ایک نئی غزل برائے اصلاح پیشِ خدمت ہے۔ تمام اساتذہ کرام اور احباب سے تنقید و تبصرے کی درخواست ہے۔

ہواؤں کے انداز بدلے ہوئے ہیں
خدا ہی بچائے مرے آشیاں کو

کٹے ہوئے پیڑوں نے یہ بددُعا دی
ترستے رہو اب میاں سائباں کو

تو کیا شہر سارے کو ہے جان کا خوف
پڑے ہوئے ہیں قفل سچ کی زباں کو

سراغ ایسے بھی مل گئے قاتلوں کے
نشاں ڈھونڈتے آ گئے اک نشاں کو

کسی روز پچھتاؤ گے یاد رکھنا
کھلا چھوڑ رکھا ہے تم نے زباں کو

نکل آئے ہیں ذات و ہستی سے آگے
بہت پیچھے چھوڑ آئے کون و مکاں کو

مناظر کچھ ایسے بھی دیکھے ہیں میں نے
میسر نہیں حرف میرے بیاں کو

زمیں تک ہمارے لئے تنگ کر دی
خدا ہی کرے غارت اس آسماں کو

سر الف عین
 

الف عین

لائبریرین
اقتباس میں میرے کمنٹس ہیں۔
کٹے ہوئے پیڑوں نے یہ بددُعا دی
ترستے رہو اب میاں سائباں کو
÷÷÷’ہوئے‘ میں واو طویل نہیں کھنچتی۔ ان کا وزن بھی محض ہُوے‘ ہونا چاہئے۔ اس مصرع میں بھی، اور نیچے کے شعر میں بھی۔

تو کیا شہر سارے کو ہے جان کا خوف
پڑے ہوئے ہیں قفل سچ کی زباں کو

÷÷÷واضح نہیں۔ الفاظ بدل کر واضح کریں
سراغ ایسے بھی مل گئے قاتلوں کے
نشاں ڈھونڈتے آ گئے اک نشاں کو
 
اقتباس میں میرے کمنٹس ہیں۔
سید ذیشان حیدر نے کہا:
کٹے ہوئے پیڑوں نے یہ بددُعا دی
ترستے رہو اب میاں سائباں کو
÷÷÷’ہوئے‘ میں واو طویل نہیں کھنچتی۔ ان کا وزن بھی محض ہُوے‘ ہونا چاہئے۔ اس مصرع میں بھی، اور نیچے کے شعر میں بھی۔

تو کیا شہر سارے کو ہے جان کا خوف
پڑے ہوئے ہیں قفل سچ کی زباں کو

÷÷÷واضح نہیں۔ الفاظ بدل کر واضح کریں
سراغ ایسے بھی مل گئے قاتلوں کے
نشاں ڈھونڈتے آ گئے اک نشاں کو


سر الف عین بہت شکریہ

اب دیکھئے:

درختوں نے کٹتے ہوئے بددُعا دی
ترستے رہو اب میاں سائباں کو

تو کیا شہر سارے کو ہے جان کا خوف
پڑے ہیں یہاں قفل سچ کی زباں کو


یہ شعرنکال ہی دیا ہے:

سراغ ایسے بھی مل گئے قاتلوں کے
نشاں ڈھونڈتے آ گئے اک نشاں کو
 

الف عین

لائبریرین
’شہر سارے‘ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔
تو کیا ساری بستی کو۔۔۔۔
کر دو تو درست ہو جائے گا یہ شعر بھی
 
Top