حسان خان

لائبریرین
هرگز از یادِ منِ خسته فراموش نشد
آنکه هرگز نتواند که مرا یاد کند

وحدی مراغه‌ای)
مجھ خستہ کی یاد سے ہرگز فراموش نہ ہوا
وہ [محبوب]، کہ ہرگز مجھے یاد نہیں کر پاتا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هجر داغی‌ست که گر بر جگرِ کوه نهند
سنگ بر سینه زنان آید و فریاد کند
(اوحدی مراغه‌ای)

ہجر ایک ایسا داغ ہے کہ اگر اُسے کوہ کے جگر پر رکھا جائے تو وہ [بھی خود کے] سینے پر سنگ مارتا ہوا آئے اور فریاد کرے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هیچ کس نیست که از یارِ سفرکردهٔ من
بِرساند خبری خیر و دلم شاد کند
(اوحدی مراغه‌ای)

کوئی شخص [ایسا] موجود نہیں ہے کہ جو میرے سفر پر گئے ہوئے یار کے بارے میں کوئی خبرِ خیر پہنچائے اور میرے دل کو شاد کرے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آنکه خونِ دلِ من ریخت ز بیداد و بِرفت
کاج باز آید و خون ریزد و بیداد کند
(اوحدی مراغه‌ای)

جس [یار] نے ظلم سے میرے دل کا خون بہایا اور چلا گیا۔۔۔ اے کاش کہ وہ واپس آ جائے اور [دوبارہ] خون بہائے اور ظلم کرے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز انتظار بتر در جهان بلایی نیست
نمی‌کنید وفا وعدهٔ وفا مکنید
(محمد فضولی بغدادی)

دنیا میں انتظار سے بدتر کوئی بلا نہیں ہے؛ [اگر] آپ وفا نہیں کرتے، وعدۂ وفا مت کیجے۔
 

حسان خان

لائبریرین
رقیب از ره و رسمِ وفاست بیگانه
ز بهرِ خاطرِ او ترکِ آشنا مکنید
(محمد فضولی بغدادی)

رقیب وفا کی راہ و رسم سے بیگانہ ہے؛ اُس کی خاطر آشنا کو ترک مت کیجیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
در لباس از خونِ بلبل جامہ رنگیں می کند
ہر کہ صائب می زند بر گوشہء دستار گُل


صائب تبریزی

(اصل میں) بلبل کے خون سے اپنے لباس میں جامے کو رنگین کرتا ہے، اے صائب، ہر وہ کہ جو( ٹہنی سے توڑ کر) اپنے گوشہء دستار میں پھول سجاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خلیفۂ عثمانی سلطان سلیمان قانونی کی مدح میں کہے گئے ایک تُرکی قصیدے میں محمد فضولی بغدادی کہتے ہیں:
عرصهٔ دیوانِ حُکمش نُسخهٔ دیوانِ حشر

کافر آن جا مُضطر و مقهور، مسلم رستگار
(محمد فضولی بغدادی)
اُس کے حُکم کے احتساب خانے کا میدان، احتساب خانۂ روزِ حشر کا نمونہ ہے؛ [یعنی] کافر وہاں مُضطر و مقہور، [جبکہ] مسلمان نجات یافتہ ہے۔

× مذکورہ تُرکی قصیدے میں سات فارسی ابیات بھی شامل ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاہ عبّاس صفوی کی فتحِ بغداد کے موقع پر کہا گیا قطعۂ تاریخ:

شاہِ عبّاس که از پرتَوِ عدل و احسان

بهرِ او فتح و ظفر گشته مهیّا امروز
مُلکِ بغداد مسخّر شدش و شد مفتوح
بر رُخِ او دری از عرشِ معلّا امروز
مَیِ تاریخ چو در جام فِشُردم گفتم
"باطنِ شاهِ نجف کرد مددها امروز"
۱۰۳۳ھ


ترجمہ:
شاہ عبّاس، کہ جس کے لیے اِمروز عدل و احسان کی روشنی سے فتح و ظفر مہیّا ہو گئی ہے۔
اِمروز مُلکِ بغداد اُس کے لیے مُسخّر ہو گیا اور عرشِ مُعلّا سے ایک در اُس کے رُخ کی جانب کھل گیا۔
میں نے جب جام میں شرابِ تاریخ نچوڑی تو میں نے کہا: "شاہِ نجف (حضرتِ علی رض) کے باطن نے اِمروز اِمداد کی۔"


× قطعۂ مذکور کے شاعر کا نام قطعی طور پر معلوم نہیں ہے، لیکن ایک احتمال ہے کہ یہ قطعہ 'روح‌الله بن محمد همدانی' کا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
می خواہد اینکہ در رہِ رندی قدم نہد
زاہد کہ ہم بہ شیوۂ تقویٰ تمام نیست


علامہ شبلی نعمانی

چاہتا ہے کہ راہِ رندی میں قدم رکھے، وہ زاہد کہ جو (ابھی) شیوۂ تقویٰ میں بھی مکمل نہیں ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
با نے گفتم کہ بر تو بیداد ز کیست
بی‌ہیچ زیان نالہ و فریاد تو چیست
گفتا کہ ز شکرے برید ند مرا
بےنالہ و فریاد نمیدانم زیست

#مولانا
میں نے نے سے کہا کہ تجھ پر یہ کس کا ستم ہے ؟
تیرا کسی زیاں کے بغیر یہ نالہ و فریاد کیا ہے ؟
کہا " مجھے میرے نیستاں سے توڑ کیا گیا ہے
سو میری زندگی نالہ وفریاد کے سوا کچھ نہیں"
 

حسان خان

لائبریرین
خلیفۂ عثمانی سلطان سلیمان قانونی کی مدح میں کہے گئے ایک تُرکی قصیدے میں محمد فضولی بغدادی کہتے ہیں:
کارگاهِ لُطف و قهرش مظهرِ نار و نعیم

مؤمن آنجا مُنعم و خوش‌وقت، مُنکِر خوار و زار
(محمد فضولی بغدادی)
اُس کی کارگاہِ لطف و قہر، [عذابِ] نار و نعمتِ [جنّت] کا مظہر ہے؛ [یعنی] مؤمن وہاں نعمت یافتہ اور خوش حال، [جبکہ] منکر خوار و زار ہے۔

× مذکورہ تُرکی قصیدے میں سات فارسی ابیات بھی شامل ہیں۔
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
از بزرگِ بے ہنر، طفلِ ہنر ور بہتر است
سنگِ کوہستاں کجا ہمسنگِ قدرِ گوہر است


غلام علی مداح

بے ہنر بزرگ سے، ہنر مند بچہ بہتر ہے۔ (جیسے کہ) پہاڑوں کا (بڑا سا) پتھر قدر و قیمت میں (ایک چھوٹے سے) گوہر کے کہاں برابر ہوتا ہے۔
واہ!! بہت خوب!!
 

حسان خان

لائبریرین
عاشقین گؤز یاشېنا رحم ائیله‌مز اۏل آفتاب
آغلاماق ایله آپارماز اۏد الیندن جان، کباب

(صائب تبریزی)
وہ آفتاب (یعنی وہ مثلِ آفتاب معشوق) عاشق کے اشکوں پر رحم نہیں کرتا۔۔۔ گریہ کرنے سے کباب، آتش کے دست سے اپنی جان کو خلاصی نہیں دلا دیتا۔
(یعنی گریہ کرنے کے باوجود کباب آتش سے بچا نہیں رہ جاتا، کیونکہ آتش کو کباب کے اِس گریے پر رحم نہیں آتا اور بالآخر کباب کی 'جان' چلی جاتی ہے۔)

× آتش پر پکانے کے دوران کباب سے جو قطراتِ چربی خارج ہوتے ہیں اُنہیں مجازاً 'اشکِ کباب' کہا جاتا ہے۔

Aşiqin göz yaşına rǝhm eylǝmǝz ol afitab
Ağlamaq ilǝ aparmaz od ǝlindǝn can kǝbab


× چند ویب گاہوں اور نُسخوں میں 'آغلاماق' (گریستن/گریہ کرنا) کی بجائے 'یېغلېماق/yığlımaq' نظر آیا ہے، جو 'آغلاماق' ہی کی ایک قدیمی شکل ہے۔
حُسین محمدزادہ صدیق نے صائب تبریزی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کا منظوم فارسی ترجمہ یوں کیا ہے:
بر سِرِشکِ چشمِ عاشق رحم نارد آفتاب
جان ز آتش کَی رَهاند با دو صد گریه، کباب؟!

آفتاب [جیسا معشوق] عاشق کی چشم کے اشک پر رحم نہیں کھاتا۔۔۔ کباب، دو صد بار گریہ کرنے [کے باوجود] کب [اپنی] جان کو آتش سے نجات دلا پاتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
عبدالرحمٰن جامی کی ایک فارسی نعت کے مطلع پر عثمانی شاعر سلیمان افندی نحیفی کی تُرکی تخمیس:
حسرتِ درگاهِ فخرِ عالَم ایله دم به دم

دل‌ده داغِ اشتیاق و دیدهٔ گریان‌دا دم
تا به کَی بیهوده گشتِ دشتِ محنت ائیله‌یم
کَی بُوَد یا رب که عزمِ یثرب و بطحا کنم
گه به مکّه منزل و گه در مدینه جا کنم
(سلیمان افندی نحیفی)
فخرِ عالَم (ص) کی درگاہ کی حسرت سے ہر دم [میرے] دل میں داغِ اشتیاق، اور [میرے] دیدۂ گریاں میں خون [رہتا] ہے؛ میں کب تک بے فائدہ و ناحق دشتِ رنج کی گشت کرتا رہوں؟ یا رب! [یہ] کب ہو گا کہ میں یثرب و بطحا کا ارادہ کروں گا، [اور] گاہے مکّہ میں منزل کروں گا اور گاہے مدینہ میں جا کروں گا۔

مأخذ: تذکرهٔ باغچهٔ صفااندوز، اسعد محمد افندی

پس نوشت: سلیمان افندی نحیفی کے تصحیح شدہ دیوان میں مندرجۂ بالا تُرکی بند کا مندرجۂ ذیل متن نظر آیا ہے، اور اِسے ہی مُرجّح سمجھنا چاہیے:
حسرتِ درگاهِ فخرِ عالَم ایله دم به دم
دل‌ده داغِ اشتیاق و دیدهٔ گریان‌دا نم
تا به کَی بیهوده گشتِ دشتِ محنت ائیله‌یم
کَی بُوَد یا رب که رُو در یثرب و بطحا کنم
گه به مکّه منزل و گه در مدینه جا کنم

(سلیمان افندی نحیفی)

فخرِ عالَم (ص) کی درگاہ کی حسرت سے ہر دم [میرے] دل میں داغِ اشتیاق، اور [میرے] دیدۂ گریاں میں نمی [رہتی] ہے؛ میں کب تک بے فائدہ و ناحق دشتِ رنج کی گشت کرتا رہوں؟ یا رب! [یہ] کب ہو گا کہ میں یثرب و بطحا کی جانب رُخ کروں گا، [اور] گاہے مکّہ میں منزل کروں گا اور گاہے مدینہ میں جا کروں گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ایرانی شاعر احمد سلطانی کی نظم 'در وداعِ ماہِ صیام' سے ایک بند:
الوداع ای ماهِ پُرفیضِ عنایاتِ خدا
ای ز تو روشن همه احکام و آیاتِ خدا
وی ز تو گُلشن همه ارض و سماواتِ خدا
در تو نازل گشت قرآن و علاماتِ خدا
ای تو شافع بر گنه‌کاران به روزِ رستخیز
(احمد سلطانی)

الوداع اے عنایاتِ خدا سے پُرفیض ماہ! اے کہ تمام احکام و آیاتِ خدا تم سے روشن ہیں؛ اور اے کہ تمام ارض و سماواتِ خدا تمہارے باعث گُلشن ہیں؛ تم میں قرآن و علاماتِ خدا نازل ہوئیں؛ اے کہ تم بروزِ قیامت گناہ کاروں کے شافع ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گربہ کویت خاک گردم نیست غم، لیکن غم است
کز سرِ کویت بخواہد باد برد ایں خاک را


امیر خسروؒ

اگر میں تیرے کوچے میں خاک ہو جاؤں تو کوئی غم نہیں ہے، بلکہ غم تو یہ ہے کہ ہوا تیرے کوچے سے اِس خاک کو اُڑا کر لے جانا چاہے گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
گربہ کویت خاک گردم نیست غم، لیکن غم است
کز سرِ کویت بخواہد باد برد ایں خاک را


امیر خسروؒ

اگر میں تیرے کوچے میں خاک ہو جاؤں تو کوئی غم نہیں ہے، بلکہ غم تو یہ ہے کہ ہوا تیرے کوچے سے اِس خاک کو اُڑا کر لے جانا چاہے گی۔
ترجمہ درست ہے، لیکن میرا گمان ہے کہ مصرعِ ثانی میں 'خواستن' 'چاہنے' کے معنی میں نہیں، بلکہ زمانۂ مستقبل کا مفہوم دینے کے لیے بروئے کار لائے جانے والے کُمَکی فعل کے طور پر استعمال ہوا ہے اور یہاں 'خواهد' سے قبل متصّل ہونے والا 'با' صرف تزئینی ہے، یا پھر تأکید کے لیے استعمال ہوا ہے۔۔ یعنی ترجمہ یہ ہو گا: کہ ہوا تیرے کوچے سے اِس خاک کو اُڑا کر لے جائے گی۔

"چنانکه دست به دست آمده‌ست مُلک به ما
به دست‌هایِ دگر همچنین بِخواهد رفت"

(سعدی شیرازی)
جس طرح [یہ] پادشاہی دست بہ دست [منتقل ہوتے ہوئے] ہمارے پاس آئی ہے، اُسی طرح [ہی] یہ دیگروں کے دست میں چلی جائے گی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
در بهارِ زمانه برگی نیست
که نه بادِ خَزان بِخواهد بُرد
(انوری ابیوَردی)

بہارِ زمانہ میں کوئی [ایسا] برگ نہیں ہے کہ جسے بادِ خزاں نہیں لے جائے گی۔

(یعنی بادِ خزاں بلااستثناء ہر برگ کو لے جائے گی۔)
 

حسان خان

لائبریرین
فریاد! که جانم به لب آمد ز تحیُّر
حَرفی نشنیدم ز لبِ روح‌فَزایت
(محمد فضولی بغدادی)
فریاد! کہ حیرانی و تحیُّر سے میری جان لب پر آ گئی، [لیکن اِس کے باوجود] میں نے تمہارے لبِ روح افزا سے کوئی حَرف نہ سنا۔
 
Top