برائے اصلاح و تنقید (غزل 41)

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
وہ لطفِ مژگاں ہے مثلِ ناوک، ستم تری ہر ادائے الفت
اک التفاتِ نگاہ سے ہی دل و جگر سب فنائے الفت

جو ایک قطرہ میسر آوے تو عمر بھر کو نشاطِ جاں ہو
لٹائے ساقی وہ بیش قیمت شرابِ گلگوں برائے الفت

نوازشِ غم ابھی تلک سارے خار پیوست دل میں میرے
مری وفا کی لحد پہ اب تک بچھی ہے تیری قبائے الفت

تری طلب میں رہِ جنوں میں لٹا دیا سب ماٰلِ ہستی
کچھ اور دیکھو بچا نہ دامانِ دل میں میرے سوائے الفت

جگر کے مرکز میں درد رہتا ہے جیسے کانٹا کوئی چبھا ہو
سکون پل بھر نہیں میسر کچھ ایسے دل کو ستائے الفت

مدام اک حالِ مست وبے خود ، سکونِ قلب و جگر فنا ہو
کفِ ستم سے بس ایک قطرہ شرابِ غم کا پلائے الفت
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اس غزل میں بھی بھرتی کے الفاظ بہت ہیں ۔ جیسے جگر کا مرکز۔ کیا محض جگر سے کام نہیں چل سکتا۔
اسی طرح خٰالات بھی عجیب سے ہیں۔
طویل بحراور زمین بھی ایسی نہیں لگ رہی جس میں عمدہ اظہار بیان ہو سکے۔
 
Top