سید ذیشان حیدر
محفلین
ایک نئی غزل برائے اصلاح پیشِ خدمت ہے۔ تمام اساتذہ کرام اور احباب سے تنقید و تبصرے کی درخواست ہے۔
ہواؤں کے انداز بدلے ہوئے ہیں
خدا ہی بچائے مرے آشیاں کو
کٹے ہوئے پیڑوں نے یہ بددُعا دی
ترستے رہو اب میاں سائباں کو
تو کیا شہر سارے کو ہے جان کا خوف
پڑے ہوئے ہیں قفل سچ کی زباں کو
سراغ ایسے بھی مل گئے قاتلوں کے
نشاں ڈھونڈتے آ گئے اک نشاں کو
کسی روز پچھتاؤ گے یاد رکھنا
کھلا چھوڑ رکھا ہے تم نے زباں کو
نکل آئے ہیں ذات و ہستی سے آگے
بہت پیچھے چھوڑ آئے کون و مکاں کو
مناظر کچھ ایسے بھی دیکھے ہیں میں نے
میسر نہیں حرف میرے بیاں کو
زمیں تک ہمارے لئے تنگ کر دی
خدا ہی کرے غارت اس آسماں کو
سر الف عین
ہواؤں کے انداز بدلے ہوئے ہیں
خدا ہی بچائے مرے آشیاں کو
کٹے ہوئے پیڑوں نے یہ بددُعا دی
ترستے رہو اب میاں سائباں کو
تو کیا شہر سارے کو ہے جان کا خوف
پڑے ہوئے ہیں قفل سچ کی زباں کو
سراغ ایسے بھی مل گئے قاتلوں کے
نشاں ڈھونڈتے آ گئے اک نشاں کو
کسی روز پچھتاؤ گے یاد رکھنا
کھلا چھوڑ رکھا ہے تم نے زباں کو
نکل آئے ہیں ذات و ہستی سے آگے
بہت پیچھے چھوڑ آئے کون و مکاں کو
مناظر کچھ ایسے بھی دیکھے ہیں میں نے
میسر نہیں حرف میرے بیاں کو
زمیں تک ہمارے لئے تنگ کر دی
خدا ہی کرے غارت اس آسماں کو
سر الف عین