امان زرگر
محفلین
وہ پردۂِ شرم کے تقاضے، ہر اہتمامِ حجاب ہو گا
چھپے گا نظروں سے کیسے لیکن، جو اک رخِ لاجواب ہو گا
یہ شب گزیدہ سحر ترستی رہے گی صدیوں ہی روشنی کو
شفق میں اتریں گی شوخ کرنیں نہ جلوۂِ آفتاب ہو گا
میں جو دیارِ جنوں میں تیرے ہی آسرے پہ نکل پڑا ہوں
وصالِ منزل اے چارہ گر اب مرے ہی نام انتساب ہو گا
مقامِ حسن و جمالِ کمسن کہ دیدہ و دل نہ تاب لائیں
بپا قیامت چہار اطراف، ان کا عہدِ شباب ہو گا
بیانِ غم اور فسانۂِ جاں، متاعِ شعر و سخن کی صورت
ضرور پڑھنا، کتابِ ہجراں میں ایک شہرت کا باب ہو گا
ندائے منصور کا بیاں بھی رقم جو مجنوں کی داستاں بھی
ورق ورق پر فسانۂِ غم ہر اک سخن واں کتاب ہو گا
آخری تدوین: