امان زرگر

  1. امان زرگر

    حمدیہ قطعہ (امان زرگر)

    حمدیہ قطعہ وہی خدا ہے جو شاخِ نازک پہ آشیانہ سنبھالتا ہے غروب ہونے کے بعد سورج کو شرق سے پھر نکالتا ہے اسی کے دستِ رسا کے زیرِِ اثر ہے سارا نظامِ عالم جو مضغۂِ خوں کو رِحمِ مادر میں کُن کے سانچے میں ڈھالتا ہے امان زرگر
  2. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 77)

    غزل لایا نہ تیری تاب تجھے یاد جب کیا دل نےکنارِ آب تجھے یاد جب کیا آیا خیال میں لب و عارض کا تجزیہ تھے سامنے گلاب تجھے یاد جب کیا ملنے لگے رموز ترے حسنِ نور کے اٹھنے لگے حجاب تجھے یاد جب کیا آیا قمر لئے رخِ تاباں کو سامنے بھاگا پسِ سحاب تجھے یاد جب کیا رنگوں سے بُن کے خیمۂِ افلاک کے لئے...
  3. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 76)

    ۔۔ قریۂِ عشق میں جو لوگ مکیں ہوتے ہیں دہرِ خاکی میں وہی لعل و نگیں ہوتے ہیں جن کی چاہت میں بتِ عصر مگن ہو جائے لوگ ایسے بھی تو کچھ زہرہ جبیں ہوتے ہیں زاویے حسن کے اس کوچۂِ جاناں میں سبھی رشک انگیز پئے خلدِ بریں ہوتے ہیں ہر دم آباد مئے خانۂِ ہستی ہم سے رندِ جاں سوز فقط ایک ہمیں ہوتے ہیں قلبِ...
  4. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل۔75)

    ۔۔۔۔ اب درد کے ہر باب کی تصریح نئی ہو یوں قلب و جگر کو مرے ترویح نئی ہو میں قیس کے ہمراہ پھروں دشت میں کب تک؟ اربابِ جنوں! اب کوئی تلمیح نئی ہو یہ زہرہ جبیں لوگ مرے دل سے نہ کھیلیں اب ان کے لئے دنیا میں تفریح نئی ہو اک زلزلہ برپا ہو جو سر خاک پہ رکھ دیں ان اہلِ جنوں کے لئے تسبیح نئی ہو ظاہر...
  5. امان زرگر

    نعت برائے اصلاح و تنقید

    ۔۔۔ دنیا میں کوئی ایسا کب دوسرا مدینہ ہر دو سرا سے افضل سرکار کا مدینہ سامانِ حسن و رونق ہیں مہر و ماہ و اختر لیکن ہے اس جہاں میں سب سے جدا مدینہ حسن و جمالِ انور سب خوبیوں کا محور عالم کی آنکھ میں ہے اک سرمہ سا مدینہ سب طالبانِ حق کا اک مرکزِ یقیں ہے اک رہبرِ وفا کا ہے نقشِ پا مدینہ ملجائے...
  6. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل۔ 74)

    ۔۔۔ تیر سینے پہ سہے شوق سے خنجر کھایا ان کے ہاتھوں کا ہر اک وار مکرّر کھایا چاشنی وصل کی دونوں کو میسر تھی تبھی ہجر کا زہر بھی دونوں نے برابر کھایا قابلِ داد سبھی زخم ہیں دیوانے کے مردِ میداں نے ہر اک وار جگر پر کھایا مجھ کو رخصت نہ ملی درد سے پل بھر کے لئے زندگی کو غم و اندوہ نے مل کر کھایا...
  7. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل- 73)

    ۔۔۔ اس جہاں والوں نے دیوانوں کو اکثر مارا دار سرمد کو ملی قیس کو پتھر مارا دل میں جا کر یہ ترا تیرِ نظر اٹکا ہے پار نکلے گا جگر کےجو مکرّر مارا جس نے مستی میں کیا نعرۂ مستانہ بلند عشقِ پرسوز نے سولی پہ چڑھا کر مارا بس مظفر ہے وہی کارگہِ دنیا میں جس نے بھی خود کو یہاں ذات کے اندر مارا کتنے...
  8. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 72)

    ۔۔۔ سکوتِ کرب میں حائل ہو رات بھر پانی تو زیبِ مژگاں رہے تا دمِ سحر پانی پئے حیات طلب تھی کسی کو، تب نہ ملا بھٹکتا پھرتا ہےکیوں آج در بہ در پانی جو ٹپکا خون یوں آنکھوں سے، میں ہوا حیراں بہ دوشِ ابر فراواں ہے کس قدر پانی! نصیب میں تھا مرے جتنا، رو لیا ہے، اب کسی بھی طور نہ برسے گا، عمر بھر...
  9. امان زرگر

    سوائے تیرے بھلا کیا ہے اور میرے پاس

    ۔۔۔۔ یہ سوچنے کو ہیں کتنے ہی طور میرے پاس کہ جز تمہارے بھلا کیا ہے اور میرے پاس وہ تیرے پاس جو پہنچے تو خود کو بھول گئے جو کائنات میں کرتے تھے غور میرے پاس وہ آج بزم میں بیٹھے ہیں میرے پہلو میں رکا ہے جام و سبو کا بھی دور میرے پاس ہے میرے پاس یہ ساری زمیں جفا پرور یہ آسماں بھی ہے مائل بہ جور...
  10. امان زرگر

    چشمِ فلک بتا یہ کہاں کا رواج ہے

    ۔۔۔ لہجہ ہے تلخ جس کا، جو آتش مزاج ہے وہ یارِ تند خو مرے پہلو میں آج ہے اٹکی ہے جان لب پہ مرے چارہ گر بتا جز مرگ دردِ دل کا کہیں کچھ علاج ہے ہمدرد بن کے ساتھ بھی راہِ جنوں میں تھا دشمن بھی میری جان کا میرا سماج ہے کل تک دروسِ الفت اسی نے مجھے دیئے مجھ خانماں خراب پہ اب جس کو لاج ہے زرگر نہ...
  11. امان زرگر

    گو جلوہ گاہِ ناز کا پردہ نہیں رہا

    .... گو جلوہ گاہِ ناز کا پردہ نہیں رہا اب میرے دل میں شوقِ تماشا نہیں رہا مضطر ہیں قلب و جان تجلی سے حسن کی جز عشق زندگی کا بہانہ نہیں رہا ایسے ہجومِ سلسلۂِ رفتگاں ہوا آئندگاں کے واسطے رستہ نہیں رہا اس نے شبِ وصال کچھ ایسے تسلی دی کچھ خوفِ صبحِ ہجر دوبارہ نہیں رہا زرگر بھی اس جہاں میں ہے...
  12. امان زرگر

    مری حیاتِ گزشتہ کا ماحصل شاید

    ۔۔۔۔ مری حیاتِ گزشتہ کا ماحصل شاید گزر گیا ہے وہ صدیوں سا ایک پل شاید تمہارے آنے کی مجھ کو خبر نہ ہو پائی میں اپنے آپ میں کھویا ہوا تھا کل شاید توجہ حسن سے تیرے ہٹے تو کچھ بولوں ابھی تو سانس بھی لینے سے ہو خلل شاید جو تجھ کو راہ میں درپیش ہو خطر کوئی یہ میرا ساتھ ہو مشکل کا ایک حل شاید یوں...
  13. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 71)

    سر الف عین سر محمد ریحان قریشی سر محمد تابش صدیقی ۔۔۔ برائے دل کوئی باحث نہیں ہے کوئی اس دشت کا وارث نہیں ہے زمانے میں وفورِِ درد و غم کا فقط عشق و جنوں باعث نہیں ہے کہاں پُر امن ہو گا خانۂِ دل اگر عقل و خرد ثالث نہیں ہے فنا ہو جائیں گے عقل و خرد بھی مگر ذوقِ جنوں حادث نہیں ہے کریں سب...
  14. امان زرگر

    نعت برائے اصلاح و تنقید

    سر الف عین سر محمد ریحان قریشی سر محمد تابش صدیقی ۔۔۔ میرے آقا نے کل شب مرے خواب میں اپنی صورت دکھائی مزا آ گیا زلفِ واللیل تھی رخ پہ بکھری ہوئی جب ذرا سی ہٹائی مزا آ گیا حشر میں جب تھا میزان پر میں کھڑا نامہ میرا مرے سامنے تھا پڑا ایسی حالت میں اک صورتِ آشنا سامنے مسکرائی مزا آ گیا کچھ...
  15. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 70)

    ۔۔۔ طلب میں دستِ رفاقت کی وہ بڑھا ہو گا کسی قرینے سے تجھ کو پکارتا ہو گا کبھی سکون میسر نہ آ سکا اس کو تلاشِ شہرِ دگر میں مگن رہا ہو گا! ازل سے آج تلک فکر میں رہا ہے جو ابد کے بعد بھی میرا وہ آسرا ہوگا جو داد دیتا رہا سن کے شاعری میری وہ میرا درد، مرا غم نہ سن سکا ہو گا نگارِ دشتِ جنوں میں...
  16. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 69)

    ۔۔۔۔ یہ طوفان رہ جائیں گے سب سمٹ کے کرو ذکرِ خیر الورٰی آج ڈٹ کے ہر اک دور ہے دورِ جہدِ مسلسل ورق دیکھو تاریخ کے تم پلٹ کے کہیں بھی اماں تم نہ پاؤ گے ہرگز بکھر جاؤ گے اپنے مرکز سے کٹ کے وہ چڑھ آیا سورج تو سر پر مگر تم پڑے ہی رہے بستروں سے لپٹ کے کہیں وقتِ رخصت نہ رہ جائیں زرگر رخِ زندگی سے...
  17. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 68)

    ۔۔۔ ترے دل میں کوئی گراوٹ نہیں ہے مرے پیار میں بھی ملاوٹ نہیں ہے سرِ بزم مجھ سے یہ آنکھیں چرانا تری سادگی ہے، بناوٹ نہیں ہے بدن میں مقید تھا، پابند تھا میں کوئی راہ میں اب رکاوٹ نہیں ہے ترے لب پہ ہے زیرِ لب اک تبسم مری آنکھ میں بھی تراوٹ نہیں ہے کوئے یار ہے دردِ دل کا مداوا مجھے اطبا سے...
  18. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 67)

    ۔۔۔ گرچہ رہِ وفا میں اس کا تھا خوب شہرہ منزل تلک نہ پہنچا مجذوبِ عشق لیکن دل نے رہِ جنوں میں مبدائے ہستی دیکھا عقل و خرد نہ سمجھا اسلوبِ عشق لیکن واللہ چھوڑ دیں ہم اربابِ درد کا در یہ پیکرِ الم ہیں محبوبِ عشق لیکن دروازے سے میں واپس قاصد کو بھیج دیتا ہاتھوں میں اس کے دیکھا مکتوبِ عشق لیکن...
  19. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید ( غزل 66)

    ۔۔۔ وہ رت کہ جو جبیں پر اک آفتاب لا دے لا ڈھونڈ کر کہیں سے، میرا شباب لا دے ساقی و جام و ساغر اربابِ میکدہ سب تادیر یاد رکھوں ایسی شراب لا دے تڑپائے مجھ کو میرا شوقِ کتاب بینی تو دو جہاں کے بدلے مجھ کو کتاب لا دے گھبرا گیا ہے یہ دل الجھی حقیقتوں سے امید کوئی کاذب کوئی سراب لا دے تسخیر ہو رہی...
  20. امان زرگر

    برائے اصلاح و تنقید (غزل 65)

    ۔۔۔۔ عشق کی انتہا کے کیا کہنے نیستی اور بقا کے کیا کہنے ضرب کاری ہر اک رہی اب تک آبِ تیغِ قضا کے کیا کہنے آہِ مظلوم بے اثر ٹھہری دستِ اہلِ جفا کے کیا کہنے چھین لے دل بس ایک لمحے میں ''دلبروں کی ادا کے کیا کہنے'' چاک سینہ ہے آسمانوں کا میری آہ و بکا کے کیا کہنے کوچۂِ یار! جاں بہ لب تھے ہم...
Top