جرأت

  1. فرخ منظور

    غافل نہ رہیو اُس سے تو اے یار آج کل ۔ جرأت

    غافل نہ رہیو اُس سے تو اے یار آج کل مرتا ہے تیرے عشق کا بیمار آج کل کیا جانیں کیا کرے گا وہ خونخوار آج کل رکھتا بہت ہے ہاتھ میں تلوار آج کل جو ہے سو آہ عشق کا بیمار ہے دلا پھیلا ہے بے طرح سے یہ آزار آج کل اُس دوست کے لئے ترے دشمن ہیں سینکڑوں اے دل! ٹک اک پہر تو خبردار آج کل یوسف کسی...
  2. فرخ منظور

    کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا ۔ جرأت

    کون دیکھے گا بھلا اس میں ہے رسوائی کیا خواب میں آنے کی بھی تم نے قسم کھائی کیا اُس کا گھر چھوڑ کے ہم تو نہ کسی در پہ گئے پر سمجھتا ہے اسے وہ بتِ ہرجائی کیا سنتے ہی جس کے ہوئی جان ہوا تن سے مرے اس گلی سے یہ خبر بادِ صبا لائی کیا واہ میں اور نہ آنے کو کہوں گا، توبہ! میں تو حیراں ہوں یہ بات...
  3. فرخ منظور

    مثلِ آئینہ باصفا ہیں ہم ۔ جرأت

    مثلِ آئینہ باصفا ہیں ہم دیکھنے ہی کے آشنا ہیں ہم نہیں دونوں جہاں سے کام ہمیں اِک فقط تیرے مبتلا ہیں ہم دیکھ سائے کی طرح اے پیارے! ساتھ تیرے ہیں اور جدا ہیں ہم ٹک تو کر رحم اے بتِ بے رحم آخرش بندۂ خدا ہیں ہم ظلم پر اور ظلم کرتے ہو اس قدر قابلِ جفا ہیں ہم؟ جوں صبا نام کو تو ہیں ہم لوگ...
  4. فرخ منظور

    اس ڈھب سے کیا کیجیے ملاقات کہیں اور ۔ جراْت

    اس ڈھب سے کیا کیجے ملاقات کہیں اور دن کو تو ملو ہم سے، رہو رات کہیں اور کیا بات کوئی اُس بتِ عیّار کی سمجھے بولے ہے جو ہم سے تو اشارات کہیں اور اس ابر میں پاؤں مَیں کہاں دخترِ رز کو رہتی ہے مدام اب تو وہ بد ذات کہیں اور گھر اُس کو بُلا، نذر کیا دل تو وہ جرأت بولا کہ یہ بس کیجے مدارات کہیں...
Top