’خواجہ آصف اقامہ رکھنے کے معاملے پر نااہل قرار‘

محمداحمد

لائبریرین
مقبول لیڈرشپ، چاہے وہ کرپٹ بھی کیوں نہ ہو، غیر فطری طریقے سے ہٹائی جاتی رہے گی تو یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ انہیں اپنے بوجھ سے خود گرنا چاہیے۔

پاکستان کا انتخابی نظام اس قابل نہیں کہ وہ اچھے برے میں فرق کر سکے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
پاکستان کا انتخابی نظام اس قابل نہیں کہ وہ اچھے برے میں فرق کر سکے۔
پھر فوجی اور عدالتی نظام سے کیسے یہی توقع رکھی جا سکتی ہے؟
میرے خیال میں یہاں محمد احمد بھائی کی مراد انتخابی نظام کی بجائے انتخاب کرنے والی عوام سے ہے۔ 90 کی دہائی میں پاکستانی سیاست امریکہ کی طرح دو پارٹی نظام میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اگر مشرف ٹانگ نہ اڑاتا تو اگلے دس بیس سالوں میں اس کرپٹ سیاسی سسٹم نے مزیدمستحکم ہو جانا تھا۔ اب کم از کم ان دو کے علاوہ عوام کے پاس تیسرا انتخاب تحریک انصاف کے طور پر موجود ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میرے خیال میں یہاں محمد احمد بھائی کی مراد انتخابی نظام کی بجائے انتخاب کرنے والی عوام سے ہے۔ 90 کی دہائی میں پاکستانی سیاست امریکہ کی طرح دو پارٹی نظام میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اگر مشرف ٹانگ نہ اڑاتا تو اگلے دس بیس سالوں میں اس کرپٹ سیاسی سسٹم نے مزیدمستحکم ہو جانا تھا۔ اب کم از کم ان دو کے علاوہ عوام کے پاس تیسرا انتخاب تحریک انصاف کے طور پر موجود ہے۔

لیکن بات یہ ہے کہ "دلہن وہی جو پیا من بھائے"
 

زیک

مسافر
میرے خیال میں یہاں محمد احمد بھائی کی مراد انتخابی نظام کی بجائے انتخاب کرنے والی عوام سے ہے۔ 90 کی دہائی میں پاکستانی سیاست امریکہ کی طرح دو پارٹی نظام میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اگر مشرف ٹانگ نہ اڑاتا تو اگلے دس بیس سالوں میں اس کرپٹ سیاسی سسٹم نے مزیدمستحکم ہو جانا تھا۔ اب کم از کم ان دو کے علاوہ عوام کے پاس تیسرا انتخاب تحریک انصاف کے طور پر موجود ہے۔
فرسٹ پاسٹ دا پوسٹ نظام میں دو بڑی سیاسی جماعتیں کافی سٹیبل سسٹم ہے
 

شاہد شاہ

محفلین
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین

جان

محفلین
میرے خیال میں یہاں محمد احمد بھائی کی مراد انتخابی نظام کی بجائے انتخاب کرنے والی عوام سے ہے۔ 90 کی دہائی میں پاکستانی سیاست امریکہ کی طرح دو پارٹی نظام میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اگر مشرف ٹانگ نہ اڑاتا تو اگلے دس بیس سالوں میں اس کرپٹ سیاسی سسٹم نے مزیدمستحکم ہو جانا تھا۔ اب کم از کم ان دو کے علاوہ عوام کے پاس تیسرا انتخاب تحریک انصاف کے طور پر موجود ہے۔
اگر مشرف ٹانگ نہ اڑاتا تو جمہوری نظام بہت حد تک مستحکم ہو گیا ہوتا اور اگر بے نظیر زندہ ہوتی تو خان صاحب نے کبھی بھی منظر پہ نہیں آنا تھا۔ خان صاحب نے بے نظیر کی خلا کو پر کیا ہے اس میں خان صاحب کا ذاتی کردار صرف ایمپائر کی سیاست تک ہی محدود ہے۔ خان صاحب کا انجام وہی ہونا ہے جو بھٹو کا ہوا اور جو اب نواز شریف کا ہونے جا رہا ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
اگر مشرف ٹانگ نہ اڑاتا تو جمہوری نظام بہت حد تک مستحکم ہو گیا ہوتا اور اگر بے نظیر زندہ ہوتی تو خان صاحب نے کبھی بھی منظر پہ نہیں آنا تھا۔
میں آپکی بات کو یقینا سچ مان لیتا اگر 90 کی دہائی میں سیاست سیاست دانوں کے مابین رہتی۔ جبکہ تاریخ کچھ اور ہی کہتی ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے ہر قومی ادارے کو ایک دوسرے کیخلاف استعمال کیا۔اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ملکر جمہوری حکومتیں گرائیں، مخالف سیاست دانوں کو انتقام کی غرض سے جیلوں میں ڈالا، اپنے خلاف فیصلے آنے پرعدالتوں پر حملے کئے اور آئینی ترامیم کرکے امیر المومنین بننے کی کوششیں کی۔ اگر مشرف کچھ بھی نہ کرتا تب بھی اگلی دہائیوں میں یہی کچھ چلتے رہنا تھا۔ اسلئے جو بھی ہوا اچھے کیلئے ہوا۔
 
Top