حسان خان

لائبریرین
گر زکاتی بِدهی زان لبِ شیرین چه زیان
نیکوان را ز سرِ لُطف عطا نیز بُوَد
(خواجه نجم‌الدین زرکوب تبریزی)
اگر تم اُس لبِ شیریں سے کوئی زکات دے دو تو کیا زیاں؟ خُوبوں میں از راہِ لُطف عطا بھی ہوتی ہے۔

حُسین نجفی 'شادی' نے مندرجۂ بالا بیت کا منظوم تُرکی ترجمہ یوں کیا ہے:
وئر زكات بال دۏداغېندان بو گدایا گه‌گاه

یاخشې‌لاردا گؤزه‌لیم لُطف و عطا دا تاپېلار
اپنے شہد جیسے لبِ [شیریں] سے اِس گدا کو گاہ گاہ زکات دیا کرو۔۔۔۔ اے میرے [محبوبِ] زیبا! خُوبوں میں لطف و عطا بھی پائی جاتی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آیینه را سیاه کند با غبار بحث
گو آسمان مکن به منِ خاکسار بحث
(صائب تبریزی)

غُبار کے ساتھ بحث و نِزاع آئینے کو سیاہ کر دیتا ہے؛ آسمان سے کہو کہ مجھ خاکسار سے بحث و نِزاع مت کرے۔
 
حسان خان صاحب آپ نے ایک جگہ میرزا قتیل کے ذکر میں ان کے تصحیح شدہ دیوان کا ذکر کیا ہے۔ یہ دیوان آپ نے کہاں دیکھا۔ اگر ممکن ہو تو مطلع فرمائیں شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
منت پذیرِ دولتِ عشقم کہ از ازل
غم بر غمم فزود و الم بر الم نہاد


ابوالفیض فیضی دکنی

میں دولت و مملکتِ عشق کے احسان (خندہ پیشانی سے) قبول کرنے والا ہوں کہ ازل ہی سے (اُس نے) میرے غموں پر غم بڑھا دیئے اور رنج و الم پر مزید رنج و الم رکھ دیئے۔
 
داد از که ستانم که به درگاهِ خدا هم
پرسش نبود کشتهِ ابروی بتان را
(قتیل لاهوری)

حق کس سے لوں کہ درگاہِ خدا میں بھی محبوب کے ابرؤوں کے مقتول سے بھی پرسش نہیں کی جاتی۔
 
آنانکه گذشتند ز سرِ بر سرِ کویت
عمرِ ابد از خنجرِ برانِ تو یابند
(قتیل لاهوری)

وہ لوگ جو تیرے کوچے سے گزرتے ہیں، تیرے خنجرِ براں سے عمرِ جاویداں حاصل کرلیتے ہیں۔
 
صد شکر ای مسیح که رویش ندیده‌ای
گویی خدا نصیبِ تو عمرِ دوباره کرد
(قتیل لاهوری)

صد سپاس ہو اے مسیح کہ تو نے اس(محبوب) کا چہرہ نہیں دیکھا۔ گویا خدا نے تیری قسمت میں عمرِ دوبارہ لکھ دی ہے۔
 
به دوزخ می‌زند پهلو بهشت از آهِ گرمِ من
چو در خلدِ برینم کوچهِ او یاد می‌آید
(قتیل لاهوری)

جب مجھے خُلدِ برین میں اس کے کوچے کی یاد آئے گی تو میری آہِ گرم سے بہشت(بھی جل کر) دوزخ کے ساتھ برابری کرے گی۔
 
چو بر عنوانِ مکتوبِ تو مهرِ دیگران بینم
فتد آتش ز دودِ آهِ من در خرمنِ کاغذ
(قتیل لاهوری)

جب میں تیرے خط کے عنوان پر کسی اور کی مُہر دیکھتا ہوں تو میری آہ کے دُود سے آتش کاغذ کے خرمن پر لگ جاتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای که برایِ دردِ من فکرِ علاج کرده‌ای
مُردنم از خدا طلب رنجه مکن حکیم را
(سلطان سلیم خان اول)
اے کہ تم نے میرے درد کے لیے علاج کی فکر کی ہے؛ خدا سے میری موت طلب کرو، [بے فائدہ] طبیب کو رنج مت دو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
التفاتی بِکُن از بهرِ خدا سویِ رهی
پادشه را نظری سویِ گدا نیز بُوَد
(خواجه نجم‌الدین زرکوب تبریزی)
[اِس] غلام کی جانب از بہرِ خدا ذرا التفات کرو۔۔۔ پادشاہ کی اِک نظر و توجّہ گدا کی جانب بھی ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گر رهی عاشقِ بالایِ تو شد، عیبی نیست
این متاعی‌ست که در شهرِ شما نیز بُوَد
(خواجه نجم‌الدین زرکوب تبریزی)

اگر مسافر تمہاری قامتِ بالا کا عاشق ہو گیا تو کوئی عیب نہیں ہے؛ یہ وہ متاع ہے جو آپ کے شہر میں بھی پائی جاتی ہے۔

(یعنی تمہارے خود کے شہر میں بھی مردُم تمہاری قامتِ بالا کے عاشق ہیں۔)
 

حسان خان

لائبریرین
داد از که ستانم که به درگاهِ خدا هم
پرسش نبود کشتهِ ابروی بتان را
(قتیل لاهوری)

حق کس سے لوں کہ درگاہِ خدا میں بھی محبوب کے ابرؤوں کے مقتول سے بھی پرسش نہیں کی جاتی۔
میں نے بیتِ ہٰذا کا یہ ترجمہ کیا ہے:
میں انصاف کس سے حاصل کروں کہ خدا کی درگاہ میں بھی ابروئے خُوباں کے مقتول کے بارے میں بازپُرس نہیں ہوتی۔

جو عاشق خود ہی کشتۂ ناحق ہو، اُس سے بازپُرس یا سوال انصاف نہیں کہلائے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
دید تا عکسِ خطِ سبزِ تو در چشمِ ترم
شده از شرم نهان سبزهٔ کشمیر در آب
(قتیل لاهوری)

جب سے اُس نے میری چشمِ تر میں تمہارے خطِ سبز کا عکس دیکھا ہے، سبزۂ کشمیر شرم سے آب میں نہاں ہو گیا ہے۔
 
Top