فلک شیر
محفلین
وہ بھی کیا دن تھے کہ لوگوں سے جدا رہتے تھے ہم
شام ہوتے ہی الگ دنیا میں جا رہتے تھے ہم
دھوپ سہتے تھے مگن رہتے تھے اپنی موج میں
دوسروں کے سائے سے بچ کر ذرا رہتے تھے ہم
زخم تازہ تھا، نگر بھی بے سبب آباد تھا
ایک تجھ کو چھوڑ کر سب سے خفا رہتے تھے ہم
اُس گلی تک چھوڑ آتے تھے ہر اک رہ گیر کو
جی ہی جی میں اِس قدر پُر ماجرا رہتے تھے ہم
لوگ افسانے سناتے تھے جو، اُن کے آس پاس
اک حقیقت تھی کہ جس میں مبتلا رہتے تھے ہم
بین کرتی تھی ہوا، پانی پہ مرتی تھی ہوا
تھی یہ دریا کی گزرگہ جس جگہ رہتے تھے ہم
اِتنی آوازیں کہ یکدم گونجنے لگتا تھا دِل
ایک لمحے کے لیے خاموش کیا رہتے تھے ہم