شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

صدائیں ایک سی، یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں !
ذرا سا مُختلف جِس نے پُکارا ، یا د رہتا ہے

عدِیؔم ہاشمی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

سِسکیوں نے چار سُو دیکھا کوئی ڈھارس نہ تھی
ایک تنہائی تھی، اُس کی گود میں سر رکھ لِیا


عدِیؔم ہاشمی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

جُرم تو کوئی نہیں سرزَد ہُوا ،مجھ سے حضُور
با وجُود اِس کے ،سزا تسلیم کر لیتا ہُوں مَیں

عبدالحمید عدؔم
 

طارق شاہ

محفلین

ڈسا کرتی ہے فرش ِخواب پر اُن کی کھنک اکثر
کبھی توڑی تھیں فرطِ شوق میں جو چُوڑیاں مَیں نے

ٹپکتی ہیں دِلِ صد پارہ سے، اب خُون کی بوندیں
پِیے تھے ہائے کیوں رنگِیں لبوں سے بوستاں مَیں نے

جوشؔ ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

مِرے آگے ، وہ شب روزِ قیامت بن کر آئی ہے
گُزاری تھی جو ساحِل پر بدوشِ کہکشاں میں نے

لَدَا ہے سر پہ اندھیارا ، کہ کیوں ذرّات کے لب سے !
ہزاروں آفتابوں کی سُنی تھی داستاں مَیں نے

جوشؔ ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

مقام ، فیضؔ! کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کُوئے یار سے نِکلے، تو سوُئے دار چلے

فیضؔ صاحب
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

ایک تو تھا آتشِ سوزاں بَدَنِ سُرخ تِرا
شُعلہ بر شُعلہ ہُوا پیرَہَنِ سُرخ تِرا

خواجہ حیدر علی آتؔش
 

طارق شاہ

محفلین

آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اُٹھ بھی کھڑے ہُوئے
مَیں جا ہی ڈھونڈھتا تِری محفِل میں رہ گیا

خواجہ حیدر علی آتؔش
 

طارق شاہ

محفلین

اِک برق سرِ طوُر ہے لہرائی ہُوئی سی
دیکھی تِرے ہونٹوں پہ ہنسی آئی ہُوئی سی

فانؔی بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین

اُس نگاہِ شرمگیں نے کریا رُسوا ہَمَیں
ہائے وہ افسوں جو آخر کو فسانہ ہوگیا

رضا علی وحشؔت
 
Top