بارے نقشے کے کچھ معلومات درکار ہیں

یہ شعبہ تو جناب الف عین کا ہے، جناب قیصرانی صاحب۔ اور یہ بہت لمبا سلسلہ ہے

میرا حصہ یہاں صرف اتنا ہے کہ جو بات مجھے مشکل سے سمجھ میں آئی، سوچا دوسروں کے لئے آسان بنا کر پیش کر دوں۔
آپ کے حسنِ ظن پر ممنون ہوں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ شعبہ تو جناب الف عین کا ہے، جناب قیصرانی صاحب۔ اور یہ بہت لمبا سلسلہ ہے

میرا حصہ یہاں صرف اتنا ہے کہ جو بات مجھے مشکل سے سمجھ میں آئی، سوچا دوسروں کے لئے آسان بنا کر پیش کر دوں۔
آپ کے حسنِ ظن پر ممنون ہوں۔
آپ کی کرم نوازی ہے محترم
 
سال کے 365 دن ہوتے ہیں۔ ادھر مکمل دائرہ 360 ڈگری کا ہوتا ہے۔
گلوب کو قطبین کے لحاظ سے (شرقاً غرباً) 360 ڈگری (خطوط طول بلد) میں اسی مناسبت سے تقسیم کیا گیا۔
 
تفصیلی حسابات اس سے کہیں زیادہ باریک ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ’’سورج اور چاند پکے حساب پر ہیں‘‘۔ انسان اس پکے حساب کے کچھ حصے کو جان چکا ہے اور بہت کچھ کا جاننا ابھی باقی ہے۔ جوں جوں سائنسی معلومات بڑھتی جا رہی ہیں، اس حساب کے پکا ہونے کا ادراک بڑھتا جا رہا ہے۔
کبھی موقع ملا تو زمین، چاند، سورج کے بارے میں زندگی کے عام مشاہدے پر (بہت زیادہ سائنسی تفصیلات میں جائے بغیر) بات کریں گے۔
ان شاء اللہ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
سال کے 365 دن ہوتے ہیں۔ ادھر مکمل دائرہ 360 ڈگری کا ہوتا ہے۔
گلوب کو قطبین کے لحاظ سے (شرقاً غرباً) 360 ڈگری (خطوط طول بلد) میں اسی مناسبت سے تقسیم کیا گیا۔
تفصیلی حسابات اس سے کہیں زیادہ باریک ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ’’سورج اور چاند پکے حساب پر ہیں‘‘۔ انسان اس پکے حساب کے کچھ حصے کو جان چکا ہے اور بہت کچھ کا جاننا ابھی باقی ہے۔ جوں جوں سائنسی معلومات بڑھتی جا رہی ہیں، اس حساب کے پکا ہونے کا ادراک بڑھتا جا رہا ہے۔
کبھی موقع ملا تو زمین، چاند، سورج کے بارے میں زندگی کے عام مشاہدے پر (بہت زیادہ سائنسی تفصیلات میں جائے بغیر) بات کریں گے۔
ان شاء اللہ۔
محترم اتنی مشکل معلومات کو اتنا آسان کر کے پیش کر رہے ہیں۔ جزاک اللہ :)
 
زمین سورج کے گرد ایک ’’مناسب‘‘ فاصلے پر (تقریباً نو کروڑ میل) اپنے مقررہ راستے (مدار) پر 365 دن، 6 گھنٹے اور کچھ منٹ میں ایک چکر پورا کرتی ہے۔ اسی دوران اپنے محور پر 365 بار پورا گھوم جاتی ہے۔ ایک بار پورا گھوم جانا ایک دن رات ہوا، یوں سال 365 دن کا ہوا۔
اب وہ جو فرق رہ گیا 6 گھنٹے اور کچھ منٹ کا، اس کا کیا ہو؟ چار سال میں یہ فرق تقریباً 24 گھنٹے کا ہوا۔ سو، ہم نے ہر چار سال میں ایک دن بڑھا لیا، یعنی فروری کو 28 کی بجائے 29 دن کا کر لیا۔ یوں حساب تقریباً برابر ہو گیا، بالکل برابر کا معاملہ ایڈوانس سٹڈیز میں جاتا ہے۔
 
اب ذرا قریب آ کر دیکھتے ہیں۔ زمین کا ننھا سا ہمسایہ چاند!
اس کو ’’چندا ماموں‘‘ کیوں کہا گیا؟ اس کا جواب سائنسی نہ سہی دل چسپ ضرور ہے۔
چاند کو زمین کا چھوٹا بھائی کہہ لیجئے، زمین کو ماں بھی کہا جاتا ہے! سو، چاند میاں اپنے ’’چندا ماموں‘‘ ہوئے نا!
 
یہ چاند میاں اپنی ’’اپیا‘‘ سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ اس کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں، مگر ’’تھوڑا سا‘‘ فاصلہ رکھ کر (صرف 8 لاکھ میل)۔ ڈرتے ہیں قریب آئے تو اپیا ڈانٹ دیں گی۔
 
ایک اور مزے کی بات!
ہم دیکھتے ہیں کہ چاند بھی سورج کی طرح مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں غروب ہوتا ہے۔
مغرب تو ہے ہی ایسا! وہاں ساری روشن اقدار غروب ہو جاتی ہیں۔

حقیقت میں چاند زمین کے گرد زمین کے حساب سے مشرق کی طرف سفر کرتا ہے۔ اور اپنا ایک چکر زمین کے ساڑھے اٹھائیس دن میں پورا کرتا ہے۔ تو پھر یہ ہمیں مغرب کی طرف جاتا ہوا کیوں دکھائی دیتا ہے؟
اس کا جواب آگے آتا ہے۔
 
آپ نے ریل گاڑی میں کئی بار سفر کیا ہو گا۔ ریل گاڑی کی کھڑکی سے ہمیں یوں لگتا ہے جیسے ہمارے دائیں بائیں کی چیزیں حتٰی کہ درخت بھی پیچھے کو ’’بھاگ‘‘ رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ چندا مامون اور اس کی اپیا کا ہے۔
حساب کو ذرا آسان کر لیتے ہیں۔ فرض کیجئے چاند کا زمین کے گرد چکر 30 دن کا ہے تو وہ ایک دن (24 گھنٹے) میں زمین کے حساب سے مشرق کی طرف 12 ڈگری کا سفر کیا۔ جب کہ اسی دوران زمین پوری 360 ڈگری گھوم گئی۔ تو ہمیں چاند لازماً پیچھے کی طرف بھاگتا ہی دکھائی دے گا، نا!
 
Top