں لفظ ”ناما بر“ بہت چبھا ہے۔ بہر حال۔ کچھ بہتر صوت یہ تھی:
شاید مرے الفاظ میں کچھ عیب ہے جو خط مرا
محبوب تک لے جانے کو راضی ہی نامہ بر نہ ہو۔
جب کہ اور بہتری بھی ممکن ہے۔ البتہ مضمون کوئی خاص نہیں۔

خود سے میں اپنے آپ میں ملتا رہا برسوں مگر
لیکن نجانے کیوں مرا کم خود سے ملتے ڈر نہ ہو
//شعر کوئی ایسا نہیں کہ جس کی درستی کے لئے محنت کی جائے۔ لیکن مشق کے لئے الفاظ اور گرائمر کو درست کرنا اور توجہ کرنا بہر حال ضروری ہے۔ بڑے استاد جی کی بات پر ایک مزید اضافے کی جرات کر رہا ہوں: پہلے مصرعے کے آخر میں لفظ ”مگرۙ“ موجود ہے، پھر بھی دوسرا مصرع ”لیکن“ سے شروع ہورہا ہے، ایسا کیوں؟

منظر نگاری آہ کیوں جاتی ہے میری رائیگاں
جس کو بناوں لفظ میں ناقص وہی منظر نہ ہو
//دونوں مصرعوں میں آپس میں ہی اختلاف ہے۔ جب آپ کو شکایت یہ ہے کہ میری منظر نگاری ضائع جاتی ہے پھر اگلے مصرعے میں اس دعوے کی نفی ”ناقص وہی منظر نہ ہو“ یہ وہی تاکید کا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس منظر کو آپ لفظ بناتے ہیں وہ ناقص نہیں ہوتا، پھر پہلے مصرعے کے مطابق آپ کی منظر نگاری کیوں رائیگاں جاتی ہے؟ دوسرے مصرعے کو مزید وضاحت کے ساتھ کہیں۔

کہنا عظیم اُس معتبر سے تُم نے سوچاہے کبھی
عزت یہی ذلت تمہاری واں سرِ محشر نہ ہو
//اس معتبر۔۔۔۔؟ معتبر خالص اسمِ صفت ہے جو اپنے ساتھ ایک اسم چاہتا ہے۔ پھر یہاں اس لفظ کا محل بھی میرے کوڑھ مغز میں نہیں سما رہا۔ شاید اس معتبر سے آپ کی مراد اطمینان یا مطمئن شخص سے ہے، جس کو سرِ محشر پیش ہونے کا خوف نہیں۔
دوسرا مصرع پھر تعقیدِ لفظی کا شکار ہے۔

شاعر کو کوشش کی ضرورت ہے، مشورہ یہ ہے کہ مایوس نہ ہوں، آپ نے بہت اچھی غزل کہی ہے۔ لکھتے رہیں، اور اصلاح کرواتے رہیں۔ اغلاط سے پاک کوئی نہیں ہے، اس لئے تنقید اور دوسروں کی آراء کو اپنے لئے سیڑھی بنائیں، دیوار مت بنائیں۔
 
بہت مفید بات کی ہے جناب مزمل شیخ بسمل نے:

شاعر کو کوشش کی ضرورت ہے، مشورہ یہ ہے کہ مایوس نہ ہوں، آپ نے بہت اچھی غزل کہی ہے۔ لکھتے رہیں، اور اصلاح کرواتے رہیں۔ اغلاط سے پاک کوئی نہیں ہے، اس لئے تنقید اور دوسروں کی آراء کو اپنے لئے سیڑھی بنائیں، دیوار مت بنائیں۔

اس کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیے گا۔
 
Top