برائے تنقید و اصلاح (غزل 44)

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
مطلع میں کچھ تبدیلی کے بعد مکمل غزل۔۔۔

مت چلو دیکھتے میرا نقشِ قدم
تم ہو موجود اور میں رحیلِ عدم

ساحلِ بحرِ ہستی سرابِ نظر
ڈوبنے کو ہوا ایسے ساماں بہم

عشق میرا جواں اس سبب سے ہوا
راس آئی مجھے تیری طرزِ ستم

ان کے لب پر لکیر اک تبسم کی تھی
دیکھ کر میرے چہرے پہ آثارِ غم

میرے دکھ کا مداوا طلوعِ سحر
اس شبِ ہجر سے روزِ وصلِ صنم
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مھے وہی خامی محسوس ہوتی ہے جسے شاید تم اپنی خصوصیت سمجھتے ہو۔ یعنی گرامر کے لحاظ سے بات مکمل نہ ہونا۔ دوسرے اور پانچویں شعر میں یہ خامی عروج پر ہے۔ ایسے ساماں‘ اور ’اس سبب‘ میں تنافر کا عیب بھی ہے۔
تیسرے شعر میں ’شاید‘ کا اضافہ کر سکو تو خیال زیادہ بہتر ہو جائے،
چوتھا شعر ہی بالکل درست ہے لیکن بات کوئی خاص نہیں۔
 

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
مت چلو دیکھتے میرا نقشِ قدم
تم ہو موجود اور میں رحیلِ عدم

ساحلِ بحر تھا اک سرابِ نظر
ڈوبنے کو ہوا میرے ساماں بہم

عشق میرا جواں شاید ایسے ہوا
راس آئی مجھے تیری طرزِ ستم

ان کے لب پر تبسم بکھرتا گیا
دیکھ کر میرے چہرے پہ آثارِ غم

اب مداوائے غم ہے طلوعِ سحر
ہو شبِ ہجر سے روزِ وصلِ صنم

سر الف عین
 

امان زرگر

محفلین
۔۔۔۔۔
وہ غزالِ شبِ غم کا اندازِ رم
اک دلِ مبتلا چشمِ خوں بار نم

سب کھڑے ہیں جگر تھام کر دم بخود
ایک مضمارِ محشر ہے بیتُ الصّنم

تم غلافِ جنوں میں لپیٹو جگر
ایسے ہو جائے شاید نگاہِ کرم

ساحلِ بحر تھا اک سرابِ نظر
ڈوبنے کو ہوا میرے ساماں بہم

عشق میرا جواں شاید ایسے ہوا
راس آئی مجھے تیری طرزِ ستم

ان کے لب پر تبسم بکھرتا گیا
دیکھ کر میرے چہرے پہ آثارِ غم

اب مداوائے غم ہے طلوعِ سحر
ہو شبِ ہجر سے روزِ وصلِ صنم

درد افروز ہے جامِ شب یہ ترا
بڑھ گئی لذتِ بزمِ اصحابِ غم
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع پر بعد میں مجھے یہ خیال آیا کہ چشم خونبار اور نم دونوں کس طرح ہو سکتی ہے؟ آنکھ میں آنسو ہوں گے یا خون!!!باقی اشعار درست ہیں اس بار۔البتہ
عشق میرا جواں شاید ایسے ہوا
شاید بہتر یوں ہو۔
عشق میرا جوں غالبا یوں ہوا

اور
ہو شبِ ہجر سے روزِ وصلِ صنم
مصرع میں مزا نہیں آیا۔ ’ہو‘ اور ’صنم‘کے باعث
اصحاب غم والا شعر پچھلے مراسلے والا بہتر ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
مطلع پر بعد میں مجھے یہ خیال آیا کہ چشم خونبار اور نم دونوں کس طرح ہو سکتی ہے؟ آنکھ میں آنسو ہوں گے یا خون!!!۔

۔۔۔
سمجھے تھے میر ہم کہ یہ ناسور کم ہوا
پھر ان دنوں میں دیدئہ خونبار نم ہوا
میر تقی میر

اس شعر کے حوالے سے ''چشمِ خونبار نم'' لیا تھا۔ آپ کی رائے درکار ہے

یا پھر
وہ غزالِ شبِ غم کا اندازِ رم
اک دلِ مبتلا، چشمِ پرسوز نم

شاید ''چشمِ پرسوز'' ترکیب مستعمل ہو۔
 
آخری تدوین:
امان زرگر بھائی ماشاء اللہ آپ خاصے محنتی ہیں۔ ہم تو ایک آدھ غزل کے آپریشن کے بعد ہی دل چھوڑ بیٹھے۔ :)
لگے رہیں۔۔۔
مل ہی جائے گی کبھی منزل لیلیٰ اقبال
اور کچھ روز ابھی بادیہ پیمائی کر
 

امان زرگر

محفلین
امان زرگر بھائی ماشاء اللہ آپ خاصے محنتی ہیں۔ ہم تو ایک آدھ غزل کے آپریشن کے بعد ہی دل چھوڑ بیٹھے۔ :)
لگے رہیں۔۔۔
مل ہی جائے گی کبھی منزل لیلیٰ اقبال
اور کچھ روز ابھی بادیہ پیمائی کر
شکریہ۔ مقصد سیکھنا ہے تو کوشش کرتا ہوں اساتذہ اور احباب سے جتنا سیکھ سکوں۔۔
 

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
وہ غزالِ شبِ غم کا اندازِ رم
اک دلِ مبتلا، چشمِ پرسوز نم

سب کھڑے ہیں جگر تھام کر دم بخود
ایک مضمارِ محشر ہے بیتُ الصّنم

تم غلافِ جنوں میں لپیٹو جگر
ایسے ہو جائے شاید نگاہِ کرم

ساحلِ بحر تھا اک سرابِ نظر
ڈوبنے کو ہوا میرے ساماں بہم

عشق میرا جواں غالباً یوں ہوا
راس آئی مجھے تیری طرزِ ستم

ان کے لب پر تبسم بکھرتا گیا
دیکھ کر میرے چہرے پہ آثارِ غم

اب مداوائے غم ہے طلوعِ سحر
اس شبِ ہجر کا
ٹوٹے عہدِ ستم

درد افروز ہے جامِ شب یہ ترا
بڑھ گئی لذتِ بزمِ اصحابِ غم

سر الف عین
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
جب خدائے سخن کی آنکھ بیک وقت خونبار اور نم ہو سکتی ہے تو میں کیا کہہ سکتا ہوں مزید!! اس صورت میں وہی بہتر ہےپرسوز کی بہ نسبت۔
عہد ستم کا ٹوٹنا بھی عجیب یہ لگتا ہے مجھے تو، اور میں محض اپنی پسند نا پسند کی بات کرتا ہوں۔ سند کے لیے حوالے نہ خود دیکھتا ہوں اور نہ آنکھیں بند کر کے قبول کرتا ہوں!!
 

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
وہ غزالِ شبِ غم کا اندازِ رم
اک دلِ مبتلا، چشمِ خونبار نم

سب کھڑے ہیں جگر تھام کر دم بخود
ایک مضمارِ محشر ہے بیتُ الصّنم

تم غلافِ جنوں میں لپیٹو جگر
ایسے ہو جائے شاید نگاہِ کرم

ساحلِ بحر تھا اک سرابِ نظر
ڈوبنے کو ہوا میرے ساماں بہم

عشق میرا جواں غالباً یوں ہوا
راس آئی مجھے تیری طرزِ ستم

ان کے لب پر تبسم بکھرتا گیا
دیکھ کر میرے چہرے پہ آثارِ غم

اب مداوائے غم ہو طلوعِ سحر
ہجر کی شب کا ہے تلخ عہدِ ستم

درد افروز ہے جامِ شب یہ ترا
بڑھ گئی لذتِ بزمِ اصحابِ غم

سر الف عین
 

امان زرگر

محفلین
عہد ستم کی تلخی؟؟؟

۔۔۔
وہ غزالِ شبِ غم کا اندازِ رم
اک دلِ مبتلا، چشمِ خونبار نم

سب کھڑے ہیں جگر تھام کر دم بخود
ایک مضمارِ محشر ہے بیتُ الصّنم

تم غلافِ جنوں میں لپیٹو جگر
ایسے ہو جائے شاید نگاہِ کرم

ساحلِ بحر تھا اک سرابِ نظر
ڈوبنے کو ہوا میرے ساماں بہم

عشق میرا جواں غالباً یوں ہوا
راس آئی مجھے تیری طرزِ ستم

ان کے لب پر تبسم بکھرتا گیا
دیکھ کر میرے چہرے پہ آثارِ غم

اب مداوائے غم ہو طلوعِ سحر
ختم ہو ہجر کی شب کا ظلم و
ستم

درد افروز ہے جامِ شب یہ ترا
بڑھ گئی لذتِ بزمِ اصحابِ غم
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں عہد کی جگہ ’دور‘ استعمال کرنا بہتر ہو گا۔ میں بھی عہد کو بطور عہد نامہ متصور کر رہا تھا۔ ظلم و ستم کر دینے میں کیا حرج ہے؟ نہ دور نہ عہد، بات واضح تر ہو جاتی ہے۔
 
Top