کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا ۔ جرأت

فرخ منظور

لائبریرین
کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا
خواب میں آنے کی بھی تم نے قسم کھائی کیا

اُس کا گھر چھوڑ کے ہم تو نہ کسی در پہ گئے
پر سمجھتا ہے اسے وہ بتِ ہرجائی کیا

سنتے ہی جس کے ہوئی جان ہوا تن سے مرے
اس گلی سے یہ خبر بادِ صبا لائی کیا

واہ میں اور نہ آنے کو کہوں گا، توبہ!
میں تو حیراں ہوں یہ بات آپ نے فرمائی کیا

بہہ چلا چشم سے یک بار جو اک دریا سا
بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانے یہ لہر آئی کیا

حرفِ مطلب کو مرے سن کے بہ صد ناز کہا
"ہم سمجھتے نہیں، بکتا ہے تو سودائی کیا"

شیخ جی ہم تو ہیں ناداں، پر اُسے آنے دو
ہم بھی پوچھیں گے ہوئی آپ کی دانائی کیا

کیفیت محفلِ خوباں کہ نہ اُس بن پوچھو
اُس کو دیکھوں نہ تو پھر دے مجھے دکھلائی کیا

آج دم اپنا ٹھہرتا نہیں کیا جانیے آہ!
مصلحت لوگوں نے واں بیٹھ کے ٹھہرائی کیا

قطعہ
بر میں وہ شوخ تھا اور سیرِ شبِ ماہ تھی رات
اپنے گھر کیا کہیں، تھی انجمن آرائی کیا

پر گیا صبح سے وہ گھر تو یہی دھڑکا ہے
دیکھیں آج اس کے عوض لے شبِ تنہائی کیا

دیکھنے کا جو کروں اُس کے میں دعویٰ جرأت
مجھ میں جرأت یہ کہاں اور مری بینائی کیا

(شیخ قلندر بخش جرأت)
 

طارق شاہ

محفلین
دیکھنے کا جو کروں اُس کے میں دعویٰ جرأت
مجھ میں جرأت یہ کہاں اور مری بینائی کیا
کیا ہی اچھا ہے !

تشکّر شیئر کرنے پر!
بہت خوش رہیں
 

سید زبیر

محفلین
فرخ منظور صاحب ! خوبصورت کلام شریک محفل کرنے کا بہت شکریہ
بہہ چلا چشم سے یک بار جو اک دریا سا
بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانے یہ لہر آئی کیا
کیا بات ہے
 
Top