محمد وارث

لائبریرین
بہت عمدہ معلوماتی پوسٹ ہے وارث بھائی۔ باوجود اس کے کہ مجھ جیسوں کے اوپر سے ہی یہ ساری اصطلاحیں گزر جاتی ہیں پھر بھی میں نے آپ کی پوسٹ کو بک مارک کرلیا۔

شکریہ رانا صاحب۔ اور مقدس کا بھی شکریہ آپ کا مراسلہ پر مزاح ریٹ کرنے کیلیے کہ یہ ریٹنگ میرے لیے بھی پر مزاح ثابت ہوئی، لیکن اس سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوئی کہ مقدس ایسے موضوعات کو پڑھتی چاہے نہ ہوں لیکن دیکھتی ضرور ہیں۔ :)
 

مقدس

لائبریرین
شکریہ رانا صاحب۔ اور مقدس کا بھی شکریہ آپ کا مراسلہ پر مزاح ریٹ کرنے کیلیے کہ یہ ریٹنگ میرے لیے بھی پر مزاح ثابت ہوئی، لیکن اس سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوئی کہ مقدس ایسے موضوعات کو پڑھتی چاہے نہ ہوں لیکن دیکھتی ضرور ہیں۔ :)
بھیا پڑھتی بھی ہوں
چاہے سمجھ نہ آئے
کیونکہ بار بار پڑھنے سے کچھ تو سمجھ آنے لگے گا ناں
اور رانا بھائی کی پوسٹ پرمزاح اس لیے ریٹ کی کیونکہ سمجھ ان کو بھی نہیں آیا تھا
:):):)
 

سید ذیشان

محفلین
میں آپ کے اس جملے کو سمجھنے سے واقعی قاصر ہوں مزمل صاحب۔

آپ کے شروع کردہ تھریڈ میں اگر جواب نہ بھیجا جائے تو آپ ٹیگ کرتے ہیں، اور اگر بھیج دیا جائے تو آپ سمجھتے ہیں کوئی تنگ ہوا ہے، دوگونہ عذاب است جانِ مجنوں را والا معاملہ ہے میرے ساتھ :)

میں قطعاً تنگ نہیں ہوا دیگر انتظامیہ سےفرداً فرداً خود ہی پوچھ لیں کہ وہ تنگ ہوئے ہیں یا نہیں۔ اور مضمون کو حذف کرنے کی مجھے کوئی خاطر خواہ وجہ نظر نہیں آتی، اگر آپ پھر بھی حذف کروانا چاہتے ہیں تو یہاں کے مدیر، مدیران اعلیٰ یا کسی دیگر منتظم کو درخواست کر سکتے ہیں۔

میرے مراسلے میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس میں میں نے یہ محسوس کروایا ہو کہ میں آپ کے مضمون سے تنگ ہوا ہوں یا بجنگ ہوا ہوں، یا دنگ ہوا ہوں یا حریفِ جنگ ہوا ہوں یا دست بہ سنگ ہوا ہوں، آپ نے ایک مضمون لکھا مجھ اس سے مکمل اتفاق نہیں تھا سو میں نے عرض کر دیا اور اپنا مدعا بیان کرنے کی کوشش کی کہ پنگل اور عروض اصل میں، بنیاد میں اور جڑ میں ایک ہی چیز ہیں، انکی عمارت میں، فرع میں اور پھول پتوں اور ٹہنیوں میں فرق ہو سکتا ہے لیکن یہ ایک ہی نسل اور ایک ہی اصل کے ہیں۔ یہ بات ثابت ہے کہ سنسکرت کا پنگل نظام عربی کے عروض سےقدیم ہے، اور ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ عروض کے قوانین کو مرتب کرتے ہوئے پنگل کا نظام بھی پیشِ نظر تھا۔ میں نے مزید یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ کسی بھی کلام کو ہم یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ وہ پنگل میں ہے یا عروض میں، کیونکہ وہ دونوں نظاموں میں ایک ہی طرح کا وزن رکھے گا۔ اب کوئی دو کو ایک جمع ایک کہے یا تین نفی ایک، بات ایک ہی ہے اور حاصل جواب دو ہی ہے۔

میرا خیال تھا کہ پچھلے مراسلے میں میں اپنی بات مکمل کر چکا ہوں لیکن شاید میرا خیال غلط تھا لیکن یقین مانیے میرے پاس مزید کچھ کہنے کیلیے کچھ بھی نہیں ہے، اور اگر کچھ کہوں گا بھی تو وہ سودمند ثابت نہیں ہوگا، سو مجھے اپنا عجز تسلیم کرنے میں قطعاً کوئی عار نہیں ہے۔ :)

اور شائد انگریزی scansion کے قوانین جو کہ کسی نظم کے ارکان یا feet اور بحر یا meter نکالنے میں مدد دیتے ہیں بھی short syllable (یا - یا 1) اور long syllables (یا 2 یا =) کے patterns سے ہی بنتا ہے۔ اس ربط پر مزید تفصیل موجود ہے۔
 
محض چوں چوں کا مربہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ فعلن کی صوت کو سمجھیں ہر جگہ علم عروض نہیں چلتا۔۔۔۔۔۔۔۔ بظاہر نظر آنے والے وتد مجموع کو 21 کے وزن پر نہیں تولتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعلن عوامی وزن ہے اور اس کی صوت میں قدرتی طور پر ایسے الفاظ وارد ہوتے ہیں جن میں وتدمجموع کا پہلا متحرک ساکن ہو کرپچھلے لفظ کے وتد کے ساتھ مل کر سبب خفیف بناتا ہے۔ مثلا ہے بڑا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس قسم کی صورت حال میں تھ رکھا کا وزن صوت اعتبار سے فعِلن عین محترک کے ساتھ نہیں بلکہ فعلن عین ساکن کے وزن پر پورا اترتا ہے۔۔۔۔۔۔ مثلا ہاتھ رکھا میں تھ وتد ہے ہے اور اس کے آگے وتد مجموع ہے۔ صوتی اعتبار سے رکھا کا پہلا متحرک یعنی "ر" ساکن ہو جائے گا اور پچھلے وتد سے مل کر سبب خفیف بنائے یوں یہ تھرکا کی آواز دیتے ہوئے فعلن کے وزن کو اختیارکر لیتا ہے۔اس کے علاوہ ایسے وتد مجموع کے پیچھے آنے والے الفاظ کے آخر میں دو ساکن آتے ہیں جس کے آخری ساکن کو وتد مان کر اگلے وتد مجموع کے پہلے متحرک حرف کو ساکن کر کے سبب خفیف بنایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ وتد مجموع کے پچھلے لفظ میں اگر دو ساکن نہ ہوں تو اکثر ایسے الفاظ وارد ہوتے ہیں جن کے آخری حرف یا تو گرانے کی اجازت ہوتی ہے یا از خود صوتی نظام اس کے آخری حرف کو دبا دیتا ہے یوں حاصل ہونے والے وتد کو اگلے وتد مجموع کے پہلے متحرک کو ساکن کر کے سبب خفیف بنایا جاتا ہے بلکہ یوں کہوں کہ اس رکن فعلن کی صوت از خود سبب خفیف بنا دیتی ہے۔

چند مثالیں دیکھیں

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

فاعلاتن مفاعلن فعلن
اب عروض دان آخری ہے ابھی کو فعِلن یعنی عین متحرک سمجھ کر اس کی تقطیع کرتے ہیں جبکہ صوتی نظام اس کے فعلن یعنی عین ساکن کے ساتھ وزن کی وضاحت یوں کرتا ہے

" ہے " کی ے دب جائے گی اور صرف " ہ " کی آواز نکالے گا جو کہ ایک وتد ہے اس کے آگے وتد مجموع یعنی ابھی ہے۔ " ہ " کی آواز ابھرکا وتد مجموع کے پہلے متحرک حرف یعنی الف کو اٹھائے گی یوں اس کی آواز بنے گی " ہا " یعنی ایک سبب خفیف۔۔۔۔۔۔ اور باقی رہ جائے گا " بھی" جو کہ سبب خفیف ہے ۔ اب اس مصرع کی صوتی تقطیع علم عروض میں کیسے کی جائے گی۔

دل میں اک لہر سے اٹھی ہابھی
فاعلاتن مفاعلن فعلن " عین ساکن کے ساتھ۔

یہ تو ہوئی کسی حرف کے از خود دب جانے یا گرانا جائز سمجھ کر دبا دیا گیا۔ اب وتد مجموع کے پیچھے دوساکن رہ جانے والے حروف کی مثال

پروین شاکر کا شعر ہے

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
ہاتھ رکھا میں ہا جو کہ ایک متحرک اور ایک ساکن پر مشتمل ہے اس کے آگے ایک تنہا رہ جانے والا ساکن ہے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہاتھ کے آخر میں دو ساکن ہیں۔ایسی صورت میں ہا تھ کی " ت" وتد مان کر اگلے وتد مجموع رکھا کی رے کو جو کہ متحرک ہے اس کو ساکن کر کے ایک سبب خفیف بنا دے گی۔ مثلا تھرکا جو کہ فعلن عین ساکن کے ساتھ وزن پر ادا ہوتا ہے

اب اس مصرع کی تقطیع دیکھیں

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہا ترکھا
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن

آپ لاکھ کوشش کریں ہاتھ رکھا کی " ت " کی پوری ادائیگی نہیں کرسکتے اس طرح ناصر کاظمی کے مصرع میں ہے ابھی کی ہے کی پوری ادائیگی نہیں کرسکتے۔

اس کو گنگنا کر اس کی صوت پر توجہ دیں۔

آپ ایسی بحور میں جس میں فعلن عین ساکن کے ساتھ استعمال ہورہا ہو۔ وہاں ایسی صورت حال کامشاہدہ کریں جہاں آپ اسے فعِلن عین متحرک کا وزن سمجھ رہے ہوں۔ وہاں وتد مجموع کے پیچھے یا تو دوساکن والا لفظ دیکھیں گے یا پھر ایسا لفظ جس میں آخری حرف دب رہا ہوگا۔

چونکہ علم عروض کی بنیاد صوتی نظام پر رکھی گئ اس میں آواز کے حرکات و سکنات کو مدنظر رکھ کر اشکال تشکیل دی گئیں اس لیے اس کے صوتی نظام کو پہلے سمجھنا ہوگا۔عروضی قاعدے بعد میں۔

شاعری تو جب بھی ہورہی تھی جب علم عروض کا نام ونشان نہ تھا۔

چنانچہ مجھے فعِلن کے وزن پر سخت اعتراض ہے۔

مجھے تو "پھراس" کو فعلن عین ساکن کے ساتھ باندھنے پر بھی اعتراض ہے کیوں کہ اس کی صوت " پھرس " پر ہے الف خود بخود دب جاتا ہے۔ یہ کیا کہ مرضی ہو تو فعلن پر باندھ دیا مرضی ہو تو پھرس کی صوت کا فائدہ اٹھا کر فعُل کے وزن پر باندھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صوتی اعتبار سے پھراس فعُل کے وزن پر ہے۔اس کو فعلن پر باندھنے کو پھر کو ادا کرتے ہوئے ہلکا سا توقف کرنا پڑتا ہے۔

اب فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن کو اردو میں فعول فعول فعول فعول فعول فعول فعول فعل بنادیں یا
فعول مفاعیل فعول مفاعیل فعل فعلن کرلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں دو ساکن والے حروف کو وتد مان کر اگلے وتد مجموع کے پہلے متحرک حرف کو ساکن کر کے سبب خفیف بناتے جائیں اور دونوں بحور کو ایک ہی دھن پر گنگنا کر دیکھیں اس کا صوتی نظام ایک جیسا ہوگا۔

لہذا یہ کہنا کہ میر نے
کسی ہندی بحر کو استعمال نہیں کیا بلکہ علمِ عروض کو اور اور زحافات کو استعمال کرتے ہوئے اشعار کہے ہیں ، گمراہی ہے۔لاعلمی ہے۔​
 
ویری گڈ ارشد بھائی۔
ایک بات جو میری مؤدبانہ گذارش
محمود ارشد وٹو

مہربانی فرما کر اپنی رائے سے مجھ ناچیز کو مستفید فرمائیں اس مضمون کے اسقام سے۔ :)
پر ”ناپسند“ کی ریٹنگ سے جو ثابت ہوا وہ یہ کہ آپ نے محض تعصب کی نظر سے سارا غصہ (جو بالکل بے دلیل اور بے ضابطہ تھا) نکال لیا ہے۔ :)

اب کچھ باتوں کی وضاحت:

بظاہر نظر آنے والے وتد مجموع کو 21 کے وزن پر نہیں تولتے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ فعلن عوامی وزن ہے اور اس کی صوت میں قدرتی طور پر ایسے الفاظ وارد ہوتے ہیں جن میں وتدمجموع کا پہلا متحرک ساکن ہو کرپچھلے لفظ کے وتد کے ساتھ مل کر سبب خفیف بناتا ہے۔ مثلا ہے بڑا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ہاتھ رکھا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اس قسم کی صورت حال میں تھ رکھا کا وزن صوت اعتبار سے فعِلن عین محترک کے ساتھ نہیں بلکہ فعلن عین ساکن کے وزن پر پورا اترتا ہے

یہ بات آج سے پہلے یقیناً کسی نے نہیں کہی تھی اور آپ پہلے ہی ہیں یہ بدعت ایجاد کرنے والے۔ اور ایسی بدعت جس کا پہلے ہی ایک طریقہ عروض میں موجود اور مروج ہے مگر آپ نے ایک بے دلیل انداز سے بے ضابطہ طریقہ پیش فرمایا۔ جو نہ صرف عروضی ضابطوں کو توڑتا ہے بلکہ عقلی طور پر بھی محض آپ کا وہم ہے جسکا اجتماعی طور پر اطلاق نہیں ہوتا۔

اور جناب یہ عوامی فعلن کیا ہوتا ہے؟ کیا اسے عوام نے بنایا تھا؟:)

آپ کے نظام سے پہلے تو آپ وتدِ مجموع کی تعریف بیان کر رہے ہیں اوربعد میں اسی کی نفی کر رہے ہیں۔ کیونکہ آپ کے مطابق فعِلن کوئی چیز ہی نہیں۔ جہاں بھی یہ ہوگا اسے اس سے پہلے والا ساکن سبب خفیف بنا دے گا۔ اس طرح آپ نے اپنے نام نہاد عوامی فعلن (جسکی کوئی حقیقت نہیں) سے پورا عروض جو صدیوں سے مستعمل ہے اسے دریا برد کردیا۔
مثلاً:
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا

تقطیع:
خر شی :: فعلن
دہ نو :: فعلن
زس کب :: فعلن
رابر :: فعلن
نہ وا :: فعلن
تھا :: فع

یہاں میں نے مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
کو آپ کے نام نہاد صوتی اور عوامی نظام سے وتد مجموع کے پہلے متحرک کو ساکن کر کے پچھلے ساکن سے ملاکر تقطیع کردی ہے۔
وجہ اسکی آپ کا عوامی فعلن ہے۔
اس طرح صرف فعِلن نہیں بلکہ تمام بحروں میں جہاں جہاں فعِلن کے وزن پر جو رکن کا حصہ یہ ارکان کا مجموعہ موجود ہوگا اس پر بھی اسی بات کا اطلاق ہوگا۔ اور مفعول مفاعیل میں لُمَفَا
فعِلن کے وزن پر ہے تو تقطیع آپ کے عوامی فعلن سے اوپر کر دی ہے۔ :)


ہاتھ رکھا میں ہا جو کہ ایک متحرک اور ایک ساکن پر مشتمل ہے اس کے آگے ایک تنہا رہ جانے والا ساکن ہے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہاتھ کے آخر میں دو ساکن ہیں۔ایسی صورت میں ہا تھ کی " ت" وتد مان کر اگلے وتد مجموع رکھا کی رے کو جو کہ متحرک ہے اس کو ساکن کر کے ایک سبب خفیف بنا دے گی۔ مثلا تھرکا جو کہ فعلن عین ساکن کے ساتھ وزن پر ادا ہوتا ہے​

اب اس مصرع کی تقطیع دیکھیں​

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہا ترکھا​
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن​

آپ لاکھ کوشش کریں ہاتھ رکھا کی " ت " کی پوری ادائیگی نہیں کرسکتے اس طرح ناصر کاظمی کے مصرع میں ہے ابھی کی ہے کی پوری ادائیگی نہیں کرسکتے۔​

پہلے کی طرح یہی کہونگا کہ یہ آپ کا اپنا وہم ہے جس کی اہل علم حضرات کے نزدیک کوئی حیثیت اور وقعت ہرگز نہیں۔
عروض کا جس انسان نے تھوڑا سا مطالعہ بھی کیا ہو وہ یہ بات ہرگز نہیں مانے گا اور نہ اس عوامی وہم پر عمل کرے گا۔ :)
عروض کا قاعدہ کلیہ ہے کہ مستقل دو ساکن حروف میں سے سے دوسرے کو متحرک مانتے ہیں۔ ۔ یا اصطلاحی طور پر ایک ”وتد مفروق“ میں میں پہلا متحرک دوسرا ساکن اور تیسرا پھر متحرک مانا جاتا ہے۔
مثال اسکی: ذات، ہاتھ، سات، گھات وغیرہ۔
جب یہ الفاظ شعر کے درمیان ہوں تو ان میں انفرادی طور پر تحریک رہتی اور آپ کے عوامی اصول کو استعمال کر کے ان کے ساتھ کوئی دوسرا حرف نہیں جوڑا جاتا جیسے: ہاتھر گھاتر ساتر وغیرہ :)

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہا تھ رکھا​

یہاں اس بحر کے آخری دو ارکان دیکھیں:​

فعلاتن فعِلُن​

نِ پِ جب ہا::: فَ عِ لا تُن

ت ر کا::: فُ عِ لن

واضح رہے کہ عروضی قاعدہ کلیہ ہے کہ ایک ساکن کے بعد دوسرا ساکن درمیانِ شعر نہیں ہوتا۔ تو ہاتھ میں ”تھ“ متحرک استعمال ہوتا ہےیا مختصر طور پر یوں سمجھا جائے کہ وتد مفروق کا پہلا اور آخری حرف متحرک اور درمیان والا ساکن ہوتا ہے۔

اب اگر کوئی انسان محض اپنی دکان کھول کر ”ہاتھ“ کے ”تھ“ کو زبردستی ساکن بنانے پر تل جائے تو یہ قابل قبول نہیں۔
حوالے کے لئے :
بحر الفصاحت دوسرا شہر ص 19 ملاحظہ ہو۔

چنانچہ مجھے فعِلن کے وزن پر سخت اعتراض ہے۔​

مجھے تو "پھراس" کو فعلن عین ساکن کے ساتھ باندھنے پر بھی اعتراض ہے کیوں کہ اس کی صوت " پھرس " پر ہے الف خود بخود دب جاتا ہے۔ یہ کیا کہ مرضی ہو تو فعلن پر باندھ دیا مرضی ہو تو پھرس کی صوت کا فائدہ اٹھا کر فعُل کے وزن پر باندھ دیا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔​

عوامی فعلن والے اس اصول کو نہیں سمجھ سکتے حضور۔ :)
ہاں عروضی قاعدوں سے سمجھا جائے تو ”پھر اس“ اور ”پھرس“ کا فرق معلوم ہوجائے۔

لہذا یہ کہنا کہ میر نے​
کسی ہندی بحر کو استعمال نہیں کیا بلکہ علمِ عروض کو اور اور زحافات کو استعمال کرتے ہوئے اشعار کہے ہیں ، گمراہی ہے۔لاعلمی ہے۔

مزید کچھ کہنے سے گریز کرونگا۔ کہ آپ کا شوق نقادی تعصب کی چوٹیوں تک پورا ہونے سے نہ رہ جائے کہیں اور امید کرتا ہوں کے مزید بے دلیل طعنے سننے کو ملتے رہینگے اور دلیل کبھی نہ مل سکے گی ہمیشہ کی طرح :)



 
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔ آپ نے پھر عروضی قاعدے استعمال کرنے شروع کر دیئے محترم میں نے صوتی لحاظ سے بات کی ہے۔ نیز عوامی اس لیے کہا کہ لوکل صنف جوبھی ہے۔ ٹپہ،لوری،ڈھولا ماہیا یہ سب اسی وزن میں فی البدیہہ بولے جاتے ہیں۔

اردو میں کسی بحر میں اتنے زحافات کی اجازت نہیں ملتی جتنی آپ اس ہندی بحر میں ٹنوں کے حساب سے لا کر بحر گھڑنا چاہتے ہیں۔

اب اگر کوئی انسان محض اپنی دکان کھول کر ”ہاتھ“ کے ”تھ“ کو زبردستی ساکن بنانے پر تل جائے تو یہ قابل قبول نہیں۔
اس بات کے جواب کے لیے دوبارہ سے پورا بلاگ پڑھ لیں میں نے زبردستی ساکن نہیں کیا اسے متحرک ہی مانا ہے اگلے وتد مجموع کے پہلے متحرک کو ساکن کرنے کی بات کی ہے۔اور ایسا لفظ کہا ہے جس کے آخر میں دوساکن آرہے ہوں تو آخری ساکن محترک مانتے ہوئے اگلے وتد مجموع کے پہلے متحرک کو ساکن کر کے سبب خفیف بناتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ بلاگ دوبارہ پڑھ لیں۔

شروع میں کہہ دیا تھا کہ
فعلن کی صوت کو سمجھیں ہر جگہ علم عروض نہیں چلتا۔​

اور آپ عروضی قاعدوں سے وتد مجموع کے متحرک کو متحرک اور پچھلے دو ساکن کے آخری ساکن جو کہ متحرک ہی ہوتا ہے کو عروض میں 11 کے حساب سے تول رہے ہیں۔دوبارہ کہوں گا کہ ایسی جگہوں پر ان کو ادا کر کے ان کی صوتی تقسیم پر غور کریں۔
 
پنجابی ماہیے اور اردو ماہیے کے جیسے الگ اوزان ترتیتب دیئے گئے ہیں اگر اردو ماہیا کی صوت پنجابی ماہیا کے آہنگ پر پورا اترتا ہے تو وہ جچے گا۔اور پنجابی ماہیا کا وزن فعلن فعلن فعلن عین ساکن کے ساتھ ہے آپ اردو میں اس کا آہنگ مفعول مفاعیلن کر کے دیکھیں صوتی تقسیم کا کچھ کچھ اندازہ ہوجائے گا۔ اگر پنجابی ماہیے کی عروضی تقطیع فعِلن کر کے اردو کا ماہیا لکھیں پھر دونوں کا آہنگ ملاحظہ کر لیں فرق واضح ہوگا۔
 
اتنا کہوں کہ یہ میر کی ہندی بحر کو اردو بحر میں گھڑنا یا سمجھ لینا آپ کے صوتی نظام کی تقسیم میں معلومات کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔
 
جب یہ الفاظ شعر کے درمیان ہوں تو ان میں انفرادی طور پر تحریک رہتی اور آپ کے عوامی اصول کو استعمال کر کے ان کے ساتھ کوئی دوسرا حرف نہیں جوڑا جاتا جیسے: ہاتھر گھاتر ساتر وغیرہ​
:)


ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اسے فعلن کے اوزان کے لیے کہا ہے ہر جگہ نہیں۔ جہاں فعلن کا رکن درکار ہوگا۔محترم غور سے پڑھا کریں
 
مثال میں میر کا شعر تقطیع کیا ہے:​
عشق کیا سر، دین گیا، ایمان گیا، اسلام گیا​
دل نے ایسا کام کیا، کچھ جس سے میں ناکام گیا​
پہلے مصرعے کا وزن:​
فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعلُ فعَل​
دوسرا مصرع:​
فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فعلن فعلُ فعَل​
ان مثالوں کے بعداب تک آپ اتنا تو جان چکے ہونگے کہ بحر ہندی در اصل ہندی پنگل نہیں بلکہ علمِ عروض ہے۔
ان اشعار کی تقطیع صوتی نظام کے تحت یوں ہوگی

عشقک، یاسر،دی نگ ،یا اے ، نگ یا، اسلا، مگ یا
فعلن ، فعلن، فعلن،فعلن، فعلن، فعلن ،فعلن
دوسرا مصرع
دل نے، سا کا،مک یا ، کچ جس، سے میں، نا کا، مگ یا
فعلن، فعلن، فعلن، فعلن فعلن فعلن فعلن
دوسرے مصرعے میں " نے " کی "ے" گر رہی ہے اور " ایسا" کی الف۔ یوں اس کی صوت " نیسا " پر برقرار رہتی ہے
یعنی فعلن کی سات بار تکرار سے دونوں مصرعوں کا آہنگ برقرار ہے

اس مثال سے آپ جان سکتے ہیں کہ ہندی بحر دراصل ہندی یا پنجابی آہنگ پر ہے نہ کہ علمِ عروض پر۔

بھلا بتائیں ایک عام سا دیہاتی جو نہ تو شاعر ہے نہ اسے علم عروض کی شد بد ہے وہ عام حالات میں یا شادی بیاہ کے موقع پر ڈھولے ماہیے ،ٹپے جوڑ جوڑ کر محفل کو گرماتا ہے اپنی آواز سے اس کا پڑھا ہوا ماہیا فعلن کے اوزان پر پورا اترتا ہے تو مان لیں کہ " فعلن " کا آہنگ دراصل قدرتی ہے جسے ایک عام سا شخص بھی بغیر کسی علم کے ڈھولے ماہیے گاسکتاہے۔

بھلا یہ بتائیں ایک شاعر جب کسی ایسی بحر میں کوئی شعر لکھتا ہے یا غزل کہتا ہے وہ کیا فعلن کی عین کو متحرک ذہن میں رکھ کر مصرع موزوں کرتا ہے وہ تو سیدھا سادہ اسے فعلن کے آہنگ پر کہتا چلا جاتا ہے۔ بعد میں عروض دان ایسی صورت حال میں جب کوئی لفظ کے آخر میں دو ساکن آجائیں اور اگلا لفظ وتد مجموع ہوتو اس کی تقطیع 211 پر کرے اور اسے خواہ مخواہ اردو کی بحر کہنے پر اصرار کرے زحافات کا بھرمار لگا دے اور کسی طرح اس کا عروضی وزن پورا کرے میرا خیال ہے کہ اس عوامی آواز کو مارنے کے مترادف ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ عروض دانوں نے اس بحر پر جتنا سر گھپایا ہے اس کی گتھی کو سلجھا نہیں سکے کہیں فعل فعول کے چکر میں کوئِ مصرع تقطیع میں بڑھ جاتا ہے کوئی کم ہو جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اردو ماہیے پر جب کام شروع ہوا تو اس کے اصل آہنگ سے ہٹ کر اردو ماہیے کے لیے اوازن ترتیتب دیتے وقت الجھ کر رہ گئے نتیجتا کئی اوزان پر ماہیے کہنے کی کوشش کی گئی جس سے اس کا صوتی نظام بگڑ گیا اور وہ کسی طرح پنجابی ماہیے کی آہنگ پر پورا نہ اترسکا۔البتہ اردو ماہیے کا ایک آہنگ مفعول مفاعیلن، فعْل مفاعیلن، مفعول مفاعیلن ایک ایسا آہنگ ہے جو عین پنجابی ماہیے کا آہنگ ہے۔اگر اردو ماہیا پنجابی کے آہنگ یعنی فعلن فعلن فعلن،فعلن فعلن فع، فعلن فعلن فعلن پر لکھا جاتا تو آج اردو ماہیا ایک توانا صنف کا درجہ حاصل کر چکا ہوتا۔
اردو کے جو ماہیے پنجابی کے آہنگ پر لکھے گئے جس کے لیے اردو کی یہ بحر تجویز کی گئی، مفعول مفاعیلن، فعل مفاعیلن، مفعول مفاعیلن ان ماہیے کو گا کر اور ایک پنجابی ماہیے کو گا کر محسوس کریں تو دونوں کے آہنگ میں کہیں کجی محسوس نہیں ہوگی۔

لہذا ساحر لدھیانوی قمر جلال آبادی نے درست پنجابی ماہیے لکھتے وقت پنجابی ماہیے کو کسی عروضی حوالے سے سمجھنے کی بجائے اسے اسکی دھن کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ دیگر میں بشیر منذر، عبدالمجید بھٹی، منیر عشرت اور ثاقب زیروی نے تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی پیش کئے جو کہ کامیاب نہ ہوسکے۔علی محمد فرشی کے تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی ماہیوں کے نام سے منظر عام پر آئے اور پی ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ کیے گئے ان کی گائیگی سے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ ماہیے کا درست آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے گانے والا مشکل میں دکھائی دے رہا تھا اور گائیکی کا انداز بھی پنجابی کی کسی دھن سے میل نہیں کھا رہا تھا۔ اسی کے دہائی میں چونکہ ہائیکو تین ہم وزن مصرعوں پر لکھی جانے والی صنف میں کام ہو رہا تھا چنانچہ ہائیکو لکھنے والوں نے اردو ماہیے کی طرف رخ کیا اور تین ہم وزن ثلاثی کو ماہیے کے نام سے منظر عام پر لائے۔
چنانچہ ماہیے کا ٹھیک آہنگ نہ سمجھنے کی وجہ سے اردو ماہیا زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکا۔

اگر اردو ماہیے کو پنجابی کے آہنگ پر لکھا جائے تو یہ صنف تیزی سے مقبول ہوسکتی ہے۔اردو ماہیے کے لیے مفعول مفاعیلن، فعْل مفاعیلن، مفعول مفاعیلن، پنجابی وزن فعلن فعلن فعلن، فعلن فعلن فع، فعلن فعلن فعلن پر ہے اور دونوں کے صوتی نظام میں کہیں رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن اگر اردو ماہیا کو عروض کی پیچیدگیوں میں ڈال دیا جائے اور اس کو
2221122، 222112۔2221122 پررکھ کر مصرعے گھڑنے کی کوشش کی جائے گی تو یقینآ کسی جگہ اس کے صوتی نظام میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔

سو معذرت چاہتا ہوں بسمل صاحب سے کہ اس ہندی یا پنجابی یا میرے لفظوں کے مطابق عوامی آہنگ کو کسی طور قبول نہیں کروں گا کہ اس کو عروض کی پیچیدگیوں میں ڈالا جائے۔۔۔ تاہم بسمل نے ایک کوشش کی اس کے لیے بھرپور داد ۔۔۔۔

نیز بسمل کے ایک مضمون رباعی کے دو اوزان پر کسی حد تک متفق ہوں۔
 
نہ ہی میں اس بات کو قبول کروں گا کہ جہاں دل چاہے " لیکن اب " میں اب کی الف گرا کر اس کے صوتی نظام پر وزن پورا کر لیا جائے اور جہاں دل چاہے اسے فعلن فع کے وزن پر باندھ لیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں سے پوچھنا چاہوں گا۔ کہ " اب " کی الف گرانے کی اجازت کس عروض دان نے دی ہے۔سوائے اس کے کسی بڑے شاعر نے ایسا کردیا تو رواج چل نکلا اور اسے سند بنالیا۔ جیسا کہ آج کل فارسی کے تماشا کی آخری الف گرائی جا رہی ہے جو کہ جائز نہیں مگر یہ چل نکلا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے یہ جائز ٹھہرے گا۔
 
لوگ آج تک جو علم عروض سے واقف نہیں وہ فعلن کو عین ساکن کے آہنگ پر لکھ رہے ہیں اور انہیں کوئ مشکل پیش نہیں آرہی جس دن انہوں نے فعِلن کو سمجھنے کی کوشش کی وہ اس میں الجھ کر رہ جائیں گے اور ایسی رواں بحور کہ جن کے وہ عادی ہوچکے ہیں ان کے لیے مشکل ہو جائیں گی۔
 
عشق کیا سر، دین گیا، ایمان گیا، اسلام گیا
دل نے ایسا کام کیا، کچھ جس سے میں ناکام گیا
پہلے مصرعے کا وزن:
فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعلُ فعَل
دوسرا مصرع:
فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فعلن فعلُ فعَل
ان مثالوں کے بعداب تک آپ اتنا تو جان چکے ہونگے کہ بحر ہندی در اصل ہندی پنگل نہیں بلکہ علمِ عروض ہے۔
ان اشعار کی تقطیع صوتی نظام کے تحت یوں ہوگی​

عشقک، یاسر،دی نگ ،یا اے ، نگ یا، اسلا، مگ یا​
فعلن ، فعلن، فعلن،فعلن، فعلن، فعلن ،فعلن​
دوسرا مصرع​
دل نے، سا کا،مک یا ، کچ جس، سے میں، نا کا، مگ یا​
فعلن، فعلن، فعلن، فعلن فعلن فعلن فعلن​
دوسرے مصرعے میں " نے " کی "ے" گر رہی ہے اور " ایسا" کی الف۔ یوں اس کی صوت " نیسا " پر برقرار رہتی ہے​
یعنی فعلن کی سات بار تکرار سے دونوں مصرعوں کا آہنگ برقرار ہے​


:laughing::rollingonthefloor::laugh:

علم عروض کی تیرہ سو سالہ تاریخ میں شاید کسی احمق ترین انسان نے بھی ایسی تقطیع نہ کی ہوگی جو استاد وٹو صاحب فرما گئے ہیں۔ :biggrin:
چہ جائیکہ کوئی عروضی ایسا کام کرے۔ :)

اردو میں کسی بحر میں اتنے زحافات کی اجازت نہیں ملتی جتنی آپ اس ہندی بحر میں ٹنوں کے حساب سے لا کر بحر گھڑنا چاہتے ہیں۔

مفعولُ مفاعیل مفاعیل فعولن
پہلے رکن میں ”خرم“ اور ”کف“
دوسرے میں پھر ”کف“
تیسرے میں بھی ”کف“
چوتھے میں ”حذف“
میں نے تو مضاعف میں آٹھ ارکان میں کل ملا کر بھی محض تین زحافات استعمال کیئے ہیں جناب۔ اور وہ بھی محض وہی زحاف جنکی عروض میں خود سب عروضیوں نے اجازت دی ہے۔ بلکہ انہوں نے اپنے اصول کو جہاں جہاں توڑا وہاں میں نے نشاندہی کرکے متبادل طریقے بھی بتائے ہیں ملاحظہ فرمالیجئے دوبارہ۔ :) اگر ایک بھی عروضی اصول توڑا ہو تو میں مجرم :)



نہ ہی میں اس بات کو قبول کروں گا کہ جہاں دل چاہے " لیکن اب " میں اب کی الف گرا کر اس کے صوتی نظام پر وزن پورا کر لیا جائے اور جہاں دل چاہے اسے فعلن فع کے وزن پر باندھ لیا جائے



یہ بحث تو حافظ اور خسرو اور بڑے بڑے اساتذہ جو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ عروضی طور پر امام گذرے ہیں ان سے کرو کے انہیں کس نے الف کو گرانے کا حق دیا



حافظ شیرازی:
چہ نسبت است بہ رندي صلاح و تقوا را
سماع وعظ كجا نغمہ رباب كجا

امیر خسرو:
نفیر و نالۂ خلق ازجفائے خار بود
اگر ز بلبل پرسی جفائ گل بتر است

سعدی:
از آن مار بر پای راعی زند
کہ برسد سرش را بکو بد بہ سنگ

میر:
ہنگامہ گرم کن جو دلِ نا صبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھا

دے پہلی التفاتیں ساری فریب نکلیں
دینا نہ تھا دل اس کو، میں میر آہ چوکا

غالب:
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں

سخن میں خامۂ غالب کی آتش افشانی
یقیں ہے ہم کو بھی، لیکن اب اس میں دم کیا ہے


دلیلوں پر دلیلیں مگر آپ کے حیلے :)

آپ نے پھر عروضی قاعدے استعمال کرنے شروع کر دیئے محترم میں نے صوتی لحاظ سے بات کی ہے۔

تو آپ کو عروض کے معاملے میں ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت؟ پھر میرے مضامین کا لنک جگہ جگہ دے کر تنقید سے کیا حاصل؟
تو حضور جگہ جگہ عروضی مباحث میں شور مت فرمائیں میرے مضامین کے حوالے سے جب آپ عروض کے بارے میں جانتے نہ ہوں۔
والسلام، بحث تمام۔ :)
اب کوئی بات بنا دلیل کے اور عوامی حیلے استعمال کر کے لکھنے سے گریز کریں کیونکہ آپ کے پاس دلیل کا ہونا تو ایسا ہے جیسے رات میں سورج کا ہونا :)
 
Top