امان زرگر

  1. امان زرگر

    جدید غزل (موضوعات، اسالیب ، لفظیات اور تکنیک)

    اساتذہ اور احباب سے عنوان کے حوالے سے گفتگو کی درخواست ہے۔۔۔۔
  2. امان زرگر

    اردو ادب کی اصطلاحات

    اردو ادب کی اصطلاحات اردو ادب کے دامن میں ان گنت تراکیب و اصطلاحات موجود ہیں۔ ہم اردو ادب کی اصطلاحات سے بہت حد تک شناسا ہونے کے باوجود ان سے کلی طور پر کم ہی واقف ہو پاتے ہیں۔ گرچہ یہ موضوع بہت وسیع ہے تاہم ان سے کسی حد تک واقف ہونے کے لیے ذیل میں فقط ان اصطلاحات کی فہرست درج ہے۔ علوم...
  3. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 50)

    ۔۔۔ حال اربابِ اثر تک پہنچے بھیک پھر کاسۂِ سر تک پہنچے عشق جب ہاتھ میں تیشہ پکڑے بات اعجازِ ہنر تک پہنچے چار تنکے ہیں مرا سرمایہ یہ صدا برق و شرر تک پہنچے چشمِ تر کے جو صدف سے ٹپکے رتبہ قطرے کا گہر تک پہنچے بجھ گیا دیکھ چراغِ سحری قافلے شب کے سحر تک پہنچے
  4. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 49)

    ۔۔۔ میں جو مدہوش ہوں مدہوش مجھے رہنے دے چارہ گر! درد کے ہم دوش مجھے رہنے دے خواہشِ جبہ و دستار نہیں ہے مجھ کو خاک ہوں زینتِ پاپوش مجھے رہنے دے جرم اتنا ہے چمکتا ہوں ستارہ بن کر اشک ہوں، پلکوں کی آغوش! مجھے رہنے دے ضبط ٹوٹا تو ترا نام زباں پر ہوگا میں ہوں خاموش تو خاموش مجھے رہنے دے تیری...
  5. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 48)

    ۔۔۔ چارہ سازی جو مدعا ہوتی بندہ پرور! تبھی دوا ہوتی کون بنتا رقیبِ جاں میرا عاشقی گر نہ آسرا ہوتی درد ہوتا یہ رشکِ جاں اپنا جرأت آموز گر جفا ہوتی پھیر لیتے نگاہ وہ ہم سے ایسے ہستی نہ پھر فنا ہوتی سب ہی الزام دل پہ آیا ہے کچھ نگاہوں کی بھی خطا ہوتی!
  6. امان زرگر

    دورانِ سفر خرابئِ طبیعت کا حل

    کار، بس وغیرہ میں سفر کے بنا بھی گزارا نہیں لیکن سارا راستہ طبیعت کی خرابی اور الٹیاں ہمراہ رہتی ہیں۔۔۔۔۔ احباب! حل تجویز فرمائیں، معالجین سے خصوصی درخواست ہے۔۔۔ معالجین کو ٹیگ کرنے کی درخواست۔۔۔۔ سر محمد تابش صدیقی
  7. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 47)

    ۔۔۔ الجھا ہے تارِ ہستی پر پیچ الجھنوں میں پر درد ساعتوں میں خاموش رتجگوں میں جب سیندھ لگ رہی ہو ایمان پر ہمارے محفوظ کس طرح ہو میراث آنگنوں میں شکوہ کروں تو کس سے، لٹ جائے قافلہ گر یاران و ہم نفس ہیں صف بستہ رہزنوں میں حاصل ہو کیا اے واعظ تلقینِ لا الٰہ سے خود تیرا نقشِ پا ہی لے جائے گر بتوں...
  8. امان زرگر

    برائے تنقید و اصلاح (غزل 46)

    ۔۔۔ جشنِ عشرت میں یاد غم آئے اشکِ گلگوں بہ چشمِ نم آئے تیر پیوست ہو جگر میں جب تب غزالِ جنوں پہ رم آئے ساز چھیڑو کوئی مدھر لے میں لطفِ طوفِ حرم بہم آئے ہو کے تیرہ شبی سے وابستہ اب ستارے بھی ہم قدم آئے آتش افشاں ہو گر ترا خامہ رقصاں قرطاس پر عدم آئے
  9. امان زرگر

    برائے تنقید و اصلاح (غزل 45)

    ۔۔۔ دلِ شب گزیدہ مزار پر یہ چراغ کون جلا گیا ملا اک پیامِ سحر مجھے وہ عجب کرشمہ دکھا گیا کسے اعتبارِ حیات ہے کسے اس جہاں میں ثبات ہے ہیں سبھی جنوں کی نوازشیں جو دوانہ مجھ کو بنا گیا جو مری نظر میں تھی منزلیں کسی طور مجھ کو نہ مل سکیں میں متاعِ لوحِ نصیب سب یونہی راستے میں لٹا گیا یہ ہے...
  10. امان زرگر

    برائے تنقید و اصلاح (غزل 44)

    ایک غزل کا مطلع پیشِ خدمت ہے۔ درستگی ، بہتری اور اظہارِ رائے کی درخواست ہے۔ کیوں چلوں دیکھ کر تیرا نقشِ قدم میری منزل ابد تم رحیلِ عدم سر الف عین سر محمد ریحان قریشی
  11. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل۔43)

    ۔۔۔۔۔ کچھ اب نگاہِ ناز کو پردہ نہیں رہا یعنی فروغِ شوق تماشہ نہیں رہا جوئے حیات حسنِ تجلی سے خشک ہے جز عشق زندگی کا بہانہ نہیں رہا پیتے ہیں گرچہ آج بھی ہنگامِ بزم مے لیکن وہ کیفِ جامِ شبانہ نہیں رہا ایسے ہجومِ سلسلۂِ رفتگاں ہوا آئندگاں کے واسطے رستہ نہیں رہا اس نے شبِ وصال تسلی...
  12. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 42)

    مست و بے خود ہوں عشق میں جیسے حال ایسا نہ تھا کبھی پہلے سرد رت میں عذاب اک اترے یہ شفق زرد شال جب اوڑھے بارشوں نے اجاڑ دی بستی غم کے بادل ہیں اب تلک گہرے تھرتھراتے لبوں سے اک سسکی لے کے سانسوں کی حدتیں ابھرے پھر دسمبر کی سرد راتیں ہیں دل ترستا ہے لمس کو تیرے
  13. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 41)

    ۔۔۔ وہ لطفِ مژگاں ہے مثلِ ناوک، ستم تری ہر ادائے الفت اک التفاتِ نگاہ سے ہی دل و جگر سب فنائے الفت جو ایک قطرہ میسر آوے تو عمر بھر کو نشاطِ جاں ہو لٹائے ساقی وہ بیش قیمت شرابِ گلگوں برائے الفت نوازشِ غم ابھی تلک سارے خار پیوست دل میں میرے مری وفا کی لحد پہ اب تک بچھی ہے تیری قبائے الفت...
  14. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 40)

    سر الف عین ، سر محمد ریحان قریشی چلو ہم سوئے مرگ کر لیں گوارا کسی طور ہو جائے غم کا مداوا ہے امیدِ صبحِ وصالِ صنم، جب شفق میں شبِ ہجر ابھرے ستارا مری روح میرے بدن کا تعلق! فقط یہ گھڑی بھر کا ہے اک تماشا بدلتی ہے فطرت زمامِ زمانہ تو پھر کس لئے سوزِ امروز و فردا! دلِ مضطرب فتنہ گر کے...
  15. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 39)

    وہ پردۂِ شرم کے تقاضے، ہر اہتمامِ حجاب ہو گا چھپے گا نظروں سے کیسے لیکن، جو اک رخِ لاجواب ہو گا یہ شب گزیدہ سحر ترستی رہے گی صدیوں ہی روشنی کو شفق میں اتریں گی شوخ کرنیں نہ جلوۂِ آفتاب ہو گا میں جو دیارِ جنوں میں تیرے ہی آسرے پہ نکل پڑا ہوں وصالِ منزل اے چارہ گر اب مرے ہی نام انتساب ہو...
  16. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 38)

    راہ چلتے نہ ہستی فنا کیجئے سوچ کر عشق کی ابتدا کیجئے خوفِ رسوائی بھٹکا نہ دے آپ کو راہبر قیس کا نقشِ پا کیجئے موسمِ وصل کا راز کھل جائے گا نکہتِ گل نہ وقفِ صبا کیجئے ایک پل کو بھی تخفیفِ دورِ ستم کچھ تردد نہ خوفِ خدا کیجئے راستہ ہے جنوں خیز ایسا ، تو پھر منزلوں کا تصور ذرا کیجئے
  17. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (نظم 2)

    شاعری فغانِ غمِ دل مری نارسیدہ ہیں الفاظ بھی گم، بیاں آبدیدہ مرے درد کا چشمِ نم اک حوالہ مری لوحِ قسمت بھی دامن دریدہ سنانِ جنوں پر مری ذات ٹھہری سو تڑپے گا لاشہ مرا سر بریدہ مرا حال طائر انھیں جا سنائیں کہ مخدوش ہے پیڑ، شاخیں بریدہ ثمر ہے مرے سوز کا اشکِ خونیں مرا دل مری جاں محبت گزیدہ...
  18. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 37)

    کیوں دھڑکتا ہے دل یوں سینے میں؟ راز بتلاؤ، کیا ہے جینے میں؟ جام و خم لاکھ پُر مزہ لیکن لطفِ بالا، نظر سے پینے میں سارے منظر فریب کا ساماں خلط دِکھتا ہے کیوں قرینے میں؟ چاروں اطراف قہر برپا ہے سارے مصروف خون پینے میں ہم عدم کی تلاش میں'' زرگر'' آن پہنچے ہیں کس دفینے میں؟
  19. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 34)

    دل کی بربادی پہ حیراں میری چشمِ اشک بار شاخسانہ خوش نگاہی کا مزاجِ سوگوار ترکشِ مژگاں سے نکلا تیر کیسا با ہدف لحظہ بھر میں ہو گیا قلبُ و جگر کے آر پار منزلِ عشاق کی دشواریوں کے تذکرے! کون میرا ہم نوا ہو کون میرا غمگسار؟ حزنِ لاحاصل مری ہستی میں شامل ہو چلا آئے کس دستِ کرامت سے مری جاں کو قرار...
  20. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 36)

    حریمِ دل میں عجب کیف ہے خماری ہے شرارِ عشق سے ہلکان جاں ہماری ہے یا حریمِ دل میں یہ کیسی بے اختیاری ہے شرارِ عشق سے ہلکان جاں ہماری ہے فروغِ حسن صنم ساز دیکھ کر حیراں صنم کدے کا ہر اک بام و در پجاری ہے سکوتِ لب سے قیامت بپا ہوئی جائے سماعتوں کو عجب خوئے بے قراری ہے چراغ راہِ عدم پر جلانے...
Top