حسان خان

لائبریرین
شیرینیِ لبِ تو چه گویم که وصفِ آن
گر بر زبانِ خامه رود نَی‌شَکَر شود

(کمال خُجندی)
میں تمہارے لب کی شیرینی کیا کہوں کہ اگر اُس کا وصف قلم کی زبان پر جاری ہو تو وہ نیشکر بن جائے۔
× نَے شَکَر/نَیشَکَر = گنّا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
در نمازِ عشق پیشِ قبلهٔ رخسارِ تو
سورهٔ نون خواندم ابرویِ تواَم آمد به یاد
(کمال خُجندی)
میں نے نمازِ عشق میں تمہارے قبلۂ رُخسار کے پیش میں [جب] سورۂ نُون خوانی [تو] مجھے تمہارے ابرو کی یاد آ گئی۔
× سورۂ نُون = سورۂ والقلم
× خواننا (بر وزنِ 'جاننا') = پڑھنا


× محبوب کے ابرو کو خم کے باعث 'نُون' سے نسبت دی گئی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
باده در جامِ طرب ریز که شوّال آمد
موسمِ وعظ بِشُد نوبتِ قوّال آمد
(عُبید زاکانی)
[اے ساقی!] جامِ طرب میں بادہ اُنڈیلو کہ شوّال آ گیا؛ موسمِ وعظ گذر گیا [اور] قوّال کا وقت اور باری آ گئی۔
× قوّال = مُغنّی، نغمہ خواں
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
وصفِ اغلال و سلاسل خواندم اندر آیتی
از گرفتارانِ گیسویِ تواَم آمد به یاد

(کمال خُجندی)
میں نے ایک آیت کے اندر 'اَغلال و سلاسِل' (یعنی آہنی طوقوں اور زنجیروں) کا وصف خوانا۔۔۔ مجھے تمہارے گیسو کے اسیروں کی یاد آ گئی۔
× خواننا (بر وزنِ 'جاننا') = پڑھنا

× 'اَغلال' اور 'سلاسِل' قرآنی سورتوں میں استعمال ہونے والے الفاظ ہیں، اور بیتِ ہٰذا میں سورۂ غافر کی آیت ۷۱ یا سورۂ انسان کی آیت ۴ کی جانب اشارہ ہے۔ مندرجۂ ذیل دو اردو ابیات دیکھیے جن میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں:

فصلِ گل آتے ہی صحرائے عدم کو پہونچا
روکتے رہ گئے اغلال و سلاسل مجھ کو
(تعشّق لکھنوی)

یا رب کوئی دیوانہ بے ڈھنگ سا آ جاوے
اغلال و سلاسل ٹُک اپنی بھی ہلا جاوے
(میر تقی میر)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای فضولی متّصل دوران مخالف‌دیر سانا
غالبا اربابِ استعدادې دوران ایسته‌مز
(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! [گردشِ] زمانہ ہمیشہ تمہاری مخالف ہے (یعنی زمانہ ہمیشہ تمہاری آرزوؤں کے برخلاف گھومتا ہے)۔۔۔ ظاہراً زمانے کو اربابِ استعداد کی خواہش نہیں ہے۔ (یعنی شاید زمانے کو بااستعداد و قابل اشخاص پسند نہیں ہیں۔)

Ey Füzuli, müttəsil, dövran müxalifdir sana
Qaliba, ərbabi-iste’dadı dövran istəməz
فلک به مردُمِ نادان دهد زِمام مراد
تو اهلِ فضلی و دانش همین گناهت بس
(حافظ شیرازی)
فلک نادان مردُم [کے دست میں] لگامِ مُراد دیتا ہے (یعنی نادان مردُم جو بھی آرزو کرتے ہیں، فلک بر لاتا ہے)۔۔۔۔ تم اہلِ فضل و دانش ہو، تمہارا یہی گناہ کافی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به هیچ وِردِ دگر نیست حاجت ای حافظ
دعایِ نیم‌شب و درسِ صبح‌گاهت بس
(حافظ شیرازی)
اے حافظ! [تمہیں] کسی بھی دیگر وِرد کی حاجت نہیں ہے؛ دعائے نیم شب اور درسِ صبحگاہی تمہارے لیے کافی ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
دوری ز حد گذشت و میسّر نشد وصال
ترسم که رفته رفته به هجرِ تو خُو کنم
(نامعلوم)
دوری حد سے گذر گئی اور وصال میسّر نہ ہوا؛ ڈرتا ہوں کہ رفتہ رفتہ مجھے تمہارے ہجر کی عادت ہو جائے گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
کُدامین عارف و صوفی که اِمروز
ز عشقِ آن صنم زیر و زبر نیست؟
(امین‌الدین بلیانی)

کون سا عارف و صوفی ہے جو اِمروز اُس صنم کے عشق سے زیر و زبر نہیں ہے؟
× اِمروز = آج
 

حسان خان

لائبریرین
نمی‌یابم در این میخانه رندی
که جامِ او پُر از خونِ جگر نیست
(امین‌الدین بلیانی)

میں اِس میخانے میں [ایسا] کوئی رند نہیں پاتا کہ جس کا جام خونِ جگر سے پُر نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خرِ عیسیٰ به حرم ماند اگر سالی چند
خر بُوَد چون که پس آید، نشود خر فَرَسی
(حاج محمد اِوَزی شافعی متخلّص به 'مولوی')
خواہ عیسیٰ (ع) کا خر حرمِ کعبہ میں چند سال [مقیم] رہ جائے، جب وہ واپس آئے گا تو خر [ہی] ہو گا، کوئی اسپ نہیں بن جائے گا۔
× خر = گدھا × اسْپ = گھوڑا

اِسی مضمون کو صدیوں قبل سعدی شیرازی بہتر طرز سے منظوم کر چکے تھے:
خرِ عیسیٰ گرش به مکّه برند

چون بِیاید هنوز خر باشد
(سعدی شیرازی)
خواہ عیسیٰ (ع) کے خر کو مکّہ لے جایا جائے، جب وہ واپس آئے گا، تا حال خر ہی ہو گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گزندی از ستم‌گاران نباشد خاک‌ساران را
ز ناهموار سایه بر زمین هموار می‌اُفتد
(نادرا شیرازی)

خاکساروں کو ستمگاروں سے کوئی گزند نہیں پہنچتی؛ ناہموار [چیز] کا سایہ زمین پر ہموار [ہی] گِرتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حضرتِ علی (رض) کی ستائش میں کہے گئے ایک فارسی قصیدے کے مطلع میں محمد فضولی بغدادی کہتے ہیں:
یَا مَنْ عَلَتْ بِتُربَتِهِ رُتْبَةُ النَجَفْ

تو دُرِّ شاه‌واری و خاکِ نجف صدف
(محمد فضولی بغدادی)
اے وہ کہ جس کی تُربت سے نجف کا رُتبہ بلند ہوا۔۔۔ آپ دُرِّ شاہوار ہیں اور خاکِ نجف صدف ہے۔
× دُرِّ شَاہوار = وہ دُر (موتی) جو شاہ کے لائق ہو
 

فرخ منظور

لائبریرین
امشب شب عید است که در پیراهن نمی گنجم
ز فرحت صبا که با نگار خود مبارک باد میگویم
(بیدل)
حسان خان صاحب۔ اس شعر کا اگر ترجمہ عنایت فرما دیں تو نوازش ہو گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
امشب شب عید است که در پیراهن نمی گنجم
ز فرحت صبا که با نگار خود مبارک باد میگویم
(بیدل)
حسان خان صاحب۔ اس شعر کا اگر ترجمہ عنایت فرما دیں تو نوازش ہو گی۔
آپ نے بیت کا جو متن ارسال کیا ہے وہ مجھے درست معلوم نہیں ہو رہا۔ ایک جگہ پر بیت کی مندرجۂ ذیل شکل نظر آئی ہے، لیکن وہاں اِس کا انتساب بیدل سے نہیں کیا گیا، اور نہ نیٹ پر موجود بیدل کی غزلوں میں یہ بیت مجھے نظر آ سکی۔
شبِ عید است و از فرحت به پیراهن نمی‌گنجم
که فردا با نگارِ خود مبارک‌باد می‌گویم

شبِ عید ہے، اور میں خوشی سے اپنے پیراہن میں نہیں سما رہا۔ کیونکہ فردا میں اپنے محبوب کو مبارک باد کہوں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر جا که بِنْگرید به خونِ غرقه بِسمِلی
یاد از شهادتِ منِ خونین‌جگر کنید
(تیمور شاه دُرّانی)
جس جگہ بھی آپ خون میں غرق کسی بِسمِل پر نگاہ کیجیے گا، [وہاں] مجھ خونیں جگر کی شہادت کو یاد کیجیے گا۔
 
ایک دوست نے ان اشعار کے درست ترجمے کی درخواست کی ہے۔۔اما میرا سوال یہ ہے کہ مولانا کی اس غزل کی بحر تو مفاعیلن مفاعیلن فعولن ہے، لیکن پہلے مصرعے میں واژہ "عید" میں "عی" کو کیسے ہجائے کوتاہ تصور کیا گیا ہے؟ میں نے ایک جگہ خوانا ہے کہ اگر حرفِ علت لفظ کے آخری حرف کے بعد آئے تو دراں صورت اسے ہجائے کوتاہ تصور کیا جاتا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ قافیہ کے آخری حرف پر اضافت ہے یا نہیں؟
مجھے اس کا درست انداز اور درست مفہوم ایسے لگ رہا ہے

‎ز روی تست عیدِ آثار ما را ‎
بیا ای عید و عیدی آر ما را
‎تو جانِ عید و از روی تو جانا
‎هزاران عید در اسرار ما را
(مولوی رومی)

تیرے چہرے سے ہم پر عید کے اثرات ہیں۔اے عید! آجا اور ہمارے لئے عیدی لا۔تو عید کی جان ہے اور اے جان تیرے چہرے (کی وجہ) سے ہزاروں عید ہمارے لئے پوشیدہ ہیں۔
 
یک عمر گذشت و عاقبت فهمیدیم
از دل نرود هر آنکه از دیده رود
(شهریار)

ایک عمر گزرگئی اور انجامِ کار ہم سمجھ گئے کہ جو کوئی چشموں (آنکھوں) سے چلا جائے وہ دل سے نہیں جاتا ہے
 
اگر پندِ خردمندان به شیرینی نیاموزی
فلک آن پند را روزی، به تلخی‌ات بیاموزد
(نامعلوم)

اگر تو داناؤں کے اندرز کو شیرینی(آمادگی) سے نہیں سیکھتا ہے تو آسمان تجھے وہی اندرز ایک روز تلخی سے سمجھادے گی۔
 
Top