برائے اصلاح و تنقید (غزل 39)

امان زرگر

محفلین

وہ پردۂِ شرم کے تقاضے، ہر اہتمامِ حجاب ہو گا
چھپے گا نظروں سے کیسے لیکن، جو اک رخِ لاجواب ہو گا

یہ شب گزیدہ سحر ترستی رہے گی صدیوں ہی روشنی کو
شفق میں اتریں گی شوخ کرنیں نہ جلوۂِ آفتاب ہو گا

میں جو دیارِ جنوں میں تیرے ہی آسرے پہ نکل پڑا ہوں
وصالِ منزل اے چارہ گر اب مرے ہی نام انتساب ہو گا

مقامِ حسن و جمالِ کمسن کہ دیدہ و دل نہ تاب لائیں
بپا قیامت چہار اطراف، ان کا عہدِ شباب ہو گا

بیانِ غم اور فسانۂِ جاں، متاعِ شعر و سخن کی صورت
ضرور پڑھنا، کتابِ ہجراں میں ایک شہرت کا باب ہو گا

ندائے منصور کا بیاں بھی رقم جو مجنوں کی داستاں بھی
ورق ورق پر فسانۂِ غم ہر اک سخن واں کتاب ہو گا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہلے دونوں ٹھیک ہیں۔ تیسرا شعر سمجھ میں نہیں آیا۔ پہلے مصرع میں ’جو‘ کی معنویت، دوسرے مصرع میں وصال منزل کی معنویت سمجھ میں نہیں آتی۔
چوتھے میں۔ دونوں مصرعوں میں فاعل الگ الگ ہیں، ربط محسوس نہیں ہوتا۔
پانچویں میں متاع شعر و سخن اور شہرت کا باب کی معنویت سمجھ میں نہیں آتی۔
آخری شعر تو سمجھ ہی نہیں سکا۔
یاں واں متروک ہو چکے ہیں، ان کا استعمال اچھا نہیں لگتا
 

امان زرگر

محفلین

وہ پردۂِ شرم کے تقاضے، ہر اہتمامِ حجاب ہو گا
چھپے گا نظروں سے کیسے لیکن، جو اک رخِ لاجواب ہو گا

یہ شب گزیدہ سحر ترستی رہے گی صدیوں ہی روشنی کو
شفق میں اتریں گی شوخ کرنیں نہ جلوۂِ آفتاب ہو گا

میں اس دیارِ جنوں میں تیرے ہی آسرے پہ نکل پڑا ہوں
وصالِ منزل اے چارہ گر ہر قدم مرا
انتساب ہو گا

مقامِ حسن و جمالِ کمسن کہ دیدہ و دل نہ تاب لائیں
بپا قیامت چہار اطراف، اسی کا عہدِ شباب ہو گا

بیانِ غم اور فسانۂِ جاں، متاعِ شعر و سخن کی صورت
ضرور پڑھنا، کتابِ ہجراں میں حسرتوں کا جو باب ہو گا

ندائے منصور کا بیاں ہے رقم جو مجنوں کی داستاں ہے
ورق ورق پر فسانۂِ غم تو ہر سخن اک کتاب ہو گا
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
میں خود فریبی کے آسرے پر جنوں کے رستے پہ چل پڑا ہوں
وصالِ منزل تلک بھلا کب یہ چارہ گر ہم رکاب ہو گا

یا

میں اس دیارِ جنوں میں تیرے ہی آسرے پہ نکل پڑا ہوں
وصالِ منزل تلک مرا تو اے چارہ گر ہم رکاب ہو گا

یا


سفر دیارِ جنوں کی جانب ہے جوشِ ہستی کے آسرے پر
وصالِ منزل تلک بھلا کیا یہ چارہ گر ہم رکاب ہو گا؟
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین

سر الف عین
وہ پردۂِ شرم کے تقاضے، ہر اہتمامِ حجاب ہو گا
چھپے گا نظروں سے کیسے لیکن، جو اک رخِ لاجواب ہو گا

یہ شب گزیدہ سحر ترستی رہے گی صدیوں ہی روشنی کو
شفق میں اتریں گی شوخ کرنیں نہ جلوۂِ آفتاب ہو گا

میں خود فریبی کے آسرے پر جنوں کے رستے پہ چل پڑا ہوں
وصالِ منزل تلک بھلا کب یہ چارہ گر ہم رکاب ہو گا

مقامِ حسن و جمالِ کمسن کہ دیدہ و دل نہ تاب لائیں
بپا قیامت چہار اطراف، اسی کا عہدِ شباب ہو گا

بیانِ غم اور فسانۂِ جاں، متاعِ شعر و سخن کی صورت
ضرور پڑھنا، کتابِ ہجراں میں حسرتوں کا جو باب ہو گا

ندائے منصور کا بیاں ہے رقم جو مجنوں کی داستاں ہے
ورق ورق پر فسانۂِ غم تو ہر سخن اک کتاب ہو گا
 

الف عین

لائبریرین
ان چاروں اشعار پر میں وہی دہراؤں گا جو اوپر لکھا ہے۔
منزل، سفر، چلنے کے ساتھ چارہ گر کا تلازمہ کیوں؟
اس کے علاوہ شباب ہو گا والے شعر میں محض قیامت تو کہا جا سکتا ہے شباب کو، ’بپا قیامت‘ نہیں۔ ’قیامت بپا کرے گا‘ ہونا تھا۔
متاع کی جگہ شاید بیاض ہو تو قابل قبول ہو جائے۔
 

امان زرگر

محفلین
ان چاروں اشعار پر میں وہی دہراؤں گا جو اوپر لکھا ہے۔
منزل، سفر، چلنے کے ساتھ چارہ گر کا تلازمہ کیوں؟
اس کے علاوہ شباب ہو گا والے شعر میں محض قیامت تو کہا جا سکتا ہے شباب کو، ’بپا قیامت‘ نہیں۔ ’قیامت بپا کرے گا‘ ہونا تھا۔
متاع کی جگہ شاید بیاض ہو تو قابل قبول ہو جائے۔
مقامِ حسن و جمالِ کمسن کہ دیدہ و دل نہ تاب لائیں
چہار سو ہو گا شورِ محشر جب اس پہ عہدِ شباب ہو گا​

بیانِ غم اور فسانۂِ جاں، بیاضِ شعر و سخن کی صورت
ضرور پڑھنا، کتابِ ہجراں میں حسرتوں کا جو باب ہو گا​


رکاوٹیں لاکھ ہوں گی درپیش ، پر خطر ہے جنوں کا رستہ
وصالِ منزل تلک مرا یہ دریدہ دل ہم رکاب ہو گا​
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین

وہ پردۂِ شرم کے تقاضے، ہر اہتمامِ حجاب ہو گا
چھپے گا نظروں سے کیسے لیکن، جو اک رخِ لاجواب ہو گا

یہ شب گزیدہ سحر ترستی رہے گی صدیوں ہی روشنی کو
شفق میں اتریں گی شوخ کرنیں نہ جلوۂِ آفتاب ہو گا

رکاوٹیں لاکھ ہوں گی درپیش ، پر خطر ہے جنوں کا رستہ
وصالِ منزل تلک مرا یہ دریدہ دل ہم رکاب ہو گا

مقامِ حسن و جمالِ کمسن کہ دیدہ و دل نہ تاب لائیں
چہار سو ہو گا شورِ محشر جب اس پہ عہدِ شباب ہو گا

بیانِ غم اور فسانۂِ جاں، بیاضِ شعر و سخن کی صورت
ضرور پڑھنا، کتابِ ہجراں میں حسرتوں کا جو باب ہو گا

ندائے منصور کا بیاں ہے رقم جو مجنوں کی داستاں ہے
ورق ورق پر فسانۂِ غم تو ہر سخن اک کتاب ہو گا
 
Top