حسان خان

لائبریرین
ای بی‌کسی به خاکِ لحد دررسیده‌ایم
عُقبیٰ به ما رسید نه دنیا به ما رسید
(غلام قادر گرامی)
اے وائے بے کسی! ہم خاکِ لحد کے پاس تک پہنچ گئے ہیں، [لیکن نہ تو] آخرت ہم تک پہنچی اور نہ دنیا ہم تک پہنچی۔
(یعنی ہم دنیا و آخرت ہر دو سے بے بہرہ رہے۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مولانا جلال‌الدین رومی کی ایک غزل کی دو ابیات:
سو به سو گشتم که تا طفلِ دلم خامُش شود

طفل خُسپد چون بِجُنباند کسی گهواره را
طفلِ دل را شِیر دِه ما را ز گردش وارَهان
ای تو چاره کرده هر دم صد چو من بی‌چاره را
(مولانا جلال‌الدین رومی)
میں سُو بہ سُو گھوما پھرا کہ تاکہ میرا طفلِ دل خاموش ہو جائے؛ جب کوئی شخص گہوارے کو ہلاتا ہے تو طفل سو جاتا ہے؛ اے کہ تم نے ہر لمحہ مجھ جیسے صدہا بے چاروں کا چارہ کیا ہے، [ہمارے] طفلِ دل کو شِیر دو [اور] ہم کو گردش سے نجات دلا دو۔
× شِیر = دودھ
 

حسان خان

لائبریرین
تو وفا را مجو در این زندان
که در این جا وفا نکرد وفا
(مولانا جلال‌الدین رومی)

تم اِس زندانِ [دنیا] میں وفا کو مت تلاش کرو، کہ اِس جا تو وفا نے [بھی] وفا نہیں کی۔
 
سالی دو عید مردمِ هشیار می‌کنند
در هر پیاله عیدِ دگر می‌کنیم ما
(صایب تبریزی)

ہشیار مردم ایک سال میں دو عید کرتے ہیں (جبکہ) ہم ہر (شراب کے) پیالے کو نوش کرکے ایک اور عید کرتے ہیں۔
 
عالمی در جلوه و عاشق نبیند غیرِ دوست
گر ز مجنون پرسی، اندر کاروان محمل یکی‌ست
(عرفی شیرازی)

ایک دنیا جلوے میں ہے(جلوہ گر ہے) ولے عاشق دوست کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتا ہے۔اگر تم مجنون سے پرسش کرو (تو اسے یہی نظر آئے گا کہ پورے) کاروان میں محمل ایک(لیلیٰ کا) ہی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از مُلا مُظفر حُسین

زاہد بہ کرم تُرا چو ما نشناسد
بیگانہ ترا چو آشنا نشناسد
گفتی کہ گنہ مکن کہ من قہارم
ایں را بہ کسے گو کہ ترا نشناسد


زاہد، تجھے اُس طرح نہیں جانتا جس طرح ہم تجھے تیرے لطف و کرم سے جانتے ہیں، اور کوئی بیگانہ تجھے اُس طرح نہیں جانتا جس طرح آشنا جانتا ہے۔ تُو نے کہا کہ گناہ مت کر کہ میں قہار ہوں، (اے خدا) یہ اُس سے کہہ کہ جو تجھے (اور تیرے فضل و لطف و کرم کو) نہیں جانتا۔
 
آن دل که پریشان شود از ناله‌ی بلبل
در دامنش آویز که با وی خبری هست
(عرفی شیرازی)

وہ دل، کہ جو بلبل کے نالے سے پریشان ہوتا ہے، اس کے دامن کے ساتھ آویزاں رہ کہ اس (دل) کے پاس کوئی خبر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
در عشقِ تو نه سیم و نه زر می‌باید
اینجا لبِ خشک و چشمِ تر می‌باید
با این شب و روز کامِ دل نتْوان یافت
روزِ دگر و شبِ دگر می‌باید
(رشید کاشانی)
تمہارے عشق میں نہ سِیم اور نہ زر لازم ہیں؛ [بلکہ] یہاں تو لبِ خشک و چشمِ تر لازم ہیں؛ اِن شب و روز کے ساتھ دل کی مراد حاصل نہیں کی جا سکتی؛ [کوئی] روزِ دیگر اور [کوئی] شبِ دیگر لازم ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
کارِ غلَطی کردم، کز یار جدا گشتم
ای کاش که می‌مُردم، وین کار نمی‌کردم
(حیاتی کاشی)

میں نے ایک غلط کام کیا کہ میں یار سے جدا ہو گیا؛ اے کاش کہ میں مر جاتا اور یہ کام نہ کرتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مُردیم ز غیرت، که نه شمعی و چراغی
در بزمِ تو آمدشُدِ پروانه چرا بود؟
(درکی قُمی)
ہم غیرت و رشک سے مر گئے، کہ تم نہ شمع ہو اور [نہ] چراغ ہو؛ [پس] تمہاری بزم میں پروانے کی آمد و رفت کس لیے تھی؟
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
ظہور عشق ز ما خاکیاں غریب مداں
کز ابرہائے سیہ، برق در وجود آید
استاذ صائب تبریزی۔
ہم جیسے خاکیوں سے عشق کا شعلہ ظاہر ہو تو عجب نہیں۔
دیکھو یہ بجلیاں بھی تو سیاہ بادلوں ہی سے نکلتی ہیں ۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
(رباعی)
در عشقِ تو نه سیم و نه زر می‌باید
اینجا لبِ خشک و چشمِ تر می‌باید
با این شب و روز کامِ دل نتْوان یافت
روزِ دگر و شبِ دگر می‌باید
(رشید کاشانی)
تمہارے عشق میں نہ سِیم اور نہ زر لازم ہیں؛ [بلکہ] یہاں تو لبِ خشک و چشمِ تر لازم ہیں؛ اِن شب و روز کے ساتھ دل کی مراد حاصل نہیں کی جا سکتی؛ [کوئی] روزِ دیگر اور [کوئی] شبِ دیگر لازم ہیں۔
روز دیگر اور شب دیگر سے کیا مراد ہے یہاں ؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جو شب و روز اہلِ دل پر گزرتے ہیں وہ محرومِ عشق کے شب و روز سے یکسر متفاوت ہوتے ہیں ، یہی مراد ہیں یہاں ، اور کچھ نہیں ۔
جیسا کہ کہا گیا کہ ۔
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا۔کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا۔
سنگ و خشت سے بنے جہاں اور عشق کے جہاں کا تفاوت بھی وہی ہے جو یہاں کاشانی نے ذکر کیا ۔ واللہ اعلم
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی

شیخے بہ زنے فاحشہ گفتا: مستی
ہر لحظہ بہ دامِ دگرے پا بستی
گفتا: شیخا ہر آنچہ گوئی ہستم
اما تو چنانکہ می نمائی ہستی؟


ایک شیخ (پارسا بزرگ) نے ایک فاحشہ عورت سے کہا کہ تُو مست ہے اور ہر لحظہ ایک نئے اور دوسرے ہی دام میں اپنے پاؤں پھنسا کر رکھتی ہے۔ اُس عورت نے کہا کہ اے شیخ، تُو نے جو کچھ بھی میرے متعلق کہا، ہاں میں ویسی ہی ہوں (میرا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہے) لیکن تُو جیسا خود کو ظاہر کرتا ہے کیا ویسا ہی ہے؟

(یہ رُباعی بہت مشہور ہے اور حکیم عمر خیام سے بھی منسوب ہے اور شیخ فرید الدین عطار سے بھی، اور اس کے مصرعوں میں بھی کافی تغیر پایا جاتا ہے لیکن اس کا لب لباب وہی ہے جو درج ہے)۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
جو شب و روز اہلِ دل پر گزرتے ہیں وہ محرومِ عشق کے شب و روز سے یکسر متفاوت ہوتے ہیں ، یہی مراد ہیں یہاں ، اور کچھ نہیں ۔
جیسا کہ کہا گیا کہ ۔
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا۔کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا۔
سنگ و خشت سے بنے جہاں اور عشق کے جہاں کا تفاوت بھی وہی ہے جو یہاں کاشانی نے ذکر کیا ۔ واللہ اعلم
شکریہ
 
از کمالِ خرمی عاشق نگنجد در کفن
گر نسیمی آید و گوید که دارم بویِ دوست
(عرفی شیرازی)

اگر کوئی نسیمِ صبح آئے اور کہے کہ میرے پاس بوئے دوست ہے، تو عاشق(مرنے کے بعد بھی) خوشی کی انتہا کی بدولت کفن میں نہیں سماسکے گا۔
 
برادرِ عزیزم حسان خان سے درخواست ہے کہ اس ملمع شعرِ فارسی و ترکی کا ترجمہ پیش کردیں:۔
ای لبت پر خنده و چشمِ سیاهت مستِ خواب
ایککی زلفینگ آره سیده آی یوزینگ دور آفتاب
(امیر علی شیر نوایی)
 
یہ سہ بیتی بند سعدی شیرازی کی "مثلثات" میں موجود ہیں۔ان میں اولیں بیت عربی میں، دوئمین بیت فارسی میں اور سوئمین بیت شیرازی لہجے میں ہے۔عربی اور شیرازی بیت کا ترجمہ منوچہر دانش پژوہ کے مقالے
ملمات و مثلثات یا اشعاردو زبانه و سه زبانه سے لیا گیا ہے
لیعف المهتدی عن سؤ من ضل
ولا یستهزکم من قائم زل
منم کافتادگان را بد نگفتم
که ترسیدم که روزی خود بیفتم
کمسسکی اوت اس بخت آو بهریت
مخن هر دم برای چنداکی بگریت
(سعدی شیرازی)

جو کوئی راہ یافتہ ہوا (ہدایت یافتہ ہوا) اسے چاہیے کہ وہ گمراہ کی بدی سے گریز کرے اور اس کا استہزاء نہ کرے، کیونکہ بسیار دانا ایسے ہیں جو لغزش کرکے غلط راہ پر گرگئے۔
میں ہوں کہ افتادگانِ (راہِ خطا) کی بدی نہیں کرتا کہ مجھے خوف ہوتا ہے ایک روز میں بھی نہ گِر جاؤں۔
جب مسکین گرگیا اور قسمت نے اس کی آبرو تباہ کردی، ہردم اس پر مت ہنس خواہ کتنا بھی وہ گریہ و زاری کرے،
 

حسان خان

لائبریرین
برادرِ عزیزم حسان خان سے درخواست ہے کہ اس ملمع شعرِ فارسی و ترکی کا ترجمہ پیش کردیں:۔
ای لبت پر خنده و چشمِ سیاهت مستِ خواب
ایککی زلفینگ آره سیده آی یوزینگ دور آفتاب
(امیر علی شیر نوایی)
یہ بیتِ ملمّع نوائی کی بجائے جامی سے منسوب کی گئی ہے، لیکن مجھے یہ بیت جامی کے دیوان میں نظر نہیں آئی تھی۔
تُرکی مصرعے کا ترجمہ:
تمہارے دو زلفوں کے درمیان تمہارا چہرۂ ماہ آفتاب ہے۔


امیر علی شیر نوائی کی ایک تُرکی مسدّس میں شامل مندرجۂ ذیل بیت دیکھیے:
ای جمالینگ لایزال و بی‌بدل حسنونگ جمیل
آی یوزونگدور احسنِ تقویم اوچون روشن دلیل

(امیر علی‌شیر نوایی)
اے کہ تمہارا جمال لایزال، اور تمہارا بے بدل حُسن جمیل ہے؛ تمہارا مثلِ ماہ چہرہ احسنِ تقویم کے لیے روشن دلیل ہے۔

Ey jamoling loyazolu bebadal husnung jamil
Oy yuzungdur ahsani taqvim uchun ravshan dalil


× بیتِ ہٰذا میں سورۂ تین کی آیت ۴ کی جانب اشارہ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یہ سہ بیتی بند سعدی شیرازی کی "مثلثات" میں موجود ہیں۔ان میں اولیں بیت عربی میں، دوئمین بیت فارسی میں اور سوئمین بیت شیرازی لہجے میں ہے۔عربی اور شیرازی بیت کا ترجمہ منوچہر دانش پژوہ کے مقالے
ملمات و مثلثات یا اشعاردو زبانه و سه زبانه سے لیا گیا ہے
لیعف المهتدی عن سؤ من ضل
ولا یستهزکم من قائم زل
منم کافتادگان را بد نگفتم
که ترسیدم که روزی خود بیفتم
کمسسکی اوت اس بخت آو بهریت
مخن هر دم برای چنداکی بگریت
(سعدی شیرازی)

جو کوئی راہ یافتہ ہوا (ہدایت یافتہ ہوا) اسے چاہیے کہ وہ گمراہ کی بدی سے گریز کرے اور اس کا استہزاء نہ کرے، کیونکہ بسیار دانا ایسے ہیں جو لغزش کرکے غلط راہ پر گرگئے۔
میں ہوں کہ افتادگانِ (راہِ خطا) کی بدی نہیں کرتا کہ مجھے خوف ہوتا ہے ایک روز میں بھی نہ گِر جاؤں۔
جب مسکین گرگیا اور قسمت نے اس کی آبرو تباہ کردی، ہردم اس پر مت ہنس خواہ کتنا بھی وہ گریہ و زاری کرے،
یہ مقالہ بھی دیکھیے:
ابیاتِ شیرازیِ سعدی در مثلّثات


یہ شیرازی ابیات اُس زبان میں ہیں جو سعدی و حافظ کے زمانے میں مردُمِ شیراز کی گفتاری زبان تھی۔ یعنی وہاں کے تعلیم یافتہ افراد کو بھی معیاری فارسیِ دری سیکھنی پڑتی تھی، جو اُس زمانے میں خُراسان سے فارس آئی تھی۔ حافظ شیرازی کی ایک غزل کی مندرجۂ ذیل مُلمّع ابیات دیکھیے جن کا ایک مصرع عربی میں، اور ایک مصرع قدیم شیرازی زبانچے میں ہے:
اَمَنْ اَنْکَرْتَنِی عَنْ عِشْقِ سَلْمیٰ

تَزَاوّل آن رویِ نِهْکو بِوادی
که همچون مُت بِبُوتَن دل وَ ای رَه
غَرِیقُ العِشْقِ فِی بَحْرِ الوِدادِ
(حافظ شیرازی)
اے وہ کہ میرے سلمیٰ کے عشق کے منکر ہو (یا مجهے سلمیٰ کے عشق سے منع کرتے ہو اور ملامت کرتے ہو)، تمہیں اوّلاً وہ رُوئے زیبا دیکھنا چاہیے تھا، تاکہ میری طرح تمہارا دل بھی ناگہاں اور ایک ہی بار میں بحرِ محبت میں غریقِ عشق ہو جاتا۔
× سَلْمیٰ = ایک عرب معشوقہ کا نام، جو مجازاً معشوق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top