Wanna see you alive.. Regard Naima Aziz

ناعمہ عزیز

لائبریرین
The pain of your separation is like a wound,
In my heart I can extremely found,
A wound that cannot recover,
Till the last breath we‘ll suffer,
We love you a lot make it clear,
Let me know how we can bear ?
How can we bear the separation of you ?
Do not you wanna come back too ?
Look! I wanna see you alive,
I am dying to listen your voice,
Don’t wanna recall the moment, never!
When you left us, and left us ever,
Just come back, we‘ll fight,
I wanna see you on my sight!!!!


My own poem , a dedication to my dear younger brother) )
 

تلمیذ

لائبریرین
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور

ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور
اللہ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے، آمین!

ایک عمدہ نظم، دلی جذبات کے اظہار کی ایک قابل ستائش کوشش!
 

دوست

محفلین
I may be able to write book length theses and papers on technical topics in my filed, can't even dream to write a poem in English. That's a disadvantage of not being a literature student; linguistics makes one see the limbs of language and their inter-relations like seeing blood vassals through a human body :) .​
The 'literary' sense seldom survives side effects of linguistics​
Anyhow well done, keep it up. I am not gonna mention English metrical system and rhythm, you would have taken care of it; or you will learn to do that as well.​
 

محمداحمد

لائبریرین
This poem gives the inner most feel of pain of separation.

مصطفیٰ زیدی یاد آگئے۔ انہوں نے اپنے بھائی کے لئے بہت اچھی نظم کہی تھی۔

مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گذشتہ کی کتاب

اور اس نظم کا انجام بھی بہت خوب کیا ہے۔

ہم نے غربت میں فقط ایک نگیں پایا تھا
ہم نے عجلت میں اُسے زیرِ زمیں چھوڑ دیا
 

نایاب

لائبریرین
Just come back, we‘ll fight,​
I wanna see you on my sight!!!!​
سچے جذبے جو آنکھوں کو نم کر دیں ۔۔۔۔۔
بہت اچھی نظم لکھی بٹیا جی​
 

فرخ منظور

لائبریرین
This poem gives the inner most feel of pain of separation.

مصطفیٰ زیدی یاد آگئے۔ انہوں نے اپنے بھائی کے لئے بہت اچھی نظم کہی تھی۔

مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گذشتہ کی کتاب

اور اس نظم کا انجام بھی بہت خوب کیا ہے۔

ہم نے غربت میں فقط ایک نگیں پایا تھا
ہم نے عجلت میں اُسے زیرِ زمیں چھوڑ دیا

معذرت کے ساتھ احمد صاحب، لیکن یہ مصطفیٰ زیدی کی نہیں بلکہ فیض احمد فیض کی نظم ہے۔ جس کا عنوان "نوحہ" ہے اور ان کی کتاب "دستِ صبا" میں موجود ہے۔

نوحہ

مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب
اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اس میں بچپن تھا مرا، اور مرا عہدِ شباب
اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب
کیا کروں بھائی ، یہ اعزاز میں کیونکر پہنوں
مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیصوں کا حساب
آخری بار ہے، لو مان لو اک یہ بھی سوال
آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب
آکے لے جاو تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

18، جولائی 1952
 
Top